مشاجرات صحابہ و اولادہ ٢

مزید

قَالَ: أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْکِلَابِیُّ، وَیَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِیُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَةِ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِی بُرْدَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى: کَتَبَ إِلَیَّ مُعَاوِیَةُ سَلَامٌ عَلَیْکَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ قَدْ بَایَعَنِی عَلَى الَّذِی قَدْ بَایَعَنِی عَلَیْهِ، وَأُقْسِمُ بِاللَّهِ: لَئِنْ بَایَعْتَنِی عَلَى مَا بَایَعَنِی عَلَیْهِ لَأَبْعَثَنَّ ابْنَیْکَ أَحَدَهُمَا عَلَى الْبَصْرَةِ وَالْآخَرُ عَلَى الْکُوفَةِ، وَلَا یُغْلَقُ دُونَکَ بَابٌ، وَلَا تُقْضَى دُونَکَ حَاجَةٌ، وَإِنِّی کُتَبْتَ إِلَیْکَ بِخَطِّ یَدِی، فَاکْتُبْ إِلَیَّ بِخَطِّ یَدِکَ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّ إِنَّمَا تَعَلَّمْتُ الْمُعْجَمَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم، قَالَ: وَکَتَبَ إِلَیْهِ مِثْلَ الْعَقَارِبِ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّکَ کَتَبْتَ إِلَیَّ فِی جَسِیمِ أَمْرِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلّى الله علیه وسلم، لَا حَاجَةَ لِی فِیمَا عَرَضَّتَ عَلَیَّ، قَالَ: فَلَمَّا وَلِیَ أَتَیْتُهُ، فَلَمْ یُغْلَقْ دُونِی بَابٌ، وَلَمْ تَکُنْ لِی حَاجَةٌ إِلَّا قُضِیَتْ
الطبقات الکبرى

جواب
أبي بردة بن أبي موسى الاشعري نے روایت کیا: ابو موسی (المتوفي ٤٤ ھ) نے کہا معاویہ نے مجھے لکھ بھیجا سلام علیک-(لکھا) عمرو بن العاص (المتوفی ٤٣ ھ ) نے بھی انہی باتوں پر بیعت کی ہے جن پر تم نے کی ہے اور الله کی قسم لی کہ اگر ان باتوں پر بیعت ہوئی تو تمہارے بیٹوں کی بھی ہوئی جو بصرہ میں اور کوفہ میں ہیں کہ اب نہ تو میں ان دونوں پر دروازہ بند کروں گا نہ ان کی حاجت پوری کروں گا- پھر معاویہ نے لکھا پس تم کو میں نے ہاتھ سے خط لکھا ہے لہذا تم بھی ہاتھ سے (ان کو خط) لکھو- پس (ابوموسی نے) کہا اے بیٹے تم نے لغت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیکھی ہے اور تم نے مثل بچھو لکھا ہے کہ تم نے ایک بہت بڑے امت محمد کے کام پر لکھا ہے جس کی حاجت نہیں کہ مجھ پر اس کو پیش کرو- کہا جب میں (أبي بردة بن أبي موسى الاشعري ) والی ہوا (معاویہ) آئے پس ہم نے دروازہ بند نہیں کیا اور (معاویہ نے ) کہا مجھ کو تیری حاجت نہیں سوائے اس کے کہ قاضی کا کام کرو

سير أعلام النبلاء میں الفاظ ہیں
قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: قَالَ: إِنِّي تَعَلَّمْتُ المُعْجَمَ بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَكَانَتْ كِتَابَتِي مِثْلَ العَقَارِبِ
أَبُو بُرْدَةَ: نے کہا ابو موسی نے کہا میں نے تم کو معجم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد سکھائی ہے – پس میری (یعنی أبي بردة بن أبي موسى الاشعري) تحریر (یا خط) مثل بچھو ہے

تاریخ دمشق میں بھی یہی الفاظ ہیں
أخبرنا أبو الحسن (5) علي بن احمد بن الحسن أنا محمد بن احمد بن محمد (6) بن علي أنا عيسى بن علي أنا عبد الله بن محمد نا شيبان (7) بن أبي شيبة نا سليمان بن المغيرة عن حميد بن هلال عن أبي بردة بن أبي موسى الاشعري قال قال أبي تعلمت المعجم بعد وفاة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فكان كتابي مثل العقارب

تاریخ دمشق کی دوسری روایت ہے
حدثني زيد بن الحباب نا سليمان (8) بن المغيرة البكري عن أبي بردة بن أبي موسى الأشعري عن أبيه عن معاوية كتب إليه سلام عليك أما بعد فإن عمرو بن العاص قد بايعني (9) على ما أريد واقسم بالله إن بايعتني (10) على الذي بايعني عليه لأسمتعملن ابنيك أحدهما على الكوفة والآخر على البصرة ولا يغلق دونك باب ولا تقضى دونك حاجة وقد كتبت إليك بخط يدي فاكبت الي بخط يدك قال فقال لي أبي (11) ابني إنما تعلمت المعجم بعد وفاة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) قال فكتب إليه كتابا مثل العقارب فكتب إليه سلام عليك أما بعد فإنك كتبت الي في جسيم أمر أمة محمد (صلى الله عليه وسلم) فماذا أقول لربي عز وجل إذا قدمت عليه ليس لي فيما عرضت من حاجة والسلام عليك

ابو بردہ نے کہا میرے باپ نے کہا کہ میں نے لغت تم کو بعد وفات النبی سکھائی ہے کہا پس میں نے ان کو ایک بچھو جیسا لکھ بھیجا انہوں نے خط لکھا اور کہا سلام علیک تم نے امت محمد کے ایک جسیم امر پر لکھا ہے تو اب میں اپنے رب کو کیا کہوں گا

معاویہ اور ابو موسی رضی الله عنہما میں بات ہوئی کہ ابو موسی کے بیٹے نے کوئی بات کی جو معاویہ کو پسند نہیں آئی اس کی بنا پر ابو موسی نے اپنے بیٹے کو اس تحریر پر جھاڑا جوابا أبي بردة بن أبي موسى الاشعري نے کچھ لکھا جس پر ابو موسی نے کہا کہ تمہاری تحریر بچھو جیسی ہے
معاویہ نے بعد میں أبي بردة بن أبي موسى الاشعري کو قاضی مقرر کر دیا

سند صحیح معلوم ہوتی ہے

  مسند احمد کی ایک حدیث ہے
حدثنا : ‏ ‏عبد الله بن محمد ‏ ‏وسمعته ‏ ‏أنا من ‏ ‏عبد الله بن محمد بن أبي شيبة ‏ ، حدثنا : ‏ ‏محمد بن فضيل ‏ ‏، عن ‏ ‏يزيد بن أبي زياد ‏ ‏، عن ‏ ‏سليمان بن عمرو بن الأحوص ‏، ‏قال : أخبرني ‏رب هذه الدار ‏ ‏أبو هلال ‏، ‏قال : أسمعت ‏ ‏أبا برزة ‏، ‏قال : ‏ ‏كنا مع رسول الله ‏ (ص) ‏ ‏في سفر فسمع ‏ ‏رجلين ‏ ‏يتغنيان وأحدهما يجيب الآخر وهو يقول : ‏
لا يزال ‏ ‏حواري ‏ ‏تلوح عظامه ‏ * ‏زوى ‏ ‏الحرب ‏ ‏عنه أن يجن فيقبرا ‏
‏فقال النبي ‏ (ص) ‏: ‏إنظروا من هما قال : فقالوا : فلان وفلان ، قال : فقال النبي ‏(ص) :‏ ‏اللهم ‏ ‏إركسهما ‏ركسا ‏ ‏ودعهما إلى النار دعا
جواب
مسند الإمام أحمد بن حنبلالمؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)المحقق: شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرونإشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركيالناشر: مؤسسة الرسالةالطبعة: الأولى، 1421 هـ – 2001 م
– حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ [ص:24] سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ قَالَ: أَخْبَرَنِي رَبُّ هَذِهِ الدَّارِ أَبُو هِلَالٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بَرْزَةَ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَسَمِعَ رَجُلَيْنِ يَتَغَنَّيَانِ وَأَحَدُهُمَا يُجِيبُ الْآخَرَ وَهُوَ يَقُولُ:[البحر الطويل]لَا يَزَالُ حَوَارِيٌّ تَلُوحُ عِظَامُهُ … زَوَى الْحَرْبَ عَنْهُ أَنْ يُجَنَّ فَيُقْبَرَافَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْظُرُوا مَنْ هُمَا؟» قَالَ: فَقَالُوا: فُلَانٌ وَفُلَانٌ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ ارْكُسْهُمَا رَكْسًا، وَدُعَّهُمَا إِلَى النَّارِ دَعًّا»
سند میں سُلَيْمان بن عَمْرو بن الأَحوص مجہول ہے جو خود ایک دوسرے مجہول أَبُو هِلَالٍ سے روایت کر رہا ہے

ابن جوزی نے اس کا ذکر موضوعات میں کیا ہے
الحَدِيث الثَّالِث فِي ذمه وذم عمر بْن الْعَاصِ: أَنْبَأَنَا أَبُو مَنْصُورِ بْنُ خَيْرُونٍ أَنْبَأَنَا الْجَوْهَرِيُّ عَنِ الدَّارَقُطْنِيِّ عَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْبُسْتِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى حَدَّثَنَا عَلِيُّ ابْن الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرو بْن الأَحْوَصِ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ: ” كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ صَوْتَ غِنَاءٍ فَقَالَ انْظُرُوا مَا هَذَا؟ فَصَعِدْتُ فَنَظَرْتُ فَإِذا مُعَاوِيَة وعمروبن الْعَاصِ يَتَغَنَّيَانِ فَجِئْتُ فَأَخْبَرْتُ نَبِيَّ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَرْكِسْهُمَا فِي الْفِتْنَةِ رَكْسًا، اللَّهُمَّ دُعَّهُمَا إِلَى النَّارِ دَعًّا “.هَذَا حَدِيث لَا يَصح.وَيزِيد بْن أَبِي زِيَاد كَانَ يلقن فِي آخر عمره فيلقن.قَالَ على: وَيَحْيَى لَا يحْتَج بحَديثه.وَقَالَ ابْن الْمُبَارَكِ: أرم بِهِ.وَقَالَ ابْن عَدِيّ: كُلّ رواياته لَا يُتَابع عَلَيْهَا.
اس کو غیر صحیح قرار دیا ہے——–
طبرانی میں سند الگ ہےحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَارُودِيُّ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، ثنا عِيسَى بْنُ سَوَادَةَ النَّخَعِيُّ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَ رَجُلَيْنِ وَهُمَا يَقُولَانِ:[البحر الطويل] ولَا يَزَالُ حَوَارِيٌّ تَلُوحُ عِظَامُهُ … زَوَى الْحَرْبُ عَنْهُ أَنْ يُجَنَّ فَيُقْبَرَافَسَأَلَ عَنْهُمَا، فَقِيلَ: مُعَاوِيَةُ وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، فَقَالَ: «اللهُمَّ أرْكِسْهُمَا فِي الْفِتْنَةِ رِكْسًا وَدُعَّهُمَا إِلَى النَّارِ دَعًّا»لیکن اس میں عيسى بن سوادة النخعي ہے جس کو ابن معین نے کذاب کہا ہے———-الکامل از ابن عدی میں ہےحَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ هَارُونَ بْنِ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنا عَبد اللَّهِ بْنُ عُمَر، حَدَّثَنا شُعَيب بن إبراهيم، حَدَّثَنا سَيْفٌ، حَدَّثني أَبُو عُمَر مَوْلَى إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمد بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيد اللَّهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ شَقْرَانَ قَال: كُنا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ فَسَمِعَ قَائِلا يَقُولُ.لا يَزَالُ حَوَارِيَّ تَلُوحُ عِظَامُهُ زَوَى الْحَرْبَ عَنْهُ ان يخن فَيُقْبَرَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ مَنْ هَذَا فَقُلْتُ هَذَا مُعَاوِيَةُ بْنُ التَّابُوتِ وَرِفَاعَةُ بْنُ عَمْرو بْنِ التَّابُوتِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ اللَّهُمَّ ارْكُسْهُمَا فِي الْفِتْنَةِ رَكْسًا وَدُعَّهُمَا إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا
اس میں شُعَيب بن إبراهيم کو ضعیف کہا گیا ہے————-بنیادی طور پر اسکی تین سندیں ہیں ایک میں عِيسَى بْنُ سَوَادَةَ النَّخَعِيُّ ہے دوسری میں يزيد بن أبي زياد ہے تیسری میں شُعَيب بن إبراهيم كوفي ہے
شیعوں کا پائنٹ یہ ہے کہ يزيد بن أبي زياد سے صحاح خمسہ میں ١٧٦ روایات موجود ہیں جن میں صحیح مسلم میں اس کی ایک شاہد روایت ہےبات صحیح ہے لیکن اپ کو معلوم ہے صحیح مسلم میں ضعیف راوی کی شاہد روایت بیان کی جاتی ہے یہ ایسا ہی ہے کہ رافضی کہے الله ایک ہے تو ہم یہ نہیں کہیں گے تو تو ہے ہی جھوٹا کیونکہ رافضی کی بات صحیح ہے اللہ ایک ہے لیکن جب وہ اپنے عقیدے کی بات کرے گا تو اس کو جھٹلا دیں گے
اس روایت کو الذہبی نے بھی سير أعلام النبلاء میں رد کیا ہے لکھا ہےهَذَا مِمَّا أُنْكِرَ عَلَى يَزِيْدَ.اس کی بنا پر يزيد بن أبي زياد کا انکار کیا جاتا ہے
دوسرے مقام پر اسی کتاب میں اس روایت کا ذکر کیا کہاوَهَذَا أَيْضاً مُنْكَرٌ.یہ منکر ہے
میزان الاعتدال میں بھی ذکر کیا اور کہاغريب منكر.یہ روایت غریب منکر ہے
المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين از ابن حبان میں بھی اس روایت کا ذکر کر کے یزید پر جرح کی گئی ہے

أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عن الزهري قال: كنت عند الوليد بن عبد الملك، فكأنه تناول عائشة، فقلت له: يا أمير المؤمنين!ألا أحدثك عن رجل من أهل الشام كان قد أوتي حكمة؟ قال: من هو؟قلت: هو أبو مسلم الخولاني، وسمع أهل الشام كأنهم يتناولون من عائشة، فقال: أخبركم بمثلكم ومثل أمكم هذه، كمثل عينين (1) في رأس تؤذيان صاحبهما، ولا يستطيع أن يعاقبهما إلا بالذي هو خير لهما، قال: فسكت.قال الزهري: أخبرنيه أبو إدريس عنه أبي مسلم الخولاني
المصنف عبد الرزاق
جواب
حدثني سَلَمَةُ ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فَكَأَنَّهُ تَنَاوَلَ مِنْ عَائِشَةَ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَلَا أُحَدِّثُكَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ كَانَ قَدْ أُرِيَ حِكْمَةً. قَالَ: من هو؟(118 ب) قُلْتُ أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ.
امام زہری نے کہا میں الولید بن عبد الملک کے پاس تھا پس انہوں نے گویا کہ عائشہ رضی الله عنہا پر جرح کی – میں نے کہا امیر المومنین کیا میں اس کی خبر دو اہل شام میں سے جس کو حکیم سمجھا جاتا ہو – الولید نے کہا کون؟ میں نے کہا ابو مسلم خولانی
دوسری میں ہےسَمِعَ أَهْلَ الشَّامِ يَنَالُونَ مِنْ عَائِشَةَ فَقَالَ: أَلا أُخْبِرُكُمْ بِمَثَلِي وَمَثَلِ أُمِّكُمْ هَذِهِ، كَمَثَلِ عَيْنَيْنِ فِي رَأْسٍ يُؤْذِيانِ صَاحِبَهُمَا، وَلا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُعَاقِبَهُمَا إِلا بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ لهما، فَسَكَتَمیں نے اہل شام کو سنا وہ عائشہ پر جرح کرتے میں زہری نے ان سے کہا میں نے کہا تم کو خبر دوں کہ تم اور تمہاری ماں ایسے ہی ہیں جسے دو آنکھیں سر میں ہوں اور اس کے صاحب کو تکلیف ہو اور وہ قدرت نہ رکھتا ہو کہ اس کو ختم کر سکے سوائے اس کے کہ جو خیر ان آنکھوں میں ہو وہ لے- پس الولید چپ ہوا
اغلبا ابو مسلم کا قول حکمت زہری نے الولید کو سنا کر سمجھایا کہ عائشہ رضی الله عنہا پر کلام کرنا بے کار ہے
راقم کہتا ہے اس میں عبد الرزاق شیعہ کا اختلاط کا معاملہ لگ رہا ہے – امام زہری کی یہ روایت کسی اور سند سے نہیں ہے

ترجمہ اور تحقیق چاہیے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَیْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَةَ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ، قَالَ: ” دَخَلَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَحُذَیْفَةُ عَلَى عُثْمَانَ، فَقَالَ عُثْمَانُ لِحُذَیْفَةَ: ” بَلَغَنِی أَنَّکَ قُلْت کَذَا وَکَذَا؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا قُلْتُهُ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: «مَا لَکَ فَلِمَ تَقُولُهُ مَا سَمِعْتُکَ تَقُولُ؟» قَالَ: «إِنِّی أَشْتَرِی دِینِی بَعْضَهُ بِبَعْضٍ مَخَافَةَ أَنْ یَذْهَبَ کُلُّهُ.
مصنف ابن ابی شیبة،ج6،ص474،ح33050 ط دار التاجحلیة الاولیاء لابی نعیم،ج1،ص279 ط دار التاجشرح صحیح البخاری لابن بطال،ج8،ص81 ط مکتبة الرشدشرح صحیح البخاری لابن بطال،ج8،ص309 ط مکتبة الرشدالتوضیح لشرح الجامع الصحیح،ج17،ص19 ط اوقاف قطرالتوضیح لشرح الجامع الصحیح،ج32،ص53 ط اوقاف قطرتهذیب الکمال للمزی،ج5،ص508و509 ط موسسة الرسالةاعلام الموقعین لابن القیم الجوزیة،ج5،ص119 ط دار ابن الجوزیتهذیب الآثار للطبری،مسند هلی بن ابی طالب،ص143 ط مطبعة المدنیالخصاف فی الحیل،ص2 ط بمصر فی القاهرة فی سنة 1314المخارج فی الحیل،ص10 ط مکتبة الثقافة الدینیة
جواب
النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ، نے کہا ابْنُ مَسْعُودٍ اور حُذَیْفَةُ عثمان کے پاس داخل ہوئے – پس عثمان نے حُذَیْفَةُ سے کہا مجھے پتا چلا ہے کہ تم نے ایسا ایسا کہا ؟ حُذَیْفَةُ نے کہا اللہ کی قسم میں نے ایسا نہیں کہا پس جب وہ نکلے ابن مسعود نے کہا تم نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا جو میں نے تم کو کہتے سنا تھا ؟ حُذَیْفَةُ نے کہا میں نے اپنے دین کے بعض کو بعض سے بیچ دیا اس خوف سے کہ سب چلا جائے گا
سند میں اعمش مدلس ہے  لہذا اسناد کو دیکھنا پڑے گا کہ کیا تحدیث ہے یا نہیں – اور کیا اس کا متن قابل قبول ہے بھی یا نہیں کیونکہ تدلیس کا احتمال رہتا ہے

فَحَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیهُ، وَعَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذٍ، قَالَا: ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا الْحُمَیْدِیُّ، ثنا سُفْیَانُ، ثنا أَبُو مُوسَى یَعْنِی إِسْرَائِیلَ بْنَ مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ: ” جَاءَ طَلْحَةُ وَالزُّبَیْرُ إِلَى الْبَصْرَةِ فَقَالَ لَهُمُ النَّاسُ: مَا جَاءَکُمْ؟ قَالُوا: نَطْلُبُ دَمَ عُثْمَانَ قَالَ الْحَسَنُ: أَیَا سُبْحَانَ اللَّهِ، أَفَمَا کَانَ لِلْقَوْمِ عُقُولٌ فَیَقُولُونَ: وَاللَّهِ مَا قَتَلَ عُثْمَانَ غَیْرُکُمْ؟ قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ عَلِیٌّ إِلَى الْکُوفَةِ، وَمَا کَانَ لِلْقَوْمِ عُقُولٌ فَیَقُولُونَ: أَیُّهَا الرَّجُلُ إِنَّا وَاللَّهِ مَا ضَمَنَّاکَ “.

المستدرک على الصحیحین
جواب

إِسْرَائِيلَ بْنَ مُوسَى نے کہا میں نے حسن بصری سے سنا کہ طلحہ اور زبیر بصرہ پہنچے لوگوں نے ان سے کہا کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا ہم عثمان کا خون کا قصاص طلب کرنے آئے ہیں – حسن بصری نے کہا سبحان الله کہ قوم میں عقل ہوتی پس (بصرہ کے ) لوگوں نے (طلحہ اور زبیر) کہا تمہارے سوا کون ہے جس نے عثمان کا قتل کیا ؟ حسن نے کہا جب علی کوفہ پہنچے اور قوم میں عقل نہیں تھی قوم نے (علی سے) کہا اے شخص الله کی قسم ہم تمہارے ساتھ نہیں

یعنی بصرہ والوں میں عقل کی کمی تھی پہلے طلحہ و زبیر پر قتل عثمان کا الزام دیا پھر علی پہنچے تو ان کا ساتھ دینے سے بھی انکار کر دیا

حسن بصری کا سماع کسی بدری صحابی سے نہیں لہذا یہ حسن کا تجزیہ و تاریخ ہے

صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَدَبِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ النَّمِيمَةِ) صحیح بخاری: کتاب: اخلاق کے بیان میں (باب: چغل خوری کی برائی کا بیان)
6056
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ حُذَيْفَةَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ رَجُلًا يَرْفَعُ الحَدِيثَ إِلَى عُثْمَانَ، فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ قَتَّاتٌ»
حکم : صحیح 6056
ہم سے ابو نعیم ( فضل بن دکین ) نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے منصور بن معمر نے ، ان سے ابراہیم نخعی نے ، ان سے ہمام بن حارث نے بیان کیا کہ ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے ، ان سے کہا گیا کہ ایک شخص ایسا ہے جو یہاں کی باتیں حضرت عثمان سے جا لگا تا ہے ۔ اس پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے بتلایا کہ جنت میں چغل خور نہیں جائے گا ۔
جواب
دو لوگ ہیں اس میں کس کا کام حرام ہے ؟
اول ایک سیکورٹی یا انٹیلی جنس کا آدمی ہے جو حکومت کو خبر کرتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے – کیا یہ کام اس حدیث کے مطابق حرام ہے ؟دوسرا ایک آدمی ہے جو بات کا بتنگڑ بنا کر کچھ سے کچھ کرتا ہے
اپ کے خیال سے اس میں کس کا ذکر ہے ؟ اول کا یا دوم کا؟ عربی میں قتات سے مراد وہ ہے جو فساد کرانے کے لئے بات ادھر کی ادھر کرتا ہوغريب الحديث از أبو عبيد القاسم بن سلام الهروي میں ہےوقال “الأصمعي” في الذي ينمي الأحاديث هو مثل القتات إذا كان يبلغ هذا عن هذا على وجه الإفساد والنميمةالأصمعي نے کہا جو باتیں غلط بیانی کر کے کرے وہ قتات ہے جو یہ اور وہ فساد و غلط بیانی کے لئے کرے

وَحَدَّثَنِی إِسْحَاقُ وَبَکْرُ بْنُ الْهَیْثَمِ قَالا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِیهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَطْلُعُ عَلَیْکُمْ مِنْ هَذَا الْفَجِّ رَجُلٌ یَمُوتُ عَلَى غَیْرِ مِلَّتِی، قَالَ : وَکُنْتُ تَرَکْتُ أَبِی قَدْ وُضِعَ لَهُ وَضُوءٌ، فَکُنْتُ کَحَابِسِ الْبَوْلِ مَخَافَةَ أَنْ یَجِیءَ، قَالَ: فَطَلَعَ مُعَاوِیَةُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ هَذَا.
انساب الاشراف للبلاذری
حدثنا محمَّد بن إسحاق بن راهُوْیَه، ثنا أبی، أنا عبد الرزَّاق، أبنا مَعْمَر، عن ابن طاوسَ، عن أبیه، عن عبد الله بن عَمرو، قال: قال رسولُ الله صلى الله علیه وسلم: یَطَّلِعُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ مِنْ هَذَا الفَجِّ مِنْ أَهْلِ النَّارِ ، وکنتُ ترکتُ أبی یتوضَّأ، فخَشیتُ أن یکونَ هو، فاطَّلَع رجلٌ غیرُهُ، فقال رسولُ الله صلى الله علیه وسلم: هُو هَذَا.
المجم الکبیر للطبرانی
حدثنا محمَّد بن إسحاقَ بن راهُوْیَه، ثنا أبی، أبنا عبد الرزَّاق، أبنا مَعْمَر، عن ابن طاوسَ، عن أبیه، قال: سمعتُ رجلاً یحدثُ ابنَ عباس، عن عبد الله بن عَمرو، قال: قال رسولُ الله صلى الله علیه وسلم: لَیَطْلُع عَلَیْکُمْ رَجُلٌ یُبْعَثُ یَوْمَ القِیَامَةِ عَلَى غَیْرِ سُنَّتِی ، أَوْ «غَیْرِ مِلَّتِی» ، وکنتُ ترکتُ أبی فی المنزل، فخِفْتُ أن یکونَ هو، فطَلَعَ غیرُه فقال: هُو هَذَا.
المعجم الکبیر للطبرانی اوپر سند تقریباً ایک جیسی ہے لیکن الفاظ کا فرق ہے – کیا ان تینوں احادیث میں ایک ہی بات ہو رہی ہے یا الگ الگ
تاریخ اصبهان میں بھی نام کو فلاں سے بدلا گیا
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَرَوَاءَانِیُّ، ثنا أَبَانُ بْنُ شِهَابٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ، ثنا جَرِیرٌ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «یَطْلُعُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ مِنْ یَثْرِبَ عَلَى غَیْرِ مِلَّتِی» ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ أَبِی، وَکُنْتُ تَرَکْتُهُ یَتَهَیَّأُ، فَاطَّلَعَ فُلَانٌ.
تاریخ اصبهان
اور الشریعة للآجری میں بھی ذکر اس طرح ہے
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِیَةَ قَالَ: حَدَّثَنِی أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِیمَ الدَّوْرَقِیُّ , وَالْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَزِیدَ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ بَحْرٍ الْقُرَشِیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِینَارٍ , عَنْ أَبِیهِ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَطْلُعُ عَلَیْکُمْ مِنْ هَذَا الْبَابِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ» . فَطَلَعَ مُعَاوِیَةُ ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ مِثْلَ ذَلِکَ , ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ مِثْلَ ذَلِکَ , فَطَلَعَ مُعَاوِیَةُ. فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ هُوَ ذَا.
الشریعة للآجری
ابن عساکر نے یہ یہ لکھا ہے
أخبرناه أبو بکر محمد بن محمد أنا أبو بکر محمد بن علی أنا أحمد بن عبد الله أنا أحمد بن أبی طالب حدثنی محمد بن مروان بن عمر نا الحسن بن إسحاق بن یزید العطار نا نوح بن یزید المعلم نا عبد الرحمن بن عبد الله بن دینار عن أبیه عن ابن عمر قال کنت عند النبی (صلى الله علیه وسلم) فقال یطلع علیکم رجل من أهل الجنة فطلع معاویة ثم قال الغد مثل ذلک فطلع معاویة فقمت إلیه فأقبلت بوجهه إلى رسول الله (صلى الله علیه وسلم) فقلت یا رسول الله هو هذا قال نعم یا معاویة أنت منی وأنا منک لتزاحمنی على باب الجنة کهاتین وقال بأصبعیه السبابة والوسطی یحرکهما.
تاریخ مدینة دمشق لابن عساکر

ابو شہر یار بھائی ان سب عبارت میں اصل ذکر کیا ہے – پلیز وضاحت کر دیں
جواب
کتاب الشريعة اور تاریخ مدینة دمشق لابن عساکر دونوں کی روایت کی سند میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ الْعُمَرِيُّ الْمَدَنِيُّ ہےقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: فِيهِ لِينٌ.وَقَالَ ابْنُ مَعِينٍ: حَدَّثَ عَنْهُ يَحْيَى بْنُ سعيد، وفي حَدِيثِهِ عِنْدِي ضَعْفٌ.اس کی حدیث ضعیف سمجھی گئی ہے
==========دوسری طرف مندرجہ ذیل تینوں روایات میں ایک ہو بات ہو رہی ہے زیادہ فرق نہیں ہے
وَحَدَّثَنِی إِسْحَاقُ وَبَکْرُ بْنُ الْهَیْثَمِ قَالا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِیهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَطْلُعُ عَلَیْکُمْ مِنْ هَذَا الْفَجِّ رَجُلٌ یَمُوتُ عَلَى غَیْرِ مِلَّتِی، قَالَ : وَکُنْتُ تَرَکْتُ أَبِی قَدْ وُضِعَ لَهُ وَضُوءٌ، فَکُنْتُ کَحَابِسِ الْبَوْلِ مَخَافَةَ أَنْ یَجِیءَ، قَالَ: فَطَلَعَ مُعَاوِیَةُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ هَذَا.
انساب الاشراف للبلاذری
—حدثنا محمَّد بن إسحاق بن راهُوْیَه، ثنا أبی، أنا عبد الرزَّاق، أبنا مَعْمَر، عن ابن طاوسَ، عن أبیه، عن عبد الله بن عَمرو، قال: قال رسولُ الله صلى الله علیه وسلم: یَطَّلِعُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ مِنْ هَذَا الفَجِّ مِنْ أَهْلِ النَّارِ ، وکنتُ ترکتُ أبی یتوضَّأ، فخَشیتُ أن یکونَ هو، فاطَّلَع رجلٌ غیرُهُ، فقال رسولُ الله صلى الله علیه وسلم: هُو هَذَا.
المجم الکبیر للطبرانی
—-
حدثنا محمَّد بن إسحاقَ بن راهُوْیَه، ثنا أبی، أبنا عبد الرزَّاق، أبنا مَعْمَر، عن ابن طاوسَ، عن أبیه، قال: سمعتُ رجلاً یحدثُ ابنَ عباس، عن عبد الله بن عَمرو، قال: قال رسولُ الله صلى الله علیه وسلم: لَیَطْلُع عَلَیْکُمْ رَجُلٌ یُبْعَثُ یَوْمَ القِیَامَةِ عَلَى غَیْرِ سُنَّتِی ، أَوْ «غَیْرِ مِلَّتِی» ، وکنتُ ترکتُ أبی فی المنزل، فخِفْتُ أن یکونَ هو، فطَلَعَ غیرُه فقال: هُو هَذَا.
ان تین کی سند میں طاوس بن كيسان اليماني نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہےمیرے نزدیک طاوس بن كيسان اليماني کا سماع عبد الله بن عمرو سے نہیں ہے

وقال قتیبة ثنا جریر الحافظ المقدم لکنی سمعته یشتم معاویة علانیة

تهذیب التهذیب

جواب

وقال قتيبة: ثنا جرير الحافظ المقدم، لكني سمعته يشتم معاوية علانية، وعمر حتى أدرك الخلق
قتيبة نے کہا جرير بن عبد الحميد بن جرير الضبي نے ہم سے روایت بیان کیں لیکن میں نے سنا معاویہ پر اعلانیہ گالی دیتے اور ان کی عمر ہوئی کہ خلق دیکھی

أبو يعلى الخليلي، خليل بن عبد الله بن أحمد بن إبراهيم بن الخليل القزويني (المتوفى: 446هـ) اپنی کتاب الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي میں لکھتے ہیں کہ

جرير بن عبد الحميد الضبي يعد في أهل الكوفة والري ثقة متفق عليه مخرج في الصحيحين كان يقال من فاته شعبة والثوري يستدرك بجرير سمع منصور بن المعتمر ومغيرة بن مقسم والأعمش وينزل إلى مسعر وسفيان وعمر حتى أدركه الخلق دخل قزوين وروى بها . وقال قتيبة : حدثنا جرير الحافظ المقدم لكني سمعته يشتم معاوية علانية ومات سنة ثمان وثمانين ومائة وآخر من روى عنه من الثقات يوسف بن موسى القطان الرازي وأخرج البخاري يوسف في الصحيح

محدثین نے ان کا شمار المختلطين میں کیا ہے – معاویہ رضی الله عنہ کو گالی دینا بھی اس کی وجہ ہو گا

جرير بن عبد الحميد کی روایت کردہ یہ روایت فضائل معاویہ میں پیش کی جاتی ہے
حدثنا أبو منصور، حدثنا أبو القاسم، حدثنا إسحاق قال: حدثني سعيد بن المفضل، حدثنا عبد الله ابن هاشم عن علي بن عبد الله عن جرير بن عبد الحميد عن مغيرة قال لما جاء قتل علي إلى معاوية جعل يبكي ويسترجع فقالت له امرأته تبكي عليه وقد كنت تقاتله فقال لها ويحك إنك لا تدرين ما فقد الناس من الفضل والفقه والعلم.
جرير بن عبد الحميد نے کہا مغیرہ نے کہا جب علی کے قتل کی خبر معاویہ کو پہنچی تو وہ رونے لگے ان کی بیوی نے کہا اپ رو رہے ہیں جبکہ اپ تو ان سے قتال کرتے تھے پس معاویہ نے کہا افسوس کہ تم کو معلوم نہیں کہ فضل و فقہ و علم میں کیا کھو گیا

 امام ذھبی اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء جلد ٣ صفحہ ٥٩ پرعمرو بن العاص رضی الله کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
والله یغفر له ویعفو عنه، ولولا حبه للدنیا، ودخوله فی أمور، لصلح للخلافة
سیر أعلام النبلاء جلد ٣ صفحہ ٥٩
جواب الذھبی نے کہاعمرو بن العاص کو اگر دنیا کی محبت نہ ہوتی اور انہوں نے اس محبت کو اپنے کاموں میں شامل نہ کیا ہوتا تو خلافت کی اصلاح ہوتی
راقم کہتا ہے یہ الذھبی کی جہالت ہے