فضائل ٣

تحقیق چاہیے

امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ اپنی مسند میں اور امام طبرانی نے معجم الکبیر میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ معاویہ کو کتاب (قرآن) اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا.

》مسند امام احمد بن حنبل، جلد ٢٧، رقم ١٧١٥٢.
》امام طبرانی، معجم الکبیر، جلد ١٨، رقم ٦٢٨.

جواب

صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں ہے
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ وَعَبْد اللَّه بْنُ هَاشِمٍ، قَالُوا: نَا عَبْد الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، ثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ سَيْفٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه – صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَدْعُو رَجُلا إِلَى السَّحُورِ، فَقَالَ: “هَلُمَّ إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ”.
وَقَالَ الدَّوْرَقِيُّ وَعَبْد اللَّه بْنُ هَاشِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه – صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَهُوَ يَدْعُو إِلَى السَّحُورِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَقَالَ: “هَلُمَّ إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ”. وَزَادَا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: “اللَّهمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْكِتَابَ وَالْحِسَابَ، وَقِهِ الْعَذَابَ”.
وَقَالَ عَبْد اللَّه بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، وَقَالَ: “هَلُمَّ إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ”.

میزان میں الذھبی نے لکھا ہے
الحارث بن زياد [د، س] عن أبي رهم السمعي (2) في فضل معاوية. مجهول، وعنه يوسف بن سيف فقط.
اس کی سند میں الحارث بن زياد مجہول ہے
——-
مغلطاي نے الإكمال (3/290) میں الذهبي کے الميزان اور المغني میں اس راوی کو مجهول کہنے پر جرح کی ہے اور کہا إن ذلك قولٌ لم يُسبق إليه. ایسا کسی نے اس سے قبل نہیں کہا
أبوالحسن القطان: حديثه حسن اس کی حدیث حسن ہے
البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے

ایک حدیث جس سے پنجتن پاک کا عقیدہ نکالا جاتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر کے نیچے فاطمہ حسن حسین علی رضی اللہ عنھما کو لے لیتے ہیں شیعہ کی کس بک میں یہ عقیدہ لکھا ہے وضاحت کر دیجیے جزاک اللہ۔

جواب

⇓ حدیث کساء کی ایک روایت ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/فضائل/

⇑ حدیث کساء پر سوال ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/فضائل/

⇓ اہل بیت، حقوق اور ان کی ذمہ داریاں
https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/

اس میں اس روایت کو رد کیا گیا ہے

شیعوں کی ہر کتاب میں یہ عقیدہ لکھا ہے

جواب

یہ نام اغلبا کسی حدیث میں نہیں – یہ نام مورخین نے رکھا ہے

العيني نے “عمدة القاري” (8/ 180) میں لکھا ہے : ” توفّي أبو طَالب هُوَ وَخَدِيجَة فِي أَيَّام ثَلَاثَة ، قَالَ صاعد فِي (كتاب الفصُوص) : فَكَانَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يُسَمِّي ذَلِك الْعَام عَام الْحزن ” انتهى.
صاعد بن الحسن بن عيسى الربعي البغدادي اللغوي نے کتاب الفصوص میں لکھا ہے اس سال کا نام رسول الله نے غم کا سال رکھا

ابن بشكوال نے کتاب “الصلة” (ص233) میں صاعد بن الحسن بن عيسى الربعي البغدادي اللغوي پر لکھا: ” كان صاعد هذا يتهم بالكذب وقلة الصدق فيما يورده عفى الله عنه ” انتهى
صاعد بن الحسن بن عيسى الربعي البغدادي اللغوي یہ کذب سے متہم ہے

وہابی عالم المنجد کی ویب سائٹ پر یہ تفصیل ہے
https://islamqa.info/ar/221486

*مستدرک حاکم میں ہے کہ حضرت ہشام بن عاص اموی فرماتے ہیں کہ میں اور ایک صاحب روم کے بادشاہ ہرقل کو دعوت اسلام دینے کے لیے روانہ ہوئے غوطہ دمشق پہنچ کر ہم جبلہ بن ایہم غسانی کے گھر گئے اس نے اپنا قاصد بھیجا کہ ہم سے باتیں کر لیں ۔*
*ہم نے کہا واللہ ہم تم سے کوئی بات نہیں کریں گے ہم بادشاہ کے پاس بھیجے گئے ہیں اگر وہ چاہیں تو ہم سے خود سنیں اور خود جواب دیں ورنہ ہم قاصدوں سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے قاصدوں نے یہ خبر بادشاہ کو پہنچائی اس نے اجازت دی اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا چنانچہ میں نے اس سے باتیں کیں اور اسلام کی دعوت دی وہ اس وقت سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا کہنے لگا کہ دیکھ میں نے یہ لباس پہن رکھا ہے اور حلف اٹھایا ہے کہ جب تک تم لوگوں کو شام سے نکال نہ دوں گا تب تک اس سیاہ لباس کو نہیں اتاروں گا قاصد اسلام نے یہ سن کر کہا بادشاہ ہوش سنبھالو اللہ کی قسم یہ آپ کے تخت کی جگہ اور آپ بڑے بادشاہ کا پایہ تخت بھی ان شاءاللہ ہم اپنے قبضے میں کر لیں گے۔*
*یہ کوئی ہماری ہوس نہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ پختہ خبر مل چکی ہے اس نے کہا تم وہ لوگ نہیں ہاں ہم سے جو ہم سے ہمارا تخت و تاج چھینے گی وہ قوم جو دنوں کو روزے سے رہتے ہیں اور رات کو تہجد پڑھتے ہیں ۔*
*اچھا تم بتاو تمہارے روزے کے احکامات کیا ہیں؟ ؟؟اب جو ہم نے بتائے تو اس کا منہ کالا ہو گیا اس نے اسی وقت ہمارے ساتھ اپنا ایک آدمی کر دیا اور کہا انہیں شاہ روم کے پاس لے جاو۔*
*جب ہم ان کے ساتھ پائے تخت کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا کہ تم اس حال میں تو اس شہر میں نہیں جا سکتے اگر تم کہو تو میں تمہارے لئے عمدہ سواریاں لا دوں ان پر سوار ہو کر تم شہر میں جانا ہم نے کہا یہ نا ممکن ہے ہم تو اسی حالت میں انہی سواریوں پر چلیں گے انہوں نے بادشاہ سے کہلوا بھیجا وہاں سے اجازت آئی کہ انہیں اونٹوں پر ہی لے آو ہم اونٹوں پر سوار گلے میں تلواریں لٹکائے شاہی محل جا پہنچے وہاں ہم نے اپنی سواریاں بٹھائیں بادشاہ دریچے میں سے ہمیں دیکھ رہا تھا ہمارے منہ سے بے ساختہ نکل گیا((لا الہ الا اللہ واللہ اکبر)))کا نعرہ نکل گیا ۔*
*اللہ جانتا ہے کہ اسی وقت بادشاہ کا محل تھرا اٹھا اس طرح جس طرح کسی خوشے کو ہوا کا تیز جھونکا ہلا رہا ہو اسی وقت محل سے ایک قاصد دوڑتا ہوا آیا اور کہا آپ کو یہ نہیں چاہئے تھا کہ اپنے دین کا اس طرح ہمارے سامنے اعلان کرو چلو تمہیں بادشاہ سلامت یاد فرما رہے ہیں چنانچہ ہم اس کے ساتھ دربار میں گئے دیکھا کہ اس کے چاروں طرف سرخ مخمل اور سرخ ریشم ہے خود بھی خود بھی سرخ لباس پہنے ہوئے تھا تمام درباریوں اور پادریوں اور ارکان سلطنت سے بھرا ہوا ہے ۔*
*جب ہم پاس پہنچ گئے تو مسکرا کر بولا جو سلام تم میں آپس میں مروج ہے تم نے وہ مجھے سلام کیوں نہ کیا؟ ؟ترجمان کی معرفت ہمیں بادشاہ کا یہ سوال پہنچا تو ہم نے جواب دیا کہ جو سلام ہم میں ہے تم اس سلام کے لائق نہیں ہو اور جو آداب کا دستور تم میں ہے وہ ہمیں پسند نہیں ۔*
*اس نے کہا اچھا تمہارا سلام آپس میں کیا ہے؟ ؟؟ہم نے کہا اسلام و علیکم اس نے کہا اپنے بادشاہ کو تم کس طرح سلام کرتے ہو؟ ہم نے کہا صرف ان ہی الفاظ اے ۔*
*پوچھا اچھا وہ بھی تمہیں کوئی جواب دیتے ہیں ہم نے کہا یہی الفاظ وہ کہتے ہیں۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں سب سے بڑا کلمہ کونسا ہے؟ ہم نے کہا((لا الہ الا اللہ واللہ اکبر)))*
*اللہ عز وجل کی قسم ہم نے یہ کلمہ کہا پھر سے محل میں زلزلہ آ گیا یہاں تک کہ سارا دربار چھت کی طرف نظریں کر کے سہم گیا ۔*
*بادشاہ سہم گیا اور پوچھا کیوں جی تمہارے گھروں میں بھی اس کا اس طرح ذکر کرنے اسی طرح زلزلے آتے ہیں؟ ؟ہم نے کہا کبھی نہیں ہم نے تو یہ بات یہاں آپ کے ہاں ہی دیکھی ہے بادشاہ کہنے لگا کہ کاش کہ تم جب بھی اس کلمے کو کہتے تو تمام چیزیں اسی طرح ہل جاتیں اور میرا آدھا ملک ہی رہ جاتا ہم نے پوچھا یہ کیوں؟؟؟اس نے کہا اس لئے کہ آسان تھا بہ نسبت اس کی کہ یہ امر نبوت ہو۔*
*پھر اس نے ہمارا ارادہ دریافت کیا ہم نے صاف بتایا اس نے کہا اچھا یہ بتاو کہ تم نماز کس طرح پڑھتے ہو اور روزہ کس طرح رکھتے ہو؟؟؟؟؟*

*ہم نے دونوں باتیں بتا دیں اس نے اب ہمیں رخصت کیا اور بڑے اکرام و احترام سے ہمیں شاہی معزز مہمانوں میں رکھا ۔*
*تین دن جب گزرے تو رات کے وقت ہمیں قاصد بلانے آیا ہم پھر سے دربار میں گئے تو اس نے ہم سے پھر ہمارا مطلب پوچھا ہم نے اسے دوہرایا پھر اس نے ایک حویلی کی شکل کی سونا مڑھی ہوئی ایک چیز منگوائی جس میں بہت سارے مکانات تھے اور ان کے دروازے تھے اس نے اسے کنجی سے کھول کر ایک سیاہ رنگ کا ریشمی جامہ نکالا ہم نے دیکھا اس میں ایک شخص ہے جس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں بڑی رانیں ہیں ۔*
*بڑی لمبی اور گھنی داڑھی ہے سر کے بال دو حصوں میں نہایت خوبصورت لمبے لمبے ہیں اس نے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ؟؟ہم نے کہا نہیں!!*
*کہا یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں ان کے جسم پر بال بہت زیادہ تھے پھر دوسرا دروازہ کھولا اور اس میں سے سیاہ رنگ کا پارچہ نکالا جس میں ایک سفید صورت تھی جس کے بال گھنگریالے تھے سرخ رنگ آنکھیں تھیں بڑے کلے کے ادمی تھے اور بڑی وضع داڑھی تھی اس نے ہم سے پوچھا جانتے ہو یہ کون ہے؟ ؟؟*
*ہم نے انکار کردیا تو کہا نوح علیہ السلام ہیں پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ ریشمی کپڑا نکالا اس میں ایک شخص تھا نہایت ہی گورا چٹا رنگ بہت خوبصورت آنکھیں کشادہ پیشانی لمبے رخسار سفید داڑھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مسکرا رہے ہیں اس نے پوچھا انہیں پہچانا؟ ہم نے انکار کردیا تو کہا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں پھر ایک دروازہ کھولا اس میں سے ایک خوبصورت سفید شکل دکھائی دی جو ہو بہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی تھی ہم سے پوچھا اسے پہنچانتے ہو؟ ؟ہم نے کہا یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ہمارے آنسو نکل آئے ۔*
*بادشاہ اب تک کھڑا ہوا تھا اب بیٹھ گیا اور ہم سے دوبارہ یہی پوچھا کہ یہی شکل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ہم نے کہا واللہ یہی ہے اسی طرح کہ گویا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دیکھ رہا ہے ۔*
*پس وہ تھوڑی دیر تک غور کرتا رہا پھر کہنے لگا کہ یہ آخری گھر تھا لیکن میں نے پہلے کھول دیا باقی گھروں کو چھوڑ کر تا کہ تمہیں ازما لوں کہ تم پہچان جاتے ہو یا نہیں ۔*
*بال گھنگریالے آنکھیں گہری نظر تیز تیور تیکھے دانت پر دانت ہونٹ موٹے ہو رہے تھے جیسے کہ غصے سے بھرے ہوئے ہیں شور ہیں اس نے ہم سے پوچھا انہیں پہچانا؟ ؟؟؟ہمارے انکار کرنے پر کہا یہ ہارون علیہ السلام ہیں ۔*
*پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکالا جس میں گندم گوں رنگ میانہ قد سیدھے بالوں والا آیک شخص تھا وہ غضبناک ہے اس نے پوچھا انہیں پہچانا ہم نے کہا نہیں ۔کہا یہ لوط علیہ السلام ہیں پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکالا اور دکھا یا جس میں سنہرے رنگ کے آدمی تھے جن کا قد طویل نہ تھا رخسار ہلکے تھے چہرہ خوبصورت تھا اس نے ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ؟ہم نے کہا نہیں ۔*
*کہا یہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں ۔پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشمی کپڑا نکال کر ہمیں دکھایا اس میں جو صورت تھی وہ پہلی شکل کے بالکل مشابہ تھی

جواب

کنز العمال میں ہے

قال ابن كثير: هذا حديث جيد الإسناد ورجاله ثقات.
ابن کثیر نے کی سند کو جید اور رجال کو ثقہ کہا ہے

—-
“مسند الصديق” عن شرحبيل بن مسلم عن أبي أمامة الباهلي عن هشام بن العاص الأموي قال: بعثت أنا ورجل آخر إلى هرقل صاحب الروم ندعوه إلى الإسلام فخرجنا حتى قدمنا الغوطة يعني دمشق،
ابو بکر نے ایک سفیر ہرقل کے پاس اسلام کے لئے بھیجا

دلائل النبوه بیہقی میں اس کی سند مل گئی ہے
وَفِي كِتَابِي عَنْ شَيْخِنَا أَبِي عَبْدِ اللهِ الْحَافِظِ، وَهُوَ فِيمَا أَنْبَأَنِي بِهِ إِجَازَةً: أَنَّ أَبَا مُحَمَّدٍ، عَبْدَ اللهِ بْنَ إِسْحَاقَ الْبَغَوِيَّ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ
الْبَلَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ الْعَاصِ الْأُمَوِيِّ، قَالَ: بُعِثْتُ أَنَا وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى هِرَقْلَ صَاحِبِ الرُّومِ نَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا الْغُوطَةَ يَعْنِي دِمَشْقَ فَنَزَلْنَا عَلَى جَبَلَةَ بْنِ الْأَيْهَمِ الْغَسَّانِيِّ،

اس کی سند میں شرحبيل بن مسلم الخولاني ہے جس کو امام ابن معین نے ضعیف کہا ہے
احمد نے ثقہ کہا ہے
اسی بنا پر ابن کثیر نے اس سند کو جید کہا ہے

جید کا درجہ حسن حدیث کا سا ہوتا ہے جو صحیح کے درجہ پر نہ ہو لیکن ان کے راوی کو ممکن ہے ضعیف کہا گیا ہو اور سند میں مجہول ہو
یعنی وہ ضعیف راوی کی وہ روایت جس کا متن اچھا ہو وہ جید ہے اور فقہ میں اس سے دلیل لی تو حسن ہے
———
اس قصے کے مطابق اہل کتاب کے پاس کوئی کتاب تھی جس میں انبیاء کی تصویریں تھیں
قول نبوی کے مطابق انبیاء کی صورت گری کرنے والوں پر الله کی لعنت ہے لیکن یہ ابو بکر کے سفیر تصویریں دیکھ دیکھ کر خوشی و حیرت کا شکر ہو رہے تھے یہاں تک کہ اس میں رسول الله کی تصویر بھی تھی
اب جھوٹ یہ ہے
وَكَانَ فِي خِزَانَةِ آدَمَ، عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَاسْتَخْرَجَهَا ذُو الْقَرْنَيْنِ مِنْ مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَدَفَعَهَا إِلَى دَانْيَالَ. ثُمَّ
یہ تمام آدم کا خزانہ تھا جو مغرب میں تھا اس کو ذو القرنین نے نکالا اور یہ دانیال کو ملا

یہ سب جھوٹ ہے چاہے اس کو ثقات روایت کریں
آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت کا کوئی خزانہ نہ اترا – جنت ابدی ہے اور اس کی چیزیں لا فانی ہیں
دانیال میرے نزدیک ایک فرضی کردار ہے نہ یہ نبی ہے نہ رسول بلکہ یہ یہودیوں کا کوئی صوفی تھا
خود یہود اس کو نبی و رسول نہیں مانتے بلکہ اس کو رسول کا درجہ نصرانیوں نے دیا ہے کیونکہ اس کی کتاب میں آسمان پر دوسرے ایک رب کا ذکر ہے
اس طرح اس کتاب سے الله تعالی کے علاوہ آسمان پر ایک اور الوہی مخلوق کی دلیل ملتی ہے جس کو
بر آینعش
کہا گیا ہے

جواب

جواب

جواب

جواب