ابدال – ایک لایعنی اصطلاح

چھٹی صدی ہجری کی ابتداء میں وفات پانے والی دیلمی کتاب  الفردوس بمأثور الخطاب از أبو شجاع الديلميّ الهمذاني (المتوفى: 509هـ)   کے مطابق أنس بن مَالك سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

الأبدال أَرْبَعُونَ اثْنَان وَعِشْرُونَ بِالشَّام وَثَمَانِية عشر بالعراق كلما مَاتَ مِنْهُم بدل الله مَكَان أخر فَإِذا جَاءَ الْأَمر قبضوا كلهم

ابدال چالیس ہیں – ٢٨ ان میں شام میں اور ١٢ عراق میں ہیں- ان میں سے جو مرتا ہے تو الله ایک اور سے ان کو بدل دیتا ہے پھر جب (قیامت کا) امر ہو گا سب (کے نفوس) قبض ہو جائیں گے

چھٹی صدی کے آخرمیں  وفات پانے والے  ابن الجوزی نے ابدال کے نظریہ کو کتاب الموضوعات میں رد کیا –  ساتویں صدی کے محدث تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643هـ)  فتاوى ابن الصلاح  میں فتوی دیتے ہیں

وأما الأبدال فأقوى ما رويناه فيهم قول علي رضي الله عنه إنه بالشام الأبدال، وأيضًا فإثباتهم كالمجمع عليه بين علماء المسلمين وصلحائهم. وأما الأوتاد والنجباء والنقباء فقد ذكرهم بعض مشايخ الطريقة، ولا يثبت ذلك. ولا تزال طائفة من الأمة ظاهرة على الحق إلى أن تقوم الساعة، وهم العلماء

اور جہاں تک ابدال کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں علی رضی الله عنہ کا قول روایت کیا جاتا ہے کہ ابدال شام میں ہیں اور اسی طرح کا اثبات کیا ہے علماء مسلمین نے اور ان کے صالح لوگوں نے اور جہاں تک الأوتاد والنجباء والنقباء  کا تعلق ہے تو اس کا ذکر بعض طریقت کے مشائخ نے کیا ہے جو ثابت نہیں ہے اور(حدیث) میری امت کا ایک گروہ حق پر غالب رہے گا  یہاں تک قیامت آئے –  تو یہ علماء ہیں

ابن تیمیہ نے آٹھویں صدی میں فتوی میں ابدال کے نظریہ میں  بھی گنجائش پیدا کی کہ ابدال کی خصوصیت صرف چالیس میں محدود نہیں – کتاب الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان  میں الأولياء، والأبدال، والنقباء، والنجباء، والأوتاد، والأقطاب پر ابن تیمیہ کہتے ہیں

فليس في ذلك شيء صحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم ينطق السلف بشيء من هذه الألفاظ إلا بلفظ الأبدال.

اس میں کوئی صحیح حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نہیں اور سلف سے ان الفاظ پر بات منقول نہیں سوائے ابدال کے لفظ کے

کتاب   العقيدة الواسطية: اعتقاد الفرقة الناجية المنصورة إلى قيام الساعة أهل السنة والجماعة میں اہل سنت و الجماعت میں ابن تیمیہ نے ابدال کو بھی ان میں شمار کیا ہے جس سے ظاہر ہے ان کے نزدیک یہ لوگ موجود تھے

ابن تیمیہ کے ہم عصر الذھبی نے کتاب میزان الاعتدال میں انس رضی الله عنہ کی ابدال سے متعلق روایت پر کہا هذا باطل یہ باطل ہے لیکن اپنی تاریخ الاسلام میں جگہ جگہ لوگوں کو ابدال کہہ کر ان کا قد بڑھایا ہے

اگلی صدیوں میں المناوی اور سیوطی نے واپس ابدال کے وجود پر بحث کی اور ثابت کیا کہ یہ پرسرار لوگ موجود  ہیں

دیکھتے ہیں  ائمہ حدیث کیا کہتے تھے

کتاب  سؤالات السلمي للدارقطني کے مطابق دارقطنی کہتے ہیں

سمعتُ أبا بكرٍ النَّيسابوريَّ يقولُ: سمعتُ أبا موسى الطُّوسيَّ  يقولُ: سمعتُ أبا بكرِ بنَ زَنْجُويَهْ  يقولُ: سمعتُ أحمدَ ابنَ حنبلٍ   يقولُ: كان بـ «بغدادَ» رجلٌ من الأبدالِ؛ وهو أبو إسحاقَ   النَّيسابوريُّ. يريدُ: إبراهيمَ بنَ هانئٍ

أبا بكرِ بنَ زَنْجُويَهْ نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ بغداد میں ایک شخص أبو إسحاقَ   النَّيسابوريُّ ہے جو ابدال میں سے ہے اس سے ان کی مراد تھی إبراهيمَ بنَ هانئٍ

علل دارقطنی میں امام دارقطنی کہتے ہیں النَّضْرُ بْنُ كَثِيرٍ السَّعْدِيُّ أَبُو سَهْلٍ کے لئے کہتے ہیں ان کو َ الْأَبْدَالِ کہا جاتا ہے

امام بخاری کتاب تاریخ الکبیر میں  فَروَة بْن مُجالِد، مَولَى اللَّخم کے ترجمے میں لکھتے ہیں

وَكَانُوا لا يشكون أَنه من الأَبدال، مُستجاب الدَّعوة. نَسَبَهُ حُجر بْن الحارث.

اور اس میں شک نہیں کہ یہ ابدال تھے ان کی دعائیں قبول ہوتیں اس کی نسبت حجر بن الحارث نے کی

یعنی حجر بن الحارث نے  فَروَة بْن مُجالِد کو ابدال میں شمار کیا-   کتاب  الإصابة في تمييز الصحابة  از ابن حجر کے مطابق  وقال ابن مندة  حديثه مرسل، وهو مجهول  ابن مندہ کے بقول یہ ایک مجھول شخص تھے

کتاب الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم کے مطابق مندرجہ سات لوگ ابدال تھے

أيوب بن النجار

إدريس بن يحيى الخولاني المصري

الحسن بن علي بن مسلم السكوني

  سهل بن مزاحم المروزي

عبد الملك بن عبد العزيز أبو نصر التمار

عبد الرزاق بن عمر الدمشقي العابد

محمد بن عبد الرحمن بن عمرو الاوزاعي

ابن ابی حاتم نے ان سب کے ترجمہ میں ان کو ابدال قرار دیا ہے

العجلی کتاب الثقات میں الصَّعق بن حزن العيشي  کو ابدال میں سے   لکھتے ہیں

کتاب  التاريخ الكبير المعروف بتاريخ ابن أبي خيثمة – السفر الثالث  کے مطابق

حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حدثنا هشام بْن يُوسُف، عَنْ عِمْرَان أبي المنديل، عَنِ  القاسم بْن ذي خَسْرُوَا الصَّنْعَانِيّ، قَالَ: قَالَ لي عَطَاء: تدري مِمَّنْ الأبدال؟ قلت: لا. قَالَ: مِنْ قومك دِنيَة.

عَطَاء نے القاسم بْن ذي خَسْرُوَا الصَّنْعَانِيّ سے پوچھا تم کو پتا ہے ابدال کون ہیں ؟ القاسم بْن ذي خَسْرُوَا الصَّنْعَانِيّ نے کہا نہیں – عَطَاء نے کہا یہ لوگوں میں سب سے کم عزت والے ہیں

کتاب الكامل في ضعفاء الرجال  از أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمد بْنِ عَمْرو الخفاف، حَدَّثَنا عَبد الصمد بن الفضل، قَالَ: سَمِعْتُ شهاب بن معمر يقول كان حماد بن سلمة يعد من الابدال وعلامة الابدال ان لا يولد لهم كان تزوج سبعين امرأة فلم يولد.

عَبد الصمد بن الفضل کہتے ہیں انہوں نے شهاب بن معمر کو  کہتے سنا حماد بن سلمہ کو ابدال میں شمار کیا جاتا ہے اور ابدال کی علامت ہے کہ ان کی اولاد نہیں ہوتی چاہے ستر عورتوں سے شادی کریں

عطاء بن عَبد الله کے ترجمے میں ابن عدی لکھتے ہیں

حَدَّثني عُمَر بن الحسن بن نصر، حَدَّثَنا مُؤَمِّلُ بْنُ إِهَابٍ، حَدَّثَنا ضمرة، عنِ ابن عطاء، عن أبيه، قالَ: قُلتُ لأبي يا أبة الأبدال أربعون رجلا؟ قَال: لاَ تقل رجلا إن فيهم نساء.

ابن عطاء نے اپنے باپ عطآ سے پوچھا کہ اے باپ کیا ابدال چالیس مرد ہیں انہوں نے جواب دیا مرد نہ بولو ہو سکتا ہے ان میں عورتیں بھی ہوں

معلوم ہوا کہ ابدال پر محدثین کی کوئی ایک حتمی رائے نہ تھی – ابدال کے وجود کا تصور پھیل رہا تھا لوگوں کو ابدال کہا جاتا تھا لیکن اس کا اصل مفھوم کسی کو پتا نہ تھا – اس لا یعنی اصطلاح کو محدثین اپنی کتب میں نقل کرتے رہے جبکہ وہ اس کے مفھوم سے خود بھی لا علم تھے

—————————————————————–

مزید حوالوں کے لئے کتاب روایات المہدی کے حواشی دیکھیں جو اس ویب سائٹ پر موجود ہے