فضائل ٢

جواب

هبيرة بْن يريم. پر سخت جرح ہے
قَالَ السعدي هبيرة بْن يريم كَانَ مختاريا
یہ مختار ثقفی کذاب کا ساتھی تھا

مختار ثقفی کذاب کا کہنا تھا کہ اس کے اوپر جبریل اتے ہیں اور اس روایت میں یہ علی کے لئے بیان کیا گیا ہے
جبکہ فرشتے صرف جنگ بدر و احد میں اترے ہیں
===========
دوسری سند میں عمرو بن حبشي نے اضافی الفاظ بیان کیے ہیں
اس نے نہ پیلا چھوڑا نہ سفید سوائے سات سو درہم کے جو عطا کیے اپنے گھر والوں کے خادموں کو

——
قال المزي: زعم ابن حبان أن عمرو بن حبشي الزبيدي، وعمرو بن حريش الزبيدي واح
ابن حبان کے نزدیک عمرو بن حبشی اور عمرو بن حريش الزبيدي ایک ہیں اور یہ مجهول. ہے
عمرو بن حبشى الزبيدى الكوفى بھی مجہول ہے

یہ دیکھیں یہ اپ کے لئے مثال ہے جس راوی کو متقدمین مجہول قرار دے گئے ہیں – علی کی محبت میں
البانی
زبیر علی زئی
شعیب ارنوط
محمد عوَّامة
الدكتور علي الصلابي
شاکر

وغیرہ
اس کو حسن قرار دینا چاہ رہے ہیں

جو راوی مجہول الحال ہو اس کی روایت حسن کیسے ہوتی ہے؟ روایت میں غلو کس قدر ہے علی جیسا علم ان سے پہلے کسی کے پاس نہ تھا جبکہ انبیاء کا درجہ علی سے بلند ہے وہ علی سے بڑھ کر علم والے تھے

کتاب  أوسط الطبراني میں اس کی ایک سند ہے

حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ: نا سُكَينُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: نا حَفْصُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عَلِيٌّ قَامَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، وَاللَّهِ لَقَدْ قَتَلْتُمُ اللَّيْلَةَ رَجُلًا فِي لَيْلَةٍ نَزَلَ فِيهَا الْقُرْآنُ، وَفِيهَا قُتِلَ يُوشَعُ بْنُ نُونَ فَتَى مُوسَى، وَفِيهَا رُفِعَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، مَا سَبَقَهُ أَحَدٌ مِنْ قَبْلِهِ، وَلَا لَحِقَهُ أَحَدٌ كَانَ بَعْدَهُ، وَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَبْعَثُهُ فِي السَّرِيَّةِ، جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ، وَاللَّهِ مَا تَرَكَ صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ، إِلَّا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ، أَوْ ثَمَانَ مِائَةِ دِرْهَمٍ، أَرْصَدَهَا لِخَادِمٍ يَشْتَرِيَهَا» [ص:225] لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَفْصِ بْنِ خَالِدٍ إِلَّا سُكَيْنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، تَفَرَّدَ بِهِ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ ”

سند میں حَفص بْن خَالِد بْن جَابِر مجہول ہے

البتہ البانی نے ادھر ادھر کی باتیں کی ہیں پھر جرح کی ہے اور اس روایت کو الصحیحیہ میں بھی رہنے دیا جو عجیب بات ہے

جواب

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ شبِ معراج جبریل میرے ساتھ تھے۔ سدرۃ المنتہٰی کا مقام آیا تو جبریل وہاں رک گئے، حضورؐ فرماتے ہیں میں نے جبریلؑ سے کہا کہ کیا ایسے مقام میں دوست دوست کو چھوڑ دیتا ہے، یہاں کیوں رک گئے؟ جبریلؑ نے عرض کیا حضورؐ! اس مقام سے میں اگر ذرہ بھر بھی بڑھا تو تجلیات کے نور سے میں جل جاؤںگا۔ اب آگے جانا آپ ہی کی شان ہے۔ حضورؐ نے فرمایا۔ اچھا اے جبریلؑ ہم تنہا ہی آگے جا رہے ہیں بتاؤ تمہاری کوئی حاجت ہے؟ اگر ہے تو بیان کرو ہم اللہ پاک سے تمہاری حاجت پوری کرا لائیں گے۔ جبریلؑ نے عرض کیا ہاں حضورؐ میری ایک حاجت ہے۔ میری طرف سے خدا سے سوال کیجئے کہ قیامت کے روز جب تمام امتیں پل صراط سے گزر رہی ہوں اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گزرنے لگے تو میری یہ تمنا ہے کہ میں پل صراط پر اپنے پر بچھا دوں تاکہ آپؐ کے امت اس پر سے آسانی کے ساتھ گزر جاۓ۔
(مواہب لدینہ، جلد دوم، ص 29)

وذكر أبو الحسن بن غالب، فيما تكلم فيه على أحاديث الحجب السبعين والسبعمائة والسبعين ألف حجاب وعزاها لأبى الربيع بن سبع فى شفاء الصدور من حديث ابن عباس: أن رسول الله- صلى الله عليه وسلم- قال بعد أن ذكر مبدأ حديث الإسراء، كما ورد فى الأمهات:
أتانى جبريل وكان السفير بى إلى ربى، إلى أن انتهى إلى مقام ثم وقف عند ذلك، فقلت: يا جبريل، فى مثل هذا المقام يترك الخليل خليله؟ فقال:
إن تجاوزته احترقت بالنور، فقال النبى- صلى الله عليه وسلم-: يا جبريل، هل لك من حاجة؟ قال: يا محمد، سل الله أن أبسط جناحى على الصراط لأمتك حتى يجوزوا عليه،

یہ ایک طویل روایت ہے اس میں یہ بھی ہے جنت میں
سمعت مناديا ينادى بلغة تشبه لغة أبى بكر
میں نے پکارنے والے کو سنا وہ ابو بکر کی زبان میں بول رہا تھا

یہ روایت باطل مكذوب ہے – اس کی سند معلوم نہیں ہو سکی

اس پر یہاں بحث ہے
http://www.aqaed.com/faq/4087/
لب لباب ہے یہ بے سند روایت ہے

جواب

صحيح البخاري: كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ (بَابٌ: وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ ﷺ) صحیح بخاری: کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان (باب : اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لئے ہے)

3137 .

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ قَدْ جَاءَنِي مَالُ البَحْرَيْنِ لَقَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا»، فَلَمْ يَجِئْ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ مَالُ البَحْرَيْنِ، أَمَرَ أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنَا، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي كَذَا وَكَذَا، فَحَثَا لِي ثَلاَثًا، – وَجَعَلَ سُفْيَانُ يَحْثُو بِكَفَّيْهِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ لَنَا: هَكَذَا قَالَ لَنَا ابْنُ المُنْكَدِرِ -، وَقَالَ مَرَّةً فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ، فَسَأَلْتُ، فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الثَّالِثَةَ فَقُلْتُ: سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي قَالَ: قُلْتَ: تَبْخَلُ عَنِّي؟ مَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ، قَالَ سُفْيَانُ، وَحَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرٍ، فَحَثَا لِي حَثْيَةً وَقَالَ: عُدَّهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَ مِائَةٍ، قَالَ: فَخُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ، وَقَالَ يَعْنِي ابْنَ المُنْكَدِرِ: وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ البُخْلِ

حکم : صحیح 3137

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ کہا ہم سے محمد بن منکدر نے ‘ اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب بحرین سے وصول ہو کر میرے پاس مال آئے گا تو میں تمہیں اس طرح اس طرح ‘ اس طرح ( تین لپ ) دوں گا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور بحرین کا مال اس وقت تک نہ آیا ۔ پھر جب وہاں سے مال آیا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جس کا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض ہو یا آپ کا کوئی وعدہ ہو تو ہمارے پاس آئے ۔ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دیا ۔ سفیان بن عیینہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرکے ( لپ بھرنے کی ) کیفیت بتائی پھر ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ابن منکدر نے بھی ہم سے اسی طرح بیان کیا تھا ۔ اور ایک مرتبہ سفیان نے ( سابقہ سند کے ساتھ ) بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا ۔ پھر میں حاضر ہوا ‘ اور اس مرتبہ بھی مجھے انہوں نے کچھ نہیں دیا ۔ پھر میں تیسری مرتبہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے ایک مرتبہ آپ سے مانگا اور آپ نے عنایت نہیں فرمایا ۔ دوبارہ مانگا ‘ پھر بھی آ پ نے عنایت نہیں فرمایا اور پھر مانگا لیکن آپ نے عنایت نہیں فرمایا ۔ اب یا آپ مجھے دیجئے یا پھر میرے بارے میں بخل سے کام لیجئے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ میرے معاملے میں بخل سے کام لیتا ہے ۔ حالانکہ تمہیں دینے سے جب بھی میں نے منہ پھیرا تو میرے دل میں یہ بات ہوتی تھی کہ تمہیں کبھی نہ کبھی دینا ضرور ہے ۔ ، سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر نے ‘ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا اور فرمایا کہ اسے شمار کر میں نے شمار کیا تو پانچ کی تعداد تھی ‘ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ‘ کہ اتنا ہی دو مرتبہ اور لے لے ۔ اور ابن المنکدر نے بیان کیا ( کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ) بخل سے زیادہ بدترین اور کیا بیماری ہو سکتی ہے ۔

سندا اس کو قبول کیا گیا ہے
لیکن محمد بن حنفیہ کا بیان الگ ہے
مسند حمیدی میں ہے
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا جَابِرُ لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَأَعْطَيْتُكَ هَكَذَا، وَهَكَذَا، وَهَكَذَا» ، فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْتِ مَالُ الْبَحْرَيْنِ، وَأَتَى فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ، فَأَمَرَ أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَى مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِ، قَالَ جَابِرٌ: فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَأَعْطَيْتُكَ هَكَذَا، وَهَكَذَا، وَهَكَذَا» فَحَثَى لِي أَبُو بَكْرٍ مَرَّةً، ثُمَّ قَالَ لِي: عُدَّهَا، فَعَدَدْتُهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَمِائَةٍ، فَقَالَ خُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ

ابن حنفیہ نے کہا جابر نے کہا رسول اللہ کی روح قبض ہوئی بحرین سے مال نہیں آیا ابو بکر کے دور میں آیا انہوں نے منادی کرائی کہ کسی کے اوپر قرض ہو یا رسول الله کا وعدہ ہو تو لے جابر گئے تو ابو بکر نے دے دیا

پھر اسی حدیث میں ہے سفیان نے کہا میں نے سنا ابن منکدر روایت کرتا ہے فورا نہیں دیا
قَالَ سُفْيَانُ: ثُمَّ سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ يُحَدَّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَحَثَى لِي ثَلَاثًا، وَزَادَ ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ جَابِرٌ: ثُمَّ أَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ بَعْدُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَعْطِنِي فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَعْطِنِي، فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَعْطِنِي، فَلَمْ يُعْطِنِي، فَقُلْتُ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِنِّي سَأَلْتُكَ أَنْ تُعْطِيَنِي فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ أَنْ تُعْطِيَنِي، فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي، فَقَالَ: «قُلْتُ تَبْخَلُ عَنِّي، وَأَيُّ الدَّاءِ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ؟ فَمَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ»

اس طرح سفیان نے دونوں قول بیان کیے ایک جو ابن منکدر کا تھا دوسرا جو ابن حنفیہ کا تھا

اسی روایت کو البزار نے بیان کیا زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ کی سند سے اس میں ہے مال فورا دیا گیا

ابن المنکدر کی روایت شاذ ہے دیگر ثقہ سے مخالفت کی وجہ سے
البزار جو امام بخاری و مسلم نے ہم عصر ہیں اس کو بیان کرتے ہیں تعلقیا مسند البزار میں کہتے ہیں
وَكَانَتْ فَضِيلَةً لِأَبِي بَكْرٍ لِإِنْجَازِ مَا ذَكَرَ جَابِرٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَدَهُ فَلَمْ أَرَ هَذَا الْحَدِيثَ مَعَ كَثْرَةِ طُرُقِهِ يَدْخُلُ فِي مُسْنَدِ أَبِي بَكْرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُدْخِلْهُ

ابو بکر کی فضیلت پوری ہوتی ہے اس جابر کے وعدہ نبوی کے ذکر سے پس اس (ابن منکدر والی) حدیث کو ہم (صحیح) نہیں دیکھتے اور اس کے کثرت طرق کے ہونے کے باوجود اس کو مسند ابو بکر میں داخل نہیں کریں گے

جواب

کیا یہ امام مالک کا قول ہے

– قال ابن وهب كنا عند مالك فذكرت السنة فقال مالك: “السنة سفينة نوح من ركبها نجا ومن تخلف عنها غرق”.

( تاريخ دمشق لابن عساكر14/9)و(تاريخ بغداد7/336) و(ذم الكلام و اهله للهروي 4/124-رقم885)

——

حَدَّثَنَا مُعَاوِیَةُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ
إنَّمَا مَثَلُنَا فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ کَسَفِینَةِ نُوحٍ وَکَبَابِ حِطَّةٍ فِی بَنِی إسْرَائِیلَ.

ذم الكلام وأهله
المؤلف: أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي الأنصاري الهروي (المتوفى: 481هـ)

أَخْبَرَنِي غَالِبُ بْنُ عَلِيٍّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ ابْن الْمُظَفَّرِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي طِيبَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ قَالَ ابْنُ وَهْبٍ كَانَ عِنْدَ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فَذُكِرَتِ السّنة فَقَالَ مَالك (السُّنَّةُ سَفِينَةُ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ)

تاریخ بغداد
أخبرنا عَلِيّ بن المحسن الْمُعَدَّل- من أصله- أخبرنا محمّد بن المظفر حَدَّثَنِي الْحَسَن بن أَبِي طيبة المصري- ببغداد- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صالح. قَالَ: قَالَ ابن وهب:
كنا عند مالك فَذَكَرْتُ السُّنَّةَ، فَقَالَ مَالُكٌ: السُّنَّةُ سَفِينَةُ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غرق.
سند صحیح ہے
————

حَدَّثَنَا مُعَاوِیَةُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ
إنَّمَا مَثَلُنَا فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ کَسَفِینَةِ نُوحٍ وَکَبَابِ حِطَّةٍ فِی بَنِی إسْرَائِیلَ.

ضعیف ہے المنھال بن عمرو ہے جو شعبہ کے نزدیک متروک ہے اور الْأَعْمَشِ مدلس کا عن سے روایت کرنا ہے

علی کے حوالے سے بہت بے سروپا کلام بیان کیا جاتا ہے مثلا اس میں دیکھیں لکھا ہے کہ ہم باب حطہ ہیں جبکہ یہ کوئی باب نہیں تھا کلمہ تھا کہ گناہ گناہ
حطہ عبرانی میں گناہ کو کہتے ہیں
یعنی مالک معاف کر بہت گناہ ہوئے

تحقیق چاہیے

أخبرنا عبد المعز بن محمد الهروي قراءة عليه بها قلت له: أخبركم محمد بن إسماعيل بن الفضيل – قراءة عليه وأنت تسمع – أنا محلم بن إسماعيل الضبي، أنا الخليل بن أحمد السجزي، أنا محمد بن إسحاق بن إبراهيم السراج، ثنا قتيبة بن سعيد، ثنا أبو عوانة عن سماك عن حبيب بن حماز، قال: كنت عند علي بن أبي طالب وسأله رجل عن ذي القرنين كيف بلغ المشرق والمغرب؟ قال: سبحان الله، سُخِّرَ له السحابُ ومُدَّتْ لَهُ الأسبابُ وبُسِطَ لهُ النُّورُ فقال: أزيدك؟ قال: فسكت الرجل وسكت علي

الحافظ المقدسي

الأحاديث المختارة

جواب

حبيب بن حماز نے کہا ہم علی کے پاس تھے ان سے ایک شخص نے ذي القرنين پر سوال کیا کہ یہ مشرق و مغرب کیسے پہنچے ؟ علی نے کہا سبحان الله ! ان کے لئے بادل کو مسخر کیا گیا اور اسباب کو مقرر کیا گیا اور نور کو پھیلا دیا گیا- حبيب بن حماز نے کہا اپ کو (بھی بادل پر) بلند کیا گیا ؟ پس حبيب بن حماز نے کہا : یہ شخص اور علی دونوں چپ رہے
———-
سند میں سماك بن حرب ہے جس کو شعبہ ، سفيان الثَّوْريّ، صالح جزرة اور ابن مبارک نے ضعیف قرار دیا ہے البتہ دیگر نے صدوق کہا ہے
قال أحمد: سماك مضطرب الحديث
جرير کہتے اس کا دماغ چل گیا تھا
سماک کہا کرتا کہ اس کو خواب میں حکم ملتے ہیں الکامل از ابن عدی میں ہے
حَدَّثَنَا الحسين بن عفير الأنصاري، حَدَّثَنا سَعِيد بن سلمة، حَدَّثَنا إِبْرَاهِيم بْن عُيَينة أخو سُفيان، عَن شُعْبَة عن سماك بْن حرب، قَال: قِيل لي في المنام إياك والكذب إياك والنميمة إياك ولحوم الناس.
سماک نے کہا مجھے نیند میں کہا گیا جھوٹ سے بچو ..
النسائي نے کہا اس کی منفرد روایت نہیں لی جائے گ لہذا یہ روایت قابل رد ہے

یہ راوی اختلاط کا شکار ہوا – ممکن ہے اس کا اثر ہو
البتہ امام علی کے لئے بادل تھا جس سے انہوں نے سیاروں کی سیر کی اہل تشیع کا قول قرن اول میں معروف تھا
اس بادل کو الصعب کہا جاتا ہے

⇓ عزیر سے علی تک
https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَأَهْلِ سَفِينَتِهِمْؓ) صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: حضرت جعفر بن ابی طالب حضرت اسماء بنت عمیس ؓ اور ان کی کشتی والوں کے فضائل)

6410 .

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي بُرَيْدٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: بَلَغَنَا مَخْرَجُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ، فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ، أَنَا وَأَخَوَانِ لِي، أَنَا أَصْغَرُهُمَا، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَالْآخَرُ أَبُو رُهْمٍ – إِمَّا قَالَ بِضْعًا وَإِمَّا قَالَ: ثَلَاثَةً وَخَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي – قَالَ فَرَكِبْنَا سَفِينَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأَصْحَابَهُ عِنْدَهُ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنَا هَاهُنَا، وَأَمَرَنَا بِالْإِقَامَةِ فَأَقِيمُوا مَعَنَا، فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا، قَالَ: فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، فَأَسْهَمَ لَنَا، أَوْ قَالَ أَعْطَانَا مِنْهَا، وَمَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا، إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ، إِلَّا لِأَصْحَابِ سَفِينَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ، قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ، قَالَ فَكَانَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا – يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ -: نَحْنُ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ.

حکم : صحیح 6410

بُرَید نے ابو بُردہ سے انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ،کہا:ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (مکہ سے) نکلنے کی خبر ملی تو ہم یمن میں تھے ۔ہم(بھی)آپ کی طرف ہجرت کرتے ہو ئے نکل پڑے ۔میں میرے دو بھا ئی جن سے میں چھوٹا تھا۔ ایک ابو بردہ اور دوسرا ابو رہم۔۔۔اور میری قوم میں سے پچاس سے کچھ اوپریا کہا: تریپن یا باون لوگ (نکلے )۔۔کہا: ہم کشتی میں سوار ہو ئے تو ہماری کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجا شی کے ہاں جا پھینکا ۔اس کے ہاں ہم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے ہو گئے۔ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تم لو گ بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھہرو۔کہا: ہم ان کے ساتھ ٹھہرگئے ۔حتی کہ ہم سب اکٹھے (واپس )آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (عین)اس وقت آکر ملے جب آپ نے خیبر فتح کیا تو آپ نے ہمارا بھی حصہ نکا لا یا کہا:ہمیں بھی اس مال میں سے عطا فر ما یا :آپ نے کسی شخص کو بھی جو فتح خیبر میں مو جود نہیں تھا کو ئی حصہ نہیں دیا تھا ، سوائے ان لوگوں کے جو آپ کے ساتھ (فتح میں) شریک تھے مگر حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ ہماری کشتی والوں کو دیا ،ان کے لیے ان(فتح میں شریک ہو نے والوں )کے ساتھ ہی حصہ نکا لا ۔کہا:تو ان میں سے کچھ لوگ ہمیں ۔۔۔یعنی کشتی والوں کو ۔۔۔کہتے تھے، ہم نے ہجرت میں تم سے سبقت حاصل کی۔

———— دوسرا حصہ —————-

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَأَهْلِ سَفِينَتِهِمْؓ) صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: حضرت جعفر بن ابی طالب حضرت اسماء بنت عمیس ؓ اور ان کی کشتی والوں کے فضائل)

6411 .

قَالَ فَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا، عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، قَالَ عُمَرُ: الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ؟ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ، وَقَالَتْ كَلِمَةً: كَذَبْتَ يَا عُمَرُ كَلَّا، وَاللهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ، وَكُنَّا فِي دَارِ، أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ فِي الْحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِي اللهِ وَفِي رَسُولِهِ، وَايْمُ اللهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ، وَوَاللهِ لَا أَكْذِبُ وَلَا أَزِيغُ وَلَا أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللهِ إِنَّ عُمَرَ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ، وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، وَلَكُمْ أَنْتُمْ، أَهْلَ السَّفِينَةِ، هِجْرَتَانِ» قَالَتْ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالًا، يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلَا أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى، وَإِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي

حکم : صحیح 6411

کہا:(تو ایسا ہوا کہ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی) اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ہمارے ساتھ آئے تھے۔ ملنے کے لئے ام المومنین حضت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پا س گئیں۔ہی بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لئے) باربار سننا چاہتے۔

——

یہی حدیث صحیح بخاری اور مسند أبي يعلى الموصلي میں بھی ہے

صحیح بخاری میں یہ الفاظ نہیں ہیں

كذبتَ يا عمر

اور مسند أبي يعلى الموصلي میں یہ الفاظ نہیں بلکہ

وقالت كلمة

کے الفاظ ہیں اور حاشیہ میں حسین سلیم اسد محقق صاحب لکھتے ہیں کہ

عند مسلم : و كذبتَ يا عمر

جواب

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
امام مسلم کی سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي بُرَيْدٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى
ابی یعلی کی سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى

—–
المسنَد الصَّحيح المُخَرّج عَلى صَحِيح مُسلم
المؤلف: أبو عَوانة يَعقُوب بن إسحَاق الإسفرَايينيّ (المتوفى 316 هـ)
میں صحیح مسلم کے متن کی احادیث کی اور سندیں بھی ہیں
اس کتاب میں سند ہے
حدثنا عبد الله بن محمد بن شاكر العنبري، حدثنا أبو أسامة (1) [قال] (2): حدثني بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى
الفاظ ہیں وقالت كلمة: كذبت يا عمر
——
سنن الکبری نسائی میں سند ہے
أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي بُرَيْدٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى
الفاظ ہیں فَغَضِبَتْ» وَقَالَتْ: كَلَّا

: حلية الأولياء وطبقات الأصفياء
المؤلف: أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)
سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ بْنُ حَمْزَةَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَا: ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ
الفاظ ہیں
فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ كَلِمَةً: كَلَّا

اغلبا یہ غلطی ابو اسامہ کی ہے کیونکہ بعض لوگوں کو سناتے وقت انہوں نے کچھ کہا اور بعض دفعہ کچھ اور

(تفسیر القرآن العظیم (ابن کثیر) المؤلف: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (المتوفى: 774هـ

لکھتے ہیں کہ

لنک

http://shamela.ws/browse.php/book-23604#page-3219

قال صلى الله علیه وسلم: «أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ یُوشِکُ أَنْ یَأْتِیَنِی رَسُولُ رَبِّی فَأُجِیبَ، وَإِنِّی تَارِکٌ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ أَوَّلُهُمَا کِتَابُ اللَّهِ تعالى فیه الهدى والنور فخذوا بکتاب الله واستمسکوا بِهِ» فَحَثَّ عَلَى کِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِیهِ وقال صلى الله علیه وسلم: «وأهل بیتی أذکرکم فِی أَهْلِ بَیْتِی، أُذَکِّرُکُمُ اللَّهَ فِی أَهْلِ بَیْتِی» فَقَالَ لَهُ حُصَیْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَیْتِهِ یَا زَیْدُ؟ أَلَیْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ؟
قال: إن نساءه لسن من أهل بیته ولکن أهل بیته من حرم علیه الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟
قَالَ: هُمْ آل علی وآل عقیل وآل جعفر وآل العباس رضی الله عنهم، قال: أکل هؤلاء حرم علیه الصدقة؟ قال: نعم «1» ، وهکذا رواه مسلم والنسائی من طرق یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ بِهِ

—–

اس میں الفاظ یہ ہیں

قال: إن نساءه لسن من أهل بیته

اور کہا گیا

وهکذا رواه مسلم والنسائی من طرق یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ بِهِ

===================

دوسری طرف ہم صحیح مسلم اور سنن نسائی میں یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ کے طرق سے کیا بیان ہوا ہے

لنک

http://s3.picofile.com/file/8223691142/moslem_1_.gif

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ) صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب (باب: حضرت علی ؓ کے فضائل)

6225

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ، إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لَقَدْ لَقِيتَ، يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي وَاللهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا، وَمَا لَا، فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: ” أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ” فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ قَالَ: كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ

حکم : صحیح 6225
زہیر بن حرب اور شجاع بن مخلد نے اسماعیل بن ابراہیم(ابن علیہ) سے روایت کی،انھوں نے کہا:مجھے ابوحیان نے حدیث بیان کی،کہا:یزید بن حیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں،حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم(تینوں) حضرت زید بن ارقم کے پاس گئے۔جب ہم ان کے قریب بیٹھ گئے تو حصین نے ان سے کہا:زید!آ پ کو خیر کثیرحاصل ہوئی،آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی،ان کی بات سنی،ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا اور ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں۔زید!آپ کوخیر کثیرحاصل ہوئی۔زید!ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی(کوئی) حدیث سنایئے۔(حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے )کہا:بھتیجے!میری عمر زیادہ ہوگی ،زمانہ بیت گیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث یاد تھیں ان میں سے کچھ بھول چکا ہوں،اب جو میں بیان کروں اسے قبول کرو۔اور جو(بیان) نہ کرسکوں تو اس کا مجھےمکلف نہ ٹھہراؤ۔پھر کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ”خم“کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔

یہاں الفاظ ہیں

قَالَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَیْتِهِ

—–

دوسری طرف سنن کبری نسائی کی حدیث یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ کے طرق سے

لنک

http://s6.picofile.com/file/8223989400/nasaii_1_.gif

أخبرنا زکریا بن یحیى قال ثنا إسحاق قال أنا جریر عن أبی حیان التیمی یحیى بن سعید بن حیان عن یزید بن حیان قال انطلقت أنا وحصین بن سمرة بن عمر بن مسلم إلى زید بن أرقم فجلسنا إلیه فقال حصین یا زید حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله علیه و سلم وما شهدت معه قال : قام رسول الله صلى الله علیه و سلم بماء یدعى خمیا فحمد الله وأثنى علیه ووعظ وذکر ثم قال أما بعد أیها الناس إنما أنا بشر یوشک أن یأتینی رسول ربی فأجیبه وإنی تارک فیکم الثقلین أولهما کتاب الله فیه الهدى والنور ومن استمسک به وأخذ به کان على الهدى ومن أخطأه ترکه کان على الضلالة وأهل بیتی أذکرکم الله فی أهل بیتی ثلاث مرات قال حصین فمن أهل بیته یا زید ألیس نساؤه من أهل بیته قال بلى إن نساءه من أهل بیته ولکن أهل بیته من حرم الصدقة قال من هم قال آل علی وآل عقیل وآل جعفر وآل العباس

یہاں الفاظ ہیں

قال بلى إن نساءه من أهل بیته

===============

آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اصل الفاظ کیا ہیں – کیا یہاں ابن کثیر سے غلطی ہوئی یا امام مسلم اور امام نسائی سے

جواب

مسلم میں ہے

يزيد بن حيان التيمي کہتے ہیں میں اور حصين بن سبرة اور عمر بن مسلم ، زيد بن أرقم رضی الله عنہ کے پاس گئے

فقال له حصين ( بن سبرة) ومن أهل بيته يا زيد (بن أرقم) أليس نساؤه من أهل بيته قال ان نساءه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده قال ومن هم قال هم آل على وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال أكل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم

حصين ( بن سبرة) نے زيد (بن أرقم) سے پوچھا کہ اے زید کیا نبی کی ازواج ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا بے شک وہ اہل بیت میں سے ہیں لیکن اہل بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقه حرام ہے ان کے بعد پوچھا وہ کون ؟ کہا وہ ال علی ال عقیل ال جعفر ال عباس ہیں کہا ان سب پر صدقه حرام ہے ؟ کہا ہاں

اس میں امہات المومنین کو بھی اہل بیت کہا گیا ہے

مسلم میں اسی روایت کی دوسری سند میں الفاظ ہیں جن میں امہات المومنین کو خارج کیا گیا ہے جو زید بن ارقم کی روایت میں الفاظ کا اضطراب ہے کیونکہ مسلم کی دوسری روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں اس مخصوص روایت کے الفاظ ہیں

مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا، وَايْمُ اللهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَه

اہل بیت کون ہیں ؟ ازواج؟ زید نے کہا الله کی قسم ایک عورت آدمی کے ساتھ ہوتی ہے ایک عرصۂ تک پھر وہ اس کو طلاق دیتا ہے اور وہ اپنے باپ اور قوم میں لوٹ جاتی ہے اور اہل بیت تو اصل والے اور جڑ والے ہیں جن پر صدقه حرام ہے

اس کی سند میں حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى المتوفی ١٨٩ یا ١٨٦ ھ ہیں جن کو النسائى : ليس بالقوى کہتے ہیں ، ابن حجر ، صدوق يخطىء صدوق غلطیاں کرتے تھے کہتے ہیں ابن عدی کہتے ہیں من أهل الصدق إلا أنه يغلط في الشئ ولا يتعمد یہ اہل صدق میں سے ہیں لیکن غلطیاں کرتے ہیں اور قابل اعتماد نہیں ہیں
==============

تفسیر ابن کثیر میں سند و متن ہے
قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ «6» رَحِمَهُ اللَّهُ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ قَالَ: انْطَلَقْتُ أنا وحصين بْنُ مَيْسَرَةَ وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ إِلَى زَيْدِ بن أرقم رضي الله عنه، فلما جلسنا إليه قال حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ وَغَزَوْتَ مَعَهُ وَصَلَّيْتَ مَعَهُ، لَقَدْ رَأَيْتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زيد ما سمعت من
رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا ابن أخي والله لقد كبر سِنِّي وَقَدِمَ عَهْدِي وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوهُ وَمَا لَا فَلَا تكلفونيه، ثم قال رضي الله عنه: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطِيبًا فِينَا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مكة والمدينة، فحمد الله تعالى وأثنى عليه وذكر ووعظ، ثم قال صلى الله عليه وسلم: «أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ تعالى فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا بِهِ» فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ وقال صلى الله عليه وسلم: «وأهل بيتي أذكركم فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ؟ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟
قال: إن نساءه لسن من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم عليه الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟
قَالَ: هُمْ آل علي وآل عقيل وآل جعفر وآل العباس رضي الله عنهم، قال: أكل هؤلاء حرم عليه الصدقة؟ قال: نعم
وهكذا رواه مسلم والنسائي من طرق يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ بِهِ.

ابن کثیر کے مطابق یہ مسند احمد میں ایسا تھا
لیکن یہ الفاظ مسند احمد میں بھی نہیں صحیح مسلم میں اور نسائی کی کسی کتاب میں نہیں
یہ الفاظ تحریف معلوم ہوتے ہیں

———-
مسند عبد بن حميد
قَالَ: بَلَى، إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ،

مسند ابن أبي شيبة
قَالَ: بَلَى إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

مسند احمد
قَالَ: إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ،

معجم ابن عساکر
قال بلى إن نساءه من أهل بيته

مسند البزار
قال إن نساءه مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

الاعتقاد البیہقی
قَالَ: بَلَى إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

صحیح ابن خزیمہ
قَالَ: «بَلَى، نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ،

معجم کبیر طبرانی
قَالَ: «إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

سنن الکبری نسائی
قَالَ: «بَلَى، إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ

اتنی جگہ ہے کہ ازواج النبی بھی اہل بیت میں سے ہیں
لہذا اغلب امکان ہے کہ تفسیر میں کسی نے یہ تبدیلی کی ہے

تحقیق چاہیے

فقال کعب : لا ولکنه صاحب البغلة الشهباء یعنی معاویة، فقیل لمعاویة إن کعباً یسخر بک یزعم أنک تلی هذا الأمر،فأتاه فقال له : یا أبا إسحاق وکیف وها هنا علی والزبیر
وأصحاب رسول الله ؟ قال : أنت صاحبها

السنة لأبو بکر الخلال تحقیق عطیة الزهرانی حدیث348

جواب

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
وَكِيعٌ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , قَالَ: كَانَ الْحَادِي يَحْدُو بِعُثْمَانَ وَهُوَ يَقُولُ: « [البحر الرجز] إِنَّ الْأَمِيرَ بَعْدَهُ عَلِيُّ … وَفِي الزُّبَيْرِ خَلَفٌ رَضِيُّ»
, قَالَ: فَقَالَ كَعْبٌ: وَلَكِنَّهُ صَاحِبُ الْبَغْلَةِ الشَّهْبَاءِ، يَعْنِي مُعَاوِيَةَ , فَقِيلَ لِمُعَاوِيَةَ: إِنَّ كَعْبًا يَسْخَرُ بِكَ وَيَزْعُمُ أَنَّكَ تَلِي هَذَا الْأَمْرَ , قَالَ: فَأَتَاهُ فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ , وَكَيْفَ وَهَا هُنَا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَأَصْحَابُ مُحَمَّدٍ , قَالَ: «أَنْتَ صَاحِبُهَا»
ابو صالح نے کہا ایک حدی کہنے والا عثمان کے لئے کہتا
امیر ان کے بعد میں علی ہے
اور زبیر کے لئے خلافت راضی ہے
کہا : کعب نے کہا نہیں بلکہ اس صاحب کے لئے ہے جو موٹی کھال والے گدھے والا ہے یعنی معاویہ
پس معاویہ سے کہا گیا یہ کعب اپ کا مذاق اڑاتا ہے دعوی کرتا ہے کہ اپ کو امر خلافت ملے گا پس وہ اس کے پاس گئے اور کہا
اے ابو اسحاق کیسے ابھی تو علی ہے زبیر ہے اور اصحاب رسول اور بھی ہیں
کعب بولا اپ بھی انہی میں سے تو ہیں
——
سند منقطع ہے أَبِي صَالِحٍ کی ملاقات معاویہ سے نہیں ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ یہ کون ابو صالح ہے – کعب الاحبار کا ذکر ہے جس کا دور عثمان میں انتقال ہوا جبکہ متن میں کعب کا ذکر ہے کہ وہ معاویہ کا مذاق اڑاتا
کعب عالم الغیب نہ تھا لہذا یہ سب اس کے نام پر بے پر کی اڑا دی گئی ہے

جواب

الإمام أحمد (17405) ، والترمذي (3686) ، والحاكم (4495) من طريق مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ( لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ) .
مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ نے عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سے روایت کیا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے

امام حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے

4551 – أخبرني عبد الله بن محمد بن إسحاق الخزاعي ، بمكة ، ثنا أبو يحيى بن أبي ميسرة ، ثنا عبد الله بن يزيد المقري ، ثنا حيوة بن شريح ، عن بكر بن عمرو ، عن مشرح بن هاعان ، عن عقبة بن عامر – رضي الله عنه – قال : سمعت رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم – يقول : ” لو كان بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب ” .

هذا حديث صحيح الإسناد ، ولم يخرجاه .
——-
امام احمد نے منکر کہا ہے

قال إبراهيم بن الحارث: إن أبا عبد الله – يعني الإمام أحمد – سئل عن حديث عقبة بن الحارث : ( لو كان بعدي نبي لكان عمر)؟
فقال: ” اضرب عليه ؛ فإنه عندي منكر ” .
انتهى “المنتخب من علل الخلال” (ص 191) .
امام احمد کے نزدیک اس کو مارو یہ منکر ہے

ایسی ایک روایت الفضل بن المختار کی سند سے الطبراني کبیر میں بھی ہے یہ راوی بھی سخت منکر حدیث ہے

مشرح بن هاعان پر محدثین کا اختلاف ہے اکثر کے نزدیک ضعیف ہے

قول اول ہے یہ منکر روایت ہے
————-

قول ثانی ضعیف حدیث فضائل میں لی جائے گی
جن لوگوں نے اس کو قبول کیا ہے ان کے مطابق فضائل میں سے ہے ضعیف بھی ہو تو لی جائے گی
بعض نے اس روایت کو حسن لذاته قرار دیا ہے
البانی نے صحیح کہا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=7oFI4ccR71o
اسی روایت کو امام احمد نے منکر کہا تھا
—————-
قول ثالث راقم کا ہے : راقم کہتا ہے اس میں مفروضہ ہے جو نا ممکنات میں سے ہے ایسا قول قول نبوی نہیں ہو سکتا
یہ روایت منکر ہے کیونکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا درجہ تمام اصحاب میں سب سے بلند ہے
——–
نوٹ: جو لوگ اس ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں ان کو اگر کہیں ملے کہ راقم نے اس روایت کی تصحیح کی ہے تو اس کی نشاندھی کریں
انسان خطا کرتا ہے

تحقیق چاہیے
حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ حَدَّثَنِی عُثْمَانُ بْنُ غِیَاثٍ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِیُّ عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَکُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَائِطٍ مِنْ حِیطَانِ الْمَدِینَةِ فَجَاءَ رَجُلٌ فَاسْتَفْتَحَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَفَتَحْتُ لَهُ فَإِذَا أَبُو بَکْرٍ فَبَشَّرْتُهُ بِمَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَاسْتَفْتَحَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَفَتَحْتُ لَهُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ فَقَالَ لِی افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِیبُهُ فَإِذَا عُثْمَانُ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ
صحیح بخاری
جواب
اس متن کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے
مسند البزار اور مسند الروياني میں ہےحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّكَنِ الْأُبُلِّيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَسَارٍ الْمَدِينِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلَ حَائِطًا مِنْ حَوَائِطِ الْأَنْصَارِ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ حَتَّى قَعَدَ عَلَى قُفِّ الْبِئْرِ، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا مُوسَى، احْفَظْ عَلَيَّ الْبَابَ» ، فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ، فَقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» ، فَإِذَا هُوَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَدَخَلَ فَحَمِدَ اللَّهَ، فَأَقْعَدَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» ، فَدَخَلَ فَأَقْعَدَهُ عَنْ يَسَارِهِ، وَامْتَلَأَ الْقُفُّ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ» ، فَدَخَلَ وَقَدِ امْتَلَأَ الْقُفُّ، فَقَعَدَ قُبَالَتَهُمْ [ص:60]، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنِ ابْنِ حَرْمَلَةَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي مُوسَى إِلَّا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَقَدْ رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي مُوسَى بِنَحْوِ هَذِهِ الْقِصَّةِ
لیکن سند میں يَعْقُوبَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَسَارٍ الْمَدِينِيِّ مجہول ہے

صحیح مسلم و صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي حَائِطٍ مِنْ حَائِطِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ مُتَّكِئٌ يَرْكُزُ بِعُودٍ مَعَهُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، إِذَا اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ، فَقَالَ: «افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» قَالَ: فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ، فَفَتَحْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: «افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» قَالَ: فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ، فَفَتَحْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، قَالَ فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تَكُونُ» قَالَ: فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، قَالَ: فَفَتَحْتُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ وَقُلْتُ الَّذِي قَالَ، فَقَالَ: اللهُمَّ صَبْرًا، أَوِ اللهُ الْمُسْتَعَانُ
اس کی سند میں ْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ہے جس پر جرح ہے  اس کی ہر روایت نہیں لی جاتی -ا بو جعفر العقيلي  نے اس کا ذکر  الضعفاء میں کیا ہے-  يحيى بن سعيد نے اس کی احادیث کی تضعیف کی ہے

 بالکل ایسا ہی متن عبد الله بن عمرو سے بھی منسوب ہے – السنہ از ابن ابی عاصم میں ہے
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، ثنا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ح، وَحَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، ثنا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدٍ الْمَنْفِيِّ، وَمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِشٍّ مِنْ حِشَّانِ الْمَدِينَةِ، فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ، فَأَذِنْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَقَرُبَ يَحْمَدُ اللَّهَ حَتَّى جَاءَ فَجَلَسَ، فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ رَفِيعُ الصَّوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ» ، فَإِذَا عُمَرُ، فَأَذِنْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَقَرُبَ يَحْمَدُ اللَّهَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ خَفِيضُ الصَّوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ» ، فَأَذِنْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى، فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقَرُبَ يَحْمَدُ اللَّهَ حَتَّى جَلَسَ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ أَنَا؟ قَالَ: «أَنْتَ مَعَ أَبِيكَ» .
اس کی سند میں قتادہ مدلس ہیں اور عن سے روایت ہے
ابو موسی سے منسوب روایت میں ایسا لگتا ہے وہ اور نبی صلی الله علیہ وسلم اکیلے ہیں پھر ایک ایک کر کے ابو بکر پھر عمر پھر عثمان حاضر ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں
ایسا ہی عبد الله بن عمرو کی روایت میں ہے متن بھی وہی ہے
روایت میں  بصریوں کا تفرد ہے – ایک متن دو طرح الگ الگ اصحاب رسول سے کس طرح منسوب ہوا معلوم نہیں

هیثمی اپنی کتاب مجمع الزوائد میں ایک روایت جو بہت عجیب ہے لکھتے ہیں
عن عبدالله بن مسعود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن الله أمرني أن أزوج فاطمة من علي. رواه الطبراني ورجاله ثقات

جواب
معجم الکبیر طبرانی میں ہےحَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحُسَيْنِ الصَّابُونِيُّ التُّسْتَرِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، ثنا بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ الْهَاشِمِيُّ، ثنا عَبْدُ النُّورِ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْمِسْمَعِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللهَ أَمَرَنِي أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا»

ابن مسعود نے کہا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ بے شک الله نے مجھے حکم دیا کہ فاطمہ کو علی سے بیاہ دوں
میزان الاعتدال میں الذھبی نے اس روایت کا خاص ذکر کیا ہے کہ یہ کذاب عبد النور بن عبد الله المسمعي کا قول ہے
عبد النور بن عبد الله المسمعي.عن شعبة.كذاب.وقال العقيلي: كان يغلو في الرفض، ووضع هذا عن شعبة.عن عمرو ابن مرة، عن أبيه، عن إبراهيم، عن مسروق، عن عبد الله، قال لنا رسول اللهصلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك: إن الله أمرني أن أزوج فاطمة من علي.ففعلت، فقال لي جبرائيل: إن الله قد بنى جنة من لؤلؤ..وسرد حديثاً طويلا

حدثنا أبو أحمد قال حدثنا عبد الله بن حبيب عن حبيب بن أبي ثابت عن عطاء بن يسار قال جاء رجل فوقع في علي وفي عمار رضي الله تعالى عنهما عند عائشة فقالت أما علي فلست قائلة لك فيه شيئا وأما عمار فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا يخير بين أمرين إلا اختار أرشدهما

مسند احمد

جواب
مسند احمد اور سنن ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ، عَنْ حَبيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَمَّارٌ مَا عُرِضَ عَلَيْهِ أَمْرَانِ إِلَّا اخْتَارَ الْأَرْشَدَ مِنْهُمَا

عائشہ رضی الله عنہا نے کہا کہ ایک آدمی آیا اور علی اور عمار رضی الله عنہما کے خلاف کہا تو عائشہ نے کہا جو قائل کہہ رہا تو علی کے حوالے سے اس کے پاس کچھ نہیں اور جہاں تک عمار ہیں تو میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا تھا کہ عمار دو کاموں میں وہ لیتے ہیں جو ہدایت کے پاس ہوتا ہے

راقم کے نزدیک یہ روایت منقطع ہے

امام ترمذی حبیب بن ابی ثابت کی ایک روایت پر کہتے ہیں
قال أبو عيسى: سمعت محمدا يضعف هذا الحديث، وقال: حبيب لم يسمع من عروة.
امام بخاری نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا حبیب نے عروہ سے نہیں سنا

عروہ تو عطا بن یسار سے بہت چھوٹے ہیں لیکن مدنی ہونے کے باوجود حبیب کا سماع عروہ تک سے نہیں جو قابل غور ہے

ہم جس روایت کی بات کر رہے ہیں اس میں حبیب نے عطا بن یسار سے روایت کیا ہے
حَبيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ کا سماع عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ سے ثابت نہیں ہے اور کتب حدیث میں یہ واحد روایت ہے جو حبیب نے عطا سے روایت کی ہے
حبیب بن ابی ثابت مدلس بھی ہے اور اس روایت کی کسی بھی سند میں سماع کی تصریح نہیں ملی