اذکار و تعویذ

عن عایشه ما جلس رسول الله مجلسا قط ولا تلا قرانا ولا صلی صلاة الا ختم ذالک بکلمات
فقلت یا رسول الله اراک ما تجلس مجلسا و لا تتلو قرانا و لا لصلی صلاة الا حتمتت بهولاءالکلمات؟
قال نعم من قال خیرا ختم له طابع علی ذالک الخیر و من قال شرا له کفارة
سبحانک الللهم و بحمدک اشهد ان لا اله إلا انت و اسغفروک و اتوب الیک
النسایی فی السنن الکبرا و قال ابن حجر و البانی اسناده صحیح
کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

کتاب عمل میں نسائی نے اس کو روایت کیا ہے
أخبرنَا مُحَمَّد بن سهل بن عَسْكَر قَالَ حَدثنَا ابْن أبي مَرْيَم قَالَ أخبرنَا خَلاد بن سُلَيْمَان أَبُو سُلَيْمَان قَالَ حَدثنِي خَالِد بن أبي عمرَان عَن عُرْوَة بن الزبير عَن عَائِشَة قَالَت
مَا جلس رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مَجْلِسا قطّ وَلَا تلى قُرْآنًا وَلَا صلى صَلَاة إلاّ ختم ذَلِك بِكَلِمَات قَالَت فَقلت يَا رَسُول الله أَرَاك مَا تجْلِس (مَجْلِسا) آح وَلَا تتلو قُرْآنًا وَلَا تصلى صَلَاة إلاّ ختمت بهؤلاء الْكَلِمَات قَالَ
نعم من قَالَ خيرا ختم لَهُ طَابع على ذَلِك الْخَيْر وَمن قَالَ شرا كنَّ لَهُ كَفَّارَة سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِك لَا إِلَه إِلَّا أَنْت أستغفرك وَأَتُوب إِلَيْك

اس روایت کو البانی نے حسن کہا ہے

خالد بن ابی عمران کی عروہ بن زبیر سے یہ واحد روایت ہے
جو ایک عجیب بات ہے کہ عروہ بن زبیر جن کے پاس کثیر معلومات تھیں انہوں نے ان کو عروہ سے نہیں لیا اور یہ دعا ملی جس کو صرف یہ روایت کرتے ہیں
کوئی اور روایت نہیں کرتا

پھر یہ دعا روایت کے مطابق ہر مجلس میں رسول الله پڑھتے تھے تو کوئی صحابی اس کو روایت نہیں کرتا

راقم کہتا ہے یہ شواہد ثابت کرتے ہیں کہ یہ روایت مظبوط نہیں ہے

جواب

صدق اللہ العظیم کہنا بدعت ہے کیونکہ یہ کسی روایت میں نہیں ملا صرف ایک روایت میں قرآن ایک صحابی کے پڑھنے پر نبی صلی الله علیہ وسلم کا (حسبک ) کافی ہے کہنا ملتا ہے

ہاتھ پر تسبیح پڑھنے والی روایت صلوت کے بعد حدیث کی کس بک.میں یے اور وہ روایت جس سے تسبیح یا دانوں پت ہڑھنے کی دلیل دیتے ہیں وہ بھی پلیز بیان کر دیجیے

جواب

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عُبيدُ الله بنُ عمر بن ميسرة ومحمد بن قُدامة في آخرين، قالوا: حدَّثنا عثَّامٌ، عن الأعمش، عن عطاء بن السائب، عن أبيه
عن عبد الله بن عمرو، قال: رأيتُ رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – يعقِدُ التسبيحَ. قال ابنُ قدامة: بيمينه
ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے تسبیح گنی اور ابن قدامہ نے کہا سیدھے ہاتھ پر

ابن قدامہ کی تشریح ان کی ذاتی رائے ہے کیونکہ اس کے باقی طرق میں ایسا کہیں نہیں کہ یہ تسبیح کس طرح گنی گئی
ابن قدامہ نسائی اور ابو داود کے شیخ ہیں

ہاتھ پر تسبیح کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے

البتہ مروجہ تسبیح جو دانوں کی مالا پر ہوتی ہے یہ ایک نصرانی روایت ہے لہذا اس کو استمعال نہ کرنا بہتر ہے

سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمٌ وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ، مَوْلَى صَفِيَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ صَفِيَّةَ، تَقُولُ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيَّ أَرْبَعَةُ آلَافِ نَوَاةٍ أُسَبِّحُ بِهَا، قَالَ: «لَقَدْ سَبَّحْتِ بِهَذِهِ، أَلَا أُعَلِّمُكِ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَبَّحْتِ؟» فَقُلْتُ: بَلَى عَلِّمْنِي. فَقَالَ: ” قُولِي: سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ خَلْقِهِ “: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ صَفِيَّةَ [ص:556] إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هَاشِمِ بْنِ سَعِيدٍ الكُوفِيِّ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمَعْرُوفٍ وَفِي البَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

ام المؤمنین صفیہ بنت حییؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ، میرے پاس چار ہزار کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر میں تسبیح پڑھا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حیی کی بیٹی! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: ان گٹھلیوں پر میں تسبیح پڑھ رہی ہوں۔
البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی میں ہے
– حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الفَرَجِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الحَارِثِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوَاةٌ، أَوْ قَالَ: حَصَاةٌ تُسَبِّحُ بِهَا، فَقَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا [ص:563] أَوْ أَفْضَلُ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ».
سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک صحابیہ کے پاس گیا جن کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی ہوئی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں

البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے یعنی ان کے دور میں اس سے دلیل لی گئی

وہ روایات جن میں عمر رضی اللہ عنہ کا سر درد میں بسم اللہ. … کا تعویز ٹوپی میں رکھنے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا دریائے نیل میں تعویز ڈالنے عائشہ رضی اللہ عنھا کا تعویز کو جائز سمجھنے والی روایت پلیز حوالے کے ساتھ تحقیق چاہیے

جواب

فخر الدین رازی (المتوفى: 606هـ) نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب ایک واقعہ لکھا

كتب قيصر إلى عمر رضي الله عنه أن بي صداعا لا يسكن فابعث لي دواء، فبعث إليه عمر قلنسوة فكان إذا وضعها على رأسه يسكن صداعه، وإذا رفعها عن رأسه عاوده الصداع، فعجب منه ففتش القلنسوة فإذا فيها كاغد مكتوب فيه: بسم الله الرحمن الرحيم.
کہ روم کے بادشاہ قیصر نے جناب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ،میرے سر میں درد رہتا ہے ،اس کیلئے کوئی دوا بھیجئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ٹوپی اس کو بھیجی قیصر جب وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھتا ،اس کے سر کا درد ٹھیک ہو جاتا ،،جب ٹوپی اتارتا درد پھر شروع ہوجاتا ،،اس کو بڑا تعجب ہوا ،اس نے ٹوپی کو کھنگالا ،تو اس میں ایک کاغذ ملا جس پر ۔۔بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔ لکھی تھی ۔

اس کا ذکر روح البيان المؤلف: إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي , المولى أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ) میں بھی ہے
وكتب قيصر ملك الروم الى عمر رضى الله عنه ان بي صداعا لا يسكن فابعث الى دواء ان كان عندك فان الأطباء عجزوا عن المعالجة فبعث عمر رضى الله عنه قلنسوة فكان إذا وضعها على رأسه سكن صداعه وإذا رفعها عن رأسه عاد صداعه فتعجب منه ففتش في القلنسوة فاذا فيها كاغد مكتوب عليه بسم الله الرّحمن الرّحيم

اللباب في علوم الكتاب المؤلف: أبو حفص سراج الدين عمر بن علي بن عادل الحنبلي الدمشقي النعماني (المتوفى: 775هـ) میں بھی ہے
كتب قَيْصر إِلَى عمر – رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ – أَن بِي صداعا لَا يسكن، فَابْعَثْ لي دَوَاء، فَبعث إِلَيْهِ عمر قلنسوة، فَكَانَ إِذا وَضعهَا على رَأسه سكن صداعه، وَإِذا رَفعهَا عَن رَأسه عَاد الصداع، فتعجب مِنْهُ ففتش القلنسوة، فَإِذا فِيهَا مَكْتُوب ” بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم ” [قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام: ” من تَوَضَّأ وَلم يذكر اسْم الله تَعَالَى كَانَ طهُورا لتِلْك الْأَعْضَاء، وَمن تَوَضَّأ وَذكر اسْم الله تَعَالَى كَانَ طهُورا لجَمِيع بدنه

اس کی سند نہیں ہے
————-

نیل میں عمر رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے پرزہ یا بطاقہ ڈالنے کا واقعہ کتاب العظمة از أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ) مذکور ہے کہ مصریوں نے عمرو بن العاص سے کہا کہ آج ٢١ کی رات ہے شہر خالی ہو گا ایک کنواری کو نیل کی بھینٹ چڑھا یا جائے گا عمرو نے عمر کو لکھ بھیجا جواب آیا ہے قرہ نیل میں ڈال دو

حَدَّثَنَا أَبُو الطَّيِّبِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ أُتِيَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ حِينَ دَخَلَ يَوْمٌ مِنْ أَشْهُرِ الْعَجَمِ فَقَالُوا: أَيُّهَا الْأَمِيرُ، إِنَّ لِنِيلِنَا هَذَا سُنَّةٌ لَا يَجْرِي إِلَّا بِهَا، فَقَالَ [ص:1425] لَهُمْ: «وَمَا ذَاكَ؟» قَالُوا: إِذَا كَانَ إِحْدَى عَشْرَةَ لَيْلَةً تَخْلُو مِنْ هَذَا الشَّهْرِ، عَمَدْنَا إِلَى جَارِيَةٍ بِكْرٍ بَيْنَ أَبَوَيْهَا، فَأَرْضَينَا أَبَوَيْهَا، وَجَعَلْنَا عَلَيْهَا مِنَ الثِّيَابِ أَفْضَلَ مَا يَكُونُ، ثُمَّ أَلْقَيْنَاهَا فِي هَذَا النِّيلِ. فَقَالَ لَهُ عَمْرُو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” إِنَّ هَذَا لَا يَكُونُ أَبَدًا فِي الْإِسْلَامِ، وَإِنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ، فَأَقَامُوا يَوْمَهُمْ، وَالنِّيلُ لَا يَجْرِي قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، حَتَّى هَمُّوا بِالْجِلَاءِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَمْرٌو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِذَلِكَ، فَكَتَبَ أَنْ قَدْ أَصَبْتَ بِالَّذِي فَعَلْتَ، وَإِنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ، وَبَعَثَ بِطَاقَةً فِي دَاخِلِ كِتَابِهِ، وَكَتَبَ إِلَى عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «إِنِّي قَدْ بَعَثْتُ إِلَيْكَ بِطَاقَةً فِي دَاخِلِ كِتَابِي إِلَيْكَ، فَأَلْقِهَا فِي النِّيلِ» ، فَلَمَّا قَدِمَ كِتَابُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخَذَ الْبِطَاقَةَ فَفَتَحَهَا، فَإِذَا فِيهَا: مِنْ عَبْدِ اللَّهِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، إِلَى نِيلِ أَهْلِ مِصْرَ، أَمَّا بَعْدُ، ” فَإِنْ كُنْتَ تَجْرِي مِنْ قِبَلِكَ فَلَا تَجْرِ، وَإِنْ كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُجْرِيكَ، فَأَسْأَلُ اللَّهَ الْوَاحِدَ الْقَهَّارَ أَنْ يُجْرِيَكَ، قَالَ: فَأَلْقَى الْبِطَاقَةَ فِي النِّيلِ قَبْلَ الصَّلِيبِ بِيَوْمٍ، وَقَدْ تَهَيَّأَ أَهْلُ مِصْرَ لِلْجَلَاءِ مِنْهَا، لِأَنَّهُ لَا تَقُومُ مَصْلَحَتُهُمْ فِيهَا إِلَّا بِالنِّيلِ، فَلَمَّا أَلْقَى الْبِطَاقَةَ أَصْبَحُوا يَوْمَ الصَّلِيبِ، وَقَدْ أَجْرَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ سِتَّةَ عَشَرَ ذِرَاعًا فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَطَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تِلْكَ السُّنَّةَ السُّوءَ عَنْ أَهْلِ مِصْرَ إِلَى الْيَوْمِ

اس کی سند میں عَبْدُ اللهِ بنُ صَالِحِ بنِ مُحَمَّدِ بنِ مُسْلِمٍ الجُهَنِيُّ ہے جس کا الذہبی نے دفاع کیا ہے اور ان کے شیخ ابن لھیعہ سے بھی محدثین نے روایت لی ہے
وَبِكُلِّ حَالٍ، فَكَانَ صَدُوْقاً فِي نَفْسِهِ، مِنْ أَوْعِيَةِ العِلْمِ، أَصَابَهُ دَاءُ شَيْخِهِ ابْنِ لَهِيْعَةَ، وَتَهَاوَنَ بِنَفْسِهِ حَتَّى ضَعُفَ حَدِيْثُهُ، وَلَمْ يُتْرَكْ بِحَمْدِ اللهِ، وَالأَحَادِيْثُ الَّتِي نَقَمُوهَا عَلَيْهِ مَعْدُوْدَةٌ فِي سَعَةِ مَا رَوَى
امام احمد نے کہا عبد الله بن صالح فسد بأخرة، وليس هو بشيء آخری عمر میں اس کی عقل میں فساد ہوا کوئی چیز نہیں
سند میں ایک مجہول عَمَّنْ حَدَّثَهُ ہے
لہذا سند ضعیف ہے

اس کی ایک اور سند کتاب الطيوريات صدر الدين، أبو طاهر السِّلَفي أحمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن إبراهيم سِلَفَه الأصبهاني (المتوفى: 576هـ) میں ہے
أخبرنا محمد، أخبرنا أبو محمد (1) ، أخبرنا أبو العباس محمد بن جعفر بن محمد ابن كامل الحضرمي، سنة ثمان وثلاثين وثلاثمائة، حدثنا خير بن عرفة الأنصاري، حدثنا هانِئُ بن المتوكِّل الإسكندراني (2) ، حدثنا ابنُ لَهِيعَة، عن قيس بن الحجَّاج (3) ، قال: ((لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ، أَتَى أهلُهَا إلَى عَمْرُو بن العاص حِينَ دَخَلَ بُؤْنَة (4) مِنْ أَشْهُرِ الْعَجَمِ، فقالُوا لَهُ: أَيُّها اْلأَمِيرُ، إِنَّ لِنِيلِنَا هَذَا سُنَّةً لاَ يجْرِي إِلاَّ بِهَا، فقالَ لَهُمْ: وَما ذَلِكَ؟، فقالُوا: إِذَا كانَ ثِنْتَيْ عَشرةَ لَيْلَةً تَخْلُوا مِنْ هذَا الشَّهْرِ عَمَدْنَا إِلىَ جَارِيَةٍ بِكْرٍ بَيْنَ أَبَوَيْهَا (5) ، فَأَرْضَيْنَا أبوَيْهَا وَحَمَلْنَا عَلَيْهَا مِنَ الْحُلِيِّ وَالثِّيَابِ أَفْضَلَ ما يَكُونُ، ثُمَّ أَلْقَيْنَاهَا في النِّيلِ، فقال لَهُمْ (6)
عمرُو: إنَّ هَذَا لاَ يَكُونُ في [ل 214/ب] الإِسْلاَمِ، وَإِنَّ الإِسْلاَمَ يَهْدِمُ مَا كانَ قَبْلَهُ، فأَقَامُوا بُؤْنَة

لیکن وہ منقطع ہے
وفيه انقطاع أيضا لأن قيسا لم يسمع عن عمرو بن العاص.

—————-

عائشہ رضی الله عنہا سے منسوب ایک روایت ہے لیکن اس میں متن میں اضطراب ہے

بیہقی سنن الکبریٰ میں عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:

لَيْسَتْ التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ قَبْلَ الْبَلَاءِ إنَّمَا التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ بَعْدَ الْبَلَاءِ لِتَدْفَعَ بِهِ الْمَقَادِيرَ
تعویذ وہ نہیں جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت کے بعد دفع کے لئے لٹکایا جائے

اس کے برعکس حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں

وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «لَيْسَتِ التَّمِيمَةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ بَعْدَ الْبَلَاءِ، إِنَّمَا التَّمِيمةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ قَبْلَ الْبَلَاءِ
عائشہ رضی الله روایت کرتی ہیں کہ تعویذ نہیں جو آفت کے بعد لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے

مضطرب المتن روایت بھی قابل رد ہوتی ہے کیونکہ یہ واضح نہیں رہا کہ کیا کہا گیا تھا

مسنون دعائیں صحیحن میں جو بھی میں ہیں وہ دعائیں نماز والے سجدوں میں عربی میں مانگ سکتے ہیں یا نہیں؟؟

رسول صلی.اللہ علیہ.وسلم نے دو مینڈھےلیکر ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے یہ حدیث کونسی حدیث کی بک میں ہے؟؟ اور اس حدیث سے ایصال ثواب کا جواز نکالا جاتا ہے
اور ایصال ثواب کے حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں پلیز وہ بھی بیان کر دیجیے؟ ؟

جواب

جی نماز کے علاوہ اگر سجدہ کر رہے ہیں تو اردو میں دعا مانگ سکتے ہیں
——-
صحیحین کی دعائیں نماز کے سجدوں میں مانگ سکتے ہوں
——–
حدَّثنا عثمانُ بن أبي شَيبةَ، حدَّثنا شَريك، عن أبي الحَسناء عن الحَكَم، عن حَنَش، قال:
رأيت علياً يضحِّي بكبشَين، فقلتُ له: ما هذا؟ فقال: إن رسولَ اللهِ -صلَّى الله عليه وسلم- أوصاني أن أُضحِّي عنه، فأنا أُضحِّي عنه

حنش نے روایت کیا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربان کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا : یہ کیا ہے؟ (آپ دو مینڈھے کیوں قربان کر رہے ہیں) انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کرو ں پس میں ان کی طرف سے ایک قربانی کرتا ہوں۔

(سنن ابی داوُد، جلد دوم ،کتاب قربانی کے مسائل(2790
شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں کہ اس میں أبي الحسناء مجھول راوی ہے لہذا سند ضعیف ہے
دوم شريك النخعي کا حافظہ خراب ہے
سوم اس میں وحنش بن المعتمر الكوفي ہے جس پر ایک سے زائد کی جرح ہے

میت نے اگر کوئی قربانی کی منت مانی ہو تو اس کے ورثا کے لئے ہے کہ وہ میت کی جانب سے قربانی کر سکتے ہیں

کیا چھ اذکار غم ،پریشانی ، دکھ ، تکلیف ، بیماریوں اور گناہوں کے خلاف ایک بہترین اور کارگر ہتھیار ہیں؟؟

جواب

ذکر الله کی عبادت ہے اور کسی بھی الفاظ میں کیا جا سکتا ہے

راقم اللہ کی عبادت سے نہیں روک سکتا
لیکن ان  اذکار کا مقصد دنیا کا فائدہ نہیں ہے نہ انبیاء نے ان کو اس مقصد کے تحت کیا ہے

السلام علیکم
اگر قرآن صرف دل کی بیماریوں یعنی شرک منافقت بغض حسد کیلیے شفا ہے جیسا کا مالک کا فرمان ہے

یایھا الناس قد جاءتکم موعظة من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی و رحمة للمومنین
لیکن نبی ص.ع نے ہمیں بخار کیلیے موذتین پڑھنے کا کہا تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن جسمانی بیماریوں کیلے بھی شفا ہے ؟؟
اور مسلم.کی حدیث میں ہے کہ.جس گھر میں سورت البقرہ پڑھی جاتی ہے وہاں شیطان نہیں آتا اس بات کو وضاحت سے سمجھا دیجیے جزاک اللہ

جواب

جو قرآن کو جسمانی بیماریوں کے لئے شفا قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی ایک ایک آیت سے فلاں فلان بیماری میں شفا لی جا سکتی ہے – وہ اس سے تعویذ بناتے ہیں جو شرک ہے – وہ اس کو برتن پر لکھ کر پیتے ہیں جو بدعت ہے
————-
دم کرنا حدیث سے ثابت ہے اور یہ دعا ہے
‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ ﷺ وَوَفَاتِهِ)
4439.
حَدَّثَنِي حِبَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى نَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ طَفِقْتُ أَنْفِثُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ…
صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں (باب: نبی کریم کی بیماری اور آپ کی وفات)
4439.
مجھ سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا ، کہاہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں یونس نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین ( سورۃ فلق اور سورۃ الناس ) پڑھ کردم کر لیا کرتے تھے ا وراپنے جسم پراپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے ، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معو ذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرا کر تی تھی ۔…

قرآن کی متعدد آیات میں سے صرف انہی سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے دم کیا ہے –
معوذتین میں الله سے پناہ مانگی گئی ہے جس میں بعض چیزیں جسم پر اثر کرتی ہیں مثلا نظر بد – اور جادو اور حسد اور وسوسہ اندازی سے ڈپریشن ہوتا ہے
لہذا ہم بھی ان سے دم کریں گے لیکن بس انہی سے کسی اور سورت سے نہیں
——-

سوره بقرہ سے شیطان کا بھاگنا اس کے دلائل ہیں کہ ان کی وجہ سے شیطانی شبھات کا خاتمہ ہوتا ہے – سوره بقرہ میں یہود و نصرانی کے خلاف دلائل دیے گئے ہیں اور پھر احکام کی فہرست ہے پھر بنی اسرائیل کے قصے اور پھر آخر میں آیت الکرسی ہے پھر احکام ہیں پھر آخر میں الله کی حمد ہے
اس میں جسم کا کوئی ذکر نہیں ہے

معوذتین کی خبر کا ملنا ایک بات ہے اور پھر اس میں
OVER-STRETCHING
کر کے اس سے اپنا مطلب کشید کرنا صحیح نہیں

یعنی ہمیں جنتا علم ہوا ہم اتنا ہی کریں گے اس عمل کو خاص معوذتین کے لیے مانتے ہوئے

اصل میں وظیفہ کہتے کس کو ہیں؟

دَم ، دعا ، ذکروازکار کا ورد اور وظائف کے ورد مین کیا فرق ہے

اک عام انسان کس اصول کے تحت کس کسوٹی پر پَرکھے کہ صحیح وظائف کون سے ہیں اور کون سے درست نہیں ہیں؟ یہ فیصلہ کون کرے گا؟

مثلاََ علماء نے جو مختلف بیماریوں اور مشکلات و مصائیب کے حل کے لیئے جو وظائف بتائے ہیں کہ ان کا ورد کرنا اگر صحیح نہیں ہے تو کیوں کس دلیل کی بنا پر ان کو جھٹلا دیا جائے ؟؟

صحیح وظائف اور غلط وظائف میں کیسے فرق کیا جائے؟

کیا ان وظائف کا تعلق بھی عملیات اور جنات وغیرہ سے ہے ؟

جواب

اصل میں وظیفہ کہتے کس کو ہیں؟
وظیفہ یعنی کسی عبارت کو بار بار پڑھنا – مخصوص تعداد ، یا اوقات میں پڑھنا
————-
دَم ، دعا ، ذکروازکار کا ورد اور وظائف کے ورد مین کیا فرق ہے ،
حدیث میں دم کا ذکر ہے جس میں دعا پڑھ کر ہاتھوں کو جسم پر پھیرا جاتا ہے
دعا اپ کو معلوم ہے
ذکر کرنا جس میں الله کی تسبیح ہو یہ بھی حدیث میں اتا ہے مثلا سبحان الله یا الحمدللہ کہنا وغیرہ
اس کے بعد لوگوں نے خود وظائف ایجاد کیے ہیں کہ فلاں وقت اس کو پڑھا جائے اس ساعت میں ایسا کیا جائے یہ بدعات ہیں

کیا ذکر و ازکار اور دم اور وظئف اک ہی چیز کے مختلف نام ہین؟
نہیں ایک نہیں جیسا وضاحت کی الگ ہیں
—————-

اک عام انسان کس اصول کے تحت کس کسوٹی پر پَرکھے کہ صحیح وظائف کون سے ہیں اور کون سے درست نہیں ہیں؟ یہ فیصلہ کون کرے گا؟
ایک عام آدمی کو چاہیے کہ صحیح بخاری و مسلم میں دیکھے کہ کیا احادیث ہیں ان پر عمل کرے
————
مثلاََ علماء نے جو مختلف بیماریوں اور مشکلات و مصائیب کے حل کے لیئے جو وظائف بتائے ہیں کہ ان کا ورد کرنا اگر صحیح نہیں ہے تو کیوں کس دلیل کی بنا پر ان کو جھٹلا دیا جائے ؟؟
علماء کے پاس خود کوئی دلیل نہیں کہ یہ واقعی ان بیماریوں کا علاج ہیں کیونکہ یہ ان کی اپنی ایجادات ہیں- اس میں وہ تجربہ کرتے ہیں کہ فلاں کو یہ بتایا تھا اس نے پڑھا افاقہ ہوا
———–
صحیح وظائف اور غلط وظائف میں کیسے فرق کیا جائے؟
صحیح احادیث کو دیکھا جائے – کسی بیماری پر کوئی وظیفہ پڑھنے کا کسی حدیث میں ذکر نہیں
———–
کیا ان وظائف کا تعلق بھی عملیات اور جنات وغیرہ سے ہے ؟
بعض کا ہے – اس میں تعویذ سر فہرست ہیں جن کو بنانے کا ایک خاص عمل ہے
اس پر کتابیں موجود ہیں جو جادو پر مبنی ہیں

وظائف کی کیا حقیقت ہے کیا دلیل ہے کیا بیک گراؤنڈ ہے یہ کہاں سے آئے اور کیسے آئے اس امت میں ان کی کیا تاریخ ہے

جواب

احادیث میں مختلف دعائیں ہیں جو عبادت سے تعلق رکھتی ہیں ان میں الله تعالی کی تعریف ہے اور اسماء کو پکارا جاتا ہے
حدیث میں اتا ہے کہ مرض وفات میں عائشہ رضی الله عنہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہی ان پر دم کر رہی تھیں

یہ بات کہ فلاں صورت سے یہ فائدہ ہو گا بعض روایات میں ہے مثلا سوره کہف پڑھنا کہ یہ دجال کے فتنہ سے بچائے گی لیکن راقم اس کو کعب الاحبار کا قول کہتا ہے

اسی طرح سوره الملک پڑھنا کہ یہ عذاب قبر سے بچائے گی یہ روایت میں ہے جو ضعیف ہے

اسی طرح ضعیف روایت میں ہے سوره یسں مرتے لوگوں پر پڑھو

اس طرح کی تمام روایات شامی اور بصریوں کی روایت کردہ ہیں جو قرن اول میں اسلام کے تصوف کے مراکز تھے بصرہ کے پاس ایک شہر عبدان تھا جہاں یہود رہتے تھے اور شام میں نصرانییوں کا زور تھا – یہود کے نزدیک اسماء الحسنی میں قوت بذات خود ہے

مثلا کلام الله پر عراق میں کہا جاتا تھا کہ اس کو اگ میں ڈالو تو جلے گا نہیں اور قرآن کو تعویذ بنا کر استعمال کرنا محدثین نے شروع کر دیا وہ زعفران سے قرآن کی آیات پرتن کے اندر کناروں پر لکھتے اور پھر اس کو پیتے تھے
اس کو آج
Bowl Spell
کہا جاتا ہے

Aramaic Bowl Spells: Jewish Babylonian Aramaic Bowls Volume One
Book by James Nathan Ford, S Bhayro, and Shaul Shaked

اور اس پر امام احمد کا عمل تھا

⇑ کیا زعفران سے برتن پر قرانی آیات لکھ کر پینا صحیح ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/دم-اور-تعویذ/

امام احمد کے بیٹے کے مطابق
خاندان والوں اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے امام احمد ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی کوئی روایت لکھتے تھے

اس طرح محدثین اور متصوفین دونوں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے اور اسلام میں بدعات ایجاد کر رہے تھے

دم کرنا دعا ہے لیکن اس کو برتن پر پھونکنا اس کو لکھ کر دھو کر پینا کسی حدیث میں نہیں ملتا

اس کے بعد فضائل کے نام پر اس قسم کی روایات لکھی گئیں جن میں سورتوں کی فضیلت کا ذکر ہوتا تھا اس طرح قرآن کو فضیلت اور غیر فضیلت میں بانٹ دیا گیا – جو چیز عرش سے آئی ہو اس میں سے بعض کو فضیلت والا کہنا کیا ثابت کرتا ہے ؟ اپ خود سوچیں کہ اس کا انجام کیا ہے کہ الله تعالی کے بعض کلام میں کوئی فضیلت نہیں اور بعض میں ہے ؟ راقم کہتا ہے یہ سوچ ہی غلط ہے –

پھر ان آیات کو جسمانی بیماریوں کے لئے استمعال کرنے پر دلائل لائے جاتے ہیں کہ
ایک روایت میں ہے کہ صحابہ ایک سفر میں تھے اور انہوں نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور قبیلہ والوں سے کھانے پینے کو مانگا جس کا انہوں نے انکار کر دیا اتفاق سے ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا اور وہ علاج یا ٹوٹکا پوچھنے صحابہ کے پاس بھی آئے جس پر ایک صحابی نے (اپنی طرف سے) سوره الفاتحہ سے دم کر دیا اور وہ سردار ٹھیک کو گیا واپس آ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سب بتایا گیا تو آپ نے کہا تم کو کیسے پتا کہ سوره الفاتحہ دم ہے؟

یعنی اپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا یہ تو میرا حکم نہیں ہے کہ فاتحہ سے دم کرو تم کو کس نے یہ کہا ؟ اور اس وجہ سے کہیں نہیں ملتا کہ سوره فاتحہ سے دم کیا جاتا ہو یا اصحاب رسول نے کیا ہو صرف یہ ایک روایت ہے جو خاص واقعہ ہے اس کا تعلق حق ضیافت لینے سے ہے

لیکن اپ کو معلوم ہے نصوص کو مسخ کر کے اپنا مدعا نکالنا مولویوں کو اتا ہے لہذا انہوں نے دم درود پر لوگوں کو لگا دیا ہے ان کے ذریعہ اپنی دکان چمکا رہے ہیں، کوئی تعویذ لکھ رہا ہے تو کوئی جن نکال رہا ہے اور
وترى كثيرا منهم يسارعون في الإثم والعدوان وأكلهم السحت لبئس ما كانوا يعملون لولا ينهاهم الربانيون والأحبار عن قولهم الإثم وأكلهم السحت لبئس ما كانوا يصنعون
سوره المائده

لہذا اہل حدیث مولوی ہو وہابی ہو یا بریلوی دیوبندی شیعہ یہ سب جن نکالتے ہیں – جنات سے لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لوگوں کو سکھاتے ہیں کہ جن انسان میں حلول کر جاتے ہیں اور پھر غریب لوگوں پر تشدد کرتے ہیں
مثلا امام ابن تیمیہ خود جن نکالنے میں تشدد کرتے تھے

⇑ امام ابن تیمیہ اور جنات کی دنیا
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/

پھر علماء دینا میں بد روحوں کے بھی قائل ہیں اس مکروہ عقیدے کو کتابوں سے پھیلاتے ہیں مثلا
عبد الرحمان کیلانی صاحب روح عذاب قبر اور سماع موتی میں اس کو بیان کرتے ہیں

اب یہ تو حال ہے قرآن و حدیث پڑھنے والوں کا – وہ جو تصوف والے ہیں ان کا کیا ذکر کریں وہ تو نا معلوم کیا کیا کر رہے ہیں
مثلا اعمال قرانی اشرف علی تھانوی کی کتاب یا بہشتی زیور جیسی کتابوں میں علماء نے ہی عجیب عجیب باتوں کے لئے آیات کا استعمال بیان کیا ہے

جواب

وظيفة عربی کا لفظ ہے اس کا مطلب
assignment
function
http://www.almaany.com/en/dict/ar-en/وظيفة/

ہے

یعنی اس کو پڑھنے سے کوئی کام ممکن ہو – اس میں وہ مسائل ہیں جیسے اولاد نہ ہو رہی ہو تو پڑھنا وغیرہ

محدثین نے صرف اذکار کا لفظ استمعال کیا ہے – وظیفہ کا لفظ صوفیاء کا ہے
یہ الگ الگ مقصد ہے
ذکر تو عبادت ہے
اور وظیفہ کا مقصد کوئی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے مثلا شادی ، محبوب، اولاد

جواب

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عُبيدُ الله بنُ عمر بن ميسرة ومحمد بن قُدامة في آخرين، قالوا: حدَّثنا عثَّامٌ، عن الأعمش، عن عطاء بن السائب، عن أبيه
عن عبد الله بن عمرو، قال: رأيتُ رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – يعقِدُ التسبيحَ. قال ابنُ قدامة: بيمينه
ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے تسبیح گنی اور ابن قدامہ نے کہا سیدھے ہاتھ پر

ابن قدامہ کی تشریح ان کی ذاتی رائے ہے کیونکہ اس کے باقی طرق میں ایسا کہیں نہیں کہ یہ تسبیح کس طرح گنی گئی
ابن قدامہ نسائی اور ابو داود کے شیخ ہیں

ہاتھ پر تسبیح کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے

البتہ مروجہ تسبیح جو دانوں کی مالا پر ہوتی ہے یہ ایک نصرانی روایت ہے لہذا اس کو استمعال نہ کرنا بہتر ہے

سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمٌ وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ، مَوْلَى صَفِيَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ صَفِيَّةَ، تَقُولُ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيَّ أَرْبَعَةُ آلَافِ نَوَاةٍ أُسَبِّحُ بِهَا، قَالَ: «لَقَدْ سَبَّحْتِ بِهَذِهِ، أَلَا أُعَلِّمُكِ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَبَّحْتِ؟» فَقُلْتُ: بَلَى عَلِّمْنِي. فَقَالَ: ” قُولِي: سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ خَلْقِهِ “: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ صَفِيَّةَ [ص:556] إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هَاشِمِ بْنِ سَعِيدٍ الكُوفِيِّ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمَعْرُوفٍ وَفِي البَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

ام المؤمنین صفیہ بنت حییؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ، میرے پاس چار ہزار کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر میں تسبیح پڑھا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حیی کی بیٹی! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: ان گٹھلیوں پر میں تسبیح پڑھ رہی ہوں۔
البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی میں ہے
– حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الفَرَجِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الحَارِثِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوَاةٌ، أَوْ قَالَ: حَصَاةٌ تُسَبِّحُ بِهَا، فَقَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا [ص:563] أَوْ أَفْضَلُ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ».
سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک صحابیہ کے پاس گیا جن کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی ہوئی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں

البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے یعنی ان کے دور میں اس سے دلیل لی گئی

جواب

إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، لا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

یہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے منسوب قول ہے حدیث نبوی نہیں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ البَلْخِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ الأَسَدِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، قَالَ: إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لاَ يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ نے اس کو عمر کا قول کہا ہے

سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ کا کسی بدری صحابی سے سماع نہیں ہے سند منقطع ہے

صحیح مسلم میں ہے

فَوَاللهِ مَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، وَلَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، إِلَّا عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ»
الله کی قسم نہ حسن (بصری) نے (کبھی) کسی بدری سے بلاواسطہ حدیث ہمیں سنائی نہ سعید بن مسیب نے ایک سعد بن مالک کے سوا کسی اور بدری سے براہ راست سنی ہوئی کوئی حدیث سنائی

حدیث نہ سنانا ثابت کرتا ہے سعید کا سماع عمر سے نہیں ہے

جامع التحصيل في أحكام المراسيل
المؤلف: صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ)

قال يحيى القطان سعيد بن المسيب عن عمر رضي الله عنه مرسل
سعید کی عمر سے روایت مرسل ہے

جواب
مستدرک الحاکم میں دو روایات ہیں
حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَانِيُّ، ثنا مَسْعُودُ بْنُ زَكَرِيَّا التُّسْتَرِيُّ، ثنا كَامِلُ بْنُ طَلْحَةَ، ثنا فَضَالُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ لِلَّهِ مَلَكًا مُوَكَّلًا بِمَنْ يَقُولُ: يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، فَمَنْ قَالَهَا ثَلَاثًا قَالَ الْمَلَكُ: إِنَّ أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ قَدْ أَقْبَلَ عَلَيْكَ فَاسْأَلْ ”أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نے کہا کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا الله کا ایک موکل فرشتہ ہے جو بھی يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ کہتا ہے تو یہ فرشتہ اس پر کہتا ہے أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ نے تجھ کو قبول کیا اب سوال کر
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَّارُ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الدُّنْيَا، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنْبَأَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي أُسَيْدٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَقُولُ: يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَلْ فَقَدْ نَظَرَ اللَّهُ إِلَيْكَ» الْفَضْلُ بْنُ عِيسَى هُوَ الرَّقَاشِيُّ، وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ عَمُّهُ يَزِيدَ بْنَ أَبَانَ إِلَّا أَنِّي قَدْ وَجَدْتُ لَهُ شَاهِدًا مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ ”
حاکم نے کہا خدشہ ہے اس میں يزيد بن أبان الرقاشي ہے لیکن یہ انس رضی الله عنہ کی روایت أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضی الله عنہ کی روایت پر شاہد ہے
========
الذھبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہےلیکن میزان میں فضال بن جبير کا ذکر کر کے اس کو ضعیف قرار دیا ہے
المعلمي نے النكت الجياد میں کہافضّال بن جبير أبو المهند الغداني:“الفوائد” (ص 302): “تالف زعم أنه سمع أبا أمامة وروى عنه ما ليس من حديثه”.فضّال بن جبير بے کار ہے اس کا دعوی ہے اس نے ابو امامہ سے سنا جبکہ وہ ان کی احادیث نہیں ہیں
شاہد حدیث میں يزيد بن أبان الرقاشي جو ضعیف ہے