تاریخ ٣

جواب

لیکن ابن سبا کے وجود پر سیف کا تفرد نہیں ہے – دیگر اسناد سے معلوم ہے

ابن سبا سے ظاہر ہے بہت لوگوں کی ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ یہ گردش میں رہا اور پھر معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوا
لیکن اس کا فلسفہ اہل تشیع نے قبول کر لیا جو خالص یہودی تصوف ہے
اس کی تفصیل کتاب میں ہے
Ali in Biblical Clouds

ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا
أخرج من طريق سيف بن عمر التميمي في الفتوح له قصة طويلة لا يصح إسنادها.
الفتوح میں سیف بن عمر کی سند سے اس پر ایک طویل قصہ ہے اس کی اسناد صحیح نہیں
پھر ابن حجر نے وہ اسناد دیں جن میں سیف بن عمر نہیں ہے اور ابن سبا کے وجود کی خبر ہے جو مندرجہ ذیل ہیں
ومن طريق ابن أبي خيثمة: حدثنا محمد بن عباد , حَدَّثَنا سُفيان، عَن عمار الدهني سمعت أبا الطفيل يقول: رأيت المُسَيَّب بن نجبة أتي به بلببه وعلي على المنبر فقال: ما شأنه؟ فقال: يكذب على الله وعلى رسوله.
ابو طفیل نے کہا میں نے المسيب بن نجبة بن ربيعة بن رياح بن عوف بن هلال بن شمخ بن فرارة الفزارى کو دیکھا جو علی کے پاس آیا اور علی منبر پر تھے کہا اس (ابن سبا) کا کیا حال ہے ؟ یہ تو الله اور اس کے رسول پر جھوٹ کہتا ہے

حدثنا عَمْرو بن مروزق حدثنا شُعبة، عَن سلمة بن كهيل عن زيد بن وهب قال: قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه: ما لي ولهذا الخبيث الأسود، يعني عبد الله بن سبأ – كان يقع في أبي بكر وعمر.
زيد بن وهب نے کہا علی نے کہا میرے اور اس کالے خبیث کے بیچ کیا ہے یعنی عبد الله بن سبا

ومن طريق محمد بن عثمان بن أبي شيبة: حَدَّثَنا محمد بن العلاء , حَدَّثَنا أبو بكر بن عَيَّاش، عَن مجالد عن الشعبي قال: أول من كذب عبد الله بن سبأ.
الشعبي (المتوفی ١٠٠ ھ) نے کہا سب سے پہلا جھوٹا عبد الله بن سبا ہے

وقال أبو يَعلَى الموصلي في مسنده: حَدَّثَنا أبو كريب , حَدَّثَنا محمد بن الحسن الأسدي , حَدَّثَنا هارون بن صالح عن الحارث بن عبد الرحمن، عَن أبي الجلاس سمعت عَلِيًّا يقول لعبد الله بن سبأ: والله ما أفضى إلي بشيء كتمه أحدا من الناس ولقد سمعته يقول: إن بين يدي الساعة ثلاثين كذابا وإنك لأحدهم.
أبي الجلاس نے کہا علی کو سنا انہوں نے عبد الله بن سبا کا ذکر کیا کہا الله کی قسم مجھے کون سی چیز اس طرف لے گئی کہ میں لوگوں سے کچھ چھپاؤں؟ اور میں نے سنا کہ قیامت سے قبل تیس جھوٹے ہیں جن میں سے وہ ایک ہے

وقال أبو إسحاق الفزاري: عن شُعبة، عَن سلمة بن كهيل، عَن أبي الزعراء [ص:485] أو عن زيد بن وهب أن سويد بن غفلة دخل على علي في إمارته فقال: إني مررت بنفر يذكرون أبا بكر وعمر يرون أنك تضمر لهما مثل ذلك منهم عبد الله بن سبأ – وكان عبد الله أول من أظهر ذلك – فقال علي: ما لي ولهذا الخبيث الأسود. ثم قال: معاذ الله أن أضمر لهما إلا الحسن الجميل.
سويد بن غفلة ، علی کے پاس آئے ان کی خلافت میں کہا میں ایک گروہ پر گذرا جو ابو بکر اور عمر کا ذکر کرتے ہیں کہتے ہیں اپ ان دونوں سے (حق) چھپاتے تھے ہیں ایسا ہی کہا جیسا ابن سبا کہتا تھا – علی نے کہا مجھے اس کالے خبیث سے کیا سروکار – اللہ کی پناہ کی میں دونوں سے کچھ چھپاؤں سوائے وہ جو جسن وجمال (والی ازواج) ہوں

ان روایات کو ابن حجر نے صحیح اسناد سے نقل کیا ہے جن میں سیف بن عمر نہیں ہے اور عبد الله بن سبا کا ترجمہ قائم کیا ہے- اس طرح اس کے وجود کا اثبات کیا ہے

قال ابن حبان: كان سبئيا من أصحاب عبد الله بن سبأ، كان يقول: إن عليا يرجع إلى الدنيا
ابن حبان نے کہا سبئيا وہ ہیں جو اصحاب ابن سبا ہیں اور کہا کرتے کہ علی دنیا میں پلٹیں گے

تفسیر عبد الرزاق میں ہے
قَالَ مَعْمَرٌ: وَكَانَ قَتَادَةُ إِذَا قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: {فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ} [آل عمران: 7] قَالَ: إِنْ لَمْ تَكُنِ الْحَرُورِيَّةُ أَوِ السَّبَئِيَّةُ , فَلَا أَدْرِي مَنْ هُمْ
معمر نے کہا قتادہ (المتوفي ١١٨ ھ) تلاوت کرتے وہ {فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ} [آل عمران: 7] (جن کے دل ٹیڑھے ہیں ال عمران) – کہتے اگر یہ خوارج اور سبائی نہیں تو معلوم نہیں اور کون ہیں

تفسیر طبری میں بھی قتادہ کا قول ہے
حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبد الرزاق قال، أخبرنا معمر، عن قتادة في قوله:”فأما الذين في قُلوبهم زَيغٌ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاءَ الفتنة”، وكان قتادة إذا قرأ هذه الآية:”فأما الذين في قلوبهم زيغ” قال: إن لم يكونوا الحرُوريّة والسبائية

تفسیر ابن المنذر میں ہے
وتتأول السبئية إذ يقولون فِيهِ بغير الحق إِنَّمَا يقولون قول الله عَزَّ وَجَلَّ: وَأَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لا يَبْعَثُ اللهُ مَنْ يَمُوتُ، فيجعلونها فيمن يخاصمهم من أمة محمد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بعث الموتى قبل يَوْم الْقِيَامَةِ
السبئية نے بلا حق اس آیت کی تاویل کی کہ الله کا قول ہے وَأَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لا يَبْعَثُ اللهُ مَنْ يَمُوتُ، پس اس سے انہوں نے امت محمد کو لڑوایا کہ قیامت سے قبل مردوں کو زندہ کیا جائے گا

طبری تفسیر میں کہتے ہیں
وَاللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ لَبِدْعَةٌ، وَإِنَّ النَّصْرَانِيَّةَ لَبِدْعةٌ، وَإِنَّ الْحَرُورِيَّةَ لَبِدْعَةٌ، وَإِنَّ السَّبَئِيَّةَ لَبِدْعَةٌ،
یہود (دین حق میں) بدعت ہیں نصرانی بدعت ہیں خوارج بدعت ہیں اور السَّبَئِيَّةَ بدعت ہیں

امام بخاری تاريخ الكبير 5 / 187 کہتے ہیں
قَالَ البُخَارِيُّ ، قَالَ عَلِيٌّ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا الزُهْرِيُّ، قَالَ: كَانَ الحَسَنُ أَوْثَقَهُمَا، وَكَانَ عَبْدُ اللهِ يَتْبَعِ السَّبَائِيَّةَ
امام زہری نے کہا … عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ الهَاشِمِيُّ السَّبَائِيَّةَ کے پیچھے چلتا تھا

الکامل از ابن عدی میں ہے
حَدَّثَنَا السَّاجِيُّ، حَدَّثَنا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا أَبُو معاوية، قَال: قَال الأَعْمَش اتق هذه السبئية فإني أدركت الناس وإنما يسمونهم الكذابين
أَبُو معاوية نے کہا الأَعْمَش نے کہا السبئية سے بچو کیونکہ میں لوگوں سے ملا وہ ان کو کذاب نام دیتے ہیں

اسی کتاب میں ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے
حَدَّثَنا السَّاجِيُّ، حَدَّثَنا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا عثمان بن الهيثم، حَدَّثَنا عَبد الْوَهَّابِ بْنُ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَال: إذا كثرت القدرية بالبصرة استكفت أهلها، وَإذا كثرت السبئية بالكوفة استكفت أهلها.
کوفہ میں السبئية کی کثرت ہوئی یہاں تک کہ انہوں نے وہاں کے رہنے والوں کو گھیر لیا

تاریخ ابن ابی خیثمہ میں ہے
حَدَّثَنَا هَارُون بْنُ مَعْرُوف، قَالَ: حَدَّثَنا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَسَنُ وعَبْدُ اللَّهِ ابْنَا مُحَمَّدٍ وكانَ حَسَنٌ أَرْضَاهُمَا وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَتَّبِعُ حَدِيثَ السَّبَئِيَّةِ.
امام زہری نے کہا … عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ الهَاشِمِيُّ السَّبَائِيَّةَ کے پیچھے چلتا تھا

تہذیب الکمال از المزی میں عبد الله بن محمد بن عقیل کے ترجمہ میں اسی قول میں ہے
قال: وكَانَ عَبد اللَّهِ يتبع – وفي رواية: يجمع – أحاديث السبئية وهم صنف من الروافض.
یہ (عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ ) السبئية کی احادیث جمع کرتا جو روافض میں سے ایک صنف ہے

امام احمد نے ابن سبا کا ذکر کیا
وقال صالح بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدثنا معاذ، قال: حدثنا ابن عون، قال: ذكرت لإبراهيم رجلين من السبئية، يعني المغيرة بن سعيد، وأبا عبد الرحيم، قد عرفهما، قال: إحذروهما، فإنهما كذأبان. «سؤالاته» (325)
ابن عون، نے کہا میں نے ابراہیم سے السبئية میں سے دو کا ذکر کیا یعنی المغيرة بن سعيد، وأبا عبد الرحيم … پس کہا یہ کذاب ہیں

یہ حوالے ثابت کرتے ہیں سیف بن عمر سے پہلے سے لوگ ابن سبا کا ذکر کر رہے تھے یہاں کہ ائمہ محدثین نے بھی ابن سبا اور اس کے فرقے کے وجود کا اقرار کیا ہے مثلا قتادہ، الشعبي ، امام زہری، اعمش وغیرہ جو سیف بن عمر سے پہلے کے ہیں
یہ تو صرف اہل سنت کی کتب ہیں اہل تشیع کی کتابوں میں بھی اس کے حوالے بھرے پڑے ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں کتنے عرصہ تک رہے؟

1۔ بخاری جلد 4 کتاب نمبر 56 حدیث نمبر 748 روایت انس رضی اللہ عنہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں دس 10 سال رھے۔

2۔ بخاری جلد 5 کتاب نمبر 58 حدیث نمبر 242 روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہے کہ رسول اللہ مکہ میں 13 سال رھے۔

3۔ مسلم کتاب نمبر 30 حدیث نمبر 5809 روایت ابن عباس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں 15 سال رھے۔
۔۔۔۔بھائی ان روایات میں تضاد ہے کونسی رویات صحیح ہیں؟؟

جواب

حدثنا عبيد الله بن موسى، ‏‏‏‏‏‏عن شيبان، ‏‏‏‏‏‏عن يحيى، ‏‏‏‏‏‏عن ابي سلمة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اخبرتني عائشة، ‏‏‏‏‏‏وابن عباس رضي الله عنهم، ‏‏‏‏‏‏قالا:‏‏‏‏ “لبث النبي صلى الله عليه وسلم بمكة عشر سنين ينزل عليه القرآن، ‏‏‏‏‏‏وبالمدينة عشر سنين”.
ہم سے عبداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے یحییٰ بن کثیر نے ‘ ان سے سلمی بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا کہ مجھ کو عائشہ، عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس سال رہے اور قرآن نازل ہوتا رہا اور مدینہ میں بھی دس سال تک رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہاں بھی قرآن نازل ہوتا رہا۔
اس کی سند مضبوط نہیں ہے اس میں أبي سلمة بنِ عبد الرحمن ہے جو حسن الحدیث ہے

ابن عباس اس سے خوش نہ تھے
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا يونس. قال: حدثنا حماد بن زيد، عن معمر، عن الزهري. قال: كان أبو سلمة يسأل ابن عباس، فكان يخزن عنه
امام احمد العلل میں لکھتے ہیں امام زہری نے کہا ابو سلمہ ابن عباس سے سوال کرتا پس ان کو اس سے غم ہوا

البتہ امام مالک اس کے قائل تھے کہ نبوت کے بعد رسول الله مکہ میں دس سال رہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلا بِالْقَصِيرِ، وَلا بِالأَبْيَضِ الأَمْهَقِ، وَلَيْسَ بِالآدَمِ، وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلا بِالسَّبْطِ، بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ ”
اسی کو امام بخاری نے حدیث 3547 میں نقل کیا ہے

انس نے کہا رسول الله مکہ میں دس سال رہے

ابن عباس سے مروی ہے ١٣ سال رہے
حَدَّثَني مَطَرُ بْنُ الفَضْلِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ، وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ» , (خ) 3903

صحیح مسلم میں بھی ہے
وحَدَّثَنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: “أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ سَنَةً يُوحَى إِلَيْهِ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً”

ابن عباس نے کہا رسول الله مکہ میں ١٣ سال رہے
یہ متفق علیہ روایت ہوئی لہذا اس قول کو قبولیت ملی ہے

نبوت کے بعد رسول الله مکہ میں ١٥ سال رہے
صحیح مسلم میں ہے
وحَدَّثَنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: “أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَى الضَّوْءَ سَبْعَ سِنِينَ، وَلَا يَرَى شَيْئًا وَثَمَانَ سِنِينَ يُوحَى إِلَيْهِ، وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًا”
اس کی سند عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ کی وجہ سے ضعیف ہے
اس کا متن بھی منکر ہے

لب لباب ہے کہ انس رضی الله عنہ کا قول ہے کہ ١٠ سال رہے اور ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے ١٣ سال رہے

یعنی یہ اصحاب رسول کا اختلاف ہوا

حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری کلمات

کربلا میں اپنی شہادت سے تھوڑی دیر پہلے اپنے اصحاب علیہم الرضوان کے مجمع میں ایک خطبہ پڑھا جس میں حمد و صلوۃ کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ارشاد فرمایا کہ:
قَدنَزل من الامرِ مَاترون وانَّ الدنیا قد تغیرت وتنکرت وادبر معروفھا وانشمرت حتی لم یبق منھا الا کصبابۃ الاناء ألاحسبی من عیش کالمرعی الوبیل الا ترون الحق لایعمل بہ والباطل لایتناھی عنہ لیرغب المؤمن فی لقاء اللہ تعالیٰ وانی لااری الموت الاسعادۃ والحیاۃ مع الظالمین الاجرما۔

ترجمہ:
یقینا مجھ پر وہ معاملہ اُتر پڑ اہے جس کو تم لوگ دیکھ رہے ہو، بلاشبہ دنیا بدل گئی اور اجنبی ہوگئی۔ دنیا کی شرعی باتوں نے پیٹھ پھیرلی۔ اور دنیا کپڑے سمیٹ کر بھاگ نکلی اور دنیا نہیں باقی رہ گئی مگر اتنی ہی جیسے کہ برتن میں تھوڑا سا بچا ہوا پانی، بس میری زندگی کا سازو سامان مضر چراگاہ جیسا رہ گیا ہے کیا تم لوگ دیکھ نہیں رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے باز نہیں آرہے ہیں لہذا اب ہر مومن کو خدا عزوجل سے ملاقات کی رغبت ہونی چاہیے اور میں تو موت کو بہت بڑی سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو بہت بڑا جرم سمجھتاہوں

جواب

تاریخ طبری میں ہے
قَالَ أَبُو مِخْنَفٍ: عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي الْعَيْزَارِ

قام حسين ع بذي حسم، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: إنه قَدْ نزل من الأمر مَا قَدْ ترون، وإن الدُّنْيَا قَدْ تغيرت وتنكرت، وأدبر معروفها واستمرت جدا، فلم يبق منها الا صبابه كصبابة الإناء، وخسيس عيش كالمرعى الوبيل أَلا ترون أن الحق لا يعمل بِهِ، وأن الباطل لا يتناهى عنه! ليرغب المؤمن فِي لقاء اللَّه محقا، [فإني لا أَرَى الموت إلا شهادة، وَلا الحياة مع الظالمين إلا برما

سند بے کار ہے

قال النسائي يَحْيى بن عقبة بن أبي العيزار ليس بثقة.
قال أبو حاتم: يفتعل الحديث.
وقال أبو زكريا (1) بن معين: ليس بشئ.
وقال البخاري: منكر الحديث.
ابن معين: كذاب خبيث عدو الله، كان يسخر به.

ابو مخنف بھی متروک ہے

تاریخ زبیر بن بکار میں بھی ہے
الزُّبَيْرُ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ: لَمَّا نَزلَ عُمَرُ بنُ سَعْدٍ بِالحُسَيْنِ خَطبَ أَصْحَابَهُ، وَقَالَ: قَدْ نَزلَ بِنَا مَا تَرَوْنَ، وَإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَغَيَّرَتْ وَتَنكَّرَتْ، وَأَدْبَرَ مَعْرُوفُهَا، وَاسْتُمْرِئَتْ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهَا إلَّا كَصُبَابَةِ الإِنَاءِ، وَإِلاَّ خَسِيسُ عَيْشٍ كَالمَرْعَى الوَبِيْلِ, ألَا تَرَوْنَ الحَقَّ لاَ يُعْمَلُ بِهِ، وَالبَاطِلَ لاَ يُتنَاهَى عَنْهُ? لِيَرْغَبَ المُؤْمِنُ فِي لِقَاءِ اللهِ. إنِّي لاَ أَرَى المَوْتَ إلَّا سَعَادَةً، وَالحيَاةَ مَعَ الظَّالِمِيَنَ إلَّا نَدَماً.

اس کی سند بھی بے کار ہے
سند میں محمد بن الحسن بن زَبَالَة المخزوميُّ ہے جو
قال أبو داود: كذاب.
وقال النَّسائيّ: متروك.
ہے

صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ عُمْرَةِ القَضَاءِ) صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں

(باب: عمرہ قضا کا بیان)

4251

. حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ كَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ قَالُوا لَا نُقِرُّ لَكَ بِهَذَا لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاكَ شَيْئًا وَلَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ امْحُ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ عَلِيٌّ لَا وَاللَّهِ لَا أَمْحُوكَ أَبَدًا فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ وَلَيْسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يُدْخِلُ مَكَّةَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّيْفَ فِي الْقِرَابِ وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتْبَعَهُ وَأَنْ لَا يَمْنَعَ مِنْ أَصْحَابِهِ أَحَدًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا قُلْ لِصَاحِبِكَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبِعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي يَا عَمِّ يَا عَمِّ فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ حَمَلَتْهَا فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَزَيْدٌ وَجَعْفَرٌ قَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ بِنْتُ عَمِّي وَقَالَ جَعْفَرٌ ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي وَقَالَ زَيْدٌ ابْنَةُ أَخِي فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا وَقَالَ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ وَقَالَ لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي وَقَالَ لِزَيْدٍ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَا تَتَزَوَّجُ بِنْتَ حَمْزَةَ قَالَ إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ

جواب

ترجمہ ہے
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ
اپ صلی الله علیہ وسلم لکھنے میں اچھے نہیں تھے پس رَسُولُ اللهِ کے مقام پر لکھا

کتاب شرح الطيبي على مشكاة المصابيح از الطيبي (743هـ) میں ہے
قال القاضي عياض: احتج بهذا أناس علي أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب ذلك بيده, وقالوا: إن الله تعالي أجرى ذلك علي يده, إما بأن كتب القلم بيده وهو غير عالم بما كتب, أو بأن الله تعالي علمه ذلك حينئذ, زيادة في معجزته كما علمه ما لم يعلم, وجعله تاليا بعدما لم يكن يتلو بعد النبوة, وهو لا يقدح في وصفه بالأمي.
قاضی عیاض نے کہا لوگوں نے دلیل لی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا اور کہا الله تعالی نے ان کے ہاتھ پر اس تحریر کو جاری کر دیا – جہاں تک قلم سے لکھنے کا تعلق ہے اور وہ اس سے لا علم تھے کیا لکھ رہے ہیں یا الله نے اس وقت ان کو علم دے دیا اس وقت اور یہ رسول الله کے معجزات میں ہے جو الله نے علم دیا

\فتح الباری میں ہے اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا لکھنا معجزہ تھا
. وقول الباجي أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كتب بعد أن لم يكتب وأن ذلك معجزة أخرى

عمدة القاري شرح صحيح البخاري از عینی میں ہے
وَقَالَ السُّهيْلي: وَالْحق أَن قَوْله: فَكتب، أَي: أَمر عليا أَن يكْتب. قلت: هُوَ بِعَيْنِه الْجَواب الثَّانِي. (الثَّالِث) : أَنه كتب بِنَفسِهِ خرقاً للْعَادَة على سَبِيل المعجزة،
السُّهيْلي نے کہا حق یہ ہے کہ قول انہوں نے لکھا تو یہ انہوں نے علی کو حکم کیا کہ لکھیں اور میں عینی کہتا ہوں … ان کا لکھنا خرق عادت میں سے معجزہ تھا

یعنی اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خود لکھا تو وہ اس وقت کا معجزہ تھا
—————-
صحیح مسلم میں ہے
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَرِنِي مَكَانَهَا فَأَرَاهُ مَكَانَهَا فَمَحَاهَا وَكَتَبَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا مجھے دکھاو وہ جگہ – پس اپ کو دکھایا گیا تو اپ نے اس کو مٹا دیا اور لکھا ابن عبد الله

یعنی رسول الله نے
محمد رسول الله کے الفاظ مٹا کر کر دیا
محمد بن عبد الله

یعنی امام مسلم کے نزدیک یہ کوئی معجزہ نہیں تھا صرف اتنا ہی اپ صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ رسول الله ہٹا کر ابن عبد الله کر دیا
رسول الله کے ہاتھ میں انگوٹھی تھی جس پر اپ نے محمد رسول الله کندہ کروا رکھا تھا ممکن ہے اس مہر والی انگوٹھی کو دیکھ کر اس وقت لکھا ہو
================
مجموعہ احادیث میں روایت میں یہ الفاظ
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ
صرف ابی اسحاق الکوفی نے روایت کیے ہیں جو کوفہ کے شیعہ ہیں اور شیعہ کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے – اہل سنت اس کے انکاری ہیں جو قرآن کے مطابق ہے
میرے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے

امام ذھبی اپنی کتاب تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں کہ

أن عُمَرَ حَبَسَ ثَلَاثَهَ: إبْنَ مَسْعُوْدٍ وَأبَا الدَرْدَاءِ وَأبَا مَسْعُوْدَ الأنْصَارِی فَقَالَ: قَدْ أکْثَرْتُمُ الْحَدِیْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللّهِ صلى الله علیه وسلم

جواب

اس کی سند میں سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ہے جس پر میں نے کئی بار جرح پیش کی ہے

یہ قول إبراهيم بن عبدالرحمن نے بیان کیا ہے
الهيثمي نے مجمع الزوائد ج:1 ص:149 میں لکھا ہے
رواه الطبراني في الأوسط – قلت : هذا أثر منقطع وإبراهيم ولد سنة عشرين ولم يدرك من حياة عمر إلا ثلاث سنين وابن مسعود كان بالكوفة ولا يصح هذا عن عمر (قلت : ويأتي باب التثبت عن بعض الحديث)انتهى.
طبرانی نے اس کو اوسط میں روایت کیا ہے میں کہتا ہوں یہ اثر منقطع ہے إبراهيم بن عبدالرحمن سن ٢٠ میں پیدا ہوا اور ان نے عمر کو نہیں پایا سوائے زندگی کے تین سال اور ابن مسعود تو کوفہ میں تھے اور یہ إبراهيم بن عبدالرحمن کا قول صحیح نہیں ہے

جواب

صحیح بخاری میں ہے
باب أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ

وَفَتَرَ الوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:30]، فِيمَا بَلَغَنَا، حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الجِبَالِ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا،
الوحی رک گئی تو رسول الله غم کا شکار ہوئے جیسا ہم تک پہنچا – حزن ہوا پہاڑ کی چوٹی پر جاتے باربار کہ گرا دیں – جب اوپر پہنچتے جبریل ظاہر ہوتے کہتے اپ رسول الله ہیں اے محمد

روایت صحیح ہے امام زہری کی سند سے ہے
شعیب مسند احمد میں کہتے ہیں
إسناده صحيح على شرط الشيخين دون قوله: حتى حزن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فيما بلغنا- حزناً … فهو بلاغات الزهري، وهي واهية.
اسناد تو امام بخاری و مسلم کی شرط پر ہیں لیکن یہ اس قول کے سوا صحیح ہے کہ یہاں تک کہ رسول الله کو غم ہوتا جیسا ہم تک آیا تو یہ امام الزہری کی بلاغات میں سے ہے اور یہ واہی ہے

البانی نے بھی اس روایت کا انکار کیا ہے اپنے عجیب انداز میں کہ صحیح بھی کہہ دیا اور ان الفاظ کو رد بھی کر دیا کتاب التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں اس روایت کو پیش کیا اور
الفاظ نقل کیے
وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ـ فِيمَا بَلَغَنَا ـ حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا لِكَيْ يتردى من رؤوس شَوَاهِقِ الْجِبَالِ
اس کے بعد کہا
تعليق الشيخ الألباني] صحيح دون جملة التردي ـ ((مختصر البخاري))
صحیح ہے اس التردي (گرا دیں) کے جملہ کے بغیر

کتاب صحيح موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان میں البانی نے کہا
فهي زيادة منقطعة، فهي لا تصح، كما كنت نبهت على ذلك في تعليقي على كتابي “مختصر صحيح البخاري
یہ اضافہ منقطع ہے صحیح نہیں ہے جیساکہ میں نے اپنی تعلیق میں متنبہ کیا ہے میری کتاب مختصر صحیح البخاری میں

کتاب الْمُخْتَصَرُ النَّصِيحُ فِي تَهْذِيبِ الْكِتَابِ الْجَامِعِ الْصَّحِيحِ المؤلف: المُهَلَّبُ بنُ أَحْمَدَ بنِ أَبِي صُفْرَةَ أَسِيْدِ بنِ عَبْدِ اللهِ الأَسَدِيُّ الأَنْدَلُسِيُّ، المَرِيِيُّ (المتوفى: 435هـ) میں ہے کہ یہ اضافہ امام زہری سے معمر نے لیا ہے
زَادَ مَعْمَرٌ: حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنَا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ

شرح الحديث المقتفى في مبعث النبي المصطفى المؤلف: أبو القاسم شهاب الدين عبد الرحمن بن إسماعيل بن إبراهيم المقدسي الدمشقي المعروف بأبي شامة (المتوفى: 665هـ) میں ہے
قَوْله: ” وفتر الْوَحْي فَتْرَة حَتَّى حزن النَّبِي – صلى الله عليه وسلم – فِيمَا بلغنَا حزنا غَدا مِنْهُ مرَارًا كي يتردى من رُؤُوس شَوَاهِق الْجبَال “:
هَذَا من كَلَام الزُّهْرِيّ أَو غَيره غير عَائِشَة وَالله أعلم لقَوْله: ” فِيمَا بلغنَا “، (وَلم تقل عَائِشَة فِي شَيْء من هَذَا الحَدِيث ذَلِك وَأَن كَانَت لم
تدْرك وقته، وحديثها هَذَا من جملَة الْأَحَادِيث الَّتِي يعبر عَنْهَا بمراسيل الصَّحَابَة) .
یہ امام زہری کا کلام ہے یا کسی اور کا عائشہ کا و الله اعلم اس قول ہم تک پہنچا اور … یہ حدیث مراسیل صحابہ میں سے ہے

یعنی پہلے لوگ کہتے تھے کہ یہ الفاظ عائشہ رضی الله عنہا کے بھی ہو سکتے ہیں

===================

یہ عصر حاضر میں ہی لوگوں نے اس میں یہ علت نکالی ہے متقدمین میں سے کسی نے اس روایت کا انکار نہیں کیا ہے
سوال ہے کہ امام بخاری نے اس پر کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیا اگر یہ مدرج جملہ تھا؟

میرے نزدیک روایت صحیح ہے البتہ اس میں ہے کہ جبریل اتے اور کہتے اپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں یہ کئی بار نہیں ایک بار ہوا
رسول الله نے جبریل کو اصلی صورت دو بار دیکھا ایک بار فترت الوحی کے دور میں اور دوسری بار سدرہ المنتہی پر

لہذا یہ پہاڑ پر چڑھنے والی بات ایک بار کی ہے

==========
انجیل میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیکل کی دیوار پر چڑھ گئے اور شیطان نے وہاں سے اپنے اپ گرا دینے کو کہا
Mathew 4:5
Then the devil took Him to the holy city and set Him on the pinnacle of the temple. 6“If You are the Son of God,” he said, “throw Yourself down.

انبیاء بشر تھے لہذا ان کو وقت لگا کہ وہ اس نئی حقیقت کو قبول کر سکیں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر کہا جاتا ہے دو سال تک الوحی نہیں آئی
————-

صحیح مسلم میں ہے
وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَى الضَّوْءَ سَبْعَ سِنِينَ، وَلَا يَرَى شَيْئًا وَثَمَانَ سِنِينَ يُوحَى إِلَيْهِ، وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًا»

ابن عباس نے کہا رسول الله مکہ میں پندرہ سال رہے وہاں سات سال تک صرف آوازیں سنتے اور روشنی دیکھتے رہے اور کوئی اور چیز (یعنی فرشتہ) نہ دیکھا پھر آٹھویں سال سے الوحی شروع ہوئی اور مدینہ میں دس سال رہے

راقم کہتا ہے یہ روایت صحیح نہیں ہے لیکن اس کو چھپا دیا جاتا ہے جبکہ یہ صحیح مسلم کی ہے
کہاں ہیں وہ جو کہتے ہیں صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں؟

 عمار کی روایت بے کار ہے

وقال البخاري: أكثر من روى عنه أهل البصرة وفي ” الأوسط ” من تواريخه، وقال عمار بن أبي عمار عن ابن عباس: ” توفي النبي – صلى الله عليه وسلم – وهو ابن خمس وستين ” ولا يتابع عليه، وكان شعبة يتكلم في عمار
امام بخاری نے تاریخ الاوسط کہا اس سے اکثر اہل بصرہ نے روایت کیا ہے اور کہا عمار بن ابی عمار نے ابن عباس سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ ٦٥ سال کے تھے – اس کی کوئی متابعت نہیں کرتا اور شعبہ ، عمار پر کلام کرتے تھے

مسند احمد صدیق اکبر کی مرویات
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ عَبْد اللَّهِ وَسَمِعْتُهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْتَ وَرِثْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْ أَهْلُهُ قَالَ فَقَالَ لَا بَلْ أَهْلُهُ قَالَتْ فَأَيْنَ سَهْمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً ثُمَّ قَبَضَهُ جَعَلَهُ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ فَرَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَقَالَتْ فَأَنْتَ وَمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوگیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث آپ ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ؟ انہوں نے جواباً فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ ہی ان کے وارث ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ کہاں ہے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی چیز کھلاتا ہے، پھر انہیں اپنے پاس بلالیتا ہے تو اس کا نظم ونسق اس شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو خلیفہ وقت ہو، اس لئے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس مال کو مسلمانوں میں تقسیم کردوں، یہ تمام تفصیل سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جو سناہے، آپ اسے زیادہ جانتے ہیں، چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔
جواب
متن میں الفاظ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔موجود نہیں ہیں مترجم کی کذب بیانی ہے
احمد شاکر کہتے ہیں إسناده صحيح، الوليد بن جميع هو الوليد بن عبد الله بن جميع، نسب إلى جده، وهو ثقة. أبو الطفيل هو عامر بن واثلة، من صغار الصحابة،اس کی اسناد صحیح ہیں الوليد بن عبد الله بن جميع، ثقہ ہے اور أبو الطفيل عامر بن واثلة، چھوٹے اصحاب رسول میں سے ہے
شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں اسناد حسن ہیں
ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں ذکر کیا ہے اور کہاابن كثير في ” البداية ” 5 / 289 بعد أن أورد هذا الحديث عن ” المسند “: ففي لفظ هذا الحديث غرابة ونكارة، ولعله روي بمعنى ما فهمه بعض الرواة، وفيهم من فيه تشيُّعاس حدیث میں الفاظ کی غرابت و نکارت ہے اور لگتا ہے بعض راویوں نے اس کو اپنے فہم پر روایت کیا ہے اور ان میں شیعیت ہے

راقم کہتا ہے مسند احمد کی روایت ضعیف ہےنہ الولید ثقہ ہے نہ ابو طفیل صحابی ہے

==========

صحیح بخاری حدیث 6726 میں ہےفَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْفاطمہ نے ابو بکر کو چھوڑ دیا اور ان سے بات نہ کرتیں یہاں تک کہ موت ہوئی

============
اس کے برعکس احمد شاکر اور شعيب الأرنؤوط دونوں مسند احمد کی اس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیںوقد روينا عن أبي بكر رضى الله عنه أنه ترضى فاطمة وتلاينها قبل موتها، فرضيت، رضى الله عنهااور ہم سے روایت کیا گیا ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کی سند سے کہ وہ فاطمہ سے راضی تھے اور ان کو اپنے موقف پر لائے پس وہ راضی ہوئیں رضی الله عنہا
اس طرح ان دونوں نے صحیح بخاری کی حدیث کا انکار کیا
================

الکامل از ابن عدی میں ہےحَدَّثَنَا ابْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثني صَالِحُ بْنُ أَحْمَد بْن حنبل، قَال: حَدَّثَنا علي، قَالَ: سَمِعْتُ جرير بْن عَبد الحميد، وقِيلَ لَهُ: كَانَ مغيرة ينكر الرواية، عَن أبي الطفيل؟ قَال: نَعم.مغيرة ، ابی طفیل کی روایات کا انکار کرتے تھے
ابو طفیل آخری عمر میں المختار الثقفي کذاب کے ساتھ تھے جس کا قتل ابن زبیر رضی الله عنہ نے کرایا

جواب

حسن رضی اللہ عنہ   شادی پر شادیان کرتے رهتے اور ایک  کے بعد ایک بیوی کو طلاق دیتے رهتے تھے – علی رضی اللہ عنہ کو یہ پسند نہیں تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے ان کے لشکر میں پھوٹ پڑ سکتی ہے –

طبقات ابن سعد میں ہے

قال: أخبرنا محمد بن عمر. قال: حدثني حاتم بن إسماعيل.

عن جعفر بن محمد. عن أبيه. قال: [قال علي: يا أهل الكوفة: لا تزوجوا الحسن بن علي فإنه رجل مطلاق فقال رجل من همدان والله لنزوجنه فما رضي أمسك وما كره طلق]

امام جعفر نے اپنے باپ سے انہوں نے علی سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا اے اہل کوفہ حسن بن علی سے شادی مت کرو کیونکہ یہ آدمی بس طلاقیں دیتا ہے تو ہمدان کے ایک شخص نے کہا  اللہ  کی قسم ہم تو شادیاں کریں گے وہ چاہیں تو رکھیں اور چاہیں تو چھوڑ دیں

   قال: أخبرنا محمد بن عمر. قال: حدثني علي بن عمر. عن أبيه. [عن علي بن حسين قال: كان الحسن بن علي مطلاقا للنساء وكان لا يفارق امرأة إلا وهي تحبه] .

علی بن حسین نے کہا  کہ چچا حسن تو عورتوں کو طلاقیں دیتے اور ان کو نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ ان سے محبت نہ نہ کر لیتیں

مصنف ابن ابي شيبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، أَوْ يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ، لَا تُزَوِّجُوا حَسَنًا، فَإِنَّهُ رَجُلٌ مِطْلَاقٌ»

امام جعفر نے اپنے باپ سے انہوں نے علی سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا اے اہل کوفہ حسن بن علی سے شادی مت کرو کیونکہ یہ آدمی بس طلاقیں دیتا ہے تو ہمدان کے ایک شخص نے کہا  اللہ  کی قسم ہم تو شادیاں کریں گے وہ چاہیں تو رکھیں اور چاہیں تو چھوڑ دیں

 تاريخ الاسلام از الذھبي میں ہے

وَعَنْ جَعْفَرٍ الصَّادِقِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ لَا تُزَوِّجُوا الْحَسَنَ فَإِنَّهُ رَجُلٌ مِطْلَاقٌ، فَقَالَ رَجُلٌ: وَاللَّهِ لَنُزَوِّجَنَّهُ، فَمَا رَضِيَ أَمْسَكَ، وَمَا كَرِهَ طَلَّقَ

جعفر صادق نے کہا کہ علی نے کہا اے کوفہ والوں حسن سے شادیاں مت کرو یہ تو طلاق دے دیتا ہے تو ایک شخص نے کہا ہم تو شادی کریں گے وہ چاہیں تو روک رکھیں نہ پسند کریں تو طلاق دیں

سير الاعلام النبلا میں الذھبی قول لائے ہیں

جعفر بن محمد، عن أبيه؛ قال علي: يا أهل الكوفة! لا تزوجوا الحسن، فإنه رَجُلٌ مِطْلاَقٌ، قَدْ خَشِيْتُ أَنْ يُورِثَنَا عَدَاوَةً فِي القبَائِلِ.

علی نے کہا اے اہل کوفہ  حسن سے شادیاں  مت کرو یہ تو طلاق دے دیتا ہے مجھ کو ڈر ہے کہ اس کی وارثت پر قبائل میں فساد ہو جائے گا

مصادر  اہل تشیع  میں حسن کی شادیاں

مصادر أهل تشيع کو راقم نے دیکھا  تو اس میں روایت ملی – الكافي از  كليني ميں ہے

حميد بن زياد، عن الحسن بن محمد بن سماعة، عن محمد بن زياد بن عيسى، عن عبدالله بن سنان، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: إن عليا قال وهو على المنبر: لا تزوجوا الحسن فإنه رجل مطلاق، فقام رجل من همدان فقال: بلى والله لنزوجنه وهو ابن رسول الله صلى الله عليه وآله وابن أمير المؤمنين عليه السلام فإن شاء أمسك وإن شاء طلق

ابو عبد اللہ نے کہا علی کہا کرتے اور وہ منبر پر ہوتے کہ حسن سے شادی مت کرو یہ طلاق دے دے گا پس ہمدان کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا بلکہ ہم تو شادی ضرور کریں گے یہ رسول اللہ کے نواسے اور امیر المومنین کے بیٹے ہیں ، چاہیں تو بیوی رکھیں اور چاہیں تو طلاق دیں

اسی قسم کی مندرجہ ذیل روایات بھی ہیں

 (510665)

 عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن محمدبن إسماعيل بن بزيع، عن جعفر بن بشير، عن يحيى بن أبي العلاء، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: إن الحسن بن علي عليه السلام طلق خمسين امرأة فقام علي عليه السلام بالكوفة فقال: يا معاشر أهل الكوفة لا تنكحوا الحسن فإنه رجل مطلاق فقام إليه رجل فقال: بلى والله لننكحنه فإنه ابن رسول الله صلى الله عليه وآله وابن فاطمة عليها السلام فإن أعجبته أمسك وإن كره طلق

وسائل الشيعة میں ہے

محمّد بن يعقوب ، عن عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمّد ، عن محمّد بن إسماعيل بن بزيع ، عن جعفر بن بشير ، عن يحيى بن أبي العلاء ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : إن الحسن بن علي ( عليه السلام ) طلق خمسين امرأة فقام علي ( عليه السلام ) بالكوفة فقال : يا معشر أهل الكوفة لا تنكحوا الحسن فانه رجل مطلاق ، فقام اليه رجل فقال : بلى

سداد العباد ورشاد العباد میں ہے

 روي في عدة أخبار أن علياً   جاءه جماعة، فقالوا: ياأبا الحسن إن ولدك الحسن  قد خطب إلينا كريمتنا وكذلك الحسين   فقال: لا تزوجوا الحسن   فإنه رجل مطلاق، وزوجوا الحسين

اس طرح اہل سنت اور اہل تشیع  اس پر متفق ہیں کہ حسن کثرت سے شادیاں کرتے اور طلاق دیتے تھے

وسائل الشیعہ میں ہے

وعن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن غير واحد ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : ما من شيء مما أحله الله أبغض إليه من الطلاق وإن الله عزّ وجلّ يبغض المطلاق الذواق

ابو عبد اللہ امام جعفر   نے کہا وہ چیزیں جو اللہ نے حلال کی ہے اس میں سب سے قابل نفرت طلاق ہے  اور اللہ اس سے نفرت کرتا ہے جو مزے  کے لئے طلاقیں دے

الکافی از کلینی میں ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن محمدبن إسماعيل بن بزيع، عن جعفر بن بشير، عن يحيى بن أبي العلاء، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: إن الحسن بن علي عليه السلام طلق خمسين امرأة فقام علي عليه السلام بالكوفة فقال: يا معاشر أهل الكوفة لا تنكحوا الحسن فإنه رجل مطلاق فقام إليه رجل فقال: بلى والله لننكحنه فإنه ابن رسول الله صلى الله عليه وآله وابن فاطمة عليها السلام فإن أعجبته أمسك وإن كره طلق

امام جعفر سے روایت ہے کہ حسن نے پچاس عورتوں کو طلاق دی  پس علی  کوفہ میں (منبر پر) کھڑے  ہوئے پس فرمایا اے لوگوں حسن سے نکاح مت کرو یہ شخص طلاقیں دیتا ہے پس ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا بلا شبہ اللہ کی قسم  ہم تو نکاح ضرور کریں گے کیونکہ یہ رسول کا بیٹا نواسہ ہے اور فاطمہ کا بیٹا ہے اگر ان کو پسند ہو تو بیوی رکھیں ناپسند آئے تو چھوڑ دیں

بعض جہلاء  کا کہنا ہے کہ تاریخ بنو امیہ اور بنو عباس کی مرتب کردہ ہے جبکہ یہ روایات شیعہ مصادر میں بھی ہیں-  بعض احمقوں نے اعتراض میں  کہا کہ حسن سے ہی لوگ شادی کیوں کرتے تھے حسین سے کیوں نہیں  کرتے تھے ؟ راقم کہتا ہے کہ حسن کی مقبولیت کوفہ میں حسین سے بڑھ کر تھی  – اسی وجہ سے حسن کو خلیفہ کیا گیا –  روایات ظاہر کرتی ہیں کہ حسن  کی مقبولیت کوفہ میں حسین و علی سے بڑھ گئی تھی اور لوگ اسی پر خوش تھے کہ حسن  شادیاں کرتے ہیں – راقم سمجھتا ہے کہ حسن شوقیہ شادیان نہیں کرتے تھے –

وسائل الشیعہ میں ہے

وعن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن غير واحد ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : ما من شيء مما أحله الله أبغض إليه من الطلاق وإن الله عزّ وجلّ يبغض المطلاق الذواق

ابو عبد اللہ امام جعفر   نے کہا وہ چیزیں جو اللہ نے حلال کی ہے اس میں سب سے قابل نفرت طلاق ہے  اور اللہ اس سے نفرت کرتا ہے جو مزے  کے لئے طلاقیں دے

یہ شادیان کرنے کا مقصد قبائل  کی ہمدردیان  حاصل کرنا تھا – متعدد نکاح میں  مقصد حکمت تھی

متاخرین شیعہ نے اس کا انکار کیا ہے  مثلا شیعہ عالم کی کتاب  دروس تمهيدية في القواعد الرجالية از المؤلف محمد باقر الأيرواني میں ہے ہمارے عامی کہتے ہیں

  ان في الكتب الأربعة احاديث قد لا يمكن التصديق بصدورها  من قبيل ما ذكره في الكافي في كتاب الطلاق من ان أمير المؤمنين (عليه السلام)ارتقى المنبر وقال : لا تزوجوا ولدي الحسن (عليه السلام) فانه مطلاق

ہمارے شیعوں کی چار کتب میں احادیث ہیں جن کی تصدیق ممکن نہیں ہے اس قبیل میں سے بعض وہ  ہیں جو الکافی کی کتاب طلاق میں ہے کہ امیر المومنین علی  منبر پر چڑھے اور کہا حسن سے شادیاں مت کرو یہ طلاق دیتا ہے

اس اعتراض کا جواب علماء نے اسی کتاب میں دیا

اجبنا ما الفائدة في الحفاظ على الصدور والغاء الظهور ؟ ! ! ان تقديس أهل البيت (عليهم السلام) واخبارهم يلزم ان يدعونا للحفاظ عليها صدوراً وظهوراً ، اما التسليم بصدورها مع عدم العمل بظهورها فهو رفع بالتالي لليد عن اخبار أهل البيت (عليهم السلام)ويعني عدم عملنا بها

ہم علماء کہتے ہیں کہ حفاظ سے ان خبروں کا صدور اور ان خبروں کو پھیلنے کا فائدہ کیا ہے ؟ اہل بیت (علیہ السلام) کی تقدیس اور ان کی خبروں کو لازم ہے کہ ہم ان کو ان کی  ظاہری صورت میں محفوظ رکھیں ، ان احادیث  کے اجراء کو تسلیم کریں

کتاب ثقات از ابن حبان میں ہے

مغیرہ نے ٨٠ عورتوں کو اسلام میں گھیرا

اسد الغابہ میں ہے
أحصن ثلاثمائة امرأة فِي الإسلام
مغیرہ نے ٣٠٠ عورتوں کو اسلام میں گھیرا

یہاں سند نہیں ہے صرف کہا جاتا ہے لکھا ہے

تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال از امام الذھبی میں ہے

وقال ابن شوذب: أحصن المغيرة أربعًا من بنات أبي سفيان
، وروى بكر بن عبيد الله المزني عن المغيرة قال: أحصنت سبعين امرأة،
قال مالك: كان المغيرة نكاحًا للنساء، وكان ينكح أربعًا جميعًا ويطلقهن
جميعًا، وروى سحنون عن عبد الله بن نافع الصائغ قال: أحصن المغيرة
ثلاثمائة امرأة في الإسلام قال محمد بن وضاح القرظي: غير عبد الله
ابن نافع يقول: ألف امرأة

وروى الهيثم بن عدي عن مجالد عن
الشعبي سمعت المغيرة بن شعبة يقول: ما غلبني أحد قط، إلا غلام
من بني الحارث بن كعب، فإني خطبت امرأة منهم فأصغى إلي الغلام، وقال: أيها الأمير لا خير لك فيها إنى رأيت رجلاً يقببها، فانصرفت
عنها، فبلغني أن الغلام تزوجها فقلت: ألست زعمت كيت وكيت فقال:
ما كذبت رأيت أباها يقبلها

ابن شوذب نے کہا مغیرہ نے ابو سفیان کی چار بیٹیوں سے شادی کی اور بکر بن عبید اللہ نے روایت کیا کہ مغیرہ نے ستر عورتوں سے شادی کی

اور مالک نے کہا مغیرہ چار سے شادی کرتے پھر ایک ساتھ ان چار کو طلاق دیتے
سحنون نے عبد الله بن نافع الصائغ سے روایت کیا کہ مغیرہ نے ٣٠٠ عورتوں سے شادی کی
محمد بن وضاح القرظي نے کہا ہزار عورتوں سے شادی کی
الهيثم بن عدي عن مجالد عن الشعبي کی سند سے ہے کہ اس نے مغیرہ کو کہتے سنا کہ مجھ پر کسی کا غلبہ نہ ہوا سوائے بنی حارث کے اس لڑکے
کے کہ میں نے ان کی ایک عورت سے نکاح کیا

راقم کہتا ہے عبد الله بن شوذب اس سند میں بقول امام ابن حزم مجہول ہے
اور مالک کے قول کی سند معلوم نہیں ہے
عبد الله بن نافع الصائغ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے
محمد بن وضاح القرظي اندلس کے محدث ہیں اور یہ غلطی کرتے ہیں
الهيثم بن عدي اخباری ہے اور ابن معین کہتے ہیں کذاب ہے

سنن الکبری بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، ثنا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيِّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:….، وَلَقَدْ تَزَوَّجْتُ سَبْعِينَ أَوْ بِضْعًا وَسَبْعِينَ امْرَأَةً “

مغیرہ نے ستر عورتوں سے نکاح کیا
سند منقطع ہے
قال ابن أَبي خيثمة عن يَحْيَى بن مَعِين: لم يسمع بكر من المغيرة

جواب

حسن کے انتقال کے بعد جعدة بِنْتُ الأَشْعَثِ بعد میں حیات رہیں اور ان کی اہل بیت ہی میں   ابن  عباس کے بیٹے العباس بن عبد الله بن عباس بن عبد المطلب بن هاشم سے  شادی ہوئی اور  ان سے محمد بن عباس اور قریبه بن عباس پیدا ہوئے – ماشاء اللہ – محمد بن العباس وقريبة بنت العباس وأمهما جعدة بنت الأشعث بن قيس بن معدي كرب بن معاوية بن جبلة الكندي

اگر جعدہ نے زہر دیا ہوتا تو  ابن عباس رضی اللہ عنہ  کی وہ کبھی بہو نہیں بن سکتی تھیں- لگتا ہے کہ بنو عباس کے دور میں رافضیوں نے ان قصوں کو مشہور کیا کہ  بنو عباس کی ماں  یا ابن عباس  کی  بہو سازشی تھیں

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب