Category Archives: تصوف

ابن تیمیہ کے کشف کا ذکر

ساتویں  صدی ہجری  کے آخری  سالوں  کا ذکر ہے  جب   السلطان الملك  الناصر ناصر الدين محمد بن قلاوون  کا   دور   تھا   خبر  پھیلی  کہ     أهل السويداء میں سے ایک نصرانی  جس کو أَمِير آل مرا   عساف بن أحمد بن حجى   نے   ملازم   و   کاتب   رکھا ہوا تھا   وہ  شتم رسول کا   مرتکب ہوا    ہے ( البداية ج13 ص335    ذکر   سنة أربع وتسعين وستمائة -)-  ابن کثیر  لکھتے ہیں

عساف بن أحمد بن حجي  الذي كان قد أجار ذلك النصراني الذي سب الرسول عليه السلام قتل ، ففرح الناس بذلك

عساف بن أحمد بن حجي   ،جس نے اجرت پر  اس نصرانی کو  رکھا تھا  جس  نے      سب  النبی     کیا تھا ، اس کا  قتل   ہو گیا تو   لوگ بہت  خوش ہوئے

یعنی  ایک  مسلمان  امیر    عساف بن أحمد بن حجي    کے قتل  پر   اہل مصر  خوش  ہوئے  اور ساتھ ہی   مسلمان    امیر     عساف   کے  کسی نصرانی ملازم   پر الزام  لگایا گیا کہ اس نے    رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی ہے –   یہ نصرانی  کتابت کرتا تھا –

تاریخ اسلام  میں الذھبی  لکھتے ہیں

وفيها كانت فتنة عسّاف بدمشق ورجْم العوامّ له، لكونه حمى نصرانيًا سبَّ النَّبيّ – صَلَّى الله عليه وسلم

ان دنوں  دمشق   میں  فتنہ   عساف  ہوا    اور    لوگوں نے  پتھر  مارے  کہ یہ   نصرانییوں  کا ہمدرد  تھا  جو  سب النبی  کا مرتکب  تھا

الذھبی   عساف ابن الأمير أَحْمَد بْن حجيّ، زعيم آل مرّي کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

أعرابيّ شريف، مُطاع. وهو الَّذِي حمى النّصرانيّ الَّذِي سبّ، فدافع عَنْهُ بكلّ ممكن

یہ شریف  عربی  تھے  ،  تابعدار   تھے  اور  اس نصرانی  کے دوست تھے   جس نے  نبی کو گالی دی تھی ، پس انہوں نے اس کی ہر ممکن مدافعت کی

 الذھبی مزید لکھتے ہیں

فطلع الشيخان زين الدِّين الفارقيّ، وتقيّ الدِّين ابن تيميّة فِي جمْع كبير من الصُلَحاء والعامّة إلى النّائب عزَّ الدِّين أيْبَك الحَمَويّ، وكلّماه فِي أمر الملعون، فأجاب إلى إحضاره وخرجوا، فرأى الناس عسافا، فكلّموه فِي أمره، وكان معه بدويّ، فقال: إنّه خيرٌ منكم. فرَجَمَتْه الخلق بالحجارة. وهرب عساف، فبلغ ذلك نائب السلطنة، فغضب لافتئات العوامّ. وإلا فهو مُسْلِم يحبّ اللَّه ورسوله، ولكن ثارت نفسه السّبعيّة التُّركيّة

اس شتم  کی خبر زين الدِّين الفارقيّ   اور تقيّ الدِّين ابن تيميّة  اور صلحا  و  عوام نے نائب عزَّ الدِّين أيْبَك الحَمَويّ کو دی  اور اس ملعون نصرانی کی حرکت پر کلام کیا  تو  نائب  نے اس کو  حاضر کرنے کا حکم کیا پس لوگ نکلے  اس کو دیکھنے  تو  انہوں نے عساف  کو  پایا ، اس سے اس پر بات کی عساف  کے ساتھ  بدوی تھے ، پس عساف نے جوابا  کہا  کہ وہ نصرانی  تم لوگوں سے بہتر  ہے – یہ سن کر  لوگوں نے پتھر  مارے  اور امیر عساف  بھاگ کھڑے ہوئے ، اس کی خبر نائب سلطان کو دی گئی وہ غصے میں آیا کہ اگر عساف  مسلمان ہے تو اس کو تو اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہونی چاہیے نہ کہ یہ کہ اس نے اپنے دل کو ترکوں  سے ملا دیا ہے   

  الوافي بالوفيات  از   صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ)  میں ہے

وَأما عساف هَذَا فَقتله جماز بن سُلَيْمَان وَهُوَ ابْن أخي عساف بِالْقربِ من الْمَدِينَة النَّبَوِيَّة

عساف کو اس کے بھتیجے جماز بن سُلَيْمَان نے مدینہ المنورہ کے قرب میں قتل کیا

 ابن تغري بردي ،    النجوم الزاهره الجزء السابع ص 363 ص 89 الجزء الثامن  میں سن   ٦٩٣   پر   لکھتے ہیں في هذه السنة قتل الأمير عساف ابن الأمير أحمد بن حجي آل مرا أمير العرب – اس سال  امیر عساف ابن الأمير أحمد بن حجي  کا قتل ہوا –

یہ   پورا واقعہ کوئی سیاسی  قتل معلوم ہوتا ہے  کیونکہ  اگر واقعی    امیر  عساف   واقعی   عابد و نیک تھے تو وہ نصرانی کی   اس طرح   مدد بالکل نہ کرتے اور نہ یہ ممکن تھا کہ        امیر  عساف    دمشق سے نکل کر مدینہ منورہ تک   بغیر مسلمانوں کی  مدد کے پہنچ جاتے –  صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ)  کے مطابق   امیر  عساف    کا قتل سن ٦٩٤  ھ   بمطابق   ١٢٩٥   ع   میں ہوا –   ترک  یا منگول مسلمان  دمشق  پر حملہ کی   تیاری کر رہے تھے  – ممکن ہے    کہ  الأمير عساف    کی ہمدردیاں  ان کے ساتھ ہوں –     آل مرا       عربوں  میں بدوی تھے  اور  ان کا کنٹرول  تجارت  پر تھا  اپنے اونٹوں  پر سامان  لادھ کر   لے جاتے تھے

 نائب  دمشق  نے  امیر   عساف  کے       نصرانی    کاتب کو گرفتار   کیا  اور    جان بخشی کی شرط رکھی کہ یہ مسلمان ہو جائے تو جان بچ جائے گی –   الذھبی      (بحوالہ  تاریخ اسلام )  جو  اس دور میں دمشق  میں ہی تھے فرماتے ہیں  

 وبلغ النّصرانيَّ الواقعةُ فأسلم

 نصرانی  نے واقعہ جان کر اسلام قبول کیا  

لیکن متشدد علماء  نے اس اسلام کو قبول کرنے  سے انکار کر دیا –  ان   سب     کے لیڈر امام ابن تیمیہ  بن گئے     انہوں نے   قبول اسلام   کو رد  کر دیا –    یہ معلوم ہے کہ  دین   میں    کوئی   کافر   یا  اہل  کتاب کا   فرد      اسلام  قبول  کر لے تو     پرانے   گناہ  معاف  ہو جاتے ہیں     لیکن  ابن تیمیہ نے لوگوں کا ایک ہجوم لیا اور     نائب  حاکم  کے سامنے بلوہ کیا   کہ اس نصرانی  کا ایمان معتبر نہیں ہے – نائب حاکم دمشق    نے ابن تیمیہ کو قید کرنے کا حکم دیا اور قید خانہ میں ابن تیمیہ نے کتاب    الصارم المسلول علی شاتم الرسول       لکھی  جس   میں   ابن تیمیہ   نے  موقف پیش  کیا ہے کہ    اگر کوئی   ذمی شخص رسول اللہ    صلی اللہ علیہ  وسلم کی    شان   اقدس    میں     گستاخی کرے   گا تو اس کا قتل واجب  ہے   اس کی   توبہ  قبول نہیں کی جائے گی   اور    نہ اس کا اسلام قبول  ہو گا   –  یہ   فتوی   اسلام    کے    بنیادی   اعتقادات  سے متصادم  ہے   جس   کے مطابق  سب سے بڑے  گناہ  شرک  تک کی معافی   ہے –  ذمی   اگر  شرک  سے  توبہ  کر لے  تو اس کو  قتل  کرنا  حرام  ہے –   واضح   رہے کہ  اگر کوئی مسلم  شتم   کا مرتکب  ہو تو   اس کو   مرتد  سمجھا   جاتا ہے   اور تین دن قید    کر کے  توبہ  کا آپشن  دیا جائے  گا –    بصورت  دیگر  اس کا قتل  کر دیا جاتا ہے –

ابن تیمیہ  کا   ذمی   شاتم   پر یہ فتوی مشہور  ہو گیا  اور    مملکوک حکمران کو فتوی کی قوت پتا چلی اور ابن تیمیہ کو مستقبل کے فتووں کے لئے   چن لیا گیا ،    ان کو قید خانہ سے نکال کر  ، ان کی رائے پر عمل کیا گیا یعنی   نصرانی کا سر قلم کر دیا گیا-

المقفى الكبير از  تقي الدين المقريزي (المتوفى: 845 هـ = 1440 م)  میں ہے

فخاف النصرانيّ عاقبة هذه الفتنة وأسلم. فعقد النائب عنده مجلسا حضره قاضي القضاة وجماعة من الشافعيّة، وأفتوا بحقن دم النصرانيّ، بعد الإسلام

یہ نصرانی  ڈر گیا  اس فتنہ  کے بعد   ،    اسلام لے  آیا ، پس    نائب  کی   ایک مجلس   جس میں  قاضي القضاة       اور شوافع کے علماء   شریک  تھے  کے بعد   فتوی   دیا    گیا   کہ اب  اسلام    قبول  کرنے کے  بعد    بھی اس نصرانی  کا   قتل  ہے  

 مملوک حکمرانوں نے اب ابن تیمیہ سے سیاسی فتوے طلب کرنے شروع کیے تاکہ ادر گرد کے مسلمان و غیر مسلم علاقوں پر حملے کیے جا سکیں – ابن تیمیہ نے بھی شاہ کا مصاحب بننے میں کوئی دیر نہیں کی مثلا ابن تیمیہ نے آرمینی عیسائیوں کے خلاف مملوک حکمرانوں کے حق میں فتوی دیا -دوسری طرف مشرق سے منگول مسلمان جو  مصرو شام کی طرف بڑھ رہے تھے    ان کے خلاف  فتوے   کے   لئے   مملوک حکمرنوں کو یہاں ابن تیمیہ کی ضرورت پڑی- ابن تیمیہ نے فتوی دیا کہ یہ منگول مسلمان التتار   صرف نام کے مسلمان ہیں اور   باطن  میں  یہ چنگیز خان کے حکم پر چلتے ہیں نہ کہ الله کے قانون پر لہذا چاہے یہ کلمہ گوہوں  یا نماز پڑھتے ہوں     ان کو بے دریغ قتل کیا جائے  –   اس  طرح  اسلام   میں  مسلمانوں کو ہی قتل  کرنے والی تنظیموں کی بنیاد  ڈالی  گئی اور  اس پر مواد  و فتاوی  پیش کیے گئے  جو آج تک   بدنام  زمانہ  تنظیموں  کے لئے مشعل  راہ ہیں –

بہر  حال   اہل دمشق صف آراء ہوئے اور منگول  مسلمانوں  سے لڑے      اور   ان کو بتایا گیا کہ امام ابن تیمیہ نے لوح  محفوظ  تک کو دیکھ لیا ہے –  نعوذ  با للہ من تلک الخرفات

ابن قیم اپنی کتاب مدارج السالکین میں لکھتے ہیں کہ امام  ابن تیمیہ کی نظر  لوح  محفوظ  پر پڑی  ان پر مستقبل اشکار ہوا – لکھتے ہیں

أخبر أصحابه بدخول التتار الشام سنة تسع وتسعين وستمائة وأن جيوش المسلمين تكسر وأن دمشق لا يكون بها قتل عام ولا سبي عام وأن كلب الجيش وحدته في الأموال: وهذا قبل أن يهم التتار بالحركة ثم أخبر الناس والأمراء سنة اثنتين وسبعمائة لما تحرك التتار وقصدوا الشام: أن الدائرة والهزيمة عليهم وأن الظفر والنصر للمسلمين وأقسم على ذلك أكثر من سبعين يمينا فيقال له: قل إن شاء الله فيقول: إن شاء الله تحقيقا لا تعليقا وسمعته يقول ذلك قال: فلما أكثروا علي قلت: لا تكثروا كتب الله تعالى في اللوح المحفوظ: أنهم مهزومون في هذه الكرة وأن النصر لجيوش الإسلام

ترجمہ : ابن تیمیہ نے ٦٩٩ ھجری میں اپنے اصحاب کو شام میں تاتاریوں کے داخل ہونے اور مسلمانوں کے لشکر کے شکست کھانے کی خبر دے دی تھی اور یہ بھی بتلا دیا تھا کہ دمشق قتل اور اندھا دھند گرفتاریوں سے محفوظ رہے گا     البتہ لشکر اور مال کا نقصان ہو گا ، یہ پیشن گوئی  تاتاریوں کی یورش سے پہلے ہی کی تھی – اس کے بعد پھر ٧٠٢ ھجری میں جبکہ تاتاری شام کی طرف بڑھ رہے تھے ، اس وقت عام لوگوں اور امراء و حکام کو خبر دی کہ تاتاری شکست کھائیں گے اور مسلمان فوج کامیاب و فتح مند ہو گی اور اس پر آپ نے ستر سے زیادہ بار قسم کھائی ، کسی نے عرض کیا : ان شاء الله کہیے ، آپ نے فرمایا : ان شاء الله تحقیقاً نہ کہ تعلیقاً (یعنی اگر الله چاہے تو ایسا ہو گا نہیں بلکہ الله ایسا ہی چاہے گا) (ابن قیم) کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ بھی کہتے ہوۓ سنا کہ جب لوگوں نے اس پیشن گوئی  پر بہت کثرت سے کلام  کیا ، تو میں (ابن تیمیہ ) نے کہا :  بہت بولنے کی ضرورت نہیں ،  الله تعالیٰ نے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ وہ اس مرتبہ ضرور شکست کھائیں گے اور مدد و نصرت مسلمان فوجوں کے قدم چومے گی – (مدارج السالکین ، جلد ٢ ، صفحہ ٤٥٨ 

ابن تیمیہ نے اپنے خواب یا کشف کی بنیاد پر   لوح   محفوظ    پر  تحریر  کا   اس قسم کا دعوی کیا –بہر   حال  دمشق  بچ   گیا

شاتم رسول کی سزا کا اختلاف

During the last years of the seventh century Hijri when al-Sultan al-Ma’alih al-Nasir Nasir al-Din Muhammad ibn Qalaawon’s was ruling on Egypt, a case was filed against a Christian from Ahl al-Suida, whom Amer al-Mara Asaf Ibn Ahmad ibn Hajji, a Muslim had employed as a scribe.

Ibn Katheer mentioned in his History the Beginning and the End:

“People were happy as the (Muslim) Asaf ibn Ahmad ibn Hajji was killed, who had hired the Christian that uttered blasphemous things.”

This statement shows that the people of Egypt were happy with the killing of a Muslim Amir, Asaf ibn Ahmad ibn Hajji. Also, a Christian scribe was accused of uttering blasphemous things against the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him).

Al-Dhahabi writes in The History of Islam:

“In those days, there were riots in Damascus, and people pelted stones that a Muslim employer had sympathies towards his Christian scribe who was guilty of blasphemy against the prophet.”

Al-Dhahabi mentioned that Asaf ibn Ameer Ahmad ibn Hajji   was:

“An Arab, a gentleman, a supporter of Government, and he had a Christian friend who was blasphemous, but Asaf supported and helped his Christian friend. ”

All these statements show that Asaf was an Arab, subservient, and had a Christian friend accused of uttering abusive things against the Prophet.

Al-Dhahabi informed more:

“The news of this accusation was given to Zain al-Din al-Farqi and Taqi al-Din Ibn Taymiyah. The people spoke to Deputy Az al-Din Aybak al-Hamvi and spoke on the deeds of this cursed Christian. The deputy ordered that the  Christian  be presented before him. ( Later when police went to capture Christian scribe , his employer Asaf said to the police:) “This Christian scribe is better than you people” – on hearing this, people pelted stones, and Amir Asaf (the employer) ran away (and went into hidding). The whole account was narrated to the Deputy of Sultan that if Asaf is a true Muslim, then he  should have shown love towards Allah and His Messenger and should not have mingled his heart with the Turks (Mongols).”

Readers might be surprised to read that the Christian scribe issue was somehow connected to the Mongols but no historian mentioned it except  Al-Dhahabi.

Al-Wafi Al-Wafayat  by Salah al-Din Khaleel ibn Aybak ibn ‘Abd-Allaah al-Safadi (al-Mutafi: 764AH) narrated:

“Later Asaf (The employer) was killed by his nephew Jamaz bin Sulaiman in the vicinity of Madina (Arabia).”

I say: The whole incident seems to be a political assassination because if Amir Asaf was indeed a nobleman, and Christian had really uttered anything blasphemous, he would not have helped the accused Christian in this way. Also, it is impossible that Amir Asaf would have left the Egypt/Syria and reached Madina (City of Prophet) without the help of Muslims.

Salah al-Din Khaleel ibn Aybak ibn ‘Abd-Allaah al-Safadi (died. 764AH): “Amir Asaf was killed in 694 AD (1295 AD).”

This shows that this event occurred when Turkish or Mongol Muslims were preparing to attack Damascus. It is possible that Asaf’s sympathies were with Mongol muslims. His Tribe of  Mar’ahs were nomads among Arabs, and they controlled trade and carried goods on their camels. Asaf belonged to the same tribe.

Later,  the Deputy of  Damascus arrested the Christian scribe  Amir Asaf and stipulated that he would be saved if he became a Muslim. Al-Dhahabi (mentioned in History of Islam) who was in Damascus at that time:

” On this verdict, the accused Christian converted to Islam after learning about it.”

However, the extremist scholars in Egypt and Syria refused to accept his acceptance of Islam. Imam ibn Taymiyyah became their leader, and these scholars rejected the Christian’s acceptance of Islam. It is known that if a disbeliever or a person of the People of the Book converts to Islam, the old sins are forgiven. Still, Ibn Taymiyah took a crowd of people and pleaded to the deputy governor that this christain must be executed.

Ibn Taymiyah wrote the book called Al-Saram al-Maslol Ali Shatam al-Rasool; In the book,  Ibn Taymiyah argued that if a person commits blasphemy in the glory of the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him), his repentance cannot be accepted, nor the accuser can convert to become a Muslim.

Suppose this opinion of Ibn Taymiyah is accepted. In that case, this fatwa conflicts with the fundamental beliefs of Islam, according to which the greatest sin is the sin of association (Shirk), which is also forgivable if a person accepts Islam. It is haraam to kill a Muslim if he repents of shirk – it should be noted that if a Muslim is guilty of blasphemy, he is considered an apostate, and he will be given the option of repentance by imprisoning him for three days – otherwise, he would have been killed as an apostate.

Ibn Taymiyah’s fatwa became famous on The Dhimmi Christian, and the Mamaluk rulers realized fatwa’s power and they appointed Ibn Taymiyah as Judge to get  fatwas in their favor. Eventually, the Christian was beheaded.

Al-Muqafi al-Kabeer by Taqi al-Din al-Muqarizi (died 845 A.H. )

“This Christian got afraid, after this temptation, he accepted Islam, so after a meeting of the deputy in which the scholars of Qazi al-Qadaat and Shuafa were participating, the fatwa was given that the Christian should be killed even after converting to Islam.”

The Mamlok rulers now started seeking political fatwas from Ibn Taymiyah to attack Egypt’s Muslim and non-Muslim areas. Ibn Taymiyah also did not delay becoming the king’s master; for example, Ibn Taymiyah gave a fatwa against Armenian Christians in favor of the Mamlok rulers. Mamloks were afraid of the Mongol Muslims, who were advancing towards Egypt and Syria.  Mamlok rulers needed another fatwa, and here again, Ibn Taymiyah gave fatwa that these Mongol Muslims are Muslims only for name-sake and they in actuality follow the command of Genghis Khan, not the law of Allah. So whether they pray to Allah or not, they should be killed indiscriminately. In this way, the framework was laid for the future organizations that kill  Muslims in Islam.

Nevertheless, the People of Damascus  fought the Mongol Muslims and were told that Imam Ibn Taymiyah had seen the iron safe – Nauz Balla min Tilak al-Kharfat

Ibn Qayyim mentioned in his book Madaraj al-Salqin that Imam Ibn Taymiyah saw the Loh Mahfuz (The Protected Tablet in Heaven), and the future was revealed to him. Ibn Qayyim wrote

Translation: Ibn Taymiyah had informed his companions, in 699 Hijri, about the entry of Mongols into Syria and the defeat and also foretold them that Damascus would be protected from murder and indiscriminate arrests. However, the army and wealth would be lost; this was predicted before the Mogol’s had already been destroyed – then in 702 Hijri, while Mongols were moving towards Syria, they informed the general public and the nobles and authorities that the Mongols would be defeated. The Muslim army would be victorious, and he swore at it more than seventy times. Ibn Al-Qayyim (Ibn Al-Qayyim) said I asked Ibn Taymiyah: “I heard you people are discussing too much on this prophecy, I (Ibn Taymiyah) say: There is no need to speak a lot. Page 458)

This is plain evidence that Ibn Taymiyah claimed that he could see  Loh Mahfuz (The Protected Tablet in Heaven) based on his dream or kashaf (vision of The Hidden).

اسرار احمد کی نئے مجدد کی پیشنگوئی

اسرار احمد کے مطابق چار صدیوں تک تصوف کی تبلیغی مساعی کے نیتجے میں بر صغیر، صنم خانہ ہند،  میں مجدد آ رہے ہیں

گیارہویں صدی (الف ثانی ) کا مجدد اعظم   شیخ احمد سرہندی
بارہویں صدی کا مجدد اعظم امام الہند شاہ ولی اللہ دھلوی
تیرھویں صدی کا مجدد اعظم،  ہزارہ کے سید احمد بریلوی
چودھویں صدی کا مجدد اعظم امام اسیر مالٹا شیخ الہند جیسا مجاہد

اسرار احمد کی پیشینگوئی کے مطابق اگلا مجدد پاکستان  سے ہو گا

دوسری طرف سعودی عرب کہ شیخ امام کعبہ عبد الرحمان السدیس کا فرمانا ہے کہ آج کے مجدد دین و ملہم امام محمد بن سلمان ہیں جو موجودہ ولی العھد ہیں

سن ٢٠١٨  میں إمام وخطيب الحرم المكي عبد الرحمن السديس نے موجود سعودی ولي العهد الأمير محمد بن سلمان کو مُحدَّث اور   ملهم (جس کو الہام   ہو ) قرار دیا ہے  اور اپنی اس رائے کا ذکر خطبہ میں کیا

اس  کا ذکر مشھور  عرب اخبارات میں ہوا لنک 

 کوئی بر صغیری  صوفي مجدد کا منتظر ہے تو کوئی واپس عربی و تمیمی سلفي  مجدد کو کہہ رہا ہے کہ آ چکا ہے

  عثمانی صاحب کو چھوڑ  کر  اسرار  احمد  الگ  ہو  گئے تھے کہ  عثمانی صاحب  سرے سے تصوف   کے قائل ہی  نہیں  تھے

راقم بھی پیشنگوئی اپنے اندازہ  پر کرتا ہے کہ عنقریب  صوفی حلقوں  میں بھی  پھوٹ  پڑنے  والی ہے – سنٹرل  ایشیا  کے صوفے  فرقے اپس میں مل جائیں  گے  اور برصغیر و انڈیا و ترکی  کے صوفے  حلقے شکل دیکھتے رہ جائیں  گے – ان صوفیوں  کے  امام المہدی  الدیلم  سے  نکلیں  گے یعنی ازربائیجان سے   جیسا کہ خود  صوفی  بیان  کرتے چلے آ رہے ہیں

جو ان صوفیاء  نے بویا  ہے  وہ  کاٹنا بھی انہی صوفیاء کو ہو  گا

 

ہر صدی میں مجدد آئے گا ؟

یہودی تصوف کا اسلامی تصوف پر اثر

اسلامی  تصوف   اور  متاثرہ  فرقوں  میں یہ عقیدہ پایا  جاتا ہے کہ   اولیاء  اللہ کی ارواح  موت کے بعد  فرشتوں  جیسے  کام  کرنے  لگ  جاتی ہیں یا ان کی جماعت  میں ضم  ہو جاتی ہیں – اس عقیدے کو  المناوی   اور شاہ ولی اللہ  بیان  کرتے تھے

  شاہ ولی اللہ کتاب  حجت اللہ البالغہ میں تو کہتے ہیں کہ  ارواح  فرشتوں  کے ساتھ  شامل  ہو جاتی ہیں  اور ان  پر بھی اللہ کا حکم نازل  ہونے لگتا ہے جس کو ارواح  سر  انجام دیتی ہیں

کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير  از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ)  کے مطابق

قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.

اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر ،  تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور  عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود  دیکھتی ہیں یا بادشاہت الہی  کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں

اس طرح  کے اقوال سے  روح  کا  کہیں بھی  آنا  ثابت  کیا  جاتا ہے    جبکہ یہ اقوال بھی  یہود  کی کتب تصوف   کا چربہ  ہیں

Elaborating on cryptic passages found in the Bible (Gen. 5:24; 2 Kings 2:11), it is taught that exceptional mortals, such as Enoch, Elijah, and Serach bat Asher may be elevated to angelic status (I Enoch; Zohar I:100a, 129b; T.Z. Hakdamah 16b).

بائبل  کے بعض   اقتباسات سے یہ تعلیمات  اخذ کی گئی ہیں کہ  انسانوں  میں انوخ ، الیاس  اور سراخ بن عشر   کو فرشتوں  کا درجہ  دیا جا چکا ہے

According to a medieval Midrash, nine people entered Paradise alive (and, by implication,
underwent transformation into Angels): Enoch, Elijah, the Messiah, Eliezer (the
servant of Abraham), Ebed Melech, Batya (the daughter of Pharaoh), Hiram
(who built Solomon’s Temple), Jaabez (son of R. Judah the Prince), and Serach
bat Asher (Derekh Eretz Zut 1)

یہودی کتاب مدرش کے مطابق  نو افراد زندہ  جنت  میں گئے اور فرشتوں میں بدل گئے

روزانہ  جسم  سے روح  نکلنا اور نیند  میں اس کا آسمان میں جانا بھی یہودی تصوف  کا  کلام  ہے

خبردار  نفس  انسانی  اس سے  (نیند میں ) نکلتا ہے اور  بلند ہوتا  ہے جب وہ اپنے بستر  میں جاتا ہے –  اور اگر تم سوال کرو کہ کیا سب آسمان کی طرف بلند  ہوتے ہیں  ؟  تو ایسا نہیں ہے کہ تمام   الملک  کا وجھہ (اللہ تعالی ) کو دیکھ سکیں  (یعنی  سارے  نفس  جسم چھوڑ کر  عرش  تک نہیں جا  پاتے ) – نفس  بلند ہوتا ہے اور اپنے  پیچھے جسم  انسانی  (غف)  میں ایک ذرہ سا چھوڑ جاتا  ہے   ، یہ کم از کم زندگی دل میں ہوتی ہے اور نفس  جسم کو چھوڑتا  ہے اور  سرگرداں   پھرتا  ہے  اور  بلند ہونا چاہتا ہے  اور بلندی تک کئی  مدارج ہیں  – نفس   اگر  دن  میں  نجاست سے (یعنی گناہ سے ) کثیف  نہیں ہوا تو ہی بلند  ہو  پاتا ہے   لیکن اگر نفس  پاک ہے   اگر  دن میں کثیف نہ ہوا تھا تو یہ بلند ہو جاتا ہے  – اگر نفس  کثیف  ہو  چکا  ہے  تو وہ جسم سے ہی جڑا رہتا ہے اور  پھر  بلند  نہیں ہوتا

Book of Zohar   

یہود  کو یہ تصور  مصریوں  سے ملا  تھا  کہ انسانی  روح و  نفس  دو  الگ  چیزیں ہیں – اور ایک نفس  جسم سے نکلتا  ہے تو  اس کا ایک حصہ  جسم میں رہتا   ہے – جو نفس  نکلتا  ہے وہ  جو جو دیکھتا  ہے وہ خواب ہوتا  ہے –  یہودی   تصوف  قبالہ  میں  اسی فلسفہ کی  بنیاد  پر    شجر  حیات

Tree  of Life

کا زائچہ  بنایا  جاتا ہے  جس کا ذکر  جادو  پر  یہودی  کتب  میں  موجود ہے

عراق  کے   مسلمان راویوں  نے بھی یہ فلسفہ بیان  کیا  ہے جو  بابل  کے یہود  کا اثر معلوم ہوتا  ہے  اور ان روایات  پر تفصیلی کلام  راقم کی  کتاب ،  کتاب  الرویا  میں ہے

 

ڈاکٹر اسرار احمد اور ابن عربی

https://quranacademy.com/SnapshotView/MediaID/3287/Title/25-Umm-ul-Musabbehaat-(Surah-Al-Hadeed)

کتاب ام المسبحات تفسیر  سورہ الحدید  از ڈاکٹر اسرار احمد

نصرانیوں نے جب تثلیث کا عقیدہ گھڑا تو ان کے نزدیک الفاظ کا چناؤ بہت اہم تھا لہذا یہ کہنے کے لئے انہوں نے یونانی لفظ
Homoousios
کا استعمال کیا ۔

اس لفظ کا مطلب یونانی میں یہ تھا کہ ایک ہی عنصر – اس کو عربی میں وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔

یعنی معاذ اللہ – عیسیٰ علیہ السلام ، روح القدس ، اور اللہ تعالی ایک ہی وحدت میں جڑے ہیں۔

یہی لفظ بعد میں فارسی میں ہمہ اوست بن گیا- اور مدعا یہ رہا کہ جو بھی چیز وجود رکھتی ہے وہ حقیقت میں سب  اللہ ہے۔ اسی کو اللہ ھو کی ضربوں  میں بیان کیا  جاتا ہے۔ – ہمہ اوست يعني سب ايک عنصر ہيں وجود ہيں – اس کو وحدت الوجود کہتے ہيں۔  اس ميں وجود کا اثبات ہے کہ سب کا وجود حقيقي ہے۔ يہ نظريہ غزالي کا ہے

لا موجود الا اللہ

غزالی سے منسوب قول ہے کہ خواص کی توحید لا موجود الا اللہ ہے۔

جہمی اپنا نام بدل کر صوفی بن گئے اور صوفیاء اس عقیدے پر پر چارک بن گئے کہ اللہ تعالی کائنات میں جذب کیے ہوئے ہے اصلی وجود اسی کا ہے-  قرآن کی سوره حديد كي آیت

وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ   وه تمھارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو۔

سے  صوفیاء  کے نزدیک  یہ ثابت ہو جاتا ہے۔

صوفیاء میں ایک دوسرے گروہ  کا نظریہ یہ بھی ہے کہ کائنات وہم و خیال ہے، اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں – یہ  وجود ہی نہیں رکھتی – اس کو ہمہ از اوست کہا جاتا ہے – اس کوعربی میں  وحدت الشہود کہتے ہيں يعني جو نظر آ رہا ہے وہ سب ايک ہے۔ اس ميں وجود حقیقی  کا انکار ہے – سب کا وجود وہم و خيال و مايا ہے۔
يہ نظريہ شيخ سر ہندي اور مجدد الف ثاني ، ابن عربی کا ہے۔

اس طرح وحدت الوجود ہو یا وحدت الشہود دونوں باطل نظریات ہیں۔

اللہ تعالي – قرآن ميں اس کائنات کو خلق کہتا ہے اور صوفياء اس کے منکر ہيں ان میں بعض (شاہ ولي اللہ اور ابن عربي) کے نزديک کائنات کا نقشہ اللہ کے علم ميں ہے ابھي يہ کائنات تخليق نہيں ہوئي کہ وجود کي شکل لے۔

ان عقائد کو اپس میں ملا کر ڈاکٹر اسرار احمد نے سورہ الحدید کی تفسیر بنام امّ المسبحات میں تشریح اپنے مخصوص مغالطہ آمیز انداز میں کی۔

https://www.youtube.com/watch?v=V9cO9JWa1rY

اسرار احمد کے بقول ہمہ اوست اور وحدت الوجود الگ الگ ہیں-
ہمہ اوست اسرار احمد کے مطابق سادہ الفاظ میں ہے کہ اللہ نے روپ دھار لیا، یہ ساری چیزیں بالفعل موجود ہیں یہ ہمہ اوست ہے یہ شرک ہے  – گویا ڈاکٹر اسرار کے نزدیک اگر ہم بولیں ہم اللہ تعالی سے الگ وجود  ہیں تو یہ ہمہ اوست ہے جو  شرک ہوا  – راقم  کہتا ہے ہم اوست اور وحدت الوجود ہم معنی  الفاظ ہیں  ایک فارسی میں ہے ایک عربی میں ہے

اسرار احمد کے بقول وحدت الوجود کا مطلب چیز کے وجود کا انکار ہے اور ہمہ اوست چیز کے وجود کا اثبات ہے-
ایک توحید ہے ایک شرک ہے-

پھر ڈاکٹر اسرار 2:03 منٹ پر کہتے ہیں:

“موجود صرف ایک ذات ہے”

“اس کو شرک نہ کہیں”

راقم  کہتا ہے یہ شرک نہیں تو کیا ہے پھر؟

پھر 2:49 منٹ پر کہتے ہیں :

“اس کو شرک نہیں کہیں گے آپ”

پھر 2:57 منٹ پر کہتے ہیں:

“جب یہ کہا جائے گا یہ چیز ہے ہی نہیں صرف اللہ ہے یہ وحدت الوجود ہے”

ہمہ اوست کو وحدت الوجود سے الگ کرنا متاخرین صوفیاء کا کمال ہے جبکہ اصلا یہ نصرانی غناسطی
(Gnostic)
فلسفہ کا لفظ ہے جس کا مطلب وجود کا اثبات ہے اس کو ہم عنصر قرار دینا ہے۔

علم باطن کی شرعی دلیلیں

[wpdm_package id=’9879′]

فہرست

پیش لفظ 5
ابو المنذر علم مبارک ہو 8
علم انبیاء و فرشتے آ کر دیتے ہیں 10
ہر آیت کا ظاہر و باطن ہے ؟ 14
دربار سلیمان کی خبر 16
خضر کون ہیں 21
خواب میں غیب کی خبر 35
حارث کا قول ہے 38
خالد کا زہر پینا 44
نزول ملائکہ ہر وقت ؟ 52
ابو مسلم خولانی کا قصہ 55
ساریہ پہاڑ پہاڑ کی طرف 60
ابو بکر رضی اللہ عنہ کا خواب یا کشف 71
زبیر رضی اللہ عنہ کا قول 75
صحو و سکر کا تماشہ 77
ابن تیمیہ کے کشف کا ذکر 87
آدم ، اللہ تعالی کی صورت پر ؟ 89
اسرار حروف اور انسان کامل 92
محدثین کا کشفی خواب بیان کرنا 96
کتم علم کے دلائل 99
علم چھپانے کا حکم نبوی ؟ 102
علم باطن ایک راز ہے 117
کعبہ کا اصل ڈیزائن چھپایا جائے ؟ 119

پیش لفظ

علم لدنی کا حوالہ سورہ کہف سے آتا ہے کہ خضر نے موسی علیہ السلام کی بتایا کہ ان کو جو علم حاصل ہے وہ من جانب اللہ ملا ہے – ارشاد باری تعالیٰ ہے – وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْماً اور ہم نے اسے اپنی جانب سے علم دیا – قرآن میں اللہ تعالی نے خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آیات بھی من جانب اللہ ہیں – سورہ طہ میں ہے وَقَد ءاتَينـٰكَ مِن لَدُنّا ذِكرً‌ا ہم نے تم کو اپنی طرف سے ذکر و نصیحت دی –
اہل تشیع کے مطابق ائمہ کو علم لدنی حاصل ہے اور صوفیاء کے مطابق ان کے اعلام کو یہ علم حاصل ہے – علم لدنی کے اور ناموں میں علم طریقت یا علم عرفان یا علم مکاشفہ یا علم باطن وغیرہ بھی ہیں- امام غزالی کتاب احیاء العلوم الدین میں علم مکاشفہ کی تعریف بیان کرتے ہیں
علم المكاشفة وهو علم الباطن وذلك غاية العلوم فقد قال بعض العارفين من لم يكن له نصيب من هذا العلم أخاف عليه سوء الخاتمة
علم مکاشفہ ہی علم باطن ہے اور علوم کا مقصد اسی کو حاصل کرنا ہے بعض عارفین کہتے ہیں جس کو اس کا حصہ نہ مل پائے اس کا خوف ہے کہ اس کا خاتمہ برائی پر ہو گا
طاہر القادری کتاب علم و مصادر علم میں کشف و علم لدنی پر لکھتے ہیں
https://www.minhajbooks.com/english/book/Ilm-awr-Masadir-e-Ilm/read/img/btid/4306/

اس کتاب میں کتاب و سنت کے حوالے سے علم لدنی کے دلائل پر بات کی گئی ہے جو علم لدنی یا علم خواص پر پیش کی جاتی ہیں – تصوف نا پسند حلقوں میں انہی دلائل کو علم احسان و تذکیہ کا نام دیا جاتا ہے –
قابل غور ہے کہ انبیاء و رسل پر الوحی آتی ہے – ان کا خواب بھی الوحی کی قسم ہے – قرآن سے یہ سب ثابت ہے البتہ بحث اس میں ہے کہ کیا بعد وفات النبی کیا کسی امتی پر بھی غیب کو کشف کیا جا سکتا ہے ؟ اس کے کیا دلائل ہیں جو صوفیاء نے اپنے خواص کے حوالے سے بیان کیے ہیں جن کو متصوفانہ تحاریر میں اولیاء اللہ کہا جاتا ہے – یعنی اس کتاب کا مدعا غیر نبی پر کشف غیب کے دلائل کا جائزہ لینا ہے –
گزشتہ امتوں کے لئے معلوم ہے کہ ان میں کرامات ہو جاتی تھی مثلا اصحاب کہف کا برسوں سوتے رہنا ، مریم علیہ السلام تک رزق پہنچنا ، کھجوروں کا ان پر گرنا ، حدیث غار وغیرہ – لیکن امت محمد کے حوالے سے ہے یہ الہام اب بند ہے کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ غیبی خبر میں سے اب صرف سچا خواب ہے ، وہ بھی قرب قیامت میں مومنوں کو آئے گا – محدثوں (الہام والوں ) کے وجود کے قائل اہل سنت کے مطابق اولیاء اللہ کو نیند ، خواب ، بیداری سب میں کشف ہوتا ہے ، الہام ہوتا ہے – بعض سلفی و اہل حدیث فرقے بھی اس کے قائل ہیں – ان کی دلیلوں میں وہ واقعہ ہے جس میں عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر سے جنگ کا منظر نظر آتا ہے یا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو حاملہ بیوی ے پیٹ کے اندر اولاد مادہ پر ہے گویا ابو بکر یہ تک جان گئے کہ ہونے والا بچہ ہے یا بچی ہے – راقم نے ان روایات پر اس کتاب میں بحث کی ہے –
علم کشف کو چھپایا بھی جاتا ہے ، ہر ایک پر پیش نہیں کیا جاتا – اس کو اس کتاب میں کتم علم کہا گیا ہے
ابو شہر یار
٢١ رمضان ١٤٤١ ھ

شب برات پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

 

امام مہدی غائب ، امام ترمذی ، امام ابن ماجہ ، امام احمد  وغیرہ کی پیدائش سے سو سال پہلے سے  شب برات کی اہمیت کی روایات  اس امت میں موجود تھیں  جو ظاہر  کرتا ہے کہ اس رات کا امام مہدی سے کوئی تعلق نہیں ہے – تفصیل اس کتاب میں ہے

واقعہ معراج سے متعلق

اس کتاب میں اضافہ کیا گیا ہے

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

قتل زکریا کی خبر معراج میں

حدیث ام ہانی

معراج صخرہ سے ہوئی ؟

=========================

اس ویب سائٹ پر موجود معراج سے متعلق مباحث کو کتابی شکل دی گئی ہے – معراج کے حوالے سے غلو پرستوں نے کافی کچھ مشہور کر رکھا ہے دوسری طرف صحیح احادیث کی کتب میں بھی کچھ روایات اس سے متعلق صحیح نہیں ہیں – اس کتاب میں اس قسم کی بعض روایات کی چھان بین کی گئی ہے

اسلامی اعتقادات کا ایک  اہم  عقیدہ ہے  کہ مکی دور نبوی میں رسول صلی الله علیہ وسلم کو بحکم الہی آسمان پر جسمانی  طور پر بلند کیا گیا – اس میں  آپ صلی الله علیہ وسلم کو مکہ سے مسجد الاقصی لے  جایا گیا – اس واقعہ کو الاسراء یا  المعراج کہا جاتا ہے – الاسراء کا لفظ  اَسْرٰى سے ہے جو  قرآن میں موجود ہے اور المعراج کا لفظ طبقات ابن سعد میں ابن اسحاق کی سند سے ایک روایت میں اتا ہے –  قرآن سوره الاسراء کی آیات ہیں کہ

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

یہ معراج کا واقعہ تھا جس میں جسمانی طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر   ایک گھوڑے اور خچر نما مخلوق پر کیا جس کو البراق کہا جاتا ہے- اس میں ایک آن  میں آپ مسجد الحرام سے اصلی مسجد الاقصی پہنچ  گئے اور آپ کے ہمراہ جبریل علیہ السلام بھی تھے[1]

مسجد الاقصی سے  آسمان  دنیا اور اور پھر ایک آسمان سے دوسرے آسمان،  یہاں  تک کہ  سات آسمان   پر موجود   سدرہ المنتہی  تک   کا سفر ہوا – جنت  کا دورہ ہوا اور اس کی نعمت کو دیکھا –  انبیاء سے وہاں ملاقات ہوئی جن میں فوت شدہ اور زندہ عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے  – پھر  وہاں سے واپس  مکہ   لوٹا دیا گیا – اس عالم میں رب تعالی کی عظیم   قدرت و  جبروت کا     منظر دیکھا-

صحیح بخاری: کتاب: انصار کے مناقب (باب: معراج کابیان)

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

3887

 حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِي مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ فَقَالَ لَهُ الْجَارُودُ هُوَ الْبُرَاقُ يَا أَبَا حَمْزَةَ قَالَ أَنَسٌ نَعَمْ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا الْخَالَةِ قَالَ هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ أَوَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِلَى إِدْرِيسَ قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَكَى قِيلَ لَهُ مَا يُبْكِيكَ قَالَ أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ هَذَا أَبُوكَ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ قَالَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ هَذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى وَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ فَقُلْتُ مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ هِيَ الْفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَا أُمِرْتَ قَالَ أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَ أُمِرْتَ قُلْتُ أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ قَالَ فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي

  مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اس شب کا حال بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: “ایسا ہوا کہ میں حطیم یا حجر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے یہاں سے یہاں تک چاک کر دیا ۔۔ راوی کہتا ہے: میں نے جارود  سے پوچھا: جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے: اس سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے کہا: حلقوم سے ناف تک۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ سینے سے ناف تک ۔۔” پھر اس نے میرا دل نکالا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان سے لبریز تھا۔ میرا دل دھویا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا ۔۔ جارود نے کہا: ابوحمزہ! وہ براق تھا؟ ابوحمزہ انس ؓ نے فرمایا: ہاں (وہ براق تھا) ۔۔ وہ اپنا قدم منتہائے نظر پر رکھتا تھا۔ تو میں اس پر سوار ہوا۔ میرے ہمراہ   جبریل علیہ السلام روانہ ہوئے۔ انہوں نے آسمان اول پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: آپ کو یہاں تشریف لانے کا پیغام بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر جواب ملا: مرحبا! آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا بہت اچھا ہے۔ پھر اس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں گیا تو   آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ تمہارے باپ   آدم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اچھے بیٹے اور بزرگ نبی! خوش آمدید۔ اس کے بعد   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے حتی کہ دوسرے آسمان پر پہنچے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ بتایا کہ محمد ﷺ ہیں۔ دریافت کیا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ آنے والا مہمان بہت اچھا ہے اوراس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو   یحییٰ اور   عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد ہیں۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ یحییٰ اور   عیسیٰ علیہما السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا اور ان دونوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: برادر عزیز اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا:   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا مہمان بہت اچھا ہے۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو   یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ یوسف علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کہا: انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: نیک طنیت بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے چوتھے آسمان پر لے کر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! جس سفر پر آئے وہ مبارک اور خوشگوار ہو۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو   ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل نے کہا: یہ   ادریس علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے برادر گرامی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر پانچویں آسمان پر چڑھے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! اور جس سفر پر آئے ہیں وہ خوش گوار اور مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو   ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نےکہا: یہ   ہارون علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے معزز بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر   جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چھٹے آسمان پر چڑھے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹایا تو پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! سفر مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو   موسٰی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ   موسٰی علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اخی المکرم اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے۔ پوچھا گیا: آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوعمر جوان جسے میرے بعد رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اس کی امت جنت میں میری امت سے زیادہ تعدادمیں داخل ہو گی۔   جبریل علیہ السلام مجھے ساتویں آسمان پر لے کر چڑھے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ   محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! اور جس سفر پر تشریف لائے ہیں وہ خوشگوار اور مبارک ہو۔ پھر میں وہاں پہنچا تو   ابراہیم علیہ السلام ملے۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ آپ کے جد امجد   ابراہیم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اے پسر عزیز اور نبی محترم خوش آمدید۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک بلند کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کی طرح بڑے بڑے ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح چوڑے چوڑے ہیں۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں: (ان میں) دو نہریں بند اور دو نہریں کھلی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ بند نہریں تو جنت کی ہیں اور جو کھلی ہیں وہ نیل اور فرات کا سرچشمہ ہیں۔ پھر بیت المعمور کو میرے سامنے لایا گیا۔ پھر میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا لایا گیا تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا۔   جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ فطرت اسلام ہے جس پر آپ اور آپ کی امت قائم ہے۔ پھر مجھ پر شب و روز میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ جب میں واپس لوٹا تو   موسٰی علیہ السلام کے پاس سے میرا گزر ہوا۔ انہوں نے پوچھا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے دن رات میں پچاس نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔   موسٰی علیہ السلام نے فرمایا: آپ کی امت ہر دن پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ اللہ کی قسم! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور اس معاملے میں بنی اسرائیل کے ساتھ سرتوڑ کوشش کر چکا ہوں، لہذا آپ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں، چنانچہ میں لوٹ کر گیا اور اللہ تعالٰی نے مجھے دس نمازیں معاف کر دیں۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر اللہ کے پاس گیا تو اللہ نے مزید دس نمازیں معاف کر دیں۔ میں پھر موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر میں لوٹ کر گیا تو مجھے دس نمازیں اور معاف کر دی گئیں۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا، چنانچہ میں لوٹ کر گیا تو مجھے ہر دن میں دس نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر لوٹا تو موسٰی علیہ السلام نے پھر ویسا ہی کہا۔ میں پھر لوٹا تو مجھے ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر میں موسٰی علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت دن میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکے گی۔ میں تم سے پہلے لوگوں کا خوب تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل پر خوب زور ڈال چکا ہوں، لہذ تم ایسا کرو پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کرو۔ میں نے جواب دیا میں اپنے رب سے کئی دفعہ درخواست کر چکا ہوں، اب مجھے حیا آتی ہے، لہذا میں راضی ہوں اور اس کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں آگے بڑھا تو ایک منادی (خود اللہ تعالٰی) نے آواز دی کہ میں نے حکم جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی۔”

صحیح مسلم ٢٥٩ پر     بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ  بعض نسخوں میں یہ ٤١١ پر ہے

http://mohaddis.com/View/Muslim/411

صحیح مسلم
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان
حديث:411
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَی طَرْفِهِ قَالَ فَرَکِبْتُهُ حَتَّی أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قَالَ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَائُ قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِإِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيلُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ فَرَحَّبَ بِي وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الثَّانِيَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِابْنَيْ الْخَالَةِ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ وَيَحْيَی بْنِ زَکَرِيَّائَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِي إِلَی السَّمَائِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الرَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ
إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الْخَامِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ السَّادِسَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِمُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ ثُمَّ عَرَجَ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَی الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ کُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَی السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَی وَإِذَا وَرَقُهَا کَآذَانِ الْفِيَلَةِ وَإِذَا ثَمَرُهَا کَالْقِلَالِ قَالَ فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَی فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَنَزَلْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا فَرَضَ رَبُّکَ عَلَی أُمَّتِکَ قُلْتُ خَمْسِينَ صَلَاةً قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَبِّي فَقُلْتُ يَا رَبِّ خَفِّفْ عَلَی أُمَّتِي فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا فَرَجَعْتُ إِلَی مُوسَی فَقُلْتُ حَطَّ عَنِّي خَمْسًا قَالَ إِنَّ أُمَّتَکَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِکَ فَارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ قَالَ فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَبَيْنَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام حَتَّی قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لِکُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ فَذَلِکَ خَمْسُونَ صَلَاةً وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا کُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُکْتَبْ شَيْئًا فَإِنْ عَمِلَهَا کُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً قَالَ فَنَزَلْتُ حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ قَدْ رَجَعْتُ إِلَی رَبِّي حَتَّی اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ
ترجمہ : شیبان بن فروخ، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے لئے براق لایا گیا، براق ایک سفید لمبا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا جانور ہے منتہائے نگاہ تک اپنے پاؤں رکھتا ہے میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس آیا اور اسے اس حلقہ سے باندھا جس سے دوسرے انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے جانور باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہو اور میں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر میں نکلا تو   جبرائیل (علیہ السلام) دو برتن لائے ایک برتن میں شراب اور دوسرے برتن میں دودھ تھا میں نے دودھ کو پسند کیا، جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فطرت کو پسند کیا، پھر   جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ آسمان کی طرف چڑھے، فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو فرشتوں نے پوچھا آپ کون؟ کہا جبرائیل کہا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو ہم نے   آدم (علیہ السلام) سے ملاقات کی آدم (علیہ السلام) نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پھر پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں انہوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں   عیسیٰ بن مریم اور   یحیی بن زکریا (علیہ السلام) کو دیکھا دونوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر   جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر گئے تو دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے   یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا اور اللہ نے انہیں حسن کا نصف حصہ عطا فرمایا تھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھلا تو میں نے   ادریس (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی،   ادریس کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا ( وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا) ہم نے ان کو بلند مقام عطا فرمایا ہے، پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا   جبرائیل نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا تو میں نے   ہارون (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون؟ کہا کہ جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر پوچھا کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہاں کہ ہاں یہ بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے   موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں ساتویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا   جبرائیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو فرشتوں نے پوچھا کون؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کہ کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں ان کو بلانے کا حکم ہوا ہے پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے   ابراہیم (علیہ السلام) کو بیت المعمور کی طرف پشت کئے اور ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا اور بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور انہیں دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملتا ( فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے) پھر   جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہی کی طرف لے گئے اس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح بڑے بڑے تھے اور اس کے پھل بیر جیسے اور بڑے گھڑے کے برابر تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اس درخت کو اللہ کے حکم سے ڈھانکا گیا تو اس کا حال ایسا پوشیدہ ہوگیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض  فرمائیں پھر میں وہاں سے واپس   موسیٰ تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا پچاس نمازیں دن رات میں، موسیٰ نے فرمایا کہ اپنے رب کے پاس واپس جا کر ان سے کم کا سوال کریں اس لئے کہ آپ کی امت میں اتنی طاقت نہ ہوگی کیونکہ میں بنی اسرائیل پر اس کا تجربہ کرچکا اور آزماچکا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے پھر واپس جا کر اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میری امت پر تخفیف فرما دیں تو اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں میں پھر واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں اپنے رب کے پاس جا کر ان میں تخفیف کا سوال کریں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس طرح اپنے اللہ کے پاس سے موسیٰ کے پاس اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے اللہ کے بارگاہ میں آتا جاتا رہا اور پانچ پانچ نمازیں کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا کہ اے محمد ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور ہر نماز کا ثواب اب دس نمازوں کے برابر ہے پس اس طرح ثواب کے اعتبار سے پچاس نمازیں ہوگئیں اور جو آدمی کسی نیک کام کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرسکے تو میں اسے ایک نیکی کا ثواب عطا کروں گا اور اگر وہ اس پر عمل کرلے تو میں اسے دس نیکیوں کا ثواب عطا کروں گا اور جو آدمی کسی برائی کا ارادہ کرے لیکن اس کا ارتکاب نہ کرے تو اس کے نامہ اعمال میں یہ برائی نہیں لکھی جاتی اور اگر برائی اس سے سرزد ہوجائے تو میں اس کے نامہ اعمال میں ایک ہی برائی لکھوں گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں پھر واپس   موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس جا کر تخفیف کا سوال کریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس اس سلسلہ میں بار بار آ جا چکا ہوں یہاں تک کہ اب مجھے اس کے متعلق اپنے اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔

 دوسرے دن آپ نے جب قریش کو اس کی خبر دی تو انہوں نے آزمائشی سوالات کیے اور حجر یا حطیم میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیت المقدس شہر کو آپ کے سامنے کر دیا گیا

  سوره النجم میں ہے[2]

اسے پوری طاقت والے  نے سکھایا ہے (5) جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا (6

اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا (7

پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا (8

پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (9

پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (10

دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا (11

کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں (12) اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (13) سدرةالمنتہیٰ کے پاس (14)

اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے (15

جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی (16

نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی (17

یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں (18

معراج  کے حوالے سے بہت سی ضعیف روایات عوام میں مشہور ہیں جن کو علماء بھی بلا سند بیان کرتے رہے ہیں مثلا    جبریل علیہ السلام کے پروں کا جلنا یا معراج  میں الله تعالی کا دیدار کرنا یا واقعہ معراج پر  اصحاب رسول کا مرتد ہونا  یا   عائشہ رضی الله عنہا سے  یہ قول منسوب کرنا کہ وہ جسمانی معراج کی انکاری تھیں  وغیرہ – اس کتاب میں  اس قسم کی روایات پر  بحث کی گئی ہے

نعلین کے حوالے سے غلو کی ایک وجہ بریلوی فرقہ اور صوفیاء کی جانب سے  بیان کی جاتی ہے کہ موسی علیہ السلام جب طوی کی مقدس وادی میں تشریف لے گئے تو سورۃ طہ کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیا طه،٢٠ : ١١۔

إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى

اے موسٰی بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو

اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم جب معراج پر عرش تک گئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں ملتا کہ کسی مقام پر ان کے نعلین مبارک اتروائے گئے ہوں اس کو دلیل بناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یقینا یہ نعلین بہت مبارک ہیں اور ان کی شبیہ بنانا جائز ہے حالانکہ صحیحین کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی تک ہی گئے اس سے آگے  نہیں اور یہ تو کسی حدیث میں نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم عرش تک  گئے

اہل تشیع کے ہاں معراج کا مقصد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو علی کی امامت کا حکم تھا جو خاص سدرہ المنتہی کے بعد ملا یہاں تک کہ جبریل کو اس کی خبر نہ ہوئی – یہ خبر خاص علم باطن کی طرح تھی جو  الله اور اس کے رسول کے مابین رہی- مزید یہ کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کھل کر اس کو تمام  امت  پر بر سر منبر ظاہر نہیں کیا – مکی دور میں جب سابقوں اولوں  میں سے بعض کو اس   خبر کی بھنک پڑی  تو ان میں سے بعض مرتد تک ہو گئے – افسوس اس قسم کی مبہم روایات  اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں جن سے عوام دھوکہ کھا گئے اور یہ ماننے لگ گئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المتنھی سے گے گئے اور سابقوں اولوں مرتد ہوئے – اہل تشیع کے بقول اس سب کی وجہ علی رضی الله عنہ سے متعلق احکام تھے

بعض  دیوبندی  علماء  نے غلو میں یہ تک کہا کہ عرش پر رسول الله کے پیر پڑے[3]–  دوسری طرف یہی دیوبندی اور بریلوی ، جمہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله اپنے عرش پر نہیں ہے-

 معراج  کب ہوئی اس کے حوالے سے مورخین کے متعدد اقوال ہیں – عصر حاضر میں  اس کو کہا جاتا ہے ماہ رجب میں ہوئی- رجب میں روزہ رکھنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے[4]

ابو شہر یار

٢٠١٨

معراج صخرہ سے ہوئی ؟

راقم کو ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی

https://www.youtube.com/watch?v=tP2cCRUeGso

https://www.youtube.com/watch?v=E03Xq8gtSPY

اور متعدد تحاریر پڑھنے کو ملیں

https://www.masrawy.com/islameyat/sera-hayat_elrasoul/details/2018/4/13/1324188/صخرة-المعراج-حيث-صعد-النبي-إلى-السموات-السبع

 

اس میں بتایا جا رہا ہے کہ مسجد الصخرہ   کے نیچے موجود  روحوں کے غار مغارة الأرواح  سے معراج  کا آغاز  ہوا –   صخره  بيت المقدس   ابن عباس سے منسوب  روایت کے مطابق  جنت کی چٹان ہے  اور  یہاں سے ایک   پورٹل

Portal

کھل گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اس سے جنت میں داخل ہو گئے

ایک  جگہ تحریر دیکھی جس میں ام ہانی سے منسوب ایک روایت میں ہے

اس کے بعد خواجہ عالم  نے فرمايا نے جبرائيل عليہ السلام نے ميرا ہاتھ پکڑا اور  صخرة (پتھر) پر لے آئے، جب ميں صخرة  پر آيا، ميں نے صنحرہ سے آسمان تک ايسي خوبصورت سيڑھي ديکھي کہ اس سے پہلے ايسي حسين چيز نہيں ديکھي تھي، روايت ميں اس سيڑھي کي تعريف يوں بيان ہوئي ہے اس کے دونوں پہلو دو پنجروں کے مانند تھے ايک سرا زمين پر اور دوسرا آسمان پر تھا، ايک يا قوت سرخ کا بنا ہوا تھا اور دوسرا سبز زمرد ہے، اس کے پائيدان ايک سونے اور ايک چاندي کے جو موتيوں اور جواہرات سے آراستہ تھے بعض روايات ميں ہے کہ اس کرسي کے زمرد کے دو پر تھے اگر ايک پر کوان ميں سے کھولتا تمام دنيا کو گھير ليتا، اس سيڑھي پر پچاس منزليں تھيں، ايک منزل سے دوسري منزل تک ستر ہزار سال کا راستہ تھا، تمام نے ايک دوسرے کو خوشخبري دي، ميري طرف اشارہ کرتے تھے، يہ زينہ فرشتوں کي گزرگاہ بن گيا جو آسمان سے زمين پر اور زمين سے آسمان پر آتے جاتے تھے کہتے ہيں کہ ملک الموت قبض ارواح کے ليے اس سيڑھي سے نيچے اترتے ہيں اور کہتے ہيں کہ موت کے وقت جب آنکھيں خيرہ ہو جاتي ہيں تو وہ سيڑھي دکھائي ديتي ہے القصہ آنحضرت  صحيح ترين روايات کے مطابق براق پر سوار ہوئے اور اس سيڑھي کے ذريعہ آسمان پر پہنچے، ايک روايت يہ ہے کہ جبرائيل عليہ السلام نے مجھے فرمايا: آنکھيں بند کيجئے، جب کھوليں تو ميں آسمان پر تھا

اس  إقتباس میں دعوی  کیا گیا ہے صخرہ  سے ایک رستہ بنا جو جنت پر لے جا رہا تھا یا اس میں ایک سیڑھی نمودار ہوئی اور اس پر قدم  رکھتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں پہنچ گئے

توریت کتاب پیدائش باب ٢٨ میں ہے

یعقوب علیہ السلام نے  خواب میں بیت ایل  میں ایک سیڑھی دیکھی  جس سے فرشتے آسمان سے اترتے چڑھتے ہیں – اسلامی روایات میں اس سیڑھی  کو معراج کی رات صخرہ  میں دکھایا گیا ہے

راقم کہتا ہے یہ خبر اسرائیلاتات  میں سے ہے اور قابل غور ہے کہ آج تک اس کا  روایت کا اثر مسلمانوں پر باقی ہے

پیدائش النبی کی عید

نبی صلی الله علیہ وسلم کی اس دنیا میں  پیدائش سے قبل عالم ارضی میں اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن بہت خوشی سے مناتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ نصرانیوں کے بقول عیسیٰ نے موت کے چکر کو ختم کر دیا اب جو بھی ان کو الله کی پناہ رب کا بیٹا مان لے گا وہ ابدی زندگی سے ہمکنار ہو گا اور جو نہیں مانے گا وہ حیات اخروی نہ پائے گا بلکہ اس کی روح معدوم ہو جائے گی

اس کو نئی زندگی کی نوید کہا جاتا ہے لہٰذا عیسیٰ کی آمد کے سلسلے میں جشن منایا جاتا تھا اور ہے – نصرانیوں کی انجیل یوحنا کی آیات ہیں

یعنی عیسیٰ نور تھا جو الله سے جدا ہوا اور کلمہ الله بن کر انسانی صورت مجسم ہوا – یہ شرح یوحنا نے کی جو ایک یونانی ذہن کا شخص تھا اور انجیل کی ابتداء میں اپنی شرح بیان کی

 الله تعالی نے اس کا رد کیا اور خبر دی کہ عیسیٰ ابن مریم نور نہیں بلکہ کتاب الله یعنی انجیل نور تھی اور کلمہ الله مجسم نہیں ہوا بلکہ مریم کو القا ہوا اور ان میں عیسیٰ کی روح پھونکی گئی

لیکن ١٠٠ ہجری کے اندر ہی اس فرق کو میٹ دیا گیا اور راویوں نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر بھی نور نکلا

حدثنا أحمد قال: نا يونس بن بكير عن ابن إسحق قال: حدثني ثور بن يزيد عن خالد بن معدان، عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أنهم قالوا: يا رسول الله، أخبرنا عن نفسك، فقال: دعوة أبي إبراهيم، وبشرى عيسى، ورأت أمي حين حملت بي أنه خرج منها نور أضاءت له قصور بصرى من أرض الشام، واسترضعت في بني سعد بن بكر، فبينا أنا مع أخ لي في بهم لنا، أتاني رجلان عليهما ثياب بياض، معهما طست من ذهب مملوءة ثلجاً، فأضجعاني، فشقا بطني، ثم استخرجا قلبي فشقاه، فأخرجا منه علقة سوداء، فألقياها، ثم غسلا قلبي وبطني بذاك الثلج، حتى إذا أنقياه، رداه كما كان، ثم قال أحدهما لصاحبه: زنه بعشرة من أمته، فوزنني بعشرة، فوزنتهم، ثم قال: زنه بألف من أمته، فوزنني بألف، فوزنتهم، فقال: دعه عنك، فلو وزنته بأمته لوزنهم.

 خالد بن معدان بن أبى كرب الكلاعى ، أبو عبد الله الشامى الحمصى نے اصحاب رسول سے روایت کیا   کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو انہوں نے دیکھا  ان کے جسم سے نور نکلا  جس  سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے

اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

کتاب جامع التحصیل کے مطابق اس راوی کا سماع شام منتقل ہونے والے اصحاب سے ہے ہی نہیں

خالد بن معدان الحمصي يروي عن أبي عبيدة بن الجراح ولم يدركه قال أحمد بن حنبل لم يسمع من أبي الدرداء وقال أبو حاتم لم يصح سماعه من عبادة بن الصامت ولا من معاذ بن جبل بل هو مرسل وربما كان بينهما اثنان وقال أبو زرعة لم يلق عائشة وقال بن أبي حاتم سألته يعني أباه خالد بن معدان عن أبي هريرة متصل فقال قد أدرك أبا هريرة ولا يذكر له سماع

اور خود   الذهبي کا کہنا ہے  كان يرسل ويدلس یہ ارسال و تدلیس بھی کرتا ہے

میرے نزدیک جب تک صحابی کا نام نہ لے اس روایت کو متصل نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ یہ مدلس ہے واضح رہے اصحاب رسول عدول ہیں لیکن ان سے راوی  کا سماع نہیں ہے

امام بخاری نے صحیح میں خالد کی  أَبَا أُمَامَة والمقدام بن معد يكرب وَعُمَيْر بن الْأسود الْعَنسِي سے روایت لی ہے یعنی بخاری کے نزدیک ان اصحاب رسول سے سماع ہے لیکن نور نکلنے والی روایت میں اصحاب رسول کا نام نہیں لیا گیا لہذا یہ بات مشکوک ہے

انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا

اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں

شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن  کو  بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ  بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ

سند میں  سعيد بن سويد شام حمص کا ہے  میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

امام  البخاري: لا يتابع في حديثه.

امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی

البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

یہ حدیث ہم نہیں جانتے  کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے

یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا

صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے  اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے

راقم کہتا ہے روایت  چاہے  سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے

خصائص الکبری میں پیدائش کی روایت تفصیل سے ہے نعوذباللہ جس کے مطابق اپ صلی الله علیہ وسلم کس طرح اپنی ماں سے باہر نکلے بیان کیا گیا ہے
اسی میں ہے کہ
وأبصرت تِلْكَ السَّاعَة مَشَارِق الأَرْض وَمَغَارِبهَا وَرَأَيْت ثَلَاثَة أَعْلَام مضروبات علما فِي الْمشرق وعلما فِي الْمغرب وعلما على ظهر الْكَعْبَة فأخذني الْمَخَاض فَولدت مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَلَمَّا خرج من بَطْني نظرت إِلَيْهِ فَإِذا أَنا بِهِ سَاجِدا
آمنہ نے کہا من نے مشرق و مغرب میں دیکھا اور تین جھنڈے دیکھے ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک کعبہ پر اور محمد باہر آیا تو سجدے میں تھا

یہ طویل روایت ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوہ میں دی ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ

اس کی سند میں أبو بكر بن عبد الله بن أبي مريم الغساني الشامي ہے جو سخت ضعیف ہے
قال ابن حبان: هو رديء الحفظ، وهو عندي ساقط الاحتجاج به إذا انفرد.
ابن حبان نے کہا ردی حافظہ کا مالک تھا اور میرے نزدیک اس کی منفرد روایت ساقط دلیل ہے

اس طرح   شامیوں کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بطن آمنہ میں سے نور نکلنے والے روایت – محراب و منبر پر بیان کی جاتیں ہیں

اس نور کی منظر کشی عصر حاضر میں ایرانی فلم میں کی گئی

  شامی راویوں  کی اس روایت کو اہل تشیع نے قبول کر لیا

شیعوں کی کتاب الخصال از  أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى المتوفى 381 ہجری کے مطابق

حدثنا أبوأحمد محمد بن جعفر البندار الفقيه بأخسيكث ( 2 ) قال : حدثنا
أبوالعباس محمد بن جمهور ( 3 ) الحمادي قال : حدثني أبوعلي صالح بن محمد البغدادي ببخارا
قال : حدثنا سعيد بن سليمان ، ومحمد بن بكار ، وإسماعيل بن إبراهيم قال ( 4 ) : حدثنا
الفرج بن فضالة ، عن لقمان بن عامر ، عن أبي امامة قال : قلت : يا رسول الله ما كان
بدء أمرك ، قال : دعوة أبي إبراهيم ، وبشرى عيسى بن مريم ، ورأت أمي أنه خرج منها شئ أضاءت منه قصور الشام (

الفرج بن فضالة الحمصي الشامی نے روایت کیا لقمان بن عامر سے اس نے ابی امامہ سے کہ میں نے رسول الله سے پوچھا اپ کا امر نبی کیسے شروع ہوا؟ فرمایا میں اپنے باپ ابراھیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ ابن مریم کی بشارت ہوں اور میری امی نے دیکھا کہ ان میں سے نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے

اس کی سند میں الفرج بن فضالة الحمصي الشامی اہل سنت میں سخت ضعیف ہے اور اہل تشیع کی کتب رجال میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملا

رسول الله کی پیدائش پر ان کے ساتھ ان کی ماں کے بطن سے ایک عظیم نور نکلا اس روایت کے مختلف طرق ہیں سب میں شامیوں کا تفرد ہے

مزید دیکھیں

عید میلاد النبی

 

سرگزشت تصوف و سرية

سرگزشت تصوف و سرية

تصوف و سرية  داؤن لوڈ  کریں

تصوف ایک   وقت   تھا    جب اسکے    لٹریچر       میں   صرف زہد ہوتا   تھا – دنیا سے غیر ضروری بے زاری کا ذکر ہوتا     اور بس الله تک پہنچنے کا ذکر ہوتا –    پھر  اس میں  ارتقاء   ہوا    کہ  جو الله تک پہنچ گئے یعنی مدفون یا مقبور ان سے   لوگوں  کا  غیر معمولی لگاؤ ہوا – اس کے پیچھے بد نیتی نہیں تھی بس زہد تھا جس کی بنا پر ایسا کیا گیا –      قبروں پر جانا شریعت  میں ممنوع  عمل نہیں   بلکہ دنیا کی  بے ثباتی  یاد رکھنے کے لئے وہاں جانے کا حکم ہے-  زہاد نے     وقت     گزرنے   کے ساتھ ساتھ عباسی  دور خلافت   کے شروع میں     یہ تصور قائم کیا کہ مدفون  اولیاء   اللہ ان قبروں میں  ہی  زندہ ہیں ،  شہداء زندہ ہیں ، انبیاء زندہ ہیں  اور وہ  رزق  بھی  پا رہے ہیں-  اس کو ثابت  کرنے کے لئے قرانی آیات سے  استنباط کیا گیا    اور  احادیث  و روایتوں کو بھی بیان کیا گیا –   تصوف   اس صنف میں جو کتب    تالیف ہو رہی تھیں وہ نہایت غلط سلط روایات کا مجموعہ تھیں- لوگوں نے ان    روایات کو قبول کر لیا اور پھر صحیح    احادیث کے مفہوم  کو بھی اسی سانچے میں ڈھال   کر تشریح  کی گئی –   اس عمل میں زہد  تصوف میں بدل گیا –   متصوفین   چونکہ  علم  حدیث کے عالم نہیں تھے  افسوس وہ انہی ضعیف روایات کی عینک سے  قرآن و  صحیح   احادیث  کی تشریح کرنے لگے      جس سے وہ مفہوم نکلتا  جو قرانی عقائد کے خلاف ہوتا   –    لیکن چونکہ  سن   ٥٠٠ ہجری   تک   امت کی اکثریت  میں   پاپولر   مذھب   قبروں سے متصف ہونا ہی ہو گیا تھا تو اس کو جمہور کی سند پر  اللہ کی مرضی مان لیا گیا –

اعتقادی  مسائل   میں  متصوفین    نے  بہت سے مراحل    و  مدارج طے  کیے     ہیں –  ان میں انڈر  گراونڈ  تحریکوں  کی طرح    جہم بن  صفوان  کے  خیالات،  وحدت الوجود    کی شکل  میں ظاہر ہوئے –  ساتھ  ہی  فلسفہ   یونان بھی شامل  ہو ا –     نصرانی و یونانی    ہومواوسس   یا  ہمہ  اوست   بھی  آ یا  – مصری    غناسطیت   بھی اس میں نظر اتی ہے  –    ہمالیہ   یا سینٹرل  ایشیا   کے   راہب   بھی عرب   ، عراق و شام  پہنچ رہے تھے-  یمنی  ابن سبا   اور   شیعی       زہاد   بھی  اس مجمع    میں     حصہ  رسدی   کا کام کر رہے تھے –   دوسری طرف  روایت پسند محدثین   زہد پر کتب لکھ رہے تھے جس میں ہر قسم کا رطب و یابس  نقل ہو رہا تھا –    ان  تمام  افکار    کا تصوف پر اثر ہوا اور آج      تصوف میں بیک وقت  وحدت الوجود ، ہمہ  اوست ،   فنا و  بقا، حلول ،  چلہ کشی ،   سب موحود   ہے   اور   قبول کر لی  گئی ہے  –

اسلامی تصوف کی      تمام  شکلوں    و   جہتوں   پر بات  کرنا  ایک ہی نشست و کتاب   میں  ممکن نہیں  ہے   –     راقم   کی   کتاب مجمع  البحرین (مجمع البحرین)    ویب سائٹ   پر  پہلے سے  موجود ہے –     کتاب هذا   میں     ویب  سائٹ  اسلامک بلیف   پر      تصوف و سریت  سے متعلق  پیش کردہ   چند     مضامین کو   یکجا کیا گیا  ہے   اور      قارئین کی دلچسپی   کے لئے   کچھ چنیدہ  مباحث   کو  اکٹھا     کیا گیا ہے –

ابو شہر یار

 

ابن صیاد کا دل کا حال جاننا

اسلامی تاریخ میں اتا ہے کہ مدینہ میں دور نبوی میں ایک عورت نے بچے کو جنا جو پیدائشی کانا تھا (مسند احمد) – یہ بچہ مسلمانوں کے بچوں کے ساتھ کھیلتا تھا اور کسی حدیث میں نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو اس سے ملنے سے منع کر دیا ہو- ابن صیاد یا ابْنِ صَائِدٍ کے حوالے سے  مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب بچپن میں ہی اس کا امر مشتبہ ہوا اور اس نے اپنے اوپر القا ہونے کا دعوی بھی کر دیا – اس طرح دجال کی جو نشانیاں تھیں ان میں سے چند اس میں جمع ہونا شروع ہوئیں – اس کی والدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں اور عرض کی کہ آ کر اس کے بیٹے کا معائینہ کریں – اس لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابن صیاد کے گھر گئے اور اس سے سوال و جواب کیا – صحیح بخاری و مسلم  میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تو کیا دیکھتا ہے؟
ابن صیاد : میں سمندر پر عرش دیکھتا ہوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : وہ ابلیس کا عرش ہے
ابن صیاد : میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا اتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تیرا معامله مختلط (مشکوک ) ہو گیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : میں نے تیرے لئے کچھ چھپایا ہے
ابن صیاد : وہ الدخ، الدخ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ہٹ – تو اس پر قدرت نہیں رکھتا

نوٹ : صحیح بخاری کی کسی حدیث میں موجود نہیں کہ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان کا سوچا البتہ یہ بات بعض دیگر کتب حدیث میں ہے

شارحین کا اس الدخ (دھواں) پر جو کہنا ہے اس کی تلخیص صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے پیش کی ہے

قال النووي في شرح مسلم 18/49: الجمهور على أن المراد بالدخ هنا: الدخان، وأنها لغة فيه، وخالفهم الخطابي، فقال: لا معنى للدخان هنا، لأنه ليس مما يخبأ في كف أو كم كما قال، بل الدخ بيت موجود بين النخيل والبساتين، قال: إلا أن يكون معنى “خبأت”: أضمرت لك اسم الدخان وهي قوله تعالى: {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين} قال القاضي: قال الداودي: وقيا: كانت سورة الدخان مكتوبة في يده صلى الله عليه وسلم، وقيل: كتب الآية في يده.قال القاضي: وأصح الأقوال أنه لم يهتد من الآية التي أضمر النبي صلى الله عليه وسلم إلا لهذا اللفظ الناقص على عادة الكهان

نووی نے شرح مسلم میں کہا جمہور کہتے ہیں کہ ابن صیاد کی دخ سے مراد یہاں ہے الدخان ہے اور یہ لغت ہے لیکن خطابی نے مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ دخان یہاں مطلب نہیں ہے کیونکہ یہ وہ نہیں جس کو مٹھی میں چھپایا جا سکے بلکہ گھر میں دھواں موجود تھا جو کھجور وں اور باغ کے بیچ میں تھا (یعنی دھواں پھیلا ہوا تھا )– نووی نے کہا خبأت (چھپانے ) میں مضمر ہے کہ نام الدخان تھا اور یہ اللہ کا قول ہے {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين}- قاضی نے کہا الدوادی نے کہا سورہ الدخان اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر لکھی ہوئی تھی اور کہا گیا اپنے ہاتھ سے آیات لکھی تھیں – قاضی نے کہا ان اقوال میں صحیح یہ ہے کہ ابن صیاد کو ہدایت نہ ہوئی کہ اس آیت تک جاتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچی تھی سوائے کاہنوں کی طرح ایک لفظ ناقص کے

راقم کہتا ہے کہ یہ بات صحیح بخاری میں موجود نہیں کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان سوچی تھی – یہ راقم کے نزدیک امام معمر بن راشد کا ادراج ہے کیونکہ یہ روایت اعمش کی سند سے اور امام الزہری کے دیگر شاگردوں کی سند سے معلوم ہے – انہوں نے سورہ الدخان کا ذکر نہیں کیا ہے – اس لئے خطابی کا قول صحیح ہے ابن صیاد نے صرف اٹکل سے کام لیا دیکھا اس وقت دھواں پھیلا ہوا ہے تو فورا وہی بول دیا کہ شاید اسی چیز کا خیال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہوں – و اللہ اعلم

مسند البزار اور معجم کبیر از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَامِرٍ الْأَنْطَاكِيُّ، قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَابِقٍ، قَالَ: نا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ [ص:169] حَارِثَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ: «انْطَلِقْ» فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصْحَابُهُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلُوا بَيْنَ حَائِطَيْنِ فِي زُقَاقٍ طَوِيلٍ، فَلَمَّا انْتَهَوْا إِلَى الدَّارِ إِذَا امْرَأَةٌ قَاعِدَةٌ، وَإِذَا قِرْبَةٌ عَظِيمَةٌ مَلْأَى مَاءً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرَى قِرْبَةً وَلَا أَرَى حَامِلَهَا» فَأَشَارَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى قَطِيفَةٍ فِي ناحِيَةِ الدَّارِ، فَقَامُوا إِلَى الْقَطِيفَةِ، فَكَشَفُوهَا فَإِذَا تَحْتَهَا إِنْسَانٌ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَاهَ الْوَجْهُ» ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لِمَ تَفْحَشُ عَلَيَّ؟، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْئًا، فَأَخْبِرْنِي مَا هُوَ» ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَبَأَ لَهُ سُورَةَ الدُّخَانِ، فَقَالَ: «الدُّخُّ» ، فَقَالَ: اخْسَهْ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ “، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهَذَا الْحَدِيثُ قَدْ رَوَى بَعْضَهُ أَبُو الطُّفَيْلِ نَفْسُهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ
اس سند میں معمر نہیں ہے لیکن متن میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان سوچی
یہ سند ضعیف ہے – سند میں زياد بن الحسن بن فرات القزاز التميمى الكوفى منکر الحدیث ہے –

معجم الاوسط از طبرانی میں اسی سند سے ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عِيسَى التَّنُوخِيُّ قَالَ: نا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ الْفُرَاتِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: «انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى إِنْسَانٍ قَدْ رَأَيْنَا شَأْنَهُ» قَالَ: فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَمْشِي وَأَصْحَابُهُ مَعَهُ، حَتَّى دَخَلُوا حَائِطَيْنِ فِي زُقَاقٍ طَوِيلٍ، وَانْتَهَوْا إِلَى بَابٍ صَغِيرٍ، فِي أَقْصَى الزُّقَاقِ، فَدَخَلُوا إِلَى دَارٍ، فَلَمْ يَرَوْا فِي الدَّارِ أَحَدًا غَيْرَ امْرَأَةٍ قَاعِدَةٍ، وَإِذَا قِرْبَةٌ عَظِيمَةٌ مَلْأَى مَاءً، فَقَالُوا: نَرَى قِرْبَةً وَلَا نَرَى حَامِلَهَا، فَكَلَّمُوا الْمَرْأَةَ، فَأَشَارَتْ إِلَى قَطِيفَةٍ فِي نَاحِيَةِ الدَّارِ، فَقَالَتْ: انْظُرُوا مَا تَحْتَ الْقَطِيفَةِ فَكَشَفُوهَا، فَإِذَا تَحْتَهَا إِنْسَانٌ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَاهَ الْوَجْهُ» فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لِمَ تَفْحَشُ عَلَيَّ؟ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْأً، فَأَخْبِرْنِي مَا هُوَ» وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: «إِنِّي قَدْ خَبَّأْتُ لَهُ سُورَةَ الدُّخَانِ» فَقَالَ: سُورَةُ الدُّخَانِ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْسَأْ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ، ثُمَّ انْصَرَفَ»
اس متن میں ہے کہ ابن صیاد نے سورہ الدخان تک بولا – سند وہی مسند البزار والی ہے

معجم الاوسط میں ہے
حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: نا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الزِّمَّانِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ: نا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ قَالَ: ثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: لَأَنْ أَحْلِفُ عَشْرَةَ أَيْمَانٍ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ هُوَ الدَّجَّالُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ مَرَّةً أَنَّهُ لَيْسَ بِهِ، وَذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَنِي إِلَى أُمِّهِ، فَقَالَ: «سَلْهَا، كَمْ حَمَلَتْ؟» فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، فَقَالَ: «سَلْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَيْحَتُهُ حِينَ وَقَعَ؟» قَالَتْ: صَيْحَةَ الصَّبِيِّ ابْنِ شَهْرٍ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبَأً، فَمَا هُوَ؟» فَقَالَ: عَظْمُ شَاةٍ عَفْرَاءَ، فَجَعَلَ يُرِيدُ يَقُولُ: الدُّخَانُ فَجَعَلَ يَقُولُ: الدُّخَ الدُّخَ، فَقَالَ: «اخْسَأْ، فَإِنَّكَ لَنْ تَسْبِقَ الْقَدَرَ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْحَارِثِ إِلَّا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں نے ایک چیز چھپائی ہے – ابن صیاد بولا بھیڑ کی سب سے بڑی ہڈی
پس وہ کہنا چاہ رہا تھا الدخان لیکن منہ سے نکلا الدخ – پس نبی نے فرمایا ہٹ پرے تو اس پر قادر نہیں ہے –
سندا اس میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ اور الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ بہت مضبوط نہیں ہیں

لب لباب ہے کہ ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں موجود سورہ الدخان کے الفاظ میں سے الدخ تک پہنچ گیا منکر روایت ہے – یہ بات صرف معمر بن راشد  کے تفرد کے ساتھ معلوم ہے – دل کے حال کا علم صرف اللہ کو ہے

واللہ علیم بذات الصدور

ابن صیاد کی شادی بھی ہوئی اور اولاد بھی کسی روایت میں نہیں کہ اس کو دجال سمجھتے ہوئے مسلمانوں نے اس کو بیٹی دینے سے انکار کیا بلکہ اس کی اولاد موطا امام مالک میں راوی ہے – عمارة ابن عبد الله ابن صياد اس کے بیٹے ہیں اور مدینہ کے فقہا میں سے ہیں – الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر کے مطابق وكان من خيار المسلمين من أصحاب سعيد بن المسيّب
ابن صیاد کے بیٹے اچھے مسلمانوں میں سے تھے سعید بن المسیب کے ساتھیوں میں سے – تاریخ زبیر بن بکار کے مطابق عمارة ابن عبد الله ابن صياد خلیفہ الولید بن عبد الملک کے دور تک زندہ تھے یعنی ابن صیاد پر جو بھی شک ہو وہ صرف اس تک محدود تھا
طبقات ابن سعد کے مطابق وغزا مع المسلمين ابن صیاد نے مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں حصہ بھی لیا اگر تمام اصحاب رسول اس کو دجال ہی سمجھتے تو بنو امیہ اس کو جہاد میں شامل ہی نہ کرتے

انبیاء  کے قبل نبوت خواب

قرآن و حدیث  میں انبیاء کے قبل نبوت سچے خوابوں  کا ذکر موجود ہے – ان خوابوں  کے بارے میں  جو رہمنائی ملتی ہے  وہ یہ ہے کہ  اگرچہ یہ خواب سچے تھے لیکن یہ الوحی کی مد میں سے نہیں تھے

قبل   نبوت –  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب

صحیح بخاری کی آغاز الوحی والی روایت میں ذکر ہے کہ نبی پر  اس امر نبوت کا آغاز سچے خوابوں سے ہوا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دیکھتے دوسرے دن پورا ہو جاتا – اس کیفیت نے آپ کو دنیا سے بے رغبت کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے التحنث   پہاڑ پر جا کر کرنا شروع کر دیا-

صحیح بخاری حدیث ٣ ہے اس میں  الوحی کا لفظ ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ

عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الوحی شروع ہوئی تو نیند میں سچے خواب دیکھے

صحیح بخاری ح ٦٩٨٢ میں   الوحی کا لفظ  ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ

 عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب الوحی شروع ہوئی تو نیند میں سچے خواب دیکھے

صحیح بخاری ح ٤٩٥٥ میں اسی سند سے الوحی کا لفظ نہیں ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: ” أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ

 عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ سلسلہ  شروع ہوا تو نیند میں سچے خواب دیکھے

صحیح بخاری ٤٩٥٣ میں ہے اس میں الوحی کا لفظ نہیں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ح وَحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ سَلْمَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ،

 عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ سلسلہ  شروع ہوا تو نیند میں سچے خواب دیکھے

ان تمام سندوں  اور مختصر متن سے ظاہر ہے کہ کوئی  راوی الوحی کے لفظ کو خود کم کر دیتا ہے یا بڑھا دیتا ہے

یہ ایک ہی سند ہے اصلا تو امام زہری کی روایت ہے – صحیح میں پانچ مقام پر اسی سند سے ہے اور متن میں ایک لفظ بدل رہا ہے-   الفاظ میں الوحی کا اضافہ ہو جاتا ہے-

الوحی کا لفظ اس میں اضافہ ہے جو دیگر مقام پر انہی اسناد سے نہیں آ رہا –  لہذا جو بات صحیح ہے وہ یہ کہ ام المومنین نے کہا کہ شروع میں نبی نے صرف سچے خواب دیکھے –  انہوں نے الوحی کا ذکر کیا یہ راویوں کا اپنا اضافہ ہے

کتاب عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل والسير میں اس واقعہ کی دوسرے صحابی سے بھی تفصیل ہے وہ بھی اس کو الوحی کا آغاز نہیں کہتے

وَرُوِّينَا عَنْ أَبِي بِشْرٍ الدَّوْلابِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَبُو قُرَّةَ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ عِيسَى بْنِ تَلِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضْلَةَ عَنْ أَبِي الطَّاهِرِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم أَنَّهُ كَانَ مِنْ بَدْءِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَأَى فِي الْمَنَامِ رُؤْيَا،

جس وقت سچے خواب آ رہے تھے اس وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس سے لا علم تھے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے-

متن کی تاویل

ہم ان روایات کی تاویل کریں گے کہ راوی کا الوحی کا اضافہ کرنے سے مراد النُّبُوَّة یعنی خبر ملنا ہے-  ابھی اس النبوه کی کیفیت وہی ہے جو ایک عام مومن کی ہوتی ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے

حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري حدثني سعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لم يبق من النبوة إلا المبشرات قالوا وما المبشرات قال الرؤيا الصالحة

صحیح بخاری ٦٥٨٩

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا النبوه میں کچھ باقی نہیں سوائے مبشرات کے جو اچھے خواب ہیں

اس کی تائید سیرت ابن ہشام سے ہوتی ہے جس میں ہے

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: فَذَكَرَ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ: أَنَّ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ النُّبُوَّةِ، حِينَ أَرَادَ اللَّهُ كَرَامَتَهُ وَرَحْمَةَ الْعِبَادِ بِهِ، الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ،

امام زہری نے کہا عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا النبوہ  میں رسول اللہ پر سب سے پہلے جب اللہ تعالی نے ان پر رحم و کرامت کا ارادہ کیا تو سچے خوابوں سے کیا

یہ آغاز الوحی والی روایت ہی ہے فرق ہے تو الوحی کو النبوه سے بدلا گیا ہے اور النبوہ سے مراد صرف سچی خبر ہے

متن میں مدرج جملے

فتح الباری میں ابن حجر نے اس پر لکھا ہے کہ اس روایت شروع میں التحنث کا ذکر راوی کا ادراج ہے

قَالَ وَالتَّحَنُّثُ التَّعَبُّدُ هَذَا ظَاهِرٌ فِي الْإِدْرَاجِ إِذْ لَوْ كَانَ مِنْ بَقِيَّةِ كَلَامِ عَائِشَةَ لَجَاءَ فِيهِ قَالَتْ وَهُوَ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ مِنْ كَلَامِ عُرْوَةَ أَوْ مَنْ دُونَهُ

راقم کے نزدیک شروع کے جملوں میں الفاظ مدرج ہیں – زہری نے عروہ سے جو سنا اس میں اپنا فہم ملا دیا ہے

ایسا مرویات زہری میں مسئلہ رہا ہے کہ اصل متن کیا تھا معلوم نہیں ہو پاتا

الوحی کا آغاز

الوحی کا آغاز اقراء سے ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے رب کا حکم  آنے لگا-  اس کے بعد تمام خواب الوحی ہیں –  اس سے قبل جو خواب تھے وہ الوحی نہیں تھے کیونکہ اس میں صرف جو دیکھا وہ پورا ہو رہا تھا کسی تبلیغ کا حکم نہیں تھا نہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ وہ نبی بننے والے ہیں

قرآن میں  سورہ  شوری آیت ٥٣ میں ہے

وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب ولا الإيمان

اور اسی طرح ہم نے تم پر اپنے حکم سے الوحی کیا – تم نہیں جانتے تھے کتاب کیا ہے- ایمان کیا ہے

جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھ رہے تھے یہ ہی وہ وقت تھا جب آپ کو نہ کتاب کا معلوم تھا نہ ایمان کا معلوم تھا لہذا اس وقت آپ نبی نہیں تھے-  اگر جانتے ہوتے تو جبریل کی آمد کے منتظر ہوتے- ان کو دیکھ کر گھبراتے نہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کتاب اللہ کا علم تھا نہ ایمان کا ،  الوحی کے آنے سے پہلے اور یہ باتیں انبیاء کو فرشتے بناتے ہیں- کیا خواب میں ایمان کامل کا معلوم ہو سکتا ہے ؟ خواب اس وقت الوحی بنتا ہے جب انبیاء – انبیاء بن چکے ہوتے ہیں

  اگر   ہم   مان  لیں   کہ رسول اللہ پر خوابی الوحی سب سے پہلے آئی تو اس کا دور کب شروع ہوا ؟ اس کی کوئی حد نہیں ہے – بعض علماء نے اسی متن سے دلیل لی ہے کہ  رسول اللہ پیدائشی نبی تھے- ہم کو معلوم ہے کہ الوحی تین طرح اتی ہے

ترجمه: اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ اس سے بات کرے ۔ سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام لانے والا ( فرشتہ ) بھیج دے ، اور وہ اس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کا پیغام پہنچا دے ۔ یقینا وہ بہت اونچی شان والا بڑی حکمت کا مالک ہے ۔

اور سچا خواب مومن بھی دیکھتا ہے اور نبی بھی لیکن چونکہ نبی بننے کے بعد انبیاء کا دل نہیں سوتا ان کا خواب الوحی کی قسم میں سے ہے   جبکہ ایک عام شخص کا خواب سچا تو ہو سکتا ہے لیکن الوحی ہرگز نہیں –

کیا التحنث سنت ہے ؟

  اگر آمد جبریل سے قبل خواب میں رسول اللہ پر الوحی آ رہی تھی تو یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ ایمان کے مندرجات (مثلا فرشتوں پر غیب پر ایمان )کو جانتے تھے (لیکن اس کی تبلیغ نہیں کرتے تھے) تو پھر فرشتہ دیکھ کر گھبرائے کیوں ؟ – اگر آمد جبریل سے قبل کے خوابوں کو الوحی مان لیں تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ جبریل کی آمد سے قبل ہی رسول اللہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ ایمان کیا ہے اور کتاب کیا ہے- سوال ہے  تو پھر وہ التحنث کیوں کر رہے تھے ؟ کیا دین میں اس عبادت کی کوئی دلیل موجود ہے کہ رہبان کی طرح پہاڑ پر جا کر بیٹھ جاؤ ؟ اسلام میں تو گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانے کا حکم  نہیں ہے – اللہ نے رہبانیت کو نصرانی بدعت قرار دیا ہے –   عرب کے حنفاء کو یہ چیز انہی سے ملی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئی اور آپ نے بھی مراقبہ غار میں کیا- پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا وہاں مراقبہ یا التحنث کرنا، یہ عمل نبی بننے سے پہلے کا  تھا اسی لیے ہمارے لئے دلیل نہیں ہے –   اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آمد جبریل سے قبل سے نبی سمجھیں  گے تو التحنث  سنت  ہوا – گھر والوں کو چھوڑ کر پہاڑ پر جا کر بیٹھ جانا دلیل ہوا

یوسف علیہ السلام کا  خواب

سوره یوسف میں بیان ہوا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا

قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ

اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے دیکھا وہ مجھے  سجدہ کررہے ہیں

یعقوب علیہ السلام نے اس خواب کو سننے کے بعد یہ نہیں کہا کہ ہماری شریعت میں سجدہ جائز ہے یہ کوئی خاص چیز نہیں بلکہ آپ علیہ السلام نے اندازہ لگا لیا کہ الله کی طرف سے یوسف کی توقیر ہونے والی ہے. یعقوب علیہ السلام نے خواب چھپانے کا حکم دیا

قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ

کہا اے بیٹے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے خلاف سازش کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے

پھر یوسف کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں پھینکا وہاں سے الله نے مصر پہنچایا اور الله نے عزیز مصر کا وزیر بنوایا  پھر قحط پڑنے کی وجہ سے بھائیوں کو مصر آنا پڑا اور بلاخر ایک وقت آیا کہ خواب سچ ہوا

رَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ ھ۔ذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا

اور احترام سے بٹھایا اس نے اپنے والدین کو تخت پر اور جھک گئے سب اس کے لئے سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا: ابّا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچّا

اس خواب کی بابت بعض لوگوں نے  بلا دلیل موقف اختیار کر لیا ہے کہ یہ خواب دیکھنا ہی  یوسف کی نبوت کا آغاز تھا- یہ    موقف اس لئے اپنایا گیا کہ کسی  طرح   اس سجدہ  کو حکم الہی  قرار دیا جائے جو     سورت میں بیان ہوا کہ اولاد یعقوب  سے یوسف کے حوالے سے ہوا  –   بعض نے  اس سجدے کو اللہ  تعالی کو سجدہ  قرار دیا جبکہ  آیت میں ضمیر الہا     یوسف کی طرف ہے نہ کہ اللہ تعالی کی طرف –   راقم کا موقف ہے کہ یہ سجدہ  انحنا  تھا   یعنی صرف  شرمندہ ہو کر جھکنا   تھا   نہ کہ معروف نماز   کا اصطلاحی  سجدہ-   یاد رہے کہ سجد  کا لفظ    قریش کی عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب زمین کی طرف لپکنا ہے – جب ان کے بھائی مصر کے دربار میں پہنچے تو یوسف کے بھائی  شرم و ندامت سے  جھک  گئے اور اس طرح وہ خواب حق ہو گیا جو دیکھا تھا – یہ سجدہ تعظیمی نہ تھا یہ صرف زمین کی طرف  جھکنا تھا جس کو الانحناء بھی کہا جاتا ہے-  یوسف علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو فرمایا

وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ

اے باپ یہ میرے پچھلے خواب کی تاویل تھی (آج) میرے رب نے اس کو حق کر دیا

یوسف کا خواب الوحی نہیں تھا

اس پر دلیل یہ ہے کہ  انبیاء پر تو لازم ہے کہ جو الوحی ہو اس کو ببانگ دھل بیان کریں  و اللہ یعصمک من الناس

اللہ ان کو لوگوں سے بچائے گا

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ

اے رسول پھیلا دو جو تمہارے رب نے تم پر نازل کیا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کو نہیں ادا کیا اور بے شک اللہ لوگوں سے بچائے گا

سورہ المائدہ ٦٧ میں

جس کو علم کی بات معلوم ہو اور اس کو چھپا دے اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا حدیث

ان فرمودات کی روشنی میں واضح ہے کہ یعقوب نے اس کو اپنے غیر نبی بیٹے یوسف کا سچا خواب سمجھا جس کو ابھی نبوت نہیں ملی لیکن عنقریب اس پر نعمت تمام ہو گی اور وہ نبی بن جائے گا-  یوسف علیہ السلام کا یہ خواب اسی طرح سچی خبر تھا جس طرح ایک عام مومن بندے کو سچا خواب اتا ہے جو پورا ہوتا ہے- یعقوب اس وقت نبی تھے انہوں نے جو کہا اس میں اس کا کہیں اثبات نہیں ہے کہ تم اے یوسف نبی بن چکے ہو بلکہ ان کے نزدیک ابھی یوسف پر اتمام نعمت نہیں ہوا تھا –  نبی بننا ہی سب سے بڑی نعمت ہے جو یوسف کو اس وقت نہیں ملی تھی

کوئی بھی خواب دیکھ کر عام مومن نہیں کہہ سکتا ایسا ہو گا لیکن اگر وہ عام مومن اپنا خواب نبی پر پیش کرے تو وہ نبی اس کی تاویل کر سکتا ہے –  یوسف (علیہ السلام ) جب غیر نبی تھے تو انہوں نے اپنا خواب نبی یعقوب (علیہ السلام ) پر پیش کیا –  یعقوب علیہ السلام نے تاویل کی- یعقوب  کو بھی  اس خواب کی مکمل تفصیل الوحی سے نہیں پتا چلی تھی کہ یوسف بچھڑ جائیں گے اور یہ سب مصر میں ہو گا –  انبیاء جب تاویل کرتے ہیں تو وہ ان کو اشارات پر کرتے ہیں اس پر الوحی نہیں اتی  کیونکہ  تاویل ایک علم ہے جو سکھا دیا جاتا ہے اس کا استعمال کر کے انبیاء خواب کی تعبیر کرتے ہیں – دوسری طرف الوحی ہے جو کب آئے کی خود انبیاء کو بھی علم نہیں ہوتا-

  یوسف  علیہ السلام کے تمثیلی خواب کو اگر ہم وحی مان لیں تو ثابت ہو جائے گا کہ انبیاء نے جو تمثیلی خواب دیکھے ان کو اس کا مطلب  خود بھی نہیں پتا تھا  جو ممکن نہیں کہ ایک  نبی کو خواب دکھایا جائے لیکن وہ اس خواب کی تاویل کو سمجھ ہی نہ پائے –  لہذا ثابت یہی ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام  اس خواب کے  آنے کے وقت نبی نہیں عام بشر تھے – یوسف علیہ السلام کے خواب پر یعقوب علیہ السلام  نے  پیغمبرانہ تبصرہ  کیا  اور  تبصرہ بھی انبیاء کر سکتے ہیں اور دعا بھی دے سکتے ہیں-   یعقوب علیہ السلام  کے  تبصرے میں  الفاظ محض دعا جیسے کلمات ہیں –

یعقوب علیہ السلام اصل میں اس وعدہ الہی کی بنیاد پر تبصرہ کر رہے ہیں جو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا

وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ

سورہ بقرہ ١٢٤

جب تمھارے رب نے ابراھیم کی آزمائش کلمات (احکام) سے کی، تو اس نے ان کو پورا کیا – کہا میں نے تجھ کو انسانوں پر امام کیا بولا اور میری اولاد ؟ کہا میرا وعدہ ظالموں کے لئے نہیں

یوسف علیہ السلام کا خواب سن کر یعقوب علیہ السلام کی بات اسی وعدہ کی عملی شکل کا ذکر ہے کہ  اب ابراہیم کے بعد اللہ تعالی یوسف کو امام بنا رہا ہے- فرمایا

 (سورہ یوسف، آیت6)

اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا، اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا اور تم پر اور یعقوب کی اولاد پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسے اس نے اس سے پہلے تمہارے ماں باپ پر اور ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی۔ یقینا تمہارا پروردگار علم والا اور حکمت والا ہے۔

کتاب الرویا

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

اس مختصر  کتاب میں  خواب   سے متعلقہ  مباحث    کا ذکر ہے-  جن     میں    ان  روایات  پر تحقیق کی گئی ہے  جو  تعبیر  خواب کے  نام   پر دھندہ  کرنے والے  پیش کر  کے عوام   کا  مال بتوڑتے  ہیں –  کتاب  میں  خواب میں الله تعالی  کو دیکھنے  اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کا دیدار  کرنے سے متعلق  بھی روایات  پیش کی گئی ہیں   اور  ان کی اسناد  پر تحقیق کی گئی ہے- آخری ابواب میں  فرقوں کے متضاد  خواب    جمع  کیے   گئے ہیں   اور  ان کی تلبسات  باطلہ کا  رد  کیا گیا ہے –   اس کتاب میں انبیاء کے وہ خواب جو انہوں نے نبی بننے سے قبل  دیکھے ان پر  نظر ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہ خواب محض سچے خواب تھے نہ کہ الوحی-

رَسُول وَلَا نَبِي وَلَا مُحدث؟

کہا  جاتا ہے کہ قرآن میں نبی اور رسول کے علاوہ   محدث کا بھی ذکر تھا

تفسیر  الدر المنثور از سیوطی میں ہے

أخرج عبد بن حميد وَابْن الْأَنْبَارِي فِي الْمَصَاحِف عَن عَمْرو بن دِينَار قَالَ: كَانَ ابْن عَبَّاس رَضِي الله عَنهُ يقْرَأ (وَمَا أرسلنَا من قبلك من رَسُول وَلَا نَبِي وَلَا مُحدث)

وَأخرج ابْن أبي حَاتِم عَن سعد بن إِبْرَاهِيم بن عبد الرَّحْمَن بن عَوْف قَالَ: إِن فِيمَا أنزل الله {وَمَا أرسلنَا من قبلك من رَسُول وَلَا نَبِي} وَلَا مُحدث فنسخت مُحدث والمحدثون: صَاحب يس ولقمان وَهُوَ من آل فِرْعَوْن وَصَاحب مُوسَى

عبد بن حميد اور َابْن الْأَنْبَارِي نے عمرو بن دینار سے روایت کیا کہ ابن عباس کی قرات کرتے تھے

وَمَا أرسلنَا من قبلك من رَسُول وَلَا نَبِي وَلَا مُحدث

اور ہم نے تم سے قبل کوئی رسول یا نبی یا محدث نہیں بھیجا

اور ابن ابی حاتم نے سعد بن إِبْرَاهِيم بن عبد الرَّحْمَن بن عَوْف سے روایت کیا کہا اس میں تھا  وَمَا أرسلنَا من قبلك من رَسُول وَلَا نَبِي وَلَا مُحدث ، پھر اس میں محدث منسوخ ہوا اور محدثوں سے مراد صاحب یاسین ہے اور لقمان جو ال فرعون  میں سے تھے اور موسی کے صاحب

راقم کہتا ہے یہ قول باطل ہے حقیقت میں ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا احکام میں ہوتا ہے – اگر یہ حقیقت تھی کہ پچھلی امتوں میں محدث تھے تو  بات منسوخ ممکن نہیں ہے

اسی تفسیر میں ہے

وَأخرج ابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم عَن مُجَاهِد رَضِي الله عَنهُ قَالَ: النَّبِي وَحده الَّذِي يكلم وَينزل عَلَيْهِ وَلَا يُرْسل

ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے تخریج کی ہے مجاہد نے کہا نبی وہ ہوتا ہے جس سے کلام کیا جاتا ہے اور اس پر نزول ہوتا ہے لیکن  (قوم کی طرف ) بھیجا نہیں جاتا

تفسیر قرطبی میں ہے

قَالَ ابْنُ عَطِيَّةَ: وَجَاءَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ:” وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ وَلَا مُحَدَّثٍ” ذَكَرَهُ مَسْلَمَةُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

ابن عطیہ نے کہا ابن عباس کے حوالے سے آیا ہے کہ وہ قرات کرتے تھے

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ وَلَا مُحَدَّثٍ

اس کا ذکر کیا ہے مَسْلَمَةُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نے

راقم کہتا ہے اگر قرات منسوخ تھی اور ایسی کوئی آیت تھی تو ابن عباس اس کی قرات کیسے کر سکتے ہیں

قرطبی نے تفسیر میں کہا

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا حَدِيثٌ لَا يُؤْخَذُ بِهِ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ قُرْآنٌ. وَالْمُحَدَّثُ هُوَ الَّذِي يُوحَى إِلَيْهِ فِي نَوْمِهِ

اس حدیث سے ہم یہ نہیں لیں گے کہ یہ قرآن میں ہے اور محدث وہ ہے جس پر نیند میں الوحی کی جائے

بہر حال بقول مفسرین  محدث کا لفظ قرات میں سے حذف کیا گیا اس کو منسوخ قرار دیا گیا اور مفسرین کے مطابق یہ آیت قرآن میں سورہ حج میں  اب اس طرح ہے

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

لیکن محدث کا وجود لوگوں میں باقی رہا

اہل سنت کا قول : عمر محدث ہیں

صحیح بخاری  کی حدیث میں ہے

 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ”. زَادَزَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ” قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «مِنْ نَبِيٍّ وَلاَ مُحَدَّثٍ»

.ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھا «من نبي ولا محدث» ۔

امام بخاری نے بھی روایت ٣٦٨٩  کے ساتھ جملہ ٹانک دیا کہ ابن عباس سے شاذ قرات کو منسوب کیا

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «مِنْ نَبِيٍّ وَلاَ مُحَدَّثٍ»

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھا «من نبي ولا محدث» ۔

سعد بن إِبْرَاهِيم بن عبد الرَّحْمَن بن عَوْف المتوفی ١٢٥ ھ ہے
امام مالک کے نزدیک متروک ہیں اگرچہ بغداد والے  ثقہ کہتے ہیں

الاصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے

قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين

امام حاکم نے کہا – امام مالک فیصلہ کرنے والے  ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر

مستدرک میں حاکم کہتے ہیں

مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ الْحَكَمُ فِي حَدِيثِ الْمَدَنِيِّينَ…..

اہل مدینہ کی احادیث پر امام مالک فیصلہ کرنے والے ہیں

إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ یہ سعد بن إِبْرَاهِيم بن عبد الرَّحْمَن بن عَوْف کا بیٹا ہے
ابراہیم ضعیف ہے
امام یحیی بن سعید القطان کے نزدیک
احمد نے کہا میں نے ابراہیم بن سعد سے روایت کیا تو امام القطان نے کہا
فقال لي يحيى: يا أبا عبد الله، عقيل وإبراهيم بن سعد!! عقيل وإبراهيم بن سعد!! كأنه يضعفهما
ابو عبد الله .. ابراہیم بن سعد … گویا کہ اس کی تضعیف کر رہے ہوں

امام وكيع نے اس کو ترک کر دیا تھا
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا وكيع مرة، عن إبراهيم بن سعد. ثم قال: أجيزوا عليه، تركه بأخرة. «العلل» (4709)

یعنی یہ باپ بیٹے بڑے ائمہ حدیث کے نزدیک متروک ہیں

فضائل الخلفاء الأربعة وغيرهم لأبي نعيم الأصبهاني از أبو نعيم  الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ كَانَ فِي الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُنْ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ فَهُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ» قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: الْمُحَدَّثُ الْمُلْهَمُ لِلصَّوَابِ

اس  کی سند  میں سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف أبو إسحاق  المتوفی ١٢٧ ھ قاضی مدینہ ہے جو ثقہ سمجھا گیا ہے لیکن امام مالک نے اس کو ترک کیا- مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ اور إبراهيم بن سعد بن إبراهيم  بن عبد الرحمن بن عوف نے اس کو روایت کیا ہے- ابن عَجْلَانَ کے بارے میں امام مالک کا قول ہے کہ اس کو حدیث کا اتا پتا نہیں ہوتا- یعنی مالک نے اس روایت کو اس سند سے  سرے سے قبول ہی نہیں کیا ہو گا 

ابن عجلان نے ہی ساریہ والی روایت بیان کی- البانی سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3/ 101۔104)     میں اس پر طویل گفتگو کی ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ واقعہ صرف ابن عجلان کی سند سے صحیح ہے
 قلت: …. فتبين مما تقدم أنه لا يصح شيء من هذه الطرق إلا طريق ابن عجلان وليس فيه إلامناداة عمر ” يا سارية الجبل ” وسماع الجيش لندائه وانتصاره بسببه.ومما لا شك فيه أن النداء المذكور إنما كان إلهاما من الله تعالى لعمر وليس ذلك بغريب عنه، فأنه ” محدث ” كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ولكن ليس فيه أن عمر كشف له حال الجيش، وأنه رآهم رأي العين

میں البانی کہتا ہوں : پس کے واضح ہوا کہ اس سلسلے میں ایک ہی طرق صحیح ہے جو ابن عجلان کی سند سے ہے اور اس میں عمر کی پکار کا ذکر ہے کہ يا سارية الجبل اور لشکر کا اس آواز کو سننا اور اس کے سبب مدد پانا تو اس میں شک نہیں کہ یہ الہام میں سے ہے جو الله تعالی نے عمر کو کیا اور اس میں کوئی عجیب بات بھی نہیں کیونکہ وہ محدث ہیں جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس میں یہ نہیں ہے کہ  عمر پر لشکر کا حال کشف ہوا اور انہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا

یعنی عمر کو محدث قرار دینا  ، ان پر ساریہ والا واقعہ گھڑنا یہ سب ابن عجلان اور ان کے شیخ  کا کمال ہے – لہذا صوفی نا پسند حلقوں میں اس کی ساریہ والی روایت کو رد کیا جاتا ہے اور پھر عمر کو غیر محدث  قرار دیا جاتا  ہے – لہذا صحیح بخاری کی روایت  کا ترجمہ کیا جاتا ہے

راقم کہتا ہے اس کا ترجمہ یہ درست نہیں ہے اس میں کہا گیا ہے

پچھلی امتوں میں تم سے پہلے محدث تھے اور اگر  میری امت میں کوئی  ہے تو  عمر ہیں

اس روایت میں عمر کو محدث قرار دیا گیا ہے اور راقم اس کو رد کرتا ہے

راوی کا مدعا عمر کو محدث قرار دینا ہی ہے اسی لئے وہ ساریہ والا روایت بھی نقل کرتا ہے

عمر محدث تھے کی مثالیں

صحیح مسلم  میں ہے

حَدَّثَنا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، أَخْبَرَنَا عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: “وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ، وَفِي الْحِجَابِ، وَفِي أُسَارَى بَدْرٍ” ,

عمر نے کہا تین میں میرے رب نے میری موافقت کی –  مقام ابراہیم کو قبلہ کریں،  عورتوں کو پردے کا حکم، غزوہ بدر کے قیدی

محدثین کا اس روایت پر بھی اعتراض ہے – جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے

جويرية بن أسماء مكثر عن نافع وقد تقدم قول بن عمار الحافظ في حديثه عنه وافقت ربي في ثلاث وإن بينهما فيه رجلا غير مسمى

جويرية بن أسماء یہ نافع سے بہت روایت کرتا ہے اور ابن عمار کا قول اس کی حدیث میری رب نے تین باتوں میں میری موافقت پر گزرا ہے کہ جويرية بن أسماء اور  نافع  کے درمیان ایک شخص ہے جس کا نام نہیں لیا گیا

پھر  العلائي  لکھتے ہیں

فلو أن هذا الحديث عنده عنه لكان يساير ما روى عنه فلما رواه بواسطة بيه وبين شيخه المكثر عنه علم أن هذا الحديث لم يسمعه منه ولا سيما إذا كان ذلك الواسطة رجلا مبهما أو متكلما فيه مثاله حديث اخرجه مسلم من طريق سعيد بن عامر عن جويرية بنت أسماء عن نافع عن ابن عمر عن عمر رضي الله عنه حديث وافقت ربي في ثلاث وقد رواه محمد بن عمر المقدمي عن سعيد بن عامر عن جويرية عن رجل عن نافع وجويرية مكثر عن نافع جدا فلو كان هذا الحديث عنده لما رواه عن رجل مبهم عنه

جويرية بن أسماء جانتا تھا کہ اس کے شیخ نافع اور اس کے درمیان ایک شخص ہے اس نے نافع سے نہیں سنا تھا

علل الأحاديث في كتاب الصحيح المسلم بن الحجاج از  أَبُو الفَضْلِ ى بنِ الجَارُوْدِ الجَارُوْدِيُّ، الهَرَوِيُّ، الشَّهِيْدُ (المتوفى: 317هـ) میں ہے

وَوجدت فِيهِ حَدِيث سعيد بن عَامر عَن جوَيْرِية بن أَسمَاء عَن نَافِع عَن ابْن عمر عَن عمر قَالَ

وَافَقت رَبِّي فِي ثَلَاث

قَالَ أَبُو الْفضل فَوجدت لَهُ عِلّة

حَدثنِي مُحَمَّد بن إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم السراج حَدثنَا مُحَمَّد بن إِدْرِيس حَدثنَا مُحَمَّد بن عمر بن عَليّ حَدثنَا سعيد بن عَامر عَن جوَيْرِية عَن رجل عَن نَافِع أَن عمر قَالَ

وَافقنِي رَبِّي فِي ثَلَاث فَذكر الحَدِيث وَلم يذكر ابْن عمر فِي إِسْنَاده وَأدْخل بَين جوَيْرِية وَنَافِع رجلا غير مُسَمّى

میں نے حدیث سعيد بن عَامر عَن جوَيْرِية بن أَسمَاء عَن نَافِع عَن ابْن عمر عَن عمر کہ میرے رب نے تین میں میری موافق کی میں علت پائی – ابو الفضل نے کہا اس کو روایت کیا  مُحَمَّد بن إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم السراج حَدثنَا مُحَمَّد بن إِدْرِيس حَدثنَا مُحَمَّد بن عمر بن عَليّ حَدثنَا سعيد بن عَامر عَن جوَيْرِية عَن رجل عَن نَافِع أَن عمر کی سند سے …. پس سند میں جوَيْرِية  اور َنَافِع کے درمیان شخص ہے جس کا نام نہیں لیا گیا

الغرض صحیح مسلم کی سند میں مجہول ہے جو اس روایت کو ضعیف بنا دیتی ہے

صحیح بخاری  کی حدیث ہے کہ عمر نے مشورہ دیا کہ امہات المومنین کو پردہ کرایا جائے

حدیث نمبر: 4483حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ،‏‏‏‏ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ وَافَقْتُ اللَّهَ فِي ثَلَاثٍ أَوْ وَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَوِ اتَّخَذْتَ مَقَامَ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَبَلَغَنِي مُعَاتَبَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلْتُ عَلَيْهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِ انْتَهَيْتُنَّ أَوْ لَيُبَدِّلَنَّ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا مِنْكُنَّ حَتَّى أَتَيْتُ إِحْدَى نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏أَمَا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَعِظَهُنَّ أَنْتَ ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ:‏‏‏‏ عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ سورة التحريم آية 5 الْآيَةَ،‏‏‏‏ وَقَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسًا،‏‏‏‏ عَنْ عُمَرَ.ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ فرمایا، تین مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے حکم سے میری رائے نے پہلے ہی موافقت کی یا میرے رب نے تین مواقع پر میری رائے کے موافق حکم نازل فرمایا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! کیا اچھا ہوتا کہ آپ مقام ابراہیم کو طواف کے بعد نماز پڑھنے کی جگہ بناتے تو بعد میں یہی آیت نازل ہوئی۔ اور میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! آپ کے گھر میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ آپ امہات المؤمنین کو پردہ کا حکم دے دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب (پردہ کی آیت) نازل فرمائی اور انہوں نے بیان کیا اور مجھے بعض ازواج مطہرات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی خبر ملی۔ میں نے ان کے یہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم باز آ جاؤ، ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بدل دے گا۔ بعد میں ازواج مطہرات میں سے ایک کے ہاں گیا تو وہ مجھ سے کہنے لگیں کہ عمر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی ازواج کو اتنی نصیحتیں نہیں کرتے جتنی تم انہیں کرتے رہتے ہو۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «عسى ربه إن طلقكن أن يبدله أزواجا خيرا منكن مسلمات» کوئی تعجب نہ ہونا چاہئیے اگر اس نبی کا رب تمہیں طلاق دلا دے اور دوسری مسلمان بیویاں تم سے بہتر بدل دے۔ آخر آیت تک۔ اور ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، ان سے حمید نے بیان کیا اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا۔

یہ روایت صحیح بخاری کی ہی دوسری روایت سے متصادم ہے جس کے مطابق پردے کا حکم زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے ولیمہ کے بعد آیا کیونکہ بعض لوگ دیر تک بیٹھے رہے- سندا اس میں حمید الطویل مدلس کا عنعنہ ہے

زينب بنت جحش رضی الله عنہا سے شادی کے حوالے سے کتاب جمل من أنساب الأشراف میں بلاذری نے لکھا ہے
ويقال إنه تزوجها رجوعه من غزاة المريسيع، وكانت المريسيع فِي شعبان سنة خمس. ويقال إنه تزوجها في سنة ثلاث
اور کہا جاتا ہے ان سے نکاح کیا غزوۂ مُرَیسیع سے واپس پر اور غزوۂ مُرَیسیع شعبان سن ٥ ہجری میں ہوا اور کہا جاتا ہے سن 3 ہجری میں کیا

سوره الاحزاب کی ابتدائی آیات میں ہی پہلے زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کا حکم ہے –
زینب بنت جحش سے نکاح کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعوت دی جس میں بعض حضرات زیادہ دیر رہے اور رسول الله نے ان کو جانے کا بھی نہیں کہا – صحیح بخاری کی روایت کے مطابق
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذِهِ الآيَةِ: آيَةِ الحِجَابِ ” لَمَّا أُهْدِيَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ مَعَهُ فِي البَيْتِ صَنَعَ طَعَامًا وَدَعَا القَوْمَ، فَقَعَدُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ ثُمَّ يَرْجِعُ، وَهُمْ قُعُودٌ يَتَحَدَّثُونَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ} [الأحزاب: 53] إِلَى قَوْلِهِ {مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [الأحزاب: 53] فَضُرِبَ الحِجَابُ وَقَامَ القَوْمُ ”
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب گئے تو دیکھا گھر میں لوگ ہیں پس آپ کو حیا آئی اور آپ چلے گئے اور الله نے حجاب کی آیت نازل کی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ

السندی کہتے ہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن 3 ہجری میں نکاح کیا
زينب بنت جحش، أمُّ المؤمنين رضي الله عنها، هي أَسَدِيَّةٌ، تزوَّجها النبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سنة ثلاث
غزوة الأحزاب ، غزوة بني المصطلق سے پہلے ہوا کیونکہ سن ٥ میں غزوة بني المصطلق ہوا تھا
لہذا امہات المومنین کو پردے کے جو احکام سوره الاحزاب میں دیے گئے وہ سن 3 میں دیے گئے ہیں

یہ روایت قرآن سے بھی موافقت نہیں رکھتی جس میں سورہ بقرہ میں مدینہ میں بتایا گیا کہ ابراہیم کو حکم دیا گیا تھا

وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى

مدینہ سے  مکہ جا کر  طواف  کی ضرورت صلح حدیبیہ تک نہیں ہوئی تھی لہذا یہ ممکن ہی نہیں  ہے کہ عمر نے اس حوالے سے کوئی مشورہ دیا ہو – مقام ابراہیم کو مصلی کرنے کا حکم تو ابراہیم سے چلا آ رہا تھا

المخلصيات وأجزاء أخرى لأبي طاهر المخلص از  محمد بن عبد الرحمن بن العباس بن عبد الرحمن بن زكريا البغدادي المخَلِّص (المتوفى: 393هـ) میں ہے

حدثنا يحيى بنُ محمدٍ: حدثنا العلاءُ بنُ سالمٍ أبوالحسنِ: حدثنا حفصُ بنُ عمرَ الرازيُّ، عن قرةَ بنِ خالدٍ، عن حميدٍ الطويلِ، عن أنسٍ قالَ: قالَ عمرُ بنُ الخطابِ:وافقتُ ربِّي عزَّ وجلَّ في ثلاثٍ أو وافَقَني في ثلاثٍ، قلتُ: يا رسولَ اللهِ، هذا مقامُ أَبينا إبراهيمَ لو اتخَذْناه مُصلَّى، فنزلتْ: {وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125] وقلتُ: يا رسولَ اللهِ، لو اتخَذتَ حجاباً، فأَنزلَ اللهُ عزَّ وجلَّ آيةَ الحجابِ، وقلتُ لنسائِهِ: لتُطعْنَ رسولَ اللهِ أو ليُبدلنَّه اللهُ عزَّ وجلَّ أزواجاً خيراً مِنكن، فأَنزلَ اللهُ عزَّ وجلَّ: {عَسَى رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ} الآية [التحريم: 5] (1) .

قالَ ابنُ صاعدٍ: وهذا (2) حديثٌ غريبٌ عن قرةَ، ما سمعْناهُ إلا مِنه.

ابنُ صاعد نے کہا اس حدیث میں غرابت ہے قرہ سے – یہ ہم نے نہیں سنی سوائے اس سے

اس کی سند میں بھی حمید الطویل مدلس ہیں

مسند ابو داود طیالسی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” وَافَقْتُ رَبِّي [ص:47] عَزَّ وَجَلَّ فِي أَرْبَعٍ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ صَلَّيْتَ خَلْفَ الْمَقَامِ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125] وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ ضَرَبْتَ عَلَى نِسَائِكَ الْحِجَابَ فَإِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [الأحزاب: 53] ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ} [المؤمنون: 12] الْآيَةَ، فَلَمَّا نَزَلَتْ قُلْتُ أَنَا: تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ فَنَزَلَتْ {فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ} [المؤمنون: 14] وَدَخَلْتُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُنَّ: لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيُبْدِلَنَّهُ اللَّهُ بِأَزْوَاجٍ خَيْرٍ مِنْكُنَّ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ {عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ} [التحريم: 5] الْآيَةَ “

سن میں  عَلِيُّ بنُ زَيْدِ بنِ جُدْعَانَ التَّيْمِيُّ ضعیف ہے

الغرض یہ روایات صحیح اسناد سے نہیں – متن قرآن و تاریخ سے متصادم ہے – اور یہ روایت حدیث ساریہ کی طرح غالی اہل سنت کی روایات ہیں

اہل تشیع کا قول : ائمہ محدث ہیں

الکافی از کلینی میں ہے

https://app.box.com/s/9wh9cnvak35vuirl7rsumv7b92km6ha3

اس   تفصیل سے یہ جدول بنا

اس کی دلیل صحیح مسلم میں ہے

حديث:1603و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَکَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَی الضَّوْئَ سَبْعَ سِنِينَ وَلَا يَرَی شَيْئًا وَثَمَانَ سِنِينَ يُوحَی إِلَيْهِ وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًاترجمہ :  اسحاق بن ابراہیم، حنظلی روح حماد بن سلمہ عمار بن ابی عمار حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ   میں پندرہ سال قیام پذیر رہے –  سات سالوں تک  آپ صرف  آواز سنتے   اور روشنی دیکھتے رہے اور  آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی چیز  (یعنی فرشتہ یا معجزہ)نہ دیکھا  –   اس  کے بعد   مکہ میں  صرف  آٹھ سال ان پر   وحی آئی –  آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا۔

البانی نے مختصر صحیح مسلم میں درست  کہا   هذه رواية شاذة

اس روایت میں عمار بن ابی عمار نے اپنا   رافضی عقیدہ پیش کیا ہے کہ   سات سال تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم صرف   نچلے درجہ کے ایک نبی تھے  جس کا درجہ  امام جتنا ہے – اس میں    نفس پر الوحی اتی ہے  لیکن   فرشتہ بیداری میں نہیں   دیکھا  جا سکتا

سنن الصغیر بیہقی میں ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ، فِي جَامِعِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، أَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ، قَالَ:  «أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ بَعْدَ خَدِيجَةَ وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ أَوْ سِتَّ عَشْرَةَ سَنَةً» قُلْتُ: وَهَذَا صَحِيحٌ عَلَى مَا رَوَى عَمَّارُ بْنُ أَبِي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:  «أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، عَشْرَةَ سَنَةً يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَى الضَّوْءَ سَبْعَ سِنِينَ وَلَا يَرَى شَيْئًا، وَثَمَانِ سِنِينَ يُوحَى إِلَيْهِ، وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًا» وَعَلَى مَا رُوِيَ فِي أَشْهَرِ الرِّوَايَاتِ أَنَّ عَلِيًّا قُتِلَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً، فَيَكُونُ إِسْلَامُهُ بَعْدَ سَبْعِ سِنِينَ وَهُوَ بَعْدَ نُزُولُ الْوَحْي فَمَكَثَ بَعْدَ الْإِسْلَامِ ثَمَانِيًا وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَعَاشَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ سَنَةً، فَيَكُونُ يَوْمَ أَسْلَمَ ابْنَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً كَمَا قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَإِلَى مِثْلِ رِوَايَةِ عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ذَهَبَ الْحَسَنُ وَذَلِكَ فِيمَا

بیہقی نے کہا مشہور ہے کہ علی کا قتل ہوا تو وہ ٦٣ سال کے تھے پس ان کا اسلام لانا سات سال بعد بعثت النبوی ہوا پھر وہ اسلام میں رہے ٨ سال مکہ میں اور ١٠ سال مدینہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ٣٠ سال زندہ رہے پس وہ اسلام لانے کے وقت ١٥ سال کے تھے جیسا حسن بصری کا قول ہےاور عمار کا قول ہے

بیہقی  کے حساب کتاب کے مطابق علی  بعثت نبوی کے سات سال بعد  ایمان لائے –  اس دوران رسول الله فرشتوں کو نہیں بلکہ روشنی دیکھ رہے تھے آوازیں سن رہے تھے – اس طرح عمار کے مطابق جب علی  بھی میدان میں آ گئے تو نبی محمد سے رسول الله بن گئے

شرح أصول الكافي – مولي محمد صالح المازندراني – ج ٦ – الصفحة ٦٦

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/1179_شرح-أصول-الكافي-مولي-محمد-صالح-المازندراني-ج-٦/الصفحة_66

باب أن الأئمة (عليهم السلام) محدثون مفهمون * الأصل:
1 – محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن الحجال، عن القاسم بن محمد، عن عبيد بن زرارة قال: أرسل أبو جعفر (عليه السلام) إلى زرارة أن يعلم الحكم بن عتيبة أن أوصياء محمد عليه وعليهم السلام محدثون.

 امام ابو جعفر نے  زرارة  کے پاس بھیجا کہ حکم بن عتيبة جان لے کہ محمد علیہ السلام کے وصی محدث ہیں

محمد، عن أحمد بن محمد، عن ابن محبوب، عن جميل بن صالح، عن زياد بن سوقة، عن الحكم بن عتيبة قال: دخلت على علي بن الحسين (عليهما السلام) يوما فقال: يا حكم هل تدري الآية التي كان علي بن أبي طالب (عليه السلام) يعرف قاتله بها ويعرف بها الأمور العظام التي كان يحدث بها الناس؟ قال الحكم: فقلت في نفسي: قد وقعت على علم من علم علي بن الحسين، أعلم بذلك تلك الأمور العظام، قال: فقلت: لا والله لا أعلم، قال: ثم قلت: الآية تخبرني بها يا ابن رسول الله؟
قال: هو والله قول الله عز ذكره: (وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي (ولا محدث)) وكان علي بن أبي طالب (عليه السلام) محدثا

الحكم بن عتيبة نے کہا علي بن الحسين (عليهما السلام) ) کے پاس داخل ہوا پوچھا کیا علی اپنے قاتل کو جانتے تھے ؟ … علي بن الحسين (عليهما السلام) نے کہا ان کا ذکر قرآن میں ہے 

(وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي (ولا محدث)

اور یہ علی بن ابی طالب ہیں

اسی شرح میں لکھا ہے

 الشرح:
قوله (وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي – ولا محدث -) دل على أن قوله ولا محدث كان من تتمة الآية وهم أسقطوها،

قول وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي – ولا محدث دلالت کرتا ہے کہ محدث کا لفظ آیت میں تھا لیکن وہ سقط ہوا

الغرض اہل سنت کے پوشیدہ رافضی عمار بن ابی عمار نے نبی کو پہلے محدث پھر رسول قرار دیا اور پھر انہوں  نے  عمر رضی اللہ عنہ  کو محدث قرار دیا -دوسری طرف اہل تشیع نے علی اور تمام اوصیا یعنی ائمہ کو محدث قرار دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ   دونوں فرقوں میں غلو  شروع سے تھا

کائنات کا منظر

عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ایک شخص بنام عبدللہ بن سبا اسلام میں ظاہر ہوا اس نے دین میں شیعہ عقیدے کی بنیاد ڈالی اور نئی تشریحات کو فروغ دیا

الشھرستانی  اپنی کتاب الملل و النحل ص ٥٠ پر لکھتے ہیں

 السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.

السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ:  تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو  مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا ۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی ( اللہ ان سے راضی ہو) ۔ اور وہ (ابن سبا)  ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی  کی امامت کے لئے بات پھیلآئی ۔ اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے اور انتقال نہیں کر گئے ۔ اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی ۔ اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ  زمین ظلم سے بھری ہے۔ اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا۔ اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے ۔ اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں

ابن اثیر الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٨ پر لکھتے ہیں

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم

 عبداللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا  پھربصرة پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ھو سکا.  اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس ائے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے. اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا. پھر اس نے کہا : ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمّد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا. اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے  لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو

 ابن سبا کو اسلام میں موت و حیات کے عقیدے کا پتا تھا  جس کے مطابق زندگی دو دفعہ ہے اور موت بھی دو دفعہ. اس کی بنیاد  قرآن کی آیات ہیں

سورہ غافر میں ہے

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ

وہ (کافر) کہیں  گےاے رب تو نے دو زندگیاں دیں اور دو موتیں دیں ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پس یہاں (جہنم ) سے نکلنے کا کوئی رستہ ہے

ابن سبا نے اس عقیدے پر حملہ کیا اور ان آیات کو رجعت کی طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں جب خلفاء کے خلاف خروج ہو گا تو ہم مر بھی گئے تو دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمارے دشمن دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونگے. اس آیت کا شیعہ تفاسیر میں یہی مفھوم لکھا ہے اور اہل سنت جو مفھوم بیان کرتے ہیں وہ شیعہ کے نزدیک اہل سنت کی  عربی کی   غلط سمجھ بوجھ ہے

رجعت کے عقیدہ کو اہل سنت میں استوار کرنے کے لئے دو زندگیوں اور دو موتوں والی آیات کو ذھن سے نکالنا ضروری تھا. اس کے لئے عود روح کی روایت بنائی گئیں کہ ایک دفعہ مردے میں موت کا مفھوم ختم ہو جائے تو پھر میدان صاف ہے. آہستہ آہستہ اہل سنت مردے کے سننے اور مستقبل میں کسی مبارزت طلبی پر قبر سے باہر نکلنے کا عقیدہ اختیار کر ہی لیں گے

 لہذا عود روح  کی روایات شیعہ راویوں  زاذان، المنھال بن عمرو، عدی بن ثابت، عمرو بن ثابت نے اصحاب رسول کی طرف منسوب کیں اور بالاخر یہ راوی کم از کم اس بات میں کامیاب ہوئے کہ دو موتوں اور دو  زندگیوں کا اصول ذہن سے محو ہو گیا

ابن سبا کے فلسفے کی بنیاد اس کے اپنے ذاتی خیالات نہیں تھے بلکہ یہ تمام انبیاء سابقہ سے منسوب اہل کتاب کی کتب میں موجود ہیں- البتہ اہل سنت کے شیعیی راویوں نے اس فلسفے کو روایات میں پررو کر ہم تک مکمل صحت کے ساتھ پہنچا دیا ہے – دوسری طرف الله تعالی کا فیصلہ ہے کہ

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

الله مومنو کو قول ثابت پر دنیا میں اور آخرت میں مضبوط کرے گا اور ظالموں کو گمراہ کرے گا – وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

لہذا الله کا حکم ہوا کہ لوگ گمراہ ہوں اور ابن سبا کے عقیدے کے  پر چارک بن جائیں – زاذان اور المنھال بن عمرو اسی طبقے کے دو راوی ہیں جنہوں نے رجعت کے عقیدے کو استوار کرنے کے لئے مردے میں عذاب قبر کے بہانے سے روح کے پلٹ انے کا ذکر کیا ہے – یعنی ان کے مطابق مومن کی روح اور کافر کی روح دونوں قبر میں آ جاتی ہیں

ابن سبا یمن کا ایک صوفی یہودی تھا وہاں اس کو برھوت کی خبر تھی جو  یہود کے نزدیک جہنم تک جانے کا رستہ ہے اور اس کی تہہ میں سمندر میں ابلیس بیٹھا ہے – برھوت کی خبر سنی سمجھے جانے والے  راویوں نے بھی دی جو لا علم علماء نے قبول کی- اس قسم کے اقوال کعب احبار بھی پھیلا رہا تھا – تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص بن حميد، عن شمر، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار، فقال له ابن عباس: حدِّثني عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ … ) الآية، قال كعب: إن روح الفاجر يصعد بها إلى السماء، فتأبى السماء أن تقبلها، ويُهبط بها إلى الأرض فتأبى الأرض أن تقبلها، فتهبط فتدخل تحت 
سبع أرضين، حتى ينتهي بها إلى سجين، وهو حدّ إبليس، فيخرج لها من سجين من تحت حدّ إبليس، رَقّ فيرقم ويختم ويوضع تحت حدّ إبليس بمعرفتها
شمر نے کہا ابن عباس کعب الاحبار کے پاس پہنچے اس سے کہا الله کے قول پر بیان کرو- کعب نے کہا فاجر کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان اس کو قبول کرنے میں کراہت کرتا ہے اس کو زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے تو زمین کراہت کرتی ہے تو اس کو ساتویں زمین میں داخل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سجین میں جا پہنچتی ہے جو ابلیس کی حد ہے .. وہاں ایک ورقه نکلتا ہے جس میں رقم کیا جاتا ہے اور مہر لگائی جاتی ہے اور رکھا جاتا ہے ابلیس کے قید کے نیچے جاننے کے لئے

اسی سند سے تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص، عن شمر بن عطية، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فسأله، فقال: حدثْنِي عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الأبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ … ) الآية، فقال كعب: إن الروح المؤمنة إذا قُبِضت، صُعد بها، فَفُتحت لها أبواب السماء، وتلقَّتها الملائكة بالبُشرَى، ثم عَرَجُوا معها حتى ينتهوا إلى العرش، 
فيخرج لها من عند العرش فيُرقَم رَقّ، ثم يختم بمعرفتها النجاة بحساب يوم القيامة، وتشهد الملائكة المقرّبون.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے عِلِّيِّينَ سے متعلق پوچھا تو کعب نے کہا مومنوں کی روحیں جب قبض ہوتی ہیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے بشارت دیتے ہیں پھر بلند ہوتی ہیں یھاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں پس عرش کے پاس ایک ورقه ہے جس میں رقم کرتے ہیں پھر مہر لگتی ہے معرفت کے لئے کہ قیامت میں حساب سے نجات ہو گی اور مقرب فرشتے گواہ بنتے ہیں

دونوں کی سند ایک ہے ضعیف ہے
میزان کے مطابق حفص بن حميد، أبو عبيد القمى کو ابن المديني: مجهول کہتے ہیں
دوسرے راوی يعقوب بن عبد الله القمي کو الدارقطني ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا ابن نمير، قال: ثنا الأعمش، قال: ثنا المنهال بن عمرو، عن زاذان أبي عمرو، عن البراء، قال: (سِجِّينٍ) الأرض السفلى.
منہال بن عمرو نے زاذان سے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا سجین نچلی زمین ہے

 ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں

 والصحيح أن سجِّيناً مأخوذ من السجن، وهو الضيق ….. والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة

اور صحیح بات ہے کہ سجین ماخوذ ہے سجن قید خانہ سے اور یہ تنگ ہے … اور اس کا مقام ساتویں زمین کا وسط کا مرکز ہے

یعنی سجین ارض کا پیندا ہے

معلوم ہوا کہ سجین تک جانے کا راستہ برھوت سے ہے

چلیں آج برھوت کی سیر کریں

ہوائی جہاز سے برھوت کی تصویر

 برھوت کی خبر یمنی  لوگوں نے دی اور   یہ سجین کا رستہ ہے-

برھوت (سرخ نشان) اور  جابیہ (سبز نشان) میں فاصلہ

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

أنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: أنا مُحَمَّدُ بْنُ   هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، قَالَ: نا الرَّبِيعُ، قَالَ: نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: ” تَخْرُجُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، فَتَعْرُجُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهُ فَتَلْقَاهُ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا هَذَا الَّذِي جِئْتُمْ بِهِ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: تَوِّجُوهُ، هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ كَانَ يَعْمَلُ كَيْتَ وَكَيْتَ لِأَحْسَنِ عَمَلٍ لَهُ , قَالَ: فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ، وَحَيَّا مَا جِئْتُمْ بِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ الَّذِي يَصْعَدُ فِيهِ قَوْلُهُ وَعَمَلُهُ، فَيُصْعَدُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ حَتَّى يَأْتِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَهُ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، وَرُوحُ الْكَافِرِ أَنْتَنُ يَعْنِي: مِنَ الْجِيفَةِ وَهُوَ بِوَادِي حَضْرَ مَوْتَ، ثُمَّ أَسْفَلَ الثَّرَى مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ “

ابو موسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو اس میں سےمشک کی سی خوشبو اتی ہے پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تم کیا لے کر آئے ہو ؟ پس فرشتے کہتے ہیں ادھر دیکھو یہ فلاں بن فلاں ہے اس نے ایسا ایسا عمل کیا ہے اچھا – پس فرشتے کہتے ہیں الله تم پر سلامتی کرے اور جو تم لائے ہو اس پر پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں یہاں تک کہ رب تعالی کے پاس جاتے ہیں اور ان کے لئے سورج کی طرح یہ ثبوت ہوتا  ہے   اور کافر کی روح سڑتی ہے یعنی سڑی ہوئی جو حضر الموت کی وادی میں ہے الثری کی تہہ ہیں سات زمین نیچے

اس میں حضر الموت میں وادی کا ذکر ہے جس میں برھوت کا کنواں  ہے لیکن یھاں روایت برھوت کا لفظ نہیں ہے

قارئیں یہ سب پڑھ کر اپ کو اب تک سمجھ آ چکا ہو گا کہ برھوت کو سجین قرار دیا گیا جو یمن میں ایک کنواں ہے جو زمین کی تہہ تک جانے کا رستہ ہے – اب سنن نسائی کی ایک روایت دیکھتے ہیں جس کا ذکر ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے اور اسی روایت کو ابن حبان کہتے کہ برھوت کی خبر ہے

 أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ

صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

یہاں روایت میں خاص باب الارض کا ذکر ہے کہ کفار کی روحیں زمین کے دروازے پر لائی جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو  کفار کی روحوں تک لے جایا جاتا ہے

یہ روایت محدث ابن حبان کے مطابق  برھوت کی ہی خبر ہے

اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور تبصرہ میں وضاحت کی کہ یہ روایت اصل میں برھوت کی خبر ہے  اس کے علاوہ اسی  راوی نے زمین کے دروازے کو بعض اوقات سجین بھی بولا ہے

تہذیب الکمال از المزی میں قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ کے ترجمہ میں اس روایت کے متن میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبُخَارِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الصَّيْدَلانِيُّ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحداد، قال: أَخْبَرَنَا أبو نعيم الْحَافِظُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ أَحْمَدَ: قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ النُّعْمَانِ الشَّيْبَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْقَاسِم بْن الفضل الحداني، عن قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَن أَبِي هُرَيْرة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِحَرِيرَةٍ فِيهَا مَسْكٌ ومِنْ صَنَابِرَ الرَّيْحَانِ وتَسَلُّ رُوحَهُ كما تَسَلُّ الشَّعْرَةَ مِنَ الْعَجِينِ، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً مَرْضِيًّا عَنْكِ، وطُوِيَتْ عَلَيْهِ الْحَرِيرَةُ، ثُمَّ يُبْعَثُ بِهَا إِلَى عِلِّيِّينَ، وإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِمِسْبَحٍ فِيهِ جَمْرٌ فَتَنْزِعُ رُوحَهُ انْتِزَاعًا شَدِيدًا، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى هَوَانٍ وعَذَابٍ، فَإِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وضِعَت عَلَى تِلْكَ الْجَمْرةِ، فَإِنَّ لَهَا نَشِيشًا فَيُطْوَى عَلَيْهَا الْمِسْبَحُ ويُذْهَبُ بِهَا إِلَى سِجِّينَ

فرشتے روح کو لے کر سجین جاتے ہیں

سلفی علماء میں ابن رجب اپنی کتاب  أهوال القبور  میں حنابلہ کے لئے لکھتے ہیں

ورجحت طائفة من العلماء أن أرواح الكفار في بئر برهوت منهم القاضي أبو يعلى من أصحابنا في كتابه المعتمد وهو مخالف لنص أحمد: أن أرواح الكفار في النار.
ولعل لبئر برهوت اتصالا في جهنم في قعرها كما روي في البحر أن تحته جهنم والله أعلم ويشهد لذلك ما سبق من قول أبي موسى الأشعري: روح الكافر بوادي حضرموت في أسفل الثرى من سبع أرضين.

اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کفار کی روحیں برھوت میں کنواں میں ہیں جن میں قاضی ابو یعلی ہیں ہمارے اصحاب میں سے اپنی کتاب المعتمد  میں اور یہ مخالف ہے نص احمد پر کہ کفار کی روحیں اگ میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ برھوت جہنم سے تہہ میں ملا ہو جیسا کہ روایت ہے کہ سمندر کے لئے کہ اس کے نیچے جہنم ہے و الله اعلم اور اس پر گواہی ہے ابو موسی رضی الله عنہ کے قول کی کہ کافر کی روح حضر الموت کی ایک وادی میں ہے تحت الثری کے پیندے میں ساتویں زمین میں

دامانوی صاحب دین الخالص قسط اول میں لکھتے ہیں

سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں

شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ) کتاب المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري میں لکھتے ہیں کہ

قال شيخ الإسلام ابن حجر وغيره: إن أرواح المؤمنين في عليين، وهو مكان في السماء السابعة تحت العرش وأرواح الكفار في سجين وهو مكان تحت الأرض السابعة، وهو محل إبليس وجنوده.

شیخ الاسلام ابن حجر اور دیگر کہتے ہیں: بے شک مومنین کی ارواح عليين میں ہیں، اور وہ ساتوے آسمان پر عرش کے نیچے ہے اور کفار کی ارواح سجين میں ہیں اور وہ جگہ ساتویں زمین کے نیچے ہے جو ابلیس اور اسکے لشکروں کا مقام ہے

فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں  ہے کہ سجین جہنم کا پتھر ہے

سجیں

ابن تیمیہ : مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢١ میں لکھتے ہیں

 وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرْتَعُ فِي الْجَنَّةِ وَتَأْوِي فِي فِنَاءِ الْعَرْشِ. وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ فِي برهوت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں جنت میں بلند ہوتی ہیں اور عرش تک جاتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

فتوی میں کہتے ہیں

وَإِنَّمَا فِي أَسْفَلِ سَافِلِينَ مَنْ يَكُونُ فِي سِجِّينٍ لَا فِي عِلِّيِّينَ كَمَا قَالَ تَعَالَى {إنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ}

اور اسفل سافلین میں وہ ہے جو سجین میں ہے نہ کہ علیین میں جیسا الله کا قول ہے کہ منافقین اگ کے اسفل میں ہیں

یعنی ابن تیمیہ نے سجین کو مقام قرار دیا

کبری و صغری ملا لیں سجین ابن تیمیہ کے نزدیک برھوت ہوا

عبد الوہاب النجدی اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا

اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

برھوت یمن میں ہے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

یعنی عبد الوھاب النجدی کے مطابق روحیں دنیا میں اتی ہیں کفار کی یمن میں برھوت میں اور مومنوں کی جابیہ شام میں

ان معلومات سے پتا چلا کہ   برھوت ایک  سرنگ ہے جو زمین کی تہہ میں جا رہی ہے بعض  علماء کہتے ہیں وہاں شیطان بیٹھا ہے اور اسی کو سجین کہتے ہیں – علییین ان کے نزدیک آسمان پر ہے ساتوین آسمان پر جہاں اس سے اوپر الله تعالی ہیں- کائنات کا یہ منظر کچھ اس طرح ہے

یہ پہلے آسمان سے سات آسمان تک کا منظر ہے اور نیچے

 

یہ زمین سے اس کی تہہ تک کا منظر ہے

ان کو ایک دوسرے پر رکھیں تو ملتا ہے

 

یہ کائنات کا مکمل منظر ہوا جو علمائے سلف  کی تفاسیر روایات اور فتاوی سے اخذ کیا گیا ہے

راقم کہتا ہے چیزیں اپنی اصل کی طرف پلٹ اتی ہیں

آخر گِل اپني، صرفِ درِ ميکدہ ہوئي
پہنچی وہیں پہ  خاک، جہاں کا خميرتھا ‘

ابن سبا   کوئی  ایک شخصیت نہیں، ایک فکر ہے، ایک فلسفہ ہے، ایک سوچ ہے جو راویوں کے  اذہان میں  سرایت کیے ہوئے ہے – روایات پڑھتے ہوئے  اس کو جاننا ضروری ہے تاکہ اسی قول پر رہ سکیں جو قول ثابت ہے یعنی کلمہ حق یعنی قرآن عظیم

نور محمدی کا ذکر ٢

نو دریافت مصنف عبد الرزاق کے جز مفقود کی حدیث جابر ہے

یہ مکمل روایت نہیں ہے البتہ اس کا ترجمہ ہے

عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے ابن منکدر سے انہوں نے جابر سے روایت کیا کہ جابر نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا
چیز سب سے اول خلق ہوئی؟ رسول الله نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا
اور اس کے بعد ہر چیز کو خلق کیا اور جب اس کو خلق کر رہا تھا تو یہ نور مقام قرب میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا
پھر اس نور کی چار قسمیں کیں- پس عرش خلق ہوا اور کرسی اس کی ایک تقسیم سے
اور عرش کو اٹھانے والے اور کرسی کے رکھوالے اس کی ایک قسم سے

اور چوتھا جز مقام محبت میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا- پھر چار جز اور کیے اس میں ایک سے قلم دوسرے سے لوح تسرے سے جنت اور چوتھا جز
مقام خوف میں ١٢ ہزار سال رہا – اس سے فرشتے اور دوسرے جز سے سورج اور تسرے سے چاند اور چوتھے سے تارے بنے
اور چوتھا جز مقام امید میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا

پھر چار جز اور کیے اس میں ایک سے عقل دوسرے سے علم و حکمت تسرے سے عصمت اور توفیق بنے
اور چوتھا جز مقام شرم میں ١٢ ہزار سال کھڑا رہا
پھر الله نے اس کو دیکھا تو اس نور میں سے پسینہ نکلا جو ایک لاکھ اور چار (اور ٢٠ لاکھ اور ٤ ہزار) قطرے نور کے تھے – ہر قطرہ سے ایک نبی بنا یا رسول کی روح پھر اس روح نے سانس لیا
اور اس سانس سے اولیاء کے نفوس بنے اور شہداء کے اور سعادت مندوں کے اور اطاعت کرنے والوں کے جوقیامت تک ہوں گے-
پس عرش و کرسی میرے نور سے ہیں
اور کروبیوں میرے نور سے ہیں
اور روحانییوں اور فرشتے میرے نور سے ہیں
اور سات آسمانوں کے فرشتے میرے نور سے ہیں
اورسورج چاند تارے میرے نور سے ہیں
اور عقل اور توفیق میرے نور سے ہیں
اور انبیاء و رسل کی ارواح میرے نور سے ہیں
اور سعادت مندوں کے اور اطاعت کرنے والوں اور صالحین کی ارواح میرے نور سے ہیں

پھر الله نے ١٢ ہزار پردے خلق کیے پس میرے نور کو اللہ نے کھڑا کیا اور وہ چوتھا جز تھا
ہر حجاب کے درمیان ایک ہزار سال فاصلہ ہے اور یہ مقام عبدیت ہے اور سکینہ ہے اور صبر ہے اور صدق ہے اور یقین ہے

===============================================

قارئین کی آسانی کے لئے اس کو درخت کی صورت بنایا گیا ہے

متن پر تبصرہ

یہ روایت منکر ہے

اس میں فرشتوں  کی تخلیق کا کئی بار ذکر ہے اور عرش کے فرشتوں کو حملة العرش کہا گیا ہے اور بعد میں کروبین کہا گیا ہے

کروبین یا کروبیون کا لفظ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نہیں بولتے تھے

کروبیں کا لفظ اصل میں توریت کی کتاب الخروج کے باب ٢٥   کی آیت ١٨ میں موجود  ہے اس کو عبرانی میں  כְּ֝רוּבִ֗ים  لکھا جاتا ہے اور انگریزی میں   شروبیم (٢) کہا جاتا ہے

(٢) cherubim

جدید لغت تكملة المعاجم العربية  از رينهارت بيتر آن دُوزِي (المتوفى: 1300هـ)   جو ایک مستشرق کی مرتب کی ہوئی ہے اس کے مطابق

كروب وكروبيّ والجمع كروبيون: ملاك مقرَّب

 كروب وكروبيّ  اس کا  جمع كروبيون  ہے :   مقرَّب فرشتے

کسی  صحیح حدیث میں اس  لفظ سے فرشتوں کا تدکرہ  نہیں ملا  البتہ یہ لفظ اہل کتاب میں مستعمل ہے

بلکہ عربی میں کرب کا لفظ غم و حزن کے مفہوم میں مستعمل ہے یہی مسلمانوں کی  لغات میں لکھا ہے


روایت میں بار بار ١٢٠٠٠ سال کا ذکر ہے جو مختلف مقام قرار دیے گئے ہیں

مقام قرب

مقام خوف

مقام رجا یا امید

مقام حیا

یعنی ٤٨٠٠٠ سال کے وقفوں کے بعد تخلیق ہوئی

جہنم اس میں خلق نہیں کی گئی

روایت میں دکھایا گیا ہے کہ ہر چیز اس نور سے خلق ہوئی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تھا

یہی سب انجیل یوحنا میں عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بیان ہوا ہے

آیت ٢ میں کہا گیا کہ مخلوقات کی کوئی بھی چیز اس نور کے بغیر پیدا نہیں ہوئی

روایت میں اگرچہ الله تعالی ہی خلق کر رہا ہے لیکن نور کو پسینہ بہت بعد میں جا کر آیا اس سے روح بنی اور روحوں نے سانس لیا یا للعجب

اس روایت کا متن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کسی حدیث جیسا نہیں

ابدال اور محدثین

صوفیاء کی جانب سے پر اسرار خواص  میں سے ابدال کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کی بدولت بارش ہوتی ہے زمیں کی گردش چلتی ہے اور ان کی تعداد ٣٠ یا ٤٠ بتائی جاتی ہے

فرقہ اہل حدیث کی جانب سے ابدال پر تمام روایات کو رد کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر وہ حدیث جس میں ابدال کا ذکر ہو موضوع ہے – ان کی اس ناقص تحقیق  پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ محدثین قرن ثالث ابدال کا ذکر کرتے رہے ہیں  یعنی امام ابو داود و امام بخاری و الدارمی و یزید بن ہارون و غیرھم – راقم کے نزدیک یہ محدثین کی غلطیوں میں شمار ہوتا ہے

مستدرک حاکم کی روایت ہے جس میں ابدال کی خبر ہے اور الذھبی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنْبَأَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: «سَتَكُونُ فِتْنَةٌ يُحَصَّلُ النَّاسُ مِنْهَا كَمَا يُحَصَّلُ الذَّهَبُ فِي الْمَعْدِنِ، فَلَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ، وَسَبُّوا ظَلَمَتَهُمْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْأَبْدَالُ، وَسَيُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ سَيْبًا مِنَ السَّمَاءِ فَيُغْرِقُهُمْ حَتَّى لَوْ قَاتَلَتْهُمُ الثَّعَالِبُ غَلَبَتْهُمْ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ عِنْدَ ذَلِكَ رَجُلًا مِنْ عِتْرَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا إِنْ قَلُّوا، وَخَمْسَةَ عَشْرَ أَلْفًا إِنْ كَثُرُوا، أَمَارَتُهُمْ أَوْ عَلَامَتُهُمْ أَمِتْ أَمِتْ عَلَى ثَلَاثِ رَايَاتٍ يُقَاتِلُهُمْ أَهْلُ سَبْعِ رَايَاتٍ لَيْسَ مِنْ صَاحِبِ رَايَةٍ إِلَّا وَهُوَ يَطْمَعُ بِالْمُلْكِ، فَيَقْتَتِلُونَ وَيُهْزَمُونَ، ثُمَّ يَظْهَرُ الْهَاشِمِيُّ فَيَرُدُّ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ إِلْفَتَهُمْ وَنِعْمَتَهُمْ، فَيَكُونُونَ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى يَخْرُجَ الدَّجَّالُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

8658 – صحيح

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيَّ نے کہا انہوں نے علی سے سنا  … اہل شام کوگالی مت دو ان میں ابدال ہیں

اتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة میں  أبو العباس  البوصيري   (المتوفى: 840هـ) لکھتے ہیں

عَنْ صَفْوَانِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ- أَوْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانٍ- قَالَ: ” قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ. فَقَالَ عَلِيٌّ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-: لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غفيرًا، فإن بها الأبدال- قالها ثَلَاثًا “.

رَوَاهُ إِسْحَاقُ، وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے صفین کے  روز کہا الله کی لعنت ہو اہل شام پر اس پر  علی نے کہا اہل شام کے جم غفیر  کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں – اس کو اسحاق نے روایت کیا ہے اس کے راوی ثقہ ہیں

فضائل صحابہ از امام احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أنا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، وَقَالَ مَرَّةً: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ فَقَالَ: عَلِيٌّ «لَا تَسُبَّ أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ»

امام زہری نے عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے صفین کے  روز کہا الله کی لعنت ہو اہل شام پر اس پر  علی نے کہا اہل شام کے جم غفیر  کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں

معمر بن أبي عمرو راشد (المتوفى: 153هـ) روایت کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ، قَالَ: فَقَالَ عَلِيٌّ: «لَا تَسُبَّ أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ»

امام زہری نے عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے صفین کے  روز کہا الله کی لعنت ہو اہل شام پر اس پر  علی نے کہا اہل شام کے جم غفیر  کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں ان میں ابدال ہیں

مجمع البحرين في زوائد المعجمين  از ہیثمی میں ہے

قال سعيد: سمعت قتادة يقول: لسنا نشك أن الحسن منهم

قتادہ بصری کا قول ہے جو سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا کہ ان کو اس میں شک  نہیں کہ حسن بصری بھی ابدال میں سے ہیں

تہذیب الکمال از المزی میں ہے امام أبو زرعة الرازي بھی ابدال کا ذکر کرتے تھے

وقال أبو زرعة الرازي: محمد بن عبيد عندنا إمام، وعلي بن أبي بكر من الأبدال

أبو زرعة الرازي نے کہا محمد بن عبید  ہمارے امام ہیں اور علی بن ابی بکر ابدال میں سے ہیں

ابن حبان صحیح میں باب قائم کیا

ذِكْرُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْءِ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا لِمَنْ يُصَلِّي عَلَيْهِ الْإِبْدَالَ

آدمی کے لئے مستحب ہے کہ جب الله جَلَّ وَعَلَا سے سوال کرے تو اس پر ابدال سے دعا کرائے

أبو بكر بن أبي عاصم الشيباني (المتوفى: 287هـ) کتاب السنة میں ایک سند میں ابدال کا ذکر کرتے ہیں

حَدَّثَنَا ابْنُ الْبَزَّارِ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا زِيَادُ أَبُو عُمَرَ وَكَانَ يُقَالُ لَهُ إِنَّهُ مِنَ الأَبْدَالِ عَنِ الْوَلِيدِ أَبِي بِشْرٍ عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ: قُلْتُ لحذيفة أين عثمان؟ قال: في الجنة ورب الكعبة قَالَ: قُلْتُ قَتَلَتُهُ قَالَ فِي النَّارِ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.

سند میں زِيَادُ أَبُو عُمَرَ کو شُعَيْبُ بْنُ حَرْبٍ نے ابدال میں سے قرار دیا ہے

أبو محمد عبد الله  الدارمي (المتوفى: 255هـ) نے ایک راوی کو ابدال میں سے قرار دیا

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عَقِيلٍ، أَنَّهُ: سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، يَقُولُ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرٌ فِي [ص:2157] الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأهاَ عِشْرِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا قَصْرَانِ فِي الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَرَأَهَا ثَلَاثِينَ مَرَّةً، بُنِيَ لَهُ بِهَا ثَلَاثَةُ قُصُورٍ فِي الْجَنَّةِ». فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَنْ لَنَكْثُرَنَّ قُصُورُنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُ أَوْسَعُ مِنْ ذَلِكَ» قَالَ أَبُو مُحَمَّد: «أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَزَعَمُوا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ»

 امام دارمی نے ا أَبُو عُقَيْلٍ زَهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ کا سند میں ذکر کرتے ہوئے لکھا وَكَانَ مِنَ الْأَبْدَالِ  وہ ابدال میں سے تھے

أبو بكر  ابن المقرئ (المتوفى: 381هـ)  کتاب المعجم لابن المقرئ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ عَبْدِ الْأَكْرَمِ الْأَنْطَاكِيُّ، وَكَانَ يُقَالُ أَنَّهُ مِنَ الْأَبْدَالِ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى النَّوْسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْغَيْثَ قَالَ: «اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا»

اس  سند میں أبو بكر  ابن المقرئ نے اپنے شیخ کو ابدال میں سے قرار دیا ہے

إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني  از  أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري کے مطابق طبرانی کے شیخ   أحمد بن محمد بن عبد الله بن الحسن بن حفص أبو الحسن الأصبهاني بھی ابدال میں سے تھے

قال أبو نعيم: أحد الأبدال والزهاد

ابو نعیم نے کہا یہ زہاد و ابدال میں سے ایک تھے

المقاصد الحسنة  میں ابن حجر کے شاگرد محدث السخاوي (المتوفى: 902هـ) لکھتے ہیں

وقال يزيد بن هارون: الأبدال هم أهل العلم

يزيد بن هارون نے کہا ابدال سے مراد اہل علم ہیں

المقاصد الحسنة میں السخاوي (المتوفى: 902هـ) نے یہ بھی لکھا

وقول البخاري في غيره: كانوا لا يشكون أنه من الأبدال، وكذا وصف غيرهما من النقاد والحفاظ والأئمة غير واحد بأنهم من الأبدال

امام بخاری کا قول کہ اس میں شک نہیں یہ ابدال میں سے تھے اور اسی طرح نقاد محدثین و ائمہ کا تعریف کرنا  تھا کہ یہ ابدال میں سے ہے

شوکانی (المتوفى: 1250هـ)  کتاب الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة میں لکھتے ہیں کہ ابدال  کے بارے میں حسن حدیث ہے اور یہ متواتر کے درجے پر ہیں

وله طرق عن أنس أخرجها الطبراني والخلال، وابن عساكر (3) وأبو نعيم والطبراني (4) . قال في اللآلىء: وقد ورد ذكر الأبدال من حديث على رضي الله عنه وسنده حسن (1) . ومن حديث [عبادة بن الصامت. وسنده حسن (2) ، ومن حديث عوف بن مالك رضي الله عنه. أخرجه الطبراني (1) .

ومن حديث معاذ رضي الله عنه. أخرجه أبو عبد الرحمن السلمي في كتاب سنن الصوفية (2) .

ومن حديث أبي الدرداء رضي الله عنه. أخرجه الحكيم الترمذي في نوادر الأصول (3) .

ومن حديث أبي هريرة: أخرجه ابن حبان في الضعفاء. والخلال في كرامات الأولياء (4) .

ومن حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه. أخرجه ابن عساكر في تاريخه (5) .

ومن حديث حذيفة رضي الله عنه. أخرجه الحكيم الترمذي في نوادر الأصول (6) .

وعن ابن عباس موقوفًا أخرجه أحمد في الزهد (1) قال الفتى في موضوعاته.

قلت: هو صحيح وإن شئت قلت: هو متواتر

میں شوکانی کہتا ہوں یہ صحیح ہیں اور چاہو تو کہو متواتر ہیں

ابدال – ایک لایعنی اصطلاح

عصر حاضر کے اہل حدیث کے لئے مثال ہے کہ  ابدال سے متعلق محدثین نے ذکر کیا ہے اور روایات کو صحیح کہہ کر قبول بھی کیا ہے – احادیث کی صحیح کی کتاب میں باب بھی قائم کیا ہے تو پھر ان کو تامل کیوں ہے کہ ابدال سے متعلق احادیث صحیح نہیں – دوسری طرف عود روح سے متعلق منکر روایات کو یہی طبقہ ان اجزاء کی وجہ سے قبول کرتا ہے

بعد وفات انبیاء کا حج کرنا

وہابی اور اھل حدیث اور ڈاکٹر عثمانی کی تنظیم کے موحد علماء کا کہنا ہے کہ نبی علیہ السلام بعد وفات بریلویاں کے گھر انڈیا پاکستان میں نہیں اتے – راقم اس قول سے متفق ہے اور اتنے دن سے رو رہا ہے کہ انبیاء کے حوالے سے جو بیان کیا جاتا ہے کہ  قبروں  میں  نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے – یہاں تک کہ اعصاب شکن ہوئے جب وہابی عالم مشہور حسن سلمان وہابی عالم کا فتوی دیکھا کہ  انبیاء نہ صرف  قبروں میں زندہ ہیں بلکہ  یہاں تک کہ آج کل بھی  حج  کرتے ہیں

https://ar.islamway.net/fatwa/31129/هل-يصلي-الأنبياء-في-قبورهم-وكيف-يكون-ذلك
السؤال 256: قرأت في كتاب “أحكام الجنائز” لشيخنا رحمه الله، حديثاً عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم عن سؤال الملكين للمؤمن في قبره: ((…. فيقال له اجلس وقد دنت له الشمس وقد آذنت للغروب، فيقال له: أرأيت في هذا الذي كان فيكم ما تقول فيه؟ ماذا تشهد عليه؟ فيقول: دعوني حتى أصلي، فيقولان إنك ستفعل)) فقال الشيخ الألباني معلقاً على هذا الحديث: صريح في أن المؤمن يصلي في قبره، وذكر حديثاً {أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون}، ما صفة هذه الصلاة، هل هي كصلاتنا أم ما هي صفتها؟
الجواب: الله أكبر، المؤمن في قبره لما يأتيه الملكان عقله وقلبه متعلق بالصلاة، فيقول للملائكة: دعوني حتى أصلي، ثم اسألوني، وهكذا شأن المؤمن.
والكلام على دار البرزخ، ودار البرزخ قوانينها ليست كقوانين الدنيا، ولها قوانين خاصة، والروح والبرزخ أشياء لا تدرك بالعقل ولا يجوز أن تخضع للمألوف، فعالم البرزخ العقل يبحث فيه عن صحة النقل فقط، فإن كان صحيح نقول يصلي، وكيف يصلي؟ لا ندري، والأنبياء لهم حياة في قبورهم، وكيف هذه الحياة، لا نعرفها، فهذا خبر في عالم الغيب، ليس للعقل إلا أن يتلقى ويبحث عن الصحة، فإن صح الخبر نقول: سمعنا وأطعنا.
وبهذا نرد على المفوضة وعلى الذين ينكرون صفات الله فإذا كان الإنسان نفسه عندما ينتقل من دار لدار العقل يتوقف، فكيف نعطل صفات ربنا عز وجل بحجة أنها تشبه صفات الخلق؟ فنحن نثبت صلاة للأنبياء وللمؤمن في القبور، بل نثيت حجاً وعمرة للأنبياء، كما جاء في صحيح مسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى يحج في المنام ورؤيا الأنبياء حق، فنثبت ما ورد فيه النص ونسكت ونعرف قدر أنفسنا ولا نزيد على ذلك، ولا يوجد أحد ذهب لعالم البرزخ فجاء فأخبرنا وفصل لنا والعقل لا يدرك والنص قاضٍ على العقل، والله أعلم…

حسن مشہور سلمان نے جواب دیا : … دار البرزخ کے قوانین الگ ہیں  … انبیاء کی حیات قبر کی ہے لیکن کیسی ہے پتا نہیں ہے  ہم نہیں جانتے یہ عالم الغیب کی خبر ہے … اور المفوضہ انکار کرتے ہیں  ہم  (وہابی) اس کا اثبات کرتے ہیں کہ انبیاء (بعد وفات)  اور مومن قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ہم اس کا بھی اثبات کرتے ہیں کہ انبیاء (بعد وفات) حج  و عمرہ کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے نیند میں موسی کو دیکھا کہ وہ حج کر رہے ہیں اور انبیاء کا خواب  حق ہے  پس ہم اثبات کرتے ہیں جو نص میں آیا

راقم کہتا ہے حدیث میں موسی یا یونس علیہما السلام کا حج کرنے کا جو ذکر ہے وہ ان کی زندگی کی خبر ہے لیکن وہابیوں نے اس حدیث کو بعد وفات کی طرف موڑ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انبیاء قبروں سے نکل کر  میقات کی حدود میں داخل ہوتے ہیں – یہ قول باطل ہے

صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِوَادِي الْأَزْرَقِ، فَقَالَ: «أَيُّ وَادٍ هَذَا؟» فَقَالُوا: هَذَا وَادِي الْأَزْرَقِ، قَالَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ هَابِطًا مِنَ الثَّنِيَّةِ، وَلَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللهِ بِالتَّلْبِيَةِ»، ثُمَّ أَتَى عَلَى ثَنِيَّةِ هَرْشَى، فَقَالَ: «أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ؟» قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى، قَالَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ جَعْدَةٍ عَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ، خِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ وَهُوَ يُلَبِّي

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   وادی ازرق سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پوچھا یہ کونسی وادی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یہ  وادی ازرق  ہے آپ نے فرمایا : گویا میں موسی علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں وہ پہاڑ سے اتر رہے ہیں تلبیہ کی وجہ سے ان کا ایک اللہ کے ہاں ایک مقام قرب ہے- پھر آپ ایک پہاڑ پر پہنچے فرمایا یہ کونسا پہاڑ ہے؟ عرض کی   ہرشی   پہاڑ ہے  آپ نے فرمایا گویا کہ میں یونس بن متی علیہ السلام کو نحیف سرخ اونٹنی پر دیکھ رہا ہوں ان پر اون کا جبہ ہے، اونٹنی کی نکیل خشک کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ہے اور آپ علیہ السلام تلبیہ کہہ رہے ہیں

اس روایت میں نیند کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو جاگنے کی حالت میں اپ صلی الله علیہ وسلم کو غیبی کشف کیا گیا کہ گویا موسی اور یونس علیہما السلام  نے جب حج کیا تو ایسے لگ رہے تھے

وہابی عالم صالح المنجد کا فتوی ہے

وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : ( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون ) رواه البزار وصححه الألباني في صحيح الجامع ( 2790 ) وهذه الصلاة مما يتمتعون بها كما يتنعم أهل الجنة بالتسبيح .

https://islamqa.info/ar/26117

اور بے شک صحیح ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انبیاء زندہ ہیں قبروں میں نماز  پڑھتے ہیں اس کو البزار نے روایت کیا ہے اور البانی نے نے صحیح کیا ہے اور یہ وہ نماز ہے جس سے یہ  فائدہ لیتے ہیں  جیسی کہ اہل جنت  تسبیح سے لیتے ہیں 

راقم کہتا ہے سلفی عالم اسمعیل سلفی کے بقول کہ اس روایت سے عقیدے ثابت نہیں کر سکتے

 

خواب میں نبی اکرم کا دیدار

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

بخاری کی حدیث میں یہ بات خاص دور نبوت کے لئے بتائی گئی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا تھا

بخاری میں دو حدیثیں ہیں

من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی

          جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل  نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم

دوسری حدیث ہے

من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته

جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے  کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے

 ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے  فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے  دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا

حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري کتاب الرؤيا میں لکھتے ہیں

المازري کہتے ہیں

احتمل أن يكون أراد أهل عصره ممن يهاجر إليه فإنه إذا رآه في المنام جعل ذلك علامة على أنه سيراه بعد ذلك في اليقظة

اغلبا اس سے مراد ان (نبی صلی الله علیہ وسلم) کے ہم عصر ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور ان کو خواب میں دیکھا اور یہ (خواب کا مشاہدہ) ان کے لئے علامت ہوئی اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کو بیداری میں بھی دیکھا

امام بخاری  نے بھی باب میں امام محمد آبن سیرین کا یہ قول لکھا ہے کہ

  یہ اس صورت میں ہے جب رسول صلى اللہ عليہ وسلم کو آپ ہی کی صورت میں دیکھا جائے

 یعنی شیطان تو کسی بھی صورت میں آ کر بہکا سکتا ہے ہم کو کیا پتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کیسے تھے؟ صرف شمائل پڑھ لینے سے وہی صورت نہیں بن سکتی . اگر  آج کسی  نے دیکھا بھی تو آج اس کی تصدیق کس صحابی سے کرائیں گے؟

 لیکن جن دلوں میں بیماری ہے وہ اس حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کو آج بھی خواب میں دیکھنا ممکن ہے اور خواب پیش کرتے ہیں

انس رضی الله عنہ کا خواب

طبقات ابن سعد میں ایک روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الذَّارِعُ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: مَا مِنْ لَيْلَةٍ إِلا وَأَنَا أَرَى فِيهَا حَبِيبِي. ثُمَّ يَبْكِي.

ابن سعد نے کہا ہم کو مسلم بن ابراہیم نے خبر دی انہوں نے کہا ان پر  الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الذَّارِعُ نے حدیث بیان کی  کہا میں نے انس بن مالک کو کہتے سنا کہ کوئی ایسی رات نہیں کہ جس میں میں اپنے حبیب کو نہ دیکھ لوں پھر رو دیے

تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از أَبِي يَعْلَى البغدادي، الحنبلي (المتوفى: 580هـ) کے مطابق اس نام کے دو راوی ہیں دونوں بصری ہیں

المثنى بن سعيد، اثنان    بصريان

أحدهما:1 – أبو غفار الطائي. حدث عن: أبي عثمان النهدي، وأبي قلابة الجرمي، وأبي تميمة الهجيمي، وأبي الشعثاء، مولى ابن معمر.روى عنه: حماد بن زيد، وعيسى بن يونس، وأبو خالد الأحمر، ويحيى بن سعيد القطان، وسهل بن يوسف.قال الخطيب: أنا محمد بن عبد الواحد الأكبر: أنا محمد بن العباس: ثنا ابن مرابا: ثنا عباس بن محمد، قال: سمعت يحيى بن معين يقول: أبو غِفَار الطَّائي بصري اسمه المثنى بن سعيد، يحدث عنه يحيى، وقال يحيى: المثنى بن سعيد ثقة.

والآخر:  أبو سعيد الضَّبِّي القَسَّام.رأى أنس بن مالك، وأبا مجلز، وسمع قتادة، وأبا سفيان طلحة بن نافع.

انس رضی الله عنہ سے اس قول کو منسوب کرنے والا  أبو سعيد المثنى بن سعيد  الضَّبِّي القَسَّام ہے جس نے ان کو صرف  دیکھا ہے

تاریخ الاسلام میں الذھبی نے اس راوی پر لکھا ہے رأى أنسا کہ اس نے انس کو دیکھا تھا

ابن حبان نے اس کے لئے ثقات میں کہا ہے  يخطىء غلطیاں کرتا ہے

المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از  أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کی تحقیق کے مطابق بھی اس نے انس رضی الله عنہ کو دیکھا ہے سنا نہیں ہے

أبو سعيد، المثنى بن سعيد، الضُبَعِيّ – بضم المعجمة، وفتح الموحدة – البصري، القسام، الذارع، القصير، كان نازلا في بني ضبيعة، ولم يكن منهم ويقال: إنه أخو ريحان بن سعيد، وروح بن سعيد، والمغيرة بن سعيد، رأى أنس بن مالك

توضيح المشتبه في ضبط أسماء الرواة وأنسابهم وألقابهم وكناهم کے مؤلف: محمد بن عبد الله (أبي بكر) ابن ناصر الدين (المتوفى: 842هـ) کا کہنا ہے کہ رأى أنس بن مَالك اس نے انس بن مالک کو دیکھا

طبقات ابن سعد میں ہی یہ راوی قتادہ کے واسطے سے انس رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ. حَدَّثَنَا قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَزُورُ أُمَّ سُلَيْمٍ أَحْيَانًا فَتُدْرِكُهُ الصَّلاةُ فَيُصَلِّي عَلَى بِسَاطٍ لَنَا وَهُوَ حَصِيرٌ يَنْضَحُهُ بِالْمَاءِ.

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمْ يَخْضِبْ قَطُّ. إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ فِي الْعَنْفَقَةِ قَلِيلا وَفِي الرَّأْسِ نَبْذٌ يَسِيرٌ لا يَكَادُ يُرَى.

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَتَّابٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ: ” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخْضِبْ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ، وَفِي الْعَنْفَقَةِ قَلِيلًا، وَفِي الرَّأْسِ نَبْذٌ يَسِيرٌ، لَا يَكَادُ يُرَى “، وَقَالَ الْمُثَنَّى: ” وَالصُّدْغَيْنِ

سنن ابو داود کی روایت ہے

حدَّثنا مسلمُ بن إبراهيم، حدَّثنا المثنى بن سعيد، حدَّثنا قتادةُ عن أنس بن مالك: أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم – كان يزورُ أم سُلَيمٍ، فتُدركُه الصلاةُ أحياناً، فيُصلي على بِساطٍ لنا، وهو حَصيرٌ تَنضَحُه بالماء

سنن الکبری نسائی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ الْقَاسِمِ الْمَكِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا قَالَ: «اللهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي، وَنَصِيرِي، وَبِكَ أُقَاتِلُ»

معلوم ہوا کہ اس راوی کا سماع انس رضی الله عنہ سے نہیں ہے جو بھی اس نے لیا وہ قتادہ کی سند سے ہے اور اس کا طبقات کی سند میں سمعت (میں نے سنا) کہنا غلطی ہے

افسوس کفایت الله سنابلی اس روایت کو صحیح کہہ رہے ہیں

بلال رضی الله تعالی عنہ کا خواب

ابن عساکر تاریخ الدمشق میں إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال کے ترجمے میں لکھتے ہیں

إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ابن أبي الدرداء الأنصاري صاحب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أبو إسحاق روى عن أبيه روى عنه محمد بن الفيض أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال

  لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم  الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنزل  داريا في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين  وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي (صلى الله عليه وسلم) وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي (صلى الله عليه وسلم) فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها  فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم قال أبو الحسن محمد بن الفيض توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين

 أبي الدرداء فرماتے ہیں کہ

جب عمر الجابیہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے بلال سے کہا کہ شام آ جائیں پس بلال شام منتقل ہو گئے … پھر بلال نے خواب میں نبی کودیکھا کہ فرمایا اے بلال یہ کیا بے رخی ہے؟ کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا .. پس بلال قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر گئے اور روئے اور چہرے کو قبر پر رکھا … اس کے بعد حسن و حسین کی فرمائش پر آپ نے اذان بھی دی

 بلال بن رباح الحبشي رضی الله تعالی عنہ کی وفات سن ٢٠ ہجری میں ہوئی  اور ایک قول تاریخ الاسلام از ذھبی میں ہے

قَالَ يحيى بْن بكير: تُوُفيّ بلال بدمشق في الطاعون سنة ثماني عشرة.

بلال کی دمشق میں طاعون  سے سن ١٨ ہجری میں وفات ہوئی

 الذھبی اپنی کتاب سیر الاعلام  ج ١ ص ٣٥٨ میں اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہتےہیں

إِسْنَادُهُ لَيِّنٌ، وَهُوَ مُنْكَرٌ.

اس کی اسناد کمزور ہیں اور یہ منکر ہے

 ابن حجر لسان المیزان میں اور الذھبی میزان  میں اس راوی پر لکھتے ہیں

فيه جهالة

اس کا حال مجھول ہے

 ذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں اس راوی پر لکھتے ہیں

مجهول، لم يروِ عنه غير محمد بْن الفيض الغسَّانيّ

مجھول ہے سوائے محمد بْن الفيض الغسَّانيّ کے کوئی اس سے روایت نہیں کرتا

 ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کا خواب

 ترمذی روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَزِينٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعْنِي فِي المَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ الله، قَالَ: “شَهِدْتُ قَتْلَ الحُسَيْنِ آنِفًا” هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

 سلمی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ  رضی الله تعالی عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے؟  آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے . کا سر اور ریش مبارک گرد آلود تھی.میں نے عرض کی ، یارسول ،آپ کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ رسول الله نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسین کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

 ترمذی اور مستدرک الحاکم میں یہ روایت نقل ہوئی ہے

 اس کی سند میں سَلْمَى الْبَكْرِيَّةِ ہیں

 تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں مبارکپوری لکھتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ لِجَهَالَةِ سَلْمَى

سَلْمَى کے مجھول ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے

 کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق

 وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ

اور ام سلمہ کی وفات ٥٩ ھ میں ہوئی

 تاریخ کے مطابق حسین کی شہادت سن ٦١ ہجری میں ہوئی

 لہذا یہ ایک جھوٹی روایت ہے

ابن عباس کا خواب کی تعبیر کرنا 

ابن حجر فتح الباری  ص ۳۸۴ میں بتاتے ہیں کہ حاکم روایت کرتے ہیں کہ

فَأَخْرَجَ الْحَاكِمُ مِنْ طَرِيقِ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ قَالَ صِفْهُ لِي قَالَ ذَكَرْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ فَشَبَّهْتُهُ بِهِ قَالَ قَدْ رَأَيْتُهُ وَسَنَدُهُ جَيِّدٌ

امام حاکم نے روایت کیا ہے … ایک شخص نے عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے حسن بن علی رضی   االله  عنہ کی شکل کے ایک شخص کو دیکھا ہے اس پر انہوں نے کہا تم نے نبی کو دیکھا ہے

ابن حجر نے کہا اس کی سند جید ہے

حالانکہ حیرت ہے  عبد الله بن عباس اور ابن زبیر میں اپس میں اختلاف ہوا اور  ابن عباس طائف جا کر قیام پذیر ہوئے لیکن اس اختلاف کو ختم کرنے نبی صلی الله علیہ وسلم نہ ابن عباس  رضی الله عنہ کے خواب میں آئے نہ ابن زبیر رضی الله عنہ کے

مستدرک الحاکم کی اس روایت  کو اگرچہ الذھبی نے صحیح کہا ہے لیکن اسکی  سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ  ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر  يحيى القطان نے کلام کیا ہے

وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً

صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم  جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا

مسلمان بادشاہوں کے سیاسی خواب

 نور الدین زنگی کا خواب

  علي بن عبد الله بن أحمد الحسني الشافعي، نور الدين أبو الحسن السمهودي المتوفى٩١١ھ  کتاب  وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى  میں سن ٥٥٧ ھ پر لکھتے ہیں

 الملك العادل نور الدين الشهيد نے ایک ہی رات میں تین دفعہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ ہر دفعہ فرما رہے ہیں

 أن السلطان محمودا المذكور رأى النبي صلّى الله عليه وسلّم ثلاث مرات في ليلة واحدة وهو يقول في كل واحدة: يا محمود أنقذني من هذين الشخصين الأشقرين تجاهه

اے  قابل تعریف! مجھ کو ان دو شخصوں سے بچا

 یہ دو اشخاص عیسائی تھے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد مطہر حاصل کرنا چاہتے تھے

مثل مشھور ہے الناس علی دین ملوکھم کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں اسی طرح یہ قصہ اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ گویا اس کی سچائی قرآن و حدیث جیسی ہو

 مقررین حضرات یہ قصہ سنا کر بتاتے ہیں کہ یہودی سازش کر رہے تھے لیکن ریکارڈ کے مطابق یہ نصرانی سازش تھی

 وقد دعتهم أنفسهم- يعني النصارى- في سلطنة الملك العادل نور الدين الشهيد إلى أمر عظيم

اور نصرانیوں نے ایک امر عظیم کا ارادہ کیا بادشاہ عادل نور الدین الشہید کے دور ہیں

 اس کے بعد یہ خواب کا واقعہ بیان کرتے ہیں اور بعد میں پکڑے جانے والے عیسائی تھے

أهل الأندلس نازلان في الناحية التي قبلة حجرة النبي صلّى الله عليه وسلّم من خارج المسجد عند دار آل عمر بن الخطاب

اہل اندلس سے دو افراد دار ال عمر بن خطاب ،حجرے کی جانب مسجد سے باہر ٹھہرے ہوۓ ہیں

  اس قصے میں عجیب و غریب عقائد ہیں.  اول نبی صلی الله علیہ وسلم کو علم غیب تھا کہ دو نصرانی سازش کر رہے ہیں  دوئم انہوں نے الله کو نہیں پکارا بلکہ نور الدین کے خواب میں تین دفعہ ایک ہی رات میں ظاہر ہوئے . سوم نبی صلی الله علیہ وسلم نے نورالدین زنگی کو صلیبی جنگوں میں عیسائی تدبریوں کے بارے میں نہیں بتایا جن سے ساری امت مسلمہ نبرد آزما تھی بلکہ صرف اپنے جسد مطہر کی بات کی

  الله کا عذاب نازل ہو اس جھوٹ کو گھڑنے والوں پر. ظالموں الله سے ڈرو اس کی پکڑ سخت ہے .الله کے نبی تو سب سے بہادر تھے

 دراصل یہ سارا قصہ نور الدین زنگی  کی بزرگی کے لئے بیان کیا جاتا ہے جو صلیبی جنگوں میں مصروف تھے اور ان کے عیسائیوں سے  معرکے چل رہے تھے

شاہ عراق فیصل بن حسین المعروف فیصل اول کا خواب

فیصل بن حسین ١٩٢١ ع سے ١٩٣٣ ع تک عراق کے بادشاہ تھے اور شریف المکّہ کے تیسرے بیٹے. شریف المکہ عثمانی خلافت میں ان کی جانب سے حجاز کے امیر تھے. فیصل اول نے خلافت عثمانیہ ختم کرنے میں انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیا.   بر صغیر کے مشھور شاعر علامہ اقبال نے ان پر تنقید کی کہ

کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا

لیکن روحانیت میں شاہ فیصل کا کچھ اور ہی مقام تھا انگریز بھی خوش اور الله والے بھی خوش

جو لوگ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں انے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ سن ١٩٣٢ عیسوی میں عراق میں جابر بن عبدللہ اور حذیفہ بن یمان رضوان الله علیھم شاہ عراق کے خواب میں آئے اور انہوں نی اس سے کہا کہ ان کو بچائے کیونکہ نہر دجلہ کا پانی ان کی قبروں تک رس رہا ہے

قبر ١قبر ٢

حیرت کی بات ہے کہ شیعہ حضرات بھی اس خواب کو لہک لہک کر بیان کرتے ہیں لیکن اس سے تو فیصل اول کی الله کی نگاہ میں قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے اور فیصل شیعہ عقیدے پر نہیں تھے

ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں اتے ہیں اب کہا جا رہا ہے کہ صحابی بھی اتے ہیں گویا جو نبی کی خصوصیت تھی وہ اب غیر انبیاء کی بھی ہو گئی

ہمارے قبر پرست بادشاہوں کو  خوابوں میں انبیاء اور صحابہ نظر آ رہے ہیں اور وہ بھی صرف اپنے جسمکو  بچانے کے لئے

لیکن اب خواب نہیں آیا

حال ہی میں شام میں حکومت مخالف باغیوں نے ایک   قبر کشائی کی  جو صحابی رسول حجر بن عدی  المتوفی 51 ہجری کی طرف منسوب ہے لیکن حیرت ہے اس دفعہ ان  صحابی کو خیال نہیں آیا کہ دوسرے صحابہ تو اپنی قبروں کو بچانے کے لئے خوابوں میں آ جاتے ہیں مجھے بھی یہی کرنا چاہئے یہ صحابی نہ سنیوں کے خواب میں آئے نہ شیعوں کے خواب میں. جب قبر پر پہلا کلہاڑا پڑا اسی وقت خواب میں آ جاتے

قبر ٣

حجر بن عدی رضی اللہ تعالی علیہ سے منسوب قبر ، قبر کی بے حرمتی کے بعد

دوسری طرف یہی قبر پرست  ایک سانس میں کہتے ہیں کہ صحابہ کے جسد محفوظ تھے اور دوسری سانس میں روایت بیان کرتے ہیں الله نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے تو بھلا بتاؤ کیا  مانیں اگر غیر نبی کا جسد بھی محفوظ ہے تو یہ انبیاء کی خصوصیت کیسے رہی

 الغرض  نبی صلی  الله علیہ وسلم نے دنیا کی رفاقت چھوڑ کر جنت کو منتخب کیا اور آج امت سے ان کا کوئی  رابطہ نہیں اور نہ ان کو امت کے حال کا پتا ہے ،ورنہ جنگ جمل نہ ہوتی نہ جنگ صفین، نہ حسین شہید ہوتے، بلکہ ہر لمحہ آپ امت کی اصلاح کرتے

انبیاء صحابہ اور اولیاء کا خواب میں انے کا عقیدہ سراسر غلط اور خود ساختہ ہے اور عقل سلیم سے بعید تر قبروں سے فیض حاصل کرنے کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم ان قبروں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ان سے دعائیں کروانے جاتے ہیں الله ان کی سنتا ہے لیکن اگر الله ان کی سنتا ہے تو جب ان کی قبر پر پانی اتا ہے یا کوئی دوسرے دین کا شریر شخص شرارت کرنا چاہتا ہے تو اس وقت  بادشاہ لوگ کے خواب میں ان کو آنا پڑتا ہے سوچوں یہ کیا عقیدہ ہے  تمہاری عقل پر افسوس ! الله شرک سے نکلنے کی توفیق دے

نبی صلی الله علیہ وسلم اور امام ترمذی سے ناراضگی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں بیان کرتے ہیں کہ امام ترمذی اس عقیدے کے خلاف تھے کہ روز محشر نبی صلی الله علیہ وسلم کو نعوذباللہ عرش پر الله تعالی اپنے ساتھ بٹھائے گا. ابو بکر الخلال ، نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا نقل کرتے ہیں

وَسَمِعْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ صَدَقَةَ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ الْجَبَلِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ صَاحِبِ النَّرْسِيِّ قَالَ: ثُمَّ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَحَدَّثَنِي، قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ لِي: هَذَا التِّرْمِذِيُّ، أَنَا جَالِسٌ لَهُ، يُنْكِرُ فَضِيلَتِي “

عبدللہ بن اسمعیل کہتے ہیں کہ میرے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم آئے اور کہا  یہ ترمذی!  میں اس کے لئے  بیٹھا ہوں اور یہ میری فضلیت کا انکاری ہے

ابو بکر الخلال نے واضح نہیں کیا کہ اس خواب میں  نبی صلی الله علیہ وسلم کا کہنا کہ میں بیٹھا ہوں، تو اصل میں وہ کہاں بیٹھے  ہیں . مبہم انداز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا گیا ہے تاکہ امام ترمذی پر جرح ہو سکے

ایک دوسرا خواب بھی پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ الْعَطَّارُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ، قَالَ: ” رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ عَنْ يَمِينِهِ، وَعُمَرُ عَنْ يَسَارِهِ، رَحْمَةُ الله عَلَيْهِمَا وَرِضْوَانُهُ، فَتَقَدَّمْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ الله، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَقُولَ شَيْئًا فَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: قُلْ، فَقُلْتُ: إِنَّ التِّرْمِذِيَّ يَقُولُ: إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لَا يُقْعِدُكَ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، فَكَيْفَ تَقُولُ يَا رَسُولَ الله، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ شِبْهَ الْمُغْضَبِ وَهُوَ يُشِيرُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى عَاقِدًا بِهَا أَرْبَعِينَ، وَهُوَ يَقُولُ: «بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، ثُمَّ انْتَبَهْتُ

مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ نے کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور ابو بکر و عمر رحمہ الله تعالی ان کےساتھ تھے ابو بکر دائیں طرف اور عمر بائیں طرف بیٹھے تھے پس میں عمر کی دائیں طرف آیا اور عرض کیا : یا رسول الله میں چاہتا ہوں اپ پر ایک چیز پیش کرتا – رسول الله نے فرمایا بولو- میں نے کہا یہ ترمذی کہتا حیا کہ اپ الله عزوجل اپ کے ساتھ عرش پر نہیں بیٹھے گا تو اپ کیا کہتے ہیں اس پر یا رسول الله ! پس میں نے دیکھا کہ رسول الله ناراض ہوئے اور انہوں نے سیدھے ہاتھ سے اشارہ کیا … اور کہہ رہے تھے بالکل الله کی قسم ، بالکل الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا ، الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا پھر خبردار کیا 

استغفر الله ! اس طرح کے عقائد کو محدثین کا ایک گروہ حق مانتا آیا ہے

الله کا شکر ہے کہ  بدعتی عقائد پر کوئی نہ کوئی محدث اڑ جاتا ہے اور آج ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حق کیا ہے ,مثلا یہ عقیدہ  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا اور انبیاء کے اجسام سلامت رہنےکا بدعتی عقیدہ جس کو امام بخاری اور ابی حاتم  رد کرتے ہیں

حدیث میں اتا ہے کہ

میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لئے اپنے اہل و مال سب کچھ صَرف کردیں 

اس سے ظاہر ہے کہ نبی کو خواب میں دیکھنا ممکن نہیں بلکہ اگر کوئی نبی کو دیکھنا چاہتا ہے تو کیا صرف  سوتا رہے  کہ ہو سکتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں آ جائیں حدیث میں ہے کہ وہ اہل و مال تک صرف کرنا چاہیں گے کیونکہ وہ دیکھ نہیں پائیں گے

کہا جاتا ہے کہ  علمائے اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ اگر خواب میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم کسی کو کوئی ایسی بات بتائیں یا کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہے تو اس پر عمل جائز نہ ہوگا  لیکن یہ احتیاط کیوں اگر حلیہ شمائل کے مطابق ہو اور اپ کا عقیدہ ہے کہ شیطان،  نبی صلی الله علیہ وسلم کی شکل بھی نہیں بنا سکتا تو اس خوابی حکم یا حدیث کو رد کرنے کی کیا دلیل ہے. دوم یہ اجماع کب منعقد ہوا کون کون شریک تھا کبھی نہیں بتایا جاتا

کہا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا ان کی خصوصیت ہے اس کا مطلب ہوا کہ جو لوگ یہ دعوی کریں کہ کوئی ولی یا صحابی خواب میں آیا وہ کذاب ہیں کیونکہ اگر یہ بھی خواب میں آ جاتے ہوں تو نبی کی خصوصیت کیسے رہی؟

خواب کے ذریعہ احادیث کی تصحیح

 صحیح بخاری میں ابن مسعود سے مروی ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل ‘اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ….”(صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس حدیث پر لوگوں کو شک ہوا لہذا کتاب جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم از ابن رجب میں ہے
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الَّذِي حَدَّثَ عَنْكَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ حَدَّثْتُهُ بِهِ أَنَا ” يَقُولُهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ غَفَرَ اللَّهُ لِلْأَعْمَشِ كَمَا حَدَّثَ بِهِ، وَغَفَرَ اللَّهُ
مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ نے روایت کیا کہ میں نے خواب میں نبی کو دیکھا کہا اے رسول الله حدیث ابن مسعود جو انہوں نے اپ سے روایت کی ہے کہا سچوں کے سچے نے کہا ؟ فرمایا وہ جس کے سوا کوئی الہ نہیں میں نے ہی اس کو ان سے روایت کیا تھا تین بار کہا پھر کہا الله نے اعمش کی مغفرت کی کہ اس نے اس کو روایت کیا

یعنی لوگوں نے اس حدیث کو خواب میں رسول الله سے ثابت کرایا تاکہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث کو صحیح سمجھا جائے

مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ)   میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ خَمْسَ مِائَةِ حَدِيثٍ، أَوْ ذَكَرَ أَكْثَرَ، فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا الْيَسِيرَ خَمْسَةَ أَوْ سِتَّةَ أَحَادِيثَ، فَتَرَكْتُ الْحَدِيثَ عَنْهُ»

ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں

امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو نقل کیا ہے

ابان بن ابی عیاش کو محدثین  منکر الحدیث ، متروک ، کذاب کہتے ہیں اور امام ابو داود سنن میں روایت لیتے ہیں

ابان سے متعلق قول کا دارومدار سوید بن سعيد الحَدَثاني پر ہے جو امام بخاری کے نزدیک   منكر الحديث ہے اور يحيى بن معين کہتے حلال الدم اس کا خون حلال ہے

یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خواب اور اس میں جرح کا  قول خود ضعیف ہے جو امام مسلم نے پیش کیا ہے

سوید بن سعيد اختلاط کا شکآر ہوئے اور اغلبا یہ روایت بھی اسی وقت کی ہے

لہذا خواب میں سن کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات بیان کرنا حدیث نہیں اور یہ قول بھی جرح کے لئے نا قابل قبول ہے -لیکن ظاہر ہے محدثین کا ایک گروہ  جرح و تعدیل میں خواب سے دلیل لے رہا تھا  جبکہ اس کی ضرورت نہ تھی

سنن ابو داود کی روایت ٥٠٧٧ ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، وَوُهَيْبٌ، نَحْوَهُ عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَائِشٍ، وَقَالَ حَمَّادٌ: عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” مَنْ قَالَ إِذَا أَصْبَحَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَانَ لَهُ عِدْلَ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَكُتِبَ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَحُطَّ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَكَانَ فِي حِرْزٍ مِنَ الشَّيْطَانِ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ قَالَهَا إِذَا أَمْسَى كَانَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ حَتَّى يُصْبِحَ ” قَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ: فَرَأَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا عَيَّاشٍ يُحَدِّثُ عَنْكَ بِكَذَا وَكَذَا، قَالَ: “صَدَقَ أَبُو عَيَّاشٍ”

حَمَّادٌ نے أَبِي عَيَّاشٍ سے انہوں نے رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سے روایت کیا کہ جس نے صبح کے وقت کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تو اس کے لئے ایسا ہو گا کہ اس نے إِسْمَاعِيلَ کی اولاد میں سے  ایک گردن کو آزاد کیا اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور دس گناہ مٹ جائیں گے اس کے دس درجات بلند ہوں گے یہ الفاظ  شام تک شیطان سے حفاظت کریں گے .. حماد بن سلمة نے کہا پھر ایک شخص نے رسول الله کو خواب میں دیکھا کہا یا رسول الله ابی عیاش نے ایسا ایسا روایت کیا ہے – اپ نے فرمایا سچ کہا أَبُو عَيَّاشٍ نے 

اس روایت کو البانی نے صحیح کہہ دیا ہے جبکہ   المنذري (المتوفى: 656 هـ) نے  مختصر سنن أبي داود میں خبر دی تھی کہ

ذكره أبو أحمد الكرابيسي في كتاب الكنى، وقال: له صحبة من النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-، وليس حديثه من وجه صحيح، وذكر له هذا الحديث.

أبو عياش الزُّرقي الأنصاري جس کا نام زيد بن الصامت ہے اس کا ذکر الکنی میں  أبو أحمد الكرابيسي نے کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا صحابی  ہونے کا شرف پایا ہے لیکن یہ حدیث اس طرق سے صحیح نہیں ہے اور خاص اس روایت کا ذکر کیا

قال أبو زرعة الدمشقي، عن أحمد بن حنبل: أبو عياش الزرقي، زيد بن النعمان. «تاريخه» (1245)

وقال أبو محمد ابن حزم في «المحلى»: زيد أبو عياش لا يدري من هو

بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ شخص صحابی نہیں بلکہ کوئی مجہول ہے

حماد بن سلمہ نے  خبر دی کہ ایک شخص نے دیکھا یہ شخص کون تھا معلوم  نہیں – خیال رہے حماد خود مختلط بھی ہو گئے تھے

بیداری میں بھی دیکھنا ممکن ہے 

فیض الباری میں انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں

ويمكن عندي رؤيته صلى الله عليه وسلّم يقظةً (1) لمن رزقه الله سبحانه كما نقل عن السيوطي رحمه الله تعالى – وكان زاهدًا متشددًا في الكلام على بعض معاصريه ممن له شأن – أنه رآه صلى الله عليه وسلّم اثنين وعشرين مرة وسأله عن أحاديث ثم صححها بعد تصحيحه صلى الله عليه وسلّم

میرے نزدیک بیداری میں بھی رسول الله کو دیکھنا ممکن ہے جس کو الله عطا کرے جیسا سیوطی سے نقل کیا گیا ہے جو ایک سخت زاہد تھے … انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ٢٨ مرتبہ دیکھا اور ان سے احادیث کی تصحیح  کے بعد ان کو صحیح قرار دیا

انور شاہ نے مزید لکھا

والشعراني رحمه الله تعالى أيضًا كتب أنه رآه صلى الله عليه وسلّم وقرأ عليه البخاري في ثمانية رفقة معه

الشعراني نے رسول اللہ کو دیکھا اور ان کے سامنے صحیح بخاری اپنے ٨ رفقاء کے ساتھ پڑھی

جلال الدین سیوطی  الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ٣١٣ میں بہت سے علماء و صوفیا کے اقوال نقل کیے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے   نبی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی روح اقدس کو ملکوت ارض و سما میں تصرف وسیع عطا کر دیا ہے، دن ہو یا رات، عالم خواب ہو یا عالم بیداری، جس وقت اور جب بھی  چاہیں کسی بھی غلام کو اپنے دیدار اور زیارت سے نواز سکتے ہیں، جسے چاہیں چادر مبارک عطا کر جائیں اور جسے چاہیں موئے مبارک دیں۔

الألوسي (المتوفى: 1270هـ)  سورہ الاحزاب کی تفسیر میں روح المعاني میں لکھتے ہیں

وأيد  بحديث أبي يعلى «والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري وقال يا محمد لأجيبنه» . وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسّلام روحانية ولا بدع في ذلك فقد وقعت رؤيته صلّى الله عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة

اور اس کی تائید ہوتی ہے حدیث ابی یعلی سے جس میں ہے کہ وہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور عیسیٰ نازل ہوں گے پھر جب میری قبر پر آئیں گے اور کہیں گے یا محمد میں جواب دوں گا اور جائز ہے کہ یہ اجتماع انبیاء کا روحانی ہو اور یہ بعید بھی نہیں کیونکہ اس امت کے ایک سے زائد کاملین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو بعد وفات بیداری میں دیکھا ہے

راقم اس سے متفق نہیں ہے ابی یعلی کی روایت کو منکر سمجھتا ہے

اسی تفسیر میں سورہ یس کے تحت الوسی لکھتے ہیں

والأنفس الناطقة الإنسانية إذا كانت قدسية قد تنسلخ عن الأبدان وتذهب متمثلة ظاهرة بصور أبدانها أو بصور أخرى كما يتمثل جبريل عليه السلام ويظهر بصورة دحية أو بصورة بعض الأعراب كما جاء في صحيح الأخبار حيث يشاء الله عز وجل مع بقاء نوع تعلق لها بالأبدان الأصلية يتأتى معه صدور الأفعال منها كما يحكى عن بعض الأولياء قدست أسرارهم أنهم يرون في وقت واحد في عدة مواضع وما ذاك إلا لقوة تجرد أنفسهم وغاية تقدسها فتمثل وتظهر في موضع وبدنها الأصلي في موضع آخر

نفس ناطقہ انسانی جب پاک ہو جاتا ہے تو اپنے بدن سے جدا ہو کر مماثل ظاہری ابدان سے یا کسی اور صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جیسے کہ جبریل کی  شکل میں یا دحیہ کلبی کی صورت یا بدو کی صورت جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے جیسا الله چاہے اس بدن کی بقاء کے ساتھ جو اصلی بدن سے بھی جڑا ہو ایک ہی وقت میں لیکن کئی مقام پر ہو اس طرح حکایت کیا گیا ہے اولیاء سے جن کے پاک راز ہیں کہ ان کو ایک ہی وقت میں الگ الگ جگہوں پر دیکھا گیا

اس طرح الوسی نے یہ ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک ہی وقت میں کئی مقام پر ظاہر ہو سکتے ہیں

آج یہ عقیدہ بریلویوں کا ہے – راقم اس فلسفے کو رد کرتا ہے

فرقوں میں متضاد خواب 

وہابی عالم صالح المغامسي کا کہنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھنا ممکن ہے یہ مبشرات میں سے ہے یہاں تک کہ امہات المومنین کو بھی دیکھا جا سکتا ہے

زبیر علی زئی اپنے مضمون محمد اسحاق صاحب جہال والا : اپنے خطبات کی روشنی میں میں لکھتے ہیں

علامہ رشید رضامصری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مفتی محمد عبدہ (رحمہ اللہ) نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور انہوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! اگر احد کے دن اللہ تعالیٰ جنگ کے نتیجہ کے بارے میں آپ کو اختیار دیتا تو آپ فتح پسند فرماتے یا شکست پسند فرماتے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ شکست کو پسند کرتا حالانکہ ساری دنیا فتح کو پسند کرتی ہے ۔(تفسیر نمونہ بحوالہ تفسیر المنار ۹۲/۳)” (خطباتِ اسحاق ج ۲ ص ۱۹۳، ۱۹۴)
تبصرہ : اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ محمد عبدہ (مصری، منکرِ حدیث بدعتی) نے خوا ب میں ضرور بالضرور رسول اللہ ﷺ کو ہی دیکھا تھا ۔ کیا وہ آپﷺ کی صورت مبارک پہنچانتا تھا ؟ کیا اس نے خواب بیان کرنے میں جھوٹ نہیں بولا؟

 اہل حدیث علماء نبی کا خواب میں انا مانتے ہیں ایک منکر حدیث دیکھے تو ان کو قبول نہیں – نبی صلی الله علیہ وسلم کی صورت کس اہل حدیث نے دیکھی ہے یہ زبیر علی نہیں بتایا

غیر مقلدین کا ایک اشتہار نظر سے  گزرا

khwab-ahl-hadith

نبی صلی الله علیہ وسلم منکرین حدیث کے خواب میں آ رہے ہیں اہل حدیث کے خواب میں ا رہے ہیں صوفیاء کے خواب میں آ رہے ہیں عقل سلیم رکھنے والے سوچیں کیا یہ مولویوں کا جال نہیں کہ اپنا معتقد بنانے کہ لئے ایسے انچھر استعمال کرتے ہیں

مولویوں کا تماشہ یہ ہے کہ جو بھی کہتا ہے کہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اس سے حلیہ مبارک پوچھتے ہیں – اور اگر شمائل میں جو ذکر ہے اس سے الگ حلیہ ہو تو   اس خواب کو رد کر دیتے ہیں –

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ زَمَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَكَانَ يَزِيدُ يَكْتُبُ الْمَصَاحِفَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: ” إِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَشَبَّهَ بِي، فَمَنْ رَآنِي فِي النَّوْمِ، فَقَدْ رَآنِي ” فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي رَأَيْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، ” رَأَيْتُ رَجُلًا بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، جِسْمُهُ وَلَحْمُهُ، أَسْمَرُ إِلَى الْبَيَاضِ، حَسَنُ الْمَضْحَكِ، أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ، جَمِيلُ دَوَائِرِ الْوَجْهِ، قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ، حَتَّى كَادَتْ تَمْلَأُ نَحْرَهُ ” – قَالَ: عَوْفٌ لَا أَدْرِي مَا كَانَ مَعَ هَذَا مِنَ النَّعْتِ – قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَوْ رَأَيْتَهُ فِي الْيَقَظَةِ مَا اسْتَطَعْتَ أَنْ تَنْعَتَهُ فَوْقَ هَذَا

عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، نے یزید سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس کے دور میں نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا …(حلیہ جو خواب میں  دیکھا  بیان کیا گیا )  ابن عباس نے کہا اگر تم بیداری میں دیکھ لیتے تو اس سے الگ نہ ہوتا

شعيب الأرنؤوط – کہتے ہیں
إسناده ضعيف، يزيد الفارسي في عداد المجهولين

قال البخاري في ” التاريخ الكبير ” 8 / 367 وفي ” الضعفاء ” ص 122: قال لي علي – يعني ابن المديني -:
قال عبد الرحمن – يعني ابن مهدي -: يزيد الفارسي هو ابن هرمز، قال: فذكرته ليحيى فلم يعرفه
امام بخاری نے اس کا ذکر تاریخ الکبیر میں کیا ہے اور الضعفاء میں کیا ہے کہا مجھ سے امام علی نے کہا کہ عبد الرحمان المہدی نے کہا یزید الفارسی یہ ابن ہرمز ہے اس کا ذکر امام یحیی القطان سے کیا تو انہوں نے اس کو نہ پہچانا

ابن ابی حاتم کے بقول یحیی القطان نے اس کا بھی رد کیا کہ یہ الفارسی تھا
وأنكر يحيى بن سعيد القطان أن يكونا واحداً،

شعيب الأرنؤوط نے اس کا شمار مجہولین میں کیا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں صحابہ کو خواب میں نظر آئے  ہوں گے اور پھر صحابہ نے ان کو بیداری میں بھی دیکھا ہو گا لیکن آج ہم میں سے کون اس شرط کو پورا کر سکتا ہے ؟ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا ان کی زندگی تک ہی تھا وہ بھی ان لوگوں کے لئے جو اسلام قبول کر رہے تھے اور انہوں نے نبی کو دیکھا نہیں تھا. نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحیح حدیث میں ان کا خواب میں آنا بیان نہیں ہوا . ہم تو صحابہ کا پاسنگ  بھی نہیں!

اخباری خبروں کے مطابق جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہاں کے حاکم ملا عمر کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دیدار خواب میں ہوا اور حکم دیا گیا کہ کابل چھوڑ دیا جائے الله جلد فتح مبین عنایت کرنے والا ہے – لہذا اپنی عوام کو چھوڑ ملا عمر ایک موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے اور پیچھے  جہاد کے آرزو مند جوانوں کو خاب و خاسر کر گئے

امت کا یہ حال ہوا کہ فقہی اختلاف یا حدیث رسول ہو یا جنگ و جدل ہو یا یہود و نصرانی سازش ہو سب کی خبر رسول الله کو ہے اور وہ خواب میں آ کر رہنمائی کر رہے ہیں

راقم کہتا ہے یہ علم الغیب میں نقب کی خبر ہے جو الله کا حق ہے – اس پر ڈاکہ اس امت نے ڈالا ہے تو اس کی سزا کے طور پر ذلت و مسکنت چھا گئی ہے

حدیث میں ہے ایک شخص خواب بیان کر رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا اور کہا
لَا تُخْبِرْ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِكَ فِي الْمَنَامِ
اس کی خبر مت دو کہ شیطان نے تیرے ساتھ نیند میں کیا کھیلا

ظاہر ہے یہ کوئی صحابی تھے جن کو منع کیا گیا کہ جو بھی خواب میں دیکھو اس کو حقیقت سمجھ کر مت بیان کرو

الله ہم سب کو ہدایت دے

==========

مزید معلومات کے لئے پڑھیں

 کتاب الرویا کا بھید

خواب میں رویت باری تعالی

محدثین  اور خوابوں کی دنیا

نور محمدی کا ذکر

محدثین اور صوفیاء کی کتب میں ایک روایت بیان ہوئی ہے جس کا متن ہے

 يا جابر إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره ، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله تعالى ، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ولا سماء ولا أرض ولا شمس ولا قمر ولا جني ولا إنسي ، فلما أراد الله تعالى أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول القلم ، ومن الثاني اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول حملة العرش ومن الثاني الكرسي ومن الثالث باقي الملائكة ، ثم قسم الجزء الرابع إلى أربعة أجزاء فخلق من الأول نور أبصار المؤمنين ومن الثاني نور قلوبهم وهي المعرفة بالله ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله ثم نظر إليه فترشح النور عرقاً  فتقطرت منه مائة ألف قطرة

رسول الله نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا اور یہ الله کی قدرت سے جہاں الله چاہتا جاتا اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم نہ جنت نہ جہنم نہ فرشتے نہ آسمان نہ زمین نہ سورج نہ چاند نہ جن و انس- پس جب الله نے ارادہ کیا خلق  کرنے کا تو اس نور کے چار ٹکرے کیے- ایک جز سے قلم بنا دوسرے سے لوح،  تیسرے سے عرش،  پھر چوتھے کے بھی چار جز اور کیے ان میں سے ایک سے عرش کو اٹھانے والے، دوسرے سے کرسی ، تیسرے سے باقی فرشتے –  پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے  مومنوں کی آنکھوں کا نور بنا،  دوسرے سے دلوں کا نور جو الله کی   معرفت ہے ،  تیسرے سے ان کے نفسوں کا نور جو توحید ہے لا إله إلا الله محمد رسول الله –  پھر اس (کلمہ) پر نظر کی تو اس  نور سے پسینہ  نکلا  جس سے ایک لاکھ قطرے اور نکلے

یہ مکمل روایت نہیں ہے اس کا متن بہت طویل ہے اور  متن عجیب و غریب ہے – عرش و کرسی  موجود تک نہ تھے جب قلم بنا اور لوح بنی اور فرشتے بنے-  طاہر القادری نے اس وجہ سے اس روایت کامکمل ترجمہ تک اپنی کتاب نور محمدی میں نہیں کیا کیونکہ آگے جو پسینہ کا ذکر ہے وہ کیا ہے اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہو گا

اہل تشیع عالم  ملا باقر مجلسی نے بھی اس کو بحار الأنوار میں بیان کیا ہے – رياض الجنان از فضل الله بن محمود الفارسي میں ہے

في البحار، عن رياض الجنان لفضل الله بن محمود الفارسي: عن جابر بن عبد الله قال: قلت لرسول الله (صلى الله عليه وآله): أول شئ خلق الله تعالى ما هو ؟ فقال: نور نبيك يا جابر، خلقه ثم خلق منه كل خير

فضل الله بن محمود الفارسي نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ میں نے رسول الله (صلى الله عليه وآله) سے پوچھا کہ کیا چیز الله تعالی نے سب سے پہلے خلق کی؟ فرمایا تیرے نبی کا نور اے جابر ! اس نور کو تخلیق کیا اور پھر اس سے ساری اشیاء کو خلق کیا

 اہل سنت میں السيوطيُّ نے الخصائص الكبرى میں  اس طرق کا ذکر کیا ہے –  القسطلاني اور ابن عربي الصوفي نے اپنی کتب میں اس طرق کا ذکر کیا ہے-  برصغیر میں  أحمد رضا بريلوي نے کہا ہے کہ یہ مصنف عبد الرزاق کی روایت تھی –   محدثین میں  العجلوني نے كشف الخفاء  میں بھی ذکر ہے کہ یہ روایت مصنف عبد الرزاق میں تھی لکھا

أول ما خلق اللهُ نورُ نبِيكِ يا جابر – الحديث  رواه عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله بلفظ قال قلت: يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، أخبرني عن أول شئ خلقه الله قبل الأشياء

الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة میں المؤلف: محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ) نے ذکر کیا ہے کہ مصنف عبد الرزاق میں ایک روایت جابر رضی الله عنہ سے مروی تھی جس میں ہے کہ سب سے پہلے نور محمدی کو خلق کیا گیا

وَمِنْهَا: مَا يَذْكُرُونَهُ فِي ذِكْرِ الْمَوْلِدِ النَّبَوِيّ أَن نور مُحَمَّد خُلِقَ مِنْ نُورِ اللَّهِ بِمَعْنَى أَنَّ ذَاتَهُ الْمُقَدَّسَةَ صَارَتْ مَادَّةً لِذَاتِهِ الْمُنَوَّرَةِ وَأَنَّهُ تَعَالَى أَخَذَ قَبْضَة من نوره فخلق من نُورَهُ، وَهَذَا سَفْسَطَةٌ مِنَ الْقَوْلِ، فَإِنَّ ذَاتَ رَبِّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْ أَنْ تَكُونَ مَادَةً لِغَيْرَةٍ وَأَخْذُ قَبْضَةٍ مِنْ نُورِهِ لَيْسَ مَعْنَاهُ أَنَّهُ قُطِعَ مِنْهُ جُزْءٌ فَجَعَلَهُ نُورَ نَبِيِّهِ فَإِنَّهُ مُسْتَلْزِمٌ لِلْتَجَزِي وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يَتْبَعَهُ فِي ذَاتِهِ تَعَالَى اللَّهُ عَنْهُ.
وَالَّذِي أَوْقَعَهُمْ فِي هَذِهِ الْوَرْطَةِ الظَّلْمَاءِ هُوَ ظَاهِرُ رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ فِي مُصَنَّفَةٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ اللَّهُ قَبْلَ الأَشْيَاءِ، فَقَالَ: يَا جَابِرُ! إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ قَبْلَ الأَشْيَاءِ نُورُ نَبِيِّكَ مِنْ نُورِهِ ….. وَقَدْ أخطأوا فِي فَهْمِ الْمُرَادِ النَّبَوِيِّ وَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ الإِضَافَةَ فِي قَوْلِهِ مِنْ نُورِهِ كَالإِضَافَةِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى فِي قِصَّةِ خَلْقِ آدَمَ ونفخت فِيهِ من روحي وَكَقَوْلِهِ تَعَالَى مِنْ قِصَّةِ سَيِّدِنَا عِيسَى وَرَوْحٌ مِنْهُ، وَكَقَوْلِهِمْ بَيْتُ اللَّهِ الْكَعْبَةُ وَالْمَسَاجِدُ وَقَوْلِهِمْ رَوْحُ اللَّهِ لِعِيسَى وَغَيْرِ ذَلِكَ.

اور ان میں ہیں جو ولادت نبوی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ نور محمدی کو نور رب تعالی سے خلق کیا گیا ان معنی میں کہ ذات مقدس سے نور نکلا …رب تبارک و تعالیٰ نے اپنے نور میں سے کچھ نور نکال کر اسے اپنے نبی کا نور بنایا، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے کوئی جزء کاٹ کر علیحدہ کیا اور اس سے اپنے نبی کا نور بنایا، ورنہ اس سے تو اللہ تعالیٰ کا اجزاء میں جانا لازم ہو گا۔۔۔جن قصاص و مذکرین نے عبدالرزاق کی اس روایت کے ظاہر کو اپنایا ہے وہ ورطہ ظلمات کا شکار ہوئے ہیں (پھر حدیث نقل کرتے ہیں) …. ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد سمجھنے میں خطا کی ہے۔ وہ لوگ نہیں جانتے کہ اس حدیث میں  (من نوره)  سے اضافت مراد ہے۔ بالکل اس اضافت کی طرح جیسی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اس میں اپنی روح پھونکنے کے قصہ میں بیان کی ہے، یا جیسے اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے قصہ میں  (روح منه)  کہا۔ یا کعبہ و مساجد کو بیت اللہ اور حضرت عیسی علیہ السلام کو (روح الله)  وغیرہ کہا۔
 

حال ہی میں ایک نئی تحقیق بریلووی علماء کی طرف سے کی گی ہے اور دعوی کیا گیا ہے کہ نور محمدی والی روایت مصنف عبد الرزاق میں تھی لیکن طباعت کے دوران یہ جزمفقود ہو گیا  تھا اس کی وجہ سے یہ روایات مطبوعہ نسخے میں سے غائب ہو گئی
https://archive.org/details/MusanafAbdulRazzaqByAbuBakrAbdulRazzaqBinHammam
یہ جز اب پاکستان سے چھپا ہے

اس روایت کی سند اس کتاب کے ص ٦٢ پر ہے  عبد الرزاق عن معمر عن ابن المنکدر عن جابر

یہ سند بظاہر صحیح ہے- البتہ راقم  کے نزدیک یہ روایت  عبد الرزاق کے دور اختلاط کی معلوم ہوتی ہے

قابل غور ہے کہ القسطلاني شارح صحيح البخاري نے المواهب اللدنية میں اس روایت کا ذکر کیا ہے ، أبن عربي الصوفي نے تلقيح الأذهان ومفتاح معرفة الإنسان میں اس کا ذکر کیا ہے – محدثین میں إسماعيل العجلوني نے كشف الخفا اور الأربعين میں إس روایت  كا ذكر كيا ہے – حسين بن محمد بن الحسن الديار بكري نے تاريخ الخميس في أحوال أنفس نفيس میں اس کا ذکر کیا ہے – أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي السعدي الأنصاري، شهاب الدين شيخ الإسلام، أبو العباس (المتوفى: 974هـ) نے فتوی میں اس کا ذکر کیا ہے کہ یہ مصنف عبد الرزاق میں تھی-   محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ)   نے بھی اس کو مصنف عبد الرزاق کی روایت قرار دیا ہے – اس روایت کے مصدر کو بیان کرنے  میں احمد رضا بریلوی  یا ابن عربی یا سیوطی کا تفرد نہیں ہے – اس کو غیر صوفی عجلونی نے بھی ذکر کیا ہے – اب کیا یہ ممکن ہے کہ یہ روایت موجود نہ ہو لیکن اس کا ذکر کیا جاتا ہو وہ بھی متن کے ساتھ ! اگر یہ روایت مصنف عبد الرزاق کی نہیں تھی تو پھر کہاں سے آئی؟ اس کا جواب کون دے گا – کیا ان لوگوں نے اس کو گھڑا ؟ کسی نے اس بنا پر  القسطلاني اور العجلوني کو کذاب قرار نہیں   دیا ہے

نوٹ: احناف بھی اس روایت کو رد کرتے ہیں
إرشاد العاثر لوضع حديث أول ما خلق الله نور نبيك يا جابر از حسن السقاف
مرشد الحائر لبيان وضع حديث جابر از عبد الله بن الصديق الغماري

سیوطی نے اس روایت کا دفاع نہیں کیا ہے بلکہ ان سے سوال ہوا اس روایت پر
وَهَلِ الْوَارِدُ فِي الْحَدِيثِ: أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ نُورَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَزَّأَهُ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ
تو کہا
وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ فِي السُّؤَالِ لَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ،
یہ مذکورہ حدیث جس پر سوال ہے اس کی اسناد پر اعتماد نہیں ہے
الحاوي للفتاوي

دور جدید میں لوگ اس جز مفقود کو غیر ثابت کہہ رہے ہیں- لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ اینے سارے لوگ جن میں بعض خود علم حدیث کے جاننے والے ہیں وہ اس روایت کا ذکر مصنف عبد الرزاق کے حوالے سے کر گئے ہیں – بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ “ممکن” ہے ان سب لوگوں نے حوالے کو مواھب الدنیہ از قسطلانی سے نقل کیا ہو یعنی ان سب نے تحقیق نہیں کی بلکہ مکھی پر مکھی ماری اور مصنف عبد الرزاق کا حوالہ دیتے رہے – یہ قول وہابیوں میں مشہور ہے اس روایت کے جواب کے طور پر
سليمان بن سحمان النجدي (المتوفى: 1349هـ) نے کتاب الصواعق المرسلة الشهابية على الشبه الداحضة الشامية میں لکھا
هذا حديث موضوع مكذوب على رسول الله صلى الله عليه وسلم مخالف لصريح الكتاب والسنة، وهذا الحديث لا يوجد في شيء من الكتب المعتمدة
یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے رسول الله پر جھوٹ ہے کتاب و سنت کی مخالف ہے اور کتب معتمد میں نہیں ہے

یعنی ٧٨ سال پہلے اس کو گھڑی ہوئی کہا جاتا تھا – اس وقت کسی نے اس مصنف عبد الرزاق جز مفقود کا ذکر نہیں کیا کہ اس کی سند ثابت نہیں ہے

راقم کا  نقطہ نظر ہے کہ ممکن ہے کہ  یہ روایت عبد الرزاق نے روایت کی لیکن یہ ان کے دور اختلاط کی ہے

تقریب التہذیب از ابن حجر میں ہے

عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع من التاسعة مات سنة إحدى عشرة وله خمس وثمانون

عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري .. ثقہ حافظ تھے مصنف   ہیں … آخری عمر میں تغیر کا شکار تھے اور ان میں تشیع تھی

محدث  ابن صلاح کا قول ہے عبد الرزاق ابن همام  مختلط تھے – اس پر  حافظ عراقی نے لکھا ہے
لم يذكر المصنف أحدا ممن سمع من عبد الرزاق بعد تغيره إلا إسحق بن إبراهيم الدبرى فقط وممن سمع منه بعد ما عمى أحمد بن محمد بن شبوية قاله أحمد بن حنبل وسمع منه أيضا بعد التغير محمد بن حماد الطهرانى والظاهر أن الذين سمع منهم الطبرانى فى رحلته إلى صنعاء من أصحاب عبد الرزاق كلهم سمع منه بعد التغير وهم أربعة أحدهم الدبرى الذى ذكره المصنف وكان سماعه من عبد الرزاق سنة عشر ومائتين

مصنف ( ابن الصلاح) نے ذکر نہیں کیا کہ عبد الرزاق سے کس نے تغیر کے بعد سنا صرف اسحاق بن ابراہیم کے اور جس نے سنا ان کے نابینا ہونے کے بعد ان میں ہیں احمد بن محمد یہ امام احمد نے کہا اور ان سے اس حالت میں سنا محمد بن حماد نے اور ان سے سنا طبرانی نے جب صنعاء کا سفر کیا – ان سب نے بعد میں سنا اور یہ چار ہوئے جن میں الدبری ایک ہیں ان سب نے ١٢٠  ھ میں سنا

  عالم اختلاط میں   عبد الرزاق  نے معمر عن ابن المنکدر کی سند سے بھی روایات بیان کی ہیں اور غیر عالم اختلاط میں بھی کی ہیں   مثلا

شعب الإيمان از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، قَالَ: أَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّنْعَانِيُّ، قَالَ: نَا إِسْحَاقُ الدَّبَرِيُّ، قَالَ: نَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: ” ثَلَاثَةٌ هُنَّ فَوَاقِدُ: جَارُ سَوْءٍ فِي دَارِ مَقَامِهِ، وَزَوْجَةُ سَوْءٍ إِنْ دَخَلْتَ عَلَيْهَا آذَتْكَ، وَإِنْ غِبْتَ عَنْهَا لَمْ تَأْمَنْهَا، وَسُلْطَانٌ إِنْ أَحْسَنْتَ لَمْ يَقْبَلْ مِنْكَ وَإِنْ أَسَأْتَ لَمْ يُقِلْكَ “

سنن الکبری بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّغَانِيُّ , ثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أنبأ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ” إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الْفَيْءِ فَقَلَصَ عَنْهُ , فَلْيَقُمْ؛ فَإِنَّهُ مَجْلِسُ الشَّيْطَانِ “

سوالات ابن هاني؛ 228/5 کے مطابق احمد نے  عبد الرزاق کے حوالے سے کہا
لا يعبأ بحديث من سمع منه وقد ذهب بصره، كان يلقن أحاديث باطلة
جس نے عبد الرزاق  کے نابینا ہونے کے بعد اس سے احادیث سنی ہیں، ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ وہ باطل حدیثوں کی تلقین قبول کر لیتے  تھے۔

نور محمد کا عقیدہ اہل تشیع کا عقیدہ ہے –  اور  عبد الرزاق کو شیعہ بھی کہا گیا ہے

تقریب التہذیب از ابن حجر میں یہ الفاظ ہیں

عبد الرزاق ابن همام ابن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع من التاسعة مات سنة إحدى عشرة وله خمس وثمانون

اس میں عبد الرزاق کو شیعہ لکھا گیا ہے

قال الذهبي: عبد الرزاق بن همام ابن نافع، الحافظ الكبير، عالم اليمن، أبو بكر الحميري الصنعاني الثقة الشيعي
امام الذھبی نے ان کو شیعی کہا ہے

رجال الطوسي جو شیعوں کی کتاب ہے اس میں عبد الرزاق کا شمار شیعوں میں کیا گیا ہے
اور امام جعفر کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے

کتاب نقد الرجال از السيد مصطفى بن الحسين الحسيني التفرشي کے مطابق
عبد الرزاق بن همام اليماني: من أصحاب الباقر والصادق عليهما السلام، رجال الشيخ

امام احمد نے کہا
العلل ومعرفة الرجال: 2 / 59 الرقم 1545
قال عبد الله بن أحمد بن حنبل: سألت أبي، قلت له: عبد الرزاق كان يتشيع ويفرط في التشيع ؟ فقال: أما أنا فلم أسمع منه في هذا شيئا، ولكن كان رجلا تعجبه أخبار الناس – أو الأخبار
عبد الله نے احمد سے سوال کیا : کیا شیعہ تھے اور مفرط تھے ؟ احمد نے کہا جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے ان سے ایسا کچھ نہیں سنا لیکن یہ ایک آدمی تھے جن کی خبروں پر لوگوں کو تعجب ہوتا

ابن عدی نے کہا
وقد روى أحاديث في الفضائل مما لا يوافقه عليها أحد من الثقات
یہ فضائل علی میں وہ روایت کرتے جن کی ثقات موافقت نہیں کرتے

یعنی اہل تشیع کے پاس یہ شیعہ تھے اور امام جعفر سے اور امام صادق سے روایت کرتے تھے

 جامع الترمذي ،  أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (بَابٌ فِي فَضْلِ النَّبِيِّ ﷺ​) جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں  باب: نبی صلی الله علیہ وسلم  کی فضیلت کا بیان حدیث ٣٦٠٩ ہے​

حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِي الْبَاب عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ
 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا:’ جب آدم روح اورجسم کے درمیان تھے

 امام ترمذی کہتے ہیں:   ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں  اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔

  مسند احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: ” وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ
عبد الله بن أبي الجذعاء مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ رضی الله عنہ  نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا اپ کب نبی ہوئے؟ فرمایا جب آدم جسد و روح کے درمیان تھے

اس کو شعیب نے صحیح کہا ہے- یہ روایت قابل غور ہے اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ آدم علیہ السلام اس وقت نبی نہیں تھے کیونکہ تخیلق سے پہلے تقدیر لکھی گئی اس میں تمام انبیاء جو صلب آدم سے ہیں ان کو نبی مقرر کیا گیا ان کی ارواح کو خلق کیا گیا اور آدم جب جسد و روح کے درمیان تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقدر لکھا گیا کہ یہ آخری نبی ہوں گے

طحاوی مشکل الاثار میں کہتے ہیں
وَأَمَّا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ “، فَإِنَّهُ، وَإِنْ كَانَ حِينَئِذٍ نَبِيًّا، فَقَدْ كَانَ اللهُ تَعَالَى كَتَبَهُ فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ نَبِيًّا
اس حدیث میں ہے کہ وہ اس وقت نبی تھے   پس الله نے ان کا نبی ہونا لوح محفوط میں لکھا- یعنی بنی آدم کی تقدیر لکھی گئی جب آدم علیہ السلام  جسد اور روح کے درمیان کی حالت میں تھے

 مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَلْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى بْنِ هِلَالٍ السُّلَمِيِّ، عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنِّي عَبْدُ اللهِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمُنْجَدِلٌ   فِي طِينَتِهِ

عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میں الله کا غلام  ، نبیوں پر مہر ہوا اور ہے شک آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے

اس کی سند میں سعيد ابن سويد الكلبي ہے اور امام بخاري کہتے ہیں : لم يصح حديثه اس کی حدیث صحیح نہیں

اور ابن حجر نے کتاب تعجيل المنفعة بزوائد رجال الأئمة الأربعة میں اس کا ذکر کیا

قال البُخَارِيّ لم يَصح حَدِيثه يَعْنِي الَّذِي رَوَاهُ مُعَاوِيَة عَنهُ مَرْفُوعا إِنِّي عبد الله وَخَاتم النَّبِيين فِي أم الْكتاب وآدَم منجدل فِي طينته

امام بخاري کہتے ہیں اس کی حدیث صحیح نہیں یعنی حدیث جو مُعَاوِيَةُ بْنَ صَالِحٍ  نے سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الْكَلْبِيِّ سے  موفوع روایت کیا ہے کہ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میں الله کا غلام  ، نبیوں پر مہر ہوا اور ہے شک آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے

کتاب الموضوعات  از ابن جوزی میں ہے

وَقد رَوَى جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ بَيَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ الطَّائِيِّ عَنْ أَبِيهِ سُفْيَانَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْد عَن الْوَلِيد بن عبد الرحمن عَنْ نُمَيْرٍ الْحَضَرِيِّ عَنْ أَبِي ذَر قَالَ قَالَ رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” خُلِقْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ مِنْ نُورٍ وَكُنَّا عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ آدَمَ بِأَلْفَيْ عَامٍ ثُمَّ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ فَانْقَلَبْنَا فِي أقلاب الرِّجَالِ ثُمَّ جَلَلْنَا فِي صُلْبِ عبد المطلب، ثُمَّ شَقَّ اسْمَانَا مِنِ اسْمِهِ فَاللَّهُ مَحْمُودٌ وَأَنَا مُحَمَّدٌ، وَاللَّهُ الاعلى وعَلى عليا “.

هَذَا وَضعه جَعْفَر بن أَحْمَدَ وَكَانَ رَافِضِيًّا يضع الحَدِيث.

أَبِي ذَر نے کہا رسول الله نے فرمایا میں اور علی کو نور سے خلق کیا گیا اور ہم تخلیق آدم سے ہزار سال پہلے سے  عرش کے دائیں طرف  تھے  پھر الله تعالی نے آدم کو خلق کیا پھر ہم کو رجال کے دلوں میں سے گزارا پھر صلب عبد المطلب میں رکھا پھر ہمارے ناموں کو الله کے نام کے ساتھ شق کیا گیا کہ میں محمد ہوں  اور الله محمود ہے اور الله الاعلى ہے اور علی علیا ہے

ابن جوزی نے کہا اس کو رافضی جَعْفَر بن أَحْمَدَ (بن علي بن بيان المتوفی ٣٠٤ ھ )  نے گھڑا ہے

فضائل الصحابة از أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) کی روایت ہے
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قثنا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ قثنا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ قثنا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ حَبِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «كُنَّا أَنَا وَعَلِيٌّ نُورًا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَامٍ، فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ قَسَمَ ذَلِكَ النُّورَ جُزْءَيْنِ، فَجُزْءٌ أَنَا، وَجُزْءٌ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ»
سلمان نے روایت کیا کہ میں نے اپنے حبیب رسول الله سے سنا کہ میں اور علی الله تعالی کے سآمنے ١٤٠٠٠ سال تک ایک نور کی طرح تھے قبل اس کے کہ آدم خلق ہوتے پس جب الله نے آدم کو خلق کیا اس نور کو تقسیم کیا ایک جز سے میں بنا ایک سے علی

اس کی سند میں الحسن بن على ہے- تاریخ دمشق میں اس کی سند ہے
أخيرنا أبو غالب بن البنا أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو علي محمد بن أحمد بن يحيى العطشي نا أبو سعيد العدوي الحسن بن علي أنا أحمد بن المقدام العجلي أبو الأشعث (2) أنا الفضيل بن عياض عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن زاذان عن سلمان قال سمعت حبي رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول كنت أنا وعلي نورا بين يدي الله مطيعا يسبح الله ذلك النور ويقدسه قبل أن يخلق ادم بأربعة عشر ألف عام فلما خلق الله ادم ركز ذلك النور في صلبه فلم نزل (3) في شئ واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب فجزء أنا وجزء علي

اس سند سے معلوم ہوتا ہے کہ سند میں أبو سعيد العدوي الحسن بن علي ہے جو اصل میں
أبو سعيد العدوي الحسن بن على بن زكريا بن صالح ، اللؤلؤى، البَصْري، الذئب ہے اور متروک ہے – یہ روایت أبو بكر بن مالك القطيعي کا اضافہ ہے کیونکہ أبو سعيد العدوي الحسن بن على کی پیدائش ٢١٠ ہجری کی ہے اور امام احمد کی وفات  کے وقت یہ بچہ ہو گا

شیعوں کی کتاب الخصال از صدوق أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى
المتوفى 381 ھ ، منشورات  جماعة المدرسين في الحوزة العلمية قم المقدسة میں روایت ہے

روى الصدوق في الخصال: 481 ـ 482؛ وفي معاني الأخبار: 306 ـ 308، حدثنا أحمد بن محمد بن عبد الرحمن بن عبد الله بن الحسين بن إبراهيم
ابن يحيى بن عجلان المروزي المقرئ قال : حدثنا أبوبكر محمد بن إبراهيم الجرجاني
قال : حدثنا أبوبكر عبد الصمد بن يحيى الواسطي قال : حدثنا الحسن بن علي المدني، عن عبد الله بن المبارك، عن سفيان الثوري، عن جعفر بن محمد الصادق، عن أبيه، عن جدّه، عن عليّ بن أبي طالب(عم) قال: «إنّ الله تبارك وتعالى خلق نور محمد(ص) قبل أن خلق السماوات والأرض والعرش والكرسيّ واللوح والقلم والجنّة والنار، وقبل أن خلق آدم ونوحاً…، ثمّ أظهر عزَّ وجلَّ اسمَه على اللوح، وكان على اللوح منوِّراً أربعة آلاف سنة، ثم أظهره على العرش، فكان على ساق العرش مثبَتاً سبعة آلاف سنة، إلى أن وضعه اللهُ عزَّ وجلَّ في صلب آدم…».

اس کتاب کے محقق على اكبر الغفارى کا کہنا ہے کہ سند میں مجہولین ہیں

 على بن الحسن بن شقيق أبو عبد الرحمن المروزى ، وجميع رجال السند إلى هنا مجهول ولم أظفر بهم

بھر حال شیعہ آجکل اس کا رد کر رہے ہیں کہ نور محمد کو سب سے پہلے خلق کیا گیا

قراءةٌ في العدد المزدوج (40ـ41) من مجلة الاجتهاد والتجديد

اہل بیت کی خفیہ تحریریں

کیا قرن اول میں شیعأن علي کوئی خفیہ سوسائٹی تھی؟ جس کے گرینڈ ماسٹر علی رضی الله عنہ تھے ؟ راقم إس قول کو رد کرتا ہے لیکن قابل غور ہے کہ علی کے حوالے سے اس خفیہ علم کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو بقول اہل تصوف اور اہل تشیع صرف خواص کے لئے تھا عوام کے لئے نہ تھا- اہل تشیع کے بعض جہلاء کی جانب سے یہ پروپیگنڈا بھی سننے کو ملتا رہتا ہے کہ علی رضی الله عنہ کے پاس کوئی خفیہ قرآن تھا جس کو وہ چھپا کر رکھتے تھے اور کہتے تھے اس کو قیامت تک کوئی نہ دیکھ سکے گا – کہا جاتا ہے اس وقت یہ قرآن سر من رأى – سامراء العراق میں کسی غار
میں امام المھدی کے پاس ہے جو وقت انے پر ظاہر کیا جائے گا – اس خفیہ قرآن کی خبر اہل سنت کی کتب میں بھی در کر آئی ہیں جس کا ذکر امام الحاکم کرتے ہیں

مستدرک حاکم ميں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُصْلِحٍ الْفَقِيهُ بِالرِّي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ السَّعْدِيُّ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، رَضِيَ
اللَّهُ عَنْه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللهِ، وَأَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
زيد بن ارقم رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ميں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں کتاب الله  اور ميرے اہل بيت اور يہ دونوں جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ يہ ميرے حوض پر مجھ سے مليں گے
امام حاکم کہتے ہيں کہ يہ حديث صحيح الاسناد ہے بخاري و مسلم کي شرط پر ہے

سند ميں الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ نامعلوم و مجہول ہے

مستدرک حاکم کي ایک اور روايت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَفِيدُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ طَلْحَةَ الْقَنَّادُ، الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي ثَابِتٍ، مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجَمَلِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ عَائِشَةَ وَاقِفَةً دَخَلَنِي بَعْضُ مَا يَدْخُلُ النَّاسَ، فَكَشَفَ اللَّهُ عَنِّي ذَلِكَ عِنْدَ صَلَاةِ الظُّهْرِ، فَقَاتَلْتُ مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا فَرَغَ ذَهَبْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَأَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ فَقُلْتُ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا جِئْتُ أَسْأَلُ طَعَامًا وَلَا شَرَابًا وَلَكِنِّي مَوْلًى لِأَبِي ذَرٍّ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا فَقَصَصْتُ عَلَيْهَا قِصَّتِي، فَقَالَتْ: أَيْنَ كُنْتَ حِينَ طَارَتِ الْقُلُوبُ مَطَائِرَهَا؟ قُلْتُ: إِلَى حَيْثُ كَشَفَ اللَّهُ ذَلِكَ عَنِّي عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ، قَالَ:
أَحْسَنْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَأَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ هُوَ عُقَيْصَاءُ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

ابو ثابت مولي ابو ذر نے کہا ميں جمل ميں علي کے ساتھ تھا ليکن جب ميں نے عائشہ کو ديکھا اور ان کو پہچان گيا …. پس الله نے ميرا دل نماز ظہر پر کھول ديا اور ميں نے علي کے ساتھ قتال کيا پس جب فارغ ہوا ميں مدينہ ام سلمہ کے پاس پہنچا انہوں نے مرحبا کہا اور ميں نے قصہ ذکر کيا … ميں نے تذکرہ کيا کہ الله نے مجھ پر زوال کے وقت (حق کو) کشف کيا – پس ام سلمہ نے کہا اچھا کيا ميں نے رسول الله سے سنا ہے کہ علي قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علي کے ساتھ ہے يہ الگ نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض پر مليں گے
امام حاکم نے کہا يہ حديث صحيح الاسناد ہے

سند ميں علي بن هاشم بن البريد ہے جس کو شيعي غال کہا گيا ہے

الکامل از ابن عدي ميں ہے
وَعلي بْن هاشم هُوَ من الشيعة المعروفين بالكوفة ويروي فِي فضائل علي أشياء لا يرويها غيره بأسانيد مختلفة وقد حدث عنه جماعة من الأئمة، وَهو إن شاء الله صدوق في روايته
علي بْن هاشم کوفہ کے معروف شيعوں ميں سے ہے جو فضائل علي ميں وہ چيزيں روايت کرتا ہے جو کوئي اور نہيں کرتا مختلف اسناد سے اور اس سے ائمہ کي جماعت نے روايت کيا ہے اور يہ
صدوق ہے

ابن حبان نے کہا
كان غاليا في التشيع وروى المناكير عن المشاهير
يہ غالي شيعہ ہے

سؤالات الحاكم ” للدارقطني: هاشم بن البريد ثقة مأمون وابنه علي كذاب
دارقطني کہتے ہيں علي بن هاشم بن البريد کذاب ہے

یہ روایات غالی شیعوں کی بیان کردہ ہیں لیکن امام حاکم نے اپنی حالت اختلاط میں منکر و موضوع روایات تک کو صحیح قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے مستدرک عجیب و غریب روایات کا
مجموعہ بن گئی اور اہل سنت میں شیعیت کو فروغ ملا –

اب ہم اہل تشیع کے معتبر ذرائع کو دیکھتے ہیں کہ علی کے پاس کیا کیا علوم تھے – الکافي از کليني باب النوادر کي حديث 23 ہے

محمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، عن عبدالرحمن بن أبي هاشم، عن سالم بن سلمة قال: قرأ رجل على أبي عبدالله عليه السلام وأنا أستمع حروفا من القرآن ليس على ما يقرؤها الناس، فقال أبوعبدالله عليه السلام: كف عن هذه القراء ة اقرأ كما يقرأ الناس حتى يقوم القائم فإذا قام القائم عليه السلام قرأ كتاب الله عزو جل على حده وأخرج المصحف الذي كتبه علي عليه السلام وقال: أخرجه علي عليه السلام إلى الناس حين فرغ منه وكتبه فقال لهم: هذا كتاب الله عزوجل كما أنزله [الله] على محمد صلى الله عليه وآله وقد جمعته من اللوحين فقالوا: هو ذا عندنا مصحف جامع فيه القرآن لا حاجة لنا فيه، فقال أما والله ما ترونه بعد يومكم هذا أبدا، إنما كان علي أن اخبركم حين جمعته لتقرؤوه.

سالم بن سلمة نے کہا امام ابو عبد الله کے سامنے کسي شخص نے قرات کي اور ميں سن رہا تھا قرآن کے وہ حروف تھے جو لوگ قرات نہيں کرتے پس امام ابو عبد الله نے فرمايا اس قرات سے رک جاو ايسا ہي پڑھو جيسا لوگ پڑھتے ہيں يہاں تک کہ القائم کھڑے ہوں گے تو کتاب الله کي قرات اس کي حد تک کريں گے اور وہ مصحف نکاليں گے جو علي نے لکھا تھا اور کہا جب علي نے مصحف لکھ کر مکمل کيا اس سے فارغ ہوئے اس کو لوگوں کے پاس لائے اور کہا يہ کتاب الله ہے جو اس نے محمد پر نازل کي اور اس کو انہوں نے الواح ميں جمع کيا تو لوگوں نے کہا وہ جو مصحف ہمارے پاس ہے وہ جامع ہے ہميں اس کي ضرورت نہيں پس علي نے کہا الله کي قسم آج کے بعد اس کو کبھي نہ ديکھو گے يہ ميرے پاس تھا اب جب تم جمع کر رہے ہو تو ميں نے خبر دي کہ اس کو پڑھو

اس روايت کا راوي سالم شيعہ محققين کے نزديک مجہول ہے – الخوئي کتاب معجم رجال الحديث ميں کہتے ہيں

سالم بن سلمة :
روى عن أبي عبدالله عليه السلام ، وروى عنه عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 23 .
ـ 22 ـ
أقول كذا في الوافي والطبعة المعربة من الكافي ايضا ولكن في الطبعة
القديمة والمرآة : سليم بن سلمة ، ولا يبعد وقوع التحريف في الكل والصحيح
سالم أبوسلمة بقرينة الراوي والمروي عنه .

سالم بن سلمة يہ ابو عبد الله سے روايت کرتا ہے اور اس سے عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 22 اور 23 ميں

ميں کہتا ہوں ايسا ہي الوافي ميں اور الکافي کي الطبعة المعربة ميں ہے ليکن جو قديم طباعت ہے اس ميں ہے سليم بن سلمة اور يہ بعيد نہيں کہ يہ تحريف ہو الکل ميں اور صحيح ہے کہ سالم ابو سلمہ ہے راوي اور مروي عنہ کے قرينہ سے

الخوئي نے اس راوي کو سالم بن سلمة، أبو خديجة الرواجنى سے الگ کيا ہے جو طوسي کے نزديک ثقہ ہے ليکن الخوئي کے نزديک مجہول ہے

معلوم ہوا کہ تحريف قرآن سے متعلق يہ روايت ہي ضعيف ہے

سالم بن سلمة نام کے شخص کي يہ الکافي ميں واحد روايت ہے جس کا ترجمہ ہي کتب رجال شيعہ ميں نہيں ہے

الکافي کي روايت ہے

محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن عبدالله بن فرقد والمعلى بن خنيس قالا: كنا عند أبي عبدالله عليه السلام ومعنا ربيعة الرأي فذكرنا فضل القرآن فقال أبوعبدالله عليه السلام: إن كان ابن مسعود لا يقرأ على قراء تنا فهو ضال، فقال ربيعة: ضال؟ فقال: نعم ضال، ثم قال أبوعبدالله عليه السلام: أما نحن فنقرأ على قراء ة أبي
ابو عبد الله نے کہا ان کے ساتھ (امام مالک کے استاد اہل سنت کے امام ) ربيعة الرأي تھے پس قرآن کي فضيلت کا ذکر ہوا تو ابو عبد الله نے کہا اگر ابن مسعود نے بھي وہ قرات نہيں کي جو ہم نے کي تو وہ گمراہ ہيں – ربيعة الرأي نے کہا گمراہ ؟ امام نے کہا جہاں تک ہم ہيں تو ہم ابي بن کعب کي قرات کرتے ہيں

حاشيہ ميں محقق کہتے ہيں
يدل على أن قراء ة ابى بن كعب أصح القراء ات عندهم عليهم السلام
يہ دليل ہوئي کہ ابي بن کعب کي قرات امام ابو عبد الله کے نزديک سب سے صحيح قرات تھي

اس کي سند ميں معلى بن خنيس ہے نجاشي نے اس کا ذکر کيا ہے
قال النجاشي : ” معلى بن خنيس ، أبوعبدالله : مولى ( الصادق ) جعفر بن
محمد عليه السلام ، ومن قبله كان مولى بني أسد ، كوفي ، بزاز ، ضعيف جدا ،
لا يعول عليه ، له كتاب يرويه جماعة

دوسرا شخص عبدالله بن فرقد ہے اس پر بھي شيعہ کتب رجال ميں کوئي معلومات نہيں ہيں

کتاب الکافی میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عبدالله بن الحجال، عن أحمد بن عمر الحلبي، عن أبي بصير قال: دخلت على أبي عبدالله عليه السلام فقلت له: جعلت فداك إني أسألك عن مسألة، ههنا أحد يسمع كلامي(1)؟ قال: فرفع أبوعبد عليه السلام سترا بينه وبين بيت آخر فأطلع فيه ثم قال: يا أبا محمد سل عما بدا لك، قال: قلت: جعلت فداك إن شيعتك يتحدثون أن رسول الله صلى الله عليه وآله علم عليا عليه السلام بابا يفتح له منه ألف باب؟ قال: فقال: يا أبا محمد علم رسول الله صلى الله عليه وآله عليا عليه السلام ألف باب يفتح من كل باب ألف باب قال: قلت: هذا والله العلم قال: فنكت ساعة في الارض ثم قال: إنه
لعلم وما هو بذاك.قال: ثم قال: يا أبا محمد وإن عندنا الجامعة وما يدريهم ما الجامعة؟ قال: قلت: جعلت فداك وما الجامعة؟ قال: صحيفة طولها سبعون ذراعا بذراع رسول الله صلى الله عليه وآله وإملائه(2) من فلق فيه وخط علي
بيمينه، فيها كل حلال وحرام وكل شئ يحتاج الناس إليه حتى الارش في الخدش وضرب بيده إلي فقال: تأذن لي(3) يا أبا محمد؟ قال: قلت: جعلت فداك إنما أنا لك فاصنع ما شئت، قال: فغمزني بيده وقال: حتى
أرش هذا – كأنه مغضب – قال: قلت: هذا والله العلم(4) قال إنه لعلم وليس بذاك.
ثم سكت ساعة، ثم قال: وإن عندنا الجفر وما يدريهم ما الجفر؟ قال قلت: وما الجفر؟ قال: وعاء من أدم فيه علم النبيين والوصيين، وعلم العلماء الذين مضوا من بني إسرائيل، قال قلت: إن هذا هو العلم، قال: إنه
لعلم وليس بذاك.ثم سكت ساعة ثم قال: وإن عندنا لمصحف فاطمة عليها السلام وما يدريهم ما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: قلت: وما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: مصحف فيه مثل قرآنكم هذا ثلاث مرات، والله ما فيه
من قرآنكم حرف واحد، قال: قلت: هذا والله العلم قال: إنه لعلم وما هو بذاك.

ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عر ض کی : میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیا یہا ں کوئی اور شخص تو موجود نہیں ہے جو میری بات سن رہا ہو ؟ امام جعفر صادق نے اپنے کمرے اور دوسرے کمرے میں پڑے ہو ئے پر دہ کو اٹھا کر دیکھا اور پھر فرمایا ابو محمد تمہیں جو کچھ پو چھنا ہو پو چھو ؛میں نے عر ض کی میں آپ پر قربان جاوُں شیعہ ایک حد یث بیان کر تے ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضر ت علی کو ایک علم کے باب کی تعلیم دی جس سے علم کے ہزار باب کھل گئے تھے پھر میں نے کہا خدا کی قسم کیا یه کامل اور
حقیقی علم ہے ،امام صادق کچھ دیر سو چتے رہے اور پھر فرمایا ! وہ علم ہے لیکن پھر بھی وہ کامل علم نہیں ہے

پھر آپ نے فرمایا . ابو محمد ہما رے پاس جامعہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ جامعہ کیا ہے ؟جواب میں آپ نے کہا : وہ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا طو ل( ہاتھ کی لمبائی ) پیغمبر(ص) کے مطابق ستر ہاتھ لمبا ہے رسول خدا نے اسے املا کیا ا ور حضر ت علی نے اسے لکھا، اس میں تمام حلال و حرام اور لوگوں کی جملہ دینی ضروریات حتیٰ کہ خراش لگانے کے جرمانہ تک کا ذکر ہے ، پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے بدن پر مار کر فرمایا : ابو محمد کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو ؟

میں نے کہا ؛ میں آپ ہی کا جزو ہوں آپ جو چاہیں انجام دیں آپ کو اس کا اختیار حاصل ہے ، پھر آپ نے میرے جسم پر چٹکی کاٹی اور فرمایا کہ اس چٹکی کاٹنے کی دیت اور جرمانہ بھی جامعہ میں موجود ہے . آپ نے یہ الفاظ کہے اور آپ اس وقت غصے میں دکھائی دے رہے تھے ، میں نے کہا خدا کی قسم ! یہ کامل علم ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن پھر بھی یہ کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : ہمارے پاس جفر ہے لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے ؟میں نے کہا کہ جفر کیا ہے ؟

آپ نے فرمایا : وہ چمڑے کا ایک مخزن ہے جس میں سابقہ انبیاء و اوصیاء اور علمائے بنی اسرائیل کا علم ہے میں نے عرض کیا:یہ علم کامل ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن یہ بھی کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : و ان عندنا لمصحف فاطمہ علیہا السلام ؛

ہما رے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ مصحفِ فاطمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک ایسا مصحف ہے جو تمہارے ہاتھوں میں مو جود قرآن مجید سے تین گنا بڑ ا ہے خدا کی قسم اس میں تمہا رے قرآن مجید کا ایک بھی حرف نہیں ہے ؛

میں نے عرض کیا ؛ کیا یه کامل علم ہے ؟آپ نے فر مایا ؛ یه بھی علم ہے لیکن کامل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا ہما رے پاس گزشتہ اور قیا مت کے دن تک آنے والے حالات کا علم موجود ہے میں نے عرض کیا:یہ کامل علم ہے ؟ آ پ نے فرمایا ؛ یہ بھی علم ہے لیکن کا مل علم نہیں ہے میں نے پو چھا کہ کامل علم کیا ہے؟ آپ نے فر مایا: علم کامل وہ علم ہے جو روزانہ دن رات میں ایک عنوان کے بعد دوسر ے عنوان اور ایک چیز کے بعد دوسری  چیز کے بارے میں سامنے آتا رہتا ہے اور جو قیا مت تک ظاہر ہوتا رہے گا

اس کی سند میں عبدالله بن الحجال ہے جو مجہول ہے

الکافی کی روایت ہے
عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن الحسين ابن أبي العلاء قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: إن عندي الجفر الابيض، قال: قلت: فأي شئ فيه؟ قال: زبور داود، وتوراة موسى،
وإنجيل عيسى، وصحف ابراهيم عليهم السلام والحلال والحرام، ومصحف فاطمة، ما أزعم أن فيه قرآنا، وفيه ما يحتاج الناس إلينا ولا نحتاج إلى أحد حتى فيه الجلدة، ونصف الجلدة، وربع الجلدة وأرش الخدش.
وعندي الجفر الاحمر، قال: قلت: وأي شئ في الجفر الاحمر؟ قال: السلاح وذلك إنما يفتح للدم يفتحه صاحب السيف للقتل، فقال له عبدالله ابن أبي يعفور: أصلحك الله أيعرف هذا بنو الحسن؟ فقال: إي والله كما
يعرفون الليل أنه ليل والنهار أنه نهار ولكنهم يحملهم الحسد وطلب الدنيا على الجحود والانكار، ولو طلبوا الحق بالحق لكان خيرا لهم.

الحسين ابن أبي العلاء نے کہا میں نے امام جعفر سے سنا وہ کہہ رہے تھے میرے پاس سفید جفر ہے – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا داود کی زبور اور موسی کی توریت اور عیسیٰ کی انجیل اور ابراہیم کا مصحف ہے اور حلال و حرام ہے اور مصحف فاطمہ ہے میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ اس میں قرآن ہے لیکن اس میں ہے وہ ہے جس کو لوگوں کو حاجت ہے اور ہمیں اس کی بنا پر کسی کی حاجت نہیں … اور میرے پاس جفر سرخ ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا : اسلحہ ہے جس سے خون کھولا جاتا ہے اور تلوار والا قتل کرتا ہے اس پر عبدالله ابن أبي يعفور نے امام
جعفر سے کہا الله اصلاح کرے اپ کو بنو الحسن کی حرکت کا علم ہے ؟ فرمایا ہاں الله کی قسم جیسے تم رات کو جانتے ہو کہ رات ہے اور دن کو کہ دن ہے لیکن انہوں نے حسد کو اور طلب دنیا
کو لیا ہے اگر حق کو حق سے طلب کرتے تو اچھا ہوتا

اس کی سند میں الحسين ابن أبى العلاء الخفاف أبو على الاعور یا الخصاف أبو على الاعور ہے – اس کا ایک نام أبو العلاء الحسين ابن أبي العلاء خالد بن طهمان العامري بھی بیان کیا جاتا ہے اس کا ایک
نام الزندجي أبو علي بھی بیان کیا گیا ہے
راقم کہتا ہے یہ شخص مجہول ہے – التحرير الطاووسى کے مولف حسن صاحب المعالم شیعہ عالم کا کہنا ہے
فيه نظر عندي لتهافت الاقوال فيه
اس راوی پر نظر ہے اس کے بارے میں بے شمار (متخالف ) اقوال کی وجہ سے

یعنی اہل تشیع اس راوی کا تعین نہیں کر سکے ہیں اور تین نام کے مختلف قبائل کے لوگوں کو ملا کر ان کے علماء کا دعوی ہے کہ ایک شخص ہے – حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی یقینی
قول نہیں کہ کون ہے

الکافی کی ایک اور روایت ہے

علي بن إبرإهيم، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عمن ذكره، عن سليمان بن خالد قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: إن في الجفر الذي يذكرونه(1) لما يسوؤهم، لانهم لا يقولون الحق(2) والحق فيه، فليخرجوا
قضايا علي وفرائضه إن كانوا صادقين، وسلوهم عن الخالات والعمات(3)، وليخرجوا مصحف فاطمة عليها السلام، فإن فيه وصية فاطمة عليها السلام، ومعه(4) سلاح رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله
عزوجل يقول: ” فأتوا بكتاب من قبل هذا أو أثارة من علم إن كنت صادقين

سليمان بن خالد نے کہا امام جعفر نے مصحف فاطمہ نکالا جس میں فاطمہ کی وصیت تھی اور ان کے پاس رسول الله صلی الله علیہ و اله کا اسلحہ تھا

اس کی سند میں عمن ذكره، لوگ مجہول ہیں

الکافی کی ایک اور روایت ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عمر بن عبدالعزيز، عن حماد بن عثمان قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: تظهر الزنادقة في سنة ثمان وعشرين ومائة وذلك أني نظرت في مصحف فاطمة
عليها السلام، قال: قلت: وما مصحف فاطمة؟ قال: إن الله تعالى لما قبض نبيه صلى الله عليه وآله دخل على فاطمة عليها السلام من وفاته من الحزن ما لا يعلمه إلا الله عزوجل فأرسل الله إليها ملكا يسلي غمها
ويحدثها، فشكت ذلك(1) إلى أمير المؤمنين عليه السلام فقال: إذا أحسست بذلك وسمعت الصوت قولي لي فأعلمته بذلك فجعل أمير المؤمنين عليه السلام يكتب كلما سمع حتى أثبت من ذلك مصحفا قال: ثم قال: أما
إنه ليس فيه شئ من الحلال والحرام ولكن فيه علم ما يكون.

حماد بن عثمان نے کہا میں نے امام جعفر المتوفی ١٤٥ ھ کو کہتے سنا الزنادقة سن ١٢٨ میں ظاہر ہوئے اور اس وقت میں مصحف فاطمہ دیکھ رہا تھا – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا جب الله تعالی نے اپنے نبی کی روح قبض کی وہ فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور وہاں رہے جس کو علم صرف اللہ کو ہے اس وقت اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا جو ان کے غم کو دور کرے (علی کو اس پر خبر دیر سے ہوئی) اس پر علی نے شکوہ کیا اور کہا اگر مجھے احساس ہوتا اور (فرشتے کی) آواز سن لی ہوتی تو میں اس علم کو جان جاتا- پس علی نے وہ لکھا جو سنا (یعنی جو فرشتہ نے علم دیا
س کا آدھا پونا لکھا) اس کو مصحف میں ثبت کیا – امام جعفر نے کہا اس میں نہ صرف حلال و حرام ہے بلکہ اس کا علم بھی ہے جو ہو گا

کہا جاتا ہے کہ سند میں حماد بن عثمان بن عمرو بن خالد الفزاري ہے – اس کا سماع امام جعفر سے نہیں ہے کیونکہ بصائر الدرجات کے مطابق یہ حماد بن عثمان اصل میں عمر بن يزيد کی سند سے
امام جعفر سے روایت کرتا ہے دوم سند میں عمر بن عبدالعزيز أبوحفص بن أبي بشار المعروف بزحل ہے قال النجاشي انه مختلط
الفضل بن شاذان کا کہنا ہے أبو حفص يروى المناكير
معلوم ہوا سند ضعیف ہے انقطاع بھی ہے

الغرض علی رضی الله عنہ کےپاس کوئی الگ  علم خواص نہ تھا جو اور اصحاب رسول کو معلوم نہ ہو اور نہ ہی کوئی الگ قرآن تھا بلکہ اس کی تمام خبریں غالیوں کی بیان کردہ ہیں جو  مجہول و غیر معروف یا مختلط یا ضعیف  راوی ہیں

يا سارية الجبل روایت

 أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  میں روایت کیا گیا ہے کہ

أنا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: نا أَبُو عَمْرٍو الْحَارِثُ بْنُ  مِسْكِينٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: أنا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ “، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ جَيْشًا أَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ. قَالَ: فَبَيْنَا عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ: فَجَعَلَ يَصِيحُ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» . قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ” يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقِينَا عَدُوَّنَا فَهَزَمْنَاهُمْ، فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» ، فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا بِالْجَبَلِ، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ “. فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: «إِنَّكَ كُنْتَ تَصِيحُ بِذَلِكَ» قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ

يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ نے محمد بن عجلان سے روایت کیا  کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا سالار ایک مرد ساریہ کو بنایا۔ ایک دن  خطبہ کے دوران عمر  نے یکایک یہ پکارنا شروع کر دیا  اے ساریہ پہاڑ- پہاڑ- اس طرح تین مرتبہ کہا۔ پھر اس لشکر کا خبری  مدینہ آیا۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنیین ہم لوگ شکست کھا گئے اور اس شکست کی حالت میں تھے کہ ہم نے یکایک ایک آواز سنی جس نے تین بار کہا کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف رخ کرو۔ ہم نے پشت پہاڑ سے لگا دی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دشمن کو شکست دیدی۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ ہی تو تھے جو اس طرح چیخے تھے۔ ابن عجلان نے کہا ایسا ہی إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی بیان کیا

تخریج روایت :   دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر 2655  میں ، جامع الأحاديث للسيوطي،حرف الياء   فسم الافعال،مسند عمر بن الخطاب، حديث نمبر 28657  میں ،   الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف ،   ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم   في الدلائل واللالكائي في السنة ، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن

 

محدثین متاخرین کی رائے

فتح الباری کے مولف ابن حجر نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے

زرکشی لکھتے  ہیں
وَقد افرد الْحَافِظ قطب الدّين عبد الْكَرِيم الْحلَبِي لهَذَا الحَدِيث جُزْءا ووثق رجال هَذِه الطَّرِيق
حافظ قطب الدین حلبی نے اس اثر پر مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے ، جس میں اس واقعہ کے سارے طرق جمع کیے ہیں ، اور اس طریق کے تمام رجال کو ثقہ قرار دیا ہے ۔
التذكرة في الأحاديث المشتهرة = اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة   میں  سیوطی کہتے  ہیں
وألف القطب الحلبي في صحته جزءاً.
قطب الحلبی نے مستقل رسالے میں اس کی صحت کو ثابت کیا ہے ۔

صوفیاء کی رائے

  یہ روایت پھیلی اور محدثین نے اس کو قبول کیا اور سند کو حسن جید سب کہہ ڈالا –  دوسری طرف اہل طریقت  جن کو  اہل معرفت بھی کہا جاتا ہے ان  متصوفین کے نزدیک  روحانی تصرف   ہر کسی کے   بس کی بات نہیں جب اللہ چاہتا تو اسباب پیدا فرماتا ہے –  جیسا کہ اس اثر سے وضاحت ہوتی ہے  – مزید براں اس اثر سے صوفیاء کے ہاں  ثابت ہوتا ہے  کہ بذریعہ کشف غائب سے رہنمائی مل  سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب کشف اپنے کشف سے اجتماعی طور پر دوسروں کی رہبری کر سکتا ہے

ابن تیمیہ کی رائے

اولیاء الله کو کشف ممکن ہے – آٹھویں صدی کے نام نہاد سلفی محقق ابن تیمیہ کتاب  مجموعة الرسائل والمسائل میں لکھتے ہیں

وأما المعجزات التي لغير الأنبياء من باب الكشف والعلم فمثل قول عمر في قصة سارية، وأخبار أبي بكر بأن ببطن زوجته أنثى، وأخبار عمر بمن يخرج من ولده فيكون عادلاً. وقصة صاحب موسى في علمه بحال الغلام، والقدرة مثل قصة الذي عنده علم من الكتاب. وقصة أهل الكهف، وقصة مريم، وقصة خالد بن الوليد وسفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي مسلم الخولاني، وأشياء يطول شرحها. فإن تعداد هذا مثل المطر. وإنما الغرض التمثيل بالشيء الذي سمعه أكثر الناس. وأما القدرة التي لم تتعلق بفعله فمثل نصر الله لمن ينصره وإهلاكه لمن يشتمه.

اور جہاں تک معجزات غیر انبیاء کے علم و کشف کے باب میں ہے تو اس کی مثال ساریہ کا عمر والا قصہ ہے  — ان قصوں کی تعداد اس قدر ہے جیسے بارش

اپنی دوسری کتابوں النبوات، قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق، الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية   میں ابن تیمیہ نے اس کا کئی بار اس قصہ کا  ذکر کشف کی دلیل کے طور پر   کیا

بلکہ دقائق التفسير الجامع لتفسير ابن تيمية میں وضاحت کرتے ہیں

وَعمر رَضِي لما نَادَى يَا سَارِيَة الْجَبَل قَالَ إِن لله جُنُودا يبلغون صوتي وجنود الله هم من الْمَلَائِكَة وَمن صالحي الْجِنّ فجنود الله بلغُوا صَوت عمر إِلَى سَارِيَة وَهُوَ أَنهم نادوه بِمثل صَوت عمر

اور عمر نے جب ساریہ کو پہاڑ کی ندا کی تو کہا الله کے  لشکر ہیں جو میری آواز لے کر جاتے ہیں اور الله کے لشکر فرشتے ہیں اور نیک جنات پس الله کے لشکروں نے عمر کی آواز ساریہ تک پہنچائی اور وہ ان کو آواز دیتے تھے عمر کی آواز کی طرح

ابن قیم کی رائے

ابن قیم کتاب میں مدارج السالکین میں لکھتے ہیں

 والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن

اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہیوں نے یا ساریـۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے۔

البانی کی رائے

محمد بن عجلان نے   یہ  روایت  یاس بن معاویہ بن قرۃ سے بھی سماعت کی ہے ۔  لالکائی کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة میں ایک مقام پر ہے قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ – ابن عجلان نے کہا اس اثر کو إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی ایسا ہی روایت کیا – اس بنا پر اس کو ابن عجلان کے طرق سے البانی نے صحیح قرار دیا –  البانی  نے  تحقيق الآيات البينات في عدم سماع الأموات (ص: 112) میں اس اثر کی سند کو جید حسن کہا  اور  سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3/ 101۔104)     میں اس پر طویل گفتگو کی ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ واقعہ صرف ابن عجلان کی سند سے صحیح ہے
 قلت: …. فتبين مما تقدم أنه لا يصح شيء من هذه الطرق إلا طريق ابن عجلان وليس فيه إلامناداة عمر ” يا سارية الجبل ” وسماع الجيش لندائه وانتصاره بسببه.ومما لا شك فيه أن النداء المذكور إنما كان إلهاما من الله تعالى لعمر وليس ذلك بغريب عنه، فأنه ” محدث ” كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ولكن ليس فيه أن عمر كشف له حال الجيش، وأنه رآهم رأي العين

میں البانی کہتا ہوں : پس کے واضح ہوا کہ اس سلسلے میں ایک ہی طرق صحیح ہے جو ابن عجلان کی سند سے ہے اور اس میں عمر کی پکار کا ذکر ہے کہ يا سارية الجبل اور لشکر کا اس آواز کو سننا اور اس کے سبب مدد پانا تو اس میں شک نہیں کہ یہ الہام میں سے ہے جو الله تعالی نے عمر کو کیا اور اس میں کوئی عجیب بات بھی نہیں کیونکہ وہ محدث ہیں جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس میں یہ نہیں ہے کہ  عمر پر لشکر کا حال کشف ہوا اور انہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا

ڈاکٹر عثمانی کی رائے

سن ١٩٨٠کی  دہائی میں رجل مومن ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے ایک ضعیف روایت یا ساریہ کا  کتاب مزار یا میلے میں رد کیا-

زبیر علی زئی کی رائے

سن ١٩٩٠ کی دہائی میں اہل حدیث عالم زبیر علی زئی میں بھی ہمت پیدا ہوئی کہ اس اثر کا رد کر سکیں

وہابیوں کی رائے

تقریبا تمام  معروف  وہابی علماء اس اثر کو صحیح قرار دیتے ہیں

محمد بن صالح العثيمين  اس اثر کو مشھور قرار ہے اور اولیاء الله کی کرامت قرار دیا

https://www.youtube.com/watch?v=N6k1EtknPE0

 السؤال: ما حكم الشرع فيما يروى أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه رأى سارية , وهو يخطب على المنبر في المعركة في موقف حرج مع الأعداء, فقال له: يا سارية الجبل! هل هذه القصة حقيقة حدثت, أم من الخيال؟ الجواب: هذه القصة مشهورة عن أمير المؤمنين عمر رضي الله عنه أنه كان يخطب الناس يوم الجمعة على منبر النبي صلى الله عليه وسلم, وكان سارية بن زنيم رضي الله تعالى عنه قائداً لإحدى السرايا في العراق, فحصر الرجل, فأطلع الله تعالى أمير المؤمنين عمر على ما أصابه, فخاطبه عمر من المنبر, وقال له: يا سارية ! الجبل, يعني: اصعد الجبل أو لذ بالجبل أو ما أشبه ذلك من التقديرات, فسمعه سارية فاعتصم بالجبل فسلم, ومثل هذه الحادثة تعد من كرامات الأولياء, فإن للأولياء كرامات يجريها الله تعالى على أيديهم تثبيتاً لهم ونصرة للحق, وهي موجودة فيما سلف من الأمم وفي هذه الأمة, ولا تزال باقية إلى يوم القيامة, وهي أمر خارق للعادة يظهره الله تعالى على يد الولي تثبيتاً له وتأييداً للحق, ولكن يجب علينا الحذر من أن يلتبس علينا ذلك بالأحوال الشيطانية من السحر والشعوذة وما أشبهها؛ لأن هذه الكرامات لا تكون إلا على يد أولياء الله, وأولياء الله عز وجل هم المؤمنون المتقون؛ قال الله عز وجل: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [يونس:62] قال شيخ الإسلام رحمه الله أخذاً من هذه الآية: من كان مؤمناً تقياً كان لله ولياً, وليست الولاية بتطويل المسبحة, وتوسيع الكم, وتكبير العمامة, والنمنمة, والهمهمة, وإنما الولاية بالإيمان والتقوى, فيقاس المرء بإيمانه وتقواه لا بهمهمته ودعواه. بل إني أقول: إن من ادعى الولاية فقد خالف الولاية؛ لأن دعوى الولاية معناه تزكية النفس, وتزكية النفس معصية لله عز وجل, والمعصية تنافي التقوى؛ قال الله تعالى: هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى [النجم:32]، ولا نعلم أحداً من أولياء الله المؤمنين المتقين قال للناس: إني أنا ولي, فاجتمعوا إلي, وخذوا من بركاتي ودعواتي وما أشبه ذلك, لا نعلم هذا إلا عن الدجالين الكذابين الذين يموهون على عباد الله ويستخدمون شياطين الجن للوصول إلى مآربهم. وإن نصيحتي لأمثال هؤلاء أن يتقوا الله عز وجل في أنفسهم وفي عباد الله, ونصيحتي لعباد الله أن لا يغتروا بهؤلاء وأمثالهم.

دائمی کمیٹی کا فتوی

سعودی دائمی کیمٹی کے پانچ علماء کا متفقہ فتوی ہے

فتاوى اللجنة الدائمة  الجزء رقم : 26، الصفحة رقم  41 پر

تصفح برقم المجلد > المجموعة الأولى > المجلد السادس والعشرون (كتاب الجامع 3) > السيرة > قول عمر رضي الله عنه يا سارية الجبل
الفتوى رقم ( 17021 )س: جاء محاضر إلى مدرستنا، وكانت المحاضرة عن كرامات الأولياء والصالحين ، وقال في محاضرته: كان عمر بن الخطاب يخطب على المنبر، فنادى السارية التي أرسلها للحرب، فقال: (يا سارية الجبل) فسمعت السارية كلامه فانزاحت إلى الجبل. علمًا بأن   بينهما مسافة بعيدة، هل هذه الرواية صحيحة أم خطأ، وهل هي من الكرامات؟
ج : هذا الأثر صحيح عن عمر رضي الله عنه، ولفظه: أن عمر رضي الله عنه، بعث سرية فاستعمل عليهم رجلاً يدعى سارية ، قال: فبينا عمر يخطب الناس يومًا قال: فجعل يصيح وهو على المنبر: يا سارية الجبل، يا سارية الجبل، قال فقدم رسول الجيش، فسأله فقال: يا أمير المؤمنين لقينا عدونا فهزمنا، فإذا بصائح يصيح: يا سارية الجبل، فأسندنا ظهورنا بالجبل فهزمهم الله.
رواه أحمد في (فضائل الصحابة)،  وأبو نعيم في (دلائل النبوة)  والضياء في (المنتقى من مسموعاته) وابن عساكر في (تاريخه) والبيهقي في (دلائل النبوة) وابن حجر في (الإصابة) وحسن إسناده،  ومن قبله ابن كـثير في (تاريخه) قال: إسناد جيد حسن، والهيثمي في (الصواعق المحرقـة) حسن إسناده أيضًا –  وهذا إلهام من الله سبحانه، وكرامة لعمر رضي الله عنه، وهـو المحدث الملهم، كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في الأثر أنه رضي الله عنه كشف له عن الجيش وأنه رآه رأي العيـن إلى غير ذلك من الروايات الضعيفة التي يتعلق بها غلاة المتصوفة في الكشف، واطلاع المخلوقين على الغيب، وهذا باطل؛ لأن الاطلاع على الغيب من صفات الله سبحانه وتعالى، وما ذكر في السؤال أعلاه مـن أن عمر رضي الله عنه نادى السارية التي أرسلها للحرب فسمعت السـارية كلامه فانزاحت للجبل، فهذا جهل في معنى الحديث.وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء​

 عضوالرئيس : بكر أبو زيد –  عبد العزيز آل الشيخ –  صالح الفوزان –  عبد الله بن غديان –  عبد العزيز بن عبد الله بن باز

سوال: ہمارے مدرسے میں کرامت اولیاء پر تقریر ہوئی اس میں مقرر نے اثر بیان کیا کہ  عمر رضی الله عنہ کا قول یا ساریہ پہاڑ  جنگ کے دوران … اور عمر اور ساریہ میں مسافت بہت دور تھی تو کیا یہ روایت صحیح ہے یا غلطی ہوئی یا یہ کرامت ہے ؟

جواب : یہ اثر صحیح ہے عمر رضی الله عنہ کے حوالے سے  اور اس کے الفاظ ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے ایک سریہ بھیجا اس پر سالار ایک مرد کو کیا جس کا نام ساریہ تھا- اور عمر اس دوران کہ وہ خطبہ دے رہے تھے ایک دن وہ چیخے اور وہ منبر پر تھے اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ – پس جب لشکر کا خبری آیا اس سے سوال ہوا – اس نے کہا امیر المومنین ہمارے دشمن نے ہم کو شکست دی یہاں تک کہ ہم نے ایک چیخ سنی کہ اے ساریہ پہاڑ پس ہم نے اپنی پیٹھ اس کے ساتھ کر دی اور الله نے دشمن کو شکست دی – اس کو احمد نے ، ابو نعیم نے الضیاء نے ابن عساکر نے بیہقی نے ابن حجر نے روایت کیا ہے –ابن حجر نے اس کو حسن قرار دیا ہے اور ان سے قبل ابن کثیر نے تاریخ میں اسکو اسناد جید حسن کہا ہے اور ہیثمی نے بھی اسناد حسن کہا ہے اور یہ الله تعالی کا الہام تھا اور عمر کی کرامت تھی اور وہ   الہام پانے  والوں میں  تھے  جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے – اور اس اثر میں یہ نہیں ہے کہ لشکر کا کشف ان پر اس طرح ہوا کہ وہ آنکھ سے  دیکھ رہے  تھے جو ضعیف روایات میں ہے جو کشف کے سلسلے میں غالی صوفیوں نے اس میں متعلق کر دی ہیں- اور مخلوق کی خبر غیب میں سے ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ غیب کی خبر پانا اللہ کی صفات میں سے ہے اور جو سوال میں ذکر ہوا کہ عمر نے ساریہ کو پکارا جس کو جنگ میں بھیجا تھا اور ساریہ نے اس کو سنا تو یہ حدیث کے معنوں میں جھل ہے  .وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم

وہابی عالم صالح المنجد بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں

https://islamqa.info/ur/12778

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ ثابت اور صحیح ہے ، نافع بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لشکر پر ساریہ نامی شخص کو امیر بنایا ، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما خطبہ جعمہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک کہنے لگے ” اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ ” تو انہوں نے ایسا پایا کہ جمعہ کے دن اسی وقت ساریہ نے پہاڑ کی جانب حملہ کیا تھا حالانکہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما اور ساریہ کے درمیان ایک مہینہ کی مسافت تھی ۔مسند احمد فضائل صحابہ ( 1/ 269 ) اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے سلسلہ الصحیحہ میں صحیح کہا ہے ( 1110 )

تویہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما کی کرامت ہے یا تو الہام اور آواز کا پہنچنا – یہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی راۓ ہے – یا پھر کشف نفسانی اور آواز کا پہنچنا – اس پر شیخ البانی رحمہ اللہ کی کلام آگے آۓ گی – تو دونوں حالتوں میں بلا شک وشبہ یہ کرامت ہے ۔

اہل حدیث کی جدید رائے

عصر حاضر کے اہل حدیث   عالم  غلام مصطفی ظہیر اس روایت  کو صحیح قرار دیتے ہیں

https://www.facebook.com/muhammed.kashif.796/videos/794954507276957/

 فتاویٰ الدین الخالص، امین پشاوری (ج1ص212) میں ہے

راقم کہتا ہے ابن عجلان جس کے طرق سے اس روایت کو پیش و قبول کیا گیا ہے اس کے بارے میں امام مالک نے کہا تھا کہ  اس کو حدیث کا کوئی علم نہیں – کتاب  الضعفاء الكبير از امام  العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، 

 امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے

راقم اس سلسلے میں امام مالک  کی رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ یہ اثر قابل قبول نہیں ہے

یہ بھی معلوم ہوا کہ غالی شیعوں کی طرح غالی اہل سنت کا ایک طبقہ موجود تھا جس کا ذکر کھل کر نہیں کیا گیا

کتاب سرگزشت سحر

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

باب ١ : سحر اوربابل کی غلامی  کا دور

باب ٢: ھاروت و ماروت   کون؟

باب٣ :بابل کی غلامی کے بعد شیطان کے تصور   میں تبدیلی

باب ٤ :  سانپ مقرب بارگاہ الہی؟

باب ٥ : صوفیاء کا یہود سے اکتساب

باب٦ :سحر سے متعلق چند سوال و جواب

======================================================

پیش لفظ

کتاب   هذا      میں سحر سے متعلق مختلف مباحث  کو جمع  کیا گیا  ہے –  سحر قرآن سے ثابت ہے کہ اس میں موسی علیہ السلام کو لاٹھیاں اور چھڑیاں   اڑتی ہوئی محسوس ہوئیں – نہ صرف موسی علیہ السلام بلکہ تمام مجمع  مسحور ہو گیا- البتہ   جادو گروں  نے جب اس کو ختم  ہوتے دیکھا تو اقرار کیا کہ انہوں نے مجبورتاً اس کو کیا-  معلوم ہوا جادو   فعل قبیح ہی  تھا لیکن  فرعون کے حکم کی وجہ سے انھوں نے کیا –

 الله تعالی   نہ صرف  خالق خیر بلکہ خالق شر  بھی ہے –   قرآن میں ہے پناہ مانگو

من شر ما خلق

اس شر سے جو الله نے خلق کیا

عبد الله بن امام احمد  العلل  میں روایت کرتے ہیں   ابن عون نے کہا

  إن قومًا يزعمون أن الله لم يخلق الشر. فقال: أستعيذ بالسميع العليم-قل أعوذ برب الفلق من شر ما خلق-. «العلل» (4860)

 ابن عون نے کہا ایک قوم ہے جو دعوی کرتی ہے کہ الله نے شر کو خلق نہیں کیا- پس کہا السمیع  العلیم سے پناہ مانگو؟  کہو میں پناہ مانگتا ہوں  پھاڑنے والے رب کی جس نے شر کو خلق کیا

 کتاب إعراب القرآن للأصبهاني  از   إسماعيل بن محمد بن الفضل الأصبهاني (المتوفى: 535هـ)  کے مطابق    المعتزلة    میں

قرأ عمرو بن عبيد (مِنْ شَرٍّ مَا خَلَقَ) بالتنوين؛ لأنّه كان [ … ] أنّ الله لم يخلق الشَّرَّ

عمرو بن عبيد[1]  آیت کی قرات تنوین سے کرتا مِنْ شَرٍّ مَا خَلَقَ .. کہ الله نے شر خلق نہیں کیا

یعنی  شر کو اسم کر دیا جو   اس کے نزدیک مخلوق کا عمل ہے یا ان کی تخلیق ہے-  المعتزلة کہتے  تھے کہ   ان کے پانچ اصول ہیں جن میں ایک عدل ہے اس سے ان کی  مراد تھی   أن الله لم يخلق الشر  وأن كل عبد يخلق أفعاله  الله تعالی نے شر کو خلق نہیں کیا اور   ہر بندہ اپنا عمل خود خلق کر رہا ہے- اسی طرح  قدری کہتے

حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَبْدُ الصَّمَدِ، نا عِكْرِمَةُ، قَالَ: سَأَلْنَا يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ عَنِ الْقَدَرِيَّةِ، فَقَالَ: «هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يُقَدِّرِ الشَّرَّ»

يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ نے قدریوں سے متعلق کہا:  یہ کہتے ہیں کہ الله نے شر کو تقدیر میں نہیں لکھا

سحر مصر میں ہوتا تھا اور اسی طرح بابل میں بھی کیا جاتا تھا- اس کتاب میں قرانی آیات کو سمجھنے کے لئے چند مباحث کی تفصیل ہے- الله ہم کو حق کی طرف ہدایت دے

ابو شہر یار

٢٠١٧

[1]

عمرو بن عبيد بن كيسان بن باب، أبو عثمان البصري المعتزلي مولى بني تميم، كان أصله من فارس سكن البصرة، مات في طريق مكة سنة 144 هـ، قال ابن حبان في المجروحين ج2/68: “كان من العباد الخشن وأهل الورع الدقيق ممن جالس الحسن سنين كثيرة ثم أحدث ما أحدث من البدع واعتزل مجلس الحسن وجماعة معه فسموا بالمعتزلة، وكان عمرو بن عبيد داعية إلى الاعتزال يشتم أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ويكذب مع ذلك في الحديث توهما لا تعمداً” والذي أزاله عن مذهب أهل السنة هو واصل بن عطاء. قال أحمد بن محمد الحضرمي سألت ابن معين، عن عمرو بن عبيد فقال: “لا يكتب حديثه. فقلت له: كان يكذب. فقال: كان داعية إلى دينه. فقلت له: فلم وثقت قتادة وابن أبي عروبة وسلام بن مسكين؟ فقال: كانوا يصدقون في حديثهم، ولم يكونوا يدعون إلى بدعة”. انظر: ترجمته في ميزان الاعتدال ج3/273-280؛ تاريخ بغداد ج12/166-188.

 

محدثين أور صوفیاء کا   اتحاد

سن ٢٠٠ ہجری کے بعد مسلمانوں میں قبر والوں سے شغف بڑھ رہا تھا – وہاں جا کر محدثین اپنی ببتائیں عرض کرتے اور قبور کو تریاق مجرب قرار دیتے تھے

ذهبی کتا ب سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب
اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے

امام احمد ابدال کی تلاش میں رہتے جن سے دعا کرا سکیں

امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله، دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة

احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے

اور ابن حبان کتاب ثقات میں لکھتے ہیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

ابن عساکر تاریخ الدمشق ج ٢ ص ٣١٥ میں لکھتے ہیں

مسجد مغارة الدم مسجد الدير الذي  كان لرهبان النصارى فجعل مسجدا

مسجد مغارة الدم  مسجد دیر عیسائی راہبوں کا مسکن تھے جن کو مسجد بنایا گیا

یہ مقام  جبل قاسيون دمشق میں ہے اور  ہابیل علیہ السلام سے منسوب تھا اور بعض کے نزدیک عزیر سے

کتاب البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق

بِجَبَلِ قَاسِيُونَ شَمَالِيَّ دِمَشْقَ مَغَارَةٌ يُقَالُ لَهَا مَغَارَةُ الدَّمِ مَشْهُورَةٌ بِأَنَّهَا الْمَكَانُ الَّذِي قَتَلَ قَابِيلُ أَخَاهُ هَابِيلَ عِنْدَهَا وَذَلِكَ مِمَّا تَلَقَّوْهُ عَنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَاللَّهُ أَعْلَمُ بِصِحَّةِ ذَلِكَ.

 جبل قاسیون شمال دمشق میں ایک غار ہے جس کو مَغَارَةُ الدَّمِ  کہا جاتا ہے جو اس مکان کے طور پر مشھور ہے اس میں قابیل نے ہابیل  کا قتل کیا تھا اور ایسا اہل کتاب میں قبول چلا آ رہا  ہے اور الله ہی اس بات کی صحت جانتا ہے

ابن کثیر مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ قدامة کے لئے البداية والنهاية میں لکھتے ہیں کہ ہر پیر اور جمعرات کو وہ اس مقام پر جاتے

 وَكَانَ يَزُورُ مَغَارَةَ الدَّمِ فِي كُلِّ يَوْمِ اثنين وخميس

یعنی زمین کے ان مقامات سے جہاں اولیاء الله کا قتل ہوا یا ان کی قبریں ہیں یہ تبرک  حاصل کرنے کے مقامات عوام کے علاوہ خواص محدثین میں بھی مشہور ہو چلے تھے- زمین و آسمان میں روحانیت کے ڈانڈے قبروں پر جا کر مل رہے تھے

اسی دوران محدثین اپس میں غیر محسوس انداز میں وہ روایات صحیح کہہ رہے تھے جن کو بیان کرنے سے سلف امت یعنی امام مالک منع کرتے تھے یعنی روایت کہ الله نے آدم کو صورت رحمان پر پیدا کیا

کتاب قوت القلوب از  أبو طالب المكي میں ہے

وهجر الإمام أحمد بن حنبل رحمه الله تعالى أبا ثور صاحب الشافعي لما سئل عن معنى قول النبي: إن اللّه تعالى خلق آدم على صورته قال: إن الهاء عائدة على آدم فغضب وقال: ويله وأي صورة كانت لآدم يخلقه عليها؟ ويله يقول إن اللّه تعالى خلق على مثال فأي شيء يعمل في الحديث المفسر إن الله تعالى خلق آدم على صورة الرحمن، فبلغ ذلك أبا ثور فجاءه واعتذر وحلف أنه ما قلت عن اعتقاد وإنما هو رأي رأيته والقول ما قلت وهو مذهبي

اور امام احمد بن حنبل نے ابو ثور صاحب الشافعی   کی تفسیر پر  اختلاف کیا  جب ابو ثور  سے  قول نبوی پر سوال ہوا  کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا ؟  أبا ثور صاحب الشافعي  نے کہا اس میں  الهاء کی ضمیر  آدم کی طرف ہے- پس احمد کو غصہ آیا اور کہا : افسوس   آدم  کے لئے پھر کیا  صورت پر تھی جس پر ان کی تخلیق ہوئی؟   تو کس چیز  (صورت )  پر   تخلیق آدم میں عمل ہوا (  پھر)  حدیث  میں تفسیر  آ گئی ہے کہ الله تعالی نے آدم کو صورت رحمان پر خلق کیا- پس  جب یہ بات ابو ثور کو پہنچی وہ   آئے اور عذر  پیش کیا اور قسم لی کہ انہوں نے رائے سے کلام کیا تھا ، نہ کہ اعتقاد  سے اور ان  کا قول بھی وہی ہے جو احمد کا ہے اور یہی (اب ) ان کا مذھب ہے

ساتویں صدی ہجری میں انہی اجزاء کو شیخ صوفیاء  محی الدین ابن العربی المتوفی ٦٣٨ ھ  جن کو شیخ اکبر کہا جاتا ہے انہوں نے اس پر کتاب الفتوحات المکیہ میں   حدیث إن الله خلق آدم على صورة الرحمن کے حوالہ سے لکھا

ج ١ ص ٧٨ : ورد في الحديث إضافة الصورة إلى الله في الصحيح وغيره مثل حديث عكرمة قال عليه السلام ” رأيت ربي في صورة شاب الحديث ” هذا حال من النبي صلى الله عليه وسلم وهو في كلام العرب معلوم متعارف وكذلك قوله عليه السلام ” إن الله خلق آدم على صورته اعلم أن المثلية الواردة في القرآن لغوية لا عقلية

اور الصحیح میں  حدیث میں آیا ہے صورت کی اضافت الله کی طرف ہے اور دیگر میں بھی جیسے عکرمہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو جوان کی صورت دیکھا یہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حال بیان کیا جو کلام عرب معلوم ہے اور متعارف ہے اور اسی طرح اپ کا قول ہے بے شک الله نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا – جان لو کہ  مثالین جو  قرآن میں  ہیں وہ لغوی ہیں عقلی نہیں ہیں

ج ١ ص ٩ : من الخبر الثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الله خلق آدم على صورته من حيث إعادة الضمير على الله ويؤيد هذا النظر الرواية الأخرى وهي قوله عليه السلام على صورة الرحمن وهذه الرواية وإن لم تصح من طريق أهل النقل فهي صحيحة من طريق الكشف

نبی صلی الله علیہ وسلم سے خبر ثابت ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا اس وجہ سے کہ اس میں ضمیر پلٹتی ہے الله کی طرف اور اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہے جس میں ہے صورت الرحمان پر خلق کیا اور یہ وہ روایت ہے اور اگر یہ اہل نقل کے نزدیک سندا صحیح نہ بھی ہو تو یہ صحیح  ہوئی ہے کشف سے

پھر ابن عربی حروف  کے اسرار پر بات کرتے ہیں

ج ٣ ص ٥١ : فقوله للشئ كن بحرفين الكاف والنون بمنزلة اليدين في خلق آدم

الله کا قول کہ کن کہتا ہے اس میں دو حرف ہیں ک اور ن  یہ آدم کی تخلیق میں ہاتھوں کی طرح ہیں

ج ٤ ص ٤٩ : وورد في الصحيح أن الله خلق آدم على صورته وهو الإنسان الكامل

اور الصحیح میں آیا ہے کہ الله نے آدم کو اپنی  صورت پر خلق کیا اور وہ الانسان الکامل تھے

ج ١ ص ٣٣ : ولهذا قال إن الله خلق آدم على صورة الرحمن فنطقت بالثناء على موجدها فقالت لام ياء هاء حاء طاء فأظهرت نطقاً ما خفي خطاً لأن الألف التي في طه وحم وطس موجودة نطقاً خفيت

اور اس وجہ سے الله نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا پس اپنی موجودات کی تعریف بولی پس کہا

ل  ی ھ ح ط  پس اس سے ظاہر ہوا گویائی ظاہر ہوئی

پھر ابن عربی نے اس کتاب میں حروف کو عالموں سے ملایا

عالم الجبروت عند أبي طالب المكي ونسميه نحن عالم العظمة وهو الهاء والهمزة

العالم الأعلى وهو عالم الملكوت وهو الحاء والخاء والعين والغين

العالم الوسط وهو عالم الجبروت عندنا وعند أكثر أصحابنا وهو التاء والثاء والجيم والدال والذال والراء والزاي والظاء والكاف واللام والنون والصاد والضاد والقاف والسين والشين والياء

عالم الامتزاج بين عالم الجبروت الوسط وبين عالم الملكوت وهو الكاف والقاف

العالم الأسفل وهو عالم الملك والشهادة وهو الباء والميم والواو

یعنی ابن عربی نے حدیث سے وہ وہ ثابت کر دیا کہ خالق و مخلوق کے بیچ کی حدیں سمٹنے لگیں

اس طرح انسان الکامل کا تصور بن گیا

محدثین قبروں پر جا رہے تھے وہاں دعا کرتے صاحب قبر کو پکارتے نہیں تھے – امام الذھبی نے اس کا ذکر کیا کہ

سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٣٤٣ پر  کہتے ہیں  ہیں

يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

  ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

محدثین خواب  میں صوفیاء کی خبریں پا رہے تھے –  القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ  از  شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) کے مطابق

أبي بكر بن محمد بن عمر قال كنت عند أبي بكر بن مجاهد فجاء الشبلي فقام إليه أبو بكر بن مجاهد فعانقه وقبل بين عينيه، وقلت له يا سيدي تفعل بالشبلي هكذا وأنت وجميع من ببغداد يتصوران أو قال يقولون أنه مجنون فقال لي فعلت كما رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فعل به وذلك أني رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في المنام وقد أقبل الشبلي فقام إليه وقبل بين عينيه فقلت يا رسول الله أتفعل هذا بالشبلي فقال هذا يقرأ بعد صلاته لقد جاءكم رسول من أنفيكم إلى آخر السورة ويتبعها بالصلاة علي وفي رواية لأنه لم يصل صلاة فريضة إلا ويقرأ {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ} الآية، ويقول ثلاث مرات صلى الله عليك يا محمد، صلى الله عليك يا محمد، صلى الله عليك يا محمد، قال فلما دخل الشبلي سألته عما يذكر في الصلاة فذكر مثله، وهي عند ابن بشكوال من طريق أبي القاسم الخفاف قال كنت يوماً اقرأ القرآن على رجل يكني أبا بكر وكان ولياً لله فإذا بأبي بكر الشبلي قد جاء إلى رجل يكني بأبي الطيب كان من أهل العلم فذكر قصة طويلة وقال في آخرها: ومشى الشبلي إلى مسجد أبي بكر بن مجاهد فدخل عليه فقام إليه فتحدث أصحاب ابن مجاهد بحديثهما وقالوا له أنت لم تقم لعلي بن عيسى الوزير وتقوم للشبلي فقال ألا أقوم لمن يعظمه رسول الله – صلى الله عليه وسلم – رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في النوم فقال لي يا أبا بكر إذا كان في غد فييدخل عليك رجل من أهل الجنة فإذا جاءك فأكرمه قال ابن مجاهد فلما كان بعد ذلك بليلتين أو أكثر رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في المنام فقال لي يا أبا بكر أكرمك الله كما أكرمت رجلاً من أهل الجنة، فقلت يارسول الله لم أستحق الشبلي هذا منك فقال هذا رجل يصلي خمس صلوات يذكر في أثر كل صلاة ويقرأ {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ} الآية، يقول ذلك منذ ثمانين سنة أفلا أكرم من يفعل هذا؟ قلت ويستأنس هنا بحديث أبي إمامه – رضي الله عنه – عن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال من دعا بهؤلاء الجعوات في دبر كل صلاة مكتوبة حلت له الشفاعة مني يوم القيامة، اللهم أعط محمداً الوسيلة وأجعل في المصطفين محبته وفي العالمين درجته وفي المقربين داره رواه الطبراني في الكبير وفي سنده مطرح بن يزيد وهو ضعيف, وأما عند إقامة الصلاة فعن الحسن البصري قال من قال مثل ما يقول المؤذن فإذا قال المؤذن قد قامت الصلاة قال اللهم رب هذه الدعوة الصادقة والصلاة القائمة صل على محمد عبدك وروسلك وأبلغه درجة الوسيلة في الجنة، دخل في شفاعة محمد صلى الله عليه وسلم أو نالته شفاعة محمد – صلى الله عليه وسلم – رواه الحسن بن عرفة والنميري.

الزاهد أبو بكر دلف بن جعفر بن يونس الشبلي كي پیدائش سن ٢٤٧ ہے اور وفات ٣٣٤ ہجری  ہے

 

تذکرہ کچھ متصوفین کا

غیر مقلد  عبد اللہ محدث روپڑی

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 150 – 155 جلد 01 فتاویٰ اہل حدیث – حافظ عبد اللہ محدث روپڑی – ادارہ احیاء السنۃ النبویۃ، سرگودھا​

اب رہی ”توحید الٰہی” سو اس کے متعلق بہت دنیا بہکی ہوئی ہے۔ بعض تو اس کا مطلب ” ہمہ اوست” سمجھتے ہیں یعنی ہر شئے عین خدا ہے، جیسے برف اور پانی بظاہر دو معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت ایک ہے اسی طرح خدا اور دیگر موجودات ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تمام موجودات وحدت حقیقی کا عکس ہیں۔ جیسے ایک شخص کے ارد گرد کئی شیشے رکھ دیئے جائیں تو سب میں اس کا عکس پڑتا ہے ایسے ہی خدا اصل ہے اور باقی اشیاء اس کا عکس ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ کُلی جزئ کی مثال ہے جیسے انسان اور زید عمر بکر ہیں۔ حقیقت سب کی خدا ہے اور یہ تَعَیُّنَات حوادث ہیں۔ غرض دُنیا عجیب گھورکھدندے میں پڑی ہوئی ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔
صحیح راستہ اس میں یہ ہے کہ اگر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ خدا کے کوئی شئے حقیقۃً موجود نہیں اور یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ محض توہمات ہیں جیسے ”سوفسطائیہ” فرقہ کہتا ہے کہ آگ کی گرمی اور پانی کی برودت وہمی اور خیالی چیز ہے تو یہ سراسر گمراہی ہے۔ اور اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ موجودات انسانی ایجادات کی طرح نہیں کہ انسان کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں بلکہ یہ ان کا وجود خدا کے سہارے پر ہے اگر اُدھر سے قطع تعلق فرض کیا جائے تو ان کا کوئی وجود نہیں۔ تو یہ مطلب صحیح ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بجلی کا کرنٹ (برقی رَو) قمقموں کے لئے ہے۔ گویا حقیقت میں اس وقت بھی ہر شئے فانی ہے مگر ایک علمی رنگ مین اس کو سمجھنا ہے اور ایک حقیقت کا سامنے آنا ہے۔ علمی رنگ مین تو سمجھنے والے بہت ہیں مگر حقیقت کا اس طرح سامنے آنا جیسے آنکھوں سے کوئی شے دیکھی جاتی ہے یہ خاص اربابِ بصیرت کا حِصّہ ہے گویا قیامت والی فنا اس وقت ان کے سامنے ہے۔ پس آیہ کریمہ کل شئ هالك الا وجهه۔ ان کے حق مین نقد ہے نہ اُدھار۔
نوٹ:
ابن عربیؒ، رومیؒ اور جامیؒ وغیرہ کے کلمات اس توحید مین مشتبہ ہیں۔ اس لئے بعض لوگ ان کے حق مین اچھا اعتقاد رکھتے ہیں بعض بُرا۔ ابن تیمیہؒ وغیرہ ابن عربیؒ سے بہت بدظن ہیں۔ اسی طرح رومیؒ اور جامیؒ کو کئی علماء برا کہتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ جب ان کا کلام محتمل ہے جیسے جامیؒ کا کلام اُوپر نقل ہو چکا ہے اور وہ درحقیقت ابن عربیؒ کا ہے۔ کیونکہ ابن عربی کی کتاب ”عوارف المعارف” سے ماخوذ ہے تو پھر ان کے حق مین سُوء ظنی ٹھیک نہیں۔ اسی طرح رومیؒ کو خیال کر لینا چاہیئے، گرض حتی الوسع فتویٰ میں احتیاط چاہیئے۔ جب تک پُوری تسلی نہ ہو فتویٰ نہ لگانا چاہیئے خاص کر جب وہ گزرچکے۔اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہو چکا تو اَب کُرید کی کیا ضرورت؟ بلکہ صرف اس آیت پر کفایت کرنی چاہیئے۔
تلك امة قد خلت لها ماكسبت ولكم كسبتم ولا تسئلون عما كانو تعملون
نوٹ:
ابن عربیؒ وغیرہ کاکچھ ذکر ”تنظیم” جلد 9 نمبر 22 مورخہ 29 مارچ 1940 ء مطابق 20 صفر المظفر 1359 ھ میں بھی ہو چکا ہے اور رسال ”تعریف اہلسنت” کے صفحہ 365 ، 366 میں بھی ہم اس کے متعلق کافی لکھ چکے ہیں زیادہ تفصیل مطلوب ہو تو وہاں ملاحظہ ہو۔

ابن عربی کو رحمہ الله علیہ لکھا گیا ہے

 

نذیر حسین

ملا حظہ فرمائیں: صفحہ 123 – 124 الحیاۃ بعدالمماۃ – فضل حسین بہاری – المکتبۃ الاثریہ، سانگلہ ہل

یعنی شیخ کی آخری تصنیف فتوحات مکیہ سے ان کے گناہ کا کفارہ ہو گیا ہے

ثناء اللہ امرتسری  

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 334 جلد 01 فتاویٰ ثنائیہ – ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری – ادارہ ترجمان السنہ، لاہور

خطبات بہاولپوری

راقم کہتا ہے تصوف سے ہندوستان ہی نہیں محدثین بھی متاثر تھے – سچ بولیں اور سچ  پھیلائیں

 

تصوف کی جڑ – حیات فی القبر

ابراہیمی ادیان میں تصوف کی جڑ حیات فی القبر ہے – قبر سے فیض لینا  پریکٹیکل تصوف ہے  اور یہ تبھی ممکن ہے جب صاحب سلوک اس کی منازل طے کرے اور نیکوکار ہو لہذا تصوف کے بنیادی عقائد میں سے ہیں

اول ارواح عالم ارض و سما میں سفر کرتی ہیں

دوم مردے سنتے ہیں

سوم  مردے کلام بھی کر سکتے ہیں

چہارم مردوں سے فیض لیا جا سکتا ہے یعنی ان کو وسیلہ بنا سکتے ہیں چونکہ ان کی ارواح عرش تک جاتی ہیں

تصوف  کے شجر کی جڑیں اصلا ارواح سے متعلق عجیب و غریب عقیدہ میں تھیں کہ حالت نیند میں روح کہیں بھی جا سکتی ہے –  چھٹی صدی اسلامی ہجری کے اختتام تک یہ عقائد پھیل چکے تھے  اور آٹھویں صدی تک ان عقائد کو قبولیت عام مل چکی تھی اگرچہ  بعض احناف متقدمین سماع الموتی کے یکسر خلاف تھے کیونکہ یہ نہ قرآن میں ہے نہ رائےسے اس عقیدہ تک پہنچا جا سکتا ہے – دوسری طرف اہل رائے کے مخالف جو روایت پسند تھے انہوں نے فقہ کے بعد فضائل میں اور عقائد میں بھی ضعیف روایات کو داخل کر دیا تھا

انسانی روح کہیں بھی جا سکتی ہے؟

إس قول کو سب سے پہلے مصنف ابن ابی شیبہ میں عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا

غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ، فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ يُخْلَى بِهِ يَسْرَحُ حَيْثُ شَاءَ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ»

دنیا مومن  کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مومن  مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے

اس کی سند میں يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ کو ابن حبان اور عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے

کتاب كشف الخفاء ومزيل الإلباس از إسماعيل بن محمد بن عبد الهادي الجراحي العجلوني الدمشقي، أبو الفداء (المتوفى: 1162هـ)  میں روایت “الدنيا سجن المؤمن، وجنة الكافر کی بحث میں  العجلوني  لکھتے ہیں حدیث میں ہے

فإذا مات المؤمن تخلى سربه يسرح حيث شاء
”جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔

انہی الفاظ کا ذکر فتاوی رضویہ میں ہے

وھذا لفظ امام ابن المبارك قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض ویتفسح فیھا١[1]۔ولفظ ابی بکر ھکذا الدنیا سجن المومن وجنۃ لکافر فاذا مات المومن یخلی سربہ یسرح حیث شاء

اور یہ روایت امام ابن مبارك کے الفاظ ہیں۔ ت) بیشك دنیا کافر کی جنت اور مسلمان کی زندان ہے، اور ایمان والے کی جب جان نکلتی ہے توا س کی کہاوت ایسی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اب اس سے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتاا ور بافراغت چلتا پھرتا ہے۔(اور روایت ابوبکر کے الفاظ یہ ہیں۔ ت) دنیا مسلمان کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مسلمان مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔

http://www.dawateislami.net/bookslibrary/1454/page/722

مسلک پرست  غیر مقلدین کے اصول پر موقوف صحابی بھی قابل قبول ہے اور اس سے دلیل بنتی ہے مومن کی روح عالم میں اڑتی پھرتی ہیں  لہذا ابن قیم کتاب الروح میں خواب مين ارواح کی ملاقات والی روایات پر کہتے ہیں

فَفِي هَذَا الحَدِيث بَيَان سرعَة انْتِقَال أَرْوَاحهم من الْعَرْش إِلَى الثرى ثمَّ انتقالها من الثرى إِلَى مَكَانهَا وَلِهَذَا قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت

ان احادیث میں ارواح کا عرش سے الثرى  تک  جانے میں سرعت کا ذکر ہے پھر الثرى سے اس روح کے مکان تک جانے کا ذکر ہے اور اسی وجہ سے امام  مالک اور دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ چھوڑی جانے والے روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

ارواح قدسیہ عالم بالا سے مل جاتی ہیں اور تمام عالم شہود ہوتا ہے؟

کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير  از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ)  کے مطابق

قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.

اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور  عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود  دیکھتی ہیں یا بادشاہت کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں

اب کچھ شبھات کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں التباس غیر مقلدین پیدا کرتے ہیں

شبہ نمبر١ : سلف کہتے تھے  قبور انبیاء  سے فیض نہیں لیا جا سکتا

قبور انبیاء سے فیض لینے کے عقیدہ کو امام ابن کثیر نے بھی اپنی کتب میں بیان کیا ہے    اس حوالے سے تفسیر ابن کثیر کا ایک متن پیش کیا جاتا ہے

وقد شرع النبي صلى الله عليه وسلم لأمته : إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه، فيقول المسلم: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل، ولولا ذلك لكان هذا الخطاب منزلة خطاب المعدوم والجماد، والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب وہ قبروں والوں کو سلام کہیں تو انہیں اسی طرح سلام کہیں جس طرح اپنے مخاطبین کو سلام کہتے ہیں۔ چنانچہ سلام کہنے والا یہ کہے : اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِينَ”اے مومنوں کے گھروں (قبروں) میں رہنے والو ! تم پر سلامتی ہو۔“ سلام کا یہ انداز ان لوگوں سے اختیار کیا جاتا ہے جو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سلام مخاطب کو کہا جانے والا سلام نہ ہوتا تو پھر مردوں کو سلام کہنا معدوم اور جمادات کو سلام کہنے جیسا ہوتا۔ سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے۔ ان سے متواتر آثار مروی ہیں کہ میت، قبر پر آنے والے زندہ لوگوں کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔

 [ تفسير ابن كثير : 325/6، بتحقيق سامي بن محمد سلامة، طبع دار طيبة للنشر والتوزيع]

غیر مقلد عالم  ابو یحیی نور پوری کے بقول یہ عبارت الحاقی ہے- مضمون مردے سنتے ہیں لیکن،  میں  لکھتے ہیں

تفسیر ابن کشیر کی یہ عبارت الحاقی ہے جو کہ کسی ایسے ناقص نسخے سے لی گئی ہے جس کا ناسخ نامعلوم ہے، لہذا اس کا کوئی اعتبار ہیں۔ اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں، لہٰذا یہ عبارت ناقابل استدال والتفات ہے۔
◈ ڈاکٹر اسماعیل عبدالعال تفسیر ابن کثیر کے نسخوں کے بارے میں کہتے ہیں :
وأرى من الواجب على من یتصدى لتحقيق تفسير ابن كثير تحقيقا علميا دقيقا، سيما من المآخذ، أن لا يعتمد على نسخة واحدة، بل عليه أن يجمع كل النسخ المخطوطة والمطبوعة، ويوازن بينها مع إثبات الزيادة والنقص، والتحريف والتصحيف.
’’ جو شخص تفسیر ابن کثیر کی دقیق اور علمی تحقیق کرنا چاہے، خصوصاً مختلف مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے، تو میرے خیال میں اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ایک نسخے پر اعتماد نہ کر بیٹھے، بلکہ وہ تمام مخطوط اور مطبوع نسخوں کو جمع کرے، پھر زیادت و نقص اور تحریف و تصحیف کو سامنے رکھتے ہوئے سب نسخوں کا موازنہ کرے۔“ [ابن کثیر و منهجه فی التفسیر، ص : 128]
٭پھر تفسیر ابن کثیر جو سامی بن محمد سلامہ کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، جس کا حوالہ بھی اوپر مذکور ہے، اس میں محقق نے پندرہ نسخوں کو مدنظر رکھا ہے۔ مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد محقق لکھتے ہیں : زيادة منْ ت، أیعنی یہ عبارت نسخہ المحمدیۃ جو ترکی میں ہے، میں مذکور ہے۔ اس نسخے کا ناسخ (لکھنے والا) نامعلوم ہے۔ نیز یہ عبارت نسخہ ولي الله بن جار اللہ میں موجود ہے۔ اس کا ناسخ علی بن یعقوب جو کہ ابن المخلص کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ یوں یہ دونوں نسخے قابل اعتماد نہ ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر جو پانچ محققین کی تحقیق کے ساتھ پندرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے، اس کی پہلی طبع نسخہ أزھریۃ اور نسخہ دارالكتب کے تقابل کے ساتھ چھپی ہے۔ اس میں یہ عبارت نہیں ہے۔ یہ بات بھی اس عبارت کے مشکوک ہونے کی واضح دلیل ہے۔

راقم کہتا ہے کاش ایسا ہی ہوتا لیکن اب مزید دیکھیں کہ ابن کثیر  نے نہ صرف تفسیر لکھی بلکہ دیگر کتب بھی لکھی ہیں

ابن کثیر اپنی کتاب : البداية والنهاية ج ٧ ص ٩١ اور ٩٢  میں روایت نقل کرتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ اللَّهَ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنام فقال: ايت عمر فأقره منى السلام وأخبرهم أنهم مسقون، وقل له عليك بالكيس الْكَيْسَ. فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَ عُمَرَ فَقَالَ: يَا رب ما آلوا إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.

ابن-کثیر

إس كي سند ضعیف ہے اعمش مدلس عن سے روایت کر رہا ہے جبکہ امام مالک سے عمر رضی الله عنہ تک سند نہیں ہے ابو صالح غیر واضح ہے افسوس ابن کثیر اتنی علتوں کے باوجود اس کو صحیح کہتے ہیں جبکہ قبر پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سننا ثابت نہیں

لہذا ابن کثیر کی بد عقیدگی کی نشانی ہے

شبہ نمبر ٢ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں بولتے

مردے نہیں بولتے پر ابو یحیی نور پوری  مضمون مردے سنتے ہیں لیکن میں  لکھتے ہیں

عہد فاروقی میں ایک نوجوان تھا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے بہت خوش تھے۔ دن بھر مسجد میں رہتا، بعد عشاء باپ کے پاس جاتا۔ راہ میں ایک عورت کا مکان تھا۔ وہ اس پر عاشق ہو گئی۔ ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی مگر جوان نہیں دیکھتا تھا۔ ایک رات قدم نے لغزش کی، ساتھ ہو لیا۔ دروازے تک گیا۔ جب اندر جانا چاہا، اللہ تعالیٰ یاد آیا اور بے ساختہ یہ آیت کریمہ زبان سے نکلی : ﴿إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ﴾ آیت پڑھتے ہی غش کھا کر گرا۔ عورت نے اپنی کنیر کے ساتھ اٹھا کر اس کے دروازے پر پھینک دیا۔ باپ منتظر تھا۔ آنے میں دیر ہوئی۔ دیکھنے نکلا۔ دروازے پر بے ہوش پڑا پایا۔ گھر والوں کو بلا کر اندر اٹھوایا۔ رات گئے ہوش آئی۔ باپ نے حال پوچھا: کہا: خیریت ہے۔ کہا: بتا دے۔ ناچار قصہ بیان کیا۔ باپ بولا: جان پدر ! وہ آیت کون سی ہے ؟ جوان نے پھر پڑھی۔ پڑھتے ہی غش آیا۔ حرکت دی، مردہ حالت میں پایا۔ رات ہی نہلا کر کفنا کر دفن کر دیا۔ صبح کو امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خبر پائی۔ باپ سے تعزیت کی اور خبر نہ دے کی شکایت فرمائی۔ عرض کی : اے امیر المؤمنین ! رات تھی۔ پھر امیر المؤمنین ساتھیوں کو لے کر قبر پر گئے۔ فقال عمر : يا فلان ! ولمن خاف مقام ربه جنتان . فأجابه الفتي من داخل القبر : يا عمر قد أعطانيهما ربى يا عمر ! ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے فلاں ! جو شخص اپنے رب کے سامنے جوابدہی سے ڈر جائے، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا : اے عمر ! اللہ تعالیٰ نے وہ دونوں جنتیں مجھے عنایت فرما دی ہیں۔ [ ذم الهوي لابن الجوزي : 252-253، تاريخ دمشق لابن عساكر : 450/45 ]
تبصرہ : 
٭اس واقعہ کی سند باطل ہے، کیونکہ :
اس میں یحییٰ بن ایوب غافقی مصری (م : 168ھ) کہتے ہیں :
سمعت من يذكر انهٔ كان فى زمن عمر . . . 
”میں نے ایک بیان کرنے والے کو سنا کہ عہد فاروقی میں۔۔۔“
یوں یہ سند سخت ”معضل“ ہے۔ نہ جانے وہ قصہ گو کون تھا اور اس نے کہاں سے یہ حکایات سنی تھی ؟
٭ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ایک قول کی سند بیان کرتے ہوئے کہا:
سمعت بعض أصحاب عبد الله (ابن المبارك ) . . . 
”میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا۔۔۔“ [ مقدمة صحيح مسلم : 19 ]
٭ تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے :
٭ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) کہتے ہیں :
سمعت بعض أصحاب عبد الله، هذا مجهول، ولا يصح الاحتجاج به .
”امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک کے ایک شاگرد کو سنا ہے۔ یہ شاگرد مجہول ہے اور اس سند سے دلیل لینا صحیح نہیں۔“ [ شرح صحيح مسلم : 19 ]
مبہم اور نامعلوم لوگوں کی روایات پر اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد رکھنا جائز نہیں۔

راقم کہتا ہے نور پوری کی بات صحیح ہے – افسوس عبد الوہاب النجدی کے نزدیک نورپوری ایک جاہل ہیں

عبد الوہاب النجدی نہ صرف سماع الموتی کے قائل تھے وہ مردوں کے کلام کے بھی قائل تھے اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں لکھتے ہیں اور ترجمہ بریلوی عالم کرتے ہیں

تاریخ دمشق میں ابن عساکر نے عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد بن حرب أبو الحسن الكوفي  کے ترجمہ میں اس روایت کو پیش کیا ہے

سند میں  يحيى بن أيوب الخزاعي مجھول ہے جو عمر رضی الله عنہ کا دور کسی مجھول سے نقل کر رہا ہے جس کا اس نے نام تک نہیں لیا

حیرت ہے کہ اس قسم کی  بے سر و پا روایات النجدی لکھتے ہیں اور دو دو عالم تحقیق میں شامل ہونے کے باوجود ایک بار بھی نہیں کہتے کہ یہ منقطع  روایت ہے مجہولوں کی روایت کردہ ہے

شبہ نمبر ٣ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں سنتے

ابن تیمیہ فتاوی الکبریٰ ج ٣ ص ٤١٢ میں لکھتے ہیں

فَهَذِهِ النُّصُوصُ وَأَمْثَالُهَا تُبَيِّنُ أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ فِي الْجُمْلَةِ كَلَامَ الْحَيِّ وَلَا يَجِبُ أَنْ يَكُونَ السَّمْعُ لَهُ دَائِمًا ، بَلْ قَدْ يَسْمَعُ فِي حَالٍ دُونَ حَالٍ كَمَا قَدْ يُعْرَضُ لِلْحَيِّ فَإِنَّهُ قَدْ يَسْمَعُ أَحْيَانًا خِطَابَ مَنْ يُخَاطِبُهُ ، وَقَدْ لَا يَسْمَعُ لِعَارِضٍ يَعْرِضُ لَهُ ، وَهَذَا السَّمْعُ سَمْعُ إدْرَاكٍ ، لَيْسَ يَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ جَزَاءٌ ، وَلَا هُوَ السَّمْعُ الْمَنْفِيُّ بِقَوْلِهِ : { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى } فَإِنَّ الْمُرَادَ بِذَلِكَ سَمْعُ الْقُبُورِ وَالِامْتِثَالِ 

پس یہ نصوص اور اس طرح کی امثال واضح کرتی ہیں کہ بے شک میّت زندہ کا کلام سنتی ہے اور یہ واجب نہیں آتا کہ یہ سننا دائمی ہو بلکہ یہ سنتی ہے حسب حال جیسے  زندہ سے پیش اتا ہے پس بے شک کبھی کھبی یہ سنتی ہے مخاطب کرنے والے کا خطا ب، .. اور یہ سنا ادرک کے ساتھ ہے  اور یہ سننا الله کے قول  { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى}  کے منافی نہیں جس سے مراد قبروں اور الِامْتِثَالِ  (تمثیلوں) کاسننا ہے

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى  ج ٤ ص ٢٧٣ پر لکھتے ہیں

أَمَّا سُؤَالُ السَّائِلِ هَلْ يَتَكَلَّمُ الْمَيِّتُ فِي قَبْرِهِ فَجَوَابُهُ أَنَّهُ يَتَكَلَّمُ وَقَدْ يَسْمَعُ أَيْضًا مَنْ كَلَّمَهُ؛ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إنَّهُمْ يَسْمَعُونَ قَرْعَ نِعَالِهِمْ

اور سائل کا سوال کہ کیا میت   قبر میں کلام کرتی ہے؟ پس اس کا جواب ہے بے شک وہ بولتی ہے اور سنتی ہے جو اس سے کلام کرے ، جیسا صحیح میں نبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے مروی ہے کہ بے شک وہ جوتوں کی چآپ سنتی ہے

ابن تیمیہ ج ١ ص ٣٤٩ پر لکھتے ہیں

وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَذَا مُوَافِقٌ لِهَذَا فَكَيْفَ يَدْفَعُ ذَلِكَ ؟ وَمِنْ الْعُلَمَاءِ مَنْ قَالَ : إنَّ الْمَيِّتَ فِي قَبْرِهِ لَا يَسْمَعُ مَا دَامَ مَيِّتًا كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ

اور بے شک صحیحین سے یہ ثابت ہے اور دیگر کتب سے بے شک میت جوتوں کی چاپ سنتی ہے جب دفنانے والے پلٹتے ہیں پس یہ موافق ہے اس (سننے ) سے لہذا اس کو کیسے رد کریں؟ اور ایسے علماء بھی ہیں جو کہتے ہیں : بے شک میت قبر میں نہیں سنتی جب تک کہ وہ مردہ ہے جیسے کہ عائشہ  (رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا

 

البانی الایات البینات از نعمان الالوسی میں تعلیق میں لکھتے ہیں

وأما حديث ” من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته ” فهو موضوع كما قال شيخ الإسلام ابن تيمية في ” مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 ) وقد خرجته في ” الضعيفة ” ( 203 ) . ولم أجد دليلا على سماعه صلى الله عليه وسلم سلام من سلم عند قبره وحديث أبي داود ليس صريحا في ذلك فلا أدري من أين أخذ ابن تيمية قوله ( 27 / 384 ) : أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

اور جہاں تک حدیث جس نے میری قبر پر درود پڑھا اس کو میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے کا تعلق ہے تو پس وہ  گھڑی ہوئی ہے  جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 )  میں کہا اور اس کی تخریج میں نے الضعيفة ” ( 203 ) میں کی اور مجھے اس کی دلیل نہیں ملی کہ نبی صلى الله عليه وسلم قبر کے پاس پڑھے جانے والا درود و سلام سنتے ہیں اور ابو داود کی حدیث اس میں واضح نہیں اور نہیں معلوم کہ ابن تیمیہ نے کہاں سے پکڑ لیا قول ( 27 / 384 )  کہ نبی صلى الله عليه وسلم قریب سے پڑھے جانے والا سلام سنتے ہیں

 

عصر حاضر میں جب ان عقائد پر ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے تیشہ چلایا تو نصرت ائمہ کی خاطر علماء کی وہ جماعت جو فکری انتشار کا شکار ہیں انہوں نے انہی شخصیات کا دفاع کرنے کی ٹھانی  لیکن چلتے چلتے  اس کا اقرار کیا کہ امام ابن تیمیہ اور ابن قیم اور شاہ ولی الله کے قلم سے تصوف کے شجر کی آبیاری ہوتی رہی ہے

غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں لکھتے ہیں

دوسری طرف علماء کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے التباس پیدا کرنے کی راہ اپنائی چانچہ  زبیر علی زئی لکھتے ہیں

http://www.tohed.com/2014/09/blog-post_80.html

میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کی کتابوں میں شرک اکابر کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، تاہم ابن القیم کی ثابت شدہ “کتاب الروح” اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔ یہ دونوں حضرات مردوں سے مدد مانگنے کے قائل نہیں تھے ، رہا مسئلہ سماع موتیٰ کا تو یہ سلف صالحین کے درمیان مختلف فیہا مسئلہ ہے ،اسے کفر و شرک سمجھنا غلط ہے

سوال یہ ہے کہ  اگر یہ مسئلہ کفر و شرک کا نہیں تو اس پھر علمی ذوق کی تسکین کے لئے کیا مردے سنتے ہیں کیوں لکھی گئی – اس مسئلہ پر تو  پر بحث ہی  بےکار ہے- اسی قبیل کے ایک دوسرے عالم   خواجہ محمد قاسم کی بھی یہی رائے ہے کہ  سماع الموتی کا مسئلہ شرک کا چور دروازہ نہیں وہ کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں

مسعود احمد ذہن پرستی میں لکھتے ہیں

سماع الموتی کے قائلین علماء کا دفاع کرتے ہوئے ایک اہل حدیث عالم لکھتے ہیں

صرف اتنی بات ہے: ﴿إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰ﴾اور ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ﴾ جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کے اسماع موتی (مردوں کو سنانے ) کی نفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ درج بالا آیات سے ایک آیت کریمہ میں آیا ہے: ﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء ﴾ کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ، سنادیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اسماع موتی کا اثبات ہے ، جن مردوں کو اللہ تعالیٰ چاہے سنا دے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہ سنیں تو اللہ تعالیٰ کا سنانا چہ معنی دارد؟ تو جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بعض موتی بعض اوقات بعض چیزیں اللہ تعالیٰ کے سنانے سے سن لیتے ہیں، جیسے خفق نعال اور قلیب بدر والی احادیث میں مذکور ہوا تو ایسے لوگ نہ قرآنِ مجید کی کسی آیت کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی حدیث کا۔ البتہ جو لوگ یہ نظریہ اپنائے ہوئے ہیں کہ کوئی مردہ کسی وقت بھی کوئی چیز نہیں سنتا، حتی کہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہیں سنتا تو انہیں غور فرمانا چاہیے کہیں آیت:﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء﴾اور احادیث خفق نعال اور احادیث قلیب بدر کا انکار تو نہیں کر رہے؟

مسئلہ الله کی قدرت کا نہیں اس کے قانون کا ہے  ان اہل حدیث عالم کی بات جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے بریلوی مکتب فکر کی بات شروع ہوتی ہے

مردے سنتے ہیں ! یہی تو تصوف کی طرف پہلا قدم ہے- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا نے اس بات کا صریح انکار کیا کہ مردے سنتے ہیں اور ابن عمر رضی الله عنہ نے بھی   جب ابن زبیر رضی الله عنہ کی لاش پر اسماء رضی الله عنہا کو  روتے دیکھا تو کہا ارواح اللہ کے پاس ہیں

سننے کے لئے عود روح ضروری سمجھا جاتا ہے لہذا اس سے متعلق البراء بن عازب رضی الله عنہ سے منسوب کردہ شیعہ زاذان کی منکر روایت کا دفاع کیا جاتا ہے

 

شبہ نمبر ٤ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں دیکھتے

غیر مقلد عالم ابو یحیی نور پوری  سوال کا جواب دیتے ہیں کہ مردے نہیں دیکھتے

https://www.youtube.com/watch?v=mCeQVoz26Q0

اگر ان کا بولنا دیکھنا دنیا سے تعلق رکھتا ہے تو ان کے پاس رشتہ دار نئے نئے کپڑے پہن کر جائیں …. عقیدہ صرف سننے کا رکھا جاتا ہے

ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ

اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے

كتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم للإمام ابن تيميه ج ٢ ص ٢٦٢  دار عالم الكتب، بيروت، لبنان میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

فأما استماع الميت للأصوات، من القراءة أو غيرها – فحق.

پس میت کا آوازوں کو،  جیسے قرات اور دیگر کا سننا  حق ہے.

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ٢٨ ص ١٤٧ میں کہتے ہیں

وَقَالَ: {أَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ. فَقَالُوا: كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْك؟ وَقَدْ أَرِمْت أَيْ بَلِيتَ. قَالَ إنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ} فَأَخْبَرَ أَنَّهُ يَسْمَعُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَأَنَّهُ يَبْلُغُهُ ذَلِكَ مِنْ الْبَعِيدِ.

رسول الله نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے دن درود  کہو اور جمعہ کی رات  کیونکہ تمہارا درود مجھ  پر پیش ہوتا ہے – اصحاب نے کہا اپ پر کیسے پیش ہوتا ہے ؟ جبکہ اپ تو مٹی ہو جائیں گے ؟ فرمایا الله نے زمیں پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کہ اس قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا پہنچا دیا جاتا ہے 

كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت  کے مطابق امام احمد کہتے تھے

كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس

وہ  (امام احمد)کہا کرتے تھے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے

عائشہ رضی الله عنہا کے مسلسل پردہ والی روایت  سے دلیل لیتے ہوئے تھذیب الکال کے مولف  امام المزی کہا کرتے تھے

قال شيخنا الحافظ عماد الدين بن كثير ووجه هذا ما قاله شيخنا الإمام أبو الحجاج المزي أن الشهداء كالأحياء في قبورهم و هذه أرفع درجة فيهم

حافظ ابن کثیر کہتے ہیں اسی وجہ  سے ہمارے شیخ المزی کہتے ہیں کہ شہداء  اپنی قبروں میں زندوں کی طرح ہیں اور یہ ان کا بلند درجہ ہے

الإجابة فيما استدركته عائشة على الصحابة للإمام الزركشي 

منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى (المتوفى: 1051هـ)  اپنی کتاب كشاف القناع عن متن الإقناع  میں لکھتے ہیں

قَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ: وَاسْتَفَاضَتْ الْآثَارُ بِمَعْرِفَةِ الْمَيِّتِ بِأَحْوَالِ أَهْلِهِ وَأَصْحَابِهِ فِي الدُّنْيَا وَأَنَّ ذَلِكَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ وَجَاءَتْ الْآثَارُ بِأَنَّهُ يَرَى أَيْضًا وَبِأَنَّهُ يَدْرِي بِمَا فُعِلَ عِنْدَهُ وَيُسَرُّ بِمَا كَانَ حَسَنًا وَيَتَأَلَّمُ بِمَا كَانَ قَبِيحًا وَكَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُولُ ” اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِك أَنْ أَعْمَلَ عَمَلًا أُجْزَى بِهِ عِنْدَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَوَاحَةَ وَكَانَ ابْنَ عَمِّهِ وَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ عِنْدَ عَائِشَةَ كَانَتْ تَسْتَتِرُ مِنْهُ، وَتَقُولُ ” إنَّمَا كَانَ أَبِي وَزَوْجِي فَأَمَّا عُمَرُ فَأَجْنَبِيٌّ ” وَيَعْرِفُ الْمَيِّتُ زَائِرَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَهُ أَحْمَدُ.

ابن تیمیہ کہتے ہیں اور جو اثار ہیں ان سے معلوم ہوتا ہےکہ میت اپنے احوال سے اور دنیا میں اصحاب سے با خبر ہوتی ہے اور اس پر (زندوں کا عمل) پیش ہوتا ہے اور وہ دیکھتی اور جانتی ہے جو کام اس کے پاس ہو اور اس میں سے جو اچھا ہے اس پر خوش ہوتی اور اس میں سے جو برا ہو اس پر الم محسوس کرتی ہے اور ابو الدرداء کہتے تھے اے الله میں پناہ مانگتا ہوں اس عمل سے جس سے میں عبد الرحمان بن رَوَاحَةَ  کے آگے شرمندہ ہوں اور وہ ان کے چچا زاد تھے اور جب عمر دفن ہوئے تو عائشہ ان سے پردہ کرتیں اور کہتیں کہ یہ تو میرے باپ اور شوہر تھے لیکن عمر تو اجنبی ہیں اور امام احمد کہتے ہیں کہ میت زائر کو جمعہ کے دن طلوع سورج سے پہلے پہچانتی ہے

البهوتى حنابلہ کے مشھور امام ہیں

الغرض ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ  کی  بات صحیح ہے کہ سلف امت کے عقائد میں  نصوص کی مخالفت تھی اور ان عقائد کو اپنایا گیا جو تھے ہی غلط اور مقصد ان کا حیات فی القبر کا اثبات تھا

حیرت اس امر پر ہے کہ جب غیر مقلدین کے نزدیک بھی یہ عقائد درست نہیں تو پھر ان  پر بطل پرستی کیوں طاری ہے ؟

دوغلا پن

ایک اسلامی غیر مقلد فورم والوں کا کہنا ہے کہ سلام پر روح لوٹائے جانے والی روایت حسن ہے لنک اور راوی صحیح مسلم کا ہے لنک

اسی فورم پر یہی عالم کہتے ہیں کہ روایت ضعیف ہے لنک

پہلے کہا گیا تھا کہ ویسے یاد رہے صحیح مسلم کے راوی کو ۔۔ضعیف ۔۔قرار دینا کوئی مذاق نہیں لیکن بعد میں یہ مذاق زبیر علی زئی سے منسوب کیا گیا ہے

شب معراج سے متعلق

https://www.islamic-belief.net/واقعہ-معراج-سے-متعلق/
اس بلاگ میں تفصیلی  کتاب موجود ہے

اسلامی تاریخ کا ایک بہت اہم واقعہ ہے کہ  مکی دور میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عالم بالا لے جایا گیا اس میں عالم ملکوت و جبروت کا مشاہدہ ہوا- جنت  کا دورہ ہوا اور اس کی نعمت کو دیکھا –  انبیاء سے وہاں ملاقات ہوئی جن میں فوت شدہ اور زندہ عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے

سوره النجم میں ہے

اسے پوری طاقت والے  نے سکھایا ہے (5) جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا (6

اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا (7

پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا (8

پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم (9

پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی (10

دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا (11

کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں (12) اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (13) سدرةالمنتہیٰ کے پاس (14)

اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے (15

جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی (16

نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی (17

یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں (18

صحیح بخاری کتاب التوحید میں امام بخاری نے شریک بن عبد الله کی سند سے روایت لا کر  بتایا ہے کہ یہاں ان آیات میں الله تعالی کا ذکر ہے

، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، ‏‏‏‏‏‏وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَدَلَّى، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ 

۔ پھر جبرائیل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت اللہ تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی

راقم کہتا ہے امام بخاری سے غلطی ہوئی ان کا اس روایت کو صحیح سمجھنا غلط ہے اس کی تفصیل نیچے آئی گی

معراج کا کوئی چشم دید شاہد نہیں یہ رسول الله کو جسمانی ہوئی ان کو عین الیقین کرانے کے لئے اور ایمان والے ایمان لائے  اس کا ذکر سوره النجم میں بھی ہے

اس واقعہ پر کئی آراء اور روایات ہیں جن میں سے کچھ مباحث کا یہاں تذکرہ کرتے ہیں

معراج جسمانی تھی یا خواب تھا؟

رسول الله صلی الله علیہ وسلم آسمان پر گئے وہاں سے واپس آئے اور اسکی خبر مشرکین کو دی انہوں نے انکار کیا کہ ایسا ممکن نہیں اس پر سوره الاسراء یا بنی اسرائیل نازل ہوئی اس کی آیت ہے کہ مشرک کہتے ہیں کہ

وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا (90) أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا (91) أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا (92)
أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا (93)

ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک تم زمین پھاڑ کر نہریں نہ بنا دو، انگور و کھجور کے باغ نہ لگا دو ، آسمان کا ٹکڑا نہ گرا دو یا الله اور کے فرشتے آ جائیں یا تمہارا گھر سونے کا ہو جائے یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے کتاب لاؤ جو ہم پڑھیں! کہو: سبحان الله! کیا میں ایک انسانی رسول کے علاوہ کچھ ہوں؟

بعض لوگوں نے معراج کا انکار کیا اور دلیل میں انہی  آیات کو  پیش کیا

آسمان پر چڑھنے کا مطلب ہے کہ یہ عمل مشرکین کے سامنے ہونا چاہیے کہ وہ دیکھ لیں جیسا شق قمر میں ہوا لیکن انہوں نے اس کو جادو کہا –  اگر وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو آسمان پر جاتا دیکھ لیتے تو کیا ایمان لے اتے؟ وہ اس کو بھی جادو کہتے-  خواب کے لئے لفظ حَلَم ہے اسی سے احتلام نکلا ہے جو سوتے میں ہوتا ہے –  رویا کا مطلب دیکھنا ہے صرف الرویا کا مطلب منظر ہے جو نیند اور جاگنے میں دونوں پر استمعال ہوتا ہے

کتاب معجم الصواب اللغوي دليل المثقف العربي از الدكتور أحمد مختار عمر بمساعدة فريق عمل کے مطابق
أن العرب قد استعملت الرؤيا في اليقظة كثيرًا على سبيل المجاز
بے شک عرب الرویا کو مجازا جاگنے (کی حالت) کے لئے بہت استمعال کرتے ہیں

سوره بني إسرائيل میں ہے

{وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء: 60]

اور ہم نے جو الرویا (منظر) تمھارے لئے کیا جو تم کو دکھایا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کے لئے تھا 

صحیح ابن حبان میں ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے کہ

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْذِرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ الطَّائِيُّ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ بن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ} قَالَ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ

یہ منظر کشی یہ آنکھ سے دیکھنے پر ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے معراج کی رات دیکھا

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

لما کذبنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطغت اخبرھم عن آیاتہ وانا انظر الیہ
کہ جب کفار مکہ نے میرے اس سفر کو جھٹلایا اور مجھ سے بیت المقدس کے متعلق سوال شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کر دیا میں اسے دیکھ کر بتاتا جا رہا تھا۔

بعض لوگوں نے کہا معراج ایک خواب تھا مثلا امیر المومنین فی الحدیث الدجال من الدجاجله  محمد بن اسحاق کہتے تھے کہ معراج ایک خواب ہے  تفسیر طبری میں ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: ثنا سَلَمَةُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: ثني بَعْضُ آلِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ عَائِشَةَ، كَانَتْ تَقُولُ: مَا فُقِدَ جَسَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَسْرَى بِرُوحِهِ

محمد نے کہا کہ اس کو بعض ال ابی بکر نے بتایا کہ عائشہ کہتیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جسد نہیں کھویا تھا بلکہ روح کو معراج ہوئی

ابن اسحاق اس قول کو ثابت سجھتے تھے لہذا کہتے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال ابن إسحاق: فلم ينكر ذلك من قولها الحسن أن هذه الآية نزلت (وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ) ولقول الله في الخبر عن إبراهيم، إذ قال لابنه (يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى) ثم مضى على ذلك، فعرفت أن الوحي يأتي بالأنبياء من الله أيقاظا ونياما، وكان رسول صلى الله عليه وسلم يقول: “تَنَامُ عَيْني وَقَلْبي يَقْظانُ” فالله أعلم أيّ ذلك كان قد جاءه وعاين فيه من أمر الله ما عاين على أيّ حالاته كان نائما أو يقظانا كلّ ذلك حقّ وصدق.

ابن اسحاق نے کہا : عائشہ رضی الله عنہا کے اس قول کا انکار نہیں کیا … انبیاء پر الوحی نیند اور جاگنے دونوں میں اتی ہے اور رسول الله کہتے میری آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے

 کتاب السيرة النبوية على ضوء القرآن والسنة  از محمد بن محمد بن سويلم أبو شُهبة (المتوفى: 1403هـ)  کے مطابق

وذهب بعض أهل العلم إلى أنهما كانا بروحه- عليه الصلاة والسلام- ونسب القول به إلى السيدة عائشة- رضي الله عنها- وسيدنا معاوية- رضي الله عنه- ورووا في هذا عن السيدة عائشة أنها قالت: «ما فقدت «1» جسد رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ولكن أسري بروحه» وهو حديث غير ثابت، وهّنه القاضي عياض في «الشفا» «2» سندا ومتنا، وحكم عليه الحافظ ابن دحية بالوضع

اور بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ معراج روح سے ہوئی اور اس قول کی نسبت عائشہ اور معاویہ رضی الله عنہم سے کی جاتی ہے رضی الله عنہم اور عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جسد کہیں نہیں کھویا تھا بلکہ معراج روح کو ہوئی اور یہ حدیث ثابت نہیں ہے اس کو قاضی عیاض نے کمزور کیا ہے الشفا میں سندا اور متنا اور اس پر ابن دحیہ نے گھڑنے کا حکم لگایا ہے

اگر یہ روایت گھڑی ہوئی ہے تو اس کا بار امیر المومنین فی الحدیث، الدجال من الدجاجلہ  محمد بن اسحاق پر ہے کہ نہیں؟

ابن اسحٰق باوجود اس کے کہ اس میں انہوں نے نام تک نہیں لیا جس سے سنا اس قول کا دفاع کرتے تھے لگتا ہے اس دور میں اصول حدیث ہی الگ تھے

بعض لوگوں نے ابن اسحاق کو چھپا کر اس میں نام محمد بن حميد بن حيان  کر دیا جو بہت بعد کا ہے اور خود تفسیر طبری میں اس روایت کے تحت ابن اسحاق کا نام لیا گیا ہے

اسی طرح کا ایک قول معاویہ رضی الله عنہ سے منسوب ہے لیکن  وہ منقطع  ہے کیونکہ اس کا قائل  يعقوب بن عتبة بن المغيرة بن الأخنس المتوفی ١٢٨ ھ  ہے جس کی ملاقات  معاوية المتوفی ٦٠ ھ سے نہیں بلکہ کسی بھی صحابی سے نہیں

کیا معراج پر بعض اصحاب رسول مرتد ہوئے؟

ایک روایت کتاب دلائل النبوه از البیہقی کی ہے جس کو شیعہ اور یہاں تک کہ اہل سنت بھی  پیش کرتے رہتے ہیں کہ معراج کی خبر پر بعض اصحاب رسول مرتد ہوئے- روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْمِهْرَانِيُّ الْمُزَكِّي قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِيهُ بِبَغْدَادَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْقَاضِي أَبُو الْأَحْوَصِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْمِصِّيصِيُّ، (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ [ص:361] الصَّنْعَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ مِمَّنْ كَانُوا آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَعَوْا بِذَلِكَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ فِي صَاحِبِكَ؟ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ فِي اللَّيْلِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ: أَوَقَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ: لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: وَتُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ قَالَ: نَعَمْ , إِنِّي لَأُصَدِّقُهُ بِمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ: أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ فِي غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ. فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقَ

عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ جس رات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد الاقصی تک سیر کی اس سے اگلی صبح جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات لوگوں میں ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے جو اس سے پہلے با ایمان اور (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی) تصدیق کرنے والے تھے. کچھ لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا آپ کو اپنے صاحب کے بارے میں کچھ معلوم ہے وہ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وہ راتوں رات بیت المقدس سے ہو کر مکہ واپس آ گئے ہیں. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کیا واقعی انہوں نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں بالکل کہی ہے. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا پھر میں شہادت دیتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ ہے! لوگوں نے کہا کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کے وہ ایک ہی رات میں شام تک چلے گئے اور واپس مکہ صبح ہونے سے پہلے آ گئے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! میں ان کی تصدیق اس سے دور مسافت پر بھی کرتا ہوں کیونکہ میں اس کی تصدیق آسمانوں کی خبر کی صبح و شام کرتا ہوں. راوی کہتے ہیں اسی معاملے کے بعد ان کا لقب صدیق مشہور ہو گیا.

أخرجه الحاكم في «المستدرك» (3: 62- 63) ، وقال: «هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه» ، ووافقه الذهبي، وأخرجه ابن مردويه من طريق هشام بن عروة، عن أبيه، عنها.

امام حاکم اس کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے

اس کی سند میں  محمد بن كثير الصنعاني المصيصي ہے کتاب  الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط کے مطابق

قال ابن سعد ـ:ـ يذكرون أنه اختلط في آخر عمره

ابن سعد نے کہا ذکر کیا جاتا ہے یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھا

عقیلی نے اس کا الضعفاء  میں ذکر کیا ہے

قال عبد الله بن أحمد: ذكر أبي محمد بن كثير المصيصي فضعفه جدًا، وقال سمع من معمر، ثم بعث إلى اليمن فأخذها فرواها، وضعف حديثه عن معمر جدًا وقال: هو منكر الحديث، أو قال: يروي أشياء منكره. «العلل» (5109) .

عبد الله بن امام احمد نے کہا میں نے باپ سے محمد بن کثیر کا ذکر کیا انہوں نے شدت سے اس کی تضعیف کی اور کہا اس  نے معمر سے سناپھر یمن  گیا ان سے اخذ کیا اور روایت کیا اور یہ معمر سے روایت کرنے میں شدید ضعیف ہے اور یہ منکر الحدیث ہے 

مستدرک میں امام الذھبی سے غلطی ہوئی ایک مقام پر اس روایت کو صحیح کہا ہے

أَخْبَرَنِي مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَلَدِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ” لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ فَمَنْ كَانَ آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَمِعُوا بِذَلِكَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ إِلَى صَاحِبِكَ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ: أَوَ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَئِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: أَوَ تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنِّي لَأَصُدِّقُهُ فِيمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ فِي غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ، فَلِذَلِكَ سُمَيَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4407 – صحيح

لیکن آگے جا کر اس کو تلخیص میں نقل نہیں کیا لہذا محقق کہتے ہیں یہ ضعیف تھی

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السَّمَّاكِ الزَّاهِدُ، بِبَغْدَادَ ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمُ الْبَلَوِيِّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا مَعْمَرُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ” لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى أَصْبَحَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ مِمَّنْ كَانَ آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَسَعَى رِجَالٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: هَلْ لَكَ إِلَى صَاحِبِكِ يَزْعُمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ قَالَ: أَوَقَالَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَئِنْ قَالَ ذَلِكَ لَقَدْ صَدَقَ، قَالُوا: أَوَ تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَجَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، إِنِّي لَأَصُدِّقُهُ فِي مَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِكَ أُصَدِّقُهُ فِي خَبَرِ السَّمَاءِ فِي غُدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ، فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» ، «فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِيَّ صَدُوقٌ»
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4458 – حذفه الذهبي من التلخيص لضعفه

اس طرح کی ایک روایت مسند احمد میں ابن عباس سے مروی ہے

حسنه الألباني في كتاب الإسراء والمعراج ص76، وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح.  وصححه الحافظ ابن كثير في “تفسيره” 5/26.

البانی نے كتاب الإسراء والمعراج ص76 میں اس کو حسن کہہ دیا ہے اور ابن کثیر ،  شعیب اور احمد شاکر  نے صحیح

مسند احمد میں ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثُمَّ جَاءَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَحَدَّثَهُمْ بِمَسِيرِهِ وَبِعَلَامَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَبِعِيرِهِمْ فَقَالَ نَاسٌ قَالَ حَسَنٌ نَحْنُ نُصَدِّقُ مُحَمَّدًا بِمَا يَقُولُ فَارْتَدُّوا كُفَّارًا … وَرَأَى الدَّجَّالَ فِي صُورَتِهِ رُؤْيَا عَيْنٍ لَيْسَ رُؤْيَا مَنَامٍ … الی آخر الحدیث(مسند احمد جلد 3 صفحہ477-478 روایت نمبر 3546 مکتبہ دار الحدیث قاہرہ ،مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 476-477 روایت نمبر 3546، مکتبۃ الشاملہ)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج بیت المقدس کی سیر کرائی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات واپس بھی آ گئے اور قریش کو اپنے جانے کے متعلق اور بیت المقدس کی علامات اور ان کے ایک قافلے کے متعلق بتایا، کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس بات کی کیسے تصدیق کر سکتے ہیں، یہ کہہ کر وہ دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے…اسی شب معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نہ کہ خواب میں.

سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، وَحَسَنٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ حَسَنٌ أَبُو زَيْدٍ: قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: قَالَ: حَدَّثَنَا هِلَالٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

اس کی سند میں  هلال بن خباب البصري کا تفرد ہے

 ابن القطان: تغير بأخرة

 ابن القطان کہتے ہیں  یہ آخری عمر میں تغير  کا شکار تھا

کتاب الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط   کے مطابق

قال يحيى القطان أتيته وكان قد تغير وقال العقيلي في حديثه وهم وتغير بأخرة

ابن حبان ، الساجی ، عقیلی، ابن حجر سب کے مطابق یہ راوی  اختلاط  کا شکار تھا

ابن حبان کہتے ہیں  ابن حبان: لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد. اس کی منفرد روایت سے دلیل نہ لی جائے

واقعہ معراج اور انبیاء سے ملاقات

واقعہ معراج صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ان میں بھی اضطراب بھی  ہے

صحیح بخاری صحیح بخاری صحیح بخاری صحیح بخاری صحیح مسلم مسند البزار
امام الزہری کی روایت قتادہ بصری کی روایت شریک کی روایت حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ  بصری کی روایت حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ  بصری کی روایت
حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدَّثنا حَمَّادٌ، عَنْ ثابتٍ الْبُنَانِيِّ، عَن أَنَس بْنِ مَالِكٍ
سِدْرَةُ المُنْتَهَى سِدْرَةُ المُنْتَهَى تک پہنچے سِدْرَةُ المُنْتَهَى تک پہنچے السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى تک پہنچے السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى تک پہنچے
ساتواں آسمان إِبْرَاهِيمُ مُوسَى ابراہیم – الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ ابراہیم
 چھٹا آسمان ابراہیم ابراہیم مُوسَى إِبْرَاهِيمَ موسی موسی
پانچواں آسمان هَارُونُ ھارُونَ ھارُونَ
چوتھا آسمان إِدْرِيسَ هَارُونَ إِدْرِيسَ ادریس
تیسرا آسمان يُوسُفُ يُوسُفَ یوسف
دوسرا آسمان يَحْيَى وَعِيسَى إِدْرِيسَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَيَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّاءَ عِيسَى وَيَحْيَى
پہلا آسمان آدم آدم آدم آدَمَ آدم آدم

صحیح بخاری کی شریک بن عبد الله کی روایت پر محدثین کو بہت اعتراض ہے

شريك بن عبد الله النخعي القاضي

وسماع المتأخرين عنه بالكوفة فيه أوهام انتهى

اس سے کوفہ کے متاخرین نے سنا ہے اور اس کو وہم بہت ہے

الذھبی میزان میں کہتے ہیں

ووهاه ابن حزم لاجل حديثه في الاسراء،

ابن حزم نے اس کو واہی قرار دیا ہے اس کی حدیث معراج کی بنا پر

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں

وَهُوَ رَاوِي حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ وَانْفَرَدَ فِيهِ بِأَلْفَاظٍ غَرِيبَةٍ

یہ حدیث معراج کا راوی ہے اور اس میں غریب الفاظ پر اس کا تفرد ہے

سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی  کہتے ہیں

وَفِي حَدِيْثِ الإِسْرَاءِ مِنْ طَرِيْقِه أَلْفَاظٌ، لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهَا، وَذَلِكَ فِي (صَحِيْحِ البُخَارِيِّ) .

اور اس کی حدیث معراج ہے ان الفاظ سے جن کی متابعت نہیں ہے اور ایسا صحیح بخاری میں ہے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطآئی میں ہے

وفي كتاب ابن الجارود: ليس به بأس، وليس بالقوي، وكان يحيى بن سعيد لا يحدث عنه.

ابن الجارود کی کتاب میں ہے اس میں برائی نہیں ، یہ قوی نہیں اور یحیی بن سعید القطان اس سے روایت نہیں کرتے

 شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ نے اس روایت میں دعوی کیا کہ معراج ایک خواب تھا جو نبوت سے پہلے  کا واقعہ ہے

 لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الكَعْبَةِ: جَاءَهُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ، قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ، وَهُوَ نَائِمٌ فِي مَسْجِدِ الحَرَامِ

جس رات نبی صلی الله علیہ وسلم کو معراج ہوئی وہ مسجد کعبہ میں تھے … قبل اس کے ان پر الوحی  ہوئی

 کتاب التوشيح شرح الجامع الصحيح از السيوطي  کے مطابق

فمما أنكر عليه فيه قوله: “قبل أن يوحى إليه”، فإن الإجماع على أنه كان من النبوة، وأجيب عنه بأن الإسراء وقع مرتين، مرة في المنام قبل البعثة وهي رواية شريك، ومرة في اليقظة بعدها.

شریک کی روایت کا جو انکار کیا گیا ہے اس میں یہ قول ہے کہ یہ الوحی کی آمد سے پہلے ہوا پس اجماع ہے کہ معراج نبوت میں ہوئی اور اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ دو بار ہوئی ایک دفعہ نیند میں بعثت سے پہلے اور دوسری بار جاگتے ہیں 

راقم کہتا ہے یہ بات عقل سے عاری ہے روایت صحیح نہیں لیکن زبر دستی اس کو صحیح قرار دیا جا رہا ہے

معراج کی رات کیا انبیاء کو نماز پڑھائی؟

اس میں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کا اختلاف تھا سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھیں یہ سب ایک کرشمہ الہی اور معجزاتی رات ہے اس میں جو بھی ہو گا وہ عام نہیں ہے خاص ہے

امام طحآوی نے مشکل الاثار میں اس بات  پر بحث کی ہے اور ان کی رائے میں نماز پڑھائی ہے

وہاں انہوں نے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی ایک روایت دی ہے

 عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی ایک  روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے براق کو باندھا اور وہاں تین انبیاء ابراہیم علیہ السلام ، موسی علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی بشمول دیگر انبیاء کے جن کا نام قرآن میں نہیں ہے واضح رہے کہ مسجد الاقصی داود یا  سلیمان علیہ السلام کے دور میں بنی اس میں نہ موسی علیہ السلام نے نماز پڑھی نہ ابراہیم علیہ السلام نے نماز پڑھی  لہذا روایت میں ہے انبیاء نے نماز پڑھی  فَصَلَّيْتُ بِهِمْ إِلَّا هَؤُلَاءِ النَّفْرَ سوائے ان تین کے جن میں إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى عَلَيْهِمُ السَّلَامُ ہیں  – اسکی سند میں مَيْمُون أَبُو حَمْزَة الْقَصَّاب الأعور كوفي. کا تفرد ہے جو متروک الحدیث ہے حیرت ہے امام حاکم اس روایت کو اسی سند سے  مستدرک میں پیش کرتے ہیں

الهيثمي  اس ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت کو کتاب  المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي میں پیش کرتے ہیں کہتے ہیں

قُلْتُ: لابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ فِي الإِسْرَاءِ فِي الصَّحِيحِ غَيْرُ هَذَا

میں کہتا ہوں صحیح میں اس سے الگ روایت ہے

مسند احمد میں انس رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے براق کو باندھا  ثُمَّ دَخَلْتُ، فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ میں اس مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعت پڑھی-   لیکن انبیاء کی امامت کا ذکر نہیں – اس روایت میں حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ البصری کا تفرد بھی ہے جو آخری عمر میں  اختلاط کا شکار تھے  اور بصرہ  کے ہیں

مشکل آثار میں الطحاوی نے اس بات کے لئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انبیاء کی امامت کی کچھ اور روایات پیش کی ہیں مثلا

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا جَاءَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي أُسْرِيَ بِهِ إِلَيْهِ فِيهَا، بُعِثَ لَهُ آدَمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ دُونَهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَمَّهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ،  انس سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم بیت المقدس معراج کی رات پہنچے وہاں آدم علیہ السلام دیگر انبیاء کے ساتھ آئے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امامت کی

اس کی سند میں عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ہیں جو مجھول ہیں دیکھئے المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ

قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ الْأَقْصَى قَامَ يُصَلِّي، ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا النَّبِيُّونَ أَجْمَعُونَ يُصَلُّونَ مَعَهُ

جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصی میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگے، پھر آپ نے ادھر ادھر دیکھا تو تمام انبیائے کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ نماز ادا کر رہے تھے

امام احمد ( 4 / 167 ) نے اس کو ابن عباس سے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند بھی کمزور ہے سند میں قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ الْجَنْبِيُّ ہے جس کے لئے ابن سعد کہتے ہیں  وَفِيهِ ضَعْفٌ لَا يُحْتَجُّ بِهِ اس میں کزوری ہے نا قابل دلیل ہے البتہ ابن کثیر نے اس روایت کو تفسیر میں صحیح کہا ہے شعيب الأرنؤوط  اس کو اسنادہ ضعیف اور احمد شاکر صحیح کہتے ہیں

صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ بیت المقدس میں فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ  نمازکا وقت آیا تومیں نے انبیاء کی امامت کرائی

 سندآ یہ بات  صرف  أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمنِ بنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ  المتوفی ١١٠ ھ  ، أَبِي هُرَيْرَةَ سے نقل کرتے ہیں

یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس وقت – وقت نہیں ہے –  وقت تھم چکا ہے اور کسی نماز کا وقت نہیں آ سکتا کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رات کی نماز پڑھ کر سوتے تھے انکو سونے کے بعد جگایا گیا اور اسی رات میں آپ مکہ سے یروشلم  گئے وہاں سے سات آسمان اور پھر انبیاء سے مکالمے  ہوئے – جنت و جنہم کے مناظر، سدرہ المنتہی کا منظر یہ  سب دیکھا تو کیا وقت ڈھلتا رہا؟ نہیں

صحیح بخاری کی کسی بھی حدیث میں معراج کی رات انبیاء کی امامت کا ذکر نہیں ہے جبکہ بخاری میں أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کی سند سے روایات موجود ہیں – لہذا انس رضی الله عنہ کی کسی بھی صحیح روایت میں انبیاء کی امامت کا ذکر نہیں ہے

الغرض یہ قول اغلبا  ابو ہریرہ رضی الله عنہ کا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بیت المقدس میں انبیاء کی امامت کی بقیہ اصحاب رسول اس کو بیان نہیں کرتے

روایات کا اضطراب آپ کے سامنے ہے ایک میں ہے باقاعدہ نماز کے وقت جماعت ہوئی جبکہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رات کے وقت سونے کی حالت میں آپ  کو جگایا گیا دوسری میں ہے رسول الله نے خود دو رکعت پڑھی امامت کا ذکر نہیں تیسری میں ہے رسول الله نماز پڑھ رہے تھے جب سلام پھیرا تو دیکھا انبیا ساتھ ہیں یعنی یہ سب مضطرب روایات ہیں

صحیح ابن حبان اور مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: أَتَيْتُ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: ” فَانْطَلَقْتُ ـ أَوْ انْطَلَقْنَا   ـ حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ “، فَلَمْ يَدْخُلَاهُ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ دَخَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ وَصَلَّى فِيهِ، قَالَ: مَا اسْمُكَ يَا أَصْلَعُ؟ فَإِنِّي أَعْرِفُ وَجْهَكَ، وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُكَ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا زِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ، قَالَ: فَمَا عِلْمُكَ بِأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهِ لَيْلَتَئِذٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: الْقُرْآنُ يُخْبِرُنِي بِذَلِكَ، قَالَ: مَنْ تَكَلَّمَ بِالْقُرْآنِ فَلَجَ، اقْرَأْ، قَالَ: فَقَرَأْتُ: {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} [الإسراء: 1] ، قَالَ: فَلَمْ أَجِدْهُ صَلَّى فِيهِ، قَالَ: يَا أَصْلَعُ، هَلْ تَجِدُ صَلَّى فِيهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: وَاللهِ مَا صَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ، لَوْ صَلَّى فِيهِ لَكُتِبَ عَلَيْكُمْ صَلَاةٌ فِيهِ، كَمَا كُتِبَ عَلَيْكُمْ صَلَاةٌ فِي الْبَيْتِ الْعَتِيقِ، وَاللهِ مَا زَايَلَا الْبُرَاقَ حَتَّى فُتِحَتْ لَهُمَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَرَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ، ثُمَّ عَادَا عَوْدَهُمَا عَلَى بَدْئِهِمَا، قَالَ: ثُمَّ ضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ، قَالَ: وَيُحَدِّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ   أَلِيَفِرَّ مِنْهُ؟، وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، قَالَ: قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ اللهِ، أَيُّ دَابَّةٍ الْبُرَاقُ؟ قَالَ: دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ الْبَصَرِ

أَبُو النَّضْرِ  کہتے ہیں ہم سے شَيْبَانُ نے روایت کیا ان سے ْ عَاصِمٍ نے ان سے  زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ نے کہا میں حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رضی الله عنہ کے پاس پہنچا اور وہ معراج کی رات کا بیان کر رہے تھے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ  میں چلا یا ہم چلے (یعنی جبریل و نبی) یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے لیکن اس میں داخل نہ ہوئے- میں ( زر بن حبیش ) نے کہا بلکہ وہ داخل ہوئے اس رات اور اس میں نماز پڑھی – حُذَيْفَةَ رضی الله عنہ نے کہا اے گنجے تیرا نام کیا ہے ؟ میں تیرا چہرہ جانتا ہوں لیکن نام نہیں – میں نے کہا زر بن حبیش- حُذَيْفَةَ نے کہا تمہیں کیسے پتا کہ اس رات رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز بھی پڑھی ؟ میں نے کہا قرآن نے اس پر خبر دی – حُذَيْفَةَ نے کہ جس نے قرآن کی بات کی وہ حجت میں غالب ہوا  – پڑھ !  میں نے پڑھاپاک ہے وہ جو لے گیا رات کے سفر میں  اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی  .. حُذَيْفَةَ نے کہا مجھے تو اس میں نہیں ملا کہ نماز بھی پڑھی – انہوں نے کہا اے گنجے کیا تجھے اس میں ملا کہ نماز بھی پڑھی ؟ میں نے کہا نہیں – حُذَيْفَةَ نے کہا الله کی قسم کوئی نماز نہ پڑھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس رات  اگر پڑھی ہوتی تو فرض ہو جاتا جیسا کہ بیت الحرام کے لئے فرض ہے اور الله کی قسم وہ براق سے نہ اترے حتی کہ آسمان کے دروازے کھلے اور جنت و جہنم کو دیکھا اور  دوسری باتوں کو دیکھا جن کا وعدہ ہے پھر وہ آسمان ویسا ہی ہو گیا  جسے کہ پہلے تھآ -زر نے کہا  پھر حُذَيْفَةَ ہنسے  اور کہا اور لوگ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کو (براق کو) باندھا کہ بھاگ نہ جائے،  جبکہ اس کو تو عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے مسخر کیا

حذیفہ رضی الله عنہ کی روایت عاصم بن ابی النجود سے ہے جو اختلاط کا شکار ہو گئے تھے لہذا اس روایت کو بھی رد کیا جاتا ہے لیکن جتنی کمزور امامت کرنے والی روایت ہے اتنی ہی امامت نہ کرنے والی ہے

 راقم کے نزدیک حذیفہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث صحیح ہے اور  صوآب  ہے- یہ صحابہ کا اختلاف ہے – حذیفہ رضی الله عنہ  کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم یروشلم گئے آپ کو مسجد الاقصی فضا سے ہی  دکھائی گئی –  واضح رہے  براق سے اترنے کا صحیح بخاری میں بھی  کوئی ذکر نہیں ہے- محدث ابن حبان  کے نزدیک حذیفہ رضی الله عنہ کی روایت صحیح ہے اور انہوں نے اسکو صحیح ابن حبان میں بیان کیا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے دوسرے اصحاب کے اقوال بھی نقل کیے ہیں جن میں براق سے اترنے کا ذکر ہے

راقم  کہتا ہے اگر یہ مان لیں کہ انبیاء کو نماز پڑھائی  تو وہاں بیت المقدس میں عیسیٰ  علیہ السلام بھی تھے  ان کا بھی جسد عنصری تھا کیونکہ ان پر ابھی موت واقع نہیں ہوئی – یعنی   امام مسلم کا عقیدہ تھا کہ دو انبیا کو جسد عنصری کے ساتھ اس رات معراج ہوئی ایک نبی علیہ السلام اور دوسرے عیسیٰ علیہ السلام – راقم کہتا ہے یہ موقف کیسے درست ہے ؟ اس طرح تو نزول مسیح معراج پر ہو چکا لہذا انبیاء زمین پر نہیں آئے نہ نماز ہوئی

معراج پر سدرہ المنتہی سے آگے جانا؟

نعلین کے حوالے سے غلو کی ایک وجہ بریلوی فرقہ اور صوفیاء کی جانب سے  بیان کی جاتی ہے کہ

موسی علیہ السلام جب طوی کی مقدس وادی میں تشریف لے گئے تو سورۃ طہ کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیا طه،٢٠ : ١١۔

 إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى

 اے موسٰی بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو

اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم جب معراج پر عرش تک گئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں ملتا کہ کسی مقام پر ان کے نعلین مبارک اتروائے گئے ہوں اس کو دلیل بناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یقینا یہ نعلین بہت مبارک ہیں اور ان کی شبیہ بنانا جائز ہے حالانکہ صحیحین کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی تک ہی گئے اس سے آگے  نہیں اور یہ تو کسی حدیث میں نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم عرش تک  گئے

جلتے ہیں پر جبریل کے جس مقام پر

اسکی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو

ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم جب سدرہ المنتہی سے آگے بڑھے تو جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اگے جائیے ہماریے تو پر جلتے ہیں

تفسیر روح البیان از مفسر إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي , المولى أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ)  کے مطابق جبریل کے الفاظ تھے

لو تجاوزت لاحرقت بالنور. وفى رواية لو دنوت انملة لاحترقت

ان الفاظ کو فصوص الحکم میں ابن عربی   ٦٣٨ ہجری نے نقل کیا  ہے اور شیعوں کی کتاب بحار الانوار از ملا باقر مجلسی (المتوفی ١١١١ ھ) میں بھی یہ الفاظ نقل ہوئے  ہیں

ابن عربی کی تفسیر میں ہے

تفسير ابن عربي – ابن العربي – ج 2 – ص 148
هو الذي يصلي عليكم ) * بحسب تسبيحكم بتجليات الأفعال والصفات دون
الذات لاحتراقهم هناك بالسبحات ، كما قال جبريل عليه السلام : ‘ لو دنوت أنملة
لاحترقت ‘ .

جیسا کہ جبریل نے کہا : اگر سرکوں تو بھسم ہو جاؤں

اصل میں بات کس سند سے اہل سنت کو ملی پتا نہیں

شیخ سعدی صوفی شیرازی المتوفی ٦٩٠ ھ کے اشعار ہیں

چنان كرم در تيه قربت براند … كه در سدره جبريل از وباز ماند
بدو كفت سالار بيت الحرام … كه اى حامل وحي برتر خرام
چودر دوستى مخلصم يافتى … عنانم ز صحبت چرا تافتى
بگفتا فرا تر مجالم نماند … بماندم كه نيروى بالم نماند
اگر يك سر موى برتر پرم … فروغ تجلى بسوزد پرم

آخری شعر اسی پر ہے

لگتا ہے ساتویں صدی میں ابن عربی اور شیخ سعدی کو یہ بات کسی شیعہ سے ملی اور عالم میں پھیل گئی

تفسير الميزان از العلامة الطباطبائي کے مطابق

و في أمالي الصدوق، عن أبيه عن علي عن أبيه عن ابن أبي عمير عن أبان بن عثمان عن أبي عبد الله جعفر بن محمد الصادق (عليه السلام) قال: لما أسري برسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) إلى بيت المقدس حمله جبرئيل على البراق فأتيا بيت المقدس و عرض عليه محاريب الأنبياء و صلى بها

و فيه، بإسناده عن عبد الله بن عباس قال: إن رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) لما أسري به إلى السماء انتهى به جبرئيل إلى نهر يقال له النور
….
فلما بلغ إلى سدرة المنتهى و انتهى إلى الحجب، قال جبرئيل: تقدم يا رسول الله ليس لي أن أجوز هذا المكان و لو دنوت أنملة لاحترقت.
پس جب سدرہ المنتہی تک پھنچے اور حجاب تک آئے جبریل نے کہا یا رسول الله اپ آگے جائیے میری لئے جائز نہیں کہ آگے جاؤں اس مکان سے اور اگر ایک قدم بھی سرکوں گا میں جل جاؤں گا

یعنی یہ بات امالی صدوق المتوفی ٣٨١ ھ کی ہے جو شیعوں کی مستند کتاب ہے

کتاب حقيقة علم آل محمد (ع) وجهاته – السيد علي عاشور – ص 44 کے مطابق
وعن أبي عبد الله ( عليه السلام ) : ” ان هذه الآية مشافهة الله لنبيه لما أسرى به إلى
السماء ، قال النبي ( صلى الله عليه وآله ) : انتهيت إلى سدرة المنتهى ” ( 3 ) .
ومنها الحديث المستفيض : قول جبرائيل للنبي محمد ( صلى الله عليه وآله ) : تقدم .
فقال النبي ( صلى الله عليه وآله ) : ” في هذا الموضع تفارقني ” .
فقال جبرائيل : لو دنوت أنملة لاحترقت

اس کتاب کے شیعہ محقق کے مطابق یہ قول ان شیعہ تفاسیر اور کتابوں میں بھی ہے

راجع تفسير الميزان : 19 / 35 ، وتفسير نور الثقلين : 5 / 155 ، وعيون الأخبار
1 / 205 باب 26 ح 22 ، وينابيع المودة : 2 / 583 ، وكمال الدين : 1 / 255 وبحار الأنوار :
26 / 337 ، وتاريخ الخميس : 1 / 311 ذكر المعراج .

اب اس قول کی سند اور متن اصل مصدر سے دیکھتے ہیں
الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 435 – 436
ثم قال : تقدم يا محمد .
فقال له : يا جبرئيل ، ولم لا تكون معي ؟ قال : ليس لي أن أجوز هذا المكان . فتقدم
‹ صفحة 436 ›
رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) ما شاء الله أن يتقدم ، حتى سمع ما قال الرب تبارك وتعالى : أنا
المحمود ، وأنت محمد ، شققت اسمك من اسمي ، فمن وصلك وصلته ومن قطعك
بتلته ( 1 ) انزل إلى عبادي فأخبرهم بكرامتي إياك ، وأني لم أبعث نبيا إلا جعلت له
وزيرا ، وأنك رسولي ، وأن عليا وزيرك .

جبریل نے رسول الله سے کہا : اپ آگے بڑھیے -رسول الله نے پوچھا اے جبریل اپ نہیں جائیں گے؟

جبریل نے کہا : میرے لئے نہیں کہ اس مقام سے آگے جاؤں پس رسول الله خود گئے جہاں تک اللہ نے چاہا یہاں تک کہ رب تبارک و تعالی کو سنا : میں محمود ہیں اور اپ محمد ہیں میں نے اپنا نام  تمہارے نام میں ملایا  جس کو تم جوڑو میں جوڑوں گا جس کو تم توڑوں میں اس کو ختم کر دوں گا میرے بندوں پر نازل کرو پس ان کو خبر دو جو تمہاری کرامت میرے پاس ہے کہ میں کوئی نبی مبعوث نہیں کرتا لیکن اس کا  وزیر کرتا ہوں اور تم میرے رسول ہو اور علی تمہارے وزیر

اس کی سند اس کتاب  الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 435 میں ہے

576 / 10 –

حدثنا أبي ( رضي الله عنه ) ، قال : حدثنا سعد بن عبد الله ، قال : حدثنا
أحمد بن أبي عبد الله البرقي ، عن أبيه ، عن خلف بن حماد الأسدي ، عن أبي الحسن
العبدي ، عن الأعمش ، عن عباية بن ربعي ، عن عبد الله بن عباس ، قال : إن رسول
الله ( صلى الله عليه وآله ) لما أسري به إلى السماء ، انتهى به جبرئيل إلى نهر يقال له النور ، وهو
….قول الله عز وجل : ( خلق الظلمات والنور

روایت کی سند میں  عباية  بن ربعى ہے  الذھبی میزان میں اس پر کہتے ہیں
من غلاة الشيعة.

شیعہ کے غالییوں میں سے ہیں

اس سے اعمش روایت کرتے ہیں میزان میں الذھبی لکھتے ہیں

قال العلاء بن المبارك: سمعت أبا بكر بن عياش يقول: قلت للاعمش: أنت حين  تحدث عن موسى، عن عباية..فذكره، فقال: والله ما رويته إلا على وجه الاستهزاء.

ابو بکر بن عیاش نے اعمش سے کہا : تم کہاں تھے جب  موسى بن طريف نے  عباية بن ربعى سے روایت کی ؟ اعمش نے کہا والله میں تو  عباية بن ربعى کا مذاق اڑنے کے لئے اس سے روایت کرتا ہوں

الغرض اس کی سند میں غالی شیعہ ہیں اور اعمش کھیل کھیل میں ان کی روایات بیان کرتے تھے

ما شاء اللہ

اس میں دو باتیں قابل غور ہیں کتاب الامالی از صدوق میں یہ بھی تھا کہ جبریل نے کہا میرے پر جل جائیں گے جیسا لوگ لکھتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کتاب میں یہ الفاظ اب نہیں ہیں

یہ کتاب اب قم  سے چھپی ہے

قسم الدراسات الإسلامية – مؤسسة البعثة – قم
Print : الأولى
Date of print : 1417
Publication :
Publisher : مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة
ISBN : 964-309-068-X

دوسری اہم بات ہے کہ عباية بن ربعى نے ایسا کیوں کہ کہ جبریل کو ہٹا دیا – ؟ اس کی وجہ ہے کہ عباية بن ربعى یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ بات کہ علی وزیر ہیں  الوحی کی اس قسم میں سے نہیں جو جبریل سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ملی لہذا علی کی امامت کا ذکر قرآن میں اس وجہ سے نہیں کیونکہ  یہ تو رسول الله کو الله تعالی نے براہ راست حکم دیا تھا کہ علی وزیر ہیں  اس کی خبر تک جبریل علیہ السلام کو نہ ہو سکی

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی (بحار الأنوار / جزء 3 / صفحة [ 315 ]) میں روایت ہے

ع: أبي، عن سعد، عن ابن عيسى، عن ابن محبوب، عن مالك بن عيينة (2) عن حبيب السجستاني قال: سألت أبا جعفرعليه السلام عن قوله عزوجل: ” ثم دنى فتدلى فكان قاب قوسين أو أدنى فأوحى إلى عبدهاقرأ: ثم دنى فتدانا فكان قاب قوسين أو أدنى، فأوحى الله إلى عبده يعني رسول الله صلى الله عليه وآله ما أوحى، يا حبيب إن رسول الله صلى الله عليه وآله لما فتح مكة أتعب نفسه في عبادة الله عزوجل والشكر لنعمه في الطواف بالبيت وكان علي عليه السلام معه فلما غشيهم الليل انطلقا إلى الصفا والمروة يريدان السعي، قال: فلما هبطا من الصفا إلى المروة وصارا في الوادي دون العلم الذي رأيت غشيهما من السماء نور فأضاءت هما جبال مكة، وخسأت أبصارهما، (1) قال: ففزعا لذلك فزعا شديدا، قال: فمضى رسول الله صلى الله عليه وآله حتى ارتفع من الوادي، وتبعه علي عليه السلام فرفع رسول الله صلى الله عليه وآله رأسه إلى السماء فإذا هو برمانتين على رأسه، قال: فتناولهما رسول الله صلى الله عليه وآله فأوحى الله عزوجل إلى محمد: يا محمد إنها من قطف الجنة فلا يأكل منها إلا أنت ووصيك علي بن أبي طالب عليه السلام، قال: فأكل رسول الله صلى الله عليه وآله إحديهما، وأكل علي عليه السلام الاخرى ثم أوحى الله عزوجل إلى محمد صلى الله عليه وآله ما أوحى. قال أبو جعفر عليه السلام: يا حبيب ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” يعني عندها وافا به جبرئيل حين صعد إلى السماء، قال: فلما انتهى إلى محل السدرة وقف جبرئيل دونها وقال: يا محمد إن هذا موقفي الذي وضعني الله عزوجل فيه، ولن أقدر على أن أتقدمه، ولكن امض أنت أمامك إلى السدرة، فوقف عندها، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله إلى السدرة وتخلف جبرئيل عليه السلام، قال أبو جعفر عليه السلام: إنما سميت سدرة  المنتهى لان أعمال أهل الارض تصعد بها الملائكة الحفظة إلى محل السدرة، و الحفظة الكرام البررة دون السدرة يكتبون ما ترفع إليهم الملائكة من أعمال العباد في الارض، قال: فينتهون بها إلى محل السدرة، قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وآله فرأى أغصانها تحت العرش وحوله، قال: فتجلى لمحمد صلى الله عليه وآله نور الجبار عزوجل، فلما غشي محمدا صلى الله عليه وآله النور شخص ببصره، وارتعدت فرائصه، قال: فشد الله عزوجل لمحمد قلبه و قوى له بصره حتى رأى من آيات ربه ما رأى، وذلك قول الله عزوجل: ” ولقد رآه نزلة اخرى عند سدرة المنتهى عندها جنة المأوى ” قال يعني الموافاة، قال: فرأي محمد صلى الله عليه وآله ما رأى ببصره من آيات ربه الكبرى، يعني أكبر الآيات

حبيب السجستاني کہتے ہیں میں نے امام جعفر سے (سورہ النجم)  پر سوال کیا اپ نے فرمایا الله تعالی نے نبی صلی الله علیہ وسلم پر الوحی کی … یعنی سدرہ المنتہی کے پاس جبریل وہاں آسمان پر چڑھے سدرہ کے پاس اور کہا جب سدرہ کے مقام پر پہنچے تو رک گئے اور کہا اے محمد یہ میرے رکنے کا مقام ہے جو الله تعالی نے میرے لئے بنایا ہے اور میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ آگے جا سکوں لیکن اپ سدرہ سے آگے جائیے اور وہاں رک جائیں- امام جعفر نے کہا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے سدرہ سے اور جبریل کو پیچھے چھوڑ دیا … پس وہاں عرش کے نیچے دیکھا اور اس کے گرد پس وہاں محمد صلی الله علیہ و الہ پر نور جبار تجلی ہوا جس سے اپ پر نیند طاری ہوئی  … پس الله تعالی نے اپ کا دل مضبوط کیا اور بصارت قوی کی یہاں تک کہ اپ نے آیات الله دیکھیں جو دیکھیں

یعنی اہل تشیع کے ہاں یہ بات قبول کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے اور وہاں خاص الوحی ہوئی جس میں علی  کا ذکر تھا

خیال رہے کہ سند میں مالك بن عيينة  ایک مجھول ہے جس کا ذکر کتب رجال شیعہ میں نہیں ملا

لب لباب ہے کہ  یہ دعوی کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے عرش تک گئے اور ان کے نعلین پاک نے نعوذباللہ عرش عظیم کو مس کیا سراسر بے سروپا بات ہے

بیت المعمور یا بیت المقدس ؟

اہل تشیع کی ایک دوسری روایت کے مطابق مسجد الاقصی سے مراد بیت المعمور ہے

کتاب  اليقين – السيد ابن طاووس – ص 294 –  میں  علی کی امامت پر روایت ہے جس  کی سند اور متن ہے

حدثنا أحمد بن إدريس قال : حدثنا أحمد بن محمد بن عيسى قال : حدثنا الحسين بن سعيد عن فضالة بن أيوب عن أبي بكر الحضرمي عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه . فقال : يا أمير المؤمنين ، إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني ! قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل * ( واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) *   ، فهل في ذلك الزمان نبي غير محمد صلى الله عليه وآله فيسأله عنه ؟ . فقال له أمير المؤمنين عليه السلام : إجلس أخبرك إنشاء الله ، إن الله عز وجل يقول في كتابه : * ( سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله لنريه من آياتنا ) * ، فكان من آيات الله التي أريها محمد صلى الله عليه وآله أنه انتهى جبرئيل إلى البيت المعمور وهو المسجد الأقصى ، فلما دنا منه أتى جبرئيل عينا فتوضأ منها ، ثم قال يا محمد ، توضأ . ‹ صفحة 295 › ثم قام جبرئيل فأذن ثم قال للنبي صلى الله عليه وآله : تقدم فصل واجهر بالقراءة ، فإن خلفك أفقا من الملائكة لا يعلم عدتهم إلا الله جل وعز . وفي الصف الأول : آدم ونوح وإبراهيم وهو وموسى وعيسى ، وكل نبي بعث الله تبارك وتعالى منذ خلق الله السماوات والأرض إلى أن بعث محمدا صلى الله عليه وآله . فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله فصلى بهم غير هائب ولا محتشم . فلما انصرف أوحى الله إليه كلمح البصر : سل يا محمد * ( من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) * . فالتفت إليهم رسول الله صلى الله عليه وآله بجميعه فقال : بم تشهدون ؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأنت رسول الله وأن عليا أمير المؤمنين وصيك ، وأنت رسول الله سيد النبيين وإن عليا سيد الوصيين ، أخذت على ذلك مواثيقنا  لكما بالشهادة . فقال الرجل : أحييت قلبي وفرجت عني يا أمير المؤمنين

ایک شخص، علی رضی الله عنہ کے پاس آیا اور وہ مسجد کوفہ میں تھے اور ان کی تلوار ان کی کمر سے بندھی تھی – اس شخص نے علی سے کہا اے امیر المومنین قرآن میں آیت ہے جس نے  مجھے اپنے دین میں اضطراب میں مبتلا کیا ہے انہوں نے پوچھا کون سی آیت ہے وہ شخص بولا

  واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون

اور پوچھو  پچھلے بھیجے جانے والے رسولوں  میں سے کیا ہم نے  رحمان کے علاوہ کوئی اور الہ بنایا جس کی انہوں نے  عبادت  کی ؟

امام علی نے کہا بیٹھ جاؤالله نے چاہا تو میں بتاتا ہوں- الله نے قرآن میں کہا متبرک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کو با برکت بنایا تاکہ اپنی کچھ نشانیاں دکھائے

ایک نشانی جو دکھائی گئی وہ یہ تھی کہ محمد صلی الله علیہ و الہ کو جبریل بیت المعمور لے گئے جو مسجد الاقصی ہے – وہ وضو کا پانی لائے اور جبریل نے اذان دی اور محمد کو کہا کہ آگے آئیے اور امامت کرائیے- فرشتے صفوں میں کھڑے ہوئے اور ان کی تعداد الله ہی جانتا ہے اور پہلی صف میں آدم، عیسیٰ اور ان سے پہلے گزرے انبیاء  تھے – جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کو کہا گیا کہ رسولوں سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے الله کے سوا دوسرے خدائوں کی عبادت کی ؟ تو جب انہوں نے پوچھا تو رسولوں نے کہا ہم گواہی دتیے ہیں کہ الله کے سوا کوئی الہ نہیں، آپ الله کے رسول ہیں اور علی امیر المومنین آپ کے وصی ہیں – آپ سید الانبیاء ہیں اور علي،  سيد الوصيين ہیں اس کے بعد انہوں نےعہد کیا  – وہ شخص بولا اے امیر المومنین آپ نے میرے دل کو خوشی دی اور مسئلہ کھول دیا

بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج 18 – ص ٣٩٤ میں  اس  روایت کی سند ہے

 كشف اليقين : محمد بن العباس ، عن أحمد بن إدريس ، عن ابن عيسى ، عن الأهوازي عن فضالة ، عن الحضرمي عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين ( عليه السلام ) وهو في مسجد الكوفة

کتاب  تأويل الآيات – شرف الدين الحسيني – ج 2 – ص  ٥٦٤ کے مطابق سند ہے

وروى محمد بن العباس ( رحمه الله ) في سورة الإسراء عن أحمد بن إدريس عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسين بن سعيد ، عن فضالة بن أيوب ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين عليه السلام وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه ، فقال : يا أمير المؤمنين إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل : ( وسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمن آلهة يعبدون ) فهل كان في ذلك الزمان نبي غير محمد فيسأله عنه ؟

أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري کو   أحمد بن محمد أبو جعفر اور أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري القمي بھی کہا جاتا ہے یہ الحسين بن سعيد الأهوازي سے روایت کرتے ہیں مندرجہ بالا تمام کتب میں مرکزی راوی  الحسين بن سعيد ہیں  جو فضالة سے روایت کرتے ہیں  کتاب  معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج 14 – ص 290 – ٢٩١ کے مطابق

 قال لي أبو الحسن بن البغدادي السوراني البزاز : قال لنا الحسين ابن يزيد السوراني : كل شئ رواه الحسين بن سعيد عن فضالة فهو غلط ، إنما هو الحسين عن أخيه الحسن عن فضالة ، وكان يقول إن الحسين بن سعيد لم يلق فضالة ، وإن أخاه الحسن تفرد بفضالة دون الحسين ، ورأيت الجماعة تروي ‹ صفحة 291 › بأسانيد مختلفة الطرق ، والحسين بن سعيد عن فضالة ، والله أعلم

ابو الحسن نے کہا کہ الحسین بن یزید  نے کہا کہ جو کچھ بھی حسین بن سعید ، فضالة سے روایت کرتا ہے وہ غلط ہے بے شک وہ حسین اپنے بھائی حسن سے اور وہ فضالة سے روایت کرتا ہے اور کہتے تھے کہ حسین کی فضالة

 سے تو ملاقات تک نہیں ہوئی اور ان کا بھائی حسن ، فضالة سے روایت میں منفرد ہے  اور ایک جماعت  اس سے روایت کرتی ہے .. و الله اعلم

الغرض یہ روایت  شیعہ محققین کے نزدیک منقطع ہے لیکن بعض اس کو جوش و خروش سے سناتے ہیں

تفسیر فرات میں ہے

فرات قال: حدثنا جعفر بن أحمد معنعنا [ عن عباد بن صهيب عن جعفر بن محمد عن أبيه ] عن علي بن الحسين: عن فاطمة [ بنت محمد.أ، ب.عليهم السلام.ر ] قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: لما عرج بي إلى السماء فصرت إلى سدرة المنتهى (فكان قاب قوسين أو أدنى) فرأيته بقلبي ولم أره بعيني، سمعت الاذان قالوا: شهدنا وأقررنا، قال: واشهدوا يا ملائكتي وسكان سماواتي وأرضي وحملة عرشي بأن عليا وليي وولي رسولي وولي المؤمنين.قالوا: شهدنا وأقررنا

عباد بن صهيب نے روایت کیا …. فاطمہ سے انھوں نے اپنے باپ نبی صلی الله علیہ و الہ سے کہ جب میں آسمان پر بلند ہوا تو سدرہ المنتہی تک گیا پس وہ دو کمانوں سے بھی کم پر قریب آیا میں نے اس کو قلب سے دیکھا آنکھ سے نہ دیکھا اور  کانوں نے سنا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے اور  الله نے کہا اے فرشتوں گواہ ہو جاؤ اور اے آسمان کے باسیوں اور زمین کے اور عرش کو اٹھانے والے کہ علی میرے ولی ہیں اور رسول اور مومنوں کے – ان سب نے کہا ہم نے اقرار کیا گواہ ہوئے

سند میں عباد بن صهيب ہے جو اہل سنت میں متروک ہے اور شیعوں میں ثقہ ہے

معراج پر کیا نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا؟

امام بخاری نے اس سلسلے میں متضاد روایات پیش کی ہیں ایک میں ان کے مطابق نبوت سے قبل رسول الله پر الوحی ہوئی اس میں دیکھا کہ الله تعالی قاب قوسین کے فاصلے پر ہیں اور پھر صحیح میں ہی عائشہ رضی الله عنہا کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے سختی سے اس کا انکار کیا کہ معراج میں الله تعالی کو دیکھا

عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ – رضى الله عنها -: يَا أُمَّتَاهْ! هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ – صلى الله عليه وسلم – رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِى مِمَّا قُلْتَ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ}، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} , وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى غَدٍ؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166)، وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ [شَيئاً مِمَا أنْزِلَ إِليهِ 5/ 188} [مِنَ الوَحْي 8/ 210]؛ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} الآية. [قالَ: قلت: فإنَّ قَوْلَهُ: {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى}. قالَتْ:] ولكنَّهُ [قَدْ 4/ 83] رَأَى جِبْرِيلَ – عَلَيْهِ السَّلاَمُ – (وفى روايةٍ: ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِى صُورَةِ الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ الْمَرَّةَ) فِى صُورَتِهِ [الَّتِى هِىَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الأُفُقَ]؛ مَرَّتَيْنِ

عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے مسروق رحمہ الله علیہ نے پوچھا کہ اے اماں کیا  محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ تمہاری اس بات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دے تم سے جو کوئی تین باتیں کہے اس نے جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ محمّد نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے قرات کی {لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} نگاہیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نگاہوں تک پہنچ جاتا ہے اور وہ باریک بین اور جاننے والا ہے ، {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ الله إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ الله اس سے کلام کرے سوائے وحی سے یا پردے کے پیچھے سے   آپ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا کہ  جو یہ کہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جانتے تھے کہ کل کیا ہو گا اس نے جھوٹ بولا پھر آپ نے تلاوت کی {وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا} اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا (وفي روايةٍ: (لا يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ) 8/ 166) اور ایک روایت کے مطابق کوئی نہیں جانتا غیب کو سوائے الله کے . اور اس نے بھی جھوٹ بولا جو یہ کہے کہ آپ نے وحی میں سے کچھ چھپایا  پھر آپ نے تلاوت کی ، {يَا أيُّها الرسولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالاَتِهِ]} اے رسول جو الله نے آپ پر نازل کیا ہے اس کو لوگوں تک پہنچے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہ کیا . مسروق کہتے  ہیں میں نے عرض کی کہ الله تعالی کا قول ہے {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى} پھر قریب آیا اور معلق ہوا اور دو کمانوں اور اس اس سے کم فاصلہ رہ گیا. عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا اور ایکروایت میں ہے کہ وہ جبریل تھے وہ آدمی کی شکل میں اتے تھے اور اس دفعہ وہ اپنی اصلی شکل میں آئے یہ وہی صورت تھی جو افق پر دیکھی تھی دو دفعہ

دوسری طرف  قاضی ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ اپنی دوسری کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں کہ معراج کے موقعہ پر

ورأى ربه، وأدناه، وقربه، وكلمه، وشرّفه، وشاهد الكرامات والدلالات، حتى دنا من ربه فتدلى، فكان قاب قوسين أو أدنى. وأن الله وضع يده بين كتفيه فوجد بردها بين ثدييه فعلم علم الأولين والآخرين وقال عز وجل: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60] . وهي رؤيا يقظة (1) لا منام. ثم رجع في ليلته بجسده إلى مكة

اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا وہ قریب آیا ہم کلام ہوا شرف دیا اور کرامات دکھائی یہاں تک کہ قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب۔   اور بے شک الله تعالی نے اپنا باتھ شانے کی ہڈیوں کے درمیان رکھا اور اسکی ٹھنڈک نبی صلی الله علیہ وسلم نے پائی اور علم اولین ا آخرین دیا اور الله عز و جل نے کہا {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} [الإسراء:60]  اور یہ دیکھنا جاگنے میں ہوا نہ کہ نیند میں. پھر اس کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسد کے ساتھ واپس مکہ آئے

حنبلیوں کا یہ عقیدہ قاضی ابو یعلی مولف طبقات الحنابلہ پیش کر رہے ہیں جو ان کے مستند امام ہیں

حنبلی عالم عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ)  کتاب الاقتصاد في الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وأنه صلى الله عليه وسلم رأى ربه عز وجل كما قال عز وجل: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى}  قال الإمام أحمد في ما روينا عنه: وأن النبي صلى الله عليه وسلم رأى عز وجل، فإنه مأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم، صحيح رواه قتادة عكرمة عن ابن عباس. [ورواه الحكم بن إبان عن عكرمة عن ابن عباس] ، ورواه علي بن زيد عن يوسف بن مهران عن ابن عباس. والحديث على ظاهره كما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم، والكلام فيه بدعة، ولكن نؤمن به كما جاء على ظاهره، ولا نناظر فيه أحداً

وروى عن عكرمة عن ابن عباس قال: ” إن الله عز وجل اصطفى إبراهيم بالخلة واصطفى موسى بالكلام، واصطفى محمدً صلى الله عليه وسلم بالرؤية ” ـ وروى عطاء عن ابن عباس قال: ” رأى محمد صلى الله عليه وسلم ربه مرتين ” وروي عن أحمد ـ رحمه الله ـ أنه قيل له: بم تجيب عن قول عائشة رضي الله عنها: ” من زعم أن محمداً قد رأى ربه عز وجل …” الحديث؟ قال: بقول النبي صلى الله عليه وسلم: ” رأيت ربي عز وجل

بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا جیسا کہ اللہ تعالی نے کہا وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى امام احمد کہتے ہیں جیسا ہم سے روایت کیا گیا ہے کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا  پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے اور عکرمہ ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک الله تعالی نے نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے چنا اور  موسٰی کو دولت کلام کے لئے چنا اور محمد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے دیدار کے لئے چنا  اور عطا ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا اور احمد سے روایت کیا جاتا ہے الله رحم کرے کہ وہ ان سے پوچھا گیا ہم عائشہ رضی الله عنہا کا قول کا کیا جواب دیں کہ جس نے یہ دعوی کیا کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا … الحدیث ؟ امام احمد نے فرمایا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول سے (ہی کرو) کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے  اپنے رب عز وجل  کودیکھا

راقم کے  نزدیک ابان عن عکرمہ والی روایت اور قتادہ عن عکرمہ والی رویت باری تعالی لی روایات  صحیح نہیں ہیں

  قاضی عیاض  کتاب  الشفاء بتعريف حقوق المصطفی میں لکھتے ہیں  کہ چونکہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا اور  عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی ہے، لہذا اس معاملے میں ان کی خبر معتبر نہیں ہے

صحیح ابن خزیمہ کے مولف أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة المتوفی ٣١١ ھ كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل  کہتے ہیں

فَأَمَّا خَبَرُ قَتَادَةَ، وَالْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہ عَنْهُمَا، وَخَبَرُ عَبْدِ الله بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهعَنْهُمَا فَبَيِّنٌ وَاضِحٌ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُثْبِتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى رَبَّهُ

پس جو خبر قتادہ اور الحکم بن ابان سے عکرمہ سے اور ابن عباس سے آئی ہے اور خبر جو عبد الله بن ابی سلمہ سے وہ ابن عباس سے آئی ہے اس میں بین اور واضح ہے کہ ابن عباس سے ثابت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا

ابن خزیمہ  اسی کتاب میں لکھتے ہیں

وَأَنَّهُ جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخْصُوصًا بِرُؤْيَةِ خَالِقِهِ، وَهُوَ فِي السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، لَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ وَهُوَ فِي الدُّنْيَا،

اور بے شک یہ جائز ہے کہ اپنے خالق کو دیکھنا نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہو اور وہ ساتویں آسمان پر تھے اور دینا میں نہیں تھے جب انہوں نے الله تعالی کو دیکھا تھا

اس طرح محدثین اور متکلمیں کے گروہ کا اجماع ہوا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا ہر چند کہ ام المومنین عائشہ صدیقه رضی الله عنہا اس کا انکار کرتی تھیں

یہ بات کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو دیکھا مختلف سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہ سے منسوب ہیں جن میں بعض میں ہے کہ الله تعالی کو دل کی آنکھ سے دیکھا

لیکن بعض میں یہ بھی ہے کہ الله تعالی کو ایک جوان مرد کی صورت گھنگھریالے بالوں کے ساتھ دیکھا جس کی تصحیح بہت سے علماء نے کی ہے

ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية ج ٧ ص ٢٢٥ پر ان روایات کو پیش کرتے ہیں اور امام احمد کا قول نقل کرتے ہیں کہ
قال حدثنا عبد الله بن الإمام أحمد حدثني أبي قال حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء قال وأبلغت أن الطبراني قال حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس في الرؤية صحيح وقال من زعم أني رجعت عن هذا الحديث بعدما حدثت به فقد كذب وقال هذا حديث رواه جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم وجماعة من التابعين عن ابن عباس وجماعة من تابعي التابعين عن عكرمة وجماعة من الثقات عن حماد بن سلمة قال وقال أبي رحمه الله روى هذا الحديث جماعة من الأئمة الثقات عن حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم وذكر أسماءهم بطولها وأخبرنا محمد بن عبيد الله الأنصاري سمعت أبا الحسن عبيد الله بن محمد بن معدان يقول سمعت سليمان بن أحمد يقول سمعت ابن صدقة الحافظ يقول من لم يؤمن بحديث عكرمة فهو زنديق وأخبرنا محمد بن سليمان قال سمعت بندار بن أبي إسحاق يقول سمعت علي بن محمد بن أبان يقول سمعت البراذعي يقول سمعت أبا زرعة الرازي يقول من أنكر حديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عيه وسلم رأيت ربي عز وجل فهو معتزلي

عبد الله کہتے ہیں کہ امام احمد نے کہا حدثنا الأسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا میں نے اپنے رب کو ایک مرد کی صورت دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے اور مجھ تک پہنچا کہ طبرانی نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے جو یہ کہے کہ اس کو روایت کرنے کے بعد میں نے اس سے رجوع کیا جھوٹا ہے اور امام احمد نے کہا اس کو صحابہ کی ایک جماعت رسول الله سے روایت کرتی ہے …. اور ابو زرعہ نے کہا جو اس کا انکار کرے وہ معتزلی ہے

یعنی امام ابن تیمیہ ان روایات کو صحیح کہتے تھے اور ان کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی کو قلب سے  دیکھا حنابلہ میں بہت سے  لوگ مانتے ہیں کہ معراج حقیقی تھی جسم کے ساتھ تھی نہ کہ خواب اور وہ ان روایات کو معراج پر مانتے ہیں ابن تیمیہ ان کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن قلبی رویت مانتے ہیں

صالح المنجد یہ اقرار کرتے ہیں کہ اس حدیث کو ائمہ نے صحیح کہا ہے
=================
ورد حديث يفيد رؤية النبي صلى الله عليه وسلم ربه مناما على صورة شاب أمرد ، وهو حديث مختلف في صحته ، صححه بعض الأئمة ، وضعفه آخرون
https://islamqa.info/ar/152835
————-
اور ان کے مطابق صحیح کہتے والے ہیں
===============
وممن صحح الحديث من الأئمة : أحمد بن حنبل ، وأبو يعلى الحنبلي ، وأبو زرعة الرازي .
==================
یہ وہ ائمہ ہیں جن میں حنابلہ کے سرخیل امام احمد اور قاضی ابویعلی ہیں اور ابن تیمیہ بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص مانتے ہیں

===============
صالح المنجد کہتے ہیں
وممن ضعفه : يحيى بن معين ، والنسائي ، وابن حبان ، وابن حجر ، والسيوطي .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية في “بيان تلبيس الجهمية”: (7/ 229): ” وكلها [يعني روايات الحديث] فيها ما يبين أن ذلك كان في المنام وأنه كان بالمدينة إلا حديث عكرمة عن ابن عباس وقد جعل أحمد أصلهما واحداً وكذلك قال العلماء”.
وقال أيضا (7/ 194): ” وهذا الحديث الذي أمر أحمد بتحديثه قد صرح فيه بأنه رأى ذلك في المنام ” انتهى .
=============

یہ علمی خیانت ہے ابن تیمیہ نے معاذ بن جبل کی روایت کو خواب والی قرار دیا ہے نہ کہ ابن عباس سے منسوب روایات کو

اسی سوال سے منسلک ایک تحقیق میں محقق لکھتے ہیں کہ یہ مرد کی صورت والی روایت کو صحیح کہتے تھے
http://www.dorar.net/art/483
((رأيت ربي في صورة شاب أمرد جعد عليه حلة خضراء))
وهذا الحديث من هذا الطريق صححه جمعٌ من أهل العلم، منهم:
الإمام أحمد (المنتخب من علل الخلال: ص282، وإبطال التأويلات لأبي يعلى 1/139)
وأبو زرعة الرازي (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/144)
والطبراني (إبطال التأويلات لأبي يعلى 1/143)
وأبو الحسن بن بشار (إبطال التأويلات 1/ 142، 143، 222)
وأبو يعلى في (إبطال التأويلات 1/ 141، 142، 143)
وابن صدقة (إبطال التأويلات 1/144) (تلبيس الجهمية 7 /225 )
وابن تيمية في (بيان تلبيس الجهمية 7/290، 356) (طبعة مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف- 1426هـ)

حنابلہ یا  غیر مقلدین میں فرق صرف اتنا ہے کہ حنابلہ کے نزدیک یہ دیکھا اصلی آنکھ سے تھا اور غیر مقلدین کے نزدیک قلبی رویت تھا

راقم کہتا ہے روایات ضعیف ہیں اس کے خلاف  الذھبی نے ابن جوزی نے حکم لگائے ہیں

صحیح مسلم کی روایت  نور دیکھا؟

صحیح مسلم کی ایک روایت ٤٤٣   اور   ٤٤٤ ہے  جو ابو ذر رضی الله عنہ سے مروی ہے اس میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ
یزید بن ابراہیم نے قتادہ سے ، انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے اور انہوں نے حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کی کہا : میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا؟ آپ نے جواب دیا : وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھتا 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي ح، وَحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا عفَّانُ بْنُ مُسْلمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ كِلَاهمَا عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتَ لِأَبِي ذرٍّ، لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: عَنْ أيِّ شيْءٍ كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُ، فَقَالَ: رَأَيْتُ نُورًا
ہشام اورہمام دونوں نے، قتادہ سے روایت  کیا  انہوں نے عبد اللہ بن شقیق سے ،انہوں نےکہا : میں نےابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا : اگرمیں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو آپ سے سوال کرتا ۔ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا : تم ان کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ؟ عبد اللہ بن شقیق نے کہا : میں آپ ﷺ سے سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میں نے آپ سے (یہی) سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایاتھا : ’’ میں نے نور دیکھا ۔

کتاب كشف المشكل من حديث الصحيحين  میں ابن جوزی نے اس پر تبصرہ کیا ہے

وَفِي الحَدِيث السَّابِع عشر: سَأَلت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: هَل رَأَيْت رَبك؟ فَقَالَ: ” نور، أَنى اراه “.  ذكر أَبُو بكر الْخلال فِي كتاب ” الْعِلَل ” عَن أَحْمد بن حَنْبَل أَنه سُئِلَ عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَ: مَا زلت مُنْكرا لهَذَا الحَدِيث وَمَا أَدْرِي مَا وَجهه. وَذكر أَبُو بكر مُحَمَّد بن إِسْحَق بن خُزَيْمَة فِي هَذَا الحَدِيث تضعيفا فَقَالَ: فِي الْقلب من صِحَة سَنَد هَذَا الْخَبَر شَيْء، لم أر أحدا من عُلَمَاء الْأَثر فطن لعِلَّة فِي إِسْنَاده، فَإِن عبد الله بن شَقِيق كَأَنَّهُ لم يكن يثبت أَبَا ذَر وَلَا يعرفهُ بِعَيْنِه واسْمه وَنسبه، لِأَن أَبَا مُوسَى مُحَمَّد ابْن الْمثنى حَدثنَا قَالَ: حَدثنَا معَاذ بن هِشَام قَالَ: حَدثنِي أبي عَن قَتَادَة عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: أتيت الْمَدِينَة، فَإِذا رجل قَائِم على غَرَائِر سود يَقُول: أَلا ليبشر أَصْحَاب الْكُنُوز بكي فِي الجباه والجنوب فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَر، فَكَأَنَّهُ لَا يُثبتهُ وَلَا يعلم أَنه أَبُو ذَر. وَقَالَ ابْن عقيل: قد أجمعنا على أَنه لَيْسَ بِنور، وخطأنا الْمَجُوس فِي قَوْلهم: هُوَ نور. فإثباته نورا مَجُوسِيَّة مَحْضَة، والأنوار أجسام. والبارئ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لَيْسَ بجسم، وَالْمرَاد بِهَذَا الحَدِيث: ” حجابه النُّور ” وَكَذَلِكَ رُوِيَ فِي حَدِيث أبي مُوسَى، فَالْمَعْنى: كَيفَ أرَاهُ وحجابه النُّور، فَأَقَامَ الْمُضَاف مقَام الْمُضَاف إِلَيْهِ.  قلت: من ثَبت رُؤْيَة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ربه عز وَجل فَإِنَّمَا ثَبت كَونهَا لَيْلَة الْمِعْرَاج، وَأَبُو ذَر أسلم بِمَكَّة قَدِيما قبل الْمِعْرَاج بِسنتَيْنِ ثمَّ رَجَعَ  إِلَى بِلَاد قومه فَأَقَامَ بهَا حَتَّى مَضَت بدر وَأحد وَالْخَنْدَق، ثمَّ قدم الْمَدِينَة، فَيحْتَمل أَنه سَأَلَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حِين إِسْلَامه: هَل رَأَيْت رَبك، وَمَا كَانَ قد عرج بِهِ بعد، فَقَالَ: ” نور، أَنى أرَاهُ؟ ” أَي أَن النُّور يمْنَع من رُؤْيَته، وَقد قَالَ بعد الْمِعْرَاج فِيمَا رَوَاهُ عَنهُ ابْن عَبَّاس: ” رَأَيْت رَبِّي “.

رسول الله سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ فرمایا نور ہے کیسے دیکھتا اور اس کا ذکر ابو بکر الخلال نے کتاب العلل میں امام احمد کے حوالے سے کیا کہ ان سے اس حدیث پر سوال ہوا پس کہا میں اس کو منکر کہنے سے نہیں ہٹا اور … ابن خزیمہ نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا  اس خبر کی صحت پر دل میں کچھ ہے اور میں نہیں دیکھتا کہ محدثین  سوائے اس کے کہ وہ اس کی اسناد پر طعن ہی کرتے رہے کیونکہ اس میں عبد الله بن شقیق ہے جو ابو ذر سے روایت کرنے میں مضبوط نہیں  اور اس کو  نام و نسب سے نہیں جانا جاتا کیونکہ ابو موسی نے روایت کیا  حَدثنَا قَالَ: حَدثنَا معَاذ بن هِشَام قَالَ: حَدثنِي أبي عَن قَتَادَة کہ  عبد الله بن شَقِيق نے کہا میں مدینہ پہنچا تو وہاں ایک شخص کو … کھڑے دیکھا … پس لوگوں نے کہا یہ ابو ذر ہیں.. کہ گویا کہ اس عبد الله کو پتا تک نہیں تھا کہ ابو ذر کون ہیں! اور ابن عقیل نے کہا ہمارا اجماع ہے کہ الله نور نہیں ہے  اور مجوس نے اس قول میں غلطی کی کہ وہ نور ہے پس اس کا اثبات مجوسیت ہے  اور اجسام منور  ہوتے ہیں نہ کہ الله سبحانہ و تعالی اور یہ حدیث میں مراد ہے کہ نور اس کا حجاب ہے … اور میں ابن جوزی کہتا ہوں : اور جس کسی  نے اس روایت کو ثابت کہا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا انہوں نے اس کو  معراج کی رات میں ثابت کیا ہے اور ابی ذر مکہ میں ایمان لائے معراج سے دو سال پہلے پھر اپنی قوم کی طرف لوٹے ان کے ساتھ رہے یھاں تک کہ بدر اور احد اور خندق گزری پھر مدینہ پہنچے پس احتمال ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا ہو جب ایمان لائے ہوں کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ اور اس وقت اپ کو معراج نہیں ہوئی تھی پس رسول الله نے فرمایا نور ہے اس کو کیسے  دیکھوں اور بے شک معراج کے بعد کہا جو ابن عباس نے روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا

صحیح مسلم میں ایک طرف تو معراج کی  روایت میں کہیں نہیں کہ اپ صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے ہوں دوسری طرف علماء کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نور دیکھا جو حجاب عظمت تھا جو نوری ہے اور اس کی روشنی اس قدر تھی کہ آنکھ بشری سے کچھ دیکھ نہ  سکے

اس تضاد کو  شارح مسلم امام ابو عبداللہ مازری  نے بیان کیا  اور ان کے بعد سب لوگ شروحات میں  بغیر سوچے نقل کرتے رہے – مازری کہتے ہیں

الضمير في أراه عائد على الله سبحانه وتعالى ومعناه أن النور منعني من الرؤية كما جرت العادة بإغشاء الأنوار الأبصار ومنعها من إدراك ما حالت بين الرائى وبينه وقوله صلى الله عليه وسلم (رأيت نورا) معناه رأيت النور فحسب ولم أر غيره 

حدیث کے الفاظ  أراه میں  ضمیر اللہ تعالی کی طرف  پلٹتی  ہے ، یعنی میں اللہ کو کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ کیونکہ نور جو اس کا حجاب ہے وہ مجھے اللہ کو دیکھنے سے روک لیتا ہے ، جیسا کہ عادت جاری میں ہے کہ  تیز روشنی نگاہ  پر چھا  جاتی ہے اور ادراک میں  مانع ہوتی ہے  دیکھنے والے کو سامنے والی چیز دکھائی نہیں دیتی ، اور رسول الله کا قول ہے   میں نے نور دیکھا تو مطلب یہ ہے کہ میں نے صرف نور ہی دیکھا اور کچھ نہیں دیکھا 

 بحث اس میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیا سدرہ المنتہی سے بھی آگے حجاب عظمت تک پہنچ گئے تھے ؟

کیونکہ ابو ذر رضی الله عنہ کے قول سے یہی ثابت ہوتا ہے اگر یہ صحیح ہے

یعنی علماء کے ایک گروہ کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اصلی آنکھ سے بعض کہتے ہیں دیکھا قلبی آنکھ سے اور بعض کہتے ہیں سدرہ المنتہی سے آگے جانا ہی نہیں ہوا تو کب دیکھا

راقم آخری قول کا قائل ہے اور ابو ذر رضی الله عنہ سے منسوب روایات کو رد کرتا ہے


رجب کے فضائل؟

سال کے چار ماہ مسجد الحرام کی وجہ سے روز ازل سے الله نے حرمت والے مقرر کیے ہیں
رجب میں عمرہ کیا جاتا ہے یہ باقی تین سے بالکل الگ ہے جبکہ شوال، ذیقعدہ، ذو الحجہ ساتھ اتے ہیں

( إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ
آیت میں فَلا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ سے مراد مشرکین کا رد ہے جو ان مہینوں کو النسی سے بدل دیتے تھے
اس طرح مہینے اپنی تاریخوں میں نہیں رہتے تھے یا کہہ لیں کہ جو گردش سماوات و ارض میں بندھے ہیں ان مہینوں کو ان کے مقام سے ہٹا دیا جاتا تھا

اس وجہ سے حج ہوتا لیکن اس مدت میں نہیں جو الله نے مقرر کی

جدال کی یہ قید تمام عالم پر ہے جہاں سے بھی حاجی مکہ آ سکتے ہوں وہاں وہاں جنگ نہیں کی جا سکتی نہ مکہ تک انے کے رستہ کو فضا سے یا بحر و بر سے روکا جا سکتا ہے ورنہ یہ الله کے حکم کی خلاف ورزی ہے

باقی گناہ کرنا ہر وقت منع ہے لیکن بعض مفسرین نے ان چار ماہ کو گناہ نہ کرنے سے ملا دیا ہے جو نہایت سطحی قول ہے

رجب میں روزہ رکھنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے

عرش کے گرد سانپ کی کنڈلی

اہل کتاب نے اپنے ایک نبی یسعیاہ کے نام پر ایک کتاب گھڑی جس کو

Book of Isaiah

کہا جاتا ہے

اس کتاب کے باب ٦ کی آیات ہیں

سرافیم سے مراد سانپ ہیں

Hebrew Strong Dictionary

کے مطابق

  1. שָׂרָף saraph, saw-rawf´; from 8313; burning, i.e. (figuratively) poisonous (serpent); specifically, a saraph or symbolical creature (from their copper color):—fiery (serpent), seraph.

https://www.blueletterbible.org/lang/lexicon/lexicon.cfm?Strongs=H8314&t=KJV

یہود کی ایک قدیم کتاب

Book of Enoch

میں  باب ٢٠ بھی اس کا ذکر ہے

 Hence they took Enoch into the seventh heaven 

1 And those two men lifted me up thence on to the seventh heaven, and I saw there a very great light, and fiery troops of great archangels (2), incorporeal forces, and dominions, orders and governments, cherubim and seraphim, thrones and many-eyed ones, nine regiments, the Ioanit stations of light, and I became afraid, and began to tremble with great terror, and those men took me, and led me after them, and said to me: 

 2Have courage, Enoch, do not fear, and showed me the Lord from afar, sitting on His very high throne. For what is there on the tenth heaven, since the Lord dwells there? 

پس وہ انوخ (ادریس علیہ السلام) کو لے گئے ساتویں آسمان پر اور ان دو آدمیوں نے مجھ (انوخ) کو اٹھایا اور وہاں میں نے ایک عظیم نور دیکھا اور اور ملائکہ ملا الاعلی کی آتشی افواج،  روحانی قوتیں ، احکام و حکم ، کروبیں اور سرافیم، تخت  اور بہت آنکھوں والے … اور میں خوف زدہ ہوا اور لڑکھڑا گیا دہشت سے اور وہ مجھ کو لے گئے اور کہا ہمت کرو انوخ ، ڈرو مت اور الله تعالی کو دور سے دکھایا اپنے عظیم عرش پر تھا- (انوخ نے سوال کیا) یہ دسویں آسمان پر کیا ہے کہ الله وہاں ہوتا ہے ؟

کتاب انوخ کا متن حبشی زبان میں ملا ہے جہاں سرافیم کے مقام پر لکھا

 Ikisat (Ethiopic: አክይስት — “serpents”, “dragons

اکسات حبشی میں سانپ ہے

https://en.wikipedia.org/wiki/Seraph

توریت کے مطابق بنی اسرئیل کی دشت میں سر کشی کی بنا پر ایک وقت الله تعالی نے سانپ ان پر چھوڑ دیے

Num. 21:6 Then the LORD sent fiery serpents among the people, and they bit the people, so that many people of Israel died.

اور الله نے ان پر آتشی سانپ چھوڑ دیے

عبرانی میں سرافیم کو سانپ اور  فرشتہ کہا جاتا  ہے  چونکہ اہل کتاب ابلیس کو ایک فرشتہ یا

Fallen Angel

کہتے ہیں

لہذا مسلمانوں میں ابلیس کو سانپ سے ملانے یا جنات کو سانپ قرار دینے کا نظریہ ا گیا

ہندو مت میں عرش کے گرد سانپ

ہندو مت کے مطابق ان کے تین بڑے اصنام میں سے ایک آسمان میں ہے جس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے گرد سانپ لپٹا ہوا ہے جس کو انانتا شیشا یا ادی شیشا کہتے ہیں

Ananta Shesha,  Adishesha “first Shesha”.

یعنی کسی دور قدیم میں عرش رحمن کے گرد سانپوں کا تصور موجود تھا جس کو اہل کتاب اور ہندو دونوں بیان کرتے تھے

اسلام میں عرش کے گرد سانپ

اس قسم کی روایات اسلام میں بھی ہیں  جن کو محدثین روایت کرتے ہیں  – اس روایت کو عبد الله بن أحمد   “السنة” (1081) میں باپ امام احمد سے روایت کرتے ہیں  الدينوري  کتاب “المجالسة” (2578)  میں علي بن المديني سے اور أبو الشيخ کتاب “العظمة” (197) میں روایت کرتے ہیں

طبرانی کتاب المُعْجَمُ الكَبِير میں روایت کرتے ہیں

حدثنا محمَّد بن إسحاق بن راهُوْيَه، ثنا أبي ، أبنا معاذ ابن هشام، حدثني أبي (هشام الدستوائي) عن قَتادة، عن كَثير بن أبي كَثير البصری  ، عن أبي عِياض (عمرو بن الأسود العنسي)  ، عن عبد الله بن عَمرو، قال: إن العَرْشَ لَيُطَوَّق بحَيَّةٍ، وإن الوَحْيَ ليُنَزَّلُ

في السَّلاسِل

 أبي عِياض نے کہا کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے کہا: عرش کے گرد ایک سانپ کنڈلی مارے ہوئے ہے اور  الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے

کتاب السنہ میں ہے

حَدَّثَنِي أَبِي، نا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، بِمَكَّةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ لَمُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَإِنَّ الْوَحْيَ لِيَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ

کتاب العظمة از أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ)  میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ مُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ»

کتاب مختصر العلو  میں البانی کہتے ہیں

قلت: إسناده صحيح، أخرجه أبو الشيخ في “العظمة” “33/ 1-2″ حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود ثم رأيته في السنة” “ص150”: حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.

میں البانی کہتا ہوں اس کی اسناد صحیح ہیں اس کی تخریج ابو شیخ نے کتاب العظمة” “33/ 1-2” حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود میں کی ہے پھر میں نے اس کو دیکھا السنہ میں ص ١٥٠ پر بھی کہ حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.

مجمع الزوائد  (8/135) میں   الهيثمى اس روایت پر کہتے ہیں

رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح غير كثير بن أبي كثير ، وهو ثقة   

اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں سوائے کثیر بن ابی کثیر کے جو ثقہ ہیں

بعض علماء نے غلو میں یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ صحیح بخاری و مسلم کے تمام راوی ثقہ ہیں ان پر جرح مردود ہے – الهيثمى  اسی گروہ کے ہیں جو روایت پر کہہ دیتے ہیں کہ راوی صحیح والے ہیں- اس طرح یہ غلو چلا آ رہا ہے

 أبو الشيخ   العظمة  (4/1298) میں روایت کرتے ہیں

 حدثنا محمد بن أبي زرعة ثنا هشام بن عمار ثنا عبد الله بن يزيد ثنا شعيب بن أبي حمزة عن عبد الأعلى بن أبي عمرة عن عبادة بن نسي عن عبد الرحمن بن غنم عن معاذ بن جبل عن النبي صلى الله عليه وسلم قال :   المجرة التي في السماء عرق الحية التي تحت العرش   .

معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے

الهيثمى   مجمع الزوائد  (8/135)  میں کہتے ہیں

  وفيه عبد الأعلى بن أبي عمرة ولم أعرفه ، وبقية رجاله ثقات

اس میں عبد الأعلى بن أبي عمرة ہے جس کو میں نہیں جانتا اور باقی تمام ثقہ ہیں

امام  العقيلى  کتاب الضعفاء الكبير  (3/60)  میں اس روایت کو بیان کرتے ہیں کہ یمن بھیجتے وقت رسول الله نے معاذ بن جبل کو کہا کہ اہل کتاب سانپ پر سوال کریں تو یہ کہنا سند ہے

  حدثنا حجاج بن عمران ثنا سليمان بن داود الشاذكونى ثنا هشام بن يوسف ثنا أبو بكر بن عبد الله بن أبي سبرة عن عمرو بن أبى عمرو عن الوليد بن أبي الوليد عن عبد الأعلى بن حكيم عن معاذ بن جبل قال : لما بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فذكره مثله .
اس روایت کو امام عقیلی نے غیر محفوظ قرار دیا ہے

کتاب المنار المنیف میں ابن قیم کہتے ہیں

أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ بَاطِلا فِي نَفْسِهِ فَيَدُلُ بُطْلانِهِ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَلامِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  كَحَدِيثِ “الْمَجَرَّةُ الَّتِي فِي السَّمَاءِ مِنْ عِرْقِ الأَفْعَى الَّتِي تَحْتَ العرش

اور بعض احادیث ایسی باطل ہوتی ہیں کہ ان کا بطلان دلیل ہوتا ہے کہ کلام نبوی ہو ہی نہیں سکتا جیسے حدیث کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے

صرف روایت کو رد کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا وقتی دب جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد یہ بات عوام پھر بیان کرنے لگ جاتے ہیں – اس روایت کو تو رد کر دیا گیا کہ کہکشاں کسی سانپ کی رال ہے لیکن یہ قول کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے آج تک علماء مانتے چلے ا رہے ہیں اور اسقول کو موقوف صحابی پر صحیح مانتے ہیں اور چونکہ اصحاب رسول عدول ہیں اس روایت کی اس غیبی خبر کی کوئی اور تاویل نہیں رہتی، سوائے اس کے کہ اس کو قول نبوی قرار دیا جائے

راقم البتہ اس کا سرے سے ہی انکار کرتا ہے کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے ایسا کوئی کلام کیا ہو گا

  عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب اس قول کی سند میں  كَثِير بن أَبي كَثِير البَصْرِيّ   مولى عَبْد الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَة الْقُرَشِيّ ہے- اس راوی پر امام عقیلی نے کلام کیا ہے اور نسائی نے سنن النسائي 6/147 اس کی ایک روایت کو منکر قرار دیا ہے اور بیہقی نے  السنن الكبرى 7/349   میں کہا ہے

وكثير هذا لم يثبت من معرفته ما يوجب قبول روايته

اور یہ کثیر معرفت حدیث میں مظبوط نہیں کہ اس کی روایت کو قبول کیا جائے

یہاں تک کہ ابن حزم نے اس کو مجھول قرار دیا ہے

غیر مقلد عالم البانی اس موقوف قول کو صحیح السند کہتے ہیں اور عبد الله بن عمرو پر الإسرائيليات روایت کرنے کا الزام لگاتے ہیں

کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني  میں البانی کے سوالات پر جوابات کا مجموعہ ہے

السائل: السؤال قد سألتك إياه في التلفون، الذي هو قلت لك حديث: (العرش مطوق بحية، والوحي ينزل بالسلاسل) ذكرت لي أني أرجع أرى هل

هو حديث …. في «مختصر العلو» أنت قلت: حديث عبد الله بن عمرو أو قال حديث عبد الله بن عمر، وعلقت عليه فقلت: وإسناده صحيح عن عبد الله بن عمرو، وقلت: إسناده صحيح، فهل هو في حكم المرفوع إلى رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم –

بهذا الإسناد؟

الشيخ: ما عندي جواب غير ما سمعته، إن كان مصرحاً برفعه فهو كذلك، وإن كان غير مصرح فهو موقوف.

مداخلة: لا ما هو مصرح فهل يعني إذا كان موقوفاً كيف النظر إلى الحديث، هل نقول: أن العرش مطوق بحية؟

الشيخ: لا، ما نقول، وأظن أجبتكم يوم كان الجواب، يعني: لك، هو كان جواباً متكرراً لغيرك؛ أقوال الصحابة إذا صحت عنهم لِتكون في منزلة الأحاديث المرفوعة إلى الرسول عليه السلام يجب أن تكون أولاً: مما لا يقال بالرأي وبالاجتهاد، هذه النقطة بالذات هناك مجال للاختلاف بين العلماء والفقهاء في بعض ما يتفرع من هذا الشرط، وهو أن يكون قول الصحابي أو الحديث الموقوف على الصحابي مما لا يقال بالرأي، ممكن يصير فيه اختلاف، مثلاً: إذا جاء حديثٌ ما فيه النهي عن شيء، هل هذا في حكم المرفوع أم لا، فمن يظن أن النهي عن الشيء لا يمكن أن يكون بالاجتهاد يقول: حكمه حكم المرفوع، ومن يظن مثلي أنا أنه يمكن للصحابي ولمن جاء من بعدهم من الأئمة أن يجتهد وينهى عن شيء ويكون في اجتهاده مخطئاً فيجب إذاً: أن يكون الحديث الموقوف على الصحابي الذي يراد أن نقول: إنه في حكم المرفوع يجب أنه لا يحيط به أي شك في أنه في حكم المرفوع، ومتى يكون ذلك؟ حين لا مجال أن يقال بمجرد الرأي والاجتهاد، هذا الشرط الأول.

والشرط الثاني، أو قبل ما أقول الشرط الثاني: الشرط الأول يعود في الحقيقة إلى أمر غيبي، وهو من معانيه التحريم والتحليل، لكن هذا الأمر الغيبي ينقسم قسمين: قسم يتعلق بالشريعة الإسلامية، وقسم يتعلق بما قبل الشريعة من الشرائع المنسوخة، فلكي يكون الحديث الموقوف في حكم المرفوع ينبغي أن يكون متعلقاً بالشريعة الإسلامية وليس متعلقاً بما قبلها، لماذا؟

هنا بيت القصيد، لأنه يمكن أن يكون من الإسرائيليات، والتاريخ الذي يتعلق بما قبل الرسول عليه السلام … معناه من بدء الخلق إلى ما قبل الرسول عليه السلام وبعثته هو من هذا القبيل.

فإذا جاءنا حديث يتحدث عما في السماوات من عجائب ومخلوقات، وهو لا يمكن أن يقال جزماً بالرأي والاجتهاد فيتبادر إلى الذهن إذاً هذا في حكم المرفوع، لكن لا، ممكن أن يكون هذا من الإسرائيليات التي تلقاها هذا الصحابي من بعض الذين أسلموا من اليهود والنصارى، ولذلك فينبغي أن يكون الحديث الموقوف والذي يراد أن نجعله في حكم المرفوع ما يوحي بأنه ليس له علاقة بالشرائع السابقة.

فهذا الحديث عن عبد الله بن عمرو يمكن أن يكون من الأمور الإسرائيلية التي تتحدث عما في السماء من العجائب، ومن خلق الملائكة، لكن الذي ثابت … الآن عكس ذاك تماماً، يشعر الإنسان فوراً أن هذا لا يمكن أن يكون من الإسرائيليات، فهو إذاً موقوف في حكم المرفوع ولا مناص، ما هو؟

الحديث المعروف والمروي عن ابن عباس بالسند الصحيح، قال رضي الله عنه: نزل القرآن إلى بيت العزة في السماء الدنيا جملة واحدة، ثم نزل أنجماً حسب الحوادث، فهو إذاً: يتحدث عن القرآن وليس عن التوراة والإنجيل، فلو كان حديثه هذا الموقوف عن التوراة والإنجيل ورد الاحتمال السابق، فيقال: لا نستطيع أن نقول هو في حكم المرفوع، لكن ما دام يتعلق بالقرآن وأحكام القرآن وكل ما يتعلق به لا يمكن أن يتحدث عنه بشيء غيبي إلا ويكون الراوي قد تلقاه من الرسول عليه السلام، لأنه كون القرآن نزل جملة هذا غيب من أين يعرف ابن عباس تلقاه من بعض الإسرائيليات هذا مستحيل، ونزل إلى بيت العزة في السماء الدنيا تفصيل دقيق [لا يمكن] للعقل البشري أن يصل إليه، لذلك هذا الحديث يتعامل العلماء معه كما لو كان قد صرح ابن عباس فيه برفعه إلى النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -.

باختصار: إن الأحاديث الموقوفة ليس من السهل أبداً أن يحكم عليها بحكم المرفوع إلا بدراسة دقيقة ودقيقة جداً، وذلك لا يستطيعه إلا كبار أهل العلم.

سؤال: جزاك الله خير يا شيخنا.

الشيخ: وإياك بارك الله فيك.

مداخلة: هذه فائدة فريدة عضوا عليها بالنواجذ والأضراس والثنايا.

الشيخ: جزاك الله خيراً.

“الهدى والنور” (255/ 56: 07: 00).

سائل : یہ سوال ہے جو ٹیلی فون پر اپ سے کیا تھا حدیث جو میں نے اپ سے ذکر تھا  کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے اور الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے اپ نے  ذکر کیا کہ میں پھر سوال کروں تو  کیا یہ حدیث صحیح ہے  جو مختصر العلو میں ہے حدیث عبداللہ بن عمرو جس پر تعلیق میں کہا اس کی اسناد صحیح ہیں اور  ( وہاں اپ نے کہا) میں (البانی) کہتا ہوں  اسناد صحیح ہیں – تو کیا یہ مرفوع قول نبی صلی الله علیہ وسلم کے حکم میں اتا ہے  اس اسناد سے ؟

البانی : میرا جواب اس سے الگ ہے جو اپ نے سنا اگر رفع کی صراحت ہے تو ایسا ہے ورنہ یہ موقوف ہے

مداخلة:  نہیں یہ صراحت نہیں ہے تو اگر یہ موقوف ہے تو   ہم حدیث کو کیسا دیکھیں؟ کیا ہم کہیں کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے؟

البانی : نہیں ، ہم یہ نہیں بول سکتے اور میرا گمان ہے کہ اس روز جو میں نے جواب دیا تھا وہ  اپ کے لئے تھا ،  یہ جواب مکرر ہے دوسروں کے لئے – ایسے اقوال جو اصحاب رسول کے ہوں اور ان کی صحت معلوم ہو تو  ان کا مقام حدیث مرفوع جو نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتی ہو جیسا ہے اگر اول: جو انہوں نے کہا وہ رائے نہ ہو اجتہاد نہ ہو – اس بات پر علماء و فقہاء کا اختلاف  ہوتا ہے کہ اس کے مشتقات میں یہ شرط ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے قول صحابی یا حدیث موقوف ، رائے سے نہ کہی گئی بات ہو – اس امکان کی بنا پر اس میں اختلاف ہوتا ہے  مثلا جب حدیث میں کسی چیز کی  ممانعت کا ذکر ہو ، تو کیا یہ حکم مرفوع ہے یا نہیں ؟ پس جو (علماء) گمان کرتے ہیں کہ یہ نہی ہے وہ اس کو اجتہاد نہیں لیتے اور کہتے ہیں یہ حکم مرفوع حکم ہے اور بعض میرے جیسے (علماء ) یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صحابی کا قول ہو اور جو ان  کا جو کے بعد  ائمہ آئے ہیں کہ وہ اجتہاد کریں کسی چیز سے منع کریں یا اجتہاد میں غلطی کریں ….. پس یہ پہلی شرط ہے – اور شرط اول (کے تحت حدیث) حقیقت سے امر غیبی تک جاتی ہے اور اپنے معنی میں حلال و حرام پر ہو گی – لیکن اس امر غیبی میں دو قسمیں ہیں- ایک کا تعلق شریعت سے ہے اور ایک کا منسوخ شریعتوں سے-  پس میرے نزدیک حدیث موقوف جو ہے وہ حدیث مرفوع کے حکم پر ہے تو اس میں شریعت اسلامی کا ذکر ہونا چاہیے اور اس سے قبل کی باتوں (اہل کتاب کی شریعت) پر نہیں – کیوں ؟ کیونکہ یہ نکتہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو اور اس تاریخ سے متعلق جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے گذری .. اس معنوں میں ہے مخلوق کا شروع ہونا سے لے کر بعثت نبوی تک کا دور- پس جب کوئی حدیث ہو جس میں آسمانوں کے عجائب و مخلوقات کا ذکر ہو اور یہ امکان نہ رہے کہ یہ بات اجتہاد یا رائے کی ہے تو ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ حکم مرفوع میں سے ہے  لیکن نہیں ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جو ان اصحاب رسول نے بیان کیے جو یہود و نصاری میں سے ایمان لائے اس وجہ سے یہ حدیث موقوف ہونی چاہیے اور اس کا تعلق سابقہ شریعت سے  نہیں ہونا چاہیے

پس یہ حدیث جو عبد الله بن عمرو سے ہے ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جس میں آسمان کے عجائبات کا ذکر ہے اور ملائکہ کی تخلیق لیکن جو ثابت ہے … ابھی وہ اس سے مکمل الٹ ہے –  انسان فورا  جان جاتا  ہے  کہ یہ الإسرائيليات میں سے نہیں ہو سکتی- پس حدیث موقوف، مرفوع  کے حکم میں ہو اور قابل رد نہ ہو ، تو پھر کیا ہے ؟

ایک معروف حدیث ابن عباس سے صحیح سند سے ہے اپ رضی الله عنہ نے فرمایا قرآن بیت العزہ سے آسمان دنیا پر ایک بار نازل ہوا پھر حسب حوادث تھوڑا تھوڑا نازل ہوا پس جب یہ قرآن کے بارے میں ہے  التوراة والإنجيل کے بارے میں  نہیں ہے تو یہ حدیث موقوف ہے  التوراة والإنجيل کے لئے اور اس پر وہی احتمال اتا ہے پس کہا جاتا ہے ہم اس کو حکم مرفوع نہیں کہیں گے لیکن جب تک یہ قرآن سے متعلق ہو اور احکام قرآن سے متعلق ہو اس وقت تک … قصہ مختصر احادیث موقوف میں یہ کبھی بھی آسان نہ ہو گا کہ ان پر حکم مرفوع لگایا جائے سوائے ان کی تحقیق دقیق کے اور بہت دقیق تحقیق کے اور اس پر  سوائے کبار علماء کے کوئی قادر نہیں ہیں

اس تمام بحث کے چیدہ نکات ہیں کہ البانی کے نزدیک عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کی حدیث موقوف صحیح ہے –  اپ غور کریں یہ روایت  عرش  کی خبر ہے  اوراس کا سابقہ شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے  – یہ غیبی خبر ہے جس میں رائے کا دخل نہیں ہے لیکن البانی کے گلے میں اٹک گئی ہے کیونکہ وہ اس کو صحیح کہہ چکے تھے اب  یہ بھی نہیں کہتے کہ  لوگ بولیں کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے کیونکہ ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو

اصل میں غیر مقلدین علماء کافی دنوں سے  عبد الله بن  عمرو رضی الله عنہ کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ  الإسرائيليات روایت کرتے تھے ؟ ابن کثیر نے اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر عبد الله بن عمرو کی روایت بیان کی اور مذاق اڑانے والے انداز میں کہا

 لَعَلَّهُ مِنَ الزَّامِلَتَيْنِ اللَّتَيْنِ أَصَابَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَ الْيَرْمُوكِ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَكَانَ يُحَدِّثُ مِنْهُمَا أَشْيَاءَ غَرَائِبَ.

لگتا ہے ان اونٹنیوں والی کتب جو  اہل کتاب میں سے تھیں جو ان کے ہاتھ لگیں یوم یرموک میں  پس اس سے غریب چیزیں روایت کرتے تھے

اس طرح سات بار اس قول کا اعادہ کیا اور افسوس ایک بار بھی سند میں مجہولین اور ضعیف راویوں پر روایت کا بار نہ ڈالا

بھول جانے والے، غلطی کرنے والے  یا اختلاط کا شکار راویوں  کی بنیاد پر ہم یہ مان رہے ہیں کہ اصحاب رسول روایت کرنے میں  اور اجتہاد میں غلطیاں کرتے تھے مثلا حواب کے  کتوں والی روایت جو ایک مختلط قیس بن ابی حازم کی روایت کردہ ہے اس کی بنیاد پر ام المومنین رضی الله عنہا  کی اجتہادی خطا کا ذکر ہوتا رہتا ہے – یعنی ہم یہ مان گئے کہ راوی غلطی نہیں کر سکتا اصحاب رسول کر سکتے ہیں – یہ کہاں کا انصاف ہے

جھمیوں کے رد میں محدثین پر ایک جنوں سوار تھا کہ کسی طرح عرش کو ایک ٹھوس چیز ثابت کریں لہذا وہ جوش میں اس قسم کی روایات جمع کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ یہ روایت امام احمد کے بیٹے کی کتاب السنہ میں بھی ملتی ہے اور عرش سے متعلق محدثین کی کتابوں میں بھی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ الإسرائيليات میں سے ہیں اور اس طرح انہوں نے اپنا مقدمہ خود کمزور کیا اور معتزلہ کو عوامی پذیرائی ملی

خواب میں رویت باری تعالی

سر  میں لگی آنکھوں سے الله تعالی کا دیدار کرنا ممکن نہیں  لیکن آخرت میں چونکہ انسانی جسم کی تشکیل نو ہو گی اس کو تبدیل کیا جائے گا اور اس وقت محشر میں اہل ایمان اپنے رب کو دیکھ لیں گے

صحیح بخاری و مسلم میں معراج سے متعلق کسی حدیث میں نہیں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے گئے ہوں اور الله تعالی کو دیکھا ہو البتہ بعض ضعیف اور غیر مظبوط روایات میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  میں نے اپنے رب کو دیکھا بغیر داڑھی مونچھ جس پر سبز لباس تھا – قاضی ابو یعلی کے مطابق یہ معراج پر ہوا اور ابن تیمیہ کے مطابق یہ قلب پر آشکار ہوا – محدثین کی ایک جماعت نے اس طرح کی روایات کو رد کیا اور ایک نے قبول کر کے دلیل لی – اسی طرح ایک دوسری روایت بھی ہے جس میں رب تعالی کا نبی صلی الله علیہ وسلم کو  چھونے تک  کا ذکر ہے

جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایت

کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں البانی  کہتے ہیں

ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ثنا يَحْيَى بْنُ أبي بكير ثنا إبراهيم ابن طَهْمَانَ ثنا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَلَّى لِي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَسَأَلَنِي فِيمَا يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: رَبِّي لا أَعْلَمُ بِهِ, قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثديي أو وضعهما بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ كَتِفَيَّ فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شيء إلا علمته”.

– إسناد حسن رجاله ثقات رجال الشيخين غير سماك بن حرب فهو من رجال مسلم

إبراهيم ابن طَهْمَانَ  نے  سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ  سے اس نے  جَابِرِ بْنِ سَمُرَة رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله تعالی نے میرے لئے تجلی کی حسین صورت میں پھر پوچھا کہ یہ ملا الاعلی کیوں جھگڑتے رہتے ہیں  پھر اپنا ہاتھ میرے شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک محسوس کی

اس کی اسناد حسن ہیں اس کے رجال ثقات ہیں سوائے سماك بن حرب کے جو صحیح مسلم کا راوی ہے

اس کے برعکس مسند احمد کی تحقیق میں شعيب الأرنؤوط  اس کو إبراهيم ابن طَهْمَانَ کی وجہ سے  ضعیف قرار دیتے ہیں

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ کی روایت

سنن دارمی، ج 5، ص 1365 پر ایک روایت درج ہے

2195 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، وَسَأَلَهُ، مَكْحُولٌ أَنْ يُحَدِّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:1366] يَقُولُ: «رَأَيْتُ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ فَقُلْتُ: «أَنْتَ أَعْلَمُ يَا رَبِّ» ، قَالَ: ” فَوَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، [ص:1367] فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَتَلَا {وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ}

نبی اکرم نے فرمایا کہ میں نے رب کو اچھی صورت میں دیکھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آسمانوں میں کس بات پر لڑائی ہے؟ میں نے کہا کہ اے رب! آپ زیادہ علم رکھتے ہیں۔ نبی اکرم فرماتے ہیں کہ پھر اللہ نے اپن ہاتھ میرے چھاتی کے درمیان رکھا حتی کہ مجھے اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے، مجھے اس کا علم ہو گیا۔ پھر نبی اکرم نے اس ایت کی تلاوت کی کہ اس طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھائی تاکہ وہ یقین والوں میں ہو

کتاب کے محقق، حسین سلیم اسد نے سند کو صحیح قرار دیا جبکہ سلف اس کو رد کر چکے تھے

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے جبکہ یہ صحابی نہیں ہے

وقال أبو حاتم الرازي هو تابعي وأخطأ من قال له صحبة وقال أبو زرعة الرازي ليس بمعروف
ابو حاتم نے کہا یہ تابعی ہے اور اس نے غلطی کی جس نے اس کو صحابی کہا اور ابو زرعہ نے کہا غیر معروف ہے

ابن عبّاس رضی الله عنہ  سے منسوب  روایت

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أَتَانِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ اللَّيْلَةَ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ – أَحْسِبُهُ يَعْنِي فِي النَّوْمِ – فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا ” قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ – أَوْ قَالَ: نَحْرِي – فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، يَخْتَصِمُونَ فِي الْكَفَّارَاتِ وَالدَّرَجَاتِ، قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ وَالدَّرَجَاتُ؟ قَالَ: الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَى الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِبْلَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَقُلْ يَا مُحَمَّدُ إِذَا صَلَّيْتَ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً، أَنْ تَقْبِضَنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ، قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ: بَذْلُ الطَّعَامِ، وَإِفْشَاءُ السَّلَامِ، وَالصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ “

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ترمذی ح ٣٢٣٤  میں سند میں ابو قلابہ اور ابن عباس کے درمیان ْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ   ہے

. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ رَبِّ لَا أَدْرِي فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ فَقُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى  قُلْتُ فِي الدَّرَجَاتِ وَالْكَفَّارَاتِ وَفِي نَقْلِ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ فِي الْمَكْرُوهَاتِ وَانْتِظَارِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَمَنْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں  باب: سورہ  ص  سے بعض آیات کی تفسیر

 عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم  نے فرمایا: میرا رب بہترین صورت میں   آیا اور اس نے مجھ سے کہا: محمد-  میں نے کہا : میرے رب  میں تیری خدمت میں حاضر وموجود ہوں، کہا: اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: رب  میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت وعزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان  محسوس کی، اور مجھے مشرق ومغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہوگیا، (پھر) کہا: محمد  میں نے عرض کیا: رب  میں حاضر ہوں، اور تیرے حضور میری موجود گی میں  – میں نے کہا: انسان کا درجہ ومرتبہ بڑھانے والی اور گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں تکرار کررہے ہیں، جماعتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والے قدموں کے بارے میں اور طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل وضو کرنے کے بارے میں۔ اور ایک صلاۃ پڑھ کر دوسری صلاۃ کا انتظار کرنے کے بارے میں، جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا، اور خیر (بھلائی) ہی کے ساتھ مرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک وصاف ہوجائے گا جس دن کہ ان کی ماں نے جنا تھا، اور وہ گناہوں سے پاک وصاف تھا”۔ امام ترمذی کہتے ہیں: – یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے

البانی  کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں یہ بھی کہتے ہیں

قد روى معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس مرفوعا بلفظ: “رأيت ربي عز وجل فقال: يا محمد فيم يختصم الملأ الأعلى..” الحديث. أخرجه الآجري ص 496 وأحمد كما تقدم 388 فالظاهر أن حديث حماد بن سلمة مختصر من هذا وهي رؤيا منامية

اس کو معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس کی سند سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا اس نے پوچھا الملأ الأعلى کیوں لڑ رہے ہیں ؟ اس کی تخریج کی ہے الآجري اور احمد نے جیسا کہ گزرا ہے پس ظاہر ہے کہ حماد بن سملہ کی حدیث مختصر ہے اور یہ دیکھنا نیند میں ہے

اس کے بر عکس  شعيب الأرنؤوط  مسند احمد میں اس پر حکم لگاتے ہیں

إسناده ضعيف، أبو قلابة- واسمه عبد الله بن زيد الجرمي- لم يسمع من ابن عباس، ثم إن فيه اضطراباً

اس کی اسناد ضعیف ہیں – أبو قلابة-  جس کا نام عبد الله بن زيد الجرمي ہے اس کا سماع ابن عباس سے نہیں ہے پھر اس روایت میں اضطراب بہت ہے

راقم کہتا ہے جامع الترمذی کی روایت بھی صحیح نہیں ہے  :  کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق خالد کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے ان سے مرسل روایت کرتا ہے
خالد بن اللجلاج العامري ذكره الصغاني فيمن اختلف في صحبته وهو تابعي يروي عن أبيه وله صحبة وفي التهذيب لشيخنا أنه يروي عن عمر وابن عباس مرسلا ولم يدركهما
الذھبی تاریخ الاسلام میں اس کے لئے کہتے ہیں
وَقَدْ أَرْسَلَ عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
عمر اور ابن عباس سے یہ ارسال کرتا ہے

اسی طرح اس میں قتادہ مدلس ہے جو عن سے روایت کر رہا ہے
ان علتوں کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے

معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے منسوب  روایت

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا جَهْضَمٌ يَعْنِي الْيَمَامِيَّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ وَهُوَ زَيْدُ بْنُ سَلَّامِ بْنِ أَبِي سَلَّامٍ نَسَبُهُ إِلَى جَدِّهِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَ: احْتَبَسَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى كِدْنَا نَتَرَاءَى قَرْنَ الشَّمْسِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيعًا، فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ وَصَلَّى وَتَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ. قَالَ: ” كَمَا أَنْتُمْ عَلَى مَصَافِّكُمْ كَمَا أَنْتُمْ (2) “. ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَيْنَا. فَقَالَ: ” إِنِّي سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْكُمُ الْغَدَاةَ إِنِّي قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ، فَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَتَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي يَا رَبِّ. قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي رَبِّ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي يا رَبِّ   ، فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ صَدْرِي فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: فِي الْكَفَّارَاتِ. قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ؟ قُلْتُ: نَقْلُ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجُمُعَاتِ، وَجُلُوسٌ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَواتِ،   وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عِنْدَ الْكَرِيهَاتِ. قَالَ: وَمَا الدَّرَجَاتُ؟ قُلْتُ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَلِينُ الْكَلَامِ، وَالصَّلَاةُ وَالنَّاسُ نِيَامٌ. قَالَ: سَلْ. قُلْتُ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِي قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ، وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ “. وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا وَتَعَلَّمُوهَا

معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں رات کو اٹھا، میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی جتنی میرے مقدر میں تھی پھر مجھے نماز میں اونگھ آ گئی۔ اچانک میں نے اپنے رب کو سب سے اچھی صورت میں دیکھا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی

البانی نے اس کو صحیح کہہ دیا ہے

جبکہ دارقطنی علل ج ٦ ص ٥٤ میں اس روایت پر کہتے ہیں
وسئل عن حديث مالك بن يخامر عن معاذ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال رأيت ربي في أحسن صورة فقال لي يا محمد فيم يختصم الملا الاعلى الحديث بطوله فقال ……… قال ليس فيها صحيح وكلها مضطربة

اس کی کوئی سند صحیح نہیں تمام مضطرب ہیں

شعيب الأرنؤوط مسند احمد میں اس روایت پر کہتے ہیں
ضعيف لاضطرابه
اضطراب کی بنا پر ضعیف ہے

ابن حجر کتاب “النكت الظراف  4/38 میں کہتے ہیں

هذا حديث اضطرب الرواةُ في إسناده، وليس يثبت عن أهل المعرفة.

اس حدیث کی اسناد میں اضطراب ہے اور یہ اہل معرفت کے ہاں ثابت نہیں ہیں

 کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات   میں  القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ)  کہتے ہیں

وقوله: ” فيم يختصم الملأ الأعلى ” وقد تكلمنا عَلَى هَذَا السؤال فِي أول الكتاب فِي قوله: ” رأيت ربي ” فإن قِيلَ: هَذَا الخبر كان رؤيا منام، والشيء يرى فِي المنام عَلَى خلاف مَا يكون

اور قول  کس پر الملأ الأعلى جھگڑا کر رہے ہیں ؟ اور اس سوال پر ہم نے اس کتاب کے شروع میں کلام کیا ہے کہ اگر کہیں کہ یہ خبر نیند کا خواب ہے اور یا چیز جو نیند میں دیکھی تو یہ اس کے خلاف ہے جو کہا گیا

القاضي أبو يعلى کے مطابق یہ سب معراج پر ہوا نہ کہ نیند میں

اس کے برعکس ابن تیمیہ نے منہاج السنہ میں موقف لیا کہ یہ نیند میں ہوا

وَإِنَّمَا الرُّؤْيَةُ فِي أَحَادِيثَ مَدَنِيَّةٍ كَانَتْ فِي الْمَنَامِ كَحَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: ” «أَتَانِي الْبَارِحَةَ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» ” إِلَى آخِرِهِ، فَهَذَا مَنَامٌ رَآهُ   فِي الْمَدِينَةِ، * وَكَذَلِكَ مَا شَابَهَهُ كُلُّهَا كَانَتْ فِي الْمَدِينَةِ فِي الْمَنَامِ

اور یہ دیکھنا نیند میں تھا جو مدینہ کی احادیث ہیں جیسے معاذ بن جبل کی حدیث  کل   میرا رب اچھی صورت میرے پاس آیا آخر تک تو یہ نیند میں دیکھا تھا مدینہ میں اور اسی طرح روایات ہیں جو مدینہ میں نیند میں ہیں

یعنی ٥٠٠ صدی ہجری کے بعد حنابلہ کا ان روایات پر اختلاف ہوا کہ یہ نیند میں دیکھا تھا یا معراج پر پس ان مخصوص روایات کو ابن تیمیہ نے  خواب  قرار دیا

ابن تیمیہ کے ہم عصر امام الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں اس قسم کی ایک روایت (رأيت ربي جعدا أمرد عليه حلة خضراء  میں نے اپنے رب کو بغیر داڑھی مونچھ مرد کی صورت سبز لباس میں دیکھا ) پر لکھتے ہیں

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:  قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ .  وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَ السَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:  قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.  وَالَّذِي دَلَّ عَلَيْهِ الدَّلِيْلُ عَدَمُ الرُّؤْيَةِ مَعَ إِمْكَانِهَا   ، فَنَقِفُ عَنْ هَذِهِ المَسْأَلَةِ، فَإِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ المَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيْهِ، فَإِثْبَاتُ ذَلِكَ أَوْ نَفْيُهُ صَعْبٌ، وَالوُقُوْفُ سَبِيْلُ السَّلاَمَةِ – وَاللهُ أَعْلَمُ -. وَإِذَا ثَبَتَ شَيْءٌ، قُلْنَا بِهِ، وَلاَ نُعَنِّفُ مَنْ أَثْبَتَ الرُّؤْيَةَ لِنَبِيِّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي الدُّنْيَا، وَلاَ مَنْ نَفَاهَا، بَلْ نَقُوْلُ: اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، بَلَى نُعَنِّفُ وَنُبَدِّعُ مَنْ أَنْكَرَ الرُّؤْيَةَ فِي الآخِرَةِ، إِذْ رُؤْيَةُ اللهِ فِي الآخِرَةِ ثَبَتَ بِنُصُوْصٍ مُتَوَافِرَةٍ.

بیہقی نے کتاب الصفات میں روایت کیا …. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے  فرمایا  میں نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا .. اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے اور یہ خبر منکر ہے – ہم الله سے اس پر سلامتی چاہتے ہیں پس نہ تو یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر ہے اور اگر یہ سب غیر الزام زدہ ہوں بھی تو یہ خطاء و نسیان سے کہاں معصوم ہیں ؟  اب جو پہلی خبر ہے اس میں ہے کہ رسول الله نے فرمایا  میں نے اپنے رب کو دیکھا – اس میں نیند کی کوئی قید نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو معراج کی رات دیکھا اس حدیث کے ظاہر سے دلیل لیتے ہوئے –  پر رویت نہیں ہے اس کا امکان ہے جو اس دلیل میں ہے – پس ہم جانتے ہیں کہ اس مسئلہ میں کہ اسلام کا حسن ہے کہ آدمی اس کو چھوڑ دے جس کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس رویت باری کا اثبات یا نفی مشکل ہے اور اس میں توقف میں سلامتی ہے و الله اعلم اور اگر ایک چیز ثابت ہو تو ہم اس کا کہیں گے   اور نہ ہی ہم برا کہیں گے جو ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے اس کا اثبات کرے کہ انہوں نے دیکھا اس دنیا میں نہ اس کا انکار کریں گے بلکہ کہیں گے الله اور اسکا رسول جانتے ہیں بلا شبہ ہم برا کہیں گے اور رد کریں گے جو اس کا انکار کرے کہ یہ رویت آخرت میں بھی نہیں ہے کیونکہ الله کو آخرت میں دیکھنا نصوص  موجودہ سے ثابت ہے

الذھبی کے بعد انے والے ابن کثیر سوره النجم کی تفسیر میں لکھتے ہیں

فَأَمَّا الْحَدِيثُ الَّذِي رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ   : حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ» فَإِنَّهُ حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ عَلَى شَرْطِ الصَّحِيحِ، لَكِنَّهُ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثِ الْمَنَامِ كَمَا رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ

پس جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جو امام احمد نے روایت کی ہے حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ کو دیکھا تو اس کی اسناد الصحیح کی شرط پر ہیں لیکن اس کو مختصرا روایت کیا ہے نیند کی حدیث میں جیسا امام احمد نے کیا ہے

الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ)  کتاب تشنيف المسامع بجمع الجوامع لتاج الدين السبكي میں لکھتے ہیں

هل يجوز أن يرى في المنام؟ اختلف فيه فجوزه معظم المثبتة للرؤية من غير كيفية وجهة مقابلة وخيال، وحكي عن كثير من السلف أنهم رأوه كذلك ولأن ما جاز رؤيته لا تختلف بين النوم واليقظة وصارت طائفة إلى أنه مستحيل لأن ما يرى في النوم خيال ومثال وهما على القديم محال، والخلاف في هذه المسألة عزيز قل من ذكره وقد ظفرت به في كلام الصابوني من الحنفية في عقيدته والقاضي أبي يعلى من الحنابلة في كتابه (المعتمد الكبير)، ونقل عن أحمد أنه قال: رأيت رب (94/ك) العزة في النوم فقلت: يا رب، ما أفضل ما يتقرب به المتقربون إليك؟ قال: كلامي يا أحمد قلت: يا رب، بفهم أو بغير فهم، قال: بفهم وبغير فهم قال: وهذا يدل من مذهب أحمد على الجواز، قال: ويدل له حديث: ((رؤيا المؤمن جزء من ستة وأربعين جزءا من النبوة)) وما كان من النبوة لا يكون إلا حقا ولأن من صنف في تعبير الرؤيا ذكر فيه رؤية الله تعالى وتكلم عليه، قال ابن سيرين: إذا رأى الله عز وجل أو رأى أنه يكلمه فإنه يدخل الجنة وينجو من هم كان فيه إن شاء الله تعالى. واحتج المانع بأنه لو كان رؤيته في المنام جائزة لجازت في اليقظة في دار الدنيا. والجواب: أن الشرع منع من رؤيته في الدنيا ولم يمنعه في المنام

کیا یہ جائز ہے کہ الله تعالی کو نیند میں دیکھا جائے ؟ اس میں اختلاف ہے … اور بہت سے سلف سے حکایت کیا گیا ہے انہوں نے دیکھا  … اور ایک طائفہ گیا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ نیند میں جو دیکھا جاتا ہے وہ خیال و مثال ہوتا ہے  …. اور اسکے خلاف  احناف میں الصابونی کا عقیدہ میں کلام ہے اور حنابلہ میں قاضی ابو یعلی کا  کتاب المعتمد میں … اور امام احمد کا مذھب جواز کا ہے  … اور اس کا جواب ہے ہے کہ شرع میں دنیا میں دیکھنا منع ہے لیکن نیند میں منع نہیں ہے

ابن حجر فتح الباری ج ١٢ ص ٣٨٧ میں قاضی عیاض کا قول نقل کرتے ہیں

وَلَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَازِ رُؤْيَةِ اللَّهِ تَعَالَى فِي الْمَنَامِ

اور  الله تعالی کو نیند میں دیکھنے پر علماء میں کوئی اختلاف نہیں ہے

تابعین اور اصحاب رسول کا الله تعالی کو خواب میں دیکھنا

ابو بکر رضی الله عنہ کا قول

کتاب ظلال الجنه کے مطابق

ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرَ عَنِ ابْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:  أَفْضَلُ مَا يَرَى أَحَدُكُمْ فِي مَنَامِهِ أَنْ يرى ربه أو نَبِيَّهُ أَوْ يَرَى وَالِدَيْهِ مَاتَا على الإسلام.

ابو بکر نے کہا سب سے افضل جو تم نیند میں دیکھتے ہو وہ یہ ہے کہ اپنے رب کو دیکھو یا اپنے نبی کو یا اپنے والدین کو جن کی موت اسلام پر ہوئی

البانی اس اثر کے تحت لکھتے ہیں

إسناده ضعيف ورجاله ثقات غير العباس بن ميمون فلم أعرفه

اس کی اسناد ضعیف ہیں اور رجال ثقات ہیں سوائے عباس بن میمون کے جس کو میں نہیں جانتا

ابن سیرین کا قول

مسند  الدارمی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ   قُطْبَةَ، عَنْ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: «مَنْ رَأَى رَبَّهُ فِي الْمَنَامِ دَخَلَ الْجَنَّةَ

ابْنِ سِيرِينَ نے کہا جس نے اپنے رب کو نیند میں دیکھا وہ جنت  میں داخل ہوا

اس کی سند میں یوسف الصَّبَّاغِ ہے جو سخت ضعیف ہے لیکن صوفی منش ابو نعیم نے حلیہ الاولیاء میں اس کو نقل کر دیا

مسند دارمی کے محقق حسين سليم أسد الداراني اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں

یعنی بعض نے اس طرح کی  روایات کو رد کیا- بعض نے اس کو معراج کا واقعہ کہا جو نیند  نہیں تھا اور بعض نے اس کو خواب قرار دیا – بعض نے تقسیم کی مثلا ابن تیمیہ کے نزدیک ابن عباس کی رویت باری سے متعلق روایات صحیح ہیں لیکن شانوں پر ہاتھ رکھنے والی روایت مدینہ کا خواب ہے اور گھنگھریالے بالوں والی روایت قلبی رویت ہے اور دونوں صحیح ہیں – الذھبی کے نزدیک دونوں لائق التفات نہیں ہیں

الغرض الله تعالی کو خواب میں دیکھنا سلف میں اختلافی مسئلہ رہا ہے جس  میں راقم کی رائے   میں یہ روایات ضعیف ہیں

 

محدثین  اور خوابوں کی دنیا

بخاری میں دو حدیثیں ہیں

من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی

          جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل  نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم

دوسری حدیث ہے

من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته

جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے  کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے

 ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے  فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے  دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا

ہماری اسلامی کتب میں سن ١٣٠  ہجری  اور اس کے بعد سے آج تک  عالم مادی اور عالم روحانی اس طرح خلط ملط ملتے ہیں کہ  غیب میں گویا نقب لگی ہو مسلسل عالم بالا سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم   محدثین کے خوابوں میں آ رہے تھے   یہاں ہم صرف ایک کتاب سیر الاعلام  النبلاء از امام الذھبی  کو دیکھتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  اور یہاں تک کہ الله تعالی کس کس کے خواب میں آ رہے تھے

بصری سلیمان بن طرخان المتوفی ١٤٣ ھ   کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

جَرِيْرُ بنُ عَبْدِ الحَمِيْدِ: عَنْ رَقَبَةَ بنِ مَصْقَلَةَ، قَالَ:رَأَيْتُ رَبَّ العِزَّةِ فِي المَنَامِ، فَقَالَ: لأُكْرِمَنَّ مَثْوَى سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، صَلَّى لِيَ الفَجْرَ بِوُضُوْءِ العِشَاءِ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً.

جَرِيْرُ بنُ عَبْدِ الحَمِيْدِ روایت کرتے ہیں رَقَبَةَ بنِ مَصْقَلَةَ، سے کہ میں نے رب العزت کو نیند میں دیکھا مجھ سے کہا سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ جیسوں کا اکرام کرو میرے لئے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھتا  تھا عشاء کے وضو سے

الله تعالی عالم الغیب ہیں اور قادر ہیں لیکن الله تعالی کسی صحابی کے خواب میں نہیں آئے تابعی کے خواب میں نہیں آئے لیکن تبع تابعین کا دور ختم ہوتے ہی لوگ  بیان کرنے لگ جاتے ہیں کہ الله تعالی اور رسول الله ان کو غیب کی خبریں دیتے ہیں

بصری عبد الله بن عون المتوفی ١٣٢ ھ  کے ترجمہ میں الذہبی لکھتے ہیں

حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ فَضَاءٍ  قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي المَنَامِ، فَقَالَ: (زُوْرُوا ابْنَ عَوْنٍ، فَإِنَّهُ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ، أَوْ أَنَّ اللهَ يُحِبُّه وَرَسُوْلَه)

حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بنِ فَضَاءٍ کہا میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا خواب میں فرمایا ابن عون کی زیارت کرو کیونکہ یہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے یا کہ الله اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہے

عباد بن کثیر کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

الحَكَمُ بنُ مُوْسَى: حَدَّثَنَا الوَلِيْدُ بنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: مَا كُنْتُ أَحْرِصُ عَلَى السَّمَاعِ مِنَ الأَوْزَاعِيِّ، حَتَّى رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي المَنَامِ، وَالأَوْزَاعِيُّ إِلَى جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! عَمَّنْ أَحْمِلُ العِلْمَ؟قَالَ: (عَنْ هَذَا) ، وَأَشَارَ إِلَى الأَوْزَاعِيِّ.قُلْتُ: كَانَ الأَوْزَاعِيُّ كَبِيْرَ الشَّأْنِ.

الحَكَمُ بنُ مُوْسَى کہتے ہیں کہ ولید بن مسلم دمشقی المتوفي ١٩٥ ھ  نے کہا  مجھے الأَوْزَاعِيِّ سے سماع کا کوئی شوق نہیں تھا یہاں تک کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور الأَوْزَاعِيِّ  ان کے پہلو میں تھے  میں نے پوچھا کس سے علم لوں یا رسول الله ؟ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اور الأَوْزَاعِيِّ کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے – میں الذھبی کہتا ہوں الأَوْزَاعِيِّ کی بڑی شان ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا اس لئے بیان کیا جاتا تھا تاکہ لوگوں پر رعب جمایا جا سکے الولید کو پروپگینڈا کرنا پڑ رہا ہے کہ اس کا سماع الأوزاعي سے ٹھیک  ہے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق

 وقال أبو داود: الوليد أفسد حديث الأوزاعي

ابوداود کہتے ہیں الولید بن مسلم نے  الأوزاعي کی حدیث میں فساد کر دیا ہے

بغداد کے هُشَيْمُ بنُ بَشِيْرِ بنِ أَبِي خَازِمٍ أَبُو مُعَاوِيَةَ السَّلَمِيُّ  المتوفی ١٨٣ ھ کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

قَالَ يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ العَابِدُ: سَمِعْتُ نَصْرَ بنَ بسَّامٍ وَغَيْرَهُ مِنْ أَصْحَابِنَا، قَالُوا: أَتَيْنَا مَعْرُوْفاً الكَرْخِيَّ فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي المَنَامِ، وَهُوَ يَقُوْلُ

لهُشَيْمٍ: (جَزَاكَ اللهُ عَنْ أُمَّتِي خَيْراً) .

يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ العَابِدُ نے کہا میں نے نصر بن بسام سے اور ہمارے بہت سے اصحاب سے سنا کہ معروف الکرخی نے کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور وہ کہہ  هُشَيْمُ بنُ بَشِيْرِ  کے لئے رہے تھے  کے لئے جَزَاكَ اللهُ عَنْ أُمَّتِي خَيْراً

امام الشافعی کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ يَقُوْلُ: رَأَيْتُ فِي المَنَامِ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي مَسْجِدِه بِالمَدِيْنَةِ، فَكَأَنِّيْ جِئْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَكْتُبُ رَأْيَ مَالِكٍ؟ قَالَ: (لاَ) .  قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ أَبِي حَنِيْفَةَ؟  قَالَ: (لاَ) .  قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ؟  فَقَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا، كَأَنَّهُ انْتَهَرَنِي، وَقَالَ: (تَقُوْلُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ! إِنَّهُ لَيْسَ بِرَأْيٍ، وَلَكِنَّهُ رَدٌّ عَلَى مَنْ خَالَفَ سُنَّتِي) .

زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي کہتے ہیں میں نے أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ کو سنا کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اپ مسجد النبی میں تھے پس میں ان تک پہنچا اور سلام کیا اور کہا اے رسول الله کیا  مالک کی رائے لکھوں؟ فرمایا نہیں – میں نے پوچھا کیا ابو حنیفہ کی رائے لکھوں ؟ فرمایا نہیں – پوچھا کیا شافعی کی رائے لکھوں ؟  باتھ کو اس طرح کیا کہ گویا منع کر رہے ہوں اور کہا تو شافعی کی رائے کا کہتا ہے وہ میری رائے نہیں ہے بلکہ میری سنت کی مخالف ہے

یعنی رسول الله نے خواب میں امام شافعی کا قول نا پسند کیا

اسی طرح ایک قول ہے

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نَزِيْلُ مَكَّةَ – فِيْمَا كَتَبَ إِلَيَّ – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيُّ، قَالَ: قُلْتُ فِي المَنَامِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا تَقُوْلُ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَالشَّافِعِيَّ، وَمَالِكٍ؟  فَقَالَ: (لاَ قَوْلَ إِلاَّ قَوْلِي، لَكِنَّ قَوْلَ الشَّافِعِيِّ ضِدُّ قَوْلِ أَهْلِ البِدَعِ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ کہتے ہیں مکہ والے أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نے روایت کیا اس خط میں جو لکھا کہ مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيُّ نے کہا میں نے خواب میں رسول الله سے پوچھا اے رسول الله  اپ   مالک شافعی اور ابو حنیفہ کی رائے پر کیا کہتے ہیں ؟ فرمایا ان کا قول وہ نہیں  جو میرا ہے اور شافعی کا قول اہل بدعت کی ضد ہے

یعنی رسول الله نے خواب میں امام شافعی کا قول پسند کیا

یہ متضاد اقوال خواب میں لوگ سن رہے تھے اور جمع کر رہے تھے

عصر حاضر کے محقق شعيب الأرناؤوط  اس پر تعلیق میں جھنجھلا کر رہ گئے لکھتے ہیں

ومتى كان المنام حجة عند أهل العلم؟ ! فمالك وأبو حنيفة وغيرهما من الأئمة العدول الثقات اجتهدوا، فأصاب كل واحد منهم في كثير مما انتهى إليه اجتهاده فيه، وأخطأ في بعضه، وكل واحد منهم يؤخذ من قوله ويرد، فكان ماذا؟

اور کب سے خواب اہل علم کے ہاں حجت ہو گئے؟ پس مالک اور ابو حنیفہ اور دوسرے ائمہ عدول ہیں ثقات ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا ہے پس ان سب میں بہت سا ہے جو ان کے اجتہاد پر ہے اور اس میں بعض کی خطا بھی ہے اور ان سب کا قول لیا جاتا ہے اور رد بھی ہوتا ہے تو یہ کیا ہے ؟

یعنی جب خوابوں سے ائمہ پر سوال اٹھتا ہے تو فورا اس کو غیر حجت کہا جاتا ہے اگر یہ سب غیر حجت ہے تو ان کو جمع کرنے اور لوگوں کا ان کو بیان کرنا کتنا معیوب ہو گا ؟ جس دور میں ان کو بیان کیا گیا اس دور میں یقینا یہ معیوب نہ ہو گا بہت سے  ان خوابوں کو جمع کر رہے تھے

اس کے برعکس الموسوعة الفقهية الكويتية جو ٤٥ جلدوں میں فتووں کا مجموعہ ہے اور وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية – الكويت نے چھاپا ہے  اس میں وہابی علماء کا فتوی ج ٢٢ ص ١٠ پر ہے

وَهَذِهِ الأْحَادِيثُ تَدُل عَلَى جَوَازِ رُؤْيَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، وَقَدْ ذَكَرَ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ، وَالنَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ مُسْلِمٍ أَقْوَالاً مُخْتَلِفَةً فِي مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَسَيَرَانِي فِي الْيَقَظَةِ. وَالصَّحِيحُ مِنْهَا أَنَّ مَقْصُودَهُ أَنَّ رُؤْيَتَهُ فِي كُل حَالَةٍ لَيْسَتْ بَاطِلَةً وَلاَ أَضْغَاثًا، بَل هِيَ حَقٌّ فِي نَفْسِهَا، وَلَوْ رُئِيَ عَلَى غَيْرِ صُورَتِهِ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي حَيَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَصَوُّرُ تِلْكَ الصُّورَةِ لَيْسَ مِنَ الشَّيْطَانِ بَل هُوَ مِنْ قِبَل اللَّهِ، وَقَال: وَهَذَا قَوْل الْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الطَّيِّبِ وَغَيْرِهِ، وَيُؤَيِّدُهُ قَوْلُهُ: فَقَدْ رَأَى الْحَقَّ

اور یہ احادیث (جو اوپر پیش کی گئی ہیں) دلیل ہیں نیند میں رسول الله کو دیکھنے کے جواز پر اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور النووی نے شرح المسلم میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں جو اس معنی پر ہیں قول نبوی ہے جس  نے نیند میں مجھے دیکھا پس اس نے جاگنے میں دیکھا اور  مقصود ان میں صحیح  ہے کہ دیکھنا ہر حال میں باطل نہیں اور نہ پریشان خوابی ہے بلکہ یہ  فی نفسہ حق ہے اور اگر اس صورت پر دیکھے جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم زندگی میں نہیں تھے تو اس صورت کا تصور شیطان کی طرف سے نہیں بلکہ یہ الله کی طرف سے ہے اور کہا یہ قول ہے قاضی ابو بکر بن الطیب اور دوسروں کا اور اس کی تائید اس قول سے ہوتی ہے پس اس نے حق دیکھا  

پانچویں صدی کے حنابلہ کے امام ابن الزغوانی کہتے ہیں کہ ان کے سامنے أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی سند پر قرات ہوئی اور الذہبی لکھتے ہیں

أَملَى عليَّ القَاضِي عَبْدُ الرَّحِيْمِ بن الزَّرِيْرَانِي  أَنَّهُ قرَأَ بِخَطِّ أَبِي الحَسَنِ بنِ الزَّاغونِي: قرَأَ أَبُو مُحَمَّدٍ الضّرِير عليَّ القُرْآن لأَبِي عَمْرٍو، وَرَأَيْتُ فِي المَنَامِ رَسُوْلَ اللهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَقَرَأْتُ عَلَيْهِ القُرْآن مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ بِهَذِهِ القِرَاءة، وَهُوَ يَسْمَع، وَلَمَّا بلغت فِي الحَجّ إِلَى قَوْلِهِ: {إِنَّ اللهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} [الحَجّ:14] الآيَة، أَشَارَ بِيَدِهِ، أَي: اسْمَعْ، ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ الآيَة مَنْ قرَأَهَا، غُفِرَ لَهُ، ثُمَّ أَشَارَ أَن اقرَأْ، فَلَمَّا بلغتُ أَوّل يَس، قَالَ لِي: هَذِهِ السُّورَة مَنْ قرَأَهَا، أَمِنَ مِنَ الفَقْر، وَذَكَرَ بَقِيَّةَ المَنَام.

ابن زغوانی نے کہا کہ … میں نے خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور اپ نے مجھ پر قرآن اول سے آخر تک پڑھا اس قرات پر … اور اس میں (صلی الله علیہ وسلم نے) فرمایا سوره یس وہ سوره ہے جو  پڑھے اس کو فقر سے امن ہو گا

کہا جاتا ہے خواب محدثین نے بیان تو کیے لیکن علماء نے  ان سے دلیل نہیں لی جبکہ الزغوانی نے سوره یس کی فضیلت نقل کی –  امام مسلم خواب سے مقدمہ میں دلیل لیتے ہیں

مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ)   میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ خَمْسَ مِائَةِ حَدِيثٍ، أَوْ ذَكَرَ أَكْثَرَ، فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا الْيَسِيرَ خَمْسَةَ أَوْ سِتَّةَ أَحَادِيثَ، فَتَرَكْتُ الْحَدِيثَ عَنْهُ»

ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں

امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو بلا جرح  نقل کیا ہے گویا یہ ان کے نزدیک دلیل تھا جبکہ اس کی سند ضعیف ہے

  القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ از  شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) کے مطابق

وعن سليمان ابن سحيم قال رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في النوم فقلت يا رسول الله هؤلاء الذين يأتونك فيسلمون عليك اتفقه سلامهم قال نعم وأرد عليهم رواه ابن أبي الدنيا والبيهقي في حياة الأنبياء والشعب كلاهما له ومن طريقه ابن بشكوال وقال إبراهيم بن شيبان حججت فجئت المدينة فتقدمت إلى القبر الشريف فيلمت على رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فيمعته من داخل الحجرة يقول وعليك السلام

 سليمان بن سحيم نے کہا میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ان سے کہا یا رسول الله یہ جو اپ تک اتے ہیں اور سلام کہتے ہیں کیا اپ ن کا سلام پہچانتے ہیں ؟ فرمایا ہاں میں جواب دیتا ہوں

اس کو ابن ابی الدنیا نے اور البیہقی نے روایت کیا ہے حیات الانبیاء میں اور شعب الایمان میں اور ان دونوں نے اس کو ابن بشکوال کے طرق سے روایت کیا ہے اور کہا ابراہیم بن شیبان نے حج کیا اور مدینہ پہنچے تو قبر النبوی پر حاضر ہوئے پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سلام کہا حجرہ میں داخل ہو کر اور وہاں جواب آیا تم پر بھی سلام ہو

امام السخاوی نے اس کو بیان کیا ہے اور اس طرح رد الله علی روحی والی روایت کی تصحیح کی گئی ہے

  خواب میں   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا آنا صحیح حدیث سے  ثابت نہیں ہے اس پر تفصیل یہاں ہے

⇓  کیا  اج نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا حدیث سے ثابت  ہے ؟

اہم مباحث

كلام قليب البدر – معجزه يا آیت

جنگ بدر کے اختتام پر اپ صلی الله علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی لاشیں ایک کنواں میں ڈلوا دیں اور تیسرے روز اپ اس قلیب یا کنواں کی منڈھیر پر آئے اور مشرکین مکہ کو نام بنام پکار کر کہا کہ

کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ سچا پایا؟

عمر رضی الله عنہ اور دیگر اصحاب نے کہا اپ گلے ہوئے جسموں سے خطاب کر رہے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس پر کہا یہ اس وقت سن رہے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی موقعہ پر ابن عمر رضی الله عنہ نے رائے پیش کی کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ تھا اس کی خبر عائشہ رضی الله عنہا کو ہوئی انہوں نے اس  کی تاویل کی کہ یہ علم ہونا تھا کہ کفار  نے حق جان لیا اور مردے نہیں سنتے

ابن رجب تفسیر میں لکھتے ہیں

قد وافقَ عائشةَ على نفي سماع الموتى كلامَ الأحياءِ طائفة من العلماءِ. ورجَّحَهُ القاضي أبو يعْلى من أصحابِنا، في كتابِ “الجامعِ الكبيرِ” له. واحتجّوا بما احتجتْ به عائشةُ – رضي الله عنها -، وأجابُوا عن حديثِ قليبِ بدرٍ بما أجابتْ به عائشة – رضي الله عنها – وبأنه يجوزُ أن يكونَ ذلك معجزةً مختصةً بالنبيِّ – صلى الله عليه وسلم –

علماء کا ایک گروہ عائشہ سے موافقت کرتا ہے مردوں کے سننے کی نفی پر جب زندہ ان سے کلام کریں – اور اسی کو راجح کیا ہے قاضی ابویعلی  ہمارے اصحاب (حنابلہ) میں سے کتاب جامع الکبیر میں اور دلیل لی ہے جس سے عائشہ رضی الله عنہا نے دلیل لی ہے اور اس سے جائز ہے کہ یہ معجزہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر خاص تھا

آیت فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (52)  کی تفسیر محاسن التأويل   میں   محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ)  لکھتے ہیں

وقال ابن الهمام: أكثر مشايخنا على أن الميت لا يسمع استدلالا بهذه الآية ونحوها. ولذا لم يقولوا: بتلقين القبر. وقالوا: لو حلف لا يكلم فلانا، فكلمه ميتا لا يحنث. وأورد عليهم  قوله صلّى الله عليه وسلّم في أهل القليب (ما أنتم بأسمع منهم)  وأجيب تارة بأنه روي عن عائشة رضي الله عنهما أنها أنكرته. وأخرى بأنه من خصوصياته صلّى الله عليه وسلّم معجزة له. أو أنه تمثيل

ابن الھمام نے کہا: ہمارے اکثر مشایخ اس آیت سے اور اسی طرح کی دیگر آیات سے استدلال کر کے اس موقف پر ہیں کہ میت نہیں سنتی – اس وجہ سے وہ نہیں کہتے قبر پر تلقین کے لئے- اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی قسم لے کہ فلاں سے کلام نہ کرو گا پھر اس کی موت کے بعد کلام کر لیا تو قسم نہیں ٹوٹے گی- اور اس پر آیا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول ” تم سماع میں ان سے بڑھ کر نہیں” –  اور جواب دیا جاتا ہے کہ روایت کیا گیا ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے اس سماع کا انکار کیا ہے اور دوسرا جواب ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے ان کے لئے معجزہ ہے یا ان کے لئے مثال ہے

کتاب  مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) لکھتے ہیں

ثُمَّ قَالَ وَتَارَةً بِأَنَّ تِلْكَ خُصُوصِيَّةٌ لَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مُعْجِزَةٌ وَزِيَادَةُ حَسْرَةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ

پھر کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص ہے معجزہ ہے اور کافرین پر حسرت کی زیادتی ہے

معلوم ہوا کہ قلب بدر کے واقعہ کو علماء معجزہ کہتے آئے ہیں اسی چیز کا اعادہ البانی نے بھی کیا ہے کہ یہ معجزہ تھا

لیکن بعض علماء نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ مردہ ہر وقت سنتا ہے جب بھی کوئی اسکو پکارے مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم – اور عصر حاضر کے حیات فی القبر کے اقراری غیر مقلدین  بھی  تدفین کے فورا بعد مردے کے سماع  کے قائل ہیں

معجزہ کی سادہ فہم تعریف لغت میں دیکھی جا سکتی ہے اس کے علاوہ اصول کی کتب میں بھی ہے – قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-

لیکن ایک صاحب جھنجھلا کر کہتے ہیں

معجزہ ۔۔ یا ۔۔ خرق عادۃ کی یہی تعریف کسی آیت ، یا حدیث شریف یا کسی صحابی سے ثابت کریں

بہت خوب یعنی مناظرہ بازی کے انچھر پھینکے جا رہے

دیکھتے ہیں معجزہ میں کیا اقوال ہیں ظاہر ہے یہ اصطلاح اصول و علم کلام کی ہے جو  قرآن میں نہیں ہے نہ حدیث میں تو پھر  ان لوگوں سے   عارفانہ کلام کیوں ادا ہو رہا ہے

مجموعة الرسائل والمسائل میں ابن   تيمية الحراني (المتوفى : 728هـ) لکھتے ہیں

وإن كان اسم المعجزة يعم كل خارق للعادة في اللغة وعرف الأئمة المتقدمين كالإمام أحمد بن حنبل وغيره – ويسمونها: الآيات – لكن كثير من المتأخرين يفرق في اللفظ بينهما، فيجعل المعجزة للنبي، والكرامة للولي. وجماعهما الأمر الخارق للعادة.

اور اگرچہ معجزہ کا اسم لغت میں  عام طور سے خارق عادت کے لئے  ہے اور ائمہ متقدمین جیسے امام احمد اور دیگر اس کو جانتے ہیں– اس کو نام دیا ہے آیات کا لیکن متاخرین میں سے اکثر نے ان الفاظ میں فرق کیا ہے تو معجزہ کو کیا نبی کے لئے اور کرامت کو کیا ولی کے لئے  اور ان سب کو امر خارق عادت کیا

النبوات از ابن تیمیہ الدمشقي (المتوفى: 728هـ) کے مطابق

ليس في الكتاب والسنة لفظ المعجزة وخرق العادة وليس في الكتاب والسنة تعليق الحكم بهذا الوصف، بل ولا ذكر خرق العادة، ولا لفظ المعجز، وإنّما فيه آيات وبراهين

کتاب و سنت میں معجزہ یا خارق عادت  کا لفظ ہی نہیں ہے نہ کتاب و سنت میں اس وصف پر کوئی حکم ہے نہ خرق عادت کا ذکر ہے نہ لفظ معجزہ کا بلکہ اس میں آیات و براہین ہیں

اس کے بعد ابن تیمیہ اپنی مختلف کتب میں معجزہ اور خارق عادت کے لفظ کے بجائے آیات اور براہین کے الفاظ بولنے پر زور دیتے ہیں اور اشاعرہ ، معتزلہ اور امام ابن حزم کے اقوال کا رد کرتے ہیں لب لباب یہ ہے

سلفي المعتزلة  وابن حزم و علماء ظاہر اشاعرہ
 

والشيخ رحمه الله يوضح أن خرق العادة وعدم المعارضة هذا من صفات المعجزة، ليس من حدودها.

 

فالآيات التي أعلم الله بها رسالة رسله، وصدّقهم، لا بُدّ أن تكون مختصةً بهم، مستلزمةً لصدقهم؛ فإنّ الإعلام والإخبار بأنّ هذا رسول، وتصديقه في قوله: إنّ الله أرسلني، لا يُتصوّر أن يوجد لغير رسول.

__________

 

الآيات التي جعلها الله علامات: هي إعلامٌ بالفعل الذي قد يكون أقوى من القول، فلا يُتصوّر أن تكون آيات الرسل إلا دالّة على صدقهم، ومدلولها أنّهم صادقون، لا يجوز أن توجد بدون صدق الرسل البتة.

 

ابن تیمیہ کے نزدیک کرامات غیر نبی بھی خرق عادت ہیں جن کا صدور ممکن ہے اور ان کو آیات نہیں  کہا گیا ہے  

 

اس طرح کو انبیاء کرتے ہیں وہ آیات ہیں اور جو شعبدہ باز ساحر کرتے ہیں وہ معجزہ ہے

لا يُثبتون النبوة إلا بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة.

انظر: شرح الأصول الخمسة للقاضي عبد الجبار المعتزلي ص 585-586. والمحلى لابن حزم 136. والدرة فيما يجب اعتقاده له أيضاً ص 194.

 

إن خرق العادة لا يكون إلا للأنبياء.

 

 

معتزلہ اور امام ابن حزم کے نزدیک جو خرق عادت بات انبیاء سے صدور ہو وو معجزہ ہے اور غیر نبی سے یہ ممکن نہیں لہذا کرامت کوئی چیز نہیں

المعجزات عند الأشاعرة هي ما تعجز قدرات العباد عنها

إنّه إذا لم يقدر على الفعل، فلا بُدّ أن يكون عاجزاً، أو قادراً على ضدّه.

 

أور

متأخروا الأشاعرة حذفوا القيد الذي وضعه المتقدمون

ولهذا لما رأى المتأخرون ضعف هذا الفرق؛ كأبي المعالي ، والرازي ، والآمدي ، وغيرهم حذفوا هذا القيد

 

أور

المعجزة عند الأشاعرة دعوى النبوة وعدم المعارضة وليست الآية بجنسها معجزة

النبوات أز ابن تيميه

 

فيُثبتون النبوة بطريق القدرة؛ الذي هو المعجزة، أو بطريق الضرورة، إلا أنّ طريق المعجزة عندهم هي أشهر الطرق.

انظر: المواقف للإيجي ص 349، 356، 357. والإرشاد للجويني ص 331. والإنصاف للباقلاني ص 93. والبيان له ص 37-38.

وجوزوا أن يأتي غير الأنبياء بمثل ما أتوا به ولو لم يدعوا النبوة، فسووا بين خوارق الأنبياء والأولياء والسحرة والكهان

 

 

متقدمین اشاعرہ کے نزدیک معجزہ وہ چیزیں ہیں جو صرف الله کی قدرت سے ممکن ہیں جو انسان نہ کر سکتا ہو

 

متاخرین کے نزدیک آیات معجزہ کی جنس سے نہیں ہیں  اور ان کا صدور نبی،  غیر نبی دونوں سے ممکن ہے جس میں غیر نبی نبوت کا دعوی نہیں کرتا

خوراق انبیاء اور خوارق اولیاء کا لفظ بولا گیا ہے

 

 

ابن تیمیہ کی اصطلاحی تعریف  کو قبول کرتے ہوئے عصر حاضر کے وہابی علماء نے کہا ہے

منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ) قرانی لفظ  الآية  پر

 لکھتے ہیں

لأن هذا التعبير القرآني والآية أبلغ من المعجزة لأن الآية معناها العلامة على صدق ما جاء به هذا الرسول، والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره، لكن التعبير بـ “الآية” أبلغ وأدق وهي التعبير القرآني فنسمي المعجزات بالآيات هذا هو الصواب.

یہ قرانی تعبیر ہے اور آیت کا لفظ معجزہ سے زیادہ مفھوم والا ہے کیونکہ آیت کا معنی علامت ہے اس  سچ پر جو یہ رسول لایا ہے اور معجزہ کسی شعبدہ باز یا انسان کے ہاتھ پر ہوتا ہے جس میں اس کو دوسروں سے بڑھ کر قوت ہوتی ہے کہ دوسرے عجز کا شکار ہوتے ہیں لیکن آیت کی تعبیر ابلغ اور دقیق ہے اور یہ قرانی تعبیر ہے پس ہم معجزات کو آیات کہیں گے جو ٹھیک ہے

شرح العقيدة السفارينية – میں  محمد بن صالح بن محمد العثيمين لکھتے ہیں

المعجزات: جمع معجزة، وهي في التعريف أمر خارق للعادة يظهره الله سبحانه وتعالى على يد الرسول شهادة بصدقه، فهو يشهد بصدقه بالفعل وهو إظهار هذه المعجزة.

معجزات: جو معجزہ کی جمع ہے یہ تعریف ہے خرق عادت کام پر جو اللہ تعالی کرتے ہیں رسول کے ہاتھ پر سچ پر بطور شہادت کہ وہ سچائی کو دیکھتا ہے بالفعل اور یہ معجزہ کا اظہار ہے

اصلا ابن تیمیہ اور غیر مقلدین اس گروہ صوفیا میں سے ہیں جو غیر نبی کے ہاتھ پر کرامت مانتے ہیں اور اسی چیز کو اپنی کتابوں میں ابن تیمیہ معجزہ کہتے ہیں – لہذا یہ کھل کر نہیں کہنا چاہتے کہ معجزہ  صرف الله کا  فعل ہے نبی کے ہاتھ پر

ابن تیمیہ سے منسلک لوگوں کے تضادات دیکھیں

ابن تیمیہ کے نزدیک نبی کے ہاتھ پر جو فعل خرق عادت ہوا وہ معجزہ نہیں ہے- جو غیر نبی کرے وہ معجزہ ہے

منهاج أهل السنة والجماعة في العقيدة والعمل میں محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421هـ)کہتے ہیں

 والمعجزة قد تكون على يد مشعوذ أو على يد إنسان قوي يفعل ما يعجز عنه غيره

اور معجزہ وہ ہے جو شعبدہ باز کے ہاتھ پر ہو

 اور اہل حدیث مولانا عبد المجید سوہدری    کہتے ہیں

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کرامات-اہل-حدیث.74916/

%da%a9%d8%b1%d8%a7%d9%85%d8%a7%d8%aa-%d8%a7%db%81%d9%84-%d8%ad%d8%af%db%8c%d8%ab

اہل حدیث
ترجمہ محمد جونا گڑھی

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور جب آپ کوئی معجزه ان کے سامنے ﻇاہر نہیں کرتے تو وه لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزه کیوں نہ ﻻئے؟ آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں
7:203

وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو پھر کوئیمعجزه لے آؤ تو کرو اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ان سب کو راه راست پر جمع کر دیتا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیے
6:35

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَمُنُّ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَعلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزه تمہیں ﻻ دکھائیں اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے
14:11

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کیے اور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزه اللہ کی اجازت کے بغیر ﻻ سکے پھر جس وقت اللہ کا حکم آئےگا حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس جگہ اہل باطل خسارے میں ره جائیں گے
40:78

یھاں یہ اہل حدیث عالم آیات کا ترجمہ معجزہ کرتے ہیں لیکن کچھ اہل حدیث معجزہ لفظ سے ہی الرجک ہیں

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے بھی اپنی کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا کہ قلیب بدر معجزہ تھا

لیکن یہی عالم بعد میں  کہتے ہیں کہ تمام مردے تدفین پر جوتوں کی چاپ سنتے ہیں تو قلیب بدر معجزہ کیسے ہوا ؟

لہذا معجزہ کی تعریف بدلتے رہتے ہیں

جو لوگ معجزہ کی تعریف ہی بدلتے رهتے ہوں ان سے اب کیا توقع کی جائے کہ وہ معجزہ کو معمول بنا دیں گے اور معمول کو معجزہ

بقول حسرت

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

علی علی علی علی

یمن کا ایک شخص عبد الله ابن سبا ، عثمان رضی الله عنہ کے دور میں ایمان لایا – یہ اس سے قبل ایک یہودی تھا اور قرآن و حدیث پر اس کا اپنا ہی  نقطۂ نظر تھا – یہود میں موسی و ہارون (علیھما السلام)  کے بعد  انبیاء کی اہمیت واجبی   ہے –  کوئی بھی نبی موسی (علیہ السلام) سے بڑھ کر نہیں ہے اور موسی  (علیہ السلام) نے الله سے براہ راست کلام کیا اللہ کو ایک جسم کی صورت دیکھا –  باقی انبیاء میں داود  (علیہ السلام) قابل اہم سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی اہمیت ایک موسیقار سے زیادہ یہود کے نزدیک نہیں ہے –  جنہوں نے آلات موسیقی کو ایجاد کیا اور ان  کے سازووں سے ہیکل سلیمانی گونجتا رہتا تھا – ان کے بعد اہمیت الیاس  (علیہ السلام) کی ہے جو شمال کی یہودی ریاست اسرئیل میں آئے اور ان کو زجر و توبیخ کی – آج جو یہودیت ہم کو ملی ہے وہ شمال مخالف یہودا کی ریاست کی ہے- اس ریاست میں یہودا اور بن یامین نام کے دو قبائل تھے جو یہود کے بقول ١٢ میں بچ گئے جبکہ باقی ١٠ منتشر ہو گئے جن کی اکثریت شمالی ریاست میں تھی-  راقم کی تحقیق کے مطابق ابن سبا  کے اجداد کا تعلق بھی شمالی یہود سے تھا –  الیاس  (علیہ السلام) کی اسی لئے اہمیت ہے کہ شمال سے تھے اور وہ ایک آسمانی بگولے میں اوپر چلے گئے

اب ابن سبا کا فلسفہ دیکھتے ہیں

علی الیاس ہیں اورآنے والا دابة الارض ہیں

سبائیوں  کو قرآن سے آیت ملی

 و رفعناه مکانا علیا

اور ہم نے اس کو ایک بلند مقام پر اٹھایا

اس  آیت میں علیا کا لفظ  ہے  یعنی الیاس کو اب بلند کر کے علی کر دیا گیا ہے

اپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیا عجیب بات ہے- تو حیران نہ ہوں یہ کتب شیعہ میں موجود ہے

مختصر بصائر الدرجات  از الحسن بن سليمان الحليي  المتوفی ٨٠٦ ھ روایت پیش کرتے ہیں

حدثنا الحسين بن أحمد قال حدثنا الحسين بن عيسى حدثنا يونس ابن عبد الرحمن عن سماعة بن مهران عن الفضل بن الزبير عن الاصبغ ابن نباتة قال: قال لي معاوية يا معشر الشيعة تزعمون ان عليا دابة الارض فقلت نحن نقول اليهود تقوله فارسل إلى رأس الجالوت فقال ويحك تجدون دابة الارض عندكم فقال نعم فقال ما هي فقال رجل فقال اتدري ما اسمه قال نعم اسمه اليا قال فالتفت الي فقال ويحك يا اصبغ ما اقرب اليا من عليا.

الاصبغ ابن نباتة کہتے ہیں کہ معاویہ نے کہا اے گروہ شیعہ تم گمان کرتے ہو علی دابة الارض ہے پس میں الاصبغ ابن نباتة نے معاویہ کو جواب دیا ہم وہی کہتے ہیں جو یہود کہتے ہیں  پس معاویہ نے یہود کے سردار جالوت کو بلوایا اور کہا تیری بربادی ہو کیا تم اپنے پاس دابة الارض کا ذکر پاتے ہو؟ جالوت نے کہا ہاں – معاویہ نے پوچھا کیا ہے اس میں ؟ جالوت نے کہا ایک شخص ہے – معاویہ نے پوچھا اس کا نام کیا ہے ؟ جالوت نے کہا اس کا نام الیا (الیاس) ہے – اس پر معاویہ میری طرف پلٹ کر بولا بردبادی اے الاصبغ یہ الیا ، علیا کے کتنا قریب ہے

الاصبغ ابن نباتة کا تعلق یمن سے تھا یہ علی کا محافظ تھا – یعنی الیاس اب علی ہیں

اسی کتاب میں دوسری روایت ہے

 حدثنا الحسين بن احمد قال حدثنا محمد بن عيسى حدثنا يونس عن بعض اصحابه عن ابى بصير قال: قال أبو جعفر (ع) اي شئ يقول الناس في هذه الآية (وإذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم) فقال هو أمير المؤمنين

ابى بصير  يحيى بن القاسم الاسدى ، امام جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ اس آیت  (وإذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم) پر کیا چیز بول رہے ہیں پس امام نے کہا یہ تو امیر المومنین ہیں

ابى بصير  يحيى بن القاسم الاسدى کے لئے  الطوسي کہتے ہیں  إنه واقفي یہ واقفی تھے اور الکشی کہتے ہیں مختلط تھے
 بحوالہ سماء المقال في علم الرجال – ابو الهدى الكلباسي
كليات في علم الرجال از جعفر السبحاني  کے مطابق  الواقفة سے مراد وہ لوگ ہیں
وهم الذين ساقوا الامامة إلى جعفر بن محمد، ثم زعموا أن الامام بعد جعفر كان ابنه موسى بن جعفر عليهما السلام، وزعموا أن موسى بن جعفر حي لم يمت، وأنه المهدي المنتظر، وقالوا إنه دخل دار الرشيد ولم يخرج منها وقد علمنا إمامته وشككنا في موته فلا نحكم في موته إلا بتعيين
جو کہتے ہیں امامت امام جعفر پر ختم ہوئی پھر انہوں نے دعوی کیا کہ ان کے بیٹے موسی  امام ہیں اور دعوی کیا کہ موسی مرے نہیں زندہ ہیں اور وہی امام المہدی ہیں اور کہا کہ وہ دار الرشید میں داخل ہوئے اور اس سے نہ نکلے اور ہم ان کو امام جانتے ہیں اور ان کی موت پر شک کرتے ہیں پس ہم ان کی موت کا حکم تعین کے ساتھ نہیں لگا سکتے

علی رضی الله عنہ ہی الیاس تھے- جو اب بادلوں میں ہیں – علی کی قبر قرن اول میں کسی کو پتا نہیں تھی – سبائیوں کے نزدیک یہ نشانی تھی کہ وہ مرے نہیں ہیں – البتہ قرن اول اور بعد کے شیعہ یہ عقیدہ آج تک رکھتے ہیں کہ علی مدت حیات میں بادل الصعب کی سواری کرتے تھے اور علی اب دابتہ الارض ہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے- اسی بنا پر روایات میں ہے کہ اس جانور کی داڑھی بھی ہو گی – یعنی یہ انسان ہے- عام اہل سنت کو مغالطہ ہے کہ یہ کوئی جانور ہے

مسند امام الرضا کے مطابق امام الرضا اور یہود کے سردار جالوت میں مکالمہ ہوا

 قال لرأس الجالوت: فاسمع الان السفر الفلاني من زبور داود عليه السلام. قال: هات بارك الله فيك وعليك وعلى من ولدك فتلى الرضا عليه السلام السفر الاول من الزبور، حتى انتهى إلى ذكر محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين فقال سألتك يا رأس الجالوت بحق الله أهذا في زبور داود عليه السلام ولك من الامان والذمة والعهد ما قد أعطيته الجاثليق فقال راس الجالوت نعم هذا بعينه في الزبور باسمائهم. فقال الرضا عليه السلام: فبحق العشر الآيات التي أنزلها الله تعالى على موسى بن عمران في التورية هل تجد صفة محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين في التوراية منسوبين إلى العدل والفضل، قال نعم ومن جحد هذا فهو كافر بربه وأنبيائه. فقال له الرضا عليه السلام: فخذ على في سفر كذا من التورية فاقبل الرضا عليه السلام يتلو التورية وأقبل رأس الجالوت يتعجب من تلاوته وبيانه وفصاحته ولسانه، حتى إذا بلغ ذكر محمد قال رأس الجالوت: نعم، هذا أحماد وبنت أحماد وإيليا وشبر و شبير تفسيره بالعربية محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين. فتلى الرضا عليه السلام إلى آخره

یہود کے سردار جالوت نے کہا میں نے زبور میں( اہل بیت کے بارے میں ) پڑھا ہے امام رضا نے شروع سے آخر تک زبور کو پڑھا یہاں تک کہ محمد اور علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین کا ذکر آیا پس کہا اے سردار جالوت الله کا واسطہ کیا یہ داود کی زبور ہے ؟  جالوت نے کہا جی ہاں … امام رضا نے کہا الله نے دس آیات موسی پر توریت میں نازل کی تھیں جس میں  محمد ، علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین کی صفت ہیں جو عدل و فضل سے منسوب ہیں جالوت بولا جی ہیں ان پر  حجت نہیں کرتا مگر وہ جو کافر ہو

علی ہارون ہیں

یہود کے مطابق اگرچہ موسی کو کتاب الله ملی لیکن موسی لوگوں پر امام نہیں تھے – امام ہارون تھے لہذا دشت میں خیمہ ربانی

Tabernacle

میں صرف بنی ہارون کو داخل ہونے کا حکم تھا

 “Then bring near to you Aaron your brother, and his sons with him, from among the people of Israel, to serve me as priests—Aaron and Aaron’s sons, Nadab and Abihu, Eleazar and Ithamar.”

Exodus. 28:1

تم بنی اسرائیل کے ہاں  سے صرف ہارون اور اس کے بیٹے  میرے قریب آئیں کیونکہ یہ امام بنیں گے – ہارون اور اس کے بیٹے ندب اور ابیہو، علییضر اور اثمار

اسی بنا پر جب یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جو حدیث منزلت کے نام سے مشھور ہے جس کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم نے علی سے کہا کہ تم کو وہی  منزلت حاصل ہے جو موسی کو ہارون سے تھی تو اس کا مفھوم سبائیوں اور اہل تشیع کے نزدیک وہ  نہیں جو اہل سنت کے ہاں مروج ہے بلکہ  جس طرح  ہارون کو امام اللہ تعالی نے مقرر کیا اسی طرح علی کا امام مقرر ہونا بھی من جانب الله ہونا چاہیے

ali-facets

علی صحابی سے ہارون بنے پھر خلیفہ پھر امام پھر الیاس اور پھر دابتہ الارض

جس طرح موسی کے بعد ان کے بھائی ہارون  اور ان کے بیٹے امام ہوئے اسی طرح محمد کے بعد ان کے چچا زاد  بھائی اور ان کے بیٹے امام ہوں گے یعنی ابن سبا توریت کو ہو بہو منطبق کر رہا تھا

حسن و حسین کو  بنی ہارون کے نام دینا

حسن اور حسین رضی الله عنہما کے دو نام شبر اور شبیر بھی بتائے جاتے ہیں – ان ناموں کا عربی میں کوئی مفھوم نہیں ہے نہ یہ عربی   میں قرن اول سے پہلے بولے جاتے تھے – آج لوگ اپنے بچوں کا نام شبیر اور شبر بھی رکھ رہے ہیں – یہ نام کہاں سے آئے ہیں ؟  ان پر غور کرتے ہیں

ان ناموں کی اصل سمجھنے کے لئے اپ کو سبائی فلسفہ سمجھنا ہو گا تاکہ اپ ان ناموں کی روح تک پہنچ سکیں

امام حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِيُّ بِمَرْوَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا وَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحَسَنَ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، قَالَ: «بَلْ هُوَ حَسَنٌ» فَلَمَّا وَلَدَتِ الْحُسَيْنَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، فَقَالَ: «بَلْ هُوَ حُسَيْنٌ» ثُمَّ لَمَّا وَلَدَتِ الثَّالِثَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، قَالَ: «بَلْ هُوَ مُحْسِنٌ» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّمَا سَمَّيْتُهُمْ بِاسْمِ وَلَدِ هَارُونَ شَبَرٌ وَشُبَيْرٌ وَمُشْبِرٌ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب فاطمه نے حسن کو جنا تو نبی صلی الله علیہ وسلم  آئے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ تو حسن ہے  – پھر جب فاطمہ نے حسین کو جنا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  بلکہ یہ تو حسین ہے  – پھر تیسری دفعہ فاطمہ نے بیٹا جنا تو  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ محسن ہے – پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ان کو ہارون کے بیٹوں کے نام دیے ہیں شبر ، شبیر اور مبشر

امام حاکم اور الذھبی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں
 سند میں هانئ بن هانئ الهمداني الكوفي  ہے  یعنی یمن کے قبیلہ ہمدان کے تھے پھر کوفہ منتقل ہوئے امام بخاری تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں علی سے سنا ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں
هانئ بن هانئ [د، ت، ق] .عن علي رضي الله عنه.
قال ابن المديني: مجهول.  وقال النسائي: ليس به بأس.
ابن المدینی کہتے ہیں یہ مجھول ہے اور نسائی کہتے ہیں اس میں برائی نہیں ہے
الذھبی نے نسائی کی رائے کو ترجیح دی ہے
ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وَكَانَ يَتَشَيَّعُ , وَكَانَ مُنْكَرَ الْحَدِيثِ یہ شیعہ تھے منکر الحدیث ہیں
ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذھبی نے اس کا شمار مجہولین میں کیا ہے یعنی الذھبی مختلف کتابوں میں رائے بدلتے رہے
محدث ابن حبان جو امام الرضا کی قبر سے فیض حاصل کرتے ہیں وہ اس روایت کو صحیح ابن حبان میں نقل کرتے ہیں

أمالي الصدوق: 116 / 3. (3 – 4) البحار: 43 / 239 / 4 وص 263 / 8. (5 – 6) كنز العمال: 37682، 37693. کی روایت ہے

 الإمام زين العابدين (عليه السلام): لما ولدت فاطمة الحسن (عليهما السلام) قالت لعلي (عليه السلام): سمه فقال: ما كنت لأسبق باسمه رسول الله، فجاء رسول الله (صلى الله عليه وآله)… ثم قال لعلي (عليه السلام): هل سميته ؟ فقال: ما كنت لأسبقك باسمه، فقال (صلى الله عليه وآله): وما كنت لأسبق باسمه ربي عزوجل. فأوحى الله تبارك وتعالى إلى جبرئيل أنه قد ولد لمحمد ابن فاهبط فأقرئه السلام وهنئه وقل له: إن عليا منك بمنزلة هارون من موسى فسمه باسم ابن هارون. فهبط جبرئيل (عليه السلام) فهنأه من الله عزوجل ثم قال: إن الله تبارك وتعالى يأمرك أن تسميه باسم ابن هارون. قال: وما كان اسمه ؟ قال: شبر، قال: لسان عربي، قال: سمه الحسن، فسماه الحسن. فلما ولد الحسين (عليه السلام)… هبط جبرئيل (عليه السلام) فهنأه من الله تبارك وتعالى ثم قال: إن عليا منك بمنزلة هارون من موسى فسمه باسم ابن هارون، قال: وما اسمه ؟ قال: شبير، قال: لساني عربي، قال: سمه الحسين، فسماه الحسين

 الإمام زين العابدين (عليه السلام) کہتے ہیں کہ جب فاطمہ نے حسن کو جنا تو علی نے کہا اس کا نام رکھو انہوں نے کہا میں  رسول الله سے پہلے نام نہ رکھو گی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آئے اور علی سے پوچھا نام رکھا ؟ علی نے کہا نام رکھنے میں اپ پر سبقت نہیں کر سکتا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمآیا میں نام رکھنے میں اپنے رب پر سبقت نہیں کر سکتا پس الله تعالی نے الوحی کی اور جبریل کو زمین کی طرف بھیجا کہ محمد کے ہاں بیٹا ہوا ہے پس ہبوط کرو ان کو سلام کہو اور تہنیت اور ان سے کہو کہ علی کی منزلت ایسی ہے جیسی ہارون کو موسی سے تھی پس اس کا نام ہارون کے بیٹے کے نام پر رکھو پس جبریل آئے …. اور کہا اس کا نام شبر رکھو نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا عربی زبان میں کیا ہے؟ کہا: اس کا نام الحسن ہے پس حسن رکھو پھر جب حسین پیدا ہوئے تو جبریل آئے (یہی حکم دہرایا گیا اور من جانب اللہ نام رکھا گیا) شبیر- رسول الله نے پوچھا عربی میں کیا ہے ؟ حکم ہوا حسین پس حسین رکھا گیا

تفسیر قرطبی سوره الاعراف کی آیت ١٥٥ میں کی تفسیر میں قرطبی المتوفي ٦٧١ ھ  روایت پیش کرتے ہیں

أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَبْدٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: انْطَلَقَ مُوسَى وَهَارُونُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَانْطَلَقَ شَبَّرُ وَشَبِّيرُ- هُمَا ابْنَا هَارُونَ- فَانْتَهَوْا إِلَى جَبَلٍ فِيهِ سَرِيرٌ، فَقَامَ عَلَيْهِ هَارُونُ فَقُبِضَ رُوحُهُ. فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالُوا: أَنْتَ قَتَلْتَهُ، حَسَدْتَنَا  عَلَى لِينِهِ وَعَلَى خُلُقِهِ، أَوْ كَلِمَةٍ نَحْوَهَا، الشَّكُّ مِنْ سُفْيَانَ، فَقَالَ: كَيْفَ أَقْتُلُهُ وَمَعِيَ ابْنَاهُ! قَالَ: فَاخْتَارُوا مَنْ شِئْتُمْ، فَاخْتَارُوا مِنْ كُلِّ سِبْطٍ عَشَرَةً. قَالَ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ:” وَاخْتارَ مُوسى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقاتِنا” فَانْتَهَوْا إِلَيْهِ، فَقَالُوا: مَنْ قتلك يا هارون؟ قال: ما قتلني حَدٌ وَلَكِنَّ اللَّهَ تَوَفَّانِي. قَالُوا: يَا مُوسَى، مَا تُعْصَى

عُمَارَةَ بْنِ عَبْدٍ، علی رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے کہ موسی اور ہارون چلے اور ان کے ساتھ شبر و شبیر چلے پس ایک پہاڑ پر پہنچے جس پر تخت تھا اس پر ہارون کھڑے ہوئے کہ ان کی جان قبض ہوئی پس موسی قوم کے پاس واپس لوٹے – قوم نے کہا تو نے اس کو قتل کر دیا ! تو حسد کرتا تھا  … موسی نے کہا میں نے اس کو کیسے قتل کیا جبکہ اس کے بیٹے شبیر اور شبر میرے ساتھ تھے پس تم جس کو چاہو چنو اور ہر سبط میں سے دس چنو کہا اسی پر قول ہے  وَاخْتارَ مُوسى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقاتِنا پس وہ سب ہارون کی لاش  تک آئے اور ان سے پوچھا : کس نے تم کو قتل کیا ہارون؟ ہارون نے کہا مجھے کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ الله نے وفات دی

یعنی قرطبی نے تفسیر میں اس قول کو قبول کیا کہ شبر و شبیر ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام تھے

روایت میں   عُمارة بْن عَبد، الكُوفيُّ ہے العلل میں احمد کہتے ہیں
قال عبد الله بن أحمد: سألته (يعني أَباه) : عن عمارة بن عبد السلولي، قال: روى عنه أبو إسحاق. «العلل» (4464) .
یہ کوفہ کے ہیں – لا يروي عنه غير أبي إسحاق. «الجرح والتعديل  صرف أبي إسحاق روایت کرتا ہے
امام بخاری کہتے ہیں اس نے علی سے سنا ہے جبکہ امام ابی حاتم کہتے ہیں مجهول لا يحتج به، قاله أبو حاتم. یہ مجھول ہے دلیل مت لو

اس قصہ کا ذکر اسی آیت کی تفسیر میں  شیعہ تفسیر  مجمع البيان از  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  میں بھی ہے

 و رووا عن علي بن أبي طالب (عليه السلام) أنه قال إنما أخذتهم الرجفة من أجل دعواهم على موسى قتل أخيه هارون و ذلك أن موسى و هارون و شبر و شبير ابني هارون انطلقوا إلى سفح جبل فنام هارون على سرير فتوفاه الله فلما مات دفنه موسى (عليه السلام) فلما رجع إلى بني إسرائيل قالوا له أين هارون قال توفاه الله فقالوا لا بل أنت قتلته حسدتنا على خلقه و لينه قال فاختاروا من شئتم فاختاروا منهم سبعين رجلا و ذهب بهم فلما انتهوا إلى القبر قال موسى يا هارون أ قتلت أم مت فقال هارون ما قتلني أحد و لكن توفاني الله

شیعہ عالم الموفق بن احمد بن محمد المكي الخوارزمي المتوفى سنة 568 کتاب المناقب میں ہے کہ ایک دن نبی صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا کہ

 الحسن والحسين ابناه سيدا شباب أهل الجنة من الاولين والآخرين وسماهما الله تعالى في التورأة على لسان موسى عليه السلام ” شبر ” و “شبير ” لكرامتها على الله عزوجل

علی کے بیٹے حسن و حسین اہل جنت کے پچھلوں اور بعد والوں کے جوانوں کے سردار ہیں  اور الله نے ان کو توریت میں نام دیا ہے شبر و شبیر- یہ الله کا علی پر کرم ہے

ابن شہر آشوب کتاب مناقب علی میں اسی قسم کی ایک روایت پیش کرتے ہیں – توریت میں شبر و شبیر کا کوئی ذکر نہیں ہے

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں

قلت: وقد جاء في التسمية سبب آخر، فقد روى أحمد 1/159، وأبو يعلى “498”، والطبراني “2780”، والبزار “1996” من طريقين عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن محمد بن علي وهو ابن الحنفية، عن أبيه علي بن أبي طالب أنه سمى ابنه الأكبر حمزة، وسمى حسينا بعمه جعفر، قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، فلما أتى قال: “غيرت اسم ابني هذي”، قلت: الله ورسوله أعلم، فسمى حسنا وحسينا. قال الهيثمي في “المجمع” 8/52 بعد أن نسبه غليهم جميعا: وفيه عبد الله بن محمد بن عقيل، حديثه حسن، وباقي رجاله رجال الصحيح.

میں کہتا ہوں اور ایک روایت میں ایک دوسری وجہ بیان ہوئی ہے پس کو احمد اور ابو یعلی نے طبرانی نے اور البزار نے دو طرق سے عبد الله بن محمد سے انہوں نے ابن حنفیہ سے انہوں نے اپنے باپ علی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بڑے بیٹے کا نام حمزہ رکھا تھا اور حسین کا جعفر پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی کو طلب کیا  اور کہا ان کے نام بدل کر حسن و حسین کر دو

شبر و شبیر کا بھیانک انجام

اہل سنت کی تفسير روح البيان أز  أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ)  کے مطابق

وكان القربان والسرج فى ابني هارون شبر وشبير فامرا ان لا يسرجا بنار الدنيا فاستعجلا يوما فاسرجا بنار الدنيا فوقعت النار فاكلت ابني هارون

اور قربانی اور دیا جلانا بنی ہارون میں شبر اور شبیر کے لئے تھا پس حکم تھا کہ کوئی دنیا کی اگ سے اس کو نہ جلائے لیکن ایک روز ان دونوں نے علجت کی اور اس کو دنیا کی اگ سے جلایا جس پر اگ ان دونوں کو کھا گئی

شیعہ عالم  الحسين بن حمدان الخصيبي  المتوفی ٣٥٨ ھ کتاب الهداية الكبرى میں بتاتے ہیں ایسا کیوں ہوا

وان شبر وشبير ابني هارون (عليه السلام) قربا قربانا ثم سقياه الخمر وشراباها ووقفا يقربان، فنزلت النار عليهما وأحرقتهما لأن الخمر في بطونهما فقتلا بذلك.

اور شبر اور شبیر بنی ہارون میں سے انہوں نے قربانی دی پھر شراب پی لی اور قربانی کو وقف کیا پس اگ آسمان سے نازل ہوئی اور اگ نے ان دونوں کو جلا ڈالا کیونکہ شراب ان کے پیٹوں میں تھی اس بنا پر یہ قتل ہوئے

اور توریت کے مطابق

Book of Leviticus, chapter 10:
Aarons sons Nadab and Abihu took their censers, put fire in  them and added incense; and they offered unauthorized fire before the Lord,  contrary to his command. So fire came out from the presence of the Lord  and consumed them, and they died before the Lord. Moses then said to  Aaron, This is what the Lord spoke of when he said: Among those who approach me I will be proved holy; in the sight of all the  people I will be honoured. Aaron remained silent.

ہارون کے بیٹے ندب اور ابیھو نے اپنے اپنے دیے لئے اس میں اگ جلائی اور اس ممنوعہ اگ کو رب پر پیش کیا اس کے حکم کے بر خلاف – لہذا اگ رب کے پاس سے نکلی اور ان کو کھا گئی اور وہ دونوں رب کے سامنے مر گئے – موسی نے ہارون سے کہا یہ وہ بات ہے جس کا ذکر الله نے کیا تھا کہ تمہارے درمیان جو میرے پاس آئے میری پاکی بیان کرے – لوگوں کی نگاہ میں میں محترم ہوں – ہارون  اس پر چپ رہے

واضح رہے کہ توریت کی کتاب لاوی کے مطابق ہارون کے بیٹوں کی یہ المناک وفات ہارون کی زندگی ہی میں ہوئی اور ان کا نام ندب اور ابہو ہے نہ کہ شبر و شبیر

یہود کے ایک مشہور حبر راشی

Rashi

کے بقول ندب اور ابیہو کا یہ بھیانک انجام شراب پینے کی بنا پر ہوا

AND THERE WENT OUT FIRE — Rabbi Eleizer said: the sons of Aaron died only because they gave decisions on religious matters in the presence of their teacher, Moses (Sifra; Eruvin 63a). Rabbi Ishmael said: they died because they entered the Sanctuary intoxicated by wine. You may know that this is so, because after their death he admonished those who survived that they should not enter when intoxicated by wine (vv. 8—9). A parable! It may be compared to a king who had a bosom friend, etc., as is to be found in Leviticus Rabbah (ch. 12; cf. Biur).

http://www.sefaria.org/Rashi_on_Leviticus.10.3?lang=en

 اس طرح شیعہ کتب اور بعض قدیم یہودی احبار کا اجماع ہے کہ   شبر اور شبیر کا اگ سے خاتمہ ہوا

 دور نبوی میں توریت ایک طومار کی صورت میں صرف علماء اہل کتاب کے پاس تھی -عام مسلمان تک اس کی رسائی  نہیں تھی -دوم اس کی زبان  بھی غیر عرب تھی اس لئے عرب مسلمان تو صرف یہ جانتے تھے کہ یہ ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام ہیں لیکن ان کے بھیانک انجام سے بے خبر تھے –   شبر و شبیر  کے نام حسن و حسین کو دینا جو عذاب الہی سے قتل ہوئے کی اور کیا وجہ ہوئی؟ شبر و شبیر ابن سبا کے ایجاد کردہ نام ہیں جس کو سبانیوں نے حسن و حسین سے منسوب کر دیا

اس سے یہ واضح ہے کہ سبائییوں کا ایجنڈا تھا کہ کسی نہ کسی موقعہ پر حسن و حسین کو شبر و شبیر   بنا ہی  دیا جائے گا یعنی قتل کیا جائے گا

کہتے ہیں  کوئی دیکھنے نہ دیکھے کم از کم  شبیر تو دیکھے گا


 

قرن اول میں ہی علی کے حوالے سے کئی آراء گردش میں آ چکی تھیں  ان کی تفصیل اس ویب سائٹ پر کتاب

Ali in Biblical Clouds

میں موجود ہے

 کتاب الرویا کا بھید

https://www.islamic-belief.net/کتاب-الرویا/
اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے

بعض  علماء اس عقیدہ کے قائل ہیں کہ انسانی جسم میں دو روحیں ہوتی ہیں –  ان میں سے ایک کو نفس  بالا یا روح بالا  کہتے ہیں جو حالت نیند میں انسانی جسم چھوڑ کر عالم بالا جاتی  ہے وہاں اس کی ملاقات فوت شدہ لوگوں کی ارواح سے ہوتی ہے ، دوسری روح یا نفس، نفس زیریں ہے یا معروف  روح ہے  جو جسد میں رہتی ہے-   اس تمام فلسفہ کو ضعیف روایات سے کشید کیا گیا ہے اور اس کی ضرورت اس طرح پیش آئی کہ خوابوں کی دنیا میں تعبیر رویا کی صنف میں عرب مسلمانوں کو مسائل در پیش تھے – اگرچہ قرآن میں تعبیر رویا کو خاص ایک وہبی علم کہا گیا ہے جو انبیاء کو ملتا ہے اور اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس صنف میں کوئی طبع آزمائی نہیں کی- حدیث کے مطابق ایک موقعہ پر امت کے سب سے بڑے ولی ابو بکر رضی الله عنہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ ایک خواب کی تعبیر کی کوشش کریں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوا تھا لیکن وہ بھی اس کی صحیح تعبیر نہ کر سکے – اس کے علاوہ کسی صحیح حدیث میں خبر نہیں ملتی کہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم یا امہات المومننین بھی خواب کی تعبیر کرتے ہوں –

تعبیر رویا کی تفصیل کہ اس میں مرنے والوں اور زندہ کی روحوں کا  لقا ہوتا ہے اور وہ ملتی ہے  اشارات دیتی ہیں نہ صرف فراعنہ مصر کا عقیدہ تھا بلکہ ان سے یونانیوں نے لیا اور ان سے یہود سے ہوتا ہم تک پہنچا ہے

عنطیفون پہلا یونانی فلسفی نے جس نے عیسیٰ سے پانچ صدیوں قبل   تعبیر خواب پر کتاب لکھی

Antiphon the Athenian (480 BC-411 BC)

اس نے دعوی کیا کہ زندہ کی روحیں مرنے والوں سے ملتی ہیں

dreams

A History of dream Interpretation in western society, J. Donald Hughes,  Dreaming 10(1):7-18 · March 2000

یہ بات یہود کی کتاب  مدرش ربه میں بھی موجود تھی کہ زندوں کی ارواح اپنے اجسام سے نکل کر عالم بالا میں مرنے والوں کی ارواح سے ملتی ہیں مثلا

when they sleep their souls ascend to Him… in the morning He restores one’s soul to everyone.

Midrash Rabba, Deuteronomy 5:15

جب یہ سوتے ہیں تو ان کی ارواح بلند ہوتی ہیں رب تک جاتی ہیں  مدرش ربه

کتاب  تعبير الرؤيا از  أبو طاهر الحراني المقدسي النميري الحنبلي المُعَبِّر (المتوفى: نحو 779هـ) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں یہ دانیال کا قول ہے

قَالَ دانيال عَلَيْهِ السَّلَام: الْأَرْوَاح يعرج بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة حَتَّى توقف بَين يَدي رب الْعِزَّة فَيُؤذن لَهَا بِالسُّجُود فَمَا كَانَ طَاهِرا مِنْهَا سجد تَحت الْعَرْش وَبشر فِي مَنَامه

دانیال علیہ السلام کہتے ہیں ارواح بلند ہوتی ہیں سات آسمان تک جاتی ہیں یہاں تک کہ رب العزت کے سامنے رکتی ہیں ان کو سجدوں کی اجازت ملتی ہے اگر طاہر ہوں تو وہ عرش کے نیچے سجدہ کرتی ہیں اور ان کو نیند میں بشارت ملتی ہے

دانیال یہود کے مطابق ایک ولی الله تھے نبی نہیں تھے اور ان سے منسوب ایک کتاب دانیال ہے  جس میں   ایک خواب لکھآ ہے  کہ انہوں نے عالم بالا کا منظر خواب میں دیکھا رب العالمین کو عرش پر دیکھا اور ملائکہ اس کے سامنے کتب کھولے بیٹھے تھے سجدے ہو رہے تھے احکام لے رہے تھے – یہ کتاب عجیب و غریب عقائد کا مجموعہ ہے جس میں یہ تک لکھا ہے کہ جبریل علیہ السلام ایک مہینہ تک بابل والوں کے قیدی رہے  ان کا معلق وجود رہا یہاں تک کہ اسرافیل علیہ السلام نے آزاد کرایا وغیرہ-  یہ کتاب یہودی تصوف کی صنف میں سے ہے – اگرچہ مسلمانوں نے دانیال کو ایک نبی بنا دیا ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے نہ قرآن میں ذکر ہے نہ صحیح  حدیث میں

دانیال کے خواب کی بنیاد پر یہودی علماء کہتے ہیں کہ وہ بھی خواب بتا سکتے ہیں کیونکہ دانیال نبی نہیں ولی تھے اسی طرح خواب  میں مردوں کی روحوں سے ملاقات ممکن ہے- لیکن مسمانوں کو اس پر دلیل چاہیے تھی کیونکہ ان کے نزدیک دانیال نبی تھے اور ایک غیر نبی کے لئے خواب کی تعبیر کرنے کی کیا دلیل ہے  لہذا روایات بنائی گئیں کہ یہ تو عالم بالا میں ارواح سے ملاقات ہے

واضح رہے کہ خود نبی صلی الله علیہ وسلم  کو معراج ہوئی جو جسمانی تھی اس  کے بر عکس کسی حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں بیان کیا کہ وہ خواب میں  عرش تک گئے- اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں تابعین میں بعض افراد نے تعبیر رویا کو ایک ایسا علم قرار دینے کی کوشش کی جو محنت سے حاصل ہو سکتا ہے – اس میں بصرہ کے تابعی ابن سیرین سے منسوب ایک کتاب بھی ہے لیکن اس کی سند ثابت نہیں ہے-  یہ ایک جھوٹی کتاب ہے جو ابن سیرین سے منسوب کی گئی ہے – بہت سے بہت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس  رجحان کا  بعض لوگوں میں اضافہ ہو رہا تھا کہ تعبیر رویا ایک علم ہے جو کسب سے حاصل ہو سکتا ہے  – اس صنف  کے پروآن چڑھنے کی وجہ مال تھا کیونکہ اکثر بادشاہوں کو اپنی مملکت  کے ختم ہونے کا خطرہ رہتا تھا-  شاہ مصر نے خواب دیکھا اس کی تعبیر یوسف علیہ السلام نے کی- قیصر  نے خواب دیکھا کہ مختون لوگ اس کی سلطنت تباہ کر رہے ہیں جس سے اس نے مراد یہودی لیے – دانیال نے شاہ بنی نبوکد نصر کے خواب کی تعبیر کی – وغیرہ لہذا خلفاء و حکمران جو خواب دیکھیں اس کی تعبیر بتانے والا کوئی تو ہو –  اس سے منسلک مال حاصل کرنے کے لئے کتاب تعبیر الرویا لکھی گئیں اور لوگوں نے اس فن میں طاق ہونے کے دعوی کرنے شروع کیے

اس معاملے میں ابہام پیدا کرنے کے لئے قرآن کی   آیات کا استمعال کیا جاتا ہے – قبض یا توفی کا مطلب ہے کسی چیز کو پورا پکڑنا- نکالنا یا اخراج یا  کھینچنا اس کا مطلب نہیں ہے لیکن مترجمین اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت اس کا خیال نہیں رکھتے- قرآن میں الله تعالی عیسیٰ علیہ السلام سے کہتے ہیں انی متوفیک میں تم کو قبض کروں گا یعنی پورا پورا  تھام لوں گا – اس کا مطلب یہ نہیں کہ موت دوں گا

سوره الزمر میں ہے

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى

الله پورا قبضے میں لیتا ہے نفس کو موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نفس  نیند کے وقت،  پس پکڑ  کے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کا حکم لگاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو اک وقت مقرر تک کے لئے

حالت نیند میں اور موت میں قبض نفس ہوتا ہے- نیند میں قبض جسم میں ہی ہوتا ہے اور نفس کا اخراج نہیں ہوتا جبکہ موت میں امساک کا لفظ  اشارہ کر رہا  ہے کہ روح کو جسم سے نکال لیا گیا ہے

سوره الانعام میں آیات ٦٠ تا ٦١ میں ہے

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ  ( )  وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ

 اور وہی تو ہے جو رات  میں تم کو قبض کرتا ہے  اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ  معین مدت پوری کردی جائے پھر تم  کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے   وہ تم کو تمہارے عمل جو کرتے ہو  بتائے گا – اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے  قبض کرلیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے

بے ہوشی یا نیند میں نفس جسد میں ہی ہوتا ہے لیکن اس پر قبض ہوا ہوتا ہے انسان کو احتلام ہو رہا ہوتا ہے پسینہ آ رہا ہوتا ہے سانس چل رہی ہوتی ہے نبض رکی نہیں ہوتی اور دماغ بھی کام کر رہا ہوتا ہے دل دھڑک رہا ہوتا ہے معدہ غذا ہضم کر رہا ہوتا ہے انسان پر زندگی کے تمام آثار غالب اور نمایاں ہوتے ہیں اور موت پر یہی مفقود ہو جاتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی تبدیلی جسم پر اتی ہے اور وہ ہے روح کا جسد سے نکال لیا جانا

بحر الحال تعبیر رویا کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور یہاں تک کہ  آٹھویں صدی کے امام  ابن تیمیہ اپنے فتوی اور کتاب  شرح حديث النزول میں لکھتےہیں کہ حالت نیند میں زندہ لوگوں کی روح، مردوں سے ملاقات کرتی ہیں . ابن تیمیہ لکھتے ہیں

 ففي هذه الأحاديث من صعود الروح إلى السماء، وعودها إلى البدن، ما بين أن صعودها نوع آخر، ليس مثل صعود البدن

ونزوله.

پس ان احادیث میں ہے کہ روح آسمان تک جاتی ہے اور بدن میں عود کرتی ہے اور یہ روح کا اٹھنا دوسری نوع کا ہے اور بدن اور اس کے نزول جیسا نہیں

 اس کے بعد ابن تیمیہ لکھتے ہیں

وروينا عن الحافظ أبي عبد الله محمد بن منده في كتاب [الروح والنفس] : حدثنا أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا عبد الله بن الحسن الحراني، ثنا أحمد بن شعيب، ثنا موسى بن أيمن، عن مطرف، عن جعفر بن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما ـ في تفسير هذه الآية: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42] . قال: تلتقي أرواح الأحياء في المنام بأرواح الموتى ويتساءلون بينهم، فيمسك الله أرواح الموتى، ويرسل

أرواح الأحياء إلى أجسادها.

اور الحافظ أبي عبد الله محمد بن منده في كتاب الروح والنفس میں روایت کیا ہے حدثنا أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا عبد الله بن الحسن الحراني، ثنا أحمد بن شعيب، ثنا موسى بن أيمن، عن مطرف، عن جعفر بن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما اس آیت کی تفسیر میں : {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} [الزمر: 42] کہا:  زندوں کی روحیں نیند میں مردوں کی روحوں سے ملتی ہیں اور باہم سوال کرتی ہیں، پس الله مردوں

کی روحوں کو روک لیتا ہے اور زندوں کی روحیں چھوڑ دیتا ہے

یہ روایت ہی کمزور ہے اسکی سند میں جعفربن أبي المغيرة الخزاعي ہیں . تہذیب التہذیب  کے مطابق جعفر بن أبي المغيرة الخزاعي کے لئے ابن مندہ کہتے ہیں

وقال بن مندة ليس بالقوي في سعيد بن جبير

اور ابن مندہ کہتے ہیں  سعيد بن جبير  سے روایت کرنے میں قوی نہیں

ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں

وروى الحافظ أبو محمد بن أبي حاتم في [تفسيره] : حدثنا عبد الله بن سليمان، ثنا الحسن، ثنا عامر، عن الفُرَات، ثنا أسباط عن السدى: {وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} قال: يتوفاها في منامها. قال: فتلتقي روح الحي وروح الميت فيتذاكران ويتعارفان. قال: فترجع روح الحي إلى جسده في الدنيا إلى بقية أجله في الدنيا. قال: وتريد روح الميت أن ترجع إلى جسده فتحبس.

اور الحافظ أبو محمد بن أبي حاتم اپنی تفسیر میں روایت کرتے ہیں حدثنا عبد الله بن سليمان، ثنا الحسن، ثنا عامر، عن الفُرَات، ثنا أسباط عن السدى: {وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا} کہا> نیند میں قبض کیا. کہا پس میت اور زندہ کی روح ملتی ہے پس گفت و شنید کرتی ہیں اور پہچانتی ہیں. کہا پس زندہ کی روح جسد میں پلٹی ہے دنیا میں تاکہ اپنی دنیا کی زندگی پوری کرے. کہا:  اور میت کی روح جسد میں لوٹائی جاتی ہے تاکہ قید ہو

اس روایت کی سند بھی کمزور ہے اس کی سند میں السدی ہے جو شدید ضعیف راوی ہے

 اس کے بعد ابن تیمیہ نے کئی سندوں سے ایک واقعہ پیش کیا جس کے الفاظ میں بھی فرق ہے کہ عمر رضی الله تعالی عنہ نے علی رضی الله تعالی عنہ سے سوال کیا کہ انسان کا خواب کھبی سچا اور کبھی جھوٹا کیوں ہوتا ہے ؟ جس پر علی رضی الله تعالی عنہ نے کہا کہ روحیں آسمان پر جاتی ہیں

 وقال ابن أبي حاتم: ثنا أبي، ثنا عمر بن عثمان، ثنا بَقيَّة؛ ثنا صفوان بن عمرو، حدثني سليم بن عامر الحضرمي؛ أن عمر بن الخطاب ـ رضي الله عنه ـ قال لعلي بن أبي طالب ـ رضي الله عنه: أعجب من رؤيا الرجل أنه يبيت فيرى الشيء لم يخطر له على بال! فتكون رؤياه كأخذ باليد، ويرى الرجل الشيء؛ فلا تكون رؤياه شيئًا، فقال على بن أبي طالب: أفلا أخبرك بذلك يا أمير المؤمنين؟ إن الله يقول: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} [الزمر: 42] ، فالله يتوفي الأنفس كلها، فما رأت ـ وهي عنده في السماء ـ فهو الرؤيا الصادقة. وما رأت ـ إذا أرسلت إلى أجسادها ـ تلقتها الشياطين في الهواء فكذبتها، فأخبرتها بالأباطيل وكذبت فيها، فعجب عمر من قوله.   وذكر هذا أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن منده في كتاب [الروح والنفس] وقال: هذا خبر مشهور عن صفوان بن عمرو وغيره، ولفظه: قال على بن أبي طالب: يا أمير المؤمنين، يقول الله تعالى: {اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} والأرواح يعرج بها في منامها، فما رأت  وهي في السماء فهو الحق، فإذا ردت إلى أجسادها تلقتها الشياطين في الهواء فكذبتها، فما رأت من ذلك فهو الباطل.

اور ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں … کہ سلیم بن عامر نے روایت کیا کہ عمر بن الخطاب رضی الله عنہ نے علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے کہا مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک آدمی خواب دیکھتا ہے جس میں اس کا شائبہ تک اس کے دل پر نہیں گزرا ہوتا …. علی نے کہا امیر المومنین کیا میں اپ کو اس کی خبر دوں؟ الله تعالی نے  فرمایا

{اللَّهُ يَتَوَفي الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى} [الزمر: 42] ، پس الله نے نفس کو قبضہ میں لیا موت پر اور جو نہیں مرا اس کا نیند میں پس اس کو روکا جس پر موت کا حکم کیا اور دوسری کو چھوڑ دیا ایک مدت تک – تو الله نے نفس کو مکمل قبضہ کیا  تو یہ اس کے پاس آسمان پر ہے جو سچا خواب ہے اور جو جسد میں واپس آیا اس پر شیطان نے القا کیا … عمر کو اس قول پر حیرت ہوئی

اور اس کا ذکر ابن مندہ نے کتاب الروح و النفس میں کیا ہے اور کہا ہے یہ خبر مشھور ہے

   اس روایت  کے راوی سليم بن عامر کا عمر رضی الله تعالی عنہ سے سماع ثابت نہیں ہو سکا.

 اپنے عقیدہ  کے اثبات کے لئے ابن تیمیہ نے ابن لَهِيعَة تک کی سند پیش کی. جب کہ ان کی روایت بھی ضعیف ہوتی ہے

 قال الإمام أبو عبد الله بن منده: وروى عن أبي الدرداء قال: روى ابن لَهِيعَة عن عثمان بن نعيم الرُّعَيْني، عن أبي عثمان الأصْبَحِي، عن أبي الدرداء قال: إذا نام الإنسان عرج بروحه حتى يؤتى بها العَرْش قال: فإن كان طاهرًا أذن لها بالسجود، وإن كان جُنُبًا لم يؤذن لها بالسجود. رواه زيد بن الحباب وغيره.

 ابن تیمیہ نے یہ واقعہ ابن مندہ کے حوالے سے    ایک ضعیف راوی کی سند سے بھی پیش  کیا

وروى ابن منده حديث على وعمر ـ رضي الله عنهما ـ مرفوعًا، حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد، ثنا محمد بن شعيب، ثنا ابن عياش بن أبي إسماعيل، وأنا الحسن بن علي، أنا عبد الرحمن بن محمد، ثنا قتيبة والرازي، ثنا محمد بن حميد، ثنا أبو زهير عبد الرحمن بن مغراء الدوسي، ثنا الأزهر بن عبد الله الأزدي، عن محمد بن عجلان، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه قال: لقي عمر بن الخطاب على بن أبي طالب فقال: يا أبا الحسن … قال عمر: اثنتان. قال: والرجل يرى الرؤيا: فمنها ما يصدق، ومنها ما يكذب. فقال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” ما من عبد ينام فيمتلئ نومًا إلا عُرِج بروحه إلى العرش، فالذي لا يستيقظ دون العرش فتلك الرؤيا التي تصدق، والذي يستيقظ دون العرش فهي الرؤيا التي تكذب

یہ روایت معرفة الصحابة  از أبو نعيم  میں بھی حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الطَّلْحِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَبِيبٍ الطَّرَائِفِيُّ الرَّقِّيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، ثنا الْأَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَوْدِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِيهِ کی سند سے بیان ہوئی ہے لیکن راوی الْأَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ  ضعیف ہے

ابن حجر لسان المیزان میں اس پر بحث کرتے ہیں کہ

أزهر بن عبد الله خراساني.  عنِ ابن عجلان.

تُكلم فيه.

قال العقيلي: حديثه غير محفوظ، رواه عنه عبد الرحمن بن مغراء، انتهى.

والمتن من رواية ابن عجلان، عن سالم، عَن أبيه، عَن عَلِيّ رفعه: الأرواح جنود مجندة … الحديث.

وذكر العقيلي فيه اختلافا على إسرائيل، عَن أبي إسحاق عن الحارث، عَن عَلِيّ في رفعه ووقفه ورجح وقفه من هذا الوجه.

قلت: وهذه طريق أخرى تزحزح طريق أزهر عن رتبة النكارة.

وأخرج الحاكم في كتاب التعبير من المستدرك من طريق عبد الرحمن بن مغراء، حَدَّثَنَا أزهر بن عبد الله الأزدي بهذا السند إلى ابن عمر قال: لقي عمر عَلِيًّا فقال: يا أبا الحسن الرجل يرى الرؤيا فمنها ما يصدق ومنها ما يكذب قال: نعم، سمعت رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: ما من عبد، وَلا أمة ينام فيمتلىء نوما إلا عرج بروحه إلى العرش فالذي لا يستيقظ دون العرش ذلك الرؤيا التي تصدق والذي يستيقظ دون العرش فذلك الرؤيا التي تكذب.

قال الذهبي في تلخيصه: هذا حديث منكر، لم يتكلم عليه المصنف وكأن الآفة فيه من أزهر.

 أزهر بن عبد الله خراساني.   ابن عجلان سے (روایت کرتے ہیں)

انکے بارے میں کلام ہے

عقیلی کہتے ہیں: ان کی حدیث غیر محفوظ ہے اس سے عبد الرحمن بن مغراء روایت کرتے ہیں انتھی

اور اس روایت کا متن ابن عجلان، عن سالم، عَن أبيه، عَن عَلِيّ سے مرفوعا روایت کیا ہے …

میں (ابن حجر) کہتا ہوں: اور اس کا دوسرا طرق أزهر کی وجہ سے ہٹ کر نکارت کے رتبے پر جاتا ہے

اور حاکم نے مستدرک میں کتاب التعبیر میں اس کی عبد الرحمن بن مغراء، حَدَّثَنَا أزهر بن عبد الله الأزدي کی ابن عمر سے روایت بیان کی ہے کہ عمر کی علی سے ملاقات ہوئی پس کہا اے ابو حسن  ایک آدمی خواب میں دیکھتا ہے جس میں سے کوئی سچا ہوتا ہے اور کوئی جھوٹا پس علی نے کہا ہاں میں نے رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے سنا ہے کہ  کوئی بندہ نہیں ، اور بندی نہیں جس کو نیند آئے  الا یہ کہ اپنی روح کے ساتھ عرش تک اوپر جائے پس جو نہ سوئے عرش کے بغیر وہ خواب سچا ہے اور جو سوئے عرش کے بغیر  اس کا خواب جھوٹا ہے

الذهبي تلخیص میں کہتے ہیں یہ حدیث منکر ہے  مصنف نے اس پر کلام نہیں کیا اور اس میں آفت أزهر کیوجہ سے ہے

کتاب : الفتح الرباني من فتاوى الإمام الشوكاني میں شوکانی اس کی بہت سی سندیں دیتے ہیں ان کو رد کرتے ہیں پھر لکھتے ہیں

والحاصل: أن رؤية الأحياء للأموات في المنام كائنة في جميع الأزمنة منذ عصر الصحابة إلى الآن. وقد ذكر من ذلك الكثير الطيب القرطبي في تذكرته، وابن القيم   في كثير من مؤلفاته، والسيوطي في شرح الصدور   بشرح أحوال الموتى في القبور.

الوجه الثامن: من وجوه الأدلة المقتضية لالتقاء أرواح الأحياء والأموات، وهو دليل عقلي لا يمكن الإنكار له، ولا القدح في دلالته، ولا التشكيك عليه، وذلك أنه قد وقع في عصرنا فضلا عن العصور المتقدمة أخبار كثيرة من الأحياء أفم رأوا في منامهم أمواتا فأخبروهم بأخبار هي راجعة إلى دار الدنيا

اور حاصل یہ ہے کہ زندوں کا مردوں کو نیند میں دیکھنا  چلا آ رہا ہے عصر صحابہ سے ہمارے دور تک- اور اس کا ذکر کیا ہے قرطبی نے تذکرہ میں اور ابن قیم نے اپنی بہت سی مولفات میں اور السيوطي نے شرح الصدور بشرح أحوال الموتى في القبور میں  

اور دوسری وجہ : اور وہ دلائل جو ضرورت کرتے ہیں کہ زندوں کی روحیں مرنے والوں سے ملتی ہیں وہ عقلی ہیں جن پر کوئی قدح نہیں نہ ان پر شک ہے اور ہمارے زمانے کے بہت سے فضلا کو خبریں ملی ہیں ان مردوں کو جو اس دار سے جا چکے ہیں

غیر مقلدین کی ایک معتبر شخصیت عبد الرحمن کیلانی کتاب روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں لکھتے ہیں

کیلانی خواب ١

اس فلسفہ کا خمیر انہی ضعیف روایات پر اٹھا ہے جس سے معبروں (خواب کی تعبیر کرنے والوں) کی دکان چل رہی تھی

 ظاہر ہے اس فلسفہ کی قرآن و حدیث میں جڑیں نہیں لہذا اس پر سوال پیدا ہوتے ہیں جو کرتے ہی زبان بند ی کرا دی جاتی ہے

kelani khwab

صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق اچھا خواب الله کی طرف سے ہے اور برا شیطان کی طرف سے  نہ کہ اس میں روحیں نکل کر عالم بالا جاتی ہیں

حدیث میں ہے ایک شخص خواب بیان کر رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا اور کہا
لَا تُخْبِرْ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِكَ فِي الْمَنَامِ
اس کی خبر مت دو کہ شیطان نے تیرے ساتھ نیند میں کیا کھیلا

صحیح مسلم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، جَمِيعًا عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ عَمْرٍو الدَّوْسِيَّ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ لَكَ فِي حِصْنٍ حَصِينٍ وَمَنْعَةٍ؟ – قَالَ: حِصْنٌ كَانَ لِدَوْسٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ – فَأَبَى ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلَّذِي ذَخَرَ اللهُ لِلْأَنْصَارِ، فَلَمَّا هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ، هَاجَرَ إِلَيْهِ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو وَهَاجَرَ مَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَاجْتَوَوُا الْمَدِينَةَ، فَمَرِضَ، فَجَزِعَ، فَأَخَذَ مَشَاقِصَ لَهُ، فَقَطَعَ بِهَا بَرَاجِمَهُ، فَشَخَبَتْ يَدَاهُ حَتَّى مَاتَ، فَرَآهُ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فِي مَنَامِهِ، فَرَآهُ وَهَيْئَتُهُ حَسَنَةٌ، وَرَآهُ مُغَطِّيًا يَدَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: مَا صَنَعَ بِكَ رَبُّكَ؟ فَقَالَ: غَفَرَ لِي بِهِجْرَتِي إِلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكَ مُغَطِّيًا يَدَيْكَ؟ قَالَ: قِيلَ لِي: لَنْ نُصْلِحَ مِنْكَ مَا أَفْسَدْتَ، فَقَصَّهَا الطُّفَيْلُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ وَلِيَدَيْهِ فَاغْفِرْ»

حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ بصری روایت کرتے ہیں ابی زبیر سے وہ جابر رضی الله عنہ سے کہ
طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (مکہ میں ہجرت سے پہلے) اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ ایک مضبوط قلعہ اور لشکر چاہتے ہیں؟ (اس قلعہ کے لیے کہا جو کہ جاہلیت کے زمانہ میں دوس کا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے قبول نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے حصے میں یہ بات لکھ دی تھی ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ان کی حمایت اور حفاظت میں رہیں گے) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی (اور ان کے پیٹ میں عارضہ پیدا ہوا) تو وہ شخص جو سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا تھا، بیمار ہو گیا اور تکلیف کے مارے اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہوگیا، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا اور ا س کی حالت اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا :’’مجھے اس لیے بخش دیا کہ میں نے اس کے پیغمبرکی طرف ہجرت کی تھی۔‘‘ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے ہے؟ وہ بولا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ ہم اس کو نہیں سنواریں گے جس کو تو نے خود بخود بگاڑا ہے۔ پھر یہ خواب سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر کرم کیا ہے۔ (یعنی اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی درست کر دے)۔ ‘‘

اس روایت کے مطابق طفیل رضی الله عنہ نے اس شخص کو خواب میں دیکھا اور اس نے بتایا کہ اس کی بخشش ہو گئی

اس کی سند میں ابی زبیر ہے جو جابر رضی الله عنہ سے روایت کر رہا ہے
محدثین کہتے ہیں ابو زبیر کی وہی روایت لینی چاہیے جو لیث بن سعد کی سند سے ہوں امام مسلم نے اس اصول کو قبول نہیں کیا
اور روایت کو صحیح سمجھا ہے جبکہ دیگر محدثین اس سے الگ کہتے ہیں ان کے مطابق یہ روایت صحیح نہیں بنتی

كتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از صلاح الدين العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مشهور بالتدليس قال سعيد بن أبي مريم ثنا الليث بن سعد قال جئت أبا الزبير فدفع لي كتابين فانقلبت بهما ثم قلت في نفسي لو أني عاودته فسألته اسمع هذا كله من جابر قال سألته فقال منه ما سمعت ومنه ما حدثت عنه فقلت له اعلم لي على ما سمعت منه فاعلم لي على هذا الذي عندي ولهذا توقف جماعة من الأئمة عن الاحتجاج بما لم يروه الليث عن أبي الزبير عن جابر وفي صحيح مسلم عدة أحاديث مما قال فيه أبو الزبير عن جابر وليست من طريق الليث وكأن مسلما رحمه الله اطلع على أنها مما رواه الليث عنه وإن لم يروها من طريقه والله أعلم

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي تدلیس کے لئے مشھور ہیں – سعيد بن أبي مريم نے لیث بن سعد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں ابو الزبیر کے پاس گیا اس نے دو کتابیں دیں ان کو لے لر واپس آیا – پھر میں نے دل میں کہا جب اس کے پاس جاؤں گا تو اس سے پوچھوں گا کہ کیا یہ سب اس نے جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سے سنا بھی ہے ؟ لیث نے ابو الزبیر سے (واپس جا کر) سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا: اس میں ہے جو ان سے سنا اور وہ بھی جو میں نے ان سے روایت کر دیا ہے- میں (لیث) نے اس سے کہا: مجھے اس کا علم دو جو تم نے سنا ہو- پس اس نے صرف وہ بتایا اور یہ اب میرے پاس ہے-اس وجہ سے ائمہ (حدیث) کی جماعت نے اس (ابو الزبیر) سے دلیل نہیں لی سوائے اس کے کہ جو لیث کی سند سے ہو – اور صحیح مسلم میں اس کی چند روایات ہیں جس میں ابو الزبیر عن جابر کہا ہے جو لیث کی سند سے نہیں اور امام مسلم اس بات سے واقف تھے کہ اس کی لیث کی سند والی روایات کون سی ہیں ، انہوں نے اس کو اس طرق سے روایت نہیں کیا الله آعلم

ابن سیرین سے منسوب کتاب تفسیر الاحلام یا کتاب الرویا غیر ثابت ہیں لیکن یہ کتاب  صوفیوں کی گھڑی ہوئی ہے

عرب عالم مشھور بن  حسن ال سلمان اپنی  كتاب  كتب حذر منها العلماء  (وہ کتب جن سے علماء نے احتیاط برتی) میں اس پر بحث کرتے ہیں

ibn-seren-dreambook

لب لباب یہ ہے کہ یہ کتاب ابن سیرین سے ثابت نہیں ہے اس کا تین قرون میں تذکرہ نہیں ملتا ابن سیرین ایک محتاط محدث تھے اور تعبیر کے لئے ممکن نہیں کہ انہوں نے قوانین بنائے ہوں

لیکن افسوس بر صغیر کے علماء نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور غیر مقلدین علماء تک اس کو فتووں میں استمعال کر رہے ہیں

 

گھنگھریالے بالوں والا رب؟

https://www.islamic-belief.net/كتاب-التوحيد-و-ألأسماء-الحسني/
اس بلاگ میں تفصیلی کتاب موجود ہے

خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

کتاب  الصفات از  الدارقطني (المتوفى: 385هـ) کے مطابق اس کی اسناد ابو ہریرہ اور ابن عمر سے ہیں اب ہم ان اسناد پر بحث کرتے  ہیں

ابو ہریرہ کی مرویات

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ الْفَضْلِ الْكَاتِبُ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

دوسری سند ہے

حَدَّثَنَا عَلَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَطَّانُ، وَثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ نَهْشَلُ بْنُ دَارِمٍ التَّمِيمِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ، قَالَا: ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَجَنَّبِ الْوَجْهَ، وَلَا يَقُولُ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ “

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

جب تم میں سے کوئی کسی کو مارے تو چہرہ پر مارنے سے بچے اور یہ نہ کہے کہ الله تیرا چہرہ بگاڑ دے کیونکہ اس کا چہرہ اسی کے جیسا ہے کیونکہ الله نے آدم کو تخلیق کیا اپنی صورت پر 

محمد بن عجلان نے اس کو سعید بن ابی سعید سے انہوں نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے

کتاب  الضعفاء الكبير از امام  العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْغِمْرِ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَمَّنْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ مَالِكٌ إِنْكَارًا شَدِيدًا، وَنَهَى أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ أَحَدٌ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُونَ بِهِ؟ فَقَالَ: مَنْ هُمْ، فَقِيلَ: مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، وَذُكِرَ أَبُو الزِّنَادِ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَزَلْ عَامِلًا لِهَؤُلَاءِ حَتَّى مَاتَ، وَكَانَ صَاحِبَ عُمَّالٍ يَتَّبِعُهُمْ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ کہتے ہیں میں نے امام مالک سے   حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے جس میں ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ پس امام مالک نے اس حدیث کا شدت سے انکار کیا اور منع کیا کہ کوئی اس کو روایت کرے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اہل علم میں سے لوگ اس کو روایت کر رہے ہیں – امام مالک نے کہا کون ہیں وہ ؟ میں نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ  اس پر امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے اور أَبُو الزِّنَاد کا ذکر کیا کہ یہ تو ان کا  (حکومت کا) عامل تھا – یہاں تک  کہ مرا اور عمال کے لوگ اسکی اتباع کرتے ہیں

فقہ مالکیہ کی معتمد  کتاب  المدخل از ابن الحاج (المتوفى: 737هـ) کے مطابق

وَمِنْ الْعُتْبِيَّةِ سُئِلَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ – عَنْ الْحَدِيثِ فِي جِنَازَةِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي اهْتِزَازِ الْعَرْشِ، وَعَنْ حَدِيثِ «إنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، وَعَنْ الْحَدِيثِ فِي    السَّاقِ فَقَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَا يُتَحَدَّثَنَّ بِهِ، وَمَا يَدْعُو الْإِنْسَانَ أَنْ يَتَحَدَّثَ بِهِ

اور الْعُتْبِيَّةِ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا حدیث کہ الله کا عرش معآذ کے لئے ڈگمگا گیا اور حدیث الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور حدیث پنڈلی والی – تو امام مالک رحمہ الله نے کہا یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو

دارقطنی کے مطابق محمد بن عجلان کے علاوہ المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ  نے بھی اس کو ابی الزناد سے روایت کیا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو شَيْبَةَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ بَكْرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى أَبُو مُوسَى، ثنا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، ثنا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا»

سیر الآعلام البنلاء از الذھبی کے مطابق  المُغِيْرَةُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ القُرَشِيُّ  کے لئے امام یحیی بن معین کہتے   : لَيْسَ حَدِيْثُهُ بِشَيْءٍ اس کی حدیث کوئی چیز نہیں ہے-  ابن حبان  کتاب مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں کہتے ہیں  وكان يهم في الشئ بعد الشئ اس کو  چیز چیز پر وہم ہوتا ہے

امام مالک کی بات کا رد کرتے ہوئے کتاب  سير أعلام النبلاء میں  الذهبي (المتوفى : 748هـ) کہتے ہیں

قُلْتُ: الخَبَرُ لَمْ يَنْفَرِدْ بِهِ ابْنُ عَجْلاَنَ، بَلْ وَلاَ أَبُو الزِّنَادِ، فَقَدْ رَوَاهُ:

 شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ.

وَرَوَاهُ: قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَرَوَاهُ: ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَرَوَاهُ: مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

وَصحَّ أَيْضاً مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عُمَرَ.

میں (الذھبی) کہتا ہوں : اس خبر میں ابن عجلان  منفرد نہیں ہے اور نہ ابو الزناد منفرد ہے  اس کو روایت کیا ہے

شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ. نے

اور روایت کیا ہے  قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي أَيُّوْبَ المَرَاغِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ سے .

اور روایت کیا ہے  ابْنُ لَهِيْعَةَ عَنِ الأَعْرَجِ، وَأَبِي يُوْنُسَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. 

اور روایت کیا ہے  مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. سے

  راقم کہتا ہے قتادہ مدلس نے یہ روایت عن سے روایت کی ہے امام مسلم نے قتادہ کے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے – الذھبی کی پیش کردہ دوسری سند میں  ابْنُ لَهِيْعَةَ سخت ضعیف ہے –  شُعَيْبُ بنُ أَبِي حَمْزَةَ    کی روایت مسند الشامیین از طبرانی کی ہے لیکن یہ بھی ضعیف ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مَيْمُونٍ أَيُّوبُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ الصُّورِيُّ، ثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَذَّاءُ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ طُولُهُ سَبْعُونَ ذِرَاعًا

اس کی سند میں محمد بن حمير الحمصي ہے جو محدثین مثلا ابن ابی حاتم کے مطابق نا قابل احتجاج ہے اور الفسوی اس کو قوی نہیں کہتے ہیں اس راوی کو الذہبی نے خود ديوان الضعفاء میں ضعیف راویوں میں  شمار کیا ہے

کتاب السنہ از ابن ابی عاصم کی روایت ہے

ثنا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثنا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ثنا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي يُونُسَ سُلَيْمُ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ قَاتَلَ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ فَإِنَّ صُورَةَ وَجْهِ الإِنْسَانِ عَلَى صُورَةِ وَجْهِ الرَّحْمَنِ”.

ابو یونس ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو لڑے وہ چہرہ سے بچے کیونکہ انسان کے چہرے کی صورت الرحمن کے چہرے کی صورت ہے

یہ ہے وہ روایت جو الذہبی نے دلیل میں پیش کی ہے جس کے متن  میں نکارت ہے اور سند میں ابن لَهِيعَةَ ہے جس پر خراب حافظہ آختلاط اور ضعف کا حکم ہے

اب صرف مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. کی سند ہے جو قابل بحث ہے – امام بخاری نے اس کو اسی سند سے روایت کیا ہے  إس میں معمر بن راشد ہیں جو مدلس ہیں  لیکن محدثین کی ایک جماعت ان کی ہمام بن منبہ والی روایات قبول کرتی ہے – ہمام بن منبہ  یمن سے مدینہ پہنچے اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ١٤٠ روایات لیں ان میں اپنی باتیں بھی شامل کر دیں اور ان کا نسخہ بقول امام احمد اسی وجہ سے معدوم ہوا کہ لوگ یہ تمیز ہی نہیں کر پائے  کیا قول نبی اور کیا ان کا اپنا قول ہے – ہمام سوڈان گئے وہاں معمر بن راشد ملے اور ان کو روایت سنائیں اس کے بعد حجاز میں ابن زبیر رضی الله عنہ کی فوج نے ہمام کو  پکڑا اور یہ عباسیوں کے خروج تک زندہ تھے سن ١٣٢  هجري میں فوت ہوئے –   الذھبی کے مطابق ممکن ہے سو سال انکی زندگی ہو لیکن اس دوران انہوں نے  بہت کم لوگوں کو روایات سنائی ہیں  ان سے صرف  ان کے  بھائی وھب بن منبہ   صَاحِبُ القَصَصِ ، ان کے بھتیجے عَقِيْلُ بنُ مَعْقِلٍ  اور معمر بن راشد  اور ایک یمنی عَلِيُّ بنُ الحَسَنِ بنِ أَنَسٍ الصَّنْعَانِيُّ  روایت کرتے ہیں – الذھبی  سیر الآعلام النبلاء میں کہتے ہیں وَمَا رَأَينَا مَنْ رَوَى الصَّحِيْفَةَ عَنْ هَمَّامٍ إِلاَّ مَعْمَرٌ اور ہم نہیں دیکھتے کہ اس الصَّحِيْفَةَ کو ہمام سے کوئی روایت کرتا ہو سوائے معمر کے- امام احمد کے مطابق معمر نے یہ صحیفہ سوڈان میں سنا- معمر خود کوفی ہیں وہاں سے یمن گئے اور پھر سوڈان  – سوڈان علم  حدیث کے لئے کوئی مشھور مقام نہ تھا –   خود معمر روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہ سختی سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی کوئی ایک  روایت کو رد کرتے

كتاب السنة از أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (المتوفى: 287هـ) کے مطابق

ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عن ابن طاووس عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَ رَجُلٌ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ فَانْتَفَضَ: قال ابن عباس ما بال هؤلاء يجدّون (يحيدون) عند محكمه ويهلكون عند متشابهه.

البانی کے مطابق اغلبا الفاظ يحيدون ہیں اور يجدّون غیر محفوظ ہیں

ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا يحيدون   جھٹک دو (رد کرو) جب کوئی  شخص   ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث روایت کرے – ابن عباس نے کہا ان جیسوں کو کیا ہوا ہے کہ   محکمات سے ہٹ گئے اور متشابھات سے ہلاک ہوئے

البانی کتاب ظِلال الجنة في تخريج السنة میں  کہتے ہیں

يعني استنكارا لما سمع من حديث أبي هريرة, ولم أقف على من نبه على المراد بهذا الحديث, ويغلب على الظن أنه حديث “إن اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ” وهو حديث صحيح, مخرج في “سلسلة الأحاديث الصحيحة” 860.

یعنی انکار کیا جب ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث سنی اور میں نہیں جان سکا کہ کون سی  حدیث  مراد تھی جس  کی خبر دی اور جو گمان غالب ہے وہ یہ کہ یہ حدیث ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور یہ حدیث صحیح ہے اس کی تخریج الصحیحہ  ٨٦٠ میں کی ہے

ہمام ایک سابقہ یہودی تھے – یہود میں الله کے لئے تجسیم کا عقیدہ ہے کیونکہ موجودہ توریت میں الله کو  ایک مرد کی صورت بیان کیا  گیا ہے جس کے آعضآ بھی ہیں –  یہودی تصوف کی ایک قدیم کتاب جو بعثت نبوی سے قبل کی ہے اس کا نام  کتاب شر قومہ ہے جس  میں الله  تعالی کے آعضآ کی پمائش بھی بیان کی گئی  ہے – موجود توریت میں ہے

Then God said,  “Let us make man in our image,  after our likeness.

پھر الله نے کہا ہم انسان کو اپنے عکس  צֶ֫לֶם  پر بنائیں گے –اپنی דְּמוּת  مشابہت  کے مطابق

Genesis 1:26

لفظ דְּמוּת کا ترجمہ مشابہت کے علاوہ  یہود کے مطابق شکل اور تناسب بھی ہو سکتا ہے

لفظ צֶלֶם کا ترجمہ عکس کے علاوہ غیر مرئی چیز  بھی کیا جاتا ہے

اس کے برعکس قرآن میں ہے

(فِیْ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّاشَآئَ رَکَّبَکَ (الانفطار:8/82
جس صورت میں چاہا اس نے تجھے بنایا۔

اسی متن کی ایک روایت ابن عمر سے بھی مروی ہے  جس کے مطابق چہرے کو برا نہ کرو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا

ابن عمر کی مرویات

العلل دارقطنی کی سند ہے

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ الزَّيَّاتُ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ [ص:36]: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ»

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الطُّوسِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ إِشْكَابَ، ثنا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ [ص:37]، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ»

ابن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرہ کو مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو الرحمن کی شکل پر پیدا کیا ہے

اس کی سند میں مدلس حبيب بن أبي ثابت ہیں جو عن سے اس کو عطاء بْن أَبي رباح  سے روایت کر رہے ہیں –  کتاب  المدلسين  از  ابن العراقی کے مطابق

ابن حبان کہتے ہیں

: كان مدلساً وروى أبو بكر بن عياش عن الأعمش قال لي حبيب بن أبي ثابت: لو أن رجلاً حدثني عنك ما باليت أن أرويه عنك.

یہ مدلس تھے  – الأعمش کہتے ہیں حبيب بن أبي ثابت نے مجھ سے کہا اگر کوئی آدمی تم سے میری  روایت بیان  کرے تو میں اس سے بے پرواہ ہوں جو وہ روایت کرے

عطاء بْن أَبي رباح کی سند سے اس روایت کو بیان کرنے میں حبيب بن أبي ثابت منفرد ہیں چونکہ یہ مدلس ہیں اور عن سے روایت ہے لہذا یہ مظبوط نہیں

ابن خزیمہ کتاب التوحید میں اس روایت پر تبصرہ کرتے ہیں اور  ابن عمر کی روایت کو رد کرتے ہیں

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: تَوَهَّمَ بَعْضُ مَنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ أَنَّ قَوْلَهُ: «عَلَى صُورَتِهِ» يُرِيدُ صُورَةَ الرَّحْمَنِ عَزَّ رَبُّنَا وَجَلَّ عَنْ أَنْ يَكُونَ هَذَا مَعْنَى الْخَبَرِ، بَلْ مَعْنَى قَوْلِهِ: «خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ» ، الْهَاءُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ كِنَايَةٌ عَنِ اسْمِ الْمَضْرُوبِ، وَالْمَشْتُومِ، أَرَادَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ هَذَا الْمَضْرُوبِ، الَّذِي أَمَرَ الضَّارِبَ بِاجْتِنَابِ وَجْهِهِ بِالضَّرْبِ، وَالَّذِي قَبَّحَ وَجْهَهَ، فَزَجَرَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ: «وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ» ، لِأَنَّ وَجْهَ آدَمَ شَبِيهُ وُجُوهِ بَنِيهِ، فَإِذَا قَالَ الشَّاتِمُ لِبَعْضِ بَنِي آدَمَ: قَبَّحَ اللَّهُ وَجْهَكَ وَوَجْهَ مَنْ أَشْبَهَ وَجْهَكَ، كَانَ مُقَبِّحًا وَجْهَ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ [ص:85] عَلَيْهِ وَسَلَامُهُ، الَّذِي وُجُوهُ بَنِيهِ شَبِيهَةٌ بِوَجْهِ أَبِيهِمْ، فَتَفَهَّمُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ مَعْنَى الْخَبَرِ، لَا تَغْلَطُوا وَلَا تَغَالَطُوا فَتَضِلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَتَحْمِلُوا عَلَى الْقَوْلِ بِالتَّشْبِيهِ الَّذِي هُوَ ضَلَالٌ

بعض لوگ جن کو علم نہیں پہنچا ان کو اس میں وہم ہوا کہ قول اسکی صورت پر سے انہوں نے صورت رحمان مراد لی گویا کہ یہ کوئی خبر ہو بلکہ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اس کا معنی ہے  کہ اس میں ھآ یہاں کنایہ کے طور پر ہے جس کو مارا جا رہا ہے اس کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم  کا مقصد ہے کہ الله نے آدم کو خلق کیا اسی مارنے والے کی صورت پہ جس نے مارنے کا حکم دیا چہرہ پر اور چہرہ کو برآ کیا پس اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ڈانٹا کہ کہہ کر اس کا چہرہ بھی تمہارے چہرہ جیسا ہے ….. پس ان لوگوں کو وہم ہوا کہ الله نے خبر دی پس دین میں غلو نہ کرو نہ کراو ورنہ گمراہ ہو گے سیدھی راہ سے اور اس پر التَّشْبِيهِ  کاقول مت لو یہ گمراہی ہے

ابن خزیمہ  سفیان ثوری  کے طرق عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ،  پر کہتے ہیں

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَقَدِ افْتُتِنَ بِهَذِهِ اللَّفْظَةِ الَّتِي فِي خَبَرِ عَطَاءٍ عَالِمٌ مِمَّنْ لَمْ يَتَحَرَّ الْعِلْمَ، وَتَوَهَّمُوا أَنَّ إِضَافَةَ الصُّورَةِ إِلَى الرَّحْمَنِ فِي هَذَا الْخَبَرِ مِنْ إِضَافَةِ صِفَاتِ الذَّاتِ، فَغَلَطُوا فِي هَذَا غَلَطًا بَيِّنًا، وَقَالُوا مَقَالَةً شَنِيعَةً مُضَاهِيَةً لِقَوْلِ الْمُشَبِّهَةِ، أَعَاذَنَا اللَّهُ وَكُلُّ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَوْلِهِمْ وَالَّذِي عِنْدِي فِي تَأْوِيلِ هَذَا الْخَبَرِ إِنْ صَحَّ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ مَوْصُولًا: فَإِنَّ فِي الْخَبَرِ عِلَلًا ثَلَاثًا , إِحْدَاهُنَّ: أَنَّ الثَّوْرِيَّ قَدْ خَالَفَ الْأَعْمَشَ فِي إِسْنَادِهِ، فَأَرْسَلَ الثَّوْرِيُّ وَلَمْ يَقُلْ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَالثَّانِيَةُ: أَنَّ الْأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، لَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ وَالثَّالِثَةُ: أَنَّ حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ: أَيْضًا مُدَلِّسٌ، لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ عَطَاءٍ

اور اس لفظ صورت الرحمن سے فتنہ ہوا وہ خبر جو عطا بن ابی رباح سے ملی ایک عالم تھے جنہوں نے علم میں جانچ پڑتال نہیں کی اور اس اضافت صورت الرحمن سے وہم ہوا یہ اضافہ ذات باری کی صفات پر ہے پس انہوں نے غلطی کھائی جس کو ہم نے واضح کیا اور قول برا قول ہے الْمُشَبِّهَةِ کی گمراہی جیسا الله اس سے بچائے  تمام مسلمانوں کو اس قول سے اور ہمارے نزدیک اس کی تاویل ہے کہ یہ خبر اگر نقلی لحاظ سے درست ہو تو یہ موصول ہے کیونکہ اس خبر میں تین علتیں ہیں ایک ثوری نے کی مخالفت کی ثوری نے ارسال کیا اور یہ نہیں کہا عن ابن عمر اور دوسری الْأَعْمَشَ مدلس ہے اور اس نے ذکر نہیں کیا کہ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ سے  اس کا سماع  ہے اور تیسری حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ  بھی مدلس ہے اس کا سماع عطا بن ابی رباح سے ہے بھی پتا نہیں

صورت رحمان پر تخلیق کہنا  توریت کی اس آیت کی تائید ہے – ابن عباس رضی الله عنہ اور امام مالک نے اس کا متن سنتے ہی اس کو رد کر دیا – اس کے بعد سن ٢٠٠ ہجری میں اس روایت کا پھر سے دور دورہ ہوا اور جھمیہ کی مخالفت میں اس کو محدثین صحیح کہنے لگے کیونکہ اس میں الله کے چہرے کا ذکر تھا اور جھمیہ  اللہ کو   انرجی نما کوئی چیز سمجھتے تھے جو تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے –  چونکہ قرآن میں بھی وجھہ الله  کے الفاظ ہے   محدثین اس روایت کو جھمیہ کی مخالفت میں پیش کرنے لگے

کتاب  الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کے مطابق ابن خزیمہ کی بات کا امام احمد رد کرتے تھے

وَحَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيُّ , حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ حَنْبَلٍ: يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ , حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَخِيرِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا , أَلَيْسَ تَقُولُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ؟ وَيَرَاهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَعْنِي رَبَّهُمْ عَزَّ وَجَلَّ؟ وَلَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى وَضَعَ فِيهَا قَدَمَهُ , وَإِنَّ مُوسَى لَطَمَ مَلَكَ الْمَوْتِ قَالَ [ص:1128] أَحْمَدُ: «كُلُّ هَذَا صَحِيحٌ» , قَالَ إِسْحَاقُ: «هَذَا صَحِيحٌ , وَلَا يَدْفَعُهُ إِلَّا مُبْتَدِعٌ أَوْ ضَعِيفُ الرَّأْيِ»

إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ کہتے ہیں میں نے امام احمد سے کہا کیا الله تعالی ہر رات آسمان دنیا پر  نزول کرتے ہیں جب رات کا آخری تین تہائی رہ جائے کیا بولتے ہیں آپ ان احادیث پر ؟ اور اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ اور چہرہ مٹ بگاڑو کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا  اور جہنم کی اگ نے اپنے رب سے شکایت کی یہاں تک کہ الله نے اس پر قدم رکھا – اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی؟ احمد نے کہا : یہ سب صحیح ہیں اور اسحاق نے کہا یہ سب صحیح ہیں اور ان کو رد  نہیں کرتا لیکن بدعتی اور کمزور رائے والا

وہابی محقق  محمد حسن عبد الغفار کتاب  شرح كتاب التوحيد لابن خزيمة  میں ابن خزیمہ کے قول کو ضعیف کہتے ہیں اور تبصرہ کرتے ہیں

 وهل ابن خزيمة في مسألة الصورة يثبت لله صفة الصورة أم لا؟! نقول: هناك تأويلان: أولاً: الهاء في الحديث عائدة على المضروب، وليست عائدة على الله، فأخبره أن هذا المضروب خلق على صورة أبيه آدم عليه السلام، وهذا التأويل فيه ضعف؛ والحديث في الرواية الأخرى جاء بنص: (خلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعاً)، إذاً: الهاء عائدة على آدم عليه السلام، فطوله ستون ذراعاً وسبعة أذرع عرضاً، وجاء بإسناد صحيح عند الطبراني وغيره: (أن الله خلق آدم على صورة الرحمن) فإذا قلنا: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن فكيف نفهم هذا المعنى؟ نقول: أولاً: لله صورة، وهي صفة من صفات الله، وهل الصورة تشبه صورة الإنسان؟ حاشا لله! فمعنى: (خلق آدم على صورة الرحمن) أن آدم متكلم كما أن الله متكلم، وأن آدم سميع كما أن الله سميع، وإن آدم بصير كما أن الله بصير….وابن خزيمة يقول: الصورة إضافتها إضافة مخلوق إلى خالقه.
ونحن نخالفه في هذا

اور کیا ابن خزیمہ نے مسئلہ صورت میں الله کی طرف صفت صورت کا اثبات کیا یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں اس میں دو تاویلات ہیں ایک یہ کہ یہ مارنے والے کی طرف ھآ کی ضمیر ہے … اور یہ تاویل ضعیف ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ الله نے آدم کو ٦٠ ہاتھ  لمبا اور ٧ ہاتھ چوڑا خلق کیا … تو اس کا کیا مطلب ہے ؟ ہم کہتے ہیں اول الله کی صورت ہے اور یہ اس کی صفت ہے اور کیا یہ صورت انسان سے ملتی ہے ؟ حاشا للہ ! پس اس کا معنی ہے خلق آدم علی صورت الرحمن کا کہ آدم اسی طرح بولتا ہے جس طرح الله بولتا ہے اور سنتا ہے جس طرح الله سنتا ہے اور دیکھتا ہے جس طرح الله دیکھتا ہے .. … اور ابن خزیمہ نے کہا کہ صورة  کی اضافت مخلوق کی  خالق کی طرف ہے اور ہم اس قول کے انکاری ہیں

روایت سندا صحیح نہیں ہے  یہ کہنے کی بجائے اس کو صحیح بھی کہہ رہے ہیں اور خالق کو مخلوق سے بھی ملا رہے ہیں

چوتھی صدی ہجری میں ابن حبان  نے  اس کو صحیح قرار دیا جو ابن خزیمہ کے ہم عصر تھے لیکن صحیح ابن حبان میں اس پر تبصرہ میں کہا

، وَالْهَاءُ رَاجِعَةٌ إِلَى آدَمَ، وَالْفَائِدَةُ مِنْ رُجُوعِ الْهَاءِ إِلَى آدَمَ دُونَ إِضَافَتِهَا إِلَى الْبَارِئِ جَلَّ وَعَلَا – جَلَّ رَبُّنَا وَتَعَالَى عَنْ أَنْ يُشَبَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ – أَنَّهُ جَلَّ وَعَلَا جَعَلَ سَبَبَ الْخَلْقِ الَّذِي هُوَ الْمُتَحَرِّكُ النَّامِي بِذَاتِهِ اجْتِمَاعَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، ثُمَّ زَوَالَ الْمَاءِ عَنْ قَرَارِ الذَّكَرِ إِلَى رَحِمِ الْأُنْثَى، ثُمَّ تَغَيُّرَ ذَلِكَ إِلَى

اور اس میں الْهَاءُ راجع ہے آدم کی طرف اور اس میں فائدہ ہے کہ یہ وَالْهَاءُ آدم کی طرف ہو نہ کہ الله کی طرف جو بلند و بالا ہے کہ اس سے کسی چیز کو تشہیہ دی جائے اس کی مخلوق میں سے وہ بلند ہے اس نے خلق کیا ہے وہ سونے والے کو متحرک کرتا مرد و عورت کو ملاتا پھر اس کا پانی ٹہراتا  ہے پھر اس کو بدلتا ہے

یعنی ابن خزیمہ نے ابن عمر کی روایت کو ضعیف کہا لیکن ابن حبان نے صحیح کر دیا لیکن دونوں الھا کی ضمیر کو مارنے والے کی طرف لے جاتے ہیں اس کے برعکس حنبلی علماء اس کو الله کی طرف لے جاتے ہیں

کتاب  تأويل مختلف الحديث میں  أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ)  نے اس روایت پر لکھا

قَدِ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِي تَأْوِيلِ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّهُ خَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى صُورَتِهِ “.
فَقَالَ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ الْكَلَامِ: أَرَادَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، لَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، وَلَوْ كَانَ الْمُرَادُ هَذَا، مَا كَانَ فِي الْكَلَامِ فَائِدَةٌ.

وَمَنْ يَشُكُّ فِي أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَى صُورَتِهِ، وَالسِّبَاعَ عَلَى صُوَرِهَا، وَالْأَنْعَامَ عَلَى صُوَرِهَا

وَقَالَ قَوْمٌ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةٍ عِنْدَهُ.

وَهَذَا لَا يَجُوزُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَخْلُقُ شَيْئًا مِنْ خَلْقِهِ عَلَى مِثَالٍ.

وَقَالَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: “لَا تُقَبِّحُوا الْوَجْهَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ عَلَى صورته

يُرِيد أَنَّ اللَّهَ -جَلَّ وَعَزَّ- خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الْوَجْهِ.

وَهَذَا أَيْضًا بِمَنْزِلَةِ التَّأْوِيلِ الْأَوَّلِ، لَا فَائِدَةَ فِيهِ.

وَالنَّاسُ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى خَلَقَ آدَمَ، عَلَى خَلْقِ وَلَدِهِ، وَوَجْهَهُ عَلَى وُجُوهِهِمْ.

وَزَادَ قَوْمٌ فِي الْحَدِيثِ: إِنَّهُ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- مَرَّ بِرَجُلٍ يَضْرِبُ وَجْهَ رَجُلٍ آخَرَ، فَقَالَ: “لَا تَضْرِبْهُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، خَلَقَ آدَمَ -عَلَيْهِ السَّلَامُ- عَلَى صُورَتِهِ”، أَيْ صُورَةِ الْمَضْرُوبِ.

وَفِي هَذَا الْقَوْلِ مِنَ الْخَلَلِ، مَا فِي الْأَوَّلِ.

وَلَمَّا وَقَعَتْ هَذِهِ التَّأْوِيلَاتُ الْمُسْتَكْرَهَةُ، وَكَثُرَ التَّنَازُعُ فِيهَا، حَمَلَ قَوْمًا اللَّجَاجُ عَلَى أَنْ زَادُوا فِي الْحَدِيثِ، فَقَالُوا: رَوَى بن عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا1: “إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.

يُرِيدُونَ أَنْ تَكُونَ الْهَاءُ2 فِي “صُورَتِهِ” لِلَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، وَإِنَّ ذَلِكَ يَتَبَيَّنُ بِأَنْ يَجْعَلُوا الرَّحْمَنَ مَكَانَ الْهَاءِ كَمَا تَقُولُ: “إِنَّ الرَّحْمَنَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”، فَرَكِبُوا قَبِيحًا مِنَ الْخَطَأِ.

وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ نَقُولَ: “إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ السَّمَاءَ بِمَشِيئَةِ الرَّحْمَنِ” وَلَا على إِرَادَة الرَّحْمَن

بلا شنہ لوگوں کا اس روایت کی  تاویل میں اضطراب ہوا جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس ایک اصحاب الکلام کی قوم  نے کہا اس میں مقصد ہے کہ آدم کو آدم کی صورت ہی پیدا کیا گیا اس سے زیادہ نہیں اور اگر اس سے یہ مراد ہے تو ایسے کلام کا فائدہ کیا ہے ؟ اور جس کو شک ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر کیا تو پھر گدھ کی اور چوپایوں کی صورتیں کس پر ہیں ؟ ایک دوسری قوم نے کہا الله نے آدم کو  اس صورت پر پیدا کیا جو اس کے پاس ہے تو یہ ایسا کلام جائز نہیں ہے کیونکہ الله عزوجل نے کسی کو بھی خلق میں سے اپنے مثل نہیں بنایا –   اور ایک قوم نے حدیث پر کہا چہرہ مت بگاڑو  کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا مراد ہے الله نے اپنی ہی چہرہ پر  بنایا –  تو یہ بھی ویسی ہی تاویل ہے جیسی پہلی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے – اور لوگ جانتے ہیں کہ الله تبارک و تعالی نے آدم کو خلق کیا ان کی اولاد کے مطابق اور انکا چہرہ انکی اولاد کا ہے اور ایک قوم نے حدیث میں اضافہ کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ایک شخص پر سے گزر ہوا جو دوسرے کے چہرہ پر مار رہا تھا آپ نے فرمایا اس کے چہرہ پر مت مارو کیونکہ الله نے آدم کو اس کی صورت پیدا کیا یعنی مارنے والے کی ہی صورت پر اور اس قول میں خلل ہے جو پہلے میں نہیں ہے – تو جب اس قسم کی تاویلات منکرات واقع ہوئیں اور جھگڑا بڑھا تو ایک قوم نے بےہودگی اٹھائی اور اس حدیث میں الفاظ کا اضافہ کر دیا اور کہا کہ ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے الله تعالی نے آدم کو صورت  رحمان پر خلق کیا – ان کا مقصد تھا کہ الھا کی ضمیر کو صورتہ کی طرف لے جائیں یعنی الله تعالی کے لئے اور اس میں واضح ہے کہ انہوں الرحمن کا لفظ کر دیا جہاں الھا تھا جیسا کہ کہا بے شک الرحمن نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا پس وہ ایک قبیح غلطی پر چلے اور ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ میں کہیں بے شک الله نے آسمان کو مشیت الرحمن کے مطابق خلق کیا نہ ہی رحمان کا ارادہ کہیں – 

ابن قتیبہ نے جو تیسری صدی کے محدث ہیں اور امام احمد کے ہم عصر ہیں ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں ہے اس کا متن منکر ہے

ان کے مقابلے پر امام احمد  اور اسحاق بن راہویہ تھے جو اس کو صحیح کہتے

کتاب : مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه  از  إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) کے مطابق امام احمد اس میں الھا کی ضمیر کو الله کی طرف لے جانا قبول کیا

أليس تقول بهذه الأحاديث. و “يرى أهل الجنة ربهم عز وجل” “ولا تقبحوا الوجه فإن الله عز وجل خلق آدم على صورته” يعني صورة رب العالمين، و “اشتكت النار إلى ربها عز وجل حتى يضع الله فيها قدمه” و “إن موسى عليه السلام لطم ملك الموت عليه السلام”؟
قال الإمام أحمد: كل هذا صحيح.
قال إسحاق: كل هذا صحيح، ولا يدعه1 إلا مبتدع أو ضعيف الرأي

کیا کہتے ہیں اس حدیث پر کہ اہل جنت اپنے رب کو دیکھیں گے اور حدیث چہرہ مت بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یعنی رب العالمین کی صورت پر اور اگ نے اپنے رب سے شکایت کی حتی کہ اس نے اس پر قدم رکھا اور موسی نے ملک الموت کی آنکھ نکالی ؟ امام احمد نے کہا یہ تمام صحیح ہیں اور امام اسحاق نے کہا یہ تمام صحیح ہیں  اور ان کا انکار  کوئی نہیں کرتا سوائے بدعتی اور کمزور رائے والا

البيان والتحصيل والشرح والتوجيه والتعليل لمسائل المستخرجة  از  أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 520هـ)

والحديث في قوله: «إن الله خلق آدم على صورته» يروى على وجهين؛ أحدهما: «إن الله خلق آدم على صورته» . والثاني: إن الله خلق آدم على صورة الرحمن، فأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورته» فلا خلاف بين أهل النقل في صحتها؛ لاشتهار نقلها، وانتشاره من غير منكر لها، ولا طاعن فيها، وأما الرواية: «إن الله خلق آدم على صورة الرحمن» فمن مصحح لها، ومن طاعن عليها، وأكثر أهل النقل على إنكار ذلك، وعلى أنه غلط وقع من طريق التأويل لبعض النقلة توهم أن الهاء ترجع إلى الله عز وجل، فنقل الحديث على ما توهم من معناه، فيحتمل أن يكون مالك أشار في هذه الرواية بقوله وضعفه إلى هذه الرواية، ويحتمل أن يكون إنما ضعف بعض ما تؤول عليه الحديث من التأويلات، وهي كثيرة.

اور حدیث جس میں قول ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا یہ دو طرح  سے روایت ہوئی  ہے ایک میں ہے الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دوسری میں آدم کو الرحمن کی صورت خلق کیا – جہاں تک تعلق ہے کہ اپنی صورت پر خلق کیا تو اس کی صحت پر  اہل نقل کا اختلاف نہیں ہے  لیکن جو دوسری ہے کہ آدم کو رحمن کی صورت خلق کیا تو اس کو صحیح کہنے والے ہیں اور اس پر طعن کرنے والے ہیں اور اکثر اہل نقل اس کا انکار کرتے ہیں اور بعض اہل تاویل کہتے ہیں کہ اس میں  ھ کی ضمیر غلطی سے الله کی طرف ہے  تو حدیث نقل کرنے والوں کو وہم ہوا اس کے معنی پر اور احتمال ہے کہ امام مالک نے اسی کی طرف اشارہ کیا اس کو ضعیف کہہ کر اور احتمال ہے کہ انہوں نے اس کی تاویلات کی وجہ سے ضعیف کہا اور یہ بہت ہیں

کتاب  المنتخب من علل الخلال میں  ابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) کہتے ہیں

أخبرني حرب، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ يَقُولُ: قَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) أَنَّهُ قَالَ: “إِنَّ آدَمَ خُلِقَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ: ثنا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عن عطاء، عن ابن أبي عُمَرَ، عَنْ رَسُولَ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) قَالَ: “لا تُقبِحوا الْوَجْهَ؛ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ”.قَالَ إِسْحَاقُ: وَإِنَّمَا عَلَيْهِ أَنْ يَنْطِقَ بِمَا صحَّ عَنْ رسول الله أَنَّهُ نَطَقَ بِهِ.وَأَخْبَرَنَا الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: كَيْفَ تَقُولُ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ): “خُلِقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ”؟

قَالَ: الأَعْمَشُ يَقُولُ: عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: “أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرحمن”. فأما الثوري فأوفقه -يَعْنِي: حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ.وَأَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ (صَلَّى الله عليه وسلم) “على صورته فنقول كَمَا فِي الْحَدِيثِ.

حرب نے خبر دی انہوں نے إِسْحَاقَ بْنَ رَاهَوَيْهِ سے سنا کہ بلاشبہ صحیح ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور ہم سے اسحاق نے روایت کیا  ان سے جریر نے بیان کیا ان سے حبیب بن ابی ثابت نے ان سے عطا نے ان سے ابن عمر نے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا چہرے کو مٹ بگاڑو کیونکہ الله نے آدم کو   صورت رحمان  پر خلق کیا – اسحاق نے کہا  ہم پر ہے کہ ہم وہی بولیں جو رسول الله نے بولا ہو – اور المروزی نے خبر دی کہ انہوں امام احمد سے پوچھا کیا کہتے ہیں آپ اس حدیث پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا ؟ انہوں نے کہا : الأَعْمَشُ کہتے ہے حبیب بن ابی ثابت نے روایت کیا  اس نے عطا سے اس نے ابن عمر سے … پس ہم وہی کہتے ہیں جو حدیث میں ہے

أبي بطين  فتوی میں کہتے ہیں

رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين (مطبوع ضمن مجموعة الرسائل والمسائل النجدية، الجزء الثاني

وقال في رواية أبي طالب: من قال: إن الله خلق آدم على صورة آدم، فهو جهمي، وأي صورة كانت لآدم قبل أن يخلقه؟ وعن عبد الله بن الإمام أحمد قال: قال رجل لأبي: إن فلانا يقول في حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إن الله خلق آدم على صورته” 1 فقال: على صورة الرجل، فقال أبي: كذب، هذا قول الجهمية، وأي فائدة في هذا؟  وقال أحمد في رواية أخرى: فأين الذي يروي: “إن الله خلق آدم على صورة الرحمن”؟ وقيل لأحمد عن رجل: إنه يقول: على صورة الطين، فقال: هذا جهمي، وهذا كلام الجهمية، واللفظ الذي فيه على صورة الرحمن رواه الدارقطني، والطبراني، وغيرهما بإسناد رجاله ثقات.

اور ابی طالب کی روایت میں ہے کہ امام احمد نے کہا کہ جو یہ کہے کہ  الله نے آدم کو آدم کی صورت پر پیدا کیا تو وہ جھمی ہے اور آدم تخلیق سے پہلے کس صورت پر تھے؟ اور عبد الله کی روایت میں ہے کہ امام احمد سے ایک آدمی نے کہا کہ فلاں کہتا ہے حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا تو  کہا آدمی کی صورت اس پر امام احمد نے کہا جھوٹ یہ جھمیہ کا قول ہے اور اس کا فائدہ ؟ اور ایک دوسری روایت کے مطابق تو وہ کہاں ہے جس میں ہے کہ بے شک الله نے آدم کو الرحمن کی صورت پیدا کیا؟ اور امام احمد سے  کہا گیا کہ ایک آدمی کہتا ہے ان کو مٹی کی صورت پیدا کیا احمد نے کہا یہ جھمی ہے اور یہ باتیں جہمیہ کی ہیں اور الفاظ ہیں رحمان کی صورت پیدا کیا اس کو دارقطنی طبرانی  اور دوسروں نے ان اسناد سے روایت کیا ہے جن میں ثقہ ہیں

امام احمد صریحا اس کے انکاری تھے کہ الھا کی ضمیر کو انسانوں یا مٹی کی طرف لے جایا جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کو جھمی کہتے –  امام احمد کا فتوی امام ابن خزیمہ اور ابن حبان پر لگا کہ یہ دونوں جھمی ہوئے ان کے نزدیک جو الھا کی ضمیر کو انسان کی طرف لے جاتے – واضح رہے کہ جھمیہ کا موقف غلط تھا وہ الله کے سماع و کلام کے انکاری تھے لیکن بعض علماء نے  جھمیہ کی مخالفت میں   روایات کی بنیاد  صورت کو بھی الله کی صفت مناتے ہوئے  ایک طرح یہ بھی مان لیا کہ آدم اور اس کے رب کی صورت ایک جیسی ہے

امام احمد کو اس مسئلہ سے بچانے کے لئے الذھبی نے میزان الآعتدال میں  حمدان بن الهيثم کے ترجمہ میں لکھا

حمدان بن الهيثم. عن أبي مسعود أحمد بن الفرات.  وعنه أبو الشيخ ووثقه.  لكنه أتى بشيء منكر عن أحمد عن أحمد بن حنبل في معنى قوله عليه السلام إن الله خلق آدم على صورته.  زعم أنه قال صور الله صورة آدم قبل خلقه ثم خلقه على تلك الصورة فأما أن يكون خلق الله آدم على صورته فلا فقد قال تعالى {ليس كمثله شيء

حمدان بن الهيثم ، ابی مسعود احمد بن الفرات سے اور ان سے ابو شیخ اور یہ ثقہ ہیں لیکن ایک منکر چیز امام احمد بن حنبل کے لئے لائے  اس  قول النبی پر کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور دعوی کیا کہ وہ کہتے تھے کہ تخلیق سے پہلے الله  نے  آدم کی صورت گری کی تو وہ الله کی  صورت تھی جس پر وہ بنے  – (الذہبی تبصرہ کرتے ہیں) تو اگر یہی  صورت تھی تو یہ نہیں تھی کیونکہ الله نے کہا اس کے مثل کوئی نہیں

لیکن المروزی نے جن مسائل میں امام احمد سے اس روایت کے متعلق پوچھا تھا اس میں صریح الفاظ میں صورة رب العالمين لکھا ہے  دوم ابابطین کے مطابق یہ قول امام احمد کے بیٹے سے بھی منسوب ہے لہذا اس میں حمدان بن الهيثم  کا تفرد نہیں ہے

حنبلی علماء میں حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: 1413هـ)  نے اپنی کتاب عقیدہ  أهل الإيمان في خلق آدم على صورة الرحمن  میں لکھا کہ امام احمد سے یہ قول ثابت ہے کہ الھا کی ضمیر الله کی طرف ہے اور جو اس کے خلاف کہے وہ جھمی ہے

والقول بأن الضمير يعود على آدم وأن الله تعالى خلق آدم على صورته، أي على صورة آدم مروي عن أبي ثور إبراهيم بن خالد الكلبي. وبه يقول بعض أكابر العلماء بعد القرون الثلاثة المفضلة، وهو معدود من زلاتهم،

اور یہ قول کہ ضمیر جاتی ہے آدم کی طرف اور بے شک الله تعالی نے ان کو انکی صورت پر بنایا یعنی آدم کی صورت پر جو مروی ہے ابو ثور ابراہیم بن خالد اور الکلبی سے اور اسی طرح بعض اکابر علماء نے کہا ہے قرن تین کے بعد اور وہ چند ہیں اپنی  غلطیوں کے ساتھ

اس کتاب میں تعلیق میں  حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري دعوی کرتے ہیں

وأنه لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله.

اور بے شک سلف کے درمیان تین قرون میں اس پر کوئی نزاع نہ تھا کہ  (صورته ميں الهاء) ضمیر الله کی طرف جاتی ہے 

حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري نے ابن حبان، ابن خزیمہ، امام مالک، امام ابن قتیبہ ، سب کو ایک  غلط قرار دے کر خود جمہور میں  امام احمد کو قرار دیا یہاں تک کہ ابن حجر اور الذھبی کی رائے کو بھی غلط قرار دے دیا

ابن تیمیہ کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية میں لکھتے ہیں

لم يكن بين السلف من القرون الثلاثة نزاع في أن الضمير عائد إلى الله فإنه مستفيض من طرق متعددة عن عدد من الصحابة وسياق الأحاديث كلها يدل  على ذلك وهو أيضاً مذكور فيما عند أهل الكتابين من الكتب كالتوراة وغيرها

قرون ثلاثہ میں سلف میں  کوئی نزاع نہ تھا کہ یہ ضمیر الله کی طرف جاتی ہے کیونکہ  اس پر بہت سے طرق سے اصحاب رسول سے روایات ہیں اور ان سب احادیث کا سیاق دلالت کرتا ہے اسی پر اور یہ اہل کتاب کی کتب میں بھی مذکور ہے جیسے توریت اور دیگر

وہابی   عالم  محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى: 1421 هـ) کتاب   شرح العقيدة الواسطية میں لکھتے ہیں

أن الإضافة هنا من باب إضافة المخلوق إلى خالقه، فقوله: “على صورته”، مثل قوله عزوجل في آدم: {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72]، ولا يمكن أن الله عز وجل أعطى آدم جزءاً من روحه، بل المراد الروح التي خلقها الله عز وجل، لكن إضافتها إلى الله بخصوصها من باب التشريف، كما نقول: عباد الله، يشمل الكافر والمسلم والمؤمن والشهيد والصديق والنبي لكننا لو قلنا: محمد عبد الله، هذه إضافة خاصة ليست كالعبودية السابقة

یہاں پر (الھا) کی اضافت، مخلوق کی خالق کی طرف اضافت ہے قول ہے علی صورته الله تعالی کے قول {وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي} [ص: 72] کی مثل ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ الله تعالی نے آدم کو اپنی روح کا جز دیا ہو بلکہ مراد ہے وہ روح جو اللہ نے تخلیق کی لیکن اس کی اضافت الله کی طرف کی ہے اس کی خصوصیت کی بنا پر شرف کی وجہ سے جیسے ہم کہیں الله کے بندے جن میں کافر اور مسلم اور مومن اور شہید اور صدیق اور نبی سب ہیں لیکن اگر ہم کہیں محمد الله کے بندے تو یہ اضافت خاص ہے ویسی نہیں جیسے دوسرے بندوں کے لئے تھی

یعنی  وہابیوں میں اس اضافت پر اختلاف ہوا جس میں متاخرین نے امام احمد کے قول کی اتباع کی اور اضافت کو بقول ابن العثيمين ، المماثلة کی طرح الله کی طرف کر دیا

محدثین کے اس اختلاف میں  الجهمية ، المعتزلة ،  الأشاعرة اور الماتريدية نے صورت کی بطور صفت الہی  نفی کی اور

دوسرے گروہ نے اس کا اثبات کیا (جن میں امام احمد، ابن تیمیہ وغیرہ ہیں) لیکن بعد میں ان میں بھی اختلاف ہوا جیسے حنابلہ میں

کتاب أبكار الأفكار في أصول الدين از سيف الدين الآمدي (المتوفى: 631هـ) کے مطابق

وقد روى عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال:  إنّ اللّه خلق آدم على صورته

فذهبت المشبهة: إلى أن هاء الضمير في الصورة عائدة إلى الله- تعالى-، وأن الله  تعالى- مصور بصورة مثل صورة آدم؛ وهو محال

اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا بے شک الله نے آدم کو صورت پر پیدا کیا پس المشبهة اس طرف گئے ہیں کہ صورته میں هاء کی ضمیر الله کی طرف جاتی ہے اور الله تعالی ، آدم کی شکل والا کوئی  صورت گر ہے اور يه محال ہے

الآمدي کے مطابق وہ تمام لوگ ( بشمول محدثین) جو الھا کی ضمیر الله کی طرف لے کر گئے ہیں المشبهة ہیں

اہل تشیع میں بھی یہ روایت مقبول رہی جہاں ابا جعفر اس کو بیان کرتے ہیں

 الكافي – الشيخ الكليني – ج 1 – ص  134کی روایت ہے

عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد بن خالد ، عن أبيه ، عن عبد الله بن بحر ، عن أبي أيوب الخزاز ، عن محمد بن مسلم قال : سألت أبا جعفر عليه السلام عما يروون أن الله خلق آدم على صورته ، فقال هي : صورة ، محدثة ، مخلوقة واصطفاها الله واختارها على سائر الصور المختلفة ، فأضافها إلى نفسه ، كما أضاف الكعبة إلى نفسه ، والروح إلى نفسه ، فقال : ” بيتي ” ، ” ونفخت فيه من روحي

محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ابا جعفر علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا وہ  یہ دیکھتے ہیں کہ الله نے آدم کو اپنی صورت پیدا کیا تو انہوں نے کہآ یہ صورت ایک نئی تھی مخلوق تھی اور الله نے اس کو دیگر تمام مختلف صورتوں میں سے چنا اور لیا پھر اس کی اضافت اپنی طرف کی جیسے کعبه الله کی اضافت اپنی طرف کی اور روح اضافت اپنی طرف کی جیسے کہا بیتی میرا گھر یا ونفخت فيه من روحي میں اس میں اپنی روح پھونک دوں گا

یہ تشریح مناسب ہے اور اس حدیث سے تجسیم کا عقیدہ نہ نکلے اس کی یہ تاویل  ہی صحیح ہے

لیکن اہل سنت میں بعض لوگوں نے  الله کو ایک مرد کی صورت دے دی   اور الله تعالی کا چہرہ  ، مرد کا چہرہ بنا دیا گیا  کتاب اسماء و الصفات از البیہقی کی روایت ہے

 أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي سُوَيْدٍ الذِّرَاعُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح. وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أنا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظَ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، ثنا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ رَبِّي جَعْدًا أَمْرَدَ [ص:364] عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . قَالَ: وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ، ثنا ابْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْمَوْصِلِيُّ وَابْنُ شَهْرَيَارَ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى، ثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ. فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ جَعْدٍ» . قَالَ: وَزَادَ عَلِيُّ بْنُ شَهْرَيَارَ: «عَلَيْهِ حُلَّةٌ خَضْرَاءُ» . وَرَوَاهُ النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ.

حماد بن سلمہ،  قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا – ….ایک مرد کی صورت دیکھا اس پر سبز لباس تھا

 البیہقی، صحیح مسلم کے راوی حماد بن سلمہ پر برستے ہیں اور لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِينِيُّ، أَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ، نا ابْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، قَالَ: «كَانَ حَمَّادُ بْنُ [ص:366] سَلَمَةَ لَا يُعْرَفُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ حَتَّى خَرَجَ خَرْجَةً إِلَى عَبَادَانَ، فَجَاءَ وَهُوَ يَرْوِيهَا، فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا شَيْطَانًا خَرَجَ إِلَيْهِ فِي الْبَحْرِ فَأَلْقَاهَا إِلَيْهِ» . قَالَ أَبُو عَبْدِالله الثَّلْجِيُّ: فَسَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ صُهَيْبٍ يَقُولُ: إِنَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ كَانَ لَا يَحْفَظُ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّهَا دُسَّتْ فِي كُتُبِهِ،

عبد الرحمان  بن مہدی کہتے ہیں کہ ان قسم کی احادیث سے حماد بن سلمہ نہیں پہچانا جاتا تھا حتی کہ عَبَادَانَ پہنچا پس وہ وہاں آیا اور ان کو روایت کیا  پس میں (عبد الرحمان بن مہدی) سمجھتا ہوں اس پر شیطان آیا جو سمندر میں سے نکلا اور اس نے حماد پر یہ القاء کیا.  ابو بکر الثلجی کہتے ہیں میں نے عباد بن صہیب کو سنا کہا بے شک حماد بن سلمہ حافظ نہیں ہے اور محدثین کہتے ہیں اس نے اپنی کتابیں دفن کیں

حماد بن سلمہ کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ اس اوپر والے قول کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعِ الثَّلْجِيُّ  ہے جس پر جھوٹ کا الزام ہے   میزان الاعتدل میں الذہبی ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

قال ابن عدي: كان يضع الحديث في التشبيه ينسبها إلى أصحاب الحديث يسابهم   ذلك.

قلت: جاء من غير وجه أنه كان ينال من أحمد وأصحابه، ويقول: إيش قام به أحمد! قال المروزي: أتيته ولمته

ابن عدي کہتے ہیں تشبیہ کے لئے حدیث گھڑتا تھا جن کو اصحاب حدیث کی طرف نسبت دیتا ان کو بے عزت کرنے کے لئے

الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں ایک سے زائد رخ سے پتا ہے کہ یہ امام احمد اور ان کے اصحاب کی طرف مائل تھے اور کہتے کہ احمد کہاں رکے ہیں المروزی نے کہا یہ اتے اور ملتے

یہاں تو مسئلہ ہی الٹا ہے حماد بن سلمہ،  نعوذ باللہ ،  الله کو مرد کی شکل کا کہہ رہے ہیں جو تشبیہ و تجسیم کا عقیدہ  ہے  اس  روایت کو البانی صحیح کہہ رہے  ہیں

مالکیہ کے بر خلاف حنابلہ نے یہ عقیدہ اختیار کیا  کہ الله تعالی  کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے دیکھا – اس میں ان کے نزدیک  ایک مضبوط روایت یہ ہی تھی  جس کی سند کو انہوں نے صحیح کہنا شروع کیا

کتاب طبقات الحنابلة ج ١ ص ٢٤٢  از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک یہ اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں اور یہ عقیدہ ایمان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا

والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما روى عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي الأحاديث الصحاح وأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قد رأى ربه فإنه مأثور عَنْ رَسُولِ  الله  صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صحيح قد رواه قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ورواه عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ والحديث عندنا عَلَى ظاهره كما جاء عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – والكلام فيه بدعة ولكن نؤمن به كما جاء عَلَى ظاهره ولا نناظر فيه أحدًا

اور ایمان لاؤ روز قیامت الله کو دیکھنے پر جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم کی روایت میں آیا ہے .. اور صحیح احادیث میں  کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا پس بے شک یہ ماثور ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے  صحیح ہے جیسا روایت کیا  ہے قَتَادَة عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے الحكم بن أبان عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور روایت کیا ہے عَلِيّ بْن زَيْدٍ عَنْ يوسف بْن مهران عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ سے  اور یہ حدیث ہمارے نزدیک اپنے ظاہر پر ہی ہے جیسی کہ آئی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور اس پر کلام بدعت ہے لہذا اس پر ایمان اس حدیث کے ظاہر پر ہی ہے اور ہم کوئی اور روایت ( اس کے مقابل ) نہیں دیکھتے

البانی   کے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت صحیح ہے  اور إبطال التأويلات لأخبار الصفات از  القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) میں بہت سی روایات ہیں جن میں الله تعالی کو ایک مرد نوجوان گھنگھریالے بالوں والا کہا گیا ہے وہاں ان تمام روایات کو پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہےکہ الله تعالی کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا اس کو متقدمین حنابلہ نے قبول کیا

کتاب  غاية المرام في علم الكلام  از الآمدي (المتوفى: 631هـ)  کے مطابق کرامیہ نے بھی یہ عقیدہ اختیار کیاکہ الله  ایک گھنگھریالے بال والا  نوجوان کی صورت ہے – السفاريني کے مطابق بعض غالی شیعوں نے بھی اس عقیدہ کو اختیار کیا –

 اہل تشیع کے تمام فرقے اس کے قائل نہیں تھے بعض میں  میں الله کی تجسیم کا انکار تھا  کتاب  التوحيد – از الصدوق – ص 103 – 104 کی روایت ہے

 حدثني محمد بن موسى بن المتوكل رحمه الله ، قال : حدثنا عبد الله بن جعفر الحميري ، عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسن بن محبوب ، عن يعقوب السراج ، قال : قلت لأبي عبد الله عليه السلام : إن بعض أصحابنا يزعم أن لله صورة مثل صورة الإنسان ، وقال آخر : إنه في صورة أمرد جعد قطط ، فخر أبو عبد الله ساجدا ، ثم رفع رأسه ، فقال : سبحان الله الذي ليس كمثله شئ ، ولا تدركه ‹ صفحة 104 › الأبصار ، ولا يحيط به علم ، لم يلد لأن الولد يشبه أباه ، ولم يولد فيشبه من كان قبله ، ولم يكن له من خلقه كفوا أحد ، تعالى عن صفة من سواه علوا كبيرا .

یعقوب سراج نے کہا کہ میں ابی عبد الله علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے بعض اصحاب (شیعہ) دعوی کرتے ہیں کہ الله کی صورت ایک انسان کی صورت جیسی ہے اور دوسرا کہتا ہے وہ ایک  گھنگھریالے بالوں والا مرد ہے – پس امام ابو عبد الله  سجدے میں گر گئے پھر سر اٹھایا اور کہا الله پاک ہے اس کے مثل کوئی شی نہیں ہے نگاہیں اس کا ادرک نہیں کر سکتیں اور اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا اور وہ نہ پیدا ہوا  کیونکہ لڑکا اپنے باپ کی شکل ہوتا ہے اور نہ اس نے کسی کو جنا اس سے پہلے اور نہ مخلوق میں کوئی اس کا کفو ہے وہ بلند ہے

ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس میں حنابلہ کا رد کیا جو تجسیم کی طرف چلے گئے

ابن جوزی صورہ

اور بے شک قاضی ابویعلی نے صفت الله کا اثبات کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ (الله) ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد تھا جس  نے لباس اور جوتیاں پہن رکھیں تھیں اور تاج تھا اس نے اس کا اثبات کیا لیکن اس کے معنوں پر عقل نہیں دوڑائی .. اور ہم جانتے ہیں جوان اور امرد کا کیا مطلب ہے … ابن عقیل کہتے ہیں یہ حدیث ہم جزم سے کہتے ہیں جھوٹ ہے پھر راوی کی ثقاہت کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر متن میں ممکنات نہ ہوں  

افسوس ابن جوزی حنبلی کے ڈیڑھ سو سال  بعد  انے والے ایک امام ، امام ابن تیمیہ نے کتاب بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية  میں الله تعالی کو جوان اور گھنگھریالے بالوں والا جوان والی روایت پر لکھا کہ امام احمد کے نزدیک یہ صحیح ہیں

حدثني عبد الصمد بن يحيى الدهقان سمعت شاذان يقول أرسلت إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل أستأذنه في أن أحدث بحديث قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال رأيت ربي قال حدث به فقد حدث به العلماء قال الخلال أبنا الحسن بن ناصح قال حدثنا الأسود بن عامر شاذان ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى ربه جعدًا قططا أمرد في حلة حمراء والصواب حلة خضراء

شاذان کہتے ہیں میں نے بھیجا امام احمد کی طرف اور پوچھا کہ وہ اس حدیث پر کیا حکم کرتے ہیں جو قتادہ عن عکرمہ عن ابن عباس کی سند سے روایت کرتا ہے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا – امام احمد نے کھا اس کی روایت کرو کیونکہ اس کو علما نے روایت کیا ہے …. ابن عباس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا  گھونگھر والے بالوں والا, بغیر داڑھی مونچھ والا جوان جس پر سرخ یا سبز لباس تھا

اسی کتاب میں   رویہ الباری  تعالی پر ابن تیمیہ  کہتے ہیں

وأخبر أنه رآه في صورة شاب دونه ستر وقدميه في خضرة وأن هذه الرؤية هي المعارضة بالآية والمجاب عنها بما تقدم فيقتضي أنها رؤية عين كما في الحديث الصحيح المرفوع عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت ربي في صورة شاب أمرد له وفرة جعد قطط في روضة خضراء

اور رسول الله نے خبر دی  کہ انہوں نے الله کو ایک مرد کی صورت دیکھا درمیان پردہ تھا اور اس کے قدموں پر سبزہ تھا اور اس خواب  کی مخالفت آیات سے ہوتی ہے اور اس کا جواب دیا گیا ہے جو گزرا کہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے آنکھ سے دیکھا جیسا کہ صحیح مرفوع حدیث میں ہے عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس کی سند سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو ایک بغیر داڑھی مونچھ والا جوان مرد کی صورت ، بہت گھونگھر والے بالوں والا سبز باغ میں دیکھا  

دوسری طرف ابن تیمیہ کے ہم عصر الذھبی دمشق ہی میں اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء میں  شَاذَانُ أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ الشَّامِيُّ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدٍ الفَقِيْهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو الفَتْحِ المَنْدَائِيُّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا جَدِّي؛ أَبُو بَكْرٍ البَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ (الصِّفَاتِ) لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ المَالِيْنِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (رَأَيْتُ رَبِّي -يَعْنِي: فِي المَنَامِ- … ) وَذَكَرَ الحَدِيْثَ (2) .
وَهُوَ بِتَمَامِهِ فِي تَأْلِيفِ البَيْهَقِيِّ، وَهُوَ خَبَرٌ مُنْكَرٌ – نَسْأَلُ اللهَالسَّلاَمَةَ فِي الدِّيْنِ – فَلاَ هُوَ عَلَى شَرْطِ البُخَارِيِّ، وَلاَ مُسْلِمٍ، وَرُوَاتُهُ – وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُتَّهَمِيْنَ – فَمَا هُمْ بِمَعْصُوْمِيْنَ مِنَ الخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ، فَأَوَّلُ الخَبَرِ:
قَالَ: (رَأَيْتُ رَبِّي) ، وَمَا قَيَّدَ الرُّؤْيَةَ بِالنَّوْمِ، وَبَعْضُ مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- رَأَى رَبَّهُ لَيْلَةَ المِعْرَاجِ يَحْتَجُّ بِظَاهِرِ الحَدِيْثِ.حماد بن سلمہ روایت کرتا ہے قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا یعنی نیند میں اور حدیث ذکر کی اور یہ مکمل بیہقی کی تالیف میں ہے جو  خبر منکر ہے ہم الله سے اس پر سلامتی کا سوال کرتے ہیں دین میں نہ یہ بخاری کی شرط پر ہے نہ مسلم کی شرط پر اور اگر اس کے راوی غیر متہم ہوں تو بھی وہ نسیان خطا سے پاک نہیں اور پہلی خبر میں نے رب کو دیکھا جس میں نیند کی قید ہے اور بعض روایات میں ہے نبی نے کہا میں نے معراج پر رب کو دیکھا اس میں ظاہر حدیث سے اجتجاج کیا گیا ہے

الذھبی اسی کتاب میں امام لیث بن سعد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: مَا أَدْركنَا أَحَداً يُفَسِّرُ هَذِهِ الأَحَادِيْثَ، وَنَحْنُ لاَ نُفَسِّرُهَا.

قُلْتُ: قَدْ صَنَّفَ أَبُو عُبَيْدٍ (1) كِتَابَ (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ) ، وَمَا تَعرَّضَ لأَخْبَارِ الصِّفَاتِ الإِلَهِيَّةِ بِتَأْوِيلٍ أَبَداً، وَلاَ فَسَّرَ مِنْهَا شَيْئاً.

اور ابو عبید نے کہا  ہمیں کوئی نہیں ملا جو ان (صفات والی) احادیث کی تفسیر کرے اور ہم بھی نہیں کریں گے

میں الذھبی کہتا ہوں اس پر ابو عبید نے کتاب (غَرِيْبِ الحَدِيْثِ)  تصنیف کی ہے انہوں نے اس میں صفات الہیہ کی کبھی بھی تاویل نہیں کی نہ ان  میں کسی چیز کی تفسیر کی

اسی کتاب میں الذھبی محدث ابن خزیمہ کے لئے لکھتے ہیں

وَكِتَابُه فِي (التَّوحيدِ) مُجَلَّدٌ كَبِيْرٌ، وَقَدْ تَأَوَّلَ فِي ذَلِكَ حَدِيْثَ الصُّورَةِ

فَلْيَعْذُر مَنْ تَأَوَّلَ بَعْضَ الصِّفَاتِ، وَأَمَّا السَّلَفُ، فَمَا خَاضُوا فِي التَّأْوِيْلِ، بَلْ آمَنُوا وَكَفُّوا، وَفَوَّضُوا عِلمَ ذَلِكَ إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِه

اور ان کی کتاب توحید ہے مجلد کبیر اور اس میں حدیث صورت کی تاویل ہے پس ان کو معاف کریں صفات کی تاویل کرنے پر اور جہاں تک سلف ہیں تو وہ تاویل میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ ان پر ایمان لائے اور رکے اور علم کو الله اور اس کے رسول سے منسوب کیا

الذھبی نے اس قسم کے اقوال کو بالکل قبول کرنے سے انکار کیا کہ سلف صفات الہیہ پر ایسا نہیں کہہ سکتے لیکن ابن تیمیہ نے بھر پور انداز میں جھمیہ پر کتاب میں ان تمام اقوال کو قبول کیا

کتاب سیر الاعلام النبلا میں ابن عقیل کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں

قُلْتُ: قَدْ صَارَ الظَّاهِرُ اليَوْم ظَاهِرَيْنِ: أَحَدُهُمَا حقّ، وَالثَّانِي بَاطِل، فَالحَقّ أَنْ يَقُوْلَ: إِنَّهُ سمِيْع بَصِيْر، مُرِيْدٌ متكلّم، حَيٌّ عَلِيْم، كُلّ شَيْء هَالك إِلاَّ وَجهَهُ، خلق آدَمَ بِيَدِهِ، وَكلَّم مُوْسَى تَكليماً، وَاتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلاً، وَأَمثَال ذَلِكَ، فَنُمِرُّه عَلَى مَا جَاءَ، وَنَفهَمُ مِنْهُ دلاَلَةَ الخِطَابِ كَمَا يَليق بِهِ تَعَالَى، وَلاَ نَقُوْلُ: لَهُ تَأْويلٌ يُخَالِفُ ذَلِكَ. وَالظَّاهِرُ الآخر وَهُوَ البَاطِل، وَالضَّلاَل: أَنْ تَعتَقِدَ قيَاس الغَائِب عَلَى الشَّاهد، وَتُمَثِّلَ البَارِئ بِخلقه، تَعَالَى الله عَنْ ذَلِكَ، بَلْ صفَاتُهُ كَذَاته، فَلاَ عِدْلَ لَهُ، وَلاَ ضِدَّ لَهُ، وَلاَ نَظيرَ لَهُ، وَلاَ مِثْل لَهُ، وَلاَ شبيهَ لَهُ، وَلَيْسَ كَمثله شَيْء، لاَ فِي ذَاته، وَلاَ فِي صفَاته، وَهَذَا أَمرٌ يَسْتَوِي فِيْهِ الفَقِيْهُ وَالعَامِيُّ – وَاللهُ أَعْلَمُ -.

میں کہتا ہوں: آج ہمارے ہاں ظاہر ہوئے ہیں  ایک وہ ہیں جو حق ہیں اور دوسرے وہ جو باطل ہیں پس جو حق پر ہیں وہ کہتے ہیں کہ الله سننے والا دیکھنے والا ہے اور کلام کرنے والا ہے زندہ جاننے والا ہے ہر چیز ہلاک ہو گی سوائے اس کے وجھہ کے اس نے آدم کو ہاتھ سے خلق کیا اور موسی سے کلام کیا اور ابراہیم کو دوست کیا اور اس طرح کی مثالیں پس ہم ان پر چلتے ہیں جو آئیں ہیں اور ان کا وہی مفھوم لیتے ہیں جو اللہ سے متعلق خطاب میں دلالت کرتا ہے

اور ظاہر ہوئے ہیں دوسرے جو باطل ہیں اور گمراہ ہیں جو اعتقاد رکھتے ہیں غائب کو شاہد پر قیاس کرتے ہیں اور الباری تعالی کو مخلوق سے تمثیل دیتے ہیں بلکہ اس کی صفات اسکی ذات ہیں پس اس کی ضد نہیں اس کی نظیر نہیں اس کے مثل نہیں اس کی شبیہ نہیں اس کے جیسی کوئی چیز نہیں نہ اس کی ذات جیسی نہ صفات جیسی اور یہ وہ امر ہے جو برابر ہے فقیہ اور عامی کے لئے والله اعلم

یہودیوں کی کتاب سلیمان کا گیت میں الفاظ ہیں

His head is purest gold; his locks are wavy and black as a raven.

اس کا سر خالص سونا ھے اور  بالوں کا گھونگھر لہر دار  ہے اور کالے ہیں کوے کی طرح 

Song  of Solomon

اس کتاب کو علماء یہود کتب مقدس کی سب سے اہم کتاب کہتے ہیں جو تصوف و سریت پر مبنی ہے اور عشق مجازی  کے طرز پر لکھی گئی  ہے

یاد رہے اس امت میں دجال ایک گھنگھریالے بالوں والا جوان ہو گا جو رب ہونے اور مومن ہونے کا دعوی کرے گا

اور کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ دجال کے نکلنے پر اس کی اتباع صرف یہودی ہی کریں گے بلکہ امام ابن عقیل حنبلی کتاب الفنون میں اپنے دور کے دجالوں کا ذکر کرتے ہیں  اور ان کے متبع مسلمانوں کا

ibn-aqeel-dajjal

لوگ چل دیے انہی المشبه کی طرح جنھیں وہم ہوا اور جنہوں نے اپنے دلوں میں یہ بات بٹھائی کہ ان کا رب ایک آدمی کی صورت ہے پس انہوں نے ( صفت) صورہ کا انکار نہ کیا اور ان (دجالوں) کے ہاتھوں ظاہر ہوئے وہ افعال الہی جن میں مردوں کا زندہ کرنا ہے اور بادل کو اٹھانا ہے اور اسی طرح کے فتنے پس یہاں تک کہ کوئی نہ تھا جو ان کا انکار کرتا
ان میں سے ایک (ان دجالوں کی اتباع کرنے والے) نے کہا اور وہ جو اسکے دل میں تھا اس کو چھپایا اور پٹنے سے گھبرا کر بولا کہ وہ (اصل الدجال اکبر تو) کانا ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تمہارا رب کانا نہیں ہے

اس سے حنبلی (ابن عقیل) نے کہا: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شیخ (اس دجال کا ساتھی) اگر دجال (اکبر) کو صحیح آنکھوں سے پائے تو اس کے پاس جائے گا اور اسکی عبادت کرے گا کہ اس کی صورت کامل ہے – پس تیرے دل میں جو تھا وہ نکل آیا ہے تو عبادت سے نہیں رکے گا الا یہ کہ وہ کانا ہو-اور الله سبحانہ و تعالی نے مسیح اور انکی ماں کی الوہیت کا انکار کیا یہ کہہ کر کہ وہ کھانا کھاتے تھے- اور اگر یہی تیری معذرت ہے تو تیرے لئے واجب ہے کہ عیسیٰ کی عبادت کر کیونکہ وہ مردے کو زندہ کرتا تھا اور کانآ نہیں تھا

ابن عقیل کے شاگرد ابن الجوزی نے کتاب دفع شبه التشبيه لکھی اور اس کے مقدمہ میں اعتراف کیا کہ حنابلہ نے گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے کف افسوس ملتے ہوئے مقدمہ میں لکھتے ہیں

ibn-jozi-afsos

میں نے اپنے اصحاب (حنابلہ) کو دیکھا جو اصول میں ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو صحیح نہیں ہیں

أور إس میں تین تصانیف ہیں ابو عبد الله بن حامد کی اور ان کے صاحب قاضی ابو یعلی کی اور ابن الزغوانی کی پس انہوں نے ان کو اپنے مذھب کے مطابق تصنیف کیا اور میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مرتبے سے گر کر عوام کی سطح پر آ گئے اور انہوں نے صفات باری تعالی کو اس محسوسات تک کا متقاضی کر دیا پس انہوں نے الله تعالی کو نام دیا کہ اس نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر خلق کیا پس الله کے لئے صورت کا اثبات کیا

اور (ہمارے مخالفین نے کہا کہ الله) كا چہره ذات بر اضافہ ہے اور دو انکھیں ہیں اور منہ … اور اس کے چہرہ کا نور کرنیں ہیں اور اس کے دو ہاتھ ہیں اور انگلیاں اور ہتھیلی اور چھنگلیا اور انگوٹھے اور سینہ اور ران اور پنڈلی اور دو پیر ہیں اور کہا انہوں نے کہ ہم نے اس کے سر کا نہیں سنا اور کہا یہ جائز ہے کہ اس کو چھوا جائے أور وه بذات اپنے بندے کے پاس آئے اور ان میں سے بعض نے کہا وہ سانس لے پھر عوام ان کے اس اس قول سے راضی ہوئی نہ کہ عقل سے

اور انہوں نے اسماء و الصفات کو اس کے ظاہر پر لیا پس ان کو صفات کا نام دیا بدعتوں کی طرح ان کے پاس کوئی عقلی و نقل سے پہنچی دلیل نہیں تھی نہ انہوں نے نصوص کی طرف التفات کیا جن کا معانی الله کے لئے واجب ہے

.
.
.
.
أور يه كلام صريح ألتشبيه كا ہے جس میں خلق نے انکی اتباع کی … جبکہ تہمارے سب سے بڑے امام احمد بن حنبل الله رحم کرے کہا کرتے تم کیسے کہہ دیتے ہو جو میں نے نہیں کہا پس خبردار ایسا کوئی مذھب نہ ایجاد کرو جو ان سے نہ ہو

اب اگلی صدیوں میں ابن تیمیہ ، امام ابن الجوزی کے کہے  کو میٹ دیں گے اور الله  کی صفات میں اس قدر الحاد کریں کریں گے کہ اس کو رجل امرد تک کہہ دیں گے

کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة  از  ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کے مطابق

وَقَدْ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَد اَلْعتْبِي، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عبد الرحمن بْنِ اَلْقَاسِمِ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَصِفَ اَللَّهَ إِلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَا يُشَبِّهُ يَدَيْهِ بِشَيْءٍ، وَلَا وَجْهَهُ بِشَيْءٍ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَهُ يَدَانِ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ فِي اَلْقُرْآنِ، وَلَهُ وَجْهٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، يَقِفُ عِنْدَمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي اَلْكِتَابِ، فَإِنَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا مِثْلَ لَهُ وَلَا شَبِيهَ وَلَكِنْ هُوَ اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، وَيَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ كَمَا وَصَفَهَا: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِكَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ قَالَ: وَكَانَ مَالِكٌ يُعَظِّمُ أَنْ يُحَدِّثَ أَحَدٌ بِهَذِهِ اَلْأَحَادِيثِ اَلَّتِي فِيهَا: أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَضَعَّفَهَا.
عبد الرحمن بن القاسم رحمہ اللہ (191 ھ) فرماتے ہیں کہ “کسی کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو صفات قرآن میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ کسی صفت سے اللہ کو متصف کرے،اللہ کے ہاتھ سے کسی کے ہاتھ کی مشابہت نہیں ہے،اور نا ہی اللہ کا چہرہ کسی سے مشابہت رکھتا ہے ،بلکہ کہا ہے :اس کے ہاتھ جیسا اس نے قرآن میں وصف کیا ہے اور اس کا چہرہ جیسا اس نے اپنے آپ کو وصف کیا ہے — کیونکہ اللہ کا ہاتھ اور اللہ کا چہرہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے،نہ تو کوئی اللہ کا مثل ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی شبیہ ہے بلکہ وہ الله ہے جس کے سوا کوئی اله نہیں ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے اور الله کے ہاتھ کھلے ہیں جیسا کہ اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے …. اور امام مالک اس کو بہت بڑی بات جانتے تھے کہ جب کوئی وہ حدیثیں بیان کرتا جن میں ہے کہ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ  اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا اور اس کی تضعیف کرتے

الغرض امام مالک   مطلقا اس خلق آدم علی صورتہ کو  قبول نہیں کرتے تھے اور وہ اس کو سنتے ہی رد کرتے تھے – امام احمد، امام اسحٰق ، امام بخاری امام مسلم  اس کو صحیح سمجھتے تھے- بعض گمراہ لوگ اس سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا استخراج کرتے اور شوافع اس کو کذب کہتے اور حنابلہ اس سے ساتھ ایک دوسری روایت سے الله تعالی کے لئے ایک مرد کی صورت ہونے کا عقیدہ رکھتے  –   آٹھویں صدی تک جا کراہل سنت میں (مثلا الذھبی)  خلق آدم علی صورتہ  والی روایت کی تاویل سے منع کر دیا گیا اور الله کے لئے کسی بھی تجسیم کا عقیدہ غلط قرار دیا جانے لگا

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے

الأسماء و الصفات

جادو برج فرشتے اور محدثین ٢

قرآن میں سوره البقرہ میں ہے  کہ بابل میں یہود سحر کا علم حاصل کرتے تھے جو ان کی آزمائش تھا آیات ہیں

واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون

اور  (یہود) لگے اس  (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان  نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر!  لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو-  اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں،  آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا

سحر کا علم ان کو فرشتوں هاروت وماروت  سے ملا  تھا لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ فتنہ ہے لیکن اپنی سابقہ حرکتوں کو توجیہ دینے کے لئے انہوں نے تمام علوم کا مخزن چاہے ( شرک و سحر ہی کیوں نہ ہو ) سانپ کو  قراردیا – یہود کے مطابق یہ سب اس شجر علم میں چھپا تھا جو جنت عدن کے بیچوں بیچ تھا –  واضح رہے کہ موجودہ  توریت کی  کتاب پیدائش میں سانپ سے مراد شیطان نہیں ہے بلکہ انسانوں کا ہمدرد ایک مخلوق ہے جو چھپ کر انسان کو علم دیتا ہے جبکہ الله تعالی کا ارادہ انسان کو کم علم رکھنے کا تھا – یہ سب کیوں لکھا گیا اس پر آپ تفصیل

https://www.islamic-belief.net/muslim-belief/satan/ابراہیمی-ادیان-میں-شیطان-کا-تصور/

میں پڑھ سکتے ہیں

سحر کا علم دنیا میں ہاروت و ماروت سے پہلے مصریوں کے پاس بھی تھا جس کا ذکر موسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن میں موجود ہے کہ جادو گرووں نے موسی علیہ السلام اور حاضرین  کا تخیل تبدیل کر دیا اور ایک عظیم سحر کے ساتھ ائے جس میں لاٹھیاں اور رسیاں چلتی ہوئی محسوس ہوئیں

یہاں سوره البقرہ میں بتایا گیا کہ بابل میں یہود کا ذوق شادی شدہ عورتوں کو حاصل کرنے کی طرف ہوا جس میں ان کو طلاق دلانے کے لئے سحر و جادو کیا جاتا – اگر سحر صرف نظر بندی ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا لہذا اس کو ایک شیطانی عمل  کہا جاتا ہے جس میں شریعت کی پابندی کو رد کیا جاتا ہے اور حسد انسان کو سحر کی طرف لے جاتا ہے

اس میں گرہ لگا کر پھونکا جاتا ہے سوره الفلق

تیسری صدی میں جب معتزلہ کا زور تھا انہوں نے مجوسیوں کی طرح الله کی طرف شر کو منسوب کرنے سے انکار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا حسن کی طرح قبیح و سحر و شر کی نسبت الله کی طرف درست ہے ؟ کیا الله خالق سحر و شر ہے ؟

علماء نے اس کا جواب دیا کہ قرآن سے ثابت ہے کہ الله ہی شیطان کا خالق ہے اور تمام گناہ اس نے لکھ دیے ہیں لہذا وہی شر کا خالق ہے – کسی بھی علم کا اثر انگیز ہونا بھی اسی حکم کے تحت ہے لہذا اگرچہ سحر شرک و ناپسندیدہ ہے اس کی تاثیر من جانب الله ہے

 ہاروت و ماروت الله کے دو فرشتے تھے جو سحر کا علم لے کر بابل میں اترے اور یہود کی آزمائش بنے- اگر ہاروت و ماروت نے جادو نہیں سکھایا تو وہ یہ کیوں کہتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں کفر مت کرو

دوسری صدی ہجری

سابقہ یمنی یہودی کعب الاحبار ایک قصہ سناتے

تفسیر عبد الرزاق  المتوفي ٢١١ هجري کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَال – نا الثَّوْرِيُّ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ سَالِمٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ كَعْبٍ , قَالَ: «ذَكَرَتِ الْمَلَائِكَةُ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ , وَمَا يَأْتُونَ مِنَ الذُّنُوبِ» فَقِيلَ لَهُمْ: «اخْتَارُوا مَلَكَيْنِ , فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ» قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا: «إِنِّي أُرْسِلُ رُسُلِي إِلَى النَّاسِ , وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمَا رَسُولٌ , انْزِلَا وَلَا تُشْرِكَا بِي شَيْئًا , وَلَا تَزْنِيَا , وَلَا تَسْرِقَا» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ كَعْبٌ: «فَمَا اسْتَكْمَلَا يَوْمَهُمَا الَّذِي أُنْزِلَا فِيهِ حَتَّى عَمِلَا مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا»

کعب نے کہا : ذکر کیا فرشتوں کا ان کا جو نبی آدم پر نگہبان تھے اور جو ان کے گناہوں کے بارے میں ہے پس ان فرشتوں سے کہا گیا کہ چن لو فرشتوں کو انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا اور ہاروت و ماروت سے کہا میں اپنے سفیر بنی آدم کی طرف بھیج رہا ہوں اور میرے اور تمھارے درمیان کوئی اور نہیں ہو گا بنی آدم  پر نازل ہو اور شرک نہ کرنا نہ زنا اور نہ چوری – ابن عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ کعب نے کہا انہوں نے وہ کام نہ کیا جس پر نازل کیا گیا تھا یہاں تک کہ حرام کام کیا

اسنادی حیثیت سے قطع نظر ان روایات میں یہود کی کتاب

Book of Enoch

Book of Jubilees

کا قصہ نقل کیا گیا ہے ہبوط شدہ فرشتے

Fallen Angels

یا

Watchers

اپنے ہی ہبوط شدہ فرشتوں میں سے دو کو انسانوں کو سحر سکھانے بھیجتے ہیں

یہود کے مطابق انوخ اصلا ادریس علیہ السلام  کا نام ہے

ایک روایت قتادہ بصری سے منسوب ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ نا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: «كَتَبَتِ الشَّيَاطِينُ كُتُبًا فِيهَا كُفْرٌ وَشِرْكٌ , ثُمَّ دَفَنَتْ تِلْكَ الْكُتُبَ تَحْتَ كُرْسِيِّ سُلَيْمَانَ , فَلَمَّا مَاتَ سُلَيْمَانُ اسْتَخْرَجَ النَّاسُ تِلْكَ الْكُتُبَ» فَقَالُوا: هَذَا عِلْمٌ كَتَمَنَاهُ سُلَيْمَانُ فَقَالَ اللَّهُ: {وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102]

شیاطین نے کتابیں لکھیں جس میں کفر و شرک تھا پھر ان کو سلیمان  کے تخت کے نیچے چھپا دیا پھر جب سلیمان کی وفات  ہوئی تو لوگوں نے ان کو نکالا اور کہا یہ وہ علم ہے جو سلیمان نے ہم سے چھپایا پس الله نے کہا{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة:

تذكرة الحفاظ از الذھبی کے مطابق مفسر مجاہد نے تحقیق کی

ذكر محمد بن حميد أخبرنا عبد الله بن عبد القدوس عن الأعمش قال: كان مجاهد لا يسمع بأعجوبة إلا ذهب لينظر إليها. ذهب الى حضرموت ليرى بئر برهوت وذهب الى بابل وعليه وال فقال له مجاهد: تعرض على هاروت وماروت فدعا رجلا من السحرة فقال: اذهب به فقال اليهودي بشرط ألا تدعو الله عندهما قال فذهب به الى قلعة فقطع منها حجرا ثم قال خذ برجلى فهوى به حتى انتهى الى جوبة فإذا هما معلقين منكسين كالجبلين فلما رأيتهما قلت سبحان الله خالقكما فاضطربا فكأن الجبال تدكدكت فغشي على وعلى اليهودي ثم أفاق قبلى فقال قد أهلكت نفسك وأهلكتنى.

الأعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں سنتے یہاں تک کہ اس کو دیکھتے وہ حضر الموت گئے تاکہ برهوت کا کنواں دیکھیں اور بابل گئےوہاں افسر تھا اس سے کہا مجھ پر ہاروت و ماروت کو پیش کرو پس  جادو گروں کو بلایا گیا ان سے کہا کہ وہاں تک لے چلو ایک یہودی نے کہا اس شرط پر کہ وہاں ہاروت و ماروت کے سامنے اللہ کو نہیں پکارو گے  – پس وہ وہاں گئے قلعہ تک اس کا پتھر نکالا گیا پھر یہودی نے پیر سے پکڑا اور لے گیا جہاں دو پہاڑوں کی طرح ہاروت و ماروت معلق تھے پس ان کو دیکھا  (تو بے ساختہ مجاہد بولے) سبحان الله جس نے ان کو خلق کیا – اس پر  وہ (فرشتے) ہل گئے اور مجاہد  اور یہودی غش کھا گئے پھرجب  افاقہ ہوا تو یہودی بولا:  تم نے تو اپنے آپ کو اور مجھے مروا ہی دیا تھا

تیسری صدی ہجری

امام احمد اس قصے  کو منکر کہتے تھے – الكتاب: أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از آبو حذيفة، نبيل بن منصور بن يعقوب بن سلطان البصارة الكويتي

وقال أحمد بن حنبل: هذا منكر، إنما يروى عن كعب” المنتخب لابن قدامة ص 296 ہ

امام احمد نے کہا یہ منکر ہے اس کو کعب نے روایت کیا ہے

چوتھی صدی ہجری

تفسیر ابن ابی حاتم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ- يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَيُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ مُجَاهِدٍ. قَالَ: كُنْتُ نَازِلا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَالَ لِغُلامِهِ. انْظُرْ طَلَعَتِ الْحَمْرَاءُ لَا مَرْحَبًا بِهَا وَلا أَهْلا وَلا حَيَّاهَا اللَّهُ هِيَ صَاحِبَةُ الْمَلَكَيْنِ- قَالَتِ الْمَلائِكَةُ: رَبِّ كَيْفَ تَدَعُ عُصَاةَ بَنِي آدَمَ وَهُمْ يَسْفِكُونَ الدَّمَ الْحَرَامَ، وَيَنْتَهِكُونَ مَحَارِمَكَ، وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ؟  قَالَ: إِنِّي قَدِ ابْتَلَيْتُهُمْ فَلَعَلِّي إِنِ ابْتَلَيْتُكُمُ بِمِثْلِ الَّذِي ابْتَلَيْتُهُمْ بِهِ فَعَلْتُمْ كَالذي يَفْعَلُونَ قَالُوا: لَا. قَالَ: فَاخْتَارُوا مِنْ خِيَارِكُمُ اثْنَيْنِ، فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ فَقَالَ لَهُمَا إِنِّي مُهْبِطُكُمَا إِلَى الأَرْضِ وَعَاهِدٌ إِلَيْكُمَا أَنْ لَا تُشْرِكَا وَلا تَزْنِيَا، وَلا تَخُونَا. فَأُهْبِطَا إِلَى الأَرْضِ، وَأَلْقَى عَلَيْهِمَا الشَّبَقَ وَأُهْبِطَتْ لَهُمَا الزُّهْرَةُ فِي أَحْسَنِ صُورَةِ امْرَأَةٍ فَتَعَرَّضَتْ

مجاہد کہتے ہیں ہم سفر  میں آبن عمر رضی الله عنہ کے ساتھ تھے  پس جب رات ہوئی انہوں نے لڑکے سے کہا دیکھو الْحَمْرَاءُ کا طلوع ہوا اس میں خوش آمدید نہیں ہے نہ اس کے اہل کے لئے … یہ ان فرشتوں کی ساتھی ہے – فرشتوں نے کہا اے رب ہم انسانوں کے گناہوں کو کیسے دور کریں وہ خون بہا رہے ہیں اور زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں؟ کہا : بے شک میں ان کی آزمائش کروں گا جس طرح میں نے تم کو آزمائش میں ڈالا اور دیکھوں گا کیسا عمل کرتے ہیں ؟ … پس اپنے فرشتوں میں سے چنوں دو کو – انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا ان سے کہا زمین پر ہبوط کرو اور تم پر عہد ہے نہ شرک کرنا نہ زنا اور نہ خیانت پس وہ زمین پر اترے اور ان پر شہوانیت القی کی گئی اور الزہرا کو بھی اترا یا ایک حسین عورت کی شکل میں اور ان کا دیکھنا ہوا

سياره الزهراء يا

Venus

کو الْحَمْرَاءُ کہا گیا ہے یعنی سرخی مائل اور اس کو ایک عورت کہا گیا ہے جو مجسم ہوئی اور فرشتوں ہاروت و ماروت کی آزمائش بنی  خبر دی گئی کہ فرشتے انسانوں سے جلتے تھے اس تاک میں رہتے کہ الله تعالی کے سامنے ثابت کر سکیں کہ ہم نے جو پہلے کہا تھا کہ یہ انسان فسادی ہے اس کو صحیح ثابت کر سکیں – اس پر الله نے کہا کہ تم فرشتوں سے خود دو کو چنوں اور پھر وہ فرشتے کیا آزمائش بنتے وہ خود الزہرا پر عاشق ہو گئے

کتاب العلل از ابن ابی حاتم میں ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے اس روایت پر سوال کیا

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ معاذ بن خالد العَسْقلاني عَنْ زُهَير (1) بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَير (2) ، عَنْ نَافِعٍ، عن عبد الله بْنِ عُمَرَ؛ أنَّه سَمِعَ النبيَّ (ص) يقول: إِنَّ آدَمَ [لَمَّا] (3) أَهْبَطَهُ (4) اللهُ إلَى الأَرْضِ، قَالَتِ المَلاَئِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (5) ، قَالُوا: رَبَّنَا، نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ … وذكَرَ الحديثَ: قِصَّةَ (6) هاروتَ وماروتَ؟

قَالَ أَبِي: هذا حديثٌ مُنكَرٌ

میرے باپ نے کہا یہ منکر ہے

ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج 10، ص 3241-3242 پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں

قَوْلُهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
18355 – وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَرَادَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ فَأَعْطَى الْجَرَادَةَ خَاتَمَهُ وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ، وَكَانَتْ أَحَبَّ نِسَائِهِ إِلَيْهِ فَجَاءَ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهَا: هَاتِي خَاتَمِي فَأَعْطَتْهُ فَلَمَّا لَبِسَهُ دَانَتْ لَهُ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَالشَّيَاطِينُ، فَلَمَّا خَرَجَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْخَلَاءِ قال لها: هَاتِي خَاتَمِي فَقَالَتْ: قَدْ أَعْطَيْتُهُ سُلَيْمَانَ قَالَ: أَنَا سُلَيْمَانُ قَالَتْ: كَذَبْتَ لَسْتَ سُلَيْمَانَ فَجَعَلَ لَا يَأْتِي أَحَدًا يَقُولُ: أَنَا سُلَيْمَانُ إِلا كَذَّبَهُ حَتَّى جَعَلَ الصِّبْيَانُ يَرْمُونَهُ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَامَ الشَّيْطَانُ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ.
فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدَّ عَلَى سليمان عليه السلام سلطانه ألْقَى فِي قُلُوبِ النَّاسِ إِنْكَارَ ذَلِكَ الشَّيْطَانِ فَأَرْسَلُوا إِلَى نِسَاءِ «1» سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَقَالُوا لهن أيكون من سليمان شيء؟ قلنا: نَعَمْ إِنَّهُ يَأْتِينَا وَنَحْنُ حُيَّضٌ، وَمَا كَانَ يَأْتِينَا قَبْلَ ذَلِكَ

قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام بیت الخلاء میں جاتے، اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے، جو کہ ان کی بیوی تھی، اور سب سے عزیز تھی۔ شیطان حضرت سلیمان کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے میری انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی، تو سب جن و انس و شیطان اس کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نکلے، تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیمان کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیمان ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم سلیمان نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیمان ہوں، اور ان کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا- جب اللہ نے اس بات کا ارادہ کیا کہ حضرت سلیمان کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیمان میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب وہ ہمارے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔

یہاں اس پر قوی سند لکھا ہوا ہے راقم کہتا ہے

تفسیر ابن حاتم ٩٠٠ صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355 ہے جس پر وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں تصرف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟

اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضًا ما قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن حسين، قال: حدثنا محمد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة وعلي بن محمد، قال: حدثنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الأعمش، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله – تعال ى-: {وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ}، قال: أراد سليمان -عليه الصلاة والسلام- أن يدخل الخلاء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها

اس کی سند میں المنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے

چوتھی صدی کے ہی  ابن حبان اس روایت کو صحیح ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ  میں نقل کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكير عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  (إِنَّ آدَمَ ـ لَمَّا أُهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ ـ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مِنْ يُفسد فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ونُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: 30] قَالُوا: رَبَّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلَانِ قَالُوا: رَبَّنَا هَارُوتُ وَمَارُوتُ قَالَ: فَاهْبِطَا إِلَى الْأَرْضِ قَالَ: فَمُثِّلَتْ لَهُمُ الزُّهْرةُ امْرَأَةً مِنْ أَحْسَنِ الْبَشَرِ فَجَاءَاهَا فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تكَلِّما بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ مِنَ الْإِشْرَاكِ قَالَا: وَاللَّهِ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ أَبَدًا فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بصبيٍّ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيَّ فَقَالَا: لَا وَاللَّهِ لَا نَقْتُلُهُ أَبَدًا فَذَهَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحٍ مِنْ خَمْرٍ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْرَ فَشَرِبَا فَسَكِرَا فَوَقَعَا عَلَيْهَا وَقَتَلَا الصَّبِيَّ فَلَمَّا أَفَاقَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ: وَاللَّهِ مَا تركتُما مِنْ شَيْءٍ أَثِيمًا إِلَّا فَعَلْتُمَاهُ حِينَ سَكِرْتُما فخُيِّرا ـ عِنْدَ ذَلِكَ ـ بَيْنَ عَذَابِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الآخرة فاختارا عذاب الدنيا)

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: الزُّهرة ـ هَذِهِ ـ: امْرَأَةٌ كَانَتْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ، لَا أَنَّهَا الزُّهرة الَّتِي هِيَ فِي السَّمَاءِ، الَّتِي هِيَ مِنَ الخُنَّسِ.

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا فرمایا: جب آدم کا زمین کی طرف ہبوط ہوا فرشتوں نے کہا اے رب کیا اس کو خلیفہ کیا ہے کہ اس میں فساد کرے اور خون بہائے اور ہم آپ کی تعریف کرتے ہیں اور تقدس کرتے ہیں ؟ فرمایا : میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے – فرشتوں نے کہا  ہمارے رب ہم انسانوں سے بڑھ کر آپ کے اطاعت گزار ہیں الله تعالی نے فرشتوں سے کہا : فرشتوں کو لو پس دیکھیں یہ کیا عمل کرتے ہیں- فرشتوں نے کہا : آے رب ہاروت و ماروت ہیں- حکم الہی ہوا : زمین کی طرف ہبوط کرو – وہاں الزہرا انسانوں میں سے ایک حسن عورت ان کو ورغلائے گی پس وہ ان فرشتوں کے پاس گئی اور نفس کے  بارے میں سوال کیا (یعنی زنا کی ہاروت و ماروت نے ترغیب دی) اور بولی : نہیں الله کی قسم میں نہیں کروں گی یہاں تک کہ تم شرکیہ کلمات ادا کرو – ہاروت و ماروت نے کہا و الله ہم یہ کلمات نہیں بولیں گے پس وہ لوٹ گئی ایک لڑکے کے ساتھ اور واپس انہوں نے  نفس کا سوال کیا  وہ بولی میں اس لڑکے کو مار ڈالوں گی فرشتوں نے کہا نہیں مارو وہ لوٹ گئی پھر آئی ایک قدح لے کر شراب کا اس پر سوال کیا فرشتوں نے کہا ہم نہیں پییں گے یہاں تک کہ وہ پی گئے پس وہ واقعہ ہوا (زنا) اور لڑکے کو قتل کیا – جب افاقہ ہوا عورت بولی الله کی قسم میں نے تم کو کہیں کا نہ چھوڑا گناہ میں کوئی چیز نہیں جو تم نہ کر بیٹھے ہو اور تم نے نہیں کیا جب تک شراب نہ پی لی  … تم نے دنیا و آخرت میں سے دنیا کا  عذاب چنا

ابو حاتم ابن حبان نے کہا الزہرہ یہ اس دور میں عورت تھی وہ وہ نہیں جو آسمان میں ہے جو الخنس ہے

ابن حبان نے اس روایت کو صحیح میں لکھا اس میں اختلاف صرف یہ کیا کہ الزہرہ کو ایک مسجم عورت کی بجائے ایک حقیقی عورت کہا

البدء والتاريخ  از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ)  قصة هاروت وماروت،  اختلفوا المسلمون [1] فيه اختلافا كثيرا

القدسی نے تاریخ میں لکھا کہ مسلمانوں کا اس پر اختلاف ہے

یعنی ابن ابی حاتم اس کو منکر کہتے ہیں اور ابن حبان صحیح

العلل دارقطنی از امام دارقطنی المتوفی ٣٨٥ ھ  میں ہے

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وسلم: أن آدم لما أهبطه الله إلى الأرض قالت الملائكة: أي رب: {أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء} ، قالوا: ربنا، نحن أطوع لك من بني آدم، قال الله للملائكة: هلموا ملكين … فذكر قصة هاروت وماروت.

فقال: اختلف فيه على نافع:

فرواه موسى بن جبير، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وَخَالَفَهُ مُوسَى بْنُ عقبة، فرواه عن نافع، عن ابن عمر، عن كعب الأحبار، من رواية الثوري، عن موسى بن عقبة.

وقال إبراهيم بن طهمان: عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه، عن كعب.

دارقطنی نے العلل میں اس کی اسناد نقل کیں لیکن رد نہیں کیا

پانچویں صدی ہجری

امام حاکم  المتوفی ٤٠٥ ھ مستدرک میں اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

آٹھویں صدی ہجری

الذھبی سیر میں لکھتے ہیں

قُلْتُ: وَلِمُجَاهِدٍ أَقْوَالٌ وَغَرَائِبُ فِي العِلْمِ وَالتَّفْسِيْرِ تُسْتَنْكَرُ، وَبَلَغَنَا: أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَابِلَ، وَطَلَبَ مِنْ مُتَوَلِّيْهَا أَنْ يُوْقِفَهُ عَلَى هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ.

میں کہتا ہوں : مجاہد کے اقوال اور علم و تفسیر میں غریب باتیں ہیں جن کا انکار کیا جاتا ہے اور ہم تک پہنچا ہے کہ یہ بابل گئے اور وہاں کے متولی سے کہا کہ ہاروت و ماروت سے ملاو

لیکن  الذھبی مستدرک حاکم کی تلخیص میں ہاروت و ماروت کے  اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، أَنْبَأَ إِسْحَاقُ، أَنْبَأَ حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ وَكَانَ ثِقَةً، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102] الْآيَةُ. قَالَ: ” إِنَّ النَّاسَ بَعْدَ آدَمَ وَقَعُوا فِي الشِّرْكِ اتَّخَذُوا هَذِهِ الْأَصْنَامَ، وَعَبَدُوا غَيْرَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَتِ الْمَلَائِكَةُ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ وَيَقُولُونَ: رَبَّنَا خَلَقْتَ عِبَادَكَ فَأَحْسَنْتَ خَلْقَهُمْ، وَرَزَقْتَهُمْ فَأَحْسَنْتَ رِزْقَهُمْ، فَعَصَوْكَ وَعَبَدُوا غَيْرَكَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُمْ فِي غَيْبٍ فَجَعَلُوا لَا يَعْذُرُونَهُمْ ” فَقَالَ: اخْتَارُوا مِنْكُمُ اثْنَيْنِ أُهْبِطُهُمَا إِلَى الْأَرْضِ، فَآمُرُهُمَا وَأَنْهَاهُمَا ” فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ – قَالَ: وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِيهِمَا – وَقَالَ فِيهِ: فَلَمَّا شَرِبَا الْخَمْرَ وَانْتَشَيَا وَقَعَا بِالْمَرْأَةِ وَقَتَلَا النَّفْسَ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَظَرُوا إِلَيْهِمَا وَمَا يَعْمَلَانِ فَفِي ذَلِكَ أُنْزِلَتْ {وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ، وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ} [الشورى: 5] الْآيَةُ. قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ الْمَلَائِكَةُ يَعْذُرُونَ أَهْلَ الْأَرْضِ وَيَدْعُونَ لَهُمْ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]  3655 – صحيح

نویں صدی ہجری

هیثمی  المتوفی ٨٠٧ ہجری کتاب مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: اسْمُ الْمَلَكَيْنِ اللَّذَيْنِ يَأْتِيَانِ فِي الْقَبْرِ مُنْكَرٌ وَنَكِيرٌ، وَكَانَ اسْمُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ – وَهُمَا فِي السَّمَاءِ – عَزَرًا وَعَزِيزًا ..  رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

اس کی اسناد حسن ہیں

ابن حجر المتوفي ٨٥٢ هجري  فتح الباری میں کہتے ہیں

قال الحافظ: وقصة هاروت وماروت جاءت بسند حسن من حديث ابن عمر في مسند أحمد

اور ہاروت و ماروت کا قصہ حسن سند سے مسند احمد میں ہے ابن عمر کی سند سے

دسویں صدی ہجری

التخريج الصغير والتحبير الكبير  ابن المِبْرَد الحنبلي (المتوفى: 909 هـ)

حديث: “هَارُوتَ وَمَارُوتَ” الإمام أحمد، وابن حبان، بسند صحيح.

ابن المِبْرَد  کے مطابق مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں اس کی سند صحیح ہے

الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)

قصة هاروت وماروت.  وفي مسند أحمد، وصحح ابن حبان من حديث ابن عمر بسند صحيح.

قلت: لها طرق عديدة استوعبتها في التفسير المسند، وفي تخريج أحاديث الشفاء، انتهى.

قصہ ہاروت و ماروت کا یہ مسند احمد صحیح ابن حبان میں ہے صحیح سند سے ابن عمر رضی الله عنہ کی

میں السيوطي کہتا ہوں اس کے بہت سے طرق مسند احمد کی تفسیر میں ہے اور احادیث کتاب الشفاء کی تخریج میں

کتاب  تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة  المؤلف: نور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (المتوفى: 963هـ)

” وَمن طَرِيقه (خطّ) من حَدِيث ابْن عمر، وَفِيه قصَّة لنافع مَعَ ابْن عمر وَلَا يَصح، فِيهِ الْفرج بن فضَالة، وسنيد ضعفه أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ (تعقبه) الْحَافِظ ابْن حجر فِي القَوْل المسدد فَقَالَ: أخرجه أَحْمد فِي مُسْنده وَابْن حبَان فِي صَحِيحه من وَجه آخر، وَله طرق كَثِيرَة جمعتها فِي جُزْء مُفْرد يكَاد الْوَاقِف عَلَيْهَا لكثرتها وَقُوَّة مخارج أَكْثَرهَا يقطع بِوُقُوع هَذِه الْقِصَّة، انْتهى قَالَ السُّيُوطِيّ: وجمعت أَنا طرقها فِي التَّفْسِير الْمسند وَفِي التَّفْسِير الْمَأْثُور فَجَاءَت نيفا وَعشْرين طَرِيقا مَا بَين مَرْفُوع وَمَوْقُوف، وَلِحَدِيث ابْن عمر بِخُصُوصِهِ طرق مُتعَدِّدَة.

اور جو طرق حدیث ابن عمر کا ہے اور اس میں نافع کا ابن عمر کے ساتھ کا قصہ ہے صحیح نہیں ہے اس میں فرج بن فضالہ ہے اور سنید ہے جس کی تضعیف کی ہے ابو داود نے اور نسائی نے اس کا تعقب کیا ہے ابن حجر نے کتاب القول لمسدد میں اور کہا ہے اس کی تخریج کی ہے احمد نے مسند میں ابن حبان نے صحیح میں  دوسرے طرق سے اور اس کے کثیر طرق ہیں جو سب مل کر ایک جز بن جاتے ہیں اور واقف جان جاتا ہے اس کثرت پر اور مخارج کی قوت پر … السُّيُوطِيّ نے کہا اور میں نے جمع کر دیا ہے اس کے طرق تفسیر میں اور … خاص کر ابن عمر کی حدیث کے تو بہت طرق ہیں

تذكرة الموضوعات میں محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ) لکھتے ہیں

قِصَّةُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ مَعَ الزَّهْرَةِ وَهُبُوطِهِ إِلَى الأَرْضِ امْرَأَةً حَسَنَةً حِينَ طَغَتِ الْمَلائِكَةُ وَشُرْبِهِمَا الْخَمْرَ وقتلهما النَّفس وزناهما» عَن ابْن عمر رَفعه وَفِيه مُوسَى ابْن جُبَير مُخْتَلف فِيهِ وَلَكِن قد توبع، وَلأبي نعيم عَن عَليّ قَالَ «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّهْرَةَ وَقَالَ إِنَّهَا فتنت الْملكَيْنِ» وَقيل الصَّحِيح وَقفه على كَعْب وَكَذَا قَالَ الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز قصتهما فِي الْفرج بن فضَالة: ضَعِيف قلت قَالَ ابْن حجر لَهَا طرق كَثِيرَة يقطع بوقوعها لقُوَّة مخارجها.

قصہ ہاروت و ماروت کا الزہرا کے ساتھ اور ان کا زمین پر ہبوط کرنا ایک حسین عورت کے ساتھ اور فرشتوں کا بغاوت کرنا اور شراب پینا اور قتل نفس کرنا اور زنا کرنا جو ابن عمر سے مروی ہے ان تک جاتا ہے اور اس میں موسی بن جبیر ہے مختلف فیہ ہے لیکن اس کی متابعت کی ہے ابو نعیم نے علی کی روایت سے کہ الله کی لعنت ہو الزہرا پر اور کہا اس نے فرشتوں کو آزمائش میں ڈالا اور کہا ہے صحیح ہے کعب پر موقوف ہے اور اسی طرح کہا ہے البیہقی نے اور فرج کےقصہ پر کہا ضعیف ہے میں کہتا ہوں ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے طرق بہت سے ہیں

ابن کثیر نے تفسیر میں لکھا

ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر، ج 7، ص 59-60 میں درج کیا ہے۔ سند کے بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ

إسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما قَوِيٌّ، وَلَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَلَقَّاهُ ابْنُ عباس رضي الله عنهما إِنْ صَحَّ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ طائفة لا يعتقدون نبوة سليمان عليه الصلاة والسلام فَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا كَانَ فِي هذا السِّيَاقِ مُنْكَرَاتٌ مِنْ أَشَدِّهَا ذِكْرُ النِّسَاءِ فَإِنَّ المشهور عن مجاهد وغير واحد من أئمة السلف أَنَّ ذَلِكَ الْجِنِّيَّ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَى نِسَاءِ سليمان بل عصمهن الله عز وجل منه تشريفا وتكريما لنبيه عليه السلام. وَقَدْ رُوِيَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ مُطَوَّلَةً عَنْ جَمَاعَةٍ من السلف رضي الله عنهم كَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَجَمَاعَةٍ آخَرِينَ وَكُلُّهَا مُتَلَقَّاةٌ مِنْ قَصَصِ أَهْلِ الْكِتَابِ، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.

اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حضرت سلیمان کی نبوت کا منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر ائمہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور شرف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ سلف میں ایک جماعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت، زید بن اسلم، اور بعد کی ایک جماعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے ملا

راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے یہ کام ابن عباس رضی الله عنہ کا نہیں کہ اہل کتاب سے روایت کریں بلکہ اس میں جرح منہال بن عمرو پر ہے

چودھویں صدی ہجری

کتاب التحرير والتنوير از محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) کے مطابق

وَلِأَهْلِ الْقِصَصِ هُنَا قِصَّةٌ خُرَافِيَّةٌ مِنْ مَوْضُوعَاتِ الْيَهُودِ فِي خُرَافَاتِهِمُ الْحَدِيثَةِ اعْتَادَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ ذِكْرَهَا مِنْهُمُ ابْنُ عَطِيَّةَ وَالْبَيْضَاوِيُّ وَأَشَارَ الْمُحَقِّقُونَ مِثْلُ الْبَيْضَاوِيِّ وَالْفَخْرِ وَابْنِ كَثِيرٍ وَالْقُرْطُبِيِّ وَابْنِ عَرَفَةَ إِلَى كَذِبِهَا وَأَنَّهَا مِنْ مَرْوِيَّاتِ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَقَدْ وَهِمَ فِيهَا بَعْضُ الْمُتَسَاهِلِينَ فِي الْحَدِيثِ فَنَسَبُوا رِوَايَتَهَا عَنِ النَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ عَنْ بَعْضِ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ وَاهِيَةٍ وَالْعَجَبُ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى كَيْفَ أَخْرَجَهَا مُسْنَدَةً لِلنَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَعَلَّهَا مَدْسُوسَةٌ عَلَى الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَوْ أَنَّهُ غَرَّهُ فِيهَا ظَاهِرُ حَالِ رُوَاتِهَا مَعَ أَنَّ فِيهِمْ مُوسَى بْنَ جُبَيْرٍ وَهُوَ مُتَكَلَّمٌ فِيهِ

اور اہل قصص کے لئے اس میں بہت سے یہودیوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں جس سے مفسرین دھوکہ کھا گئے ان میں ابن عطیہ اور بیضاوی ہیں اور محققین مثلا بیضاوی اور فخر الرازی اورابن کثیر اور قرطبی اور ابن عرفہ نے ان کے کذب کی طرف اشارہ کیا ہے  جو  بے شک کعب الاحبار کی مرویات ہیں اور اس میں وہم ہے بعض متساهلین کا حدیث کے لئے تو انہوں نے ان قصوں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے  یا بعض اصحاب رسول کی طرف واہیات اسناد کے ساتھ اور عجیب بات ہے کہ امام احمد بن حنبل الله رحم کرے نے ان کو کیسے مسند میں لکھا اور ہو سکتا ہے وہ بہک گئے ہوں اس کے ظاہر حال پر اس میں موسی بن جبیر ہے اور متکلم فیہ ہے

یہ بھی لکھتے ہیں

وَ (هَارُوتَ وَمَارُوتَ) بَدَلٌ مِنَ (الْمَلَكَيْنِ) وَهُمَا اسْمَانِ كَلْدَانِيَّانِ دَخَلَهُمَا تَغْيِيرُ التَّعْرِيفِ لِإِجْرَائِهِمَا عَلَى خِفَّةِ الْأَوْزَانِ الْعَرَبِيَّةِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَارُوتَ مُعَرَّبُ (هَارُوكَا) وَهُوَ اسْمُ الْقَمَرِ عِنْدَ الْكَلْدَانِيِّينَ وَأَنَّ مَارُوتَ مُعَرَّبُ (مَا رُودَاخَ) وَهُوَ اسْمُ الْمُشْتَرِي عِنْدَهُمْ وَكَانُوا يَعُدُّونَ الْكَوَاكِبَ السَّيَّارَةَ مِنَ الْمَعْبُودَاتِ الْمُقَدَّسَةِ الَّتِي هِيَ دُونَ الْآلِهَةِ لَا سِيَّمَا الْقَمَرِ فَإِنَّهُ أَشَدُّ الْكَوَاكِبِ تَأْثِيرًا عِنْدَهُمْ فِي هَذَا الْعَالَمِ وَهُوَ رَمْزُ الْأُنْثَى، وَكَذَلِكَ الْمُشْتَرِي فَهُوَ أَشْرَفُ الْكَوَاكِبِ السَّبْعَةِ عِنْدَهُمْ وَلَعَلَّهُ كَانَ رَمْزَ الذَّكَرِ عِنْدَهُمْ كَمَا كَانَ بَعْلٌ عِنْدَ الْكَنْعَانِيِّينَ الْفِنِيقِيِّينَ.

اور ہاروت و ماروت فرشتوں کا بدل ہیں اور یہ نام کلدانی کے ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے تبدیل کر کے عربیوزن پر اور ظاہر ہے ہاروت معرب ہے ہاروکا کا جو چاند کا نام ہے کلدانیوں کے نزدیک اور ماروت معرب ہے ماروداخ کا جو مشتری کا نام ہے ان کے ہاں – اور یہ کواکب کو مقدس معبودات میں شمار کرتے تھے  خاص طور پر چاند کو کیونکہ یہ کواکب میں سب سے بڑھ کر تاثیر رکھتا ہے ان کے نزدیک تمام عالم میں اور یہ رمز ہے مونث پر اور اسی طرح مشتری سات کواکب میں سب سے با عزت ہے جو اشارہ ہے مذکر پر ان کے نزدیک جیسا کہ بعل تھا فونشیوں  اور کنعآنیوں کے نزدیک

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں  شعيب الأرنؤوط   لکھتے ہیں

قلت: وقول الحافظ ابن حجر في “القول المسدد” 40-41 بأن: للحديث طرقاً كثيرة جمعتها في جزء مفرد يكاد الواقف عليه أن يقطع بوقوع هذه القصة لكثرة الطرق الواردة فيها وقوَّة مخارج أكثرها، خطأ مبين منه -رحمه الله- ردَّه عليه العلامة أحمد شاكر -رحمه الله- في تعليقه على “المسند” (6178) فقال: أمَّا هذا الذي جزم به الحافظ بصحة وقوع هذه القصة صحة قريبة من القطع لكثرة طرقها وقوة مخارج أكثرها، فلا، فإنها كلها طرق معلولة أو واهية إلى مخالفتها الواضحة للعقل، لا من جهة عصمة الملائكة القطعية فقط، بل من ناحية أن الكوكب الذي نراه صغيراً في عين الناظر قد يكون حجمه أضعاف حجم الكرة الأرضية بالآلاف المؤلفة من الأضعاف، فأنَّى يكون جسم المرأة الصغير إلى هذه الأجرام الفلكية الهائلة!

  شعيب الأرنؤوط نے ابن حجر کی تصحیح کو ایک غلطی قرار دیا اور احمد شاکر نے بھی ابن حجر کی رائے کو رد کیا

بابل کا مذھب

بابل میں مردوک

Marduk

 کی پوجا ہوتی تھی – بابلی زبان میں مردوک کو

Marutuk

ماروتک

بولا جاتا تھا

 Frymer-Kensky, Tikva (2005). Jones, Lindsay, ed. Marduk. Encyclopedia of religion 8 (2 ed.). New York. pp. 5702–5703. ISBN 0-02-865741-1.

https://en.wikipedia.org/wiki/Marduk

بعض مغربی محققین اس بات تک پہنچے ہیں کہ یہ بابلی دیوتا اصلا فرشتے تھے تصاویر میں بھی اس کو پروں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے

جادوگروں نے اس قصے میں  سیارہ الزہرا یعنی وینس ، چاند اور مشتری کا  اثر  تمثیلی انداز میں سکھایا  ہے کہ یہ چاند اور مشتری کا جادو الزہرا کی موجودگی میں بڑھ جاتا ہے – چاند کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس کی ٢٧ منزلیں  ہیں جن میں چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے اور عبرانی کے بھی ٢٧ حروف ہیں لہذا کلمات شرکیہ کو ان سے ملا کر اخذ کیا جاتا  تھا

In general, though not always, the zodiac is divided into 27 or 28 segments relative to fixed stars – one for each day of the lunar month, which is 27.3 days long

https://en.wikipedia.org/wiki/Lunar_mansion

بابل کی اسیری سے پہلے بنی اسرائیل جو عبرانی استمال کرتے تھے اس کو

Palaeo-Hebrew alphabet

کہا جاتا ہے جس میں ٢٢ حروف تھے جو ابجد حروف کہلاتے ہیں

یہود کے مطابق بابل کی اسیری میں کسی موقع پر ان  کی زبان تبدیل ہوئی جس میں اشوری اور بابلی زبان سے حروف لئے گئے

بائیس حروف کو ٢٧ میں بدلنے کے پیچھے کیا چاند کی ٢٧ منازل تھیں ؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب ہمارے اسلامی جادو یا سحر کی کتب میں ہے جس پر کسی اور بلاگ میں بحث ہو گی

اصف بن بر خیا کا راز

قرآن میں بعض واقعات کا ذکر ہے جن کی صحیح تعبیر کا علم نہیں دیا گیا مثلا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں جب سلیمان نے سوال کیا کہ کون ہے جو ملکہ سبا کا عرش یہاں یروشلم  میں  لے آئے تو

قال عفريت من الجن أنا آتيك به قبل أن تقوم من مقامك وإني عليه لقوي أمين 

قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك فلما رآه مستقرا عنده قال هذا من فضل ربي ليبلوني أأشكر أم أكفر ومن شكر فإنما يشكر لنفسه ومن كفر فإن ربي غني كري

 عفریت میں سے ایک نے کہا میں لاتا ہوں اس سے پہلے کہ یہ اجلاس برخاست ہو اس پر ایک شخص جس کو کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں اس کو پلک جھپکتے میں ہی لاتا ہوں اور یکایک عرش  اہل دربار کے سامنے تھا – سلیمان نے  اس پر الله کا شکر ادا کیا

مقصد یہ تھا کہ جنات کی قوت کو  انسانی علم سے کم تر کیا گیا کہ اگرچہ جنات میں قوت ہے لیکن انسانوں کی طرح  علم مکمل نہیں ہے انسان علم میں ان سے بڑھ کر ہیں- ان کے مقابلے پر سرکش جنات کا  علم  اصل میں سحر و کہانت ہے جس میں انسانوں میں سے بعض ان کی مدد حاصل کرتے ہیں اور یہ شیطانی علوم ہیں

سوره النمل كي اس آیت کی  مختلف فرقوں نے تاویلات کی ہیں

اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ، دونوں اپنی تفسیروں میں ایک شخصیت آصف بن برخیا کا ذکر کرتے ہیں

اہل تشیع کی آراء

سلیمان کے دربار کے اس شخص کے بارے میں جس کو کتاب کا علم دیا دیا تھا ، الکافی باب ١٦ کی روایت ہے کہ

محمد بن يحيى وغيره ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن محمد بن  الفضيل قال : أخبرني شريس الوابشي ، عن جابر ، عن أبي جعفر عليه السلام قال : إن اسم الله  الأعظم على ثلاثة وسبعين حرفا وإنما كان عند آصف منها حرف واحد فتكلم به فخسف  بالأرض ما بينه وبين سرير بلقيس حتى تناول السرير بيده ثم عادت الأرض كما  كانت أسرع من طرفة عين ونحن عندنا من الاسم الأعظم اثنان وسبعون حرفا ، وحرف  واحد عند الله تعالى استأثر به في علم الغيب عنده ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي  العظيم

شريس الوابشي نے جابر سے انہوں نے ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کیا کہ

الله کے اسم اعظم کے تہتر ٧٣ حروف ہیں. ان میں سے اصف نے صرف ایک حرف کو ادا کیا تھا کہ اسکے اور ملکہ بلقیس کے عرش کے  درمیان زمین کو دھنسا دیا گیا کہ اس نے تخت تک ہاتھ بڑھا لیا اور زمین واپس اپنی جگہ لوٹ آئی. یہ سب پلک جھپکتے میں ہوا.  ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتتر ٧٢ حروف ہیں . الله نے  بس علم  غیب میں  ہم سے ایک حرف  پوشیدہ رکھا ہے

کتاب بصائر الدرجات کی روایت ہے

وعن ابن بكير، عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: كنت عنده، فذكروا سليمان وما أعطي من العلم، وما أوتي من الملك.

 فقال لي: وما أعطي سليمان بن داود؟ إنما كان عنده حرف واحد من الاسم الأعظم، وصاحبكم الذي قال الله تعالى: قل: كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب. وكان ـ والله ـ عند علي [عليه السلام]، علم الكتاب.

 فقلت: صدقت والله جعلت فداك

ابن بکیر ابی عبد الله امام جعفر سے روایت کرتے ہیں  کہ میں ان کے پاس تھا پس سلیمان اور ان کو جو علم عطا ہوا اس کا ذکر ہوا اور جو فرشتہ لے کر آیا  پس  انہوں (امام جعفر) نے مجھ سے کہا اور سلیمان بن داود کو کیا ملا ؟ اس کے پاس تو الاسم الأعظم کا صرف ایک ہی حرف تھا اور ان کے صاحب جن کے لئے الله تعالی کہتا ہے : قل كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب الرعد: 43  اور وہ تو الله کی قسم ! علی علیہ السلام کے پاس ہے علم الکتاب

تفسير القمي ج1 ص368 کے مطابق

عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: الذي عنده علم الكتاب هو أمير المؤمنين

ابی عبد الله سے روایت ہے کہ  قال الذي عنده علم الكتاب  یہ امیر المومنین (علی) ہیں

کہتے ہیں سلیمان علیہ السلام کے دربار میں اس  شخص کا نام اصف بن برخیا تھا  یعنی علی کرم الله وجھہ  اس دور میں اصف بن برخیا   کی شکل میں تھے

اٹھارہ ذی الحجہ یعنی عید الغدیر کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کتاب  السرائر – ابن إدريس الحلي – ج 1 – ص 418 میں لکھتے ہیں

وفيه أشهد سليمان بن داود سائر رعيته على استخلاف آصف بن برخيا وصيه ، وهو يوم عظيم ، كثير البركات

اور اس روز سلیمان بن داود اور تمام عوام کو اصف بن برخیا  کی خلافت کی وصیت کی اور وہ دن بہت عظیم اور بڑی برکت والا ہے

کتاب الإمامة والتبصرة از ابن بابويه القمي  میں نے اصف کی خلافت کا ذکر کیا ہے

کتاب  الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 487 – 488 میں  اور كمال الدين وتمام النعمة از الشيخ الصدوق  ص ٢١٢ میں ہے

وأوصى داود ( عليه السلام ) إلى سليمان ( عليه السلام ) ، وأوصى سليمان ( عليه السلام ) إلى آصف بن برخيا ، وأوصى آصف بن برخيا إلى  زكريا ( عليه السلام 

 اور داود نے سلیمان علیہ السلام کی وصیت کی اور سلیمان نے اصف بن برخیا کی وصیت کی اور اصف بن برخیا نے زکریا علیہ السلام کی وصیت کی

کتاب تحف العقول – ابن شعبة الحراني – ص 476 – 478 کے مطابق  يحيى بن أكثم  نے علی بن محمد الباقر سے سوال کیا

قلت : كتب يسألني عن قول الله : ” قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك  ” نبي الله كان محتاجا إلى علم آصف  ؟

میں يحيى بن أكثم نے پوچھا :   (میرے نصیب میں ) لکھا ہے کہ میں سوال کروں گا اللہ کے قول قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك  پر  کہ   الله کا نبی کیا اصف کا محتاج تھا ؟

امام الباقر نے جواب دیا

سألت : عن قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب ” فهو آصف بن برخيا ولم يعجز سليمان عليه السلام عن معرفة ما عرف آصف لكنه صلوات الله عليه أحب أن يعرف أمته من الجن والإنس أنه الحجة من بعده ، وذلك من علم سليمان عليه السلام أودعه عند آصف بأمر الله ، ففهمه ذلك لئلا يختلف عليه في إمامته ودلالته كما فهم سليمان عليه السلام في حياة داود عليه السلام لتعرف نبوته وإمامته من بعده لتأكد الحجة على الخلق

تم نے سوال کیا کہ قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب پر تو وہ اصف بن برخیا ہیں اور سلیمان عاجز نہیں تھے اس معرفت میں جو اصف کو حاصل تھی لیکن آپ صلوات الله عليه نے اس کو پسند کیا کہ اپنی جن و انس کی امت پر اس کو حجت بنا دیں اس کے بعد اور یہ سلیمان کا علم تھا جو اصف کو ان سے عطا ہوا تھا-  اس کا فہم دینا  تھا کہ بعد میں امامت و دلالت پر کہیں (بنو اسرائیل) اختلاف نہ کریں جیسا ان سلیمان  کے لئے  داود کی  زندگی میں  (لوگوں کا ) فہم تھا کہ انکی نبوت و امامت کو مانتے تھے تاکہ خلق پر حجت کی تاکید ہو جائے

یعنی آصف اصل میں سلیمان علیہ السلام کے خلیفہ ہونے کو تھے تو ان کو ایک علم دیا گیا تاکہ عوام میں ان کی دھاک بٹھا دی جائے اور بعد میں کوئی اس پر اختلاف نہ کر سکے

کتاب مستدرك الوسائل – الميرزا النوري الطبرسی – ج 13 – ص 105 میں ہے کہ

 العياشي في تفسيره : عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : ” لما هلك سليمان ، وضع إبليس السحر ، ثم كتبه في كتاب وطواه وكتب على ظهره : هذا ما وضع آصف بن برخيا للملك سليمان بن داود ( عليهما السلام ) من ذخائر كنوز العلم ، من أراد كذا وكذا فليقل كذا وكذا ، ثم دفنه تحت السرير ، ثم استثاره لهم ، فقال الكافرون : ما كان يغلبنا سليمان الا بهذا ، وقال المؤمنون : هو عبد الله ونبيه ، فقال الله في كتابه : ( واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان )   اي : السحر

العياشي اپنی تفسیر میں کہتے ہیں عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) سے کہ امام ابی جعفر نے کہا جب سلیمان ہلاک ہوئے تو ابلیس نے سحر لیا اور ایک کتاب لکھی  ..(اور لوگوں کو ورغلایا). یہ وہ کتاب تھی جو اصف کو سلیمان سے حاصل ہوئی جو علم کا خزانہ ہے جو اس میں یہ اور یہ کہے اس کو یہ یہ ملے گا پھر اس سحر کی کتاب کو تخت کے نیچے دفن کر دیا پھر اس کو (دھوکہ دینے کے لئے واپس) نکالا اور کافروں نے  کہا ہم پر سلیمان غالب نہیں آ سکتا تھا  سوائے اس (جادو) کے (زور سے) اور ایمان والوں نے کہا وہ تو الله کے نبی تھے پس الله نے اپنی کتاب میں کہا اور لگے وہ (یہود)  اس علم کے پیچھے جو شیاطین ملک سلیمان کے بارے میں پڑھتے تھے یعنی جادو

یعنی شیعوں کے نزدیک اصف بن برخیا  اصل میں سلیمان علیہ السلام کے امام بنے اور وہ ایک خاص علم رکھتے تھے بعض کے نزدیک علی رضی الله عنہ ہی تھے اور اس دور  میں وہ اصف بن بر خیا کہلاتے تھے یہاں تک کہ اصف نے مریم علیہ السلام کے کفیل زکریا علیہ السلام کے وصی ہونے کی وصیت کی  گویا اصف کئی ہزار سال تک زندہ ہی تھے پتا نہیں  شیعوں کے نزدیک اب وفات ہو گئی یا نہیں

اہل سنت  کی آراء

تفسیر السمرقندي یا تفسير بحر العلوم أز أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373هـ) میں ہے

ويقال: إن آصف بن برخيا لما أراد أن يأتي بعرش بلقيس إلى سليمان- عليه السلام- دعا بقوله يا حي يا قيوم- ويقال: إن بني إسرائيل، سألوا موسى- عليه السلام- عن اسم الله الأعظم فقال لهم: قولوا اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-

اور کہا جاتا ہے جب اصف بن برخیا نے بلقیس کا عرش سلیمان کے پاس لانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا يا حي يا قيوم- اور کہا جاتا ہے نبی اسرئیل نے موسی سے اسم الأعظم کا سوال کیا تو ان سے موسی نے کہا کہو اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-

تفسیر القرطبی میں ہے

وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” إِنَّ اسْمَ اللَّهِ الْأَعْظَمَ الَّذِي دَعَا بِهِ آصَفُ بْنُ بَرْخِيَا يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ” قِيلَ: وَهُوَ بِلِسَانِهِمْ، أَهَيَا شَرَاهِيَا

اور عائشہ رضی الله عنہا  کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا وہ اسم اللَّهِ الْأَعْظَمَ جس سے اصف نے دعا کی وہ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ہے  ان کی زبان میں تھا َاهَيَا شَرَاهِيَا

اهَيَا شَرَاهِيَا کا ذکر شوکانی کی فتح القدیر اور تفسیر الرازی میں بھی ہے

اس سے قطع النظر کہ وہ الفاظ کیا تھے جو بولے گئے جو بات قابل غور ہے وہ اصف بن برخیا کا ذکر ہے جو اہل سنت کی کتب میں بھی ہے

صوفیاء نے اس آیت سے ولی کا تصور نکالا کہ ولی نبی سے بڑھ کر ہے اور محی الدین ابن العربی کی کتب میں اس قول کو بیان کیا گیا اور صوفیاء میں اس کو تلقہا بالقبول کا درجہ حاصل ہوا

پردہ اٹھتا ہے

اصف بن برخیا کا کردار اصلا یمنی یہودیوں کا پھیلایا ہوا ہے جو اغلبا عبد الله ابن سبا سے ہم کو ملا ہے اگرچہ اس بات کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اصل میں چکر کچھ اور ہی ہے

 اصف بن برخیا کا ذکر بائبل کی کتاب تواریخ  میں ہے

Asaph the son of Berechiah, son of Shimea

اس نام کا ایک شخص اصل میں غلام بنا جب اشوریوں نے مملکت اسرایل پر حملہ کیا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد نبی اسرائیل میں پھوٹ پڑی اور ان کی مملکت دو میں تقسیم ہو گئی ایک شمال میں تھی جس کو اسرئیل کہا جاتا تھا اور دوسری جنوب میں تھی جس میں یروشلم تھا اور اس کو یہودا کہا جاتا تھا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے کئی سو سال بعد ختم ہونے والی ان دو  ریاستوں میں بادشاہت رہی اور  کہیں بھی اتنی طویل مدت تک زندہ رہنے والے شخص کا ذکر ملتا

سلیمان علیہ السلام (وفات ١٠٢٢ ق م) کے بعد ان کے بیٹے رهوبم خلیفہ ہوئے اور اس کے بعد مملکت دو حصوں میں ٹوٹ گئی جس میں شمالی سلطنت کو ٧١٩  قبل مسیح میں اشوریوں نے تباہ کیا – یعنی مفسرین کے مطابق ٣٠٣ سال بعد جب اشوریوں نے غلام بنایا تو ان میں سلیمان کے درباری اصف بن برخیا بھی تھے جو ایک عجیب بات ہے

شمال میں اسرائیل  میں دان اور نفتالی کے یہودی  قبائل رہتے تھے جو اشوریوں کے حملے کےبعد یمن منتقل ہوئے اور بعض وسطی ایشیا میں آرمینیا وغیرہ میں  – دان اور نفتالی قبائل کا رشتہ اصف بن برخیا سے تھا کیونکہ وہ  مملکت اسرئیل کا تھا اور وہیں سے غلام بنا اور چونکہ یہ ایک اہم شخصیت ہو گا اسی وجہ سے اس کے غلام بننے کا خاص طور پر بائبل کی کتاب میں ذکر ہے-

ابن سبا بھی یمن کا ایک یہودی تھا جو شاید انہی قبائل سے ہو گا جن کا تعلق دان و نفتالی قبائل سے تھا- پر لطف بات ہے کہ ان میں سے ایک قبیلے  کا نشان ترازو  تھا اور عدل کو اہمیت دیتا تھا جو ان کے مطابق توحید کے بعد سب سے اہم رکن تھا – شمال میں امراء پر جھگڑا رہتا تھا اور ان پر قاضی حکومت کرتے تھے ایک مرکزی حکومت نہیں تھی یہاں تک کہ آج تک  ان کے شہر کو

Tel Dan

یا

Tel Qadi

کہا جاتا ہے

یعنی اس قبیلہ میں امراء کے خلاف زہر اگلنا اور عدل کو توحید کے بعد سب سے اہم سمجھنا پہلے سے موجود ہے اور ابن سبا نے انہی فطری اجزا کو جمع کیا اور اس پر مصر میں  اپنا سیاسی منشور مرتب کیا

اهَيَا شَرَاهِيَا بھی اصلا عبرانی الفاظ ہیں جو یمنی یہودیوں نے اصف سے منسوب کیے اور یہ توریت سے لئے گئے جس میں موسی علیہ السلام  اور الله تعالی کا مکالمہ درج ہے – توریت کا یہ حصہ یقینا موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد کا ہے کیونکہ اصلی توریت  میں احکام درج تھے  لہذا اهَيَا شَرَاهِيَا کو اصلا الحی القیوم کہنا راقم کے نزدیک ثابت نہیں ہے

اصف بن بر خیا اصل میں یہود کی جادو کی کتب کا راوی ہے اور اس سے منسوب ایک کتاب کتاب الاجنس ہے جس میں انبیاء پر جادو کی تہمت ہے اس قسم کے لوگ جن پر اشوری قہر الہی بن کر ٹوٹے ان کو مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کا درباری بنا کر ایک طرح سے  جادو کی کتاب  کے اس راوی کی ثقاہت قبول کر لی

 بائبل ہی میں یہ بھی ہے کہ اصف نام کا ایک شخص داود علیہ السلام کے دور میں  ہیکل میں موسیقی کا ماہر تھا  – کتاب سلاطین  میں پہلے ہیکل میں موسیقی کا کوئی ذکر نہیں جبکہ کتاب تواریخ میں اس کا ذکر ہے لہذا  اس پر اعتراض اٹھتا ہے کہ موسیقی کا عبادت میں دخل بعد میں کیا گیا ہے جو اغلبا عزیر اور نحمیاہ نے کیا ہو گا اور انہوں نے جگہ جگہ اصف کا حوالہ موسیقی کے حوالے سے شامل کیا

داود علیہ السلام اسلامی روایات کے مطابق موسیقی اور سازوں کی مدد سے عبادت نہیں کرتے تھے یہ یقینا اہل کتاب کا اپنے  دین میں اضافہ ہے اور اس میں انہوں نے اصف نام کا ایک شخص گھڑا جو موسیقار تھا اور  مسجد سلیمان ہر وقت موسیقی سے گونجتی رہنے کا انہوں نے دعوی کیا  اور اس کو سند دینے کے لئے اصف کو  پروہتوں کے قبیلہ لاوی سے بتایا پھر اس کی مدت  عمر کو اتنا طویل کہا کہ وہ داود و سلیمان سے ہوتا ہوا اشوریوں کا قیدی تک بنا

یہ سب داستان بائبل کی مختلف کتب میں ہے جس کو ملا کر آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے

اسلامی کتب میں الفہرست ابن ندیم میں بھی اس کا ذکر ہے یہاں بات کو بدل دیا ہے

وكان يكتب لسليمان بن داود آصف بن برخيا

اور اصف بن برخیا سلیمان کے لئے لکھتے تھے

یعنی اصف بن بر خیا ایک کاتب تھے نہ کہ موسیقار

اصف کو یہود ایک طبیب بھی کہتے ہیں اور اس سے منسوب ایک کتاب سفرریفوط  ہے جس میں بیماریوں کا ذکر ہے

زبور کی مندرجہ ذیل ابیات کو اصف کی ابیات کہا جاتا ہے

Asaph Psalm 50, 73, 74,75,76,77,78,79,80,81,82,83

گویا خود یہود کے اس پر اتنے اقوال ہیں کہ اس کی شخصیت خود ان پر واضح نہیں

ابراہیم بن ادھم

مسلمان متصوفین کی ایک اہم شخصیت ابراھیم بن ادھم ہیں – طبقات الصوفیہ میں ابراہیم بن ادھم المتوفی ١٦٥ ھ  کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے

إبراهيم بن أدهم، أبو إسحاق. من أهل بَلْخ كان من أبناء الملوك و المَياسير. خرج متصيِّداً، فهتف به هاتف، أيقظه من غَفْلَتِه. فترك طريقته، في التَّزَيُّن بالدنيا، و رَجَع إلى طريقة أهل الزُّهْد و الورع. و خرج إلى مكة، و صحب بها سفيان الثَّوري، و الفُضَيْل بن عِياض. و دخل الشام، فكان يعمل فيه، و يأكل من عمل يده

ابو اسحاق ابراہیم بن ادھم بلخی تھے شاہی خاندان سے تعلق تھا.  شکار کے لیے نکلے اور ایک آواز سنی، غفلت سے بیدار ہوۓ ، دنیا کی زینت کا راستہ چھوڑ دیا ، زہد و تقویٰ کی طرف مائل ہوۓ  اور مکہ کی طرف رخ کیا.  امام سفیان ثوری اور امام الفُضَيْل بن عِياض کے ساتھ رہے،  داخل شام  ہوۓ ، پس وہاں ہاتھ سے کام کیا  اور اپنے باتھ کا کھایا ۔

 ابراہیم بن ادھم  کے لئے ایک انگریز شاعر نے نظم کہی  جس کی ترجمانی اردو میں کی جاتی ہے

 

Abou Ben Adhem (may his tribe increase!)

Awoke one night from a deep dream of peace,

And saw, within the moonlight in his room,

Making it rich, and like a lily in bloom,

An angel writing in a book of gold:—

Exceeding peace had made Ben Adhem bold,

And to the Presence in the room he said

“What writest thou?”—The vision raised its head,

And with a look made of all sweet accord,

Answered “The names of those who love the Lord.”

“And is mine one?” said Abou. “Nay, not so,”

Replied the angel. Abou spoke more low,

But cheerly still, and said “I pray thee, then,

Write me as one that loves his fellow men.”

 

The angel wrote, and vanished. The next night

It came again with a great wakening light,

And showed the names whom love of God had blessed,

And lo! Ben Adhem’s name led all the rest.

 

James Henry Leigh Hunt

 

ابو بن ادھم (اس کا گروہ بڑھے)

اک روز گہرے خواب امن سے بیدار ہوا

اور چاندنی میں اپنے حجرہ میں دیکھا

جس نے اس کو بھرا ہوا تھا جیسے سوسن کھلا  ہو

اک فرشتہ سنہری کتاب میں لکھ رہا تھا

بڑھتے امن نے بن ادھم کی ہمت بندھائی

اور وہ گویا ہوئے

تم کیا لکھ رہے ہو؟  فرشتے نے سر اٹھایا اور نگاہ واحد میں معاملہ کر لیا

 

ان لوگوں کے نام جو خدا سے محبت کرتے ہیں

کیا میرا نام ہے اس میں؟ بن ادھم نے پوچھا

نہیں فرشتہ بولا

 

ابو بن ادھم نے دھیمی لیکن خوشی کی آواز میں کہا

میں تم سے گزارش کرتا ہوں مجھ کو بھی ان میں لکھ دو

جو اسکے بندوں سے محبت کرتے ہیں

 

فرشتہ نے لکھا اور غائب ہوا-

اگلی رات پھر ظاہر ہوا

 

اب وہ ایک بیدار کر دینے والی روشنی کے ساتھ آیا

اور ان کو وہ نام دکھائے جن کو محبوب ربانی کی سند ملی

 

اور خبردار! ابو بن ادھم کے بعد دوسروں کے نام تھے

 

جمیز ہینری لائح ہنٹ

جمیز ہینری لائح ہنٹ   انجہانی ١٨٥٩ ع  کو ابراھیم بن ادھم کی شخصیت میں ایسی کیا کشش نظر آئی کہ ان پر ایک نظم کہہ ڈالی؟  اس سوال کا جواب کافی عرصۂ تلاش کیا لیکن  کافی دن بعد ملا جب ایک کتاب  روحانی باغ پڑھی – یہ کتاب ان عیسائیوں کی ہے جو دور بنوی میں غاروں میں رہتے اور سخت مشقتیں کر رہے تھے – وہ اس معبود برحق کی تلاش میں تھے جس کو ان کے نزدیک کسی بھی وحی کے بغیر سمجھا جا سکتا  تھا – شام عراق مصر اردن کے پہاڑوں کے غاروں میں بیٹھے ان اہل کتاب صوفیا کا مقصد کشف تھا- وہ پردہ غیب میں جھانک کر حقیقت کو چھونا چاہتے تھے – اس کاوش کو قرآن ان کی ذاتی ایجاد کہتا ہے- الله تعالی سوره الحدید  ٢٧ میں کہتا ہے

 ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الإنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ

پھر اس کے بعد ہم نے  اپنے انبیاء  اور عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اس کو انجیل دی اور ان ماننے والوں کے دلوں میں رحم اور رقت ڈال دی اور رہبانیت کو انہوں نے شروع کیا تاکہ الله کی رضا حاصل کریں ،  ہم نے اس کا حکم نہ دیا تھا،   لیکن وہ اس کو کما حقہ ادا نہ کر سکے پس ہم نے ایمان والوں کو اجر دیا اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں

عیسائیوں کے کے ایک مشھور راہب یوحنا مسکوس (المتوفی ٤ ھ/  ٦١٩ع )   تھے جن کا ذکر نصرانی کتب میں ملتا ہے.  ان کی پیدائش ٥٥٠ ع کی ہے یعنی یہ دور بنوی کے ہیں . یوحنا مسکوس  ، صوفرونئوس (المتوفی ١٧ ھ/  ٦٣٨ ع) کے استاد تھے جو یروشلم کے   پیٹرآرک بنے اور  یہ صوفرونئوس ہی تھے جنہوں نے ١٦ ھ میں عمر رضی الله عنہ کو یروشلم کا فتح ہونے کے بعد دورہ کرایا تھا. صوفرونئوس اور انکے شیخ  یوحنا مسکوس نے  شام، مصراور عراق میں راہبوں کی حکایات جمع کی ہیں جن سے ان کے متصوفانہ طرز حیات کا پتا چلتا ہے

درج ذیل اقتباس کتاب  روحانی باغ

  Pratum Spirituale

سے لیا گیا ہے . یہ سب ایک کی کتاب کے نام ہیں یونانی اور لاطینی زبانوں میں لیکن

Spiritual Meadow

کے نام سے چھپی ہے

When we were in Alexandria we visit Abba Theodoulos who was at the church of Saint Sophia holy wisdom by the Lighthouse. He told us:  It was in the community of our saintly father Theodoulos which is  in the wilderness of the city of Christ our God that I renounced the World there I met a great elder named Christopher, a Roman by race. One day I prostrated myself before him and said of your  charity Abba tell how you have spent your life from youth up I persisted in my request and because he knew I was making it for the benefit of my soul. He told me saying When  I renounced the World child I was full of ardour for monastic way of life. By day I would carefully observe the rule of prayer and at night I would go to pray in the cave where the saintly Theodoulos and the other holy fathers are buried. As I went down into the cave I would make a hundred prostrations to God at each step: there were eighteen steps. Having gone down all the steps, I would stay there until they struck the wood at which time I would come back up for the regular office. After ten years spent in that way with fastings and continence and physical labour, one night I came as usual to go down into the cave. After I had performed my prostrations on each step, as I was about to set foot on the floor of the cave I felt into the trance. I saw the entire floor of the cave covered with  lamps, some of which were lit and some were not. I also saw two men, wearing  mantles and clothed in white, who tended those lamps. I asked them why they had set those lamps out in such way that we could not go down and pray. They replied: These  are the lamps of the fathers. I spoke  to them again: Why some of them lit while others are not?  Again they answered those who wished to do so lit there own lamps. Then I said to them: Of your charity is my lamp lit or not? Pray they said and we will light it. Pray I immediately retorted and what I have been doing until now? With these words I returned to my senses and, and when I turned round, there was not a person to be seen. Then I said to myself Christopher , if you want to be saved,  then yet greater effort is required. At dawn  I left monastery and went to Mount Sinai. I had nothing with me but the clothes I stood up in, after I had spent fifty years of monastic endeavours. There, a voice came to me Christopher, go back to your community in which you fought in the good fight so that you may die with your fathers.

جب ہم اسکندریہ میں تھے تو ہم ابّا تھودولوس سے ملے جو نور مینارکے پاس  سینٹ صوفیا پاک حکمت والے  کلیسا میں تھے. انہوں نے بتایا: میں بزرگ تھودولس جو ہمارے آقا (عیسیٰ علیہ السلام) کے شہر کے بیابان میں رہتے ہیں، کی معیت میں تھا،  وہاں میں ایک بزرک کرسٹوفر سے ملا جو نسلا رومی تھے ایک دن میں نے ان کو سجدہ کیا اور کہا ابا آپ مجھے اپنی زندگی کے بارے میں بتائے جوانی سے آج تک اور میں مسلسل اصرار کرتا رہا چونکہ وہ جانتے تھے کہ میں اپنی روح کے فائدے کے لئے ایسا کر رہا ہوں انہوں نے مجھ کو بتایا کہ جب میں نے دنیا ( کی آسائش) کوخیرباد کہا ، بیٹا اس وقت میں خانقاہی زندگی کے حوالے سے بہت جوش میں تھا. دن میں،  میں بہت لگن سے عبادت کے اصول پر عمل کرتا اور رات میں غار میں جس میں بزرگ تھودولوس اور دوسرے بزرگ دفن ہیں، میں عبادت کرتا. جب میں غار میں اترتا تو میں الله کو ١٠٠ سجدے ہر قدم پر کرتا، کل ١٨ قدم پڑتے تھے.  میں وہی رہتا حتیٰ کہ یہ لوگ لکڑی پر ضرب لگاتے اور میں واپس دفتر اتا.  قریب ١٠ سال اسی طرح صوم و عبادت کی مشقت میں گزارنے کے بعد ، ایک رات میں حسب روایت غار کے فرش پر قدم رکھنے لگا تو میں غرق مکاشفہ ہوا. میں نے دیکھ کہ غار کا سارا فرش دیوں سے  بھرا ہے جس میں سے کچھ جل رہے ہیں  اور کچھ بجھے ہیں . میں نے دو آدمیوں کو بھی دیکھا کہ سفید لباس میں ہیں جو ان دیوں کو لگا رہے ہیں میں نے پوچھا کہ آخر اس طرح کیوں دیے لگانے گئے ہیں کہ ہم اندر جا بھی نہ سکیں؟  انہوں نے جواب دیا کہ یہ دیے بزرگوں کے ہیں . میں نے دوبارہ بات کی: ایسا کیوں ہے کہ کچھ جل رہے ہیں اور کچھ بجھے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جن کو جلانا ہو وہ خود جلاتے ہیں. میں نے پوچھا کہ میرا دیا جل رہا ہے یا بجھا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا عبادت کرو ہم اسکو جلائیں گے. میں نے کہا عبادت! تو بھی تک میں کیا کر رہا تھا؟  اس کے بعد مکاشفہ کی کفیت ختم ہوئی. اور میں نے دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا. پھر میں نے اپنے آپ سے کہا کرسٹوفر، اگر تم نجات پانا چاہتے ہو تو اس سےزیادہ  کاوش چاہیے.  واپس اپنے لوگوں میں جاؤ  جن میں تم (شیطان کی اکساہٹوں سے) لڑو پھر جب مرو گے تو بزرگوں کے ساتھ ھو گے.

ابراہیم بن ادھم ، ابّا تھودولوس سے بڑھ کر صوفی تھے ان میں اختلاف نہ صرف عقیدے کا تھا بلکہ فرشتہ نے ابّا تھودولوس کو کہا کہ اور محنت کرو لیکن ابو بن ادھم ان سے آگے نکل گئے

کسی دور میں متصوفین میں یہ جھگڑا پیدا ہوا کہ کون اور کہاں کے صوفیاء بہتر ہیں؟ کیا عرب کے یا افغانستان و سینٹرل ایشیا کے ؟  کیونکہ اسلام پھیل رہا تھا اور کئی علاقوں میں صرف تصوف کو ہی اصلی اسلام سمجھا جاتا تھا –

ابراہیم بن ادھم اغلبا ایک فرضی کردار تھا جس میں بدھآ کی حکایات پر ابراھیم بن ادھم کا اسلامی کردار تراشا گیا-  عرب متصوفین نے بلخ کے اس راہب کا کردار گھڑا – ابراہیم بن ادھم اغلبا  ابراہیم بن آدم ہے یعنی ابن آدم کی اولاد میں سے – ابراہیم سے نسبت دی گئی ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے وحی الہی کے بغیر مشاہدے سے کائنات کی حقیقت کو جانا تو گویا یہ کوئی بھی عام صوفی  کر سکتا ہے – نہ صرف یہ بلکہ بدھآ نے بھی نروان اسی وقت حاصل کیا جب کائنات میں موجود جبر و قدر نے اس کو الجھا دیا – لہذا بلخ ایک مناسب جگہ تھی جہاں سے ایک اسلامی بدھآ کو نکالا جاتا ہے جس نے بدھآ کی طرح بادشاہت کو خیر باد کہا اور بدھ مت کے سادھوں کی طرح ہر دو قدم پر سجدہ کرتے  خدا کے لئے کعبه کے قصد سے نکلا

حکایت بیان کرنے والا جانتا ہے کہ وہ   بدھ مت کے کس طرز کی بات کر رہا ہے آپ شاید نہ جانتے ہوں لہذا یہ دیکھیں

اب کہانی آگے بڑھتی ہے ابراہیم بن ادھم ١٤ سال میں مکہ پہنچتے ہیں لیکن کیا ہوتا ہے-   انیس الارواح  از عثمان ہارونی مرتبہ  معین الدین چشتی، ص ١٧، ١٨ پر حکایت لکھی ہے کہ عثمان ہارونی نے

ibraheemBinAdham

اس حکایت میں ضعیفہ ، رابعة العدوية (المتوفی ١٣٥ ھ یا ١٨٥ ھ) جن کا مکمل نام   رابعة بنت اسماعيل أم عمرو العدوية ہے. ان کو أم الخير بھی کہا جاتا ہے کا ذکر ہے جو  یہ دعوی کرتی تھیں کہ یہ الله کی عبادت جنّت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ الله کی خوشنودی کے لئے کرتی ہیں (یعنی باقی صوفی ایسا کرتے تھے مثلا ابراہیم بن ادھم بلخی).

حکایت میں بتایا گیا ہے کہ ایک عربی صوفی بڑھیا رابعة  بلخ کے صوفیوں سے بہتر تھیں اور یہاں تک کہ ابراہیم بن  ادھم  کے حوالے سے پردۂ غیب کو ہٹا بھی سکتی تھیں – ابراہیم کی یہ تمام محنت اکارت گئی کیونکہ وہ اصلی صوفی نہیں تھے اصلی تو عراق میں بصرہ کی ایک بڑھیا تھی

یعنی یہ کہانی گھڑنے والوں نے ابراہیم کا مقابلہ کسی مرد سے نہیں کرایا بلکہ ایک عورت اور وہ بھی بڈھی کو دکھایا کہ ہماری عرب صوفی بڑھیا بھی بلخیوں سے بڑھ کر ہے

ابراہیم بن ادھم بعد میں اپنی غلطی درست کرتے ہیں عرب صوفیا کے ساتھ رہتے ہیں

یہ ان کے کردار کا مرکزی خیال ہے

اویس قرنی -ایک پراسرار شخصیت

اویس قرنی کا مکمل نام تاریخ ابن أبي خيثمة  کے مطابق أُوَيْس بْن الخُليْص تھا-   تاریخ خلیفہ بن الخیاط کے مطابق  أويس القرني بن عامر بن جزي بن مالك بن عمرو بن مسعدة بن عمرو بن عصوان بن قرن بن ردمان تھا- تاریخ عباس  الدوری کے مطابق امام  يَحْيى بْن مَعِين نے کہا ُ أويس القرني اصل میں أويس بْن عَمْرو ہے

کہا جاتا ہے یہ کوفہ میں علی کے ساتھ رہے اور صوفیا کے مطابق علم لدنی حاصل کیا اور صوفیوں کا ایک سلسلہ اویسیہ ان سے منسوب ہے – ان کے لئے کہا جاتا ہے صفین میں شہید ہوئے لہذا  ایک مقبرہ شام میں  بتایا جاتا ہے جس کو ایک دہشت گرد تنظیم نے حال میں تباہ کر دیا ہے ان کی  قبر میں سوائے مٹی کچھ نہ نکلا  – اس گور کشائی کی تصاویر انٹر نیٹ پر موجود ہیں

  طبقات الصوفية از أبو عبد الرحمن السلمي (المتوفى: 412هـ) میں اویس قرنی  پر ایک باب موجود ہے

هرم بن حيان ان کے مرید تھے- ابن حبان  کی کتاب مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار  کے مطابق

هرم بن حيان الازدي كان من العباد الخشن المتجردين للعبادة من أصدقاء أويس  القرني

هرم بن حيان الازدي  بہت سخت جان  عبادت گزار  تھے اویس قرنی کے دوستوں میں سے تھے

اویس قرنی  زہاد کے لئے ایک پر کشش شخصیت تھے-

مستدرک میں حاکم ، اویس کے لئے لکھتے ہیں  اویس اس امت کا راہب ہے

 اویس قرنی کے بارے میں معلومات کا ماخذ صرف چند روایات ہیں جن کو کوفی اسیر بن جابر  نے بیان کیا ہے

 اسیر بن جابر کہتے ہیں:   جب بھی یمن کے حلیف قبائل عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو عمران سے دریافت کرتے:  کیا تم میں اویس بن عامر ہے؟  ایک دن اویس بن عامر کو پا ہی لیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  تم اویس بن عامر ہو؟  انہوں نے کہا:  ہاں-  پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوں؟  انہوں نے کہا:  ہاں
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  تمہیں برص کی بیماری لاحق تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر جگہ باقی ہے؟  انہوں نے کہا:  ہاں- پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  تمہاری والدہ ہے؟  انہوں نے کہا:  ہاں
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث نبوی سنائی:  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:  تمہارے پاس یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر باقی ہے، وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر قسم بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو لازمی کروانا-لہذا اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر یں، تو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کیلئے مغفرت کی دعا فرمائی۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا:  آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا:  میں کوفہ جانا چاہتا ہوں
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:  کیا کوفہ کے گورنر کے نام خط نہ لکھ دو؟ [آپ اسی کی مہمان نوازی میں رہو گے- تو انہوں نے کہا:  میں گم نام رہوں تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا- راوی کہتے ہیں: جب آئندہ سال حج کے موقع پر انکے قبیلے کا سربراہ ملا ، اور اس کی ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اویس قرنی کے بارے میں استفسار کیا، تو اس نے جواب دیا کہ:  میں اسے کسمپرسی اور ناداری کی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں-  تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بھی حدیث نبوی سنائی:  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: تمہارے پاس یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر باقی ہے، وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر قسم بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو لازمی کروانا- یہ آدمی بھی واپس جب اویس قرنی کے پاس آیا تو کہا:  میرے لیے دعائے استغفار کر دو
اویس قرنی نے کہا:  تم ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو-  اس نے پھر کہا:  میرے لیے استغفار کرو
اویس قرنی نے پھر وہی جواب دیا:  تم ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو-  اور مزید یہ بھی کہا کہ:  کہیں تمہاری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے تو نہیں ہوئی؟-  آدمی نے کہا:  ہاں میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ہے
تو اویس قرنی نے ان کیلئے استغفار کر دیا، اور پھر لوگوں کو اویس قرنی کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوگیا، تو اویس قرنی اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔  اس قصے کے راوی اسیر کہتے ہیں:  میں نے انہیں ایک  لباس دیا، تو جب بھی کوئی شخص انکا لباس دیکھتا تو کہتا:  اویس کے پاس یہ لباس کہاں سے آگیا  

محدثین کی متضاد آراء

دیکھتے ہیں محدثین  اویس قرنی کی شخصیت پر کیا رائے رکھتے  تھے

امام بخاری کی رائے

تاریخ الکبیر میں امام بخاری لکھتے ہیں

أُوَيس القرني.  أصلَهُ من اليمن.  فِي إسناده نَظَرٌ. المُرادِيّ.

اویس قرنی اصل میں یمن سے ہیں ان کی اسناد پر نظر ہے المرادی ہیں

امام احمد  اور امام یحیی ابن معین کی رائے

كتاب  العلل ومعرفة الرجال از امام احمد کے مطابق امام احمد کے بیٹے کہتے ہیں

– حَدثنِي أَبُو صَالح مُحَمَّد بن يحيى بن سعيد قَالَ سَمِعت أبي يحدث عَن شُعْبَة قَالَ سَأَلت عَمْرو بن مرّة عَن أويس الْقَرنِي فَلم يعرفهُ

مجھ کو ابو صآلح محمد بن یحیی بن سعید نے خبر دی بولے انہوں نے اپنے باپ سے سنا انہوں نے امام شعبہ سے روایت کیا کہ انہوں نے عمرو بن مرہ سے اویس قرنی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس کو نا پہچانا

اسی کتاب میں ہے

حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا أَبُو دَاوُد قَالَ أخبرنَا شُعْبَة قَالَ سَأَلت عَمْرو بن مرّة عَن أويس الْقَرنِي يعرفونه فِيكُم قَالَ لَا

 شُعْبَة  نے عمرو بن مرہ سے اویس قرنی کا پوچھا تو انہوں نے کہا نہیں جانتا

سیر الاعلام النبلاء از امام الذھبی کے مطابق امام عَمْرُو بنُ مُرَّةَ بنِ عَبْدِ اللهِ المُرَادِيُّ الْجملِي الْكُوفِي کے لئے ہے

قَالَ بَقِيَّةُ: قُلْتُ لِشُعْبَةَ: عَمْرُو بنُ مُرَّةَ؟ قَالَ: كَانَ أَكْثَرَهُم عِلْماً.

بقیہ نے کہا میں نے ِشُعْبَةَ سے پوچھا عَمْرُو بنُ مُرَّةَ؟ بولے ہم میں بہت علم والے تھے

عَمْرُو بنُ مُرَّةَ کا تعلق یمن سے تھا اور کوفہ میں رہتے تھے لہذا اویس قرنی کے حوالے سے نہایت مناسب ناقل ہو سکتے تھے- میزان الاعتدآل از الذھبی کے مطابق شعبہ کہتے ہیں یہ تدلیس نہیں کرتے تھے جبکہ وہ عام تھی

شعبہ کے اس قول کا ذکر امام یحیی بن معین نے بھی عباس الدوری سے کیا

ہمیں یقین ہے عمرو بن مرہ ان اویس قرنی کو جانتے تک نہ تھے لیکن ابن کثیر کتاب مسند الفاروق میں لکھتے ہیں

 وقال الهيثم بن عدي  ثنا عبد الله بن عمرو بن مُرَّة، عن أبيه، عن عبد الله بن سَلَمة، قال: غَزَونا أذربيجان زمنَ عمرَ بن الخطاب ومعنا أُوَيس القَرَني، فلمَّا رَجَعنا مَرِضَ علينا، فحَمَلناه، فلم يَستمسِك فمات، فنزلنا، فإذا قبر محفورٌ، وماءٌ مسكوبٌ، وكَفَنٌ، وحَنُوطٌ  فغَسَّلناه، وكَفَّنَّاه، وصَلَّينا عليه، ودَفنَّاه، فقال بعضنا لبعض: لو رَجَعنا فعَلَّمنا قبرَه، فرَجَعنا، فإذا لا قبرٌ ولا أثرٌ.
فهذا مخالف للخبر الذي تقدَّم من أنَّه كان بصِفِّين، وهو أصحُّ من هذا، فإنَّ الهيثم بن عدي أخباري ضعيف، وزَعَم بعضهم أنَّه مات بالحيرة. وقيل: بصِفِّين، والله أعلم.

الهيثم بن عدي کہتے ہیں ہم سے عبد الله بن عمرو بن  مرہ نے بیان کیا ان سے ان کے باپ عمرو بن مرہ نے  عبد الله بن سلمہ سے بولے ہم نے عمر رضی الله عنہ کے دور میں أذربيجان میں جہاد کیا اور ہمارے ساتھ اویس قرنی تھے پس واپسی پر وہ بیمار ہو گئے اور صحیح نہ ہوئے اور مر گئے اور ان کو….. دفن کیا ہم سے بعض نے بعض سے کہا اگر ہم واپس لوٹے تو ان کی قبر دیکھیں گے پس ہم واپس لوٹے تو ان کی قبر نہ پائی نہ اس کا نشان

اس کی سند میں عمرو بن مرہ ہیں جبکہ وہ صریحآ اس سے انکاری تھے کہ وہ اویس کو پہچانتے تھے

ابن کثیر کہتے ہیں

پس یہ خبر مخالف ہے اس خبر سے جس میں ہے کہ وہ صِفِّين میں تھے اور وہ اس خبر سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ الهيثم بن عدي  اخباری ضعیف ہے اور بعض کا گمان ہے کہ اویس حرہ عراق میں مرے ، اور کہا جاتا ہے صِفِّين میں-الله کو پتا ہے

لیکن صفیین والی خبر کی سند میں عبد الرحمن بن ابی لیلی ہیں

لہذا نہ اویس قرنی کا جنگ صفین میں شامل ہونا ثابت ہے اور نہ کا  جنگ أذربيجان میں شامل ہونا ثابت ہے

امام عقیلی کی رائے

کتاب  الضعفاء الكبير از امام  العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ)  میں اویس قرنی کو باقاعدہ ضعیف راویوں میں شمار کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں تفصیل دی ہے جس کا مطلب ہے کہ امام عقیلی کے نزدیک یہ مجھول تھے

أُوَيْسٌ الْقَرَنِيُّ الزَّاهِدُ حَدَّثَنِي آدَمُ بْنُ مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْبُخَارِيَّ قَالَ: أُوَيْسٌ الْقَرَنِيُّ فِي إِسْنَادِهِ نَظَرٌ [ص:136]. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: جِئْتُ إِلَى عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيُّ تَعْرِفُونَهُ فِيكُمْ قَالَ: لَا. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَا: حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَادُ بْنُ نُوحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، وَعَمْرَو بْنَ مُرَّةَ عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ فَلَمْ يَعْرِفَاهُ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: سَأَلْتُ عَمْرَو بْنَ مُرَّةَ عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ فَلَمْ يَعْرِفْهُ قَالَ زَيْدٌ: وَكَانَ أُوَيْسٌ مِنْ عَشِيرَتِهِ. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَمْرَو بْنَ مُرَّةَ عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ فَلَمْ يَعْرِفْهُ

اویس قرنی زاہد – مجھ سے آدم بن موسی نے روایت کیا کہا میں نے امام بخاری کو کہتے سنا اویس قرنی کی اسناد پر نظر ہے

ہم سے  محمّد بن عیسیٰ نے بیان کیا  بندر نے روایت کیا کہ ابو داود نے روایت کیا کہا شعبہ نے روایت کیا کہ ہم عمرو بن مرہ کے ہاں پہنچے میں نے کہا مجھ کو اویس قرنی کی خبر دیں کیا آپ ان کو جانتے ہیں اپنوں میں ؟ بولے نہیں

ہم سے  محمّد بن علی بن زید اور محمّد بن اسمعیل (امام بخاری) نے بیان کیا کہا ہم سے عباس نے کہا ہم سے قراد نے کہا شعبہ نے بیان کیا کہا میں نے عمرو بن مرہ سے اویس قرنی کے متعلق پوچھا لیکن ان کو اس کا پتا نہ تھا – زید نے کہا اویس تو ان کے خاندان کے تھے ! ہم سے عبد الله نے بیان کیا ان کو ابو صآلح محمد بن یحیی بن سعید نے خبر دی بولے انہوں نے اپنے باپ سے سنا انہوں نے امام شعبہ سے روایت کیا کہ انہوں نے عمرو بن مرہ سے اویس قرنی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس کو نا پہچانا

اس کے بعد امام عقیلی نے تین روایات لکھیں

وَحَدِيثُهُ حَدَّثَنَا بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَالِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ح، وَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو ظُفُرٍ عَبْدُ السَّلَامِ بْنِ مُطَهَّرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، جَمِيعًا عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِأُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِي إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:   خَيْرُ التَّابِعِينَ رَجُلٌ مِنْ قَرْنٍ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ

أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے اویس قرنی سے کہا ہمارے لئے دعا کریں – انہوں نے کہا آپ اصحاب رسول میں سے ہیں اور میں آپ کے لئے دعا کرو – عمر بولے میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ التَّابِعِينَ میں سے بہترین شخص اویس اس جگہ کا ہے جس کو قرن کہا جاتا ہے

یعنی قرن جگہ کا نام ہے نہ کہ شخص کا نام

اس کے بعد امام عقیلی نے دوسری روایت لکھی

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَبِي أَوْفَى، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَتْ عَلَيْهِ أَمْدَادُ الْيَمَنِ سَأَلَهُمْ أَفِيكُمْ أُوَيْسٌ؟ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَقَالَ فِيهِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ»

أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ کہتے ہیں عمر نے کہا کہ جب یمن کی امداد پہنچے تو ان میں اویس کےبارے میں پوچھنا- اس کے بعد ایک طویل روایت نقل کی اور اس میں ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا کہ تمہارے پاس اویس بن عامر آئے گا اہل یمن کی امداد میں سے اس کو برص تھا جو ختم ہوا صرف ایک درہم برابر رہ گیا ہے

اس کے بعد امام عقیلی نے تیسری روایت لکھی

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْأَصْفَرِ مَوْلَى صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: كَانَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ رَجُلًا مِنْ قَرْنٍ، وَكَانَ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَكَانَ مِنَ التَّابِعِينَ، فَذَكَرَهُ أَيْضًا بِطُولِهِ، وَقَالَ فِيهِ: إِنَّ عُمَرَ قَالَ: أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ يَكُونُ فِي التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالَ لَهُ أُوَيْسٌ يَخْرُجُ بِهِ وَضَحٌ وَيَدْعُو اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ فَيُذْهِبَهُ. . .» وَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ: لَيْسَ مِنْهُمْ أَحَدٌ تَبَيَّنَ سَمَاعًا مِنْ عُمَرَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ شَبُّوَيْهِ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ قَالَ: سَأَلْتُ الْمُعْتَمِرَ عَنِ الْحَدِيثِ الَّذِي يُرْوَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ هَرِمٍ وَأُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ حِينَ الْتَقَيَا فَقَالَ الْمُعْتَمِرُ: لَيْسَ مِنْ حَدِيثِ أَبِي

صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ کہتے ہیں اویس بن عآمر، قرن کا رہنے والا ہے – اور وہ اہل کوفہ میں سے ہے اور التَّابِعِينَ میں سے ہے پھر ایک طویل روایت نقل کی اس میں ہے کہ عمررضی الله عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک التَّابِعِينَ میں سے ایک شخص ہو گا جس کو اویس کہا جاتا ہے … امام عقیلی کہتے ہیں عبد الله ابن مبارک نے الْمُعْتَمِرَ سے سوال کیا اس حدیث پر جو انہوں نے اپنے باپ اور انہوں نے هَرِمٍ  اور َأُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ سے روایت کی- پس جب الْمُعْتَمِرُ سے ملے تو انہوں نے کہا یہ میرے باپ کی روایت نہیں

امام عقیلی نے ان تین روایات سے ثابت کیا کہ یہ کردار واضح نہیں – اویس کو قرن کا باسی کہا جاتا ہے –  کوئی اس مقام کو  یمن  میں کہتا ہے تو کوئی کوفہ  میں بتاتا ہے

امام ابن ابی حاتم کی رائے

كتاب: العلل لابن أبي حاتم از   ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) میں ہے

 وسألتُ  أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ أَبُو بَكْرُ بْنُ أَبِي عَتَّاب الأَعْيَن  ، عَنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنِ اللَّيث، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُري، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عن النبيِّ (ص) قَالَ: يَدْخُلُ الجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ مُضَرَ وبَنِي تَمِيمٍ، فَقِيلَ: مَنْ هُوَ يَا رسولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أُوَيْسٌ القَرَنيُّ؟

قَالَ أَبِي: هَذَا الحديثُ لَيْسَ هُوَ فِي كِتَابِ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ اللَّيث؛ نظرتُ فِي أَصْلِ اللَّيث، وَلَيْسَ فِيهِ هَذَا الْحَدِيثُ، وَلَمْ يذكُر أَيْضًا اللَّيثُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ خَبَرً   ، ويحتملُ أَنْ يكونَ سَمِعَهُ مِنْ غَيْرِ

ابن ابی حاتم نے اپنے باپ ابی حاتم سے پوچھا حدیث جس کو أَبُو بَكْرُ بْنُ أَبِي عَتَّاب الأَعْيَن  ، عَنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنِ اللَّيث، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُري، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، کی سند سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں میری شفاعت سے میری امت میں سے ایک شخص داخل ہو گا جو مُضَرَ وبَنِي تَمِيمٍ سے ہے پس کہا یہ کون ہے یا رسول الله فرمایا اویس قرنی

میرے باپ ابی حاتم نے کہا یہ حدیث ہے جو ابی صالح کی کتاب میں نہ تھی جس کو لیث نے روایت کیا اور میں نے ان کی کتاب دیکھی اس میں بھی نہ تھی لھذا میں سمجھتا ہوں یہ ابی صالح نے کسی اور سے سنی ہو گی

بَنِي تَمِيمٍ مدینہ کے مشرق میں آباد تھے نہ کہ یمن یا کوفہ میں- اس سے یہ معاملہ اور بھی لجھ جاتا ہے

کتاب  ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي) از ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) ابن ابی حاتم کی کتاب العلل کی جیسی روایت پیش کر کے لکھتے ہیں

حَدِيث: سَيكون فِي أمتِي رجل يُقَال لَهُ: أويس بن عبد الله الْقَرنِي، وان شَفَاعَته فِي أمتِي منل ربيعَة، وَمُضر. رَوَاهُ أَبُو الْوَلِيد (وهب بن حَفْص) الْحَرَّانِي: عَن أبي عمر حَفْص بن عمر، عَن الحكم بن أبان، عَن عُثْمَان بن حَاضر، عَن ابْن عَبَّاس. قَالَ ابْن عدي: ووهب هَذَا كَذَّاب. وَأوردهُ فِي تَرْجَمته فانه خصّه بِهِ، وَإِن كَانَ فِي إِسْنَاده ضعفاء ومجاهيل.

اس اوپر والی روایت کو ایک دوسری سند سے بھی بیان کیا گیا ہے جس میں ابن عدی کے مطابق کذاب ہیں اور ضعیف اور مجھول بھی ہیں

ابن قُطْلُوْبَغَا کی رائے

ابن قُطْلُوْبَغَا کتاب الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة میں أُسَيْر بن جابر العَبْدي الكوفي لکھتے ہیں

في القلب من روايته عن أويس القرني، إلا أنه حكى ما حكى عن إنسان مجهول لا يُدرَى من هو

یہ اویس قرنی والی روایت کا مصدر ہیں، بلاشبہ انہوں نے جو کہنا چاہا کہا ایک مجھول انسان سے جس کو میں نہیں جانتا کون ہے

یعنی  ابن قُطْلُوْبَغَا نے بھی اویس قرنی کو ایک مجھول شخص قرار دیا

ابن عدی کی رائے

کتاب الكامل في ضعفاء الرجال  میں لکھتے ہیں

وَلَيْسَ لأُوَيْسٍ مِنَ الرِّوَايَةِ شَيْءٌ، وإِنَّما لَهُ حِكَايَاتٌ وَنُتَفٌ وَأَخْبَارٌ فِي زُهْدِهِ وَقَدْ شَكَّ قَوْمٌ فِيهِ إِلا أَنَّهُ مِنْ شُهْرَتِهِ فِي نَفْسِهِ وَشُهْرَةِ أَخْبَارِهِ لا يَجُوزُ أَنْ يُشَكَّ فيه وليس لَهُ مِنَ الأَحَادِيثِ إِلا الْقَلِيلُ فَلا يَتَهَيَّأُ أَنْ يُحْكَمَ عَلَيْهِ الضَّعْفُ بَلْ هُوَ صَدُوقٌ ثِقَةٌ مِقْدَارِ مَا يُرْوَى عَنْهُ.

قَالَ الشَّيْخُ: مَالِكٌ يُنْكِرُهُ يَقُولُ لَمْ يكن

اویس کے لئے کہانیاں ہیں اور خبریں ہیں ان کے زہد کے بارے میں اور بے شک ایک قوم کو ان کے بارے میں شک ہے لیکن ان کی شہرت فی نفسہ ہے اور شہرت خبر پر جائز نہیں کہ ان کے بارے میں شک کیا جائے اور احادیث میں ان کے لئے بہت کم آیا ہے جو اس طرح کا نہیں کہ ان کو ضعیف کہہ دیا جائے بلکہ ان کا درجہ صدوق ثقہ کا ہے جو ان سے روایت ہوا ہے

ابن عدی کہتے ہیں امام مالک نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا یہ نہیں ہو سکتا

امام مسلم کی رائے

امام مسلم محدثین سے الگ رائے رکھتے ہیں اور انہوں نےآلضعفاء الكبير از امام  العقيلي کی پہلی روایت جو سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ کی سند سے ہے اس کو صحیح میں لکھا ہے اور اس کو قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ کی سند سے بھی لکھا ہے

امام مسلم کی صحیح کی دونوں روایتیں امام عقیلی نے  بڑے ضعیف راویوں پر کتاب آلضعفاء الكبير میں پیش کی اور اویس قرنی کو ایک مجھول کے طور پر پیش کیا

ابن صاعد کی رائے

تاریخ دمشق میں ابن عساکر لکھتے ہیں

أخبرنا أبو غالب بن البنا أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو عمر بن حيوية حدثنا يحيى بن محمد بن صاعد قال أسانيد أحاديث أويس صحاح رواها الثقات

يحيى بن محمد بن صاعد سن ٢٢٨ ھ میں پیدا ہوئے ٣١٨ ھ میں فوت ہوئے – قاضی تھے ان سے ابن حَيَّوَيْه أبو عمر ٣٨٢ ھ  نے سنا ہے – يحيى بن محمد بن صاعد کہتے ہیں

اویس قرنی کی اسناد صحیح ہیں جن کو ثقات نے روایت کیا ہے  

العجلى کی رائے

أبو الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح العجلى الكوفى (المتوفى: 261هـ) نے کتاب الثقات میں  اویس کا شمار تابعین میں کیا ہے

معلوم ہوا کہ اویس قرنی بعض محدثین  کے نزدیک مجھول تھے  اور بعض کے نزدیک ایک حقیقی شخص تھے

خود أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ  جن پر اویس قرنی کی روایت کا دارومدار ہے ان کو ابن حزم ليس بالقوي، قوی راوی نہیں  کہتے ہیں

اویس کا منہج

اویس بدعتی تھے- کتاب : حلية الأولياء وطبقات الأصفياء از ابو نعیم  اور  مسند الفاروق  از ابن کثیر میں ہے

  عن أصبغ بن زيد قال كان أويس القرني إذا أمسى يقول : هذه ليلة الركوع ، فيركع حتى يصبح ، وكان يقول إذا أمسى : هذه ليلة السجود ، فيسجد حتى يصبح

أصبغ بن زيد کہتا ہے ایک شام،  اویس قرنی کہتے آج کی رات رکوع کی رات ہے پس وہ رکوع کرتے حتی کہ صبح ہو جاتی اور اسی طرح کسی شام کہتے آج کی رات سجدے کی رات ہے اور سجدہ کرتے حتی کہ صبح ہو جاتی

لگتا ہے اویس کسی صوفی تحریک کا حصہ تھے جس کا مقصد مسلمانوں میں اس قسم کی بدعتی مشقتیں رواج دینے کے لئے ان کو  یمن سے خاص مقصد کے تحت  کوفہ بھیجا گیا تھا جہاں زہد کے نام پر اس قسم کی عبادت کی تلقین کی جا رہی تھی

کوفہ سے اویس دمشق پہنچے- تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ ان کا مرید هرم بن حيان العبدي دمشق  أويس القرني کو طلب کرنے پہنچا- کہا جاتا ہے عمر رضی الله عنہ کی شہادت کی خبر بھی اویس کو تھی جو انہوں نے هرم بن حيان العبدي کو دی اور وہ جب مدینہ پہنچا تو معلوم ہوا خبر سچی تھی

 شب برات کے حلوہ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ اویس قرنی کے لئے پکایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے دانت توڑ ڈالے تھے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دانتوں پر احد کی جنگ میں زخم لگا تھا-

اہل تشیع اور اویس قرنی

شیعوں میں بھی اویس قرنی ایک معتبر شخصیت ہیں

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 30 – ص 322 –  میں ہے

اويس القرني – بفتح الراء – : أحد الزهاد الثمانية ، قاله العلامة والكشي عن الفضل بن شاذان

اویس قرنی – زہاد میں سے ایک .. علامہ اور کشی نے کہا الفضل بن شاذان کی روایت سے

کتاب  الإرشاد – الشيخ المفيد – ج 1 – ص ٣١٦ میں ہے  ایک شخص علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہ میں قتال کروں گا علی نے پوچھا

   فقال له : ” ما اسمك ؟ ” قل أويس ، قال : ” أنت أويس القرني ؟ ” قال : نعم ، قال : ” الله أكبر ، أخبرني حبيبي رسول الله صلى الله عليه وآله أني أدرك رجلا من أمته يقال له أويس القرني ، يكون من حزب الله ورسوله ، يموت على الشهادة ، يدخل في شفاعته مثل ربيعة ومضر

 تیرا نام کیا ہے ؟ بولا اویس – علی نے کہا کیا تم ہی اویس قرنی ہو ؟ بولا جی – علی نے کہا الله اکبر مجھ کو میرے پیارے رسول الله صلی الله علیہ وآله  نے بتایا تھا کہ  میں ان کی امت میں سے ایک شخص سے ملوں گا جس کو اویس قرنی کہا جائے گا جو الله اور اس کے رسول کے گروہ کا ہے شہادت کی موت مرے گا اور شفاعت ملے گی ربيعة ومضر  (مدینہ کے دو مشرقی قبائل) کی طرح

یعنی شیعوں کے ہاں اویس قرنی کی علی کے ساتھ لڑتے شہادت ہوئی اور سننیوں کے ہاں وہ کوفہ سے شام پہنچے اور وہاں مرے- علی رضی الله عنہ تو کوفہ شہادت عثمان کے بعد گئے اس سے قبل اویس کی اگر عمررضی الله عنہ  سے ملاقات ہوئی تو علی اس وقت کہاں تھے

خوراج اور اویس قرنی

خوارج کے مطابق اویس قرنی شروع میں اصحاب علی میں تھے پھر اصحاب عبد الله بن وھب بن گئے اور علی کے خلاف لڑتے ہوئے جنگ نہروان میں شہید ہوئے

 شرح كتاب النيل وشفاء العليل للقطب اطفيش

اباضی کتب کے مطابق علی کو بتایا گیا کہ انہوں نے اہل حق سے جنگ میں اویس کا قتل کر دیا ہے علی نے انکار کیا کہ یہ اویس نہیں لیکن جب حقیقت جانی تو پچھتائے

خوارج کے مطابق ان کا نسب ہے

أويس القَرَني، وهو أوَيس بن عمرو بن جزء بن قيس ابن مالك بن عمرو بن عصوان بن قَرَن بن ردمان بن ناجية بن مراد

الأنساب از  الصحاري

اغلبا اویس ایک صوفی یا زاہد تھے جن کی ملاقات نہ عمر سے ہوئی نہ علی سے-امام بخاری کی رائے ہمارے نزدیک قابل توجہ ہے کہ اویس کی روایات پر نظر ہے

==============================

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ الْقَاسِمِ السَّيَّارِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، ثنا أَبُو الْمُوَجِّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو بِغَيْرِ حَدِيثٍ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُوسَى، ثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ عَلِيٍّ السَّيَّارِيُّ، ثنا خَالِي أَبُو الْعَبَّاسِ الْقَاسِمُ بْنُ الْقَاسِمِ السَّيَّارِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ سَلْمٍ، وَكَانَ مِنَ الزُّهَّادِ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدَةَ النَّافِقَانِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدَةَ الْعَامِرِيُّ، ثنا سُورَةُ بْنُ شَدَّادٍ الزَّاهِدُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً غَيْرَ وَاحِدٍ مَا مِنْ عَبْدٍ يَدْعُو بِهَذِهِ الْأَسْمَاءِ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ إِنَّهُ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ» إِلَى قَوْلِهِ «الرَّشِيدُ الصَّبُورُ» مِثْلُ حَدِيثِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، حَدِيثُ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ صَحِيحٌ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَحَدِيثُ الثَّوْرِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ فِيهِ نَظَرٌ لَا صِحَّةَ لَهُ

الله کے ننانوے نام ہیں ، سو میں سے ایک کم، جن سے جب بندہ پکارے تو جنت واجب ہو جاتی ہے – الله وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے- وہ الله جس کے سوا کوئی الہ نہیں وہ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ» سے لے کر «الرَّشِيدُ الصَّبُورُ ہے
ابو نعیم نے کہا وَحَدِيثُ الثَّوْرِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ فِيهِ نَظَرٌ لَا صِحَّةَ لَهُ
سفیان کی ابراہیم بن آدھم سے حدیث پر نظر ہے اس کی صحت نہیں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْهُذَيْلِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ الْعَنْبَرِيُّ، ثنا عَمْرٌو شَيْخٌ كُوفِيٌّ، عَنْ أَبِي [ص:87] سِنَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ صَالِحٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أُوَيْسًا الْقَرَنِيَّ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي فَإِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَلْعَنَ آخِرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلَهَا وَعِنْدَ ذَلِكَ يَقَعُ الْمَقْتُ عَلَى الْأَرْضِ وَأَهْلِهَا فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ فَلْيَضَعْ سَيْفَهُ عَلَى عَاتِقِهِ ثُمَّ لِيلْقَ رَبَّهُ تَعَالَى شَهِيدًا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ»
اویس قرنی نے کہا رسول الله نے فرمایا

اس کی سند منقطع ہے – اویس کا سماع رسول الله صلی الله علیہوسلم سے نہیں یہ صحابی بھی نہیں
اویس قرنی مجہول ہے

Gnothi seauton

کہا جاتا ہے کہ دیلفی یونان میں اپولو کے مندر میں صدر دروازے پر لکھا تھا

Γνῶθι σεαυτόν

Gnothi seauton

اپنے آپ کو جانو

اندازا عیسیٰ علیہ السلام سے ساڑھے ٥٠٠ سال قبل یہ مندر تعمیر ہوا تھا یعنی یروشلم پر حشر اول کے کچھ سال بعد

إسلامي تاریخی و مذہبی کتب میں بھی یہ قول نظر اتا ہے

من  عرف نفسه فقد عرف ربه

جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا

الغزالي الطوسي (المتوفى: 505هـ) کتاب مشكاة الأنوار میں کہتے ہیں

إذ لا يعرف ربه إلا من عرف نفسه

کہ اپنے رب کو نہیں جانتا مگر وہ جو اپنے نفس کو جانتا ہو

کتاب  كيمياء السعادة میں کہتے ہیں

وقال النبي صلى الله عليه وسلم:) من عرف نفسه فقد عرف ربه

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا

ابن عربی نے  من  عرف نفسه فقد عرف ربه کا حوالہ اپنی کتاب میں دیا اس کو الذھبی نے تاریخ الاسلام میں پیش کیا – تاریخ اسلام میں تعلیق میں شعيب الأرنئوط  لکھتے ہیں

  موضوع كما قال شيخ الإسلام ابن تيمية، وسئل عنه الإمام النووي في «فتاويه» فقال: إنه ليس بثابت، وقال الزركشي في «الأحاديث المشتهرة» : وقال ابن السمعاني في «القواطع» : إنه لا يعرف مرفوعا، وإنما يحكي عن يحيى بن معاذ

الرازيّ، وقال السيوطي: ليس بصحيح انظر «الحاوي» 2/ 451- 452. (المطبوع من تاريخ الإسلام- ص 356)

 موضوع ہے جیسا شیخ السلام ابن تیمیہ نے کہا ہے اور اس پر امام نووی سے فتاویہ میں سوال ہوا تو کہا یہ ثابت نہیں ہے اور زرکشی نے اس کا احادیث مشتہر میں ذکر کیا ہے اور ابن السمعانی نے القوآطع میں ان کو یہ مرفوع نہیں ملی اور یحیی بن معآذ سے حکایت ہے سیوطی نے کہا یہ صحیح نہیں ہے

کتاب نضرة النعيم في مكارم أخلاق الرسول الكريم – صلى الله عليه وسلم  کے مطابق وہابی عالم صالح بن عبد الله بن حميد  حرم کے خطبے میں صوفی

هرم بن حيّان کا قول پیش کرتے ہیں

  المؤمن إذا عرف ربّه عزّ وجلّ أحبّه، وإذا أحبّه أقبل إليه    وقال أيضا: من عرف نفسه وعرف ربّه عرف قطعا أنّه لا

وجود له من ذاته إنّما وجود ذاته ودوام وجوده وكمال وجوده من الله وإلى الله وبالله

مومن جب اپنے رب کو جانتا ہے تو وہ اس سے محبت کرتا ہے اور جب مجبت کرتا ہے اس کو قبول کرتا ہے

اور یہ بھی کہا جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا – وہ قطعی جان جاتا ہے کہ اس کا کوئی ذاتی وجود نہیں بلکہ وجود تو  ذات اور دوام اور جودت و کمال الله سے ہے اور اس کی طرف سے ہے اور الله کے لئے ہے

 هرم بن حيان العبدي  وہی اویس قرنی کے مرید ہیں جو ان کی تلاش میں کوفہ سے شام پہنچے تھے – ان کا ذکر اویس قرنی والے بلاگ میں ہے

وہابی عالم  علی محمد الصَّلاَّبي  کتاب أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه کے مطابق یہ علی کا قول ہے

دعا أمير المؤمنين على رضي الله عنه الناس إلى التفكير في أنفسهم فقال: من عرف نفسه فقد عرف ربه

امیر المومنین علی رضی الله عنہ نے انسانوں کو اپنے آپ میں تفکر کا کہا کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا

یہ اصلا تصوف کی جڑ ہے جس کے ڈانڈے یونانی فلسفہ میں جا کر ملتے ہیں

———————————————————————————————–

مصدر

https://en.wikipedia.org/wiki/Delphi#Temple_of_Apollo

https://en.wikipedia.org/wiki/Know_thyself

ابدال – ایک لایعنی اصطلاح

چھٹی صدی ہجری کی ابتداء میں وفات پانے والی دیلمی کتاب  الفردوس بمأثور الخطاب از أبو شجاع الديلميّ الهمذاني (المتوفى: 509هـ)   کے مطابق أنس بن مَالك سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

الأبدال أَرْبَعُونَ اثْنَان وَعِشْرُونَ بِالشَّام وَثَمَانِية عشر بالعراق كلما مَاتَ مِنْهُم بدل الله مَكَان أخر فَإِذا جَاءَ الْأَمر قبضوا كلهم

ابدال چالیس ہیں – ٢٨ ان میں شام میں اور ١٢ عراق میں ہیں- ان میں سے جو مرتا ہے تو الله ایک اور سے ان کو بدل دیتا ہے پھر جب (قیامت کا) امر ہو گا سب (کے نفوس) قبض ہو جائیں گے

چھٹی صدی کے آخرمیں  وفات پانے والے  ابن الجوزی نے ابدال کے نظریہ کو کتاب الموضوعات میں رد کیا –  ساتویں صدی کے محدث تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643هـ)  فتاوى ابن الصلاح  میں فتوی دیتے ہیں

وأما الأبدال فأقوى ما رويناه فيهم قول علي رضي الله عنه إنه بالشام الأبدال، وأيضًا فإثباتهم كالمجمع عليه بين علماء المسلمين وصلحائهم. وأما الأوتاد والنجباء والنقباء فقد ذكرهم بعض مشايخ الطريقة، ولا يثبت ذلك. ولا تزال طائفة من الأمة ظاهرة على الحق إلى أن تقوم الساعة، وهم العلماء

اور جہاں تک ابدال کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں علی رضی الله عنہ کا قول روایت کیا جاتا ہے کہ ابدال شام میں ہیں اور اسی طرح کا اثبات کیا ہے علماء مسلمین نے اور ان کے صالح لوگوں نے اور جہاں تک الأوتاد والنجباء والنقباء  کا تعلق ہے تو اس کا ذکر بعض طریقت کے مشائخ نے کیا ہے جو ثابت نہیں ہے اور(حدیث) میری امت کا ایک گروہ حق پر غالب رہے گا  یہاں تک قیامت آئے –  تو یہ علماء ہیں

ابن تیمیہ نے آٹھویں صدی میں فتوی میں ابدال کے نظریہ میں  بھی گنجائش پیدا کی کہ ابدال کی خصوصیت صرف چالیس میں محدود نہیں – کتاب الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان  میں الأولياء، والأبدال، والنقباء، والنجباء، والأوتاد، والأقطاب پر ابن تیمیہ کہتے ہیں

فليس في ذلك شيء صحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم ينطق السلف بشيء من هذه الألفاظ إلا بلفظ الأبدال.

اس میں کوئی صحیح حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نہیں اور سلف سے ان الفاظ پر بات منقول نہیں سوائے ابدال کے لفظ کے

کتاب   العقيدة الواسطية: اعتقاد الفرقة الناجية المنصورة إلى قيام الساعة أهل السنة والجماعة میں اہل سنت و الجماعت میں ابن تیمیہ نے ابدال کو بھی ان میں شمار کیا ہے جس سے ظاہر ہے ان کے نزدیک یہ لوگ موجود تھے

ابن تیمیہ کے ہم عصر الذھبی نے کتاب میزان الاعتدال میں انس رضی الله عنہ کی ابدال سے متعلق روایت پر کہا هذا باطل یہ باطل ہے لیکن اپنی تاریخ الاسلام میں جگہ جگہ لوگوں کو ابدال کہہ کر ان کا قد بڑھایا ہے

اگلی صدیوں میں المناوی اور سیوطی نے واپس ابدال کے وجود پر بحث کی اور ثابت کیا کہ یہ پرسرار لوگ موجود  ہیں

دیکھتے ہیں  ائمہ حدیث کیا کہتے تھے

کتاب  سؤالات السلمي للدارقطني کے مطابق دارقطنی کہتے ہیں

سمعتُ أبا بكرٍ النَّيسابوريَّ يقولُ: سمعتُ أبا موسى الطُّوسيَّ  يقولُ: سمعتُ أبا بكرِ بنَ زَنْجُويَهْ  يقولُ: سمعتُ أحمدَ ابنَ حنبلٍ   يقولُ: كان بـ «بغدادَ» رجلٌ من الأبدالِ؛ وهو أبو إسحاقَ   النَّيسابوريُّ. يريدُ: إبراهيمَ بنَ هانئٍ

أبا بكرِ بنَ زَنْجُويَهْ نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ بغداد میں ایک شخص أبو إسحاقَ   النَّيسابوريُّ ہے جو ابدال میں سے ہے اس سے ان کی مراد تھی إبراهيمَ بنَ هانئٍ

علل دارقطنی میں امام دارقطنی کہتے ہیں النَّضْرُ بْنُ كَثِيرٍ السَّعْدِيُّ أَبُو سَهْلٍ کے لئے کہتے ہیں ان کو َ الْأَبْدَالِ کہا جاتا ہے

امام بخاری کتاب تاریخ الکبیر میں  فَروَة بْن مُجالِد، مَولَى اللَّخم کے ترجمے میں لکھتے ہیں

وَكَانُوا لا يشكون أَنه من الأَبدال، مُستجاب الدَّعوة. نَسَبَهُ حُجر بْن الحارث.

اور اس میں شک نہیں کہ یہ ابدال تھے ان کی دعائیں قبول ہوتیں اس کی نسبت حجر بن الحارث نے کی

یعنی حجر بن الحارث نے  فَروَة بْن مُجالِد کو ابدال میں شمار کیا-   کتاب  الإصابة في تمييز الصحابة  از ابن حجر کے مطابق  وقال ابن مندة  حديثه مرسل، وهو مجهول  ابن مندہ کے بقول یہ ایک مجھول شخص تھے

کتاب الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم کے مطابق مندرجہ سات لوگ ابدال تھے

أيوب بن النجار

إدريس بن يحيى الخولاني المصري

الحسن بن علي بن مسلم السكوني

  سهل بن مزاحم المروزي

عبد الملك بن عبد العزيز أبو نصر التمار

عبد الرزاق بن عمر الدمشقي العابد

محمد بن عبد الرحمن بن عمرو الاوزاعي

ابن ابی حاتم نے ان سب کے ترجمہ میں ان کو ابدال قرار دیا ہے

العجلی کتاب الثقات میں الصَّعق بن حزن العيشي  کو ابدال میں سے   لکھتے ہیں

کتاب  التاريخ الكبير المعروف بتاريخ ابن أبي خيثمة – السفر الثالث  کے مطابق

حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حدثنا هشام بْن يُوسُف، عَنْ عِمْرَان أبي المنديل، عَنِ  القاسم بْن ذي خَسْرُوَا الصَّنْعَانِيّ، قَالَ: قَالَ لي عَطَاء: تدري مِمَّنْ الأبدال؟ قلت: لا. قَالَ: مِنْ قومك دِنيَة.

عَطَاء نے القاسم بْن ذي خَسْرُوَا الصَّنْعَانِيّ سے پوچھا تم کو پتا ہے ابدال کون ہیں ؟ القاسم بْن ذي خَسْرُوَا الصَّنْعَانِيّ نے کہا نہیں – عَطَاء نے کہا یہ لوگوں میں سب سے کم عزت والے ہیں

کتاب الكامل في ضعفاء الرجال  از أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) کے مطابق

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمد بْنِ عَمْرو الخفاف، حَدَّثَنا عَبد الصمد بن الفضل، قَالَ: سَمِعْتُ شهاب بن معمر يقول كان حماد بن سلمة يعد من الابدال وعلامة الابدال ان لا يولد لهم كان تزوج سبعين امرأة فلم يولد.

عَبد الصمد بن الفضل کہتے ہیں انہوں نے شهاب بن معمر کو  کہتے سنا حماد بن سلمہ کو ابدال میں شمار کیا جاتا ہے اور ابدال کی علامت ہے کہ ان کی اولاد نہیں ہوتی چاہے ستر عورتوں سے شادی کریں

عطاء بن عَبد الله کے ترجمے میں ابن عدی لکھتے ہیں

حَدَّثني عُمَر بن الحسن بن نصر، حَدَّثَنا مُؤَمِّلُ بْنُ إِهَابٍ، حَدَّثَنا ضمرة، عنِ ابن عطاء، عن أبيه، قالَ: قُلتُ لأبي يا أبة الأبدال أربعون رجلا؟ قَال: لاَ تقل رجلا إن فيهم نساء.

ابن عطاء نے اپنے باپ عطآ سے پوچھا کہ اے باپ کیا ابدال چالیس مرد ہیں انہوں نے جواب دیا مرد نہ بولو ہو سکتا ہے ان میں عورتیں بھی ہوں

معلوم ہوا کہ ابدال پر محدثین کی کوئی ایک حتمی رائے نہ تھی – ابدال کے وجود کا تصور پھیل رہا تھا لوگوں کو ابدال کہا جاتا تھا لیکن اس کا اصل مفھوم کسی کو پتا نہ تھا – اس لا یعنی اصطلاح کو محدثین اپنی کتب میں نقل کرتے رہے جبکہ وہ اس کے مفھوم سے خود بھی لا علم تھے

—————————————————————–

مزید حوالوں کے لئے کتاب روایات المہدی کے حواشی دیکھیں جو اس ویب سائٹ پر موجود ہے

تصوف و سریت

مجمع البحرین

یہودی، نصرانی اور غناسطی تصوف کے اسلام پر اثرات

بقلم

ابو شہریار

Mystics – Confluence of Streams in English

Mystics – Confluence of Streams

“Confluence of Streams” is a scholarly work that examines the intricate influences of Jewish, Christian, and Gnostic mysticism on Islamic thought.   It delves into the impact of Jewish Mysticism, discussing elements like Merkabah Mysticism, Gematria, and the concept of the Primordial Man (Insan Al-Kamil), and how these concepts influenced Islamic beliefs. The exploration then shifts to Christian Mysticism, analyzing the integration of Hulul into Islamic theology through concepts like Logos and the influence of Christian monastic traditions on Muslim mysticism. The book also probes into the Hermetic and Gnostic streams, looking at how Hermetic sciences and concepts like Homoousios find parallels in Islamic Wahdatul Wajood. The final chapter reflects on the divergence and convergence of these mystical streams, offering a comprehensive understanding of their collective impact on Islamic mysticism.

96 Downloads

 (in Urdu) مجمع البحرین جدید  ایڈیشن

135 Downloads

ازمنہ قدیم سے اس کرہ ارضی پر انسان کے دو گروہ رہے ہیں. ایک گروہ یہ سمجھتا آیا ہے کہ وہ خدا تک اپنے مراقبہ اور تپسیا کے ذریعے سے پہنچ سکتے ہیں. اس ذریعہ یا طریقہ کار میں انسانی روح کو دنیاوی قید و بندھن سے آزاد کرنا  ہوتا ہے.  الله تک رسائی کایہ عمل ازمنہ قدیم سے استعمال میں ہے اور ہم انکے کرنے والوں کو سادھو یا راہب کے نام سے جانتے ہیں

اس سوچ کے خلاف ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو یہ  مانتا ہے کہ الله تک رسائی اس طرح نہیں  ہو سکتی.  الله ہمارا خالق اور پالنہار ہے لہذا ہدایت بھی اسی کی طرف سے آنی چاہیے. الله نے انبیاء و رسل کو انسانوں میں سے منتخب کیا اور ان پر وحی بھیجی ہے.  اسلام، نصرانیت اور یہودیت اصلاً اس گروہ سے تعلّق رکھتے ہیں

اسلام اصلاً ایک خالص توحیدی دین سے شروع ہوا لیکن یہودی، نصرانی، ہرمسی اور غناسطی سرّیت و تصوف سے متاثر ہوا. اس کتابچہ میں انہی لہروں کے امتزاج کا نقشہ پیش کیا گیا ہے. لہذا کتابچہ کا نام مجمع البحرین رکھا ہے یعنی وہ مقام جہاں دو سمندرآپس میں ٹکرائیں یا مل کر اپنی انفرادیت کھو بیٹھیں.  جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس امتزاج کی اصل وجہ شاید نقل اور سرقہ نہیں بلکہ اس مشابہت کا  راز راہب اور تپسوی کے اس  طریقہ کار میں پوشیدہ ہے جو انسان کی اجتماعی  سوچ اور اس کی محدودیت کا عکاس ہے

 

مکّہ میں رات کا وقت ہے. محمّد صلی الله علیہ وسلم ، ایک ایسے رب کی عبادت میں مشغول ہیں جو نظر نہیں آتا. محمّد آج  اس مقام پر اپنے خوابوں کی وجہ سے ہیں . انہوں نے نہ ہی کوئی مکاشفہ دیکھا ہے اور نا ہی مراقبہ کیا ہے. انہوں نے صرف سچے خواب دیکھے ہیں جو صبح کی روشی کی طرح حقیقت آشکار ہو رہے ہیں. محمّد جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے.  لہذا وہ اس کی حقیقت کی تلاش میں کوہ حرا پر غار میں آئے ہیں اور یہاں التحنث  (الله کے قرب کی عبادت ) میں مشغول ہیں. انہوں نے ابھی یہ چند ایام ہی کیا تھا کہ ایک فرشتہ  صورت انسانی میں نمودار ہوا اور کہا

 

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)

پڑھ ! اپنے رب کے نام سے، جس نے تجھ  کو خلق کیا.  انسان کو خلق کیا، خوں کے لوتھڑے سے. پڑھ! کہ تیرا رب بہت کرم والاہے. جس نے انسان کو قلم سے سکھایا ہے. انسان  کو وہ کچھ سکھایا ہے جس کو انسان نہیں جانتا تھا

اگلے ٢٣ سال میں وحی الہی کا نزول ہوتا ہے جس کو آج ہم قرآن کہتے ہیں.  محمّد صلی الله علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ اب یہ آخری رابطہ ہے جو الله نے اپنی انسانی مخلوق سے کیا ہے. اور یہ پیغام سادہ ہے کہ

 

وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (153)

اور بے شک یہ رستہ  میرا سیدھا رستہ ہے، پس اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو  کیونکہ یہ تم کو سیدھی راہ سے بھٹکا دیں گی.  اور یہ تم کو وصیت کی جاتی ہے تاکہ تم متقی بنو

الله نے سوره البقرہ، آیت ٢٥٦ میں کہا

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

الدین (اسلام ) میں کوئی  زبردستی  نہیں بے شک ہدایت   گمراہی سے الگ ھو چکی  ہے  پس جس نے طاغوت کا کفر کیا اور الله پر ایمان لایا اس نے مظبوط حلقہ تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں  اور الله سننے والا جاننے والا ہے

 

الله نے بتایا کہ ساری انسانیت کا ایک ہی دین تھا

وإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ (52)

اور بے شک یہ تمہاری امّت (دین) ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں، لہذا مجھی سے ڈرو

انبیاء کی دعوت اصل میں میں ایک ہی دعوت ہے. الله سوره الشوریٰ میں کہتا ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ (13) وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (14) فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَقُلْ آَمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ كِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (15)

الله نے تمہارے لئے اسی دین کا حکم دیا ہے جس کا حکم اس نے تم سے پہلے نوح کو دیا، جس کو تم پر اے محمّد نازل کیا اورجس کا حکم ابراہیم کو، موسیٰ کو اورعیسیٰ کو کیا کہ دین کو قایم کرو اور اس میں فرقے نہ بنو.  مشرکوں پر تمہاری دعوت بہت گراں گزرتی ہے . الله جس کو چاہتا ہے چنتا ہے اور اپنی طرف ہدایت دیتا ہے رجوع کرنے والے کو.  اور انہوں نے اختلاف نہ کیا ، لیکن علم آ جانے کے بعد آپس میں عداوت کی وجہ سے.  اور اگر یہ پہلے سے تمہارے رب نے (مہلت کا ) نہ  کہا ہوتا  تو ان کا  فیصلہ کر دیا جاتا. اور بلاشبہ  جن کو ان کے بعد کتاب کا وارث (یہود و نصاریٰ) بنایا گیا تھا وہ اس بارے میں سخت خلجان میں مبتلا ہیں.  پس ان کو تبلیغ و تلقین کرو اور استقامت اختیار کرو جیسا حکم دیا گیا ہے اور ان کی خواہشات کی اتباع نہ کرو بلکہ کہو: میں اس کتاب پر ایمان لایا ہوں جو الله نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں ، الله ہی میرا اور تمہارا رب ہے. ہمارے لئے ہمارا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل. ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں . بے شک الله ہم سب کو جمع کرے گا اور ہمیں اسی کیطرف پلٹنا ہے

  اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارے انبیاء ایک ہی دین پر تھے جس کا اصل توحید، انکار طاغوت، آخرت کا خوف اور الله کی مغفرت کی امید تھا. نبی صلی الله علیہ وسلم نے (صحیح مسلم) فرمایا

الأنبياء إخوة من علات وأمهاتهم شتى ودينهم واحد

انبیاء آپس میں بھائی  بھائی کی طرح ہیں جن کی مائیں جدا ہوں اور ان سب کا دین ایک ہے

ان آیات کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ اب الله کو جاننے کے لیے کسی اور ذریعہ کی ضرورت نہیں. الله کی طرف سے وحی آ چکی ہے. اس کے باوجود  انسانیت نے ایک دوسرے طرق کو استعمال کیا جس کو سرّیت و تصوف کہتے ہیں

الله تعالی سوره الحدید میں کہتا ہے

 

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الإنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (27)

پھر اس کے بعد ہم نے  اپنے انبیاء  اور عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اس کو انجیل دی اور ان ماننے والوں کے دلوں میں رحم اور رقت ڈال دی اور رہبانیت کو انہوں نے شروع کیا تاکہ الله کی رضا حاصل کریں ،  ہم نے اس کا حکم نہ دیا تھا،   لیکن وہ اس کو کما حقہ ادا نہ کر سکے پس ہم نے ایمان والوں کو اجر دیا اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں

ان وجوہات کی بنا پر اسلام کے ابتدائی دور میں تصوف کی کوئی نظیر نہیں ملتی.  اور سرّیت و تصوف کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھا گیا. لیکن ایک غیر محسوس انداز میں یہ آج اسلام میں سب سے زیادہ چلتا دھرم ہے اور اس کو شریعت کے مقابل طریقت کا نام دیا گیا ہے.  قارئین اس کتابچہ کو پڑھتے ہوۓ متحیر ہوں گے کہ کس طرح یہودی، نصرانی اور غناسطی سرّیت و تصوف کو مشرف با اسلام کیا گیا ہے

 

 

ابتداء سے ہی یہودی سرّیت میں دلچسپی لیتے رہے ہیں، چاہے یہ سحر و کہانت ہو یا مردوں اور روحوں کے ذریعے غیب بینی. اگرچہ ان کو ہمیشہ اس سے منع کیا گیا لیکن ان کی یہ دلچسپی برقرار رہی. آج یہودیت میں مروجہ سرّیت و تصوف کے کا نقطہ آغاز، قدیم بابل میں ہے. اپنے بیہودہ مقاصد کی تکمیل کے لیے بابل میں یہودی سحر میں مبتلا ہوۓ اور انہوں نے اس کو سلیمان علیہ السلام سے منسوب کیا.

                             Merkabah Mysticismمرکبہ سرّیت   

 

حزقی ایل کی کتاب کے مطابق، حزقی ایل کا تعلّق پروہت  طبقہ  سے تھا اور اناتہوت کے رہنے والے تھے. وہ یہودیوں کے اشرفیہ میں سے تھے جن کو بابلی غلام بنا کر بابل میں لے آئے تھے.  دریائے الخابور کے کنارے بابل میں ، تل آبیب میں حزقی ایل نے ایک عجیب مکاشفہ دیکھا. انہوں نے دیکھا کہ ایک بہت عظیم رتھ ہے جس کو چاروں جانب فرشتوں نے گھیرا ہوا ہے ( حزقیایل باب ١: ٢٨). اس رتھ کو حزقی ایل مرکبہ بولتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس میں نوراور بجلی کی کڑک تھی  اور یہ بادلوں میں تھا.   آگے جا کر اسی رتھ نے اہمیت اختیار کر لی اور باقاعدہ مرکبه   سرّیت کے عنوان سے  یہودیوں میں سرّیت و تصوف کا آغاز ہوا جس کو مرکوه سرّیت  بھی کہا گیا[1]. اس سرّیت کی ابتدا کا اندازہ ہے کہ ١٠٠  ق م سے لے کر ١٠٠٠ ب م تک ہے. گویا یہ طریقۂ کار عیسیٰ علیہ السلام سے ١٠٠ سال پہلے شروع ہوا اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا

حزقی ایل کے مکاشفہ میں مرکبہ پر انسانی شکل میں موجود ایک شخص  سارے ملائکہ کو تدبیر عمل دے رہا ہوتا ہے. حزقی ایل باب ١: ٢٦ میں لکھتے ہیں[2]

וּמִמַּעַל, לָרָקִיעַ אֲשֶׁר עַל-רֹאשָׁם, כְּמַרְאֵה אֶבֶן-סַפִּיר, דְּמוּת כִּסֵּא; וְעַל, דְּמוּת הַכִּסֵּא, דְּמוּת כְּמַרְאֵה אָדָם עָלָיו, מִלְמָעְלָה

And above the firmament that was over their heads was the likeness of a throne, as the appearance of a sapphire stone; and upon the likeness of the throne was a likeness as the appearance of a man upon it above.

اور آسمان سے اوپر جو ان کے سروں پر تھا  ایک عرش تھا جیسا کہ نیلم کا پتھر ہوتا ہے اور اس عرش نما پر ایک انسان نما  تخت افروز تھا

یہودیت میں ان آیات کی تشریح منع ہے اور اگر کی بھی جاۓ تو وہ بھی خفیہ اور اجازت کے بعد

یوشع بن سیرا کی کتاب الحکمت میں ہے کہ

Seek not out the things that are too hard for thee, neither search the things that are above thy strength. But what is commanded thee, think thereupon with reverence; for it is not needful for thee to see with thine eyes the things that are in secret[3].

اور ان باتوں کی ٹوہ میں نہ لگو جن کو جاننا گراں گزرے، اور نہ ہی ان باتوں کی تلاش میں رہو جو بساط سے باہر ہوں  ،  بلکہ جو حکم دیا گیا ہے اس پر احترام کے ساتھ غور کرو، یہ تمھارے لئے ضروری نہیں کہ ان چیزوں کو اپنی آنکھ سے دیکھو جو راز ہیں

چناچہ کچھ مضامین صرف خواص کے لئے تھے جو ان تحریرات کے رمز و حقائق تک پہنچ سکتے تھے.  خواص کا یہ علم عوام کے لئے نہ تھا. حزقی ایل کے اس عجیب و دہشت ناک مکاشفہ نے یہودیوں کو اس کی کے اسرار کی طرف متوجہ کیا اور مرکبہ سرّیت  کا  آغاز ہوا جس کا مقصد عرش الہی اور ملاء اعلی کے معاملات کے علم  کی رسائی تھا. سرّیت کی طرف اس رجحان کا آغاز اسلام سے پہلے ہو چکا تھا[4]

تو، تو ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد اسلام میں ایک شخص بنام عبداللہ بن سبا[5] نمودار ہوا. یہ اصلاً یمنی یہودی تھا اور اسلام لانے کا دعویدار تھا. اس نے جن عقائد کو پھیلایا ان سے مسلمان ناواقف تھے.  مسلمان مورخین خود اس کے حوالے سے خلجان میں رھے ہیں کہ یہ کون تھا کیونکہ  اس کے عقائد اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے اور عام خیال سے یہودیت سے بھی مطابقت نہیں رکھتے

الشھرستانی  اپنی کتاب الملل و النحل ص ٥٠ پر لکھتے ہیں

السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.

السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ:  تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو  مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا ۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی ( اللہ ان سے راضی ہو) ۔ اور وہ (ابن سبا)  ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی  کی امامت کے لئے بات پھیلآئی ۔ اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے اور انتقال نہیں کر گئے ۔ اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی ۔ اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ  زمین ظلم سے بھری ہے۔ اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا۔ اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے ۔ اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں

 

ابن اثیر الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٨ پر لکھتے ہیں

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم…

 

عبداللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا  پھربصرة پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ھو سکا.  اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس ائے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے. اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا. پھر اس نے کہا : ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمّد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا. اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے  لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو

مسلمان مورخین عموما یہ کہتے ہیں کہ ابن سبا کے مقاصد سیاسی تھے اور اس نے دین کوایک ہتھیار کے طور پر استمال کیا تاکہ لوگوں کو جمع کر سکے. چناچہ اس نے نئی اصطلاحات ایجاد کیں. تقریبا تمام سنی مورخین نے اس کو غالی شیعہ فرقوں میں شمار کیا ہے. لیکن ان اصطلاحات کے پیچھے چھپے خفیہ یہودی ایجنڈا کی کھوج نہیں کی گئی

اس کے عقائد کی جڑ یہودی تصوف میں جا کر ملتی ہے اور بڑے واضح یہودی اثرات نظر اتے ہیں. مثلا توریت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے الله سے کہا جب ان کو جلتے ہوۓ درخت میں دیکھا کہ میں فرعون سے کیا کہوں کہ کس سے ہم کلام ہوا؟ الله نے کہا  (خروج باب ٣ : ١٤) کہو

אֶהְיֶה אֲשֶׁר אֶהְיֶה

اھیے اشر اھیے (عبرانی میں)          أنا هو الذي هو  (عربی میں)           میں(وہ ہوں جو) میں ہوں

البدء والتاريخ ص ١٤ پر لکھتے ہیں اپنی کتاب    ابن المطهر بن طاهر المقدسي

وقول اليهود بالعبرانية ايلوهيم ادناي اهيا شراهيا ومعنى ايلوهيم الله

اور یہود کا قول ہے (الله کے اسم کے بارے میں) کہ  ايلوهيم،  ادناي،  اهيا شراهيا اور ايلوهيم کا مطلب الله ہے

 

اهيا شراهيا دراصل احیے عشر احیے کو معرب کیا گیا ہے. ابن العبري اپنی کتاب   تاريخ مختصر الدول  میں لکھتے ہیں

قال موسى: فان قالوا لي ما اسم ربك ماذا أقول لهم. قال: قل اهيا اشر اهيا أي الأزلي الذي لا يزال.

موسیٰ نے کہا: اگر وہ فرعونی مجھ سے پوچھیں کہ تمہارے رب کا نام کیا ہے تو میں کیا کہوں. الله نے کہا کہو  :   اهيا شراهيا یعنی میری ہمیشگی کو زوال نہیں

ابن منظور نے الصغانی کا قول نقل کیا ہے کہ[6]

وهو اسم من أسماء الله جل ذكره ومعنى إهيا أشر إهيا الأزلي الذي لم يزل هكذا أقرأنيه حبر من أحبار اليهود بعدن أبين ) شَراهِيا معناه يا حيُّ يا قيُّومُ بالعِبْرانِيَّةِ

 

اور یہ الله کے اسماء میں سے ایک اسم ہے اور اھیا شراھیا کہ میری ہمیشگی کو زوال نہیں  اور ایسا ہی عدن کے ایک احباروں میں سے یہودی حبر نے مجھے بتایا ہے کہ شراھیا کا مطلب  عبرانی میں یا  حی یا قیوم ہے  

 

لہذا جب عبدللہ ابن سبا نے  علی سے کہا تو، تو ہے ! تو اسکا  مفہوم تھا  کہ تو الله ہے چونکہ الله نے موسیٰ سے کہا تھا میں، میں ہوں.  ابن سبا نے وہی طرز اختیار کیا اور اپنے ما فی ضمیر کو بیان کیا. اس طرز کو علی رضی الله تعالی عنہ  فورا پہچان گئے. دوسرا علی کے بارے میں اس کا دعوی کہ وہ بادلوں میں ہیں اور بجلی کی کوند ان کی مسکراہٹ ہے . کچھ اور نہیں بلکہ حزقی ایل کے مرکبہ یا عرش پر موجود شخص سے مماثلت ہے[7]

 آیا ابن سبا علی میں حلول[8] کا مدعی تھا یا کسی اور یہودی عقیدے پر تھا،  یہ  واضح نہیں.  اسلامی تصوف میں وہ ذات جو موسیٰ سے ہم کلام ہوئی وہ علی ہے اور اس ذات نے أنا الحق كا نعرہ لگایا

روا باشد أنا الحق از درختے

چرانبود روا از نیک بختے

اس فارسی شعر کا مفہوم ہے

اگر صداۓ أنا الحق ایک درخت سے جائز ہے

تو ایک نیک بندے سے کیوں نہیں

 

صوفیہ کے بہت سے سلسلوں میں ذکر الہی بہت اہم ہے. ان محفلوں کا نقطہ عروج اس وقت ہوتا ہے جب ھو ، ھا کی مسلسل ضربیں لگائی جاتی ہیں. اس میں بعض سامعین پر حال و وجد (پا لینا) کی کفیت طاری ہوتی ہے. ذکر میں جو ترکیب سب سے زیادہ مستعمل ہے وہ الله ھو کی ترکیب ہے جس کی قرآن و حدیث میں کوئی مثال نہیں، ہاں البتہ توریت کی کتاب خروج باب ٣ آیت ١٨ کی باذ گشت ضرور سنائی دیتی ہے. الله نے موسیٰ سے کہا تھا

أنا  هو الذي هو

صوفیاء کہتے ہیں

الله هو الله هو

یہ صرف الفاظ کی تبدیلی ہے الله کو أنا سے بدل دیا گیاہے

، علم جفر، علم اعدادGematria گيمٹریا

 

سن ٣٣٤ ق م میں سکندر نے مشرق میں شام و فلسطین کو فتح کیا. اس کے نتجے میں يوناني أفكار و فلسفے کا یہودیت پر گہرا اثر ہوا. اب یہودی تصوف  میں یونانی کلچر شامل ہوا . فلو جدیاس تصوف میں کافی دلچسپی رکھتے تھے . یہاں یہودیوں نے  اسوپسفی[9] کو اپنے تصوف میں رائج کیا ، تاکہ  کائنات کے سربستہ رازوں کو جانا جا سکے اس کو انہوں نے گيمٹریا [10]   کا نام دیا. گيمٹریا کا سب سے پہلے استمال بھی فلو کے ہاں ہی ملتا ہے جس کا تعلّق دوسرے ہیکل کے دور سے ہے

مسلمان بھی اس ڈور میں پیچھے نہیں رہے انہوں نے بھی اسی طرح کا ایک طریقہ ایجادکیا جس کو ابجد، علم الاعداد یا علم جفر[11] کہا جاتا ہے. عبدللہ بن سنان کہتے ہیں کہ امام جعفر الصادق سے اولاد حسن کی کاروائیوں کا ذکر ہوا جو وہ بنو امیہ کے خلاف کر رہے تھے. امام الصادق نے کہا کہ ہمارے پاس

صحيفة طولها سبعون ذراعا بذراع رسول الله  صلى الله عليه وآله وإملائه من فلق فيه وخط علي بيمينه

علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ستر ہاتھ لمبا پرچہ ہے  جسکو الله کے نبی نے علی کو لکھوایا تھا

امام تھوڑی دیر خاموش رہے پھر گویا ہونے

وإن عندنا الجفر وما يدريهم ما الجفر ؟ قال قلت وما الجفر ؟ قال : وعاء من أدم فيه علم النبيين والوصيين ، وعلم العلماء الذين مضوا

من بني إسرائيل

ہمارے پاس جفر ہے. کیا ان کیا پتا کہ جفر کیا ہے؟ میں نے پوچھا امام یہ کیا ہے. امام علیہ السلام بولے: یہ کھال کا بنا ہوا ایک پرچہ ہے جس میں سابقہ انبیاء  اور انکے وصیوں کا علم ہے. یہ بنی اسرائیل کے گزرے ہونے علماء کا علم ہے[12]

 

الذهبی نے اپنی کتاب التفسیر و المفسرون میں ایک شاعر ابی العلآ المعری کا شعر لکھا ہے کہ

لقد عجبوا لأهل البيت لما     أروهم علمهم فى مسك جفر

ومرآة المنجم وهى صغرى         أرته كل عامرة وقفر

میں اہل بیت سے حیران ہوا  جب انہوں نے  جفر کو چھو کرعلم کا بیان کیا

اور مرآة المنجم اس میں ادنی ہے جو ہر آباد ودرویش کے لئے کارگر ہے

ابوبکر الشبلی (المتوفی ٨٦٤ ھ) کہتے ہیں

الله نے جب حروف خلق کیے تو اس نے ان کا راز پوشیدہ رہنے دیا اور جب آدم کو خلق کیا تو انکو اس کے اسرار سے اگاہ کیا لیکن کسی فرشتے کو یہ نہ پتا چل سکے[13]

النکت و العیون از الماوردی ج ١ ص ٩ کے مطابق ابجد حروف اسم اعظم کے حروف ہیں

أنها حروف من أسماء الله تعالى ، روى ذلك معاوية بن قرة ، عن أبيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم

بلا شبہ یہ الله تعالی کے نام کے حروف ہیں، اس کو معاویہ بن قرة نے اپنے باپ سے اور انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے بیان کیا ہے

 

پہلے نقشے میں ابجد کا گیمٹریا سے تقابل کیا گیا ہے.  عبرانی حروف کے مخارج کی مناسبت سے عربی حروف کو ترتیب دیا گیا ہے. جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ عبرانی حروف اپنی ترتیب ہی میں ہیں لیکن عربی حروف ترتیب میں نہیں. جس سے صاف ظاہر ہے کہ علم الاعداد، ابجد کا تعلّق عبرانی سے ہے اور اس کا تعلّق یہودی تصوف سے ہے.

علم الاعداد سے مستقبل کی رسائی کی جاتی ہے جبکہ علم ابجد سے ماضی میں جھانکا جاتا ہے

مثال ١ : عبرانی میں الله کا نام יהוה ہے جو عربی میں ي ه و ه  بنتا ہے.  ان حروف کے اعداد کا جمع ٢٦ بنتا ہے. اسی طرح ایک نام ایل ہے جس کا جمع ٣١ ہے

ي ه و ه

10+5+ 6+5=26

ایل= אל = 30+1 =31

مثال ٢: آدم کا لفظ عبرانی میں אָדָם  ہے

אָדָם = آدم = 40+4+1=45

نقشہ ١: گیمٹریا اور ابجد نظام

ہندسہ       عبرانی    عربی

 ہندسہ          عبرانی         عربی

     ہندسہ عبرانی         عربی

 1      الف    א      ا

2      بیت    ב      ب

3      جیمل   ג      ج

4      دلد     ד      د

5      ھے    ה      ه

6      و       ו       و

7      زین    ז       ز

8      ہتھ    ח      ح

9      طتھ    ט      ط

 10     ید      י       ي

20     کاف    כ      ك

30     لمد     ל      ل

40     میم     מ      م

50     نون    נ       ن

60       سمیخ ס      س 

70     عين    ע      ع

80     ف     פ      ف

90     تصد   צ      ص

 100   ق      ק      ق

200   رايش  ר      ر

300   شن    ש     ش

400   تاو     ת      ت

500   كاف(آخری) ך  ث

600   مم(آخری)ם    خ

700   نون(آخری) ן        ذ

800   ف(آخری)  ף        ض

900   تصد(آخری)ץ        ظ

1000                    غ

 

 

مثال  ٣: قرآن کی بعض سورتوں کی ابتداء میں حروف اتے ہیں جن کا مفہوم صرف الله کو پتا ہے.  سوره البقرہ کے شروع میں الم اتا ہے جس کا عدد

الم = ا ل م = 1+30+40=71

بنتا ہے. ان حروف کو تعویذات میں استعمال  کیا جاتا ہے

سریت پر ایک قدیم یہودی  کتاب سفر یزیرہ   ہے، جس میں حروف کو عناصر اور سیاروں سے ملایا گیا ہے. کتاب کا مقصد کائنات کے اسرار کو منکشف کرنا ہے. کتاب سفر یزیرہ کے مصنف  نے سات اعداد کو یونانی دور میں معلوم سات سیاروں سے جوڑا ہے. اسی طرح علم جفر میں آٹھ حرفی لفظ بنایے گئے ہیں

ابجد طریقہ کا پہلا لفظ   ابجد چار حرفی  ہے. دوسرا لفظ ھوز ، تین حرفی ہے.  تیسرا لفظ حطی  تین حرفی ہے. چوتھا لفظ کلمن چار حرفی ہے.  پانچواں لفظ سعفص چار حرفی ہے. چھٹا لفظ قرشت چار حرفی ہے. ساتواں لفظ ثخذ اور آٹھواں لفظ ضظغ ، تین حرفی ہیں

 

طبری کتاب تاریخ الرسل و الملوک میں لکھتے ہیں

حدثني الحضرمي، قال: حدثنا مصرف بن عمر واليامي، حدثنا حفص ابن غياث، عن العلاء بن المسيب، عن رجل من كندة، قال: سمعت الضحاك ابن مزاحم يقول: خلق الله السموات والأرض في ستة أيام، ليس منها يوم إلا له اسم: أبجد، هوز، حطي، كلمن، سعفص، قرشت.

الضحاك ابن مزاحم نے کہا: الله نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، کوئی دن ایسا نہیں جس کا نام نہ ھو (دنوں کے نام تھے) أبجد، هوز، حطي، كلمن، سعفص، قرشت

عبرانی میں کل بنیادی ٢٢ حروف تہجی ہیں بقیہ حروف انہی ٢٢ ہی کی شکلیں ہیں یہی وجہ ہے کہ چھٹا دن قرشت ہے کیونکہ قرشت تک عبرانی کے سارے ٢٢ حروف استمال ہوجاتےہیں

نقشہ ١ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ الفاظ عبرانی کے حروف تہجی ہیں

العسکری اپنی کتاب الاوائل میں کہتے ہیں

وقالوا: أول من وضعه أبجد وهوز وحطي وكلمن وسعفص وقرشت. وضعوا الكتاب على أسمائهم وكانوا ملوكاً.

اور کہتے ہیں: جو سب سے پہلے بنا وہ أبجد وهوز وحطي وكلمن وسعفص وقرشت تھے. اور ان کے ناموں پر کتاب بنی اور یہ بادشاہ تھے

ابن خلدون  مقدمہ میں باب ومنهم طوائف يضعون قوانين لاستخراج الغيب میں علم غیب کی رسائی پر کی جانے والی مسلمانوں کی کوششوں پر لکھتے ہیں

وصارت تسع كلمات نهاية عدد الأحاد وهي ” إيقش، بكر، جلس، دمت، هنث، وصخ، زغد، حفظ، طضغ

اور ان سے نو کلمات نکلتے ہیں جو ایک عدد دیتے ہیں اور یہ الفاظ ہیں

إيقش، بكر، جلس، دمت، هنث، وصخ، زغد، حفظ، طضغ

نقشہ ١ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ نوالفاظ ایک ہی سطر میں موجود حروف سے بنے ہیں. کچھ تبدیلی بھی ہے لیکن مصنف کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن خلدون نے ان الفاظ کو سن کر لکھا ہے

جواد علی اپنی کتاب المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام میں لکھتے ہیں

ولمسألة ترتيب الحروف اهمية كبيرة لا تقل عن اهمية أسماء الحروف. ويظهر إن ترتيب ” أبجد هوز حطي..، الخ”، وهو ترتيب سار عليه العرب أيضاً، هو ترتيب قديم، وقد عرف عند السريان وعند النبط والعبرانيين،وعند “بني إرم” ويظن انهم أخذوه من الفينيقيين. وقد سار عليه الكنعانيون أيضاً،

اور حروف کی ترتیب کا مسئلہ نہایت اہم ہے … اور یہ اس ترتیب میں ظاہر ہوتے ہیں ” أبجد هوز حطي..، الخ  اور اسی ترتیب کو عربوں نے لیا ہے، اور یہ ایک قدیم ترتیب ہے، جس سے سریان والے (یعنی شام)، نبط والے، عبرانی بولنے والے، بنی ارم واقف تھے اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسکو الفينيقيين (قدیم شام)  سے لیا ہے  اور ان سے کنعان والوں نے بھی

 

معلوم ہوا کہ مسلمان ان الفاظ کے ماخذ سے لا علم رہے ہیں، کچھ نے کہا یہ تخلیق کے چھ ایام کے نام ہیں، کچھ نے کہا یہ بادشاہوں کے نام ہیں لیکن سب اس پر متفق ہیں کہ یہ الفاظ قدیم ہیں

اسم اعظم

 

یہودی تصوف کی ایک اہم قدیم کتاب شر قومہ ہے.  اس کتاب کا بیشتر حصہ مکاشفات پر مبنی ہے جس میں سب سے اہم فرشتہ  متطروں ہے جو ربی یشماعیل پر آنے والے واقعات کو القاء کرتا ہے اور ربی یشماعیل کے شاگرد  اور ربی عقبه    اس کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں. کتاب شر قومہ  تجسیم الہی  کی طرف مائل ہے اور اس میں خدا کے  جسم کے اعضا اور انکی پیمائش دی گئی ہے. کتاب میں لکھا ہے کہ

Everyone who knows the measure of the Creator is sure to be a son of the World to Come, and will be saved from the punishment of Gehinnom, and from all kind of punishments and evil decrees about to befall the world, and will be saved from all kind of witchcraft, for He saves us, protects us, redeems us, and rescues me from all evil things, from all harsh decrees, and from all kinds of punishments for the sake of His Great Name.” Shiur Qomah 1:2

 

ہر وہ شخص جو الخالق کی پیمائش جانتا ہوگا وہ بلا شبہ آنے والی دنیا کا بیٹا ھو گا، اور جہنم کی آگ سے نجات پائے گا، اور ہر طرح کی سزا سے اور ان مصائب سے جو دنیا پر آنے والے ہیں، اور  پر طرح کے جادو سے، کیونکہ وہ (الخالق) اس سے بچائے گا، محفوظ رکھے گا، نکالے گا،  اور مجھ کو  شر سے بچائے گا، سخت احکامات اور ساری  سزاؤں سے  اپنے  اسم اعظم کی وجہ سے     شر قومہ ١ میں

 

اسلام میں دوسری صدی میں عراق میں ایک گمراہ شخص بنام مغیرہ بن سعید (المتوفی ١١٩ ھ) گزرا ہے. یہ ایک سیاسی و مذہبی شخص تھا. ابن حزم اس کے بارے میں الملل  میں لکھتے ہیں

یہ کوفی تھا. اس کو خالد بن عبدللہ کے حکم پر زندہ جلایا گیا. یہ کہا کرتا تھا کہ اسکا رب ایک جوان آدمی جیسا ہے اور اس کے اعضا کی تعداد حروف ابجد کے برابر ہے. مشھور کذّاب جابر بن یزید الجعفی ، مغیرہ کے بعد  اس کا پیامبر تھا. مغیرہ نے اپنے حواریوں کو حکم دے رکھا تھا کہ  شیعہ کے امام محمّد بن عبدللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب، یعنی حسن رضی الله تعالی عنہ کے پڑ پوتے ہیں.  مغیرہ  نے یہ دعوی بھی کیا کہ جبریل اور میکائیل نے رکن (کعبہ)  اور مقام (ابراہیم) کے درمیان محمّد بن عبدللہ کی بیعت کی ہے . اس نے تاویل[14] قرآن کو بھی ایجاد کیا. اس نے یہ کہا کہ قرآن میں عدل سے مراد علی، احسان سے مراد فاطمه، ذوی القربی سے مراد حسن اور حسین ہیں اور الفحشاء و المنکر سے مراد ابوبکر اور عمر ہیں

 

ابو الحسن الشعری مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين  میں لکھتے ہیں[15]

والفرقة الرابعة منهم المغيرية أصحاب المغيرة بن سعيد يزعمون أنه كان يقول أنه نبي وأنه يعلم اسم الله الأكبر، وأن معبودهم رجل من نور على رأسه تاج وله من الأعضاء والخلق مثل ما للرجل وله جرف وقلب تنبع منه الحكمة وأن  حروف أبي جاد على عدد أعضائه قالوا: والألف موضع قدمه لاعوجاجها وذكر الهاء فقال: لو رأيتم موضعها منه لرأيتم أمراً عظيماً يعرض لهم بالعورة وبأنه قد رآه لعنه الله، وزعم أنه يحيي الموتى بالاسم الأعظم ….. فكان أول من خلق منها محمداً صلى الله عليه وسلم

 (شیعوں کا) چوتھا گروہ المغیریہ ہے یعنی مغیرہ بن سعید کے ماننے والے. ان کا یہ خیال تھا کہ مغیرہ نبی تھا اور اسم اعظم  جانتا تھا. انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ ان کا معبود نوری ہے اور انسان جیسا ہے جس کے سر پر تاج ہے . اس کے اعضا انسان جیسے ہیں . اس کا پیٹ اور دل ہے جس سے حکمت نکلتی ہے اور اس کے انتے ہی اعضا ہیں جتنے حروف ابجد ہیں.  تھوڑا ترچھا الف معبود  کا قدم ہے اور ھ کے لئے انہوں نے دعوی کیا کہ اگر تم نے اس کو دیکھا تو گویا ایک امر عظیم دیکھا! اس سے ان کا مطلب پوشیدہ اعضا ہیں. یہ ملعون کہتا تھا کہ اس نے ان کو دیکھا ہے. اس نے اسم اعظم کو جاننے کا بھی دعوی کیا جس سے یہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے .. اس نے یہ دعوی بھی کیا کہ محمّد صلی الله علیہ وسلم پہلی تخلیق ہیں

 سلیمان کے دربار کے اس شخص کے بارے میں جس کو کتاب کا علم دیا دیا تھا ، الکافی باب ١٦ کی روایت ہے کہ[16]

محمد بن يحيى وغيره ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن محمد بن  الفضيل قال : أخبرني شريس الوابشي ، عن جابر ، عن أبي جعفر عليه السلام قال : إن اسم الله  الأعظم على ثلاثة وسبعين حرفا وإنما كان عند آصف منها حرف واحد فتكلم به فخسف  بالأرض ما بينه وبين سرير بلقيس حتى تناول السرير بيده ثم عادت الأرض كما  كانت أسرع من طرفة عين ونحن عندنا من الاسم الأعظم اثنان وسبعون حرفا ، وحرف  واحد عند الله تعالى استأثر به في علم الغيب عنده ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي  العظيم .

الله کے اسم اعظم کے تہتر ٧٣ حروف ہیں. ان میں سے صرف ایک حرف کو ادا کیا گیا تھا کہ اسکے اور ملکہ شیبا کے درمیان زمین کو دھنسا دیا گیا کہ اس نے تخت تک ہاتھ بڑھا لیا اور زمین واپس اپنی جگہ لوٹ آئی. یہ سب پلک جھپکتے میں ہوا.  ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتر حروف ہیں . الله نے علم  غیب میں ایک ہم سے پوشیدہ رکھا ہے…

 

طبقات الصوفیہ ص ٢٧ میں ابراہیم بن ادھم کی حکایت ہے کہ

سمعت أبا العباس، محمدَ بن الحسن بنِ الخشاب، قال: حدثنا أبو الحسن عليُّ بن محمد بن أحمد المصري، قال: حدثني أبو سعيد أحمدُ بن عيسى الخَرَّاز، قال: حدثنا إبراهيم بن بَشَّار، قال: ” صحبت إبرهيم بن أدهم بالشام، أنا و أبو يوسف الغَسُولى، و أبو عبد الله السنِّجارى. فقلت: يا أبا إسحاق! خبِّرني عن بَدْءِ أمرك، كيف كان ” – قال: ” كان أبي من ملوك خُراسان. و كنت شاباً فركبت إلى الصَّيد. فخرجت يوماً على دابَّة لي، و معي كلب؛ فأَثَرْت أرنباً، أو ثعلباً؛ فبينما أنا أَطْلُبه، إذ هتف بي هاتف لا أراه؛ فقال: يا إبراهيم: إلهذا خلقتَ؟! أم بهذا أُمِرت؟!. ففَزِعتُ، و وقفتُ، ثم عدتُ، فركضتُ الثانية. ففعل بي مثلُ ذلك، ثلاثَ مرات. ثم هتف بي هاتف، من قَرَبُوس السَّرْج؛ و الله ما لهذا خُلِقتَ! و لا بهذا أُمِرتَ!. فنزلت، فصادفت راعياً لأبي، يرعى الغنم؛ فأخذت جُبَّتَه الصوفَ، فلبِستها، و دفعت إليه الفرس، و ما كان معي؛ و توجهت إلى مكة. فبينما أنا في البادية، إذا أنا برجل يسير، ليس معه إناءٌ، و لا زادٌ. فلما أَمْسَى، و صلّى المغربَ، حرَّكَ شفتيه، بكلامٍ لم أفْهَمه؛ فإذا أنا بإناءٍ، فيه طعامٌ، و إناءٍ فيه شرابٌ؛ فأكلتُ، و شربتُ. و كنتُ معه على هذا أيَّاماً؛ و علمني ” اسمَ اللهِ الأعظمَ ” . ثم غاب عني، و بقيتُ وحدي. فبينما أنا مُسْتَوْحش من الوحدة، دعوتُ اللهَ به؛ فإذا أنا بشخص آخِذٍ بحُجْزَتي؛ و قال: سَلْ تُعْطَهْ. فَراعَني قولُه. فقال: لا رَوْعَ عليك! و لا بَأْسَ عليك!. أنا أخوك الخَضْر. إن أخي داود، عَلّمك ” اسمَ اللهِ الأعظم ” ، فلا تَدْعُ به على أحد بينك و بينه شَحْنَاء، فتُهْلِكه هَلاكَ الدنيا و الآخرة؛ و لكن ادْعُ الله أن يُشَجِّع به جُبْنَك، و يُقوّيَ به ضَعفَك، و يُؤْنِسَ به وَحْشتَك، و يجدِّدَ به، في كل ساعة، رَغبتَك. ثم انصرف وتركني. “

إبراهيم بن بَشَّار بیان کرتے ہیں کہ میں إبرهيم بن أدهم  کے ساتھ شام  میں تھا  میرے ساتھ  أبو يوسف الغَسُولى، اور أبو عبد الله السنِّجارى بھی تھے . پس میں نے ان سے اس طریقہ پر ان کی ابتداء کے بارے میں پوچھا یہ سب کیسے ہوا؟ انہوں نے بتایا : میرے والد خراسان کے بادشاہوں میں سے تھے اور میں جوان تھا شکار کے لئے نکلا. پس ایک دن اپنی سواری پر نکلا اور میرے  ساتھ (شکاری) کتے تھے  میں ایک خرگوش یا لومڑی کے پیچھے گیا ابھی پکڑنے والا تھا کہ ہاتف غیبی نے پکارا اور کہا اے ابراہیم کیا  اس کام کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے؟  کیا اسکا حکم کیا گیا ہے؟  میں خوفزدہ ہوااوررکا اور انتظار کیا پھر دوسری بار چلا پھر ایسا ہی ہوا تین دفعہ. اب ہاتف کی آواز زین سے آئی الله کی قسم !   کیا  اس کام کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے؟  کیا اسکا حکم کیا گیا ہے؟ میں سواری سے  اترا،  اور اپنے باپ کے لئے کام کرنے والے چرواہے کے پاس آیا اسکا اون کا جبّہ پہنا ، گھوڑوں کو جو کچھ میرے پاس تھا وہ سب  واپس کیا اور مکّہ کا رخ کیا. جب میں بیابان میں رستے میں ایک بھٹکتا انسان تھا ، نہ کوئی برتن تھا اور نہ ہی کچھ  اور پس شام ہوئی اور میں نے مغرب  کی نمازپڑھی  میرا ہونٹ ہلا اور ایسا کلام ادا ہونے لگا جو میں نہیں سمجھ سکا،  پس یکایک میرے آگے برتن تھا جس میں کھانا تھا اور برتن تھا جس میں مشروب تھا پس میں نے کھایا اور پیا اور ان دنوں وہ  برتن میرے پاس رہے اور مجھے اسم الله الأعظمَ سکھایا پر مجھ سے کھو گیا اور باقی رہ گیا. پس میں اپنی وحشت میں ایک  تھا  میں نے اس سے الله کو پکارا پس ایک شخص نے مجھے پکڑا اور کہا مانگو عطا کیا جائے گا،  میں ڈرا اس کلام سے، کہا: مت ڈرو، کوئی برائی نہیں! میں تمہارا بھائی خضر ہوں. بے شک میرے بھائی داود نے تم کو اسم الله الأعظمَ سکھایا تھا پس اس نام کو اس لئے استمال نہ کرنا کہ جس سے تمہارا جھگڑا ھو تو تمہاری دنیاو آخرت ہلاک ہو جاۓ گی لیکن اس سے الله کو پکارنا  تمہیں شجاعت ملے گی، کمزوری میں طاقت ملے گی ، وحشت میں مونست ملے گی اور ہر پل تمہاری لگن میں اضافہ ھو گا. یہ کہ کر وہ چلا گیا

  

ابو یزید البسطامی (المتوفی ٢٦١ ھ) کہتے ہیں[17]

وقيل له: علمنا الاسم الاعظم. قال: ليس له حد، إنما هو فراغ قلبك لوحدانيته، فإذا كنت كذلك، فارفع له أي اسم شئت من أسمائه إليه

اس سے کہا گیا: ہمیں اسم الله الأعظمَ سکھائیں. بولے: اس کی کوئی حد نہیں یہ تو تیرے قلب کی یکسوئی پر مبنی ہے، پس جب یہ ھو تو کسی بھی نام  سے پکارو جوالله کے نام ہیں

مُردوں کے ذریعے غیب بینی یہودیوں میں

 

حشر دوم کے بعد، جب یہودیوں پر مصائب آئے اور وقت گزرتا گیا تو یہودیوں میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں  علم روایت   ضائع نہ ھو جائے اور فریسی دور ( ٥٣٦ ق م سے ٧٠ ب م) سے متعلق علم کھو جائے. اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوۓ ربی یہودا ھناسی    ( جن کو یہودا شہزادہ بھی کہا جاتا ہے) نے مشنا ٢٢٠ ب م میں مرتب کی. اس کے بعد مشنا کی شرح تقریبا ٤٠٠ ب م میں  فلسطین میں لکھی گئی جس کو آج یروشلم تلمود بولتے ہیں.   دوسری شرح  ٤٠٠ ب م سے ٦٠٠ ب م تک بابل میں لکھی گئی اور اس کو بابلی تلمود بولتے ہیں. ٥٧٠ ب م میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی. لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور کے  یہود کے بارے میں جاننے کے لئے سب سے معتبر ذریعہ مشنا اور اس کی شرح  تلمود ہے. یہ ثابت کرنے کے لئے کہ مردے انسانوں کے احوال سے واقف ہوتے ہیں تلمود میں احوال القبور بیان کیے گئے ہیں کہ[18]

It once happened that a pious man gave a denarius to a a bagger on the new year eve in the time of drought. His wife upbraided him so he went and spent the night in the cemetery. He heard two spirits conversing. One said to the other come friend let us wonder in the world and hear behind the curtain, what visitation is to befall the world. The other spirit replied I cannot because I am buried in a matting of reeds. But do you go and report me what you hear. She went and having wandered about, returned. The other asked, what did you hear friend, behind the curtain? She replied I heard that if one sows in the first rainfall the hail will smite it. This man there upon went and sowed in the second rainfall. The hail destroyed everybody’s crops but not his. The following year he spent the new year’s night in the cemetery, and heard the same two spirits conversing. One said to the other come let us wonder in the world and hear behind the curtain what visitation is to befall the World? The spirit replied have I not told you friend that I cannot because I am buried in a matting of the reeds? But do you go and come and tell me what you hear? She went and wandered about and returned the other spirit asked what did you hear behind the curtain that if one sows the second rainfall it be smitten by the blast. This man went and sowed the first rainfall. What everybody else sowed was smitten by the blast, but not his. His wife asked him, how is that last year every bodies crop was destroyed by hail, but not yours and this year everybody’s crop is blasted except yours? He told her the whole story[19]

ایک بارایسا ہوا کہ ایک نیک آدمی نے نئے سال کے موقع پر فقیر کو دینار دیا جبکہ خشک سالی کا دور تھا ۔ اس کی بیوی نے اس پر ملامت کی اور وہ  گھر سےچلا گیا کہ رات قبرستان میں گزارے ۔ اس نے وہاں دو روحوں کو باہم مخاطب سنا ۔ ایک روح  نے دوسری روح سے کہا کہ آو دوست دنیا  میں گھومیں  اور پردہ کے پیچھے سے سُنیں ۔ دوسری روح نے جواب دیا میں یہ نہیں کر سکتا کیونکہ میں ایک چٹائی کے تنکے کے جوڑوں میں دفن ہوں ۔ لیکن تم جاؤ اور مجھے جو سنو اس کی رپورٹ دو ۔ پہلی روح گئی اور واپس آئی ۔ دوسری روح نے پوچھا کہ دوست  پردہ کے پیچھے کیا سنا؟ اس نے جواب دیا میں نے سنا ہے کہ پہلی بارش کے اولے فصل تباہ کریںگے ۔ یہ شخص وہاں سے واپس گیا اور دوسری بارش میں بویا ۔ اولوں نے ہر ایک کی  فصل کو تباہ کیا  لیکن اس کونقصان نہ ہوا ۔ اگلے سال اس شخص نے پھر نئے سال کی رات قبرستان میں گزاری اور دوبارہ  دو روحوں کو باہم مخاطب سنا  ایک روح  نے دوسری روح سے کہا کہ آو دوست دنیا  میں گھومیں  اور پردہ کے پیچھے سے سُنیں  کہ دنیا والوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟ روح نے جواب دیا یہ نہیں کر سکتا کیونکہ میں ایک چٹائی کے تنکے کے جوڑوں میں دفن ہوں ؟ لیکن تم جا کر پتا کرو اور مجھے بتاو کیا تم نے سنا؟ وہ گئی اور گھومتی پھرتی رہی اور پہلی روح نے پوچھا کہ کیا آپ پردے کے پیچھے گئے ؟ بولی:  دوسری بارش میں جو بوئے گا وہ تباہ ہوگا ۔ یہ شخص لوٹ آئا اور پہلی بارش میں بویا. لیکن جنہوں نے دوسری بارش میں بویا تھا وہ سب مارے گیے  ۔ اس کی بیوی نے اس سے پوچھا  کہ گزشتہ سال ہر شخص کی فصل تباہ ہوئی، مگر تمہاری فصل بچ گئی اور اس سال ہر شخص کی فصل مُرجھائی  سوائے تمہاری؟ اس شخص نے پوری کہانی بیوی کو بتائی

تلمود میں ایک دوسری حکآیت بھی بیان ہوئی ہے

Zeiri left a some of money incharge of his land lady. During the time he went to the school of his master and returned, she died. He followed her to the cemetery and asked her where is the money? She replied go and take it from beneath the door’s socket in such and such place and tell my mother to send my comb and tube of eye paint through so-and-so who will arrive here tomorrow[20].

 

زیری نے اپنے گھر کی مالکہ کے پاس کچھ پیسے رکھوائے. اس دوران جبکہ وہ مدرسہ میں استاد کے پاس تھا مالکہ کا انتقال ہو گیا. وہ اسکے پیچھے قبرستان تک گیا اور اس (میّت) سے پوچھا کہ مال کہا ہے؟ بولی جاؤ جا کر دروازے کے ساکٹ میں فلاں جگہ سے نکال لو اور میری ماں کو بولو کہ کنگھا اور سرمہ فلاں کے باتھ بھیج دے جوکل آے گا

ایک اور حکایت سننے اور سر دھنیے

The father of Samuel was entrusted with some money belonging to orphans at the time he passed away, Samuel was not with him. People called after him, son of consumer of the orphans’ money. He went after his father to the cemetery and said to them, I want Abba. They replied there are many of that name here. He said to them, I want Abba, the father of Samuel where is he? They answered he has gone up to the heavenly seminary where the Torah  is studied. In the meantime he noticed a former colleague named Lev, who was seated a part. He asked him, why do you sit a part? Why have you not gone up to the heavenly seminary? He replied I was told, the number of years you did not attend the seminary of R. Aphes, and caused him grief on that account, he will not permit you ascend to the heavenly seminary.  In the meanwhile his father arrived and Samuel noticed that he wept and laughed.  He said to him why do you weep? He answered because you will soon come here. And why do you laugh? Because you are very highly esteemed, let them allow Levi  to enter and they permitted him to enter. He asked his father, where is the orphans money? He replied go and take it from the enclosure of the mill. The upper and lower sums of money belong to us. The middle sum belongs to the orphans. He asked his father why did you act in this manner. He replied should thieves come to steal they would steal ours. Should the earth destroy, it would destroy ours[21].

 

 سیموئیل کے باپ کو کچھ پیسوں کا نگہبان بنایا گیا تھا جو  یتیموں کے لئے  تھے. سیموئیل کے باپ  کی وفات ہوئی اور اس  وقت سیموئیل اس کے ساتھ نہیں تھا ۔ لوگ اس کے بعد سیموئیل کو  یتیم کا مال کھانے والے کا بیٹا کہتے۔ سیموئیل اپنے والد کے قبرستان گیا اور کہا، مجھے  ابّا چاہیے  ہیں ۔ ارواح نے جواب دیا یہاں اس نام کے بہت سے ہیں ۔ سیموئیل نے کہا میں سیموئیل کا باپ چاہتا ہوں ، وہ کہاں ہے؟ ارواح نے جواب دیا کہ وہ آسمانی مدرسے کے لئے جہاں تورات کا مطالعہ ہے چلے گئے ہیں ۔ اس دوران سیموئیل نے محسوس کیا ایک سابق ساتھی لاوی کی روح بھی وہاں ہے  . سیموئیل نے اس سے پوچھا آپ کیوں دور بیٹھے ہیں؟ کیوں آپ آسمانی مدرسہ نہیں گئے ؟ اس نے جواب دیا مجھے بتایا گیا ہے کہ، میں ربی  افس  کےمدرسے میں کئی  سال غیر حاضر رہا اور اس بنا پر، وہ  مجھے اجازت نہیں دے رہےکہ میں آسمانی مدرسے کے لیے چڑھ جاؤ، یہ غم اسی  وجہ سے ہے ۔ اسی اثنا میں سیموئیل کے والد پہنچے اور سیموئیل نے محسوس کیا کہ وہ روتے اور ہنستے تھے ۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے کہا؟ انہوں نے جواب دیا، کیونکہ تم جلد یہاں آؤ گے ۔ اور آپ کیوں ہنستے ہیں؟ کیونکہ تمہاری یہاں بہت عزت ہے تم لاوی کو داخل کرنے کے  لیے اجازت دلاؤ. اور انہوں نے اجازت دے دی ۔ سیموئیل نے اپنے والد سے پوچھا کہ یتیموں کی رقم کہاں ہے؟ کہا: جاؤ  دیوار سے لے لو ۔ پیسے کی بالائی و زیریں رقوم ہم سے تعلق رکھتی ہیں ۔ درمیانی رقم سے یتیموں کا تعلق ہے ۔ سیموئیل نے پوچھا : کیوں آپ اس انداز میں عمل کرتے تھے  ۔ انہوں نے جواب دیا چور، چوری کرنے کے لیۓ آیئں تو وہ ہمارا مال چوری کریں ۔ زمین تباہ کرے تو یہ ہمارے مال کو تباہ کرے ۔

 

 

غیر یہودیوں کےلئے جہنم میں عذاب کی حکایت بیان کی گئی

A tradition exist to the effect that the sufferers in Gehinnom enjoyed a respite every Sabbath. It is mentioned in a dialogue between the Roman governor, Tineius Rufus and R. Akiba[22]. The Roman asked, how is the Sabbath different from any other day? The Rabbi retorted, how are you a Roman official different from any other man? Rufus said the Emperor was pleased to honour me;  and Akiba replied: Similarly the Holy One the blessed be He, was pleased to honour the Sabbath. How can you  How can you prove that to me? Behold the river Sabbatyon carries stones as it flows all the days of the week but it rests on Sabbath. To  a distant place you lead me! Akiba said, Behold a necromancer can prove it because the dead ascend all the days of the week but not on Sabbath.  You can test my statement by your father. Later on Rufus had occasion to call up his father’s spirit. It ascended everyday of the week but not on Sabbath. On Sunday he caused him to ascend  and asked, have you become a Jew since your death? Why did you come up every day of the week but on the Saturday? He replied  Whoever does not observed the Sabbath with you on Earth does so voluntarily, but here he is compelled to keep the Sabbath.[23].

ایک روایت موجود ہے کہ  سبت کے دن ، جہنم میں  کچھ مہلت ملتی ہے۔ اس  حکایت  کا رومی گورنر ٹانییوس روفس اور ربی  عقبہ کے درمیان ایک مکالمے میں ذکر کیا گیا ہے ۔ رومی گورنر نے پوچھا: کس طرح سبت کا دن کسی بھی دوسرے دن سے مختلف ہے؟ ربی عقبہ بولے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایک رومن اہلکار کسی دوسرے انسان سے مختلف ہے؟ روفس نے کہا کہ بادشاہ میری عزت  افزائی کرکے  راضی ہے ۔ ربی عقبہ نے جواب دیا: اسی طرح پاک ،مبارک ذات (الله)  اس سبت کی عزت سے راضی ہے ۔ روفس نے کہا کس طرح ؟ کس طرح یہ ثابت کر سکتے ہیں ؟ ربی نے جواب دیا  ایسے کہ سبباتیاون ہر روز  ، پتھروں کے ساتھ بہتاہے  لیکن سبت کو نہیں ۔  (اس بحث میں آپ مجھے )ایک دور دراز جگہ لے گئے، عقبہ بولے! میری بات کی تایید ایک ساحر کر سکتا ہے کہ  مردے آسمان پر ہفتہ کے  تمام ایام چڑھ  سکتے ہیں سواۓ سبت کے.  آپ روفس اپنے والد سے پتا کر سکتے ہیں ۔ بعد ازاں روفس کا اپنے باپ کی روح سے رابطہ کرنے کا موقع ملا ۔ یہ ہر روز چڑھ سکتی تھی سواۓ سبت کے ۔ روفس  نے اپنے باپ سے پوچھا، آپ اپنی موت کے بعد سے کیا یہودی بن چکے ہیں؟ آپ ہفتہ میں  ہر روز آئے لیکن سبت کو کیوں آئے تھے؟ انہوں نے جواب دیا جو شخص سبت کے دن زمین پر مناتا ہے،  تو وہ یہ رضاکارانہ طور پر کرتا ہے، لیکن یہاں وہ سبت کا دن رکھنے پر مجبور ہے ۔

تلمود میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ روحانی مخلوق غیر مرئی ہیں, لیکن ایک عمل کے بعدانہیں دیکھ سکتے ہیں[24]

Who wishes to perceive their footprints should take sifted ashes and sprinkle them around his bed. In a morning he will see something resembling the footprints of cock. Who wishes to see them should take ……. Roast it in fire, pulverize it then fill his eyes with it and he will  see them.. rabbi did that.. [25].

جو ان کے قدموں کے نشان دیکھنا چاہتا ھو اسے چاہیئے کہ چھنی ہوئی راکھ لے اور اسے اپنے بستر کے ارد گرد چھڑکے ۔ صبح میں اس کو کچھ مرغ کے پا ؤں سے ملتے جلتے نشانات نظر آیئں گے ۔ جو ان کو دیکھنا چاہے  وہ لے … (ان چیزوں کو ) آگ میں بھونے اور اس کو پیسے اور اس کے اجزاء کو اپنی آنکھیں پر ملے .. وہ ان روحانی مخلوقات کو دیکھیں گے… ایک ربی ایسا کیا تھا…

مُردوں اور روحوں سے غیب بینی مسلمانوں میں

ارواح ، مسلمانوں کو راہ دکھاتی ہیں، شاہ والی الله (المتوفی ١١٧٦ ھ) انتباہ فی سلاسل اولیاء الله میں ص ١١٣/١١٤

لکھتے ہیں

کشف القبور کا طریقہ:

ذکر کشف قبور جان کہ ذکر کشف قبور کے واسطے اول جب مقبرہ میں ائے دوگانہ ان بزرگ کی روح کے واسطے پڑھے سوره فتح یاد ھو پہلی رکعت میں پڑھے اور دوسری میں سوره الخلاص اورنہیں تو ہر رکعت میں پانچ پانچ بار اخلاص پڑھے اور پھر قبلہ کیطرف پیٹھ کرکے بیٹھے اورایک بار آیتہ الکرسی اور بعضی سورتیں جو زیارت کے وقت پڑھتے ہیں جسے سوره الملک اور اسکے بعدہ قل کہے بعد فاتحہ کے گیارہ بار سورہ الخلاص پڑھے اور ختم کرے اورتکبیر کہے بعدہ سات دفعہ طواف (قبر) کرے اور اسمیں تکبیر پڑھے اور شروع دائیں طرف سے کرے اورپھر پاؤں کی طرف رخسار رکھے  اور نزدیک میّت کے منہ کے بیٹھے اور کہے یارب اکیس دفعہ بعدہ  اول طرف آسمان کے کہے یا روح الروح جب تک کہ النشراح پائے یہ ذکر کرے انشاء الله تعالی کشف قبور و کشف الارواح حاصل ھوگا

اشرف علی تھانوی اپنی کتاب اعمال القرانی میں ص ٥٤ پر روحانی اشخاص کو دیکھتے کا نسخہ بتاتے ہیں

جو شخص دفینہ و خزانہ پر مطلع ہونا چاہے تو ان آیتوں کو تانبے کے برتن پر مشک و زعفران سے لکھے پھر ہلیلہ زرد و آب طوبہ میوہ سبز سے اس کے حروف دھو کر سیاہ مرغی کا پتہ یا سیاہ بطخ کا پتہ اور پانچ مثقال سرمہ اصفہانی لے کر اس پانی میں ملا کر خوب باریک پیسے حتیٰ کہ وہ باریک سرمہ ھو جآوے اور رات کے وقت پیسا کرے تاکہ اس پردھوپ نہ پڑے جب سرمہ بن جائے کانچ کی شیشی میں رکھ کر اور آبنوس کی سلائی سے اسکا استعمال اسطرح کرے کہ اول جمعرات کے دن روزہ رکھے جب نصف شب کاوقت ھو درود شریف پڑھے اور آیات موصوفہ ستربار پڑھے اور ستر بار استغفار پڑھے پھر ستر مرتبہ درود شریف پڑھے اوراسی سلائی سے دونوں آنکھوں میں تین تین بار سلائی اس  سرمہ کی لگاوے اور داہنی آنکھ میں پہلے لگاوے اسطرح سات جمعرات تک کرے کہ دن میں روزہ رکھے اور رات کو درود شریف و آیات پڑھے اور سرمہ لگاوے اس شخص کو  اشخاص روحانیہ نظر آویں گے  ان سے جو کچھ پوچھنا ھو پوچھ لے

 

آدم قدموں: انسان کامل اور تخلیق اول کی بحث

 

یہودی تصوف میں وہ ذات جو سب سے پہلے الله  کے نور سے جدا ہوئی وہ آدم قدمون ہے. فلو نے اس پر بحث کی ہے اور کہا ہے یہ یہ ذات لوگوس کی سب سے کامل صورت ہے[26]. تلمود میں ربی عقبہ کہتے ہیں

How favoured is man, seeing that he was created in the image! as it is said, ‘For in the image, אֱלֹהִ֔ים made man'” (Genesis  9:6)

انسان پر کتنی مہربانی کی گئی ہے،  کہ اسکو  (الله کے) صورت پر بنایا گیا، جیسا کہاگیا ہے، صورت میں אֱלֹהִ֔ים نے آدم بنایا ‘ پیدائش 9:6

عبدالکریم الجیلی (المتوفی٨٣٢ ھ) اپنی کتاب الانسان الکامل میں اس کا اسلامی نظریہ پیسش کرتے ہیں کہ

ان الانسان الکامل هو القطب الذی تدور عليه افلاک الوجود من اوله الٰی اٰخره وهو واحد منذکان الوجود الی ابد الاٰبدين، ثم له تنوع فی ملابس و يظهر فی کنائس فيسمی به باعتبار لباس، ولا يسمی به باعتبار لباس اٰخر، فاسمه الاصلی الذی هو له محمد وکنيته ابو القاسم ووصفه عبداللّٰه ولقبه شمس الدين، ثم له باعتبار ملابس اخری اسامی وله فی کل زمان اسم ما يليق بلباسه فی ذلك الزمان. فقد اجتمعت به صلی اللّٰه عليه وسلم وهو فی صورة شيخی شرف الدين اسمٰعيل الجبرتی وکنت اعلم انه النبی صلی اللّٰه عليه وسلم وکنت اعلم انه الشيخ. (ورقه ٤٦ اب ٢٩

انسان الکامل وہ محور ہے جس پر ابتداء سے انتہا تک کی تمام تخلیق گھوم رہی ہے. اور ابتداء سے انتہا تک یہ ایک ہی ذات ہے. اس کے متفرق جلوے ہیں. یہی ذات یہودیوں کے عبادت خانوں میں ظاہر ہوتی ہے لیکن جدا جلووں میں اور مختلف زمانوں میں اس کا نام الگ الگ تھا. اس کا اصلی نام محمّد اور کنیت ابو القاسم ہے. اس کی صفت عبداللہ ہے.  اور لقب شمس الدین ہے. اس کے اور نام بھی ہیں اپنے ظہور کے حساب سے. اور ہر زمانے میں اسکاالگ نام تھا. میں نے اس ذات کو اپنے شیخ شرف الدین اسماعیل الجبراتی میں دیکھا ہے. میں جانتا تھا کہ یہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم ہیں اور یہ کہ یہ میرے شیخ بھی ہیں

 مزید لکھتے ہیں

الله کی ساری بادشاہت پر ان  اقطاب اور اشخاص کو تمکنت حاصل ہوتی ہے.  یہ ذات جانتی ہے کہ دن ورات میں کیا چٹخا ہے اور پرندوں نےکیا بولاہے. اور شبلی کہتے ہیں: اگر سیاہ رات میں ایک چیونٹی کسی سخت چٹان پر چڑھے اور اس کے چلنے کی آواز میں نہ سنتا ہوتا تو میں ایسا نہ کہتا اور سمجھتا کہ مجنوں ہوں یا دھوکہ میں ہوں


[1] یہ بات اہم ہے کہ اسلامی تصوف میں مکاشفہ کو مراقبہ کہا جاتا ہے جس میں مختلف مدارج اور منازل ہوتی ہیں لیکن مرکبہ کی طرح مقصد مشاہدہ ذات الہی ہی ہوتا ہے لہذا مرکبہ اور مراقبہ  کا انجام ایک ہی ہے

[2] http://www.mechon-mamre.org/p/pt/pt1201.htm

[3] Book of the All-Virtuous Wisdom of Joshua ben Sira

[4] بعض مسلمان  متصوفین یہ کہتے ہیں کہ  یہودی تصوف جس کو قبالہ کہا جاتا ہے اس کا آغاز یورپ میں ہوا. حالانکہ  یہودی تصوف  قبالہ خود پرانی روایت پر مشتمل ہے اور کوئی نئی ایجاد نہیں

[5]عبد الله بن سبا  کوئی تخیلاتی شخصیت نہیں .

عبد الله بن سبا شیعہ  کتب میں

مشھور شیعہ عالم ابو موسیٰ محمّد بن عمر بن عبد العزیز الکشی (المتوفی٣٤٠ ھ) ابی جعفر سے روایت بیان کرتے ہیں کہ :  عبد الله بن سبا  نبوت کا مدعی تھا اور امیر المومنین (علی) کے لئے الله ہونے کا دعویدار تھا، الله اس سے پاک ہے.

عبد الله بن سبا سنی  کتب میں

لسان المیزان ج ٢ ص ٤٠ میں ابن حجر نے سیف بن عمر کے بغیر مختلف طرق سے یہ ثابت کیا ہے کہ  ابن سبا اصلی انسان تھا. جرح و تعدیل کی کتابوں میں کئی راوی سبائی ہونے کے دعویدار تہے  مثلا الکلبی اور جابر بن یزید الجعفی (دیکھے المجروحین از ابن حبان اور تہذیب الکمال)

لسان العرب ج ١٣ ص ٥٠٦ پر [6]

[7]

تصوف کے بعض حکایتوں میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ نبی علیہ السلام  کوجب معراج ہوئی تو عرش پر بھی پھنچے لیکن وہاں الله پردے میں تھا لیکن اس کا ہاتھ  دیکھا جس میں انگوٹھی علی کی تھی نعوذ باللہ

 حلول کا مطلب الله کا مخلوق میں حل  ہونا ہے [8]

[9]  اسوپسیفی     ایک  لفظ کو اس کے حروف کی مناسبت سے عدد میں تبدیل کرنے کی مشق کا یونانی نام ہے ۔

[10]  Greek Qabalah by  Kieren Barry, Weiser Publishers

[11]  شیعہ روایات کے مطابق جفر ایک خفیہ تحریر تھی جو بکری یا دنبے کی کھال پر لکھی ہوئی تھی اور نبی علیہ السلام نے علی کو عطا کی تھی

[12] کتاب الکافی ج١ حدیث ٦٣٥ باب ٤٠ ح ١

[13]  Mystical Dimensions of Islam, Anne Marie Schimmel

 تاویل کا مقصد لفظ کو وہ معنی پہنانا ہوتے ہیں جو اس کے نہ ہوں [14]

[15] مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين، ص١١پر

الكافي – از الكليني – ج 1 – ص ٢٣٠[16]

[17] سیر الاعلام النبلاء از الذھبی ج ١٣ص٨٦ پر

Order Zeraim, Berachoth 18b [18]

[19] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 284-285

[20] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 286

[21] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 286-287

[22] R. Akiva (d. 135 AD)

[23] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 382

[24] Order Zeraim, Berachoth, 69

[25] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 262

[26] The Great Angel by Margaret Barker, pg 146

عیسیٰ یا یسوع عليہ السلام نے خالص توحیدی دین کہ اللہ کی اطاعت کرو اور طاغوت کا انکار کرو دیا ۔ تاہم اس کے بعد جب ان کا رفع ہوا اور انہوں نے دنیا کو چھوڑ دیا اور ان کے شاگرد ہلاک ہو گئے، تو اس ہدایت کے ایسے  لوگ  وارث  ہوۓ جو استقامت نہ دکھا سکے اور اپنی خواہشات کی پیروی میں لگ گیے اور خالص توحید کے عقیدے کو  بھلا بیٹھے۔ بہت سے فرقے نمودار ہوۓ  جنہوں نے یہ دعوی کیا کہ وہ عیسیٰ کی اصل تعلیمات جانتے ہیں اور انہوں نے ان کے نام سے کئی اناجیل منسوب کردیں۔

عیسائیت میں تصوف ان تنازعات کی وجہ سے پھیلی جو عیسیٰ کی نوعیت و فطرت پر تھے ۔ انجیل متی کے مصنف نے یہ دعوی کیا کہ عیسیٰ داودی نسل سے تھا  لیکن  دریائے اردن میں بپتسمہ[1]  کے موقعے ( باب ٣ : ١٦) پر روح القدس عیسیٰ پر نازل ہوئی اور یسوع کا الله کے بیٹے کے طور پرآسمانی آواز کی جانب سے اعلان ہوا. اس کے بعد روح القدس ان کو صحرا میں لے گئی اور وہ وہاں کچھ عرصہ رہے. متی نے یہ بھی لکھا کہ عیسیٰ یا یسوع روح القدس ( باب ١: ٢٠) کے زیر اثر پیدا ہوا ۔ یسوع مسیح  یہود کے بادشاہ تھے جن کی پیشنگوئی  یرمیاہ (باب ٣١: ١٥)، یسعیاہ (باب ٤٠: ٣) اور زبور (٩١باب: ١١) میں موجود ہے ۔ لیکن متی نے  یسوع کی الوہیت کی طرف حوالہ نہیں کیا ۔ متی نے یہ  بھی کہا ہے کہ جو لوگ یسوع کے زمانے  تھے وہ یسوع کو ایک نبی (21:46) سمجھتے تھے ۔

انجیل مرقس  کے مصنف نے اپنی انجیل کی ابتداء ہی میں بتایا ہے کہ یسوع  میں روح القدس حلول کر گئی . ان کے نزدیک یہ اہم نہیں کہ یسوع کس نسل سے تھا ہارونی تھا یا داوودی تھا. یہ سب غیر اہم ہے. لہذا بپتسمہ کے وقت صریحا یسوع کے جسد میں روح کے اترنے کے الفاظ ہیں

انجیل لوقا  کے مطابق روح القدس کوئی خاص چیز نہیں. یہ تو نازل ہوتی رہتی ہے زکریا (باب١: ٦٧) پر نازل ہوئی، شمعون پر نازل ہوئی (باب ٢: ٢٦). دریائےاردن میں بپتسمہ کے وقت روح القدس پرندے کی صورت اوپر سے اڑتی ہوئی گئی (باب ٣: ٢٢) ( لہذا کوئی حلول نہ ہوا) اور ایک آسمانی آواز آئی کہ یہ میرا بیٹا ہے گویا الله نے متبنیٰ بنا لیا. لوقا کی ہی دوسری کتاب رسولوں کے اعمال باب ١٣: ٣٣ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ الله نے مسیح کو متبنیٰ بنایا

انجیل یوحنا  کے مطابق عیسیٰ نہ ہی متبنیٰ تھا اور نہ ہی اس میں حلول ہوا تھا، بلکہ وہ تو ابتداء سے تھا ہی الوہی.  یوحنا نے اس عقیدے کا استخراج  کلمہ الله، کلام  (لوگوس)کے مفہوم میں تبدیلی کر کے کیا.  یوحنا نے اپنی انجیل کا آغاز  کیا باب ١: ١ سے ٤  آیات

 

In the beginning was the Word[2], and the Word was near[3] God, and the Word was Divine[4]. This one was in the beginning with God; All things were made through him and without him was not anything created. That was created in him was life[5] and that life was the light for humankind[6].

ابتدے آفرینش میں کلمہ تھا، اور کلمہ مقرب الہی تھا، اور کلمہ الوہی تھا.  ابتداء میں یہ خدا کے ساتھ تھا. ہر شے اسی ذریعہ سے خلق ہوئی اور اس کے بغیر کچھ اور نہ خلق ہوا. جو اس میں  خلق ہوا وہ حیات  تھی اور یہ حیات انسانیت کےلئے نور تھی

 

انجیل یوحنا میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ساری مخلوقات اسی کے ذریعہ بنائی گئیں[7]. انجیل کے مختلف تراجم کا تقابل کرنے کے بعد عصر حاضر کے ایک عیسآئی عالم لکتے ہیں کہ

 

God speaks word that make things come into existence. So Word is God’s creative Power and  plan and activity[8].

خدا نے کلمہ بولا جس سے اشیاء وجود میں آئیں. لہذا کلمہ خدا کی قوت تخلیق اور تکون اور عمل ہے

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یوحنا کی انجیل میں یہی کلمہ متجسم ہوتا ہے. یوحنا باب ١: ١٤ میں کہتا ہے کہ

And the Word became flesh, and moved his tent in among us, and we beheld his glory, the glory as of an only begotten from a Father, full of grace and truth

اور کلمہ ، مجسم ہوا اور اپنے خیمے کو ہمارے ہاں لے آیا اور ہم نے اس کی عظمت کا پایا ، ایسی عظمت جو باپ سے پیدا ہوۓ کی ھو، فضل اور سچ سے معمور

اسطرح عیسیٰ کو الوہی بنا دیا گیا اور ایک طرح الله کا اوتار. یوحنا نے عیسیٰ کو اس مقام پر بیٹھا دیا جس کے وہ حقدار نہ تھے اور ایک معمہ پیدا کر دیا کہ کلمہ  مجسم ہو. لہذا عیسیٰ کی فطرت کے حوالے سے ایک نئی بحث نے کروٹ لی

انہی مسائل کی وجہ سے عیسایوں میں آپس میں اختلافات ہوۓ  مثلا ارین بدعقیدگی   [9]  وغیرہ جن کی وجہ سے بلاخر تثلیث  کا عقیدہ بنایا گیا جس میں غناسطی نظریہ، ہومووسس کو استمال کیا گیا اور اقانیم ثلاثہ بنے یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس

اسلام  میں لوگوس اصطلاحات اور حلولی الہیات 

 

ابتدے اسلام میں ایک بد عقیدہ شخص بنام ابو منصور العجلی  (المتوفی ١١٩ ھ) گزرا ہے. یہ اپنے آپ کو کسف بادل کہتا تھا. یہ کہتا تھا کہ اس کا قرآن میں ذکر موجود ہے یعنی جب بھی قرآن میں بادل کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد موصوف خود ہیں.  اس کے ماننے والے قسم کھاتے وقت والله کے بجانے و الکلمه[10] بولتے تھے. ابن حزم الملل و النحل میں لکھتے ہیں

ابو منصور نے یہ دعوی کیا کہ الله نے سب سے پہلے عیسیٰ کو خلق کیا اور اسکے بعد علی بن ابی طالب کو. اس نے دعوی کیا کہ نبوت ختم نہیں  ہوئی … اس کے متبعین زخم سے ہلاک نہیں کرتے بلکہ گلا گھونٹے ہیں اور یہ انکی (توقف کے عقیدے سے)  مراد ہے امام کے ظاہر ہونے تک.  اور جب امام ظاہر ہوں گے تو یہ اپنے مخالفین کو پتھر مار کر ہلاک کریں گئے اور الخشبیہ (شیعوں کا ایک غالی فرقہ)  والے لکڑیوں اور لاٹھیوں سے. ان کے ایک گروہ نے دعوی کیا کہ محمّد بن عبدللہ بن حسن بن حسن امام ہیں. انہوں نے الخطابیہ (شیعوں کا ایک دوسرا غالی فرقہ)  کی طرح یہ دعوی بھی کیا کہ جبریل نے غلطی سے علی کی بجانے محمّد پر وحی نازل کی

لاہوت اور ناسوت کی اصطلاحات اسلامی تصوف میں بکثرت استعمال ہوتی ہیں لیکن ان کا ماخذ کیا ہے اور کیا مفہوم ہے؟

الزبیدی کتاب تاج العروس من جواهر القاموس  ج١ ص ٨٢٤١ میں ان کی وضاحت کرتے ہیں کہ

الصحيح أنه من مولدات الصوفية أخذوها من الكتب الاسرائيلية وقد ذكر الواحدى أنهم يقولون لله لا هوت وللناس ناسوت وهى لغة عبرانية تكملت بها العرب قديما

صحیح بات یہ ہے کہ اس کو صوفیاء نے پیدا کیا ہے اور اس کو انہوں نے اسرائیلی کتب سے اخذ کیا ہے اور بے شک الواحدی نے   بیان کیا ہے کہ یہ لاہوت کو الله کے لئے بولتے ہیں اور ناسوت کو انسانوں کے لئے، اور یہ عبرانی زبان کے الفاظ ہیں اور اسی طرح قدیم عرب میں بولا جاتا تھا

 

انجیل  لوقا اصلا یونانی زبان میں لکھی گئی تھی. جب عرب نصرانیوں[11] نے اس کا ترجمہ عربی میں کیا تو انہی قدیم الفاظ کو چنا تاکہ عیسیٰ کی انسانی اور الوہی جہتوں کی وضاحت ھو سکے

داود بن عمر الأنطاكي، المعروف بالأكمه (المتوفى: 1008هـ) اپنی کتاب تزيين الأسواق في أخبار العشاق  میں لکھتے ہیں کہ

والناسوت واللاهوت ألفاظ وقعت في الانجيل فتأولها لوقا

اور الفاظ ناسوت اور لاہوت انجیل میں واقع ہوۓ ہیں  لوقا (کی انجیل) سے رجوع کریں ۔

مزید لکھتے ہیں کہ

فقال أن عيسى ترع الناسوت يعني الحصة البشرية وأخذ اللاهوت يعني الحصة الالهية في ناسوته

انہوں (لوقا)  نے کہا کہ کہ یسوع میں ناسوت تھا یعنی حصہ انسانی اور لاہوت حصہ  لیا،  یعنی الوہی حصہ جو ناسوت میں تھا

اسلام میں وہ پہلا شخص جس نے لاھوت اور ناسوت کی اصطلاحات استعمال کیں وہ منصور بن الحللاج تھا اور اس نے حلول کا دعوی کیا[12]

 ابن خلكان البرمكي الإربلي (المتوفى: 681هـ)  کتاب  وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان میں لکھتے ہیں

وكان في سنة 299 ادعى للناس أنه إله وأنه يقول بحلول اللاهوت في الأشراف من الناس

اور سن ٢٩٩ ھ میں منصور نے الہ ہونے کا دعوی کیا اور کہا کہ  اچھے لوگوں میں لاھوت حلول کرتا ہے

 الذہبی نے سیر الاعلام النبلاء ج ١٤ ص٣٢٥ پر منصور بن الحلاج ( المتوفی ٣٠٩ ھ) کے اشعار نقل کیے ہیں

سبحان من أظهر ناسوته  سر سنا لاهوته الثاقب

تم بدا في خلقه ظاهرا  في صورة الآكل والشارب

حتى لقد عاينه خلقه  كلحظة الحاجب بالحاجب

نہایت پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے ناسوت کو ظاہر کیا         بھڑکتے ہوۓ لاھوت کو چمکتے ہوۓ راز سے

پھر وہ اپنی مخلوق میں ظاہر ہوا                    ایک کھاتے پیتے کی طرح

حتیٰ کہ اس کی مخلوق نے اس کو دیکھا       جسے بھوئیں حرکت کریں

منصور نے یہ بھی کہا

مزجت روحي في روحك كما  تمزج الخمرة بالماء الزلال فإذا مسك شئ مسني  فإذا أنت أنا في كل حال

میری روح، تیری روح میں اس طرح مل گئی ہے جسے شراب پانی میں ، جسے تو محسوس کرتا ہے اسے میں محسوس کرتا ہوں تو. میں  ہوں ، ہر حال میں

 

حللاج نے یہ دعوی کیا کہ الله اس میں حلول کر گیا ہے . ابن خلکان نے حللاج کے وہ اشعار نقل کیے ہیں جو  اس نے سولی کے وقت صلیب پر بولے تھے.

وقال أبو بكر ابن ثواية القصري: سمعت الحسين بن منصور وهو على الخشبة يقول:

طلبت المستقر بكل أرض … فلم أر لي بأرض مستقرا  

 أطعت مطامعي فاستعبدتني … ولو أني قنعت لكنت حرا

ابو بکر ابن ثواية القصري  کہتے ہیں کہ میں نے حللاج کو صلیب پر کہتے سنا

میں نے کل زمیں میں مستقر طلب کیا                                            پر کوئی مستقر نہ ملا

میں نے اپنے خیال کی اطاعت  کی اوراسکا اسیر ہوا                                         اگر میں اسی پر قناعت کرتا تو آزاد ہوتا

بہر کیف آخری دم تک حلولی سوچ کی آمد ہوتی رہی

جو بات اہم ہے وہ یہ کہ حللاج کے اس عمل کے بعد وہ گمراہ صوفی سلسلوں میں بہادری کا نشان بن گیا اور اس کی تعریف میں اشعار لکھے گیے

اٹھے گا انا الحق کا نعرہ!

نصرانی راہبین صحرا میں

نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں  عرب میں نصرانی راہب سخت ریاضتین کرتے. ان کے ایک مشھور راہب یوحنا مسکوس (المتوفی ٤ ھ/  ٦١٩ع )   تھے جن کا ذکر نصرانی کتب میں ملتا ہے.  ان کی پیدائش ٥٥٠ ع کی ہے. یہ  صوفرونئوس (المتوفی ١٧ ھ/  ٦٣٨ ع) کے استاد تھے یروشلم کے   پیٹرآرک تھے.  یہ صوفرونئوس ہی تھے جنہوں نے ١٦ ھ میں عمر رضی الله عنہ کو یروشلم کا فتح ہونے کے بعد دورہ کرایا تھا. صوفرونئوس اور انکے شیخ  یوحنا مسکوس نے  شام، مصراور عراق میں راہبوں کی حکایات جمع کی ہیں جن سے ان کے متصوفانہ طرز حیات کا پتا چلتا ہے

درج ذیل اقتباسات کتاب  روحانی باغ  Pratum Sprituale سے لئے گئے ہیں. یہ سب ایک کی کتاب کے نام ہیں یونانی اور لاطینی زبانوں میں لیکن Spritual Meadow  کے نام سے چھپی ہے

اولیاء الله قبروں میں زندہ ہیں

This story was told us by Abba Basil, priest of the monastery of the Byzantines. When I was with Abba Gregory the Patriarch at Theoupolis,  Abba Cosmas the Eunuch of the Larva of Pharon came from Jerusalem. The man was most truly a monk, orthodox and of great zeal, with no small knowledge of the scriptures. After being there a few days, the elder died. Wishing to honour his remains, the patriarch ordered that he should be buried at  a spot  in the cemetery where a Bishop lay. Two days later I came to kiss the elder grave a poor man stricken with paralysis was lying on the top of the tomb, begging alms of those who came into the church. When this poor man saw me making three prostrations and offering the priestly prayer, he said to me: O Abba this was needed a great elder, sir, whom you buried here three days ago. I answered how do you know that. He told me I was paralysed for twelve years and through this elder the Lord cured me. When I am distressed, he comes and comforts me, granting me relief. And you are about to hear yet another strange thing about this elder ever since you buried him at night calling and saying to the bishop Touch me not, stay away, come not near, thou heretic and enemy of Truth and of the holy catholic Church of God. Having heard this from the man cured from his paralysis, I went and repeated it to the patriarch, I besought that most holy man to let us take the body of the elder and lay it in another tomb. Then the patriarch said to me believe me my child Abba Cosmos will suffer no hurt from the heretic. This has all come about that the virtue and zeal of the elder might become known to us after his departure from this world also that the doctrine of bishop should be revealed to us so that we not hold him to have been one of the orthodox[13].

 

یہ کہانی ہمیں ابا باسل ، بازنطینیوں کی خانقاہ کے کاہن نے  سنائی ۔ جب میں تیووپولس میں پیٹرآرک ابا گریگری  کے ساتھ تھا، ابابا کوسمس سرا (عمل زوجیت نہ کرنے کا عھد کیا تھا)  فآران کے لاروا (راہبوں کا مسکن)  کی طرف سے  یروشلیم سے آئے ۔ وہ شخص ، واقعی ایک راہب، راسخ العقیدہ اور کتاب مقدس کا کوئی چھوٹا سے چھوٹا  علم رکھنے والے  جوشیلے انسان تھے ۔ وہاں جانے کے بعد چند دنوں میں وہ  وفات پا گیے ۔ اس کی باقیات کی عزت کرنے کے خواہش مند، پیٹرآرک نے حکم دیا کہ جہاں بشپ  مدفون ہیں وہاں ان کو دفن ہونا چاہیے ۔ دو دن بعد میں ان بزرگ کی  قبر کی زیارت کو آیا تو وہاں ایک فالج زدہ فقیر  قبر پر تھا اور چرچ میں آنے والوں سے بھیک مانگ رہا تھا. جب  اس غریب آدمی نے مجھے تین سجدے کرتے  اور دعا  کرتے دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا: اے ابا عظیم بزرگ جسے آپ نے تین دن پہلے یہاں دفن کیا  ان کو اس کی ضرورت تھی ، جناب!  میں نے جواب دیا کہ کس طرح؟ تم کیا جانتے ھو ۔ اس نے مجھ سے کہا کہ  میں بارہ سال تک مفلوج تھا اس بزرگ کے ذریعے رب عزوجل سے شفاء حاصل ہوئی۔  جب میں خستہ حال ہوتا  ہوں تو وہ آتا ہے اور میری مشکل کشآئی کرتا ہے۔ اور اب آپ انکے بارے میں ایک  دوسری عجیب و غریب بات سننےوالے ہیں جس وقت سے آپ نے ان کو رات کو یہاں دفن کیا ہے یہ پکارتے ہیں بشپ کو کہتے ہیں دور ہو جا، قریب مت آ،  اے بد عقیدہ شخص، تو سچ اور پاک کیتھولک چرچ اور خدا کا دشمن ہے.  اُس فالج سے تندرست ہونے والے آدمی سے سُن کر میں بشپ کے پاس آیا  اور گزارش کی کہ سب سے نیک لوگوں کولے کر بزرگ کو نکالا جائے اور کہیں اور دفن کیا جائے.  ۔ پیٹرآرک نے مجھ کو یقین  دلایا کہ میرے بچے ابا کوسموس ، اس  بدعتی سے کوئی تکلیف برداشت نہ کرے گا ۔ یہ سب  اس لئے ہوا تاکہ ہم ان بزرگ کی فضیلت اور ہمت ان کی وفات کے بعد جان سکیں اور یہ بھی کہ بشپ کے عقیدے کا پتا چلے جو ہم اختیار نہ کریں.

یوحنا مسکوس اور صوفرونئوس نے اسکندریہ کا دورہ کیا جہاں وہ ایک اندھے شخص سے ملے جس نے واقعہ سنایا کہ وہ کس طرح اندھا ہوا

I went into sepulchre and stripped the corpse of its all clothes except for a single shroud. As I was leaving the sepulchre, my evil habits said to me Take the shroud too its worth the trouble. So wretch that I am I turned back and remove the shroud from the corpse, leaving it naked. At which point the dead sat up before and stretched out his hands towards me with his fingers he clawed my face and plucked out both my eyes. I cravenly left all behind and fled from the sepulchre, badly hurt and chilled with horror[14].

میں  قبر کے اندر گیا اور لاش پر سے  کفن کے علاوہ اپنے تمام کپڑے اتارے ۔ میں قبر سے رخصت ہونے والا تھا لیکن افسوس میری بری عادتوں نے مجھ سے کہا کہ کفن بھی لے  اتنی تکلیف اٹھائی ہے ۔ میں  بد نصیب بیچارہ  ! میں واپس لوٹا اور کفن لاش سے اتارا اور لاش کو  ننگا چھوڑ کر ہٹا تومردہ میرے سامنے بیٹھا اور اپنی انگلیوں کے ساتھ میرے کی طرف اپنا  ہاتھ پھیلایا  اور  میری دونوں آنکھیں نِکال دیں ۔ میں سب پیچھے چھوڑ،  قبر سے بھاگا ،  بری طرح نقصان اٹھا  کر  ڈرتا ہوا

 

مردہ بزرگ کی رہنمائی

There was an anchorite in these mountains, a great man in the eyes of God who survived for many years on the natural vegetation which could be found there. He is died in a certain small cave and we did not know, for we imagined that he had gone away to another wilderness place. One night in this anchorite appeared to our present father, that good and gentle shepherd, Abba Julian, as he slept, saying to him, Take some men and go, take me up from the place where I am lying, up on the mountain called the Deer. So our father took some brethren and went up into the mountain of which he had spoken. We sought for many hours but we did not come across the remains of the anchorite. With the passage of time, the entrance to the cave in which he lay had been covered over by shrubs and snow. As we found nothing Abba said Come children Let us go down and just as we were about to return, a deer approached and came to stand still some little distance from us. She began to dig in the earth with her hooves. When our father saw this he said to us believe me children that is where the servant of god is buried. We dug there and found his relics intact [15]

ان پہاڑوں میں ، ایک تارک دنیا راہب   اور خدا کی نگاہ میں عظیم آدمی رہتا تھا جو قدرتی نباتات میں سے جو یہاں پائی  جاتی ہیں پر کئی سال سے  گزر بسر کر رہا  تھا ۔ وہ ایک خاص چھوٹے سے غار میں انتقال کر گئے اور ہمیں پتا نہ چلا،  ہم نے گمان کیا کہ وہ دور بیابان میں کسی اور جگہ پر گئے ہیں  ۔ ایک رات یہ تارک دنیا راہب،  ہمارے موجودہ باپ جو اچھے اور نرم دل  چرواہے ہیں  یعنی ابابا جولین،  کے خواب میں ظاہر ہوۓ اور انہوں نے کہا کہ کچھ آدمی لو اور جاؤ کہ مجھے اس جگہ سے  نکالو، جہاں میں اوپر پڑا ہوں جسے دیر پہاڑ کہتے ہیں۔ سو ہمارے باپ کچھ بھائیوں کو لے کر اس  پہاڑ پر چڑھ گیے جس کی بابت بتایا گیا تھا . ہم نے  کئ گھنٹوں کی کوشش کی لیکن ہم  راہب کی باقیات نہیں کھوج سکے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ، غار کے دروازے پر برف اور جھاڑیوں  کی تہہ آ چکی تھی ۔ جیسا کہ ہم نے   نے راہب کی باقیات بھی تک نہ پائی تھیں ابّا نے کہا آو بچوں واپس چلیں اور ہم واپس جانے ہی والے  تھے کہ ہم سے تھوڑے  فاصلہ پر آ کر ایک ہرن کھڑا ہوا  اور کھروں  سے زمین میں گڑھا کرنا شروع کردیا ۔ جب اس نے یہ کیا تو ابّا جولین نے ہم سے کہا میرے بچوں میرا خیال ہےکہ خدا کا بندہ یہاں دفن ہے. ہم نےوہاں سے کھود اور ان تبرکات کو محفوظ پایا

قبر کو سجدہ گاہ بنانا

Our holy father, Abba George…. told us: When I was about to build the church saint Kerykos at Phasaelis they dug the foundations of the church and a monk, very much an ascetic, appeared to me in my sleep. He wore a tunic of sack-cloth and on his shoulders an over garment made of rushes. In a gentle voice he said to me tell me Abba George Did it really seem just to you, sir, that after so many labour and so much endurance I should be left outside, the church you are building? Out of respect for the worth of the elder, I said to him: who in fact are you, sir? I am Peter the grazer of the Jordan. I arose at dawn and enlarged the plan of the church. As I dug I found his corpse lying there just I had seen him in my sleep. When the oratory was built I constructed a handsome monument in the right hand aisle, and there I interred him[16].

ہمارے پاک باپ ابا جارج.. نے بتایا: جب میں فسیلس میں بزرگ کریکوس کا کلیسا بنانے والا تھا تو اس دوران بنیاد ڈالنے کے لئے کھدائی کی اورایک راہب، کافی حد تک تارک دنیا میرے خواب میں آیا. اس نے ایک پوست بوری کے کپڑے کا زیب تن کیا ہوا تھا اور کندھوں پر جھاڑکا کپڑا تھا. بہت نرم آواز میں وہ گویا ہوۓ  ابّا جارج کیا یہ تم کو حق لگتا ہے کہ جناب اتنے سالوں کی مشقت کے بعد بھی میں اس کلیسا کے باہر پڑا ہوں جس کوآپ بنا رہے ہیں!  میں نے احتراما عرض کیا  آپ درحقیقت کون ہیں؟  بولے میں پطرس ہوں، اردن کا چرواہا. صبح کو میں اٹھا اور کلیسا کا منصوبہ بڑھا دیا. جب میں نے کھودا تو مجھے جسد اسی جگہ ملا جہاں میں نے نیند میں دیکھا تھا. جب عبادت گاہ تیار ہوئی تومیں نے ایک اچھی یادگار سیدھے ہاتھ پر بنائی اور ان کو وہاں دفن کیا

قبر پر چلہ کشی

I have found it written that blessed Leo who become primate of the church of the Romans, remained at the tomb of apostle Peter for forty days exercising himself in fasting and prayer invoking  the apostle Peter to intercede with God fro him that his faults might be pardoned. When forty days were fulfilled, the apostle Peter appeared to him saying I prayed for you, and your sins are forgiven except for those of ordinations. This alone will be asked of you whether you did well, or not, in the ordaining those whom you ordained[17]

مجھے یہ لکھا ہوا ملا کہ بابرکت لیو جو رومن کے کلیسا کے پرائمیٹ بنے ، انہوں نے پطرس رسول کے مزار پر چالیس دن چلہ کشی کی، روزے رکھے اور مسلسل پطرس کو وسیلہ بنانے کی پطرس سے گزارش کرتے رہے کہ گناہ معاف ہوں. چالیس دن پورے ہونے پر پطرس خواب میں آئے اور بولے میں نے تمھارے لئے دعا کی اور تمھارے گناہ بخش دے گئے سوائے وہ جن کا تعلّق نفوذ  سے ہے. ان کا تم سے سوال ہو گا کہ جن کوتم نے نافذ کیا وہ درست تھا یا نہیں

خرقه عطا کرنا

We encountered Abba John the Persian at the Larva of Monidia and told us this about George the Great,  the most blessed bishop of Rome.  I went to Rome at the tomb of most blessed apostles, Peter and Paul. One day when I was standing in the city center the I saw Pope  Gregory[18] was going to pass by. I had it in mind to prostrate  myself before him. The attendants of Pope began saying to me, one by one. Abba, do not prostrate yourself. But I could not understand why they had said that to me, certainly it seems improper for me not to prostrate myself. When the Pope near and perceived that I was about to prostrate myself – the Lord is witness brethren- he prostrated himself down and refused to rise until he got up. He embraced me with great humility handed me three piece of gold, and ordered me to be given a monastic cloth, stipulating that all my needs to be taken care  of. So I glorified God who had given him such humility towards every body, such generosity with alms and such love[19].

 

ہمیں ابّا یوحنا الفارسی ، مونیدیا کے لاروا میں ملے اور ہم کو  روم کے با برکت بشپ ، جورج عظیم کے بارے میں بتایا. انہوں نے بتایا کہ میں روم میں رسل پطرس اور پاول کی قبروں پر گیا. ایک دن جب میں صدر شہر میں کھڑا تھا پوپ گریگوری کو دیکھا جو گزر رہے تھے. میرا ارادہ ان کو سجدہ کرنے کا تھا. پوپ کے کارندے کہنے لگے ایک ایک کر کے، ابّا آپ سجدہ نہ کریں. لیکن میں تو سجدہ  کرنا چاہتا تھا میری سمجھ میں نہیں ا رہا تھا کہ ایسا کیوں؟ اور بلا شبہ یہ میرے لئے مناسب بھی نہ تھا. جب پوپ قریب آئے اور دیکھا کہ میں سجدہ کرنے ہی والا  ہوں،  الله گواہ ہے، پوپ نے خود مجھ کو سجدہ کیا اور اٹھنے سے انکار کر دیا حتیٰ کہ وہ اٹھے. انہوں نے مجھے گلے لگایا بہت عاجزی سے اور تین سکے سونے کے دیے اور خرقه عطا کرنے کا حکم دیا ور میری ساری ضروریات کا خیال رکھنے کا . لہذا میں  الله کا شکر بجا لایا کہ اس نے پوپ کو اتنی عاجزی، محبت، سخاوت عطا کی

ہر قدم پر سجدہ

When we were in Alexandria we visit Abba Theodoulos who was at the church of Saint Sophia holy wisdom by the Lighthouse. He told us:  It was in the community of our saintly father Theodoulos which is  in the wilderness of the city of Christ our God that I renounced the World there I met a great elder named Christopher, a Roman by race. One day I prostrated myself before him and said of your  charity Abba tell how you have spent your life from youth up I persisted in my request and because he knew I was making it for the benefit of my soul. He told me saying When  I renounced the World child I was full of ardour for monastic way of life. By day I would carefully observe the rule of prayer and at night I would go to pray in the cave where the saintly Theodoulos and the other holy fathers are buried. As I went down into the cave I would make a hundred prostrations to God at each step: there were eighteen steps. Having gone down all the steps, I would stay there until they struck the wood at which time I would come back up for the regular office. After ten years spent in that way with fastings and continence and physical labour, one night I came as usual to go down into the cave. After I had performed my prostrations on each step, as I was about to set foot on the floor of the cave I felt into the trance. I saw the entire floor of the cave covered with  lamps, some of which were lit and some were not. I also saw two men, wearing  mantles and clothed in white, who tended those lamps. I asked them why they had set those lamps out in such way that we could not go down and pray. They replied: These  are the lamps of the fathers. I spoke  to them again: Why some of them lit while others are not?  Again they answered those who wished to do so lit there own lamps. Then I said to them: Of your charity is my lamp lit or not? Pray they said and we will light it. Pray I immediately retorted and what I have been doing until now? With these words I returned to my senses and, and when I turned round, there was not a person to be seen. Then I said to myself Christopher , if you want to be saved,  then yet greater effort is required. At dawn  I left monastery and went to Mount Sinai. I had nothing with me but the clothes I stood up in, after I had spent fifty years of monastic endeavours. There, a voice came to me Christopher, go back to your community in which you fought in the good fight so that you may die with your fathers.[20].

جب ہم اسکندریہ میں تھے تو ہم ابّا تھودولوس سے ملے جو نور مینارکے پاس  سینٹ صوفیا پاک حکمت والے  کلیسا میں تھے. انہوں نے بتایا: میں بزرگ تھودولس جو ہمارے آقا کے شہر کے بیابان میں رہتے ہیں، کی معیت میں تھا، وہاں میں نے دنیا ( کی آسائش) کوخیرباد کہا ، بیٹا اس وقت میں خانقاہی زندگی کے حوالے سے بہت جوش میں تھا. دن میں،  میں بہت لگن سے عبادت کے اصول پر عمل کرتا اور رات میں غار میں جس میں بزرگ تھودولوس اور دوسرے بزرگ دفن ہیں، میں عبادت کرتا. جب میں غار میں اترتا تو میں الله کو ١٠٠ سجدے ہر قدم پر کرتا، کل ١٨ قدم پڑتے تھے.  میں وہی رہتا حتیٰ کہ یہ لوگ لکڑی پر ضرب لگاتے اور میں واپس دفتر اتا.  قریب ١٠ سال اسی طرح صوم و عبادت کی مشقت میں گزارنے کے بعد ، ایک رات میں حسب روایت غار کے فرش پر قدم رکھنے لگا تو میں غرق مکاشفہ ہوا. میں نے دیکھ کہ غار کا سارا فرش دیوں سے  بھرا ہے جس میں سے کچھ جل رہے ہیں  اور کچھ بجھے ہیں . میں نے دو آدمیوں کو بھی دیکھا کہ سفید لباس میں ہیں جو ان دیوں کو لگا رہے ہیں میں نے پوچھا کہ آخر اس طرح کیوں دیے لگانے گئے ہیں کہ ہم اندر جا بھی نہ سکیں؟  انہوں نے جواب دیا کہ یہ دیے بزرگوں کے ہیں . میں نے دوبارہ بات کی: ایسا کیوں ہے کہ کچھ جل رہے ہیں اور کچھ بجھے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جن کو جلانا ہو وہ خود جلاتے ہیں. میں نے پوچھا کہ میرا دیا جل رہا ہے یا بجھا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا عبادت کرو ہم اسکو جلائیں گے. میں نے کہا عبادت! تو بھی تک میں کیا کر رہا تھا؟  اس کے بعد مکاشفہ کی کفیت ختم ہوئی. اور میں نے دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا. پھر میں نے اپنے آپ سے کہا کرسٹوفر، اگر تم نجات پانا چاہتے ہو تو اس سےزیادہ  کاوش چاہیے.  واپس اپنے لوگوں میں جاؤ  جن میں تم (شیطان کی اکساہٹوں سے) لڑو پھر جب مرو گے تو بزرگوں کے ساتھ ھو گے.

بھٹکتے ہوے مسلمان عارفین و متصوفین

کچھ اسی طرح کی حکایات اسلامی صوفی  لٹریچر میں بھی موجود ہیں مثلا طبقات الصوفیہ میں ابراہیم بن ادھم کا تذکرہ

إبراهيم بن أدهم، أبو إسحاق. من أهل بَلْخ كان من أبناء الملوك و المَياسير. خرج متصيِّداً، فهتف به هاتف، أيقظه من غَفْلَتِه. فترك طريقته، في التَّزَيُّن بالدنيا، و رَجَع إلى طريقة أهل الزُّهْد و الورع. و خرج إلى مكة، و صحب بها سفيان الثَّوري، و الفُضَيْل بن عِياض. و دخل الشام، فكان يعمل فيه، و يأكل من عمل يده

Ibrahim bin Adham, Abu Ishaque, from Bulkh, belonged to royal family went out for hunting and heard a voice, woke up from his sleep left the way of worldly adoration, turned towards the way of asceticism and piety and went to Makkah and stayed among people of Sufyan Al-Thori and Al-Fadeel bin Ayaz and entered Syria and acted there and ate (earned)by hand work.

ابو اسحاق ابراہیم بن ادھم بلخی تھے شاہی خاندان سے تعلق تھا.  شکار کے لیے نکلے اور ایک آواز سنی، غفلت سے بیدار ہوۓ ، دنیا کی زینت کا راستہ چھوڑ دیا ، زہد و تقویٰ کی طرف مائل ہوۓ  اور مکہ کی طرف رخ کیا.  امام سفیان ثوری اور امام الفُضَيْل بن عِياض کے ساتھ رہے،  داخل شام  ہوۓ ، پس وہاں کام کیا اور ہاتھ سے کام کیا کھایا ۔

انیس الارواح  از عثمان ہارونی مرتبہ  معین الدین چشتی، ص ١٧، ١٨ پر حکایت لکھی ہے کہ عثمان ہارونی نے

ibraheemBinAdham

اس حکایت میں ضعیفہ ، رابعة العدوية (المتوفی ١٣٥ ھ یا ١٨٥ ھ)  ہیں . انکا مکمل نام   رابعة بنت اسماعيل أم عمرو العدوية ہے. ان کو أم الخير بھی کہا جاتا ہے. یہ دعوی کرتی تھیں کہ یہ الله کی عبادت جنّت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ الله کی خوشنودی کے لئے کرتی ہیں.  حکایت میں بتایا گیا ہے کہ رابعة ایک اونچے درجے پر تھیں اور ابراہیم بن آدم کے حوالے سے پردۂ غیب کو ہٹا بھی سکتی تھیں.

تصوف میں ایک اور مشھور شخصیت  أبو يزيد البسطامي الأكبر (المتوفی ٢٦١ ھ)  ہیں. ان کا اصلی نام  طيفور بن عيسى  ہے . ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں

وقال أبو عبد الرحمن السلمي أنكر عليه أهل بسطام ونقلوا إلى الحسين بن عيسى البسطامي أنه يقول له معراج كما كان النبي صلى الله عليه وسلم فأخرجه من بسطام

أبو عبد الرحمن السلمي  کہتے ہیں کہ اہل بسطام  ان کا انکار کرتے تھے اور انہوں نے الحسين بن عيسى البسطامي سے نقل کیا کہ یہ کہتا تھا کہ اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی طرح معراج ہوئی، پس اس پر اس کو بسطام سے نکالا ملا

 

 ابو طالب المکی (المتوفی ٣٨٦ ھ) کتاب قوت القلوب ص ٤٧٤ میں اس معراج کی تفصیل بتاتے ہیں کہ

أدخلني في الفلك الأسفل فدورني في الملكوت السفلي، فأراني الأرضين وما تحتها إلى الثرى، ثم أدخلني في الفلك العلوي فطوف بي في السموات وأراني ما فيها من الجنان إلى العرش، ثم أوقفني بين يديه فقال لي: سلني أي شيء رأيت حتى أهبه لك، فقلت: ياسيدي، مارأيت شيئاً أستحسنته فأسألك إياه، فقال: أنت عبدي حقّاً

الله نے مجھے (ابو یزید) کو پاتال  کے فلک  میں داخل کیا اور مجھے پاتال کی سلطنت دکھائی، زمینیں اور تحت الثری  دکھایا  پھر الله نے مجھے اوپر کی دنیا کے فلک  میں داخل کیا  اور مجھےآسمانوں سے گذرا اور میں نے دیکھا کہ عرش تک باغات ہیں ۔ پھر مجھے اپنے  سامنے  روکا   اور کہا کہ  جو کچھ تم کو دکھایا ہے اس میں سے مانگو، میں دوں گا ۔ میں نے کہا: اے آقا میں نے ایسا کچھ بھی  نہیں دیکھا جسکی تعریف کرتا اور مانگتا ۔ پس الله نے کہا: تو میرا حقیقی بندہ ہے

الطبقات الصوفیہ ص ٣٦ کے مطابق ابو یزید کہا کرتے تھے

يا رَبُّ! أَفْهِمْني عَنْك، فإنِّي لا أفهمُ عَنْك إلا بِكَ

اے رب مجھے  اپنا آپ سمجھا ، میں تجھ کو سمجھ نہیں سکتا لیکن تیرے ذریعے

اس نے کہا

عرفْتُ اللهَ باللهِ، وعرفْتُ ما دونَ اللهِ بنورِ اللهِ عزَّ وجَلَّ

میں نے الله کو الله سے سمجھا، اور دوسروں کو الله کے نور سے سمجھا

میزان الاعتدال  ج٢ ص٣٤٦  میں ہے کہ اس نے کہا

ما النار لاستندن إليها غدا

آتش (جہنم) کیا ہے، کل نگل جاؤں گا

صوفیاء میں خرقه عطا کرنے کی روایت بہت اہم ہے. لیکن یہ کب شروع ہوئی؟ راحت قلوب میں فرید الدین گنج شکر بتاتے ص ١٣٨ ہیں کہ یہ معراج کے وقت شروع ہوئی

 usmanHaroni

اولیاء الله  کے مزارات پر چلہ کشی کرنے سے غیب دانی بھی ممکن ہے. علی الہجویری کشف المحجوب ص ١٧١ پر لکھتے ہیں

 

mazar

الغرض عقیدے کی وہی خرابی جس میں  نصاریٰ مبتلا تھے، مسلمان مبتلا ہوۓ.   نبی صلی الله علیہ وسلم نے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع بھی کیا تھا لیکن اس فرمان نبوی کو پس پشت ڈال دیا گیا اور نصاری کی طرح مجاورت اور چلہ کشی کی گئی


[1] یحییٰ علیہ السلام نئے ایمان والوں کو دریائے اردن میں غسل اور وضو سکھاتے تھے اس عمل کو انجیل میں بپتسمہ لکھا گیا ہے

[2] The word λόγος (Logos) in John: 1- 4, is translated as Word or Kalimah. Also means cause, reason or speech.

[3] Truth in translation, Accuracy and Bias in English translations of the New Testament by Jason David BeDuhn,  pg 129

[4] Truth in translation, Accuracy and Bias in English translations of the New Testament by Jason David BeDuhn, University Press of America, Inc., 2003; BeDuhn has showed that the correct translation is Word was Divine not the Word was God.  In almost all translation in English for this verse it is said that the Word was God. Christians rendered the meaning to imply the divinity of Jesus and translated it wrongly.  Allah said Jesus is Kalima-tullah i.e. Word of Allah. In Islam that Word means the command of Allah, which indicates His Absolute Power that He created Jesus out of nothing in the womb of Virgin Mary peace be upon her. Allah had created earlier Adam peace be upon him with command as well.

[5] Early Manuscripts and Modern Translation of New Testament by Philip Wesley Comfort, Wipf and Stock Publishers, 1990

[6] http://bibletranslation.ws/trans/johnwgrk.pdf

[7]  الله نے قرآن میں بتایا ہے کہ جب وہ کوئی ارادہ کرتا ہے تو

وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

اور جب وہ فیصلہ کرتا ہے تو کہتا  ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے

[8] Truth in translation, Accuracy and Bias in English translations of the New Testament by Jason David BeDuhn, pg 129

[9] Arianism is the teaching attributed to Arius (ca. AD 250–336). According to Arius Jesus was created and not present from the very beginning. He was concerned about the relationship of God to the Jesus of Nazareth. Arius asserted that the Son of God was a subordinate entity to God the Father.  Arius was deemed as a heretic by the Ecumenical First Council of Nicaea of 325.

 

[10] کلمہ یا لوگوس ہم معنی ہیں.  یونانی دھرم میں لوگوس سے ساری کائنات تخلیق ہوئی. اس پر فلو  Philo نے اپنی تحریروں میں کھل کر بحث کی ہے اور وہاں سے یہ  ںصرانیوں میں آیا

[11] یسوع کی انسانی اور الوہی نوعیت پر  نسطوریوں کی طرف سے بحث کی گئی ۔ عراق اور فارس میں رہنے والے عیسائیوں کی اکثریت نسطوریوں تھی ۔ نسطوری عقیدہ یا نیسٹوریانسم،  نیسٹوریوس، 428–431 ء قسطنطنیہ کے پیٹرآرک تھے ،  کی طرف سے تجویز کردہ ایک عقیدہ تھا ۔ انہوں نے دعوی کیا کہ یسوع  کی دو فطرتیں ہیں، آدھا انسان اور آدھا خدا ہے

 [12]  حلول  ناسوت میں لاھوت کا ملنا ہے یا سادہ الفاظ میں خدا تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ایک میں اترا ہے ۔ یہ تصور اوتار کے ہندو عقیدے سے الگ ہے کیونکہ اس صورت میں خدا اپنی مخلوق کے درمیان ظاہر ہوں گے ۔ صوفیانہ اسلام میں لاھوت  جذ ب  کی کفیت ہے یعنی

الوہیت  کا مخلوق میں نزول  ہے

[13] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 31-32

[14] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 60

[15] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 67-68

[16] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 74-75

[17] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 122

[18] Pope Gregory the Great was Pope of Christians from 590 AD (34 BH) to 604 AD (19 BH). Therefore he was the Pope in the life time of Prophet before our Holy Prophet peace be upon him become Messenger of Allah. After Pope Gregory, Pope Sabinian  took the office of Pope from 604 AD till 606 AD.  Pope Honorious hold office  from (625 AD, 3 AH) till (638 AD, 17AH)

[19] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 124

[20] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 82-83

ذون النون المصری (المتوفی ٢٤٥ھ/ ٨٥٩ ع) ایک مشھور صوفی گزرے ہیں. یہ علم کیمیاء گری میں دلچپسی رکھتے تھے  اور نوبیہ ، اخمیم، مصر سے تعلّق رکھتے تھے.  ذون النون المصری پر ہرمس کی تعلیمات اور غناسطیت  کا گہرہ اثر تھا. مثنوی مولانا روم اور کشف المحجوب از علی الھجویری ص ٤٢٠ میں حکایت ہے کہ

 zunnon

ذون النون المصری  کے بارے میں مشھور ہے کہ ان کو فراعنہ مصر کی تحریرات پڑھنے کا شوق تھا. ابن حجر لسان المیزان ج١ ص ٣٦٨ پر لکھتے ہیں کہ

كان أول من تكلم بمصر في ترتيب الأحوال وفي مقامات الأولياء فقال الجهلة: هو زنديق قال السلمي: لما مات أظلت الطيور جنازته انتهى وقال ابن يونس: يكنى أبا الفيض من قرية يقال لها: إخميم وكان يقرأ الخط القديم لقيت غير واحد من أصحابه كانوا يحكون لنا عنه عجائب

یہ وہ پہلے شخص ہیں جس نے احوال اور مقامات اولیاء پر گفتگو کی. الجھلہ نے کہا: یہ زندیق تھا ، سلمی نے کہا: جب یہ مرا تو پرندوں نے اس کے جنازہ پر سایہ کیا. ابن یونس کہتے ہیں اس کی کنیت ابو الفیض ہے اور یہ ایک علاقے سے ہے جسے اخمیم کہتے ہیں اور یہ خط قدیم پڑھ سکتا تھا اور میں اس کے ایک سے زائد لوگوں سے ملا جو اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کے پاس  عجیب و غریب باتیں تھیں

 

مروج الذھب میں اسکے بارے میں لکھاہے کہ

قال المسعودي: وأخبرني غير واحد من بلاد أخميم من صعيد مصر، عن أبي الفيض في النون بن إبراهيم المصري الِإخميمي الزاهد، وكان حكيمأ، وكانت له طريقة يأتيها ونحلة يعضدها، وكان ممن يقرأ عن أخبار هذه البرابي ودارها وامتحن كثيراً مما صور فيها ورسم عليها من الكتابة والصور، قال: رأيت في بعض البرابي كتاباً تدبرته، فإذا هو احفروا العبيد المعتقين، والأحداث المغترين والجند المتعبدين، والنبط المستعربين قال: ورأيت في بعضها كتابأ تدبَّرْته فإذا فيه يقدر المقدور والقضاء يضحك وزعم أنه رأى في آخره كتابة وتبينها بذلك القلم الأول فوجدها:

تُدَئر ُبالنجوم ولمستَ تَدْري … ورَب النجم يفعلُ ما يريد

 

المسعودی کہتا ہے: اخمیم، مصر  کے ایک سے زائد لوگوں نے مجھے  أبي الفيض  النون بن إبراهيم المصري الِإخميمي الزاهد  کے بارے میں بتایا کہ یہ فلسفی تھا اور اس کا اپنا ہی طریقہ (مذھب) تھا. … اس نے مصری کھنڈرات کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور یہ ان میں بھٹکتا رہتا تھا اور اس نے  ان تصویروں اور تحریرات کا  معاینہ کیا .. اور میں نے اس پراسکی کتابوں میں بحث دیکھی ہے .. اور یہ لکھا ملا

 

ایک غیر محسوس طرز پر ستاروں سے چھوا گیا میں      اور ستاروں کا رب جو چاہتا ہے کرتا ہے

ایک زمآنے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ  تصویری تحریرات کا تعلّق ہرمس سے ہے، فہرست ابن ندیم کے مولف کا بھی یہی خیال ہے.  کتاب النجوم الزہرہ فی ملک مصر والقاہرہ میں ابن تغری لکھتے ہیں

إن هرمس المثلث الموصوف، بالحكمة وهو الذي تسميه العبرانيون خنوخ وهو إدريس عليه السلام استدل من أحوال الكواكب على كون الطوفان، فأمر ببناء الأهرام

بے شک ہرمس   المثلث  ، جو حکمت سے موصوف ہے وہی ہے جس کو عبرانی لوگ (یہودی) خنوخ کہتے ہیں اور وہ ادریس علیہ السلام ہیں ، نے سیلاب کی پیشنگوئی ستاروں کو دیکھ کر کی اور اھرام کی تعمیر کا حکم کیا

 مسلمان مورخین کے بقول ہرمس کو المثلث اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کے بارے میں  مشھور تھا کہ وہ بادشاہ، حکیم اور نبی تھا.[1]

فہرست ابن ندیم کے مولف لکھتے ہیں

زعم أهل صناعة الكيمياء وهي صنعة الذهب والفضة من غير معادنها ان أول من تكلم على علم الصنعة هرمس الحكيم البابلي المنتقل الى مصر عند افتراق الناس عن بابل

فن کیمیا گری والے گمان کرتے ہیں کہ ہرمس ہی وہ حکیم ہے جس نے دوسری دھاتوں کو  سونے اور چاندی میں تبدیل کرنے کا فن ایجاد کیا تھا، بابل سے مصر منتقل ہوا جب وہاں لوگوں میں پھوٹ پڑی

یہ بھی لکھتے ہیں  کہ

هو أبو الفيض ذو النون بن إبراهيم وكان متصوفا وله أثر في الصنعة وكتب مصنفة فمن كتبه كتاب الركن الأكبر كتاب الثقة في الصنعة

وہ هو أبو الفيض ذو النون بن إبراهيم ہے جو صوفی تھا اور اس پر فن کیمیا گری کا اثر تھا اور اس فن میں اس کی کتاب بھی ہے  کتاب الرکن الاکبر جو اس فن کی ایک مستند کتاب ہے

 

یہ واضح ہی کہ ذو النون المصری، کیمیا گری میں اور  فراعنہ مصر کی تحریرات پڑھنے کا شوق رکھتے تھے جن کو ان کے دور میں ہرمس المثلث،  سے منسوب کیا جاتا تھا

نصرانی غناسطیوں کے بہت سے فرقے مصر سے تھے[2] اصل میں یہ اس طرح کی تمام سوچوں کا مرکز تھا. نصرانی تاریخ کے صفحات پر ان کے نظریات کا رد موجود تھا لیکن ان کی تحریروں سے دنیا ١٩٤٥ تک ناواقف تھی. حال ہی میں انکی ایک انجیل بنام تھامس کی انجیل دریافت ہوئی ہے جس کے مطابق تھامس، یسوع کا جڑواں بھائی تھا اس کی ایک آیت ہے[3]

 

When you come to know yourselves, then you will become known, and you will realize that it is you who are the sons of living father. But if you will not know yourselves, you will dwell in poverty (i.e. material world/body)[4]

جب تم اپنے آپ کو جانوں گے ، تو تم پہچانے جاؤ گے اور تم کو پتا چلے گا کہ تم ہی زندہ خدا کے بیٹے ھو. لیکن اگر تم اپنے آپ کو نہ پہچان سکے تو تم (یعنی دنیا میں الجھے رہو گے) فقیری میں رہو گے

عربی میں اسی کفیت کا نام عرفان ہے اور ایک مشھور مقولہ ہے

من  عرف نفسه فقد عرف ربه

جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا

ذون النون المصری ، طبقات الصوفیہ کے مطابق کہتے ہیں

إن العارف لا يَلْزم حالةً واحدةً، إنما يلزمُ ربَّه في الحالاتِ كلِّها

عارف ایک حال پر نہیں رہتا، وہ اپنے رب کو ہر حال میں لازم رکھتا ہے

غناسطی ھومواوسوس یا ہمہ اوست یا وحدت الوجود

 ھومووسوس ὁμοούσιος کی اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے غناسطیوں نے کیا. غناسطی تحریروں میں ھومووسوس کا  لفظ عیسیٰ اور الله کی یک عنصری کی طرف اشارہ کرتا ہے. اس عقیدے سے کیتھولک کلیسا کے مشائخ واقف تھے.   نائی سین  کونسل  میں عیسیٰ کی فطرت کو واضح کرنے کے لئے اس لفظ کا اطلاق کیا گیا. مصنف کے خیال میں ھومووسوس کا لفظ فارسی میں ہمہ اوست بنا  کیونکہ ھومووسوس اور  ہمہ اوست ہم معنی الفاظ ہیں.  عربی متصوفانہ تحریروں میں یہ مفھوم وحدت الوجود سے ادا کیا گیا

الغزالی (المتوفی ٥٠٥ ھ) کے بقول وحدت الوجود، عقیدہ التوحید کا مظہر ہے، وہ الاحیا علوم الدین میں لکھتے ہیں

وليس في الوجود إلا الله تعالى

اور الله کے سوا کوئی وجود نہیں

مزید کہتے ہیں

            الرابعة: أن لا يرى في الوجود إلا واحداً، وهي مشاهدة الصديقين وتسمية الصوفية الفناء في التوحيد، لأنه من حيث لا يرى إلا واحداً فلا يرى نفسه أيضاً، وإذا لم ير نفسه لكونه مستغرقاً بالتوحيد كان فانياً عن نفسه في توحيده

چوتھی بات: کہ کوئی اور وجود نہ مانے سواۓ الله کے، اور یہ صدیقین کا مشاہدہ ہے اوراس کو صوفیا الفناء في التوحيد  کہتےہیں کیونکہ وہ کوئی اور نہیں دیکھتا سواۓ ایک ذات کے، اور جب وہ اپنے آپ کو نہیں دیکھتا کہ وہ توحید میں اتنا مستغرق ہوتا ہے کہ گویا اس نے اپنے آپ کو توحید میں فنا کر دیا

محی الدین ابن العربی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ در حقیقت یہ کائنات حقیقی نہیں. ابھی تک یہ خلق بھی نہیں ہوئی.  کائنات ابھی الله کے علم کا حصہ ہے نہ کہ کوئی علیحدہ شے.  لہذا ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ حقیت کا وہم ہے . ان کے فلسفے کے مطابق ہم حقیت کا ادرک نہیں کر سکتے لیکن اس کاعکس دیکھ سکتے ہیں. ابن العربی کے بقول جب بایزید نے کہا[5]

سبحانی ما اعظم شانی

تو ان کا مفہوم بھی یہی تھا. ابن العربی کے بقول الله کے علم میں تنزلات ہوۓ ہیں نعوذباللہ. یہ نظریہ یونانی فلسفی پلوتینس[6]   کے نظریہ صدور  جیسا ہے   جس میں خدا سے صدور ہوتا ہے اور تدریجا یہ پہلے سے ابتر ہوتا چلا جاتا ہے. گویا خدا خلق نہیں کرتا بلکہ اس سے کائنات کا ظہور ہوتا ہے. ظاہر ہے کہ پہلا صدور سب سے خالص اور اصل کے قریب ھو گا. یہی وجہ ہے کہ نصاری میں عیسیٰ کا صدور سب سے پہلے ہوتا ہے اور مسلمانوں میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا

تنزلات ستہ

١ حقیت محمّدیہ   لاھوت میں ہے

٢ اعیان  الثابتہ

ان تنزلات کو اسطرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک بڑھئی ایک کرسی بنانا چاہتا ہے لہذا وہ اسکے بارے میں سوچتا ہے کہ کتنے پائے ہونگے کیا رنگ ھو گا  وغیرہ. اسی طرح الله نے اس کائنات کو بنانے کا ارادہ کیا اور اس کے بارے میں ایک نقشہ اسکے علم میں ہے یہ مرتبہ حقیت محمّدیہ ہے.  اس کے بعد الله نے تفصیلا اس کائنات کے بارے میں خیال کیا تو  اعیان (Aeon) الثابتہ کا مرتبہ آیا یعنی الله اس کو بنانا چاہ رہا ہے. یہ دونوں تنزلات الله کے علم میں ہوۓ یہ الله ہی ہوۓ  کیونکہ فلسفے کے مطابق الله اور اس کی صفات علیحدہ نہیں

 

اگلے چار تنزلات، حقیقت میں ابھی ہوۓ ہی نہیں ہیں ان کو مراتب کونیہ اور امکانیہ کہا جاتا ہے اور ان چار کا اعیان الثابتہ سے صدور ہوا ہے

اعیان الروح

اعیان المثال

اعیان الجسد  ناسوت

اعیان  الانسان

 

شاہ ولی الله نے سطعات میں ابن  العربی کا نام لئے بغیر نظریہ صدور کے مماثل لکھا ہے کہ

اور اس کے صدور کی مثال ہے کہ ہم نے لفظ زید کا ایک انگوٹی پر نقش بنانا چاہتے ہیں  اور ہم نے ابھی تک یہ موم یا مٹی پر نہیں اتارا  ہے ۔ لیکن لفظ  زید کا حسی تصور ہمارے ذہن میں پیدا ہوتا ہے ۔ اور اس کا (یعنی نقش زید کا ذہن میں) وجود انگوٹی کے  (منصوبہ) ساتھ ہی رہے گا  ۔ اور زید کا نقش ،  امر (ایک دوسرا نام) کے لئے نہیں… ..۔ اس کے بعد ہم موم اور مٹی لا کر زید کا نقش موم یا مٹی پر  (اپنے ذہن سے)  منتقل کرتے ہیں  اور اسے فوری طور پرتخلیق کر دیتے ہیں۔ یہ (انگوٹی والا نقش ) مکمل ہو گیا ہے اور یہ (موم یا مٹی پر نقش) عارضی ہے ۔ یہ حالت علم میں ہے اور یہ عالم ظہور میں

ابن العربی، کافی حد تک پلوتینس سے متاثر تھے. ابن العربی کا نظریہ بھی ایسا ہی فلسفیانہ ہے لیکن اسلامی اصطلاحات کے پردے میں.


[1] ہرمس سے متعلق ایک تحریر بنام زمردی کتبہ   معروف ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے اس میں ساری دنیا کی حکمت کا ایک تہائی لکھا ہے اور اس وجہ سے اس کو المثلث بولتے ہیں. مصنف کے خیال میں ہرمس مصری مذھب رکھتا تھا اور اس کا نہ ادریس سے تعلّق ہے نہ نبوت سے نہ حکمت سے

[2] غناسطیت ایک صوفیانہ مسیحی  تحریک تھی جس کا مرکز مصر میں تھا ۔ ائمۃ  غناسطیت  کے مطابق یسوع ایک ظاہری جسم تھا لیکن قوت کی ایک لہر تھا

[3] Coptic Gospel of Thomas, Nag Hammadi Librray, discovered in 1945

[4] Saying 42, Coptic Gospel of Thomas, From book Lost Chrittianities by  Bart D. Eherman, Oxford University Press, 2003

[5]  فتوحات المکیہ ج ١ص ٢٧٢

[6]  پلوتینس، (ca. 204/5–270 عیسوی) قدیم دنیا کے ایک بڑے فلسفی تھے ۔ ان کی کتاب Enneads  مابعدالطبیعیاتی تحریروں کا مجموعہ ہے ،  جس نے صدیوں کافر، عیسائی، یہودی، اسلامی ، غناسطی  صوفیاء کو متاثر کیا ہے ۔

وحدت الوجود کے نظریے کے پھیلنے کی وجہ سے خالق اور مخلوق کا فرق فنا ھو گیا. راسخ القعیدہ مسلمانوں نے اس کو رد کیا کیونکہ اس سے اسلام اور ہندو دھرم میں تمیز مٹ گئی. اپنے نظریات کے دفاع کے لئے صوفیاء نے ایک نئی اصطلاح وحدت الشہود گھڑی. کہا جاتا ہے کہ اس نظریے کے موجد العلاء الدولہ سمنانی (المتوفی ٧٣٦ ھ) تھے. لیکن درحقیقت یہی بات علی الہجویری   (المتوفی  ٤٦٥ھ) اور عبدالقادر الجیلانی  (المتوفی ٥٦١ ھ) اپنی اپنی کتابوں میں کر چکے ہیں.

ابن العربی کے نزدیک چونکہ  درحقیقت وجود صرف الله کا ہے لہذا یہ سب الله کے علم میں ھو رہا ہے. اس کو توحید شہودی کہہ سکتے ہیں. شہود  یعنی جوبھی نظر اتا ہے وہ الله ہے.  جس طرح انسان اپنے علم میں موجود کوئی بھی بات کسی بھی وقت حاصل کر لیتا ہے اسی طرح انسانوں میں  سے کچھ خاص لوگ، خواص، جن کو اپنی عظمت کا پتا ہوتا ہے ان کو ہر علم حاصل ہوتا ہے حتیٰ کہ  لوح و قلم تک پر جو ہے انکو نظر آ رہا ہوتا ہے.

 اس حالت میں صوفی زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے. اس حالت میں جو مکاشفے ہوتے ہیں ان کی عظمت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ مجدد الف الثانی (احمد سرہندی) مکتوبات میں لکھتے ہیں

توحید شہودی یہ ہے کہ  ایک ہی ذات کا مشاہدہ ھو، اور حق یہ ہے کہ سالک صرف ایک ذات پر مرتکز رہے

مجدد الف الثانی (احمد سرہندی) المبداء و المعاد میں لکھتے ہیں

sarhindi

اشرف علی تھانوی ، امداد المشتاق میں لکھتے ہیں

ashrafalithanvi

شاہ ولی الله اس کیفیت پر انفاس العارفین میں لکھتے ہیں

 anfas

والد ماجد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ عصر کے وقت میں مراقبے میں تھا کہ غیبت کی کیفیت طاری ہوگئی میرے لئے وہ وقت  چار کروڑسال کے برابر وسیع کر دیا گیا اور اس مدت میں ابتدے آفرینش سے روز محشر تک پیدا ہونے والی مخلوق کے احوال کو مجھ پر ظاہر کر دیا گیا

 

صوفی کا مشاہدہ ہی غیب کا پردہ ہٹانے کے لئے کافی ہے، شاہ ولی الله سطعات میں لکھتے ہیں کہ تجلی ذات ، الله کی طرف سے ہوتی ہے

صوفیاء کو اب منصور حللاج کی طرح لاہوتی ہونے کا دعوی کرنے کی ضرورت نہ رہی. جب دل چاہا لاہوتی بنے اور  جب دل چاہا عام انسان بنے

شاہ ولی الله (المتوفی ١١٧٦ھ )  حجه الله البالغہ میں لکھتے ہیں

اولیاء الله جب مرتے ہیں تو فرشتوں کے ساتھ ضم اور ان میں سے ایک بن جاتے ہیں ۔ پھر (خدا) سے ان کی طرف بھی (فرشتوں کی طرح)  وحی شروع ہوتی ہے  اور وہ ان کی طرح کام کرتے ہیں

راحت القلوب میں فریدالدین گنج شکر لکھتے ہیں کہ

شاید یہی وجہ ہے کہ الغزالی احیا العلوم الدین ج٣ ص ٣٣٨ پر لکھتے ہیں

فاعلم أن هذه غاية علوم المكاشفات. وأسرار هذا العلم لا يجوز أن تسطر في كتاب، فقد قال العارفون: إفشاء سر الربوبية كفر

جان لو کہ علم مکاشفات کا مقصد اور انکے اسرار  کو کسی کتاب میں لکھنا جائز نہیں، پس عارفوں نے کہا ہے ربوبیت کے راز افشاء کرنا کفر ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے خبردار کیا تھا کہ مسلمانوں پر ایسا وقت ائے گا جب ایمان اجنبی ھو جانےگا . صحیح مسلم رواہ ابی ہریرہ

بدأ الإسلام غريبا وسيعود كما بدأ غريبا فطوبى للغرباء

اسلام اجنبی بن کر شروع ہوا اور پھر اجنبی نو جائے گا پس خوشخبری ھو جو اسکو قبول کریں

 

بخاری کی روایت ہے کہ ابی سید الخدری رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا

یہ وقت شروع ھو چکا!

متصوفین چاہے کسی بھی زمانے ، مذھب اور دھرم کے ہوں ان کا ایجنڈا ایک ہی ہے اور وہ اس ڈگر کو چھوڑنے والے نہیں. اب یہ عقیدے کا تفاوت ختم نہیں کیا جا سکتا. جو خلیج ہے اس کو پاٹا نہیں جا سکتا  لہذا تمہارا عمل تمہارے لئے اور ہمارا عمل ہمارے لئے ہے.  لیکن یہ ضروری ہے کہ جو زندہ رہے وہ حق جان کر زندہ رہے اور جو مرے وہ حق جان کر مرے. لیکن اپنی حد کو پار کرنے کی وجہ سے افسوس

 

فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا

انہوں نے اس کو ایسے ادا نہ کیا جیسا حق تھا

Mysticism2

Majma-ul-Bahrain

Confluence of Streams

From time immemorial there are two kinds of people in this world. On group thinks that they can approach God by meditation and trance. That approach demands the cutting off of the human spirit from the material world. To approach almighty this procedure is practiced since ancient times and we know the practitioner as Sadhu, Monks and Rahibs etc.

The other group believes that God cannot be approached in this way. He created us so it is His responsibility to guide us. Therefore He must send us His revelations. In this method the God selects a person from Humanity and sends His instructions on him. Such people are called Messengers, Prophets and Apostles. From World’s religions, Judaism, Christianity and Islam are Prophetic religions.

Islam originally started as a pure monotheistic religion has also been affected by the streams of Jewish, Christian and Gnostic mysticism. In this book the confluence of these mystical streams on Islam is examined. The mystics in different religions spheres and times have stated things which are common. It is probably happened to a lesser extent due to borrowing or coping but mainly it reflects the collective consciousness of mysticism approach.

It was night in Makkah. Muhammad peace be upon him was praying to Allah, an unseen Deity. He was there because of his dreams. He has not experience any vision or trance but only the dreams. Recently the dreams he has seen have started becoming a reality in the daylight. He wanted to know why this is happening to him. He went to a cave on MountHirah where he engaged himself in Al-Tahannath[1].  He did that for some nights and on one night an angelic being appeared and asked him to read a text:

 

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5

Read! In the Name of your Lord, Who has created (all that exists), Has created man from a clot (a piece of thick coagulated blood).  Read! And your Lord is the Most Generous, Who has taught (the writing) by the pen, Has taught man that which he knew not

 

In the next 23 years he received the revelation we now called Quran.  It is instructed to him that now this is the last communication of Allah with Humans, as the message is straight forward.  In surah  Al-Anam Allah said:

 

وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 153

And verily, this is my Straight Path, so follow it, and follow not (other) paths, for they will separate you away from His Path. This He has ordained for you that you may become Al-Muttaqun

 

Allah said in surah Al-Baqarah

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (256)

There is no compulsion in religion. Verily, the Right Path has become distinct from the wrong path. Whoever disbelieves in Taghoot and believes in Allah, then he has grasped the most trustworthy handhold that will never break. And Allah is All-Hearer, All-Knower.

 

Allah informed us that whole humanity had one single faith, Islam

وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ 52

And verily! This your religion (of Islamic Monotheism) is one religion, and I am your Lord, so keep your duty to Me.

 

Because of this similarity between the messages, all Messengers of Allah are same. Allah said in Surah al-Shura 13-15:

 

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ (13) وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (14) فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَقُلْ آَمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ كِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (15)

He (Allah) has ordained for you the same religion  which He ordained for Nuh (Noah), and that which We have inspired in you (O Muhammad ), and that which We ordained for Ibrahim (Abraham), Musa (Moses) and ‘Iesa (Jesus) saying you should establish religion (i.e. to do what it orders you to do practically), and make no divisions in it (religion). Intolerable for the Mushrikun, is that to which you (O Muhammad ) call them. Allah chooses for Himself whom He wills, and guides unto Himself who turns to Him in repentance and in obedience. And they divided not till after knowledge had come to them, through selfish transgression between themselves. And had it not been for a Word that went forth before from your Lord for an appointed term, the matter would have been settled between them. And verily, those who were made to inherit the after them (i.e. Jews and Christians) are in grave doubt concerning it. So unto this then invite, and Istaqim, as you are commanded, and follow not their desires but say: “I believe in whatsoever Allah has sent down of the Book and I am commanded to do justice among you, Allah is our Lord and your Lord. For us our deeds and for you your deeds. There is no dispute between us and you. Allah will assemble us (all), and to Him is the final return.

 

It means that all Prophets had same religion the core of the faith is based on the Oneness of Allah, rejection of Taaghoot[2], fear of Hereafter, and hope for the forgiveness of Allah. Prophet said (Sahih Muslim):

الأنبياء إخوة من علات وأمهاتهم شتى ودينهم واحد

Prophets are like son of same father with different mothers and their religion is same

 

Hence as such People do not need any other approach to reach Allah if they have already got the revelation from Allah. In spite of the clear messages of Moses, Jesus and Muhammad peace be upon them, people opted to exercise the other approach to reach Allah i.e. Mysticism.

 

Allah said in surah Al-Hadeed-27:

 

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الإنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ 

Then, We sent after them, Our Messengers, and We sent ‘Iesa (Jesus) – son of Maryam (Mary), and gave him the Injeel (Gospel). And We ordained in the hearts of those who followed him, compassion and mercy. But the Monasticism which they invented for themselves, We did not prescribe for them, but (they sought it) only to please Allah therewith, but that they did not observe it with the right observance. So We gave those among them who believed, their (due) reward, but many of them are Fasiqun (rebellious, disobedient to Allah).

 

Due to this, in early stages of Muslim history, Mysticism as an approach is not favoured. But somehow this approach survived and become the most revered approach in Muslim world to seek God. As the reader go through this book, he would be amazed to see how the mystical tradition from Jews, Christians and Gnostics has entered in the Islamic mystical tradition.

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


[1] Al-Tahannath التحنث means engagement in nearness to Allah and His worship.

[2] Taaghoot means any one acting against the Allah

Although Jews were fascinated by the mysticism, magic and divination from the very beginning but these practices were reprimanded by God. The form of Mysticism whose practice survived till today has started in Babylon. There Jews were indulged in magic and they associated the Kingdom of Prophet Sulaiman with magic, in order to accomplish some ulterior motives.

 

Merkabah Mysticism

 

According to Book of Ezekiel in Bible, Ezekiel was born into a priesthood lineage and was resident of Anathoth. He belonged to upper class Jews who were exiled to Babylon. On the bank of the Chebar (الخابور‎) River, in Tel Abib in Babylon he saw a great vision. In the vision he saw a great chariot called Merkabah (chariot) with lights, fire and flashes. The angelic beings were surrounding the chariot (see Ezekiel 1-28). Later in Jewish Mysticism Merkabah is related with Divine Throne and Jewish mystics developed a whole branch around it called Merkabah/Merkavah[1] mysticism (or Chariot mysticism). It is estimated that it started as early as from c.100 BCE to 1000 CE (started from 100 years before Jesus).

 

In Ezekiel’s vision, all the movement of all the angels of the chariot or Merkabah are controlled by the Man on the Throne. Ezekiel said (Ezekiel 1:26)[2]

וּמִמַּעַל, לָרָקִיעַ אֲשֶׁר עַל-רֹאשָׁם, כְּמַרְאֵה אֶבֶן-סַפִּיר, דְּמוּת כִּסֵּא; וְעַל, דְּמוּת הַכִּסֵּא, דְּמוּת כְּמַרְאֵה אָדָם עָלָיו, מִלְמָעְלָה

And above the firmament that was over their heads was the likeness of a throne, as the appearance of a sapphire stone; and upon the likeness of the throne was a likeness as the appearance of a man upon it above.

 

In Judaism it is forbidden to interpret this text and if done should be done after permission and secrecy.

 

Seek not out the things that are too hard for thee, neither search the things that are above thy strength. But what is commanded thee, think thereupon with reverence; for it is not needful for thee to see with thine eyes the things that are in secret[3].

 

Therefore that understanding of some passages was only devoted to Khawas or special People who can hold the intensity of those writings. The secret doctrines must not be discussed in public. This enormous vision has attracted Jewish mystics to indulge in meditation to seek knowledge of the Divine Realm and the Kingdom of God.  From Mysticism tradition of Judaism it is definitely dated pre-Islamic, contrary to some opinion of Muslim scholars[4].

 

You are You!

An important personality in early Islam was Abdullah bin Saba[5]. He was originally a Jew from Yemen but converted to Islam. Believes and ideologies preached by Ibn Saba were alien for early Muslims. Muslim scholars find it hard to reconcile Ibn Saba’s believes with both Judaism and Islam.

 

Al-Shahiristani writes in Al-Mallal-wan-Nahal, pg 50 about the deviated sects of Islam:

 

السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.

Al-Sabaiyyah: The people of Abdullah bin Saba; one who said to  Ali may Allah has Mercy on his face: You are You  means you are god; so Ali  deported him  to Al-Madain. These people claim that he (Ibn Saba) was Jew then accepted Islam. He said that Yusha bin Nun was the successor of Moses and similarly he called for Ali may Allah pleased with him. And he (Ibn Saba) is the first one, who spread the statement for evidence of Immamate of Ali. And to him are many Ghulat[6] sects are associated. They thought that Ali is alive and has not died; and in him were the Divine parts, and it is not allowed to him to reveal those; and he (Ali) floats with  clouds and lightening is his voice and flash is his smile and he would descend to Earth  after that; and would fill the earth with justice as it is filled will oppression. And Ibn Saba appeared with this description after the demise of Ali may Allah be pleased with him; and with him (Ibn Saba) gathered a group and this was the first sect which holds the believes of Tawaquf, Ghybata and Rijah. And they hold the concept of transmigration of Divine parts  into their Imams (leaders)  after Ali.

 

Ibn-Ather writes in al-Kamil fil Tareekh, juz 2, pg 8

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم...

 

Abdullah bin Saba was Jew from Sana (Yemen), his mother was black and he accepted Islam in reign of Uthman. Then he shifted to Hijaz then to Basra, then to Kufa  and then to Syria. He intended to make people astray ( from Islam) but had not accomplished this. Then people of Syria deported him, he arrived at Egypt and stayed there and said to them: Strange it is when you say that Jesus would return, and deny that Muhammad would return and made (the concept of) Rija for them, and they accepted that. Then he said: For every Prophet there was (a successor) Wasi and Ali is Wasi of Muhammad, so most tyrant is the person who had not acted on the will of Prophet, peace be upon him. And he claimed that Uthman has taken over (the caliphate) without the right, so rise up in this matter and start denouncing your rulers ….

 

Generally Muslim historians claim that Ibn Saba motives were political but he used religion to gather masses and invented new terms and concepts in Islam.  Almost all Sunni historians have counted him among deviated Shiite sects.  But how his believes represents his hidden Jewish faith had never been explored.

 

If one analyse his claims in the light of Jewish mystical thought one would definitely see the Jewish traces in his thought process.  For example in Torah it is stated that when Moses saw Allah in the burning bush he asked what shall I say to Pharaoh?  Who you are? God said  (Exodus 3:14)

אֶהְיֶה אֲשֶׁר אֶהְיֶה

                                               ehyeh ʾašer ʾehyeh   (phonetically in Hebrew)

I am what I am           (translated in English)

ana-howa-allazi-howa         (translated in Arabic Bible)

Al-Mutahar (ا لمطهر بن طاهر المقدسي) writes in Al-Bida wal Tahrikh البدء والتاريخ, pg 14

وقول اليهود بالعبرانية ايلوهيم ادناي اهيا شراهيا ومعنى ايلوهيم الله

And Jews called in Hebrew (names) Elohim, Adoni, ehya ashr ehya and meaning of  Elohim (is) Allah

 

The name اهيا شراهيا is arabisation of ehyeh ʾašer ʾehyeh. Ibn Al-Abri writes in book Tahrikh Mukhtasr Al-Daul   تاريخ مختصر الدول:

قال موسى: فان قالوا لي ما اسم ربك ماذا أقول لهم. قال: قل اهيا اشر اهيا أي الأزلي الذي لا يزال

Moses said: If they asked me what is the name of your Lord what shall I say to them? (Allah) said: Say اهيا اشر اهيا that my Eternalness would not fall.

 

Ibn Manzoor quoted Al-Saghani that[7]:

وهو اسم من أسماء الله جل ذكره ومعنى إهيا أشر إهيا الأزلي الذي لم يزل هكذا أقرأنيه حبر من أحبار اليهود بعدن أبين  شَراهِيا معناه يا حيُّ يا قيُّومُ بالعِبْرانِيَّةِ

And that is the name in names of Allah Almighty and meaning of إهيا أشر إهيا  is that My Eternalness would not fall and similarly indicated that to me a sage in sages of Jews from Adan ,  the meaning ofشَراهِيا   is O Ever Living O Sustainer in Hebrew.

 

So when Abdullah ibn Saba  said to Ali: You (are) You!,  he actually reiterated the God’s answer to Moses. By saying You  (are) You, he associated him to God which Ali, may Allah pleased with him immediately recognized.

Secondly the association of Ali with lightening, clouds and flashes is actually the symbiosis of Ali with the Ezekiel’s Man on Merkabah. He too appeared in clouds with flashes and lightening.

 

Does he believed in Hulul[8] or was there some other Jewish believe under-playing is not clear due to brief reports about Ibn Saba.  In mystical tradition of Islam it is said that the Being which appeared to Moses in burning bush was Ali and Being said Ann al-Haque (I am Truth)

The meanings of these Persian verses are:

 rawa-bashad-anal-haq

If a voice of I am Truth from a tree is permissible

then how come it is not permissible for a noble man?

 

In many Sufi mystic orders the meetings for the remembrance of Allah are very important. These meetings which are meant for the Dhikr of Allah normally end with the rhythmic generation of sound. Some mystics are mesmerised by this and go into frenzied dancing called State of Wajd.  The formula they use is Allah Hu Allah Hu, but it has no source in Quran and Hadith. It seems to be an adaptation of the verse of Exodus 3:18, as God said:

ana-howa-allazi-howa

A well know Sufi formula for Dhikr is: Allh-hu-Allah-hu

Only the word are replaced.  Simply Anna (I) is replaced by Allah (see the verse of Torah).

Gematria and ilm- ul- Jafr

Greek thought and philosophy had a huge impact on the religion of Judaism after 334 BCE when Alexander invaded near east. Now the Jewish mystical thoughts are merged with Hellenistic culture and Greek Neo-Platonism. Philo Judeas (30 BCE-45 CE) was the leader of Jewish’s community at Alexandria indulged in mystical practices. Jews used the Greek method of Isopsephy[9] to unlock the mysteries of Cosmos, method called Gematria[10].  The earliest use of Gematria is attributed to Philo during second Temple period.

 

Muslims too developed Abjad system or Ilm-ul-Jafr[11]  similar to it. It has been narrated on the authority of `Abdullāh ibn Sinān that Imam Ja`far al-Sādiq said when we mentioned before him the activities of the descendants of Imam al-Hasan and also the al-Jafr:

 

“By Allah I swear; we keep two papers made of skins of goat and sheep. These two papers comprise the dictation of the Messenger of Allah with the handwriting of (Imam) `Alī.”

 

The Imam remained silent for a while and then said,

 

 “With us there is al-Jafr. Do they know what al-Jafr is?” I asked, “What is al-Jafr?” The Imam (a.s.) said, “It is a container made of skin that contains the knowledge of the prophets and the executors of their wills. It is the knowledge of the scholars in the past from the Israelites.[12]

 

 

Dahabi quoted a poet Abi Alla Marra  أبى العلاء المَعرِّى  in his book Al-Tafseer wal- Mufasaroon:

لقد عجبوا لأهل البيت لما     أروهم علمهم فى مسك جفر

ومرآة المنجم وهى صغرى         أرته كل عامرة وقفر

I have been astonished by Ahlul Bayt             They showed their knowledge  by the touch of Jafr
And the Mirror of Stars, that is small one      enough for everyone settled and  in wilderness

 

According to mystic Shibli (Abu Bakr Dolad Jafar bin Younis Al-Shibli) (d. 864 AH) said:

When god created the letters, He kept their secrets for Himself and when He created Adam He conveyed the secrets to him but did not convey it to any of His angels[13].

It is said that Abjad alphabets are the letters of Great Divine Name[14]:

أنها حروف من أسماء الله تعالى ، روى ذلك معاوية بن قرة ، عن أبيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم

Indeed they are the letters of Name of Allah, narrated Muawiah bin Qarrah from his father from Messenger of Allah peace be upon him

 In Table-1 the Hebrew Gematria and Abjad system is compared. It is important to note the similarity between the Hebrew letter sounds and Arabic letters. In Abjad system the number are not assigned as they appear in order instead the number are assigned according to Gematria. On the other hand the letter of Hebrew are in order as they read in sequence. Abjad arrangement and Ilm-ul-Jafr[15] are thus Arabic adaptation of Gematria  which reveals that it has its origins in Jewish mysticism.  The main difference between Abjad and Ilm-ul-Jafr methods is that the former refers to what has already taken place in past and the later one is about what’s likely to take place in the future.

 

Example 1:  Hebrew theonym (Hebrew: יהוה‎) phonetically  in Arabic as  ي ه و ه is called the name of God in Hebrew.  10+5+ 6+5=26 

Another name is El = אל = 30+1 =31

The name El is also used in the names of Angels like in Hebrew Jibril is called  גַּבְרִיאֵל  (see the table;  it is pronounced Jibr-el in Hebrew)  is also used in Quran. In Hebrew it means El is my strength. Likewise Micha-el means El is my power.

This also refute the claims of some Muslims which stress unnecessarily on the use of word Allah instead of God.

Example 2:  אָדָם = Adam = 40+4+1=45

Example 3: In Arabic the word القمر is used for moon so numerals are:

ا  ل ق م ر = 1+30+100+40+200 = 371= 300+70+1

Decoding it back gives the essence of the word as ش  ع ا = شعا means circulating or عشا which means night so Moon circulates in night.

Example 4  Huruf Muqattaa’t are the letters of Arabic in a combination appearing in the beginning of some surah in Quran. Their exact meaning is unknown and only Allah knows about their purpose. Surah Baqarah starts with such huruf الم = ا ل م = 1+30+40=71. These numbers are widely used in amulets.

 abjad

In the ancient Jewish text of Sefer Yezirah, the letters are related to elements and planets.  The purpose is to unlock the mysteries of cosmos using the letters and deciphering them. The author of Sefer Yetzirah combined seven letters to make combination corresponding to seven plants known in Hellenistic era.  In similar fashion eight letter words were created in Ilm-ul-Jafr[16]. The first word Abjad consists of four letter. The second word is Hawwadh, which consist of three letters. Third one is the three letter word Hutti. The fourth word  is the four letter Kaleman. Fifth word is the four letter S’fas. Sixth word is the four letter Qarashat. The seventh is the three letter Thakhkhaz and the eighth is the three letter Dazagh.

 

Tibri has reported that these are the name of days in his  book  : تاريخ الرسل والملوك

حدثني الحضرمي، قال: حدثنا مصرف بن عمر واليامي، حدثنا حفص ابن غياث، عن العلاء بن المسيب، عن رجل من كندة، قال: سمعت الضحاك ابن مزاحم يقول: خلق الله السموات والأرض في ستة أيام، ليس منها يوم إلا له اسم: أبجد، هوز، حطي، كلمن، سعفص، قرشت.

Dahhak bin Mazahim said: Allah has created Heavens and Earth in six days, and the name of the days are Abjad, Hawwadh, Hutti, Kaleman, S’fas and Qarashat.

 

Note that there are 22 Hebrew alphabets are rest are derivates of them. That is why the last word is Qarshat; because with above 6 words  all 22  Hebrew Alphabets are used.

 

Al-Askari said in his book  Awail:

وقالوا: أول من وضعه أبجد وهوز وحطي وكلمن وسعفص وقرشت. وضعوا الكتاب على أسمائهم وكانوا ملوكاً.

And  said: the first created was Abjad, Hawwadh, Hutti, Kaleman, S’fas and Qarashat. A book is written on their names and they were kings

 

Ibn-Khuldoon writes in his Muqqadmah, in chapter ومنهم طوائف يضعون قوانين لاستخراج الغيب that how the Abjad letters are used for the extraction of knowledge of future:

وصارت تسع كلمات نهاية عدد الأحاد وهي ” إيقش، بكر، جلس، دمت، هنث، وصخ، زغد، حفظ، طضغ 

And they draw nine words which end with letter Ahad and words are

إيقش، بكر، جلس، دمت، هنث، وصخ، زغد، حفظ، طضغ 

 

Now if you go back to Table 1 and see the letters in words are actually the combination of  letters of Gematria in  a row. There are some minor changes but the reason of that is that Ibn-Khuldoon heard it from someone.

 

In book   المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام , Jawwad Ali writes

ولمسألة ترتيب الحروف اهمية كبيرة لا تقل عن اهمية أسماء الحروف. ويظهر إن ترتيب ” أبجد هوز حطي..، الخ”، وهو ترتيب سار عليه العرب أيضاً، هو ترتيب قديم، وقد عرف عند السريان وعند النبط والعبرانيين،وعند “بني إرم” ويظن انهم أخذوه من الفينيقيين. وقد سار عليه الكنعانيون أيضاً

And the sequence of the letters is a matter of great  importance ….and appearance in the combination of Abjad, Hawwadh, Hutti .. is also taken by Arabs and its an ancient combination and its known to Syrian, Nabateans, Hebrews and too Bani Irum and it is thought that they took it from Phoenicians and likewise followed Canaanites too.

 

Thus Muslims were unaware of origin of these words, some said these were the six days of creation, and some said these were the names of Kings but they all agreed that these words are ancient.

 

Great Divine Name (Ism-e-Azam)

 

Another important Jewish mystical text is Shir Qomah. The majority of the text is recorded in the form of sayings or teachings that the angel Metatron[17] revealed to the Rabbi Yishmael[18] who transmitted it to his students and his contemporary Rabbi Akiba. Shir Qomah  record, in anthropomorphic terms, the secret names and precise measurements of God’s corporeal limbs and parts. The book state that:

 

Everyone who knows the measure of the Creator is sure to be a son of the World to Come, and will be saved from the punishment of Gehinnom, and from all kind of punishments and evil decrees about to befall the world, and will be saved from all kind of witchcraft, for He saves us, protects us, redeems us, and rescues me from all evil things, from all harsh decrees, and from all kinds of punishments for the sake of His Great Name.” Shiur Qomah 1:2

 

In Muslim History a heretic named Mughaira bin Saeed (d. 119 AH) appeared in Iraq. He was a  pseudo-religious political person.  Ibn-Hazam wrote in Al-Mallal wan Nahal:

 

 .. He used to live in Kufa. He was burned alive on the orders of Khalid bin Abdullah. He used to say that his Lord is a young man  (Naodhubillah) and his body parts are as many as letters of  Al-Abjad i.e. Arabic Alphabets[19]. The famous liar and weak narrator Jabir bin Yazid Al-Joufi was the apostle of Mughaira after his death. Mughaira instructed his followers that now leader of Shiites is Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan bin Ali bin Abi Talib  i.e. grandson of Hasan may Allah  pleased with him.  Mughaira claimed that angels Gabriel and Michael have given oath of allegiance to Muhammad bin Abdullah between Maqam-Ibrahim and Rukun (part of Kabbah)[20].  He introduced the principal of Taweel[21] of Quran. He claimed that in Quran, Adel (Justice) means Ali, Ahsan means Fatimah, Zawil-Qurbah means Hasan and Hussain and Fahsha wal Munker means Abu Bakr and Umer.[22]

 Abul-Hasan Al-Ashari wrote about him[23]:

The fourth group is Al-Mughairah i.e. those who believed in Mughaira bin Saeed. They thought that Mughaira is apostle and knows Ism-e-Azam (Great Divine Name) also they claimed that their Lord is a Noor[24] and Human which tiara on His head. He has limbs like humans and He has belly and heart which gives the Hikmah and He has as many limbs as letters of Huruf Abjad. Aleph with slight inclination corresponds to His foot and for ه they claimed that if you have the vision of it, you would have seen a great thing! By this they mean the hidden parts[25]. That cursed one,  claimed that he has seen that. He also claimed that he knows Ism-e-Azam by the help of which he could raise the dead. … He also claimed that Muhammad peace be upon him is the first creation.

 

It is repoted in al-Kafi[26]:

 

 Shurays al-Wabishi narrated from Jabir from abu Ja‘far (a.s.) who has said the following:

The greatest name of Allah has seventy three letters. There was only of these letters. He spoke that one letter and land between him and throne of the Queen of Sheba sunk down as such that he could reach her throne with his hand and the land returned to the original state. This happened in a blinking of (a number of our people has narrated) from eye. Of the greatest name of Allah there are seventy two letters with us. Allah has kept one letter exclusively for Himself in the knowledge of the unseen. There is no means and no power except by the help of Allah, the Most High, the Most Great.”

 

Also in Al-Kafi:

al-Husayn ibn Muhammad al-Ash‘ari from Mu‘alla ibn Muhammad from Ahmad ibn  Muhammad ibn ‘Abdallah from Ali ibn Muhammad al-Nawfali who has said that he heard abu al-Hassan (a.s.) Sahib al-‘Askar say the following. “The greatest name of Allah has seventy three letters. There was only one letter with Asif. He spoke with it and the land between him and the throne of the Queen of Sheba  sunk down as such that he took her throne and placed it before Solomon. The land then came to normal state within less than a blinking of an eye. There are seventy-two of those letters with us. One letter is with Allah which, He has kept it exclusively in the knowledge of the unseen

According to Kabbalah  The Great Name of God contains 72 letters described in book Sefer Raziel. Also called Shem HaMephorash (שם המפורש)) see http://en.wikipedia.org/wiki/Shemhamphorasch

It is  reported in Tabqat Al-Sufiya pg 27 for Ibrahim bin Adham:

سمعت أبا العباس، محمدَ بن الحسن بنِ الخشاب، قال: حدثنا أبو الحسن عليُّ بن محمد بن أحمد المصري، قال: حدثني أبو سعيد أحمدُ بن عيسى الخَرَّاز، قال: حدثنا إبراهيم بن بَشَّار، قال: ” صحبت إبرهيم بن أدهم بالشام، أنا و أبو يوسف الغَسُولى، و أبو عبد الله السنِّجارى. فقلت: يا أبا إسحاق! خبِّرني عن بَدْءِ أمرك، كيف كان ” – قال: ” كان أبي من ملوك خُراسان. و كنت شاباً فركبت إلى الصَّيد. فخرجت يوماً على دابَّة لي، و معي كلب؛ فأَثَرْت أرنباً، أو ثعلباً؛ فبينما أنا أَطْلُبه، إذ هتف بي هاتف لا أراه؛ فقال: يا إبراهيم: إلهذا خلقتَ؟! أم بهذا أُمِرت؟!. ففَزِعتُ، و وقفتُ، ثم عدتُ، فركضتُ الثانية. ففعل بي مثلُ ذلك، ثلاثَ مرات. ثم هتف بي هاتف، من قَرَبُوس السَّرْج؛ و الله ما لهذا خُلِقتَ! و لا بهذا أُمِرتَ!. فنزلت، فصادفت راعياً لأبي، يرعى الغنم؛ فأخذت جُبَّتَه الصوفَ، فلبِستها، و دفعت إليه الفرس، و ما كان معي؛ و توجهت إلى مكة. فبينما أنا في البادية، إذا أنا برجل يسير، ليس معه إناءٌ، و لا زادٌ. فلما أَمْسَى، و صلّى المغربَ، حرَّكَ شفتيه، بكلامٍ لم أفْهَمه؛ فإذا أنا بإناءٍ، فيه طعامٌ، و إناءٍ فيه شرابٌ؛ فأكلتُ، و شربتُ. و كنتُ معه على هذا أيَّاماً؛ و علمني ” اسمَ اللهِ الأعظمَ ” . ثم غاب عني، و بقيتُ وحدي. فبينما أنا مُسْتَوْحش من الوحدة، دعوتُ اللهَ به؛ فإذا أنا بشخص آخِذٍ بحُجْزَتي؛ و قال: سَلْ تُعْطَهْ. فَراعَني قولُه. فقال: لا رَوْعَ عليك! و لا بَأْسَ عليك!. أنا أخوك الخَضْر. إن أخي داود، عَلّمك ” اسمَ اللهِ الأعظم ” ، فلا تَدْعُ به على أحد بينك و بينه شَحْنَاء، فتُهْلِكه هَلاكَ الدنيا و الآخرة؛ و لكن ادْعُ الله أن يُشَجِّع به جُبْنَك، و يُقوّيَ به ضَعفَك، و يُؤْنِسَ به وَحْشتَك، و يجدِّدَ به، في كل ساعة، رَغبتَك. ثم انصرف وتركني.

I said: O Abu Ishaque Tell me about the starting of this matter (mystical way), How it happened. He said My father was among the kings of Khurasan. And I was young and used to go  for hunting.  One day I have gone on  animal for me, and with me were hounds. I pursued a rabbit or a fox and while I was pursuing I heard a voice of unseen caller, it said to me: Is this you are created for? I got afraid and stopped then waited and attempted second time and same happened again. It occurred to me thrice. And a caller called me from saddle: By Allah is this you are created for? And is this you are commanded? I stepped down and came across a shepherd grazing sheep, I took his woollen cloak and put it on. And retreated from there and no body was with me and I went towards Makkah. While I was in the desert, I was a man who walked, and  not (a single) pot I had and any other (thing). When evening came I prayed Maghrib, my lips started gibberish which I understood not  When I arrived back to my pot (lo) there was food and pot  was filled with water, which I ate and drank. And it occurred to me for many days and I learned Ism Allah Al-Azam (Great Divine Name of Allah) but it was missed from me and left other (knowledge). While I was uncultured one, Allah called me, as If I am a person who is  .. and said to me: Ask it would be given. I appalled by this call. He said: Do not fear! And its not a problem  for you!. I’m your brother Al-Kidr. My brother David gave you, knowledge of “name of God”, So Don’t reject any one due to feud between you and him, otherwise you would be destroyed by the (adoration) destruction in this world  and in the hereafter; but I pray to  God to increase  your bravery over  cowardice, and strengthens your weaknesses, and humanizes your depression, and renewed it (harmony)  in every hour, (and increase) your interest (in mystic way) . And then went off and left me.

 

Abu Yazeed Al-Bustami (d. 261 AH) said[27]:

وقيل له: علمنا الاسم الاعظم. قال: ليس له حد، إنما هو فراغ قلبك لوحدانيته، فإذا كنت كذلك، فارفع له أي اسم شئت من أسمائه إليه

It is said to him: Teach us the Great Name (of God): He said: there is no limit of it. It is openness of your heart to oneness, when you attain that state, any name will be elevated for you, which you like from His Names.

 

Divination through Dead by Jews during Prophet’s Lifetime

 

After the second Hasr[28], the persecution of the Jews and the passage of time raised the fears that the details of the oral traditions dating from Pharisaic times (536 BCE – 70 CE) would be forgotten.  Understanding this urgency Rabbi Yehudah haNasi  also called Yehudah the prince  redacted Mishna around 220 CE. Later Mishna’s exegesis was written in Palestine now called Jerusalem Talmud completed around 400 AD. The second exegesis was written in Babylon or Iraq from 400 to 600 AD and called Babylonian Talmud. In 570 AD Prophet Muhammad peace be upon him was born. Therefore the most reliable source to understand the Jewish faith in times of Prophet is Mishna and its explanation called Talmud. To prove that dead are cognizant of humans affairs on earth these stories are told in Talmud[29]:

 

It once happened that a pious man gave a denarius to a a bagger on the new year eve in the time of drought. His wife upbraided him so he went and spent the night in the cemetery. He heard two spirits conversing. One said to the other come friend let us wonder in the world and hear behind the curtain, what visitation is to befall the world. The other spirit replied I cannot because I am buried in a matting of reeds. But do you go and report me what you hear. She went and having wandered about, returned. The other asked, what did you hear friend, behind the curtain? She replied I heard that if one sows in the first rainfall the hail will smite it. This man there upon went and sowed in the second rainfall. The hail destroyed everybody’s crops but not his. The following year he spent the new year’s night in the cemetery, and heard the same two spirits conversing. One said to the other come let us wonder in the world and hear behind the curtain what visitation is to befall the World? The spirit replied have I not told you friend that I cannot because I am buried in a matting of the reeds? But do you go and come and tell me what you hear? She went and wandered about and returned the other spirit asked what did you hear behind the curtain that if one sows the second rainfall it be smitten by the blast. This man went and sowed the first rainfall. What everybody else sowed was smitten by the blast, but not his. His wife asked him, how is that last year every bodies crop was destroyed by hail, but not yours and this year everybody’s crop is blasted except yours? He told her the whole story[30]

 

A story is reported in Talmud, that dead are also aware of visitors of their graves:

Zeiri left a some of money incharge of his land lady. During the time he went to the school of his master and returned, she died. He followed her to the cemetery and asked her where is the money? She replied go and take it from beneath the door’s socket in such and such place and tell my mother to send my comb and tube of eye paint through so-and-so who will arrive here tomorrow[31].

 

Another story is told in which it is showed how the living can acquire knowledge from dead:

The father of Samuel was entrusted with some money belonging to orphans at the time he passed away, Samuel was not with him. People called after him, son of consumer of the orphans’ money. He went after his father to the cemetery and said to them, I want Abba. They replied there are many of that name here. He said to them, I want Abba, the father of Samuel where is he? They answered he has gone up to the heavenly seminary where the Torah  is studied. In the meantime he noticed a former colleague named Lev, who was seated a part. He asked him, why do you sit a part? Why have you not gone up to the heavenly seminary? He replied I was told, the number of years you did not attend the seminary of R. Aphes, and caused him grief on that account, he will not permit you ascend to the heavenly seminary.  In the meanwhile his father arrived and Samuel noticed that he wept and laughed.  He said to him why do you weep? He answered because you will soon come here. And why do you laugh? Because you are very highly esteemed, let them allow Levi  to enter and they permitted him to enter. He asked his father, where is the orphans money? He replied go and take it from the enclosure of the mill. The upper and lower sums of money belong to us. The middle sum belongs to the orphans. He asked his father why did you act in this manner. He replied should thieves come to steal they would steal ours. Should the earth destroy, it would destroy ours[32].

 

A story is told about the torment in Gehinnom for non Jews:

A tradition exist to the effect that the sufferers in Gehinnom enjoyed a respite every Sabbath. It is mentioned in a dialogue between the Roman governor, Tineius Rufus and R. Akiba[33]. The Roman asked, how is the Sabbath different from any other day? The Rabbi retorted, how are you a Roman official different from any other man? Rufus said the Emperor was pleased to honour me;  and Akiba replied: Similarly the Holy One the blessed be He, was pleased to honour the Sabbath. How can you  How can you prove that to me? Behold the river Sabbatyon carries stones as it flows all the days of the week but it rests on Sabbath. To  a distant place you lead me! Akiba said, Behold a necromancer can prove it because the dead ascend all the days of the week but not on Sabbath.  You can test my statement by your father. Later on Rufus had occasion to call up his father’s spirit. It ascended everyday of the week but not on Sabbath. On Sunday he caused him to ascend  and asked, have you become a Jew since your death? Why did you come up every day of the week but on the Saturday? He replied  Whoever does not observed the Sabbath with you on Earth does so voluntarily, but here he is compelled to keep the Sabbath. The son asked is there then, work where you are that you toil on weekdays and rest on Sabbath? He answered; all the days of the week are under sentence but not on the Sabaath[34].

 

It is told in Talmud that spiritual beings are invisible, but one can see them by a procedure[35] :

 

Who wishes to perceive their footprints should take sifted ashes and sprinkle them around his bed. In a morning he will see something resembling the footprints of cock. Who wishes to see them should take ……. Roast it in fire, pulverize it then fill his eyes with it and he will  see them.. rabbi did that.. [36].

 

Divination through Dead and Spirits by Muslims

 

Spirits or souls can also guide Muslim Mystics, a procedure is mentioned by  Shah Waliullah (d. 1176 AH)[37]:

 

The discourse on Kashf Al-Qubur (Revelations from Graves): Remember the one, who would like to do the Kashf Al-Qubur that in the beginning (of this procedure)  he should pray two rakats for the soul of the saint. In the first raka he should recite chapter Al-Fatah if remember and in second one chapter Al-Akhlas if not then in each raka recite five times chapter Al-Akhlas. Then sit while keeping Kabba at his back and recite the Great Verse  and some chapters from Quran which are read when  graveyard is visited, like chapter al-Mulk and afterwards recite the (two) chapters (of Quran which) starts with (word) Qul.  After that recite the first chapter and eleven times chapter Al-Aklas and say Takbeer[38] and circumabulate the grave for seven times starting from the right side then place his face  (over the grave) on the foot side of the grave and sit near the dead and say for twenty one times O Lord and after that look towards sky and say O Spirit (of dead) and also repeat it in heart O Spirit (of dead), O Spirit (of dead) until his heart opens.  By will of Allah, the Revelation of Spirit or Revelation from grave would be acquired.

 

Among Muslims, a procedure is explained by a sufi master  Ashraf Ali Thanvi in his book Amal Al-Qurani pg 54, a method to access hidden treasure:

 

One who wants to know the location of buried or hidden treasure, he should writes these verse (of Quran) on the bowl of copper with Musk and Saffron then wash it with yellowish water of .. and the water from the green fruits. Then he should take the gall bladder of black chicken or black duck and take five Mithqaal[39]  Surmah (Kohl) and wash it with water and pulverise it until it becomes a fine powder. And he should do that at night  so that it doesn’t get the sunlight, place the powder in the glass bottle and apply it in his eyes using Abnoos wood stick, in such a way that fast on Thursday at the midnight  say prayer of blessings on Messenger of Allah and seventy times read these verses  and apply this power in his  eyes thrice, starting with the right eye first. And repeat it for seven nights.. Eventually that person would start seeing spiritual beings. Ask them whatever he wants to know. They would answer him.

Adam Kadmon:  The Theory of Primordial Man or Insan Al-Kamil

 

In Jewish mysticism, Adam Kadmon, is the first being to emerge from the Godhead.  Philo discussed this idea that the heavenly man is the perfect image of the Logos[40]. R. Akiba said (quoted in Talmud):

 

How favoured is man, seeing that he was created in the image! as it is said, ‘For in the image, אֱלֹהִ֔ים made man'” (Genesis  9:6)

 

Abdul Kareem Al-jili (d. 832 AH) explain the Islamic counter-part of this mystical concept in his book Insan Al-Kamil as[41]:

 

Insan Al-Kamil is the axis on which all the creation from beginning till end revolves. And it is same since the beginning of creation till infinitum. It has multiple manifestations. He appears in the Synagogues and Monasteries and he is named according to his appearance and at other times a different name is given. His original name is Muhammad. His nickname is Abul Qasim. His attribute is slave of Allah. And title Shamsuddin.  He has other names due to other forms. And in every age his name is different. I saw him manifested in my Sheikh Sharfuddin Al-Jabarti. I knew that he is Messenger of Allah peace be upon him (i.e. Muhammad) and also knew that he is my Sheikh.

 

Further he said:

 

Each of these Qutub or persons has control over the whole Kingdom (of God).  He knows what cracked in day and night and the languages of birds. And Shibli said: if an ant which moves over a hard rock in a dark  night and have I not heard its voice then I would have said  that I have been deceived or was in the state of deception.

 

 

 

 

 


[1] It is interesting to know that Islamic mystical practices Meditation is called Muraqaba. There are different Manazil or levels in Muraqabah. At the zenith of this procedure the person experiences the Tajalli-e-Dhaat of God or in other words he would see Allah Almighty. Conceptually the goal of Markabah Mysticism  and Muraqbah is same.

[2] http://www.mechon-mamre.org/p/pt/pt1201.htm

[3] Book of the All-Virtuous Wisdom of Joshua ben Sira

[4] Muslim scholars try to mix the Merkabah mysticism with Kabbalah and then claim that its formation is quite new. However, the former is the most ancient form and later one is developed in Europe, but that too has its source in ancient mystical texts.

[5] Abdullah bin Saba is not an imaginary person as some have claimed:

  1. In Shiite sources: Notable Shiite scholar, Abu Umar Muhammad bin Umar bin Abd al-Aziz al-Kashi (d. 340 AH) reported a narration in Rijal Al-Kashi: From Abi Ja’far  that Abdullah bin Saba’ used to claim prophet-hood and used to claim that Amir al-Momineen (Ali) is Allah, Exalted is He from that. This reached Amir al-Momineen (Ali) who summoned him and asked him (about it) so he (Ibn Saba’) affirmed it and said, “Yes, you are Him, and it had been entered into my soul that you are Allaah and that I am a prophet.” So Ali said to him, “Woe to you, the devils have mocked you, so recant from this, may your mother be bereaved of you, and repent.” But he refused, so he was imprisoned and asked to repent over three days. He never repented and was burned with fire. And he (Abi Ja’far, the narrator) said, “Shaytan had beguiled him, he used to come to him (Ibn Saba’) and would put that (idea) into his soul.”
  2. In Sunni sources: Ibn Hajar has reported, with several different chains (asnad) without Saif bin Umer, and proved that Ibn Saba is a real person. (see Lisan Al-Meezan, juz 2, pg40). Notable Shiite  narrators like Al-Kalbi and  Jabir bin Yazid Al-Joufi also claimed that they are follower of Abdulah bin Saba (Al-Majroheen by Ibn-Habban, Tahzeeb ul Kamal).

[6] Ghulat means deviated Shiites

[7] in Lisan-ul-Arab, juz 13, pg 506

[8] Hulul means that the  Divine spirit has descended into Creation

[9] Isopsephy is  the Greek word for the practice of adding up the number values of the letters in a word to form a single number.

[10] The Greek Qabalah by  Kieren Barry, Weiser Publishers

[11] According to Shiite tradition, Ilm-ul-Jar is the secret knowledge written on the skin of ram or goat  passed on to Ali from Prophet Muhammad peace be upon him.

[12] Kitab Al-Kafi: Vol. 1, Hadith 635, Ch. 40, h1

[13] Mystical Dimensions of Islam, Anne Marie Schimmel

[14] Al-Nukat wal Uyyon by al-Mawardi, juz 1, pg 9

[15] According to Shiite tradition, Ilm-ul-Jar is the secret knowledge written on the skin of ram or goat  passed on to Ali from Prophet Muhammad peace be upon him.

[16] http://sule27.tripod.com/id4.html

 

[17] Metatron is an angel, only appeared in mystical Jewish texts.

[18] Rabbi Yishmael lived before the birth of  Muhammad Messenger of Allah peace be upon him. That shows that this text is very ancient.

[19] Abjad letters from then on wards become mystical and now widely used in fortune telling, magic and mysticism. The approach is quite similar to Jewish mysticism especially see the book Shir Qomah, an ancient text  in which explains  how Hebrew alphabets are representing the body of God Almighty.

[20] Maqallat Al-Islamiyeen by Abul Hasan Al-Ashari

[21] Taweel is a procedure to assign different meaning to a word then its original one.

[22] According to Zareer bin Abdullah, Doafa Dar-Qutani

[23] in Maqallat Al-Islamiyeen pg 11 in Maqallat Al-Islamiyeen pg 11

[24] Noori i.e. created from Light

[25] Like human genitals

[26] Al-Kafi, ch 36

[27] Seer Aallam Al Nublah by Dahabi , juz 13 pg 86

[28] Second Destruction of Jerusalem by Romans

[29] Order Zeraim, Berachoth 18b

[30] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 284-285

[31] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 286

[32] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 286-287

[33] R. Akiva (d. 135 AD)

[34] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 382

[35] Order Zeraim, Berachoth, 69

[36] Everyman’s Talmud by Abraham Cohen, Schoken Publishers, 1995, pg 262

[37] In Intebah fi Salasil Aulliah Allah, pg 113-114

[38] Takbeer means saying Allah-hu-Akbar (Allah is Great)

[39] Mithqaal is the unit to measure weight

[40] The Great Angel by Margaret Barker, pg 146

[41] Al-Insan Al-Kamil by Abdul Kareem Al-Jili,

 

Issa or Jesus peace be upon him gave a pure monotheistic faith that obey Allah and reject Taghoot. However after he left the World and his disciples too died, came people who were not so steadfast and followed their whims and deserted the pure monotheistic faith.  Many sects appeared which claimed to know the real teachings of Issa peace be upon him and attributed to him several Gospels.

 

Mysticism in Christianity arrived due to their conflicts on the nature of Issa. The author of Gospel of Mathew (Matti) claimed Jesus was human, born in lineage of David or Dawood peace be upon him, but at the moment of Baptism[1] in river Jordan by John or Yahyah peace be upon him, Jesus saw the descend of Holy Spirit[2] on him (3:16) and a voice declared Jesus as Son[3]. Then Holy Spirit took him to desert …indicating that Jesus acted under influence of it. Mathew probably liked to emphasis that the influence of Holy Spirit did not make him divine.  Mathew said that Jesus was born under influence of Holy Spirit (1:20). Jesus was the Messiah of Jews (1:16), who was foretold by Jeremiah (31:15), Isaiah (40:3) and Psalms (91:11-12). But Matthew did not refer towards divinity of Jesus. Mathew also said that people in times of Jesus thought that Jesus is a Prophet (21:46).

 

The author of Gospel of Mark (Marqas) has not talked about the lineage of Jesus and in first ten lines of his Gospel he jumped quickly to claim that at the moment of Baptism the Holy Spirit descended into Jesus (1:10)  i.e. Hulul[4] of Ruh Al-Qudus (Naodubillah).

 

The author of Gospel of Luke (Loqa) claimed that Holy Spirit is not so special. It descended on Zakariyah (1:67) and on Shamoon (2:26). At the time of Baptism, Holy Spirit descended physically in form of dove or pigeon on Jesus and flowed over him (3:22) (so no Hulul occurred) and a voice from sky declared him Son of God[5], and thus Jesus become the adopted son of God (Naodubillah).  In Luke’s another book, Acts, same theory is placed that God adopted Jesus (Acts 13:33)[6].

 

The author of Gospel of John  (Yuhanna) claimed that Jesus had not become adopted son due to Baptism or descending of Holy Spirit (Hulul), but was god from the very beginning. John distorted the meaning of Kalimah or Word (or in Greek Logos). John started his gospel with verses(1:1-4):

 

In the beginning was the Word[7], and the Word was near[8] God, and the Word was Divine[9]. This one was in the beginning with God; All things were made through him and without him was not anything created. That was created in him was life[10] and that life was the light for humankind[11].

 

It is said in Gospel of John that all things were made through Word[12]. After comparing several translations and Greek grammar one Christian scholar explain the verses as :

 

God speaks word that make things come into existence. So Word is God’s creative Power and  plan and activity[13].

In verse 1:14 John said:

 

And the Word became flesh, and moved his tent in among us, and we beheld his glory, the glory as of an only begotten from a Father, full of grace and truth

 

Thus Jesus was Word or Logos incarnated. In this way John gave Jesus an exalted place and invented the mystery, that Kalimah or Word descended in physical form. So now John added another mystery in the nature of Jesus.

 

These differences in the nature of Jesus Christ were the major reason of Arian Heresy[14] which eventually led Christians towards Nicene Creed, in which using the Gnostic concept of Homoousios finally Triune God is made i.e. Theory of Three gods, Father, Son and Holy Spirit called Trinity[15].

 

Logos Terminology in Islam and Hulul Theology

 

In early Islamic history, a deviated person was Abu Mansoor Al-Ajali (d. 119 AH). He coined the name Kisaf (cloud) for himself and claimed that in Quran he was already foretold when Allah talked about clouds. Instead of saying By Allah for oaths, he used to say by Kalimah[16]. Ibn-Hazam wrote in al-Mallal wan Nahal that:

 

 Abu Mansoor claimed that Allah has created first Jesus son of Mary and after him Ali bin Abi Talib. He claimed that Prophethood has not ended… also his follower do not kill by inflicting cuts rather they suffocate their opponent and by this they mean that they wait till the appearance of leader (Imam).  And when Imam would appear they would kill the opponents with stones and the Khabshiyah[17] with woods or sticks. One group of them claimed that Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan is our Imam. They also claimed like Khattabiyah that Gabriel has mistakenly sent the revelation on Muhammad peace be upon him instead of Ali.

 

Some frequently used terms in Islamic Mystic literature are Lahut and  Nasut. What are the meaning of these words?

 

Al-Zubaidi explained Lahut and Nasut  in Taj Al-Urus تاج العروس من جواهر القاموس that [18]:

الصحيح أنه من مولدات الصوفية أخذوها من الكتب الاسرائيلية وقد ذكر الواحدى أنهم يقولون لله لا هوت وللناس ناسوت وهى لغة عبرانية تكملت بها العرب قديما

The correct is that this is invented by Sufiyah  and they took it from books of Israelites and Al-Wahidi said they say Lahut for Allah and Nasut for Humans and it is taken from Hebrew language and it is spoken  like this in ancient Arabic

 

Gospel of Luke was originally written in Greek,  when Arab Christians[19] translated it they used these ancient words to refer to human and divine aspects of Jesus.

 

Dawood Antaki wrote in his book تزيين الأسواق في أخبار العشاق

والناسوت واللاهوت ألفاظ وقعت في الانجيل فتأولها لوقا

And words  Nasut and Lahut  occurred in Gospel consult (Gospel of ) Luke

 

He further said that:

فقال أن عيسى ترع الناسوت يعني الحصة البشرية وأخذ اللاهوت يعني الحصة الالهية في ناسوته

He (Luke) said that in Jesus was Nasut means part human and took (out) the Lahut part means the divine part  from his human part

In Islam the first person who claimed Hulul[20] was Hussain bin Mansur Al-Hallaj.  Ibn- Khalkan writes[21]:

وكان في سنة 299 ادعى للناس أنه إله وأنه يقول بحلول اللاهوت في الأشراف من الناس

And in year 299, (Mansur) called people and said he is god and he said that Lahut can hulul[22] in the noble people

 

Hussain bin Mansur Al-Hallaj (d. 309 AH) said[23]:

سبحان من أظهر ناسوته  سر سنا لاهوته الثاقب

تم بدا في خلقه ظاهرا  في صورة الآكل والشارب

حتى لقد عاينه خلقه  كلحظة الحاجب بالحاجب

Holy is the Being who had revealed His Nasut (form)     through the bright secret of blazing Lahut
Then He appeared among His creation                              in form of a one who eats and drinks
Until His creation saw Him                                                      as a movement of eyebrow with eyebrow

He said[24];

مزجت روحي في روحك كما  تمزج الخمرة بالماء الزلال فإذا مسك شئ مسني  فإذا أنت أنا في كل حال

My soul is dissolved in Your (Divine) Spirit  as the wine is mixed with water, as You sense things I sense them as well, as You are me in all conditions

 

Thus Al-Hallaj claimed that Allah has infused in him and that is the claim of Divinity.  Ibn Kalkan wrote about his crucifixion and reported that Al-Hallaj has recited verses on the Cross:

وقال أبو بكر ابن ثواية القصري: سمعت الحسين بن منصور وهو على الخشبة يقول:

طلبت المستقر بكل أرض … فلم أر لي بأرض مستقرا  

 أطعت مطامعي فاستعبدتني … ولو أني قنعت لكنت حرا

And Abu Bakr Ibn Thawayata Al-Qasri said: I heard Hussain bin Mansur while he was on the Cross saying

 

I looked for the station on whole earth                            But didn’t found an abode here       

Obeyed my coveted (thought), she enslaved me            And if I stayed on it, it would set me free

 

Thus till his last breath he died on the belief of Hulul.

 

It is interesting to note that most of Muslim Mystics after Al-Hallaj have always praised him for his bravery in poetry and prose and he has become a symbol for deviated people.

 

Christian Monasticism in Desert

John Moschos(ca. 550- d. 619 AD/ 4 BH) was a notable monk of Christians during Prophet’s life time. John and his disciple Sophronius (65 BH- 638AD/ 17 AH), the Patriarch of Jerusalem travelled together at many places and collected the Hakayaat or anecdotes of Christian Monks or ascetics. John travelled in Egypt, Syria, Palestine and Asia Minor. He collected his anecdotes during his travels and compiled them in Greek with title Pratam Sprituale  also called Leimonarium. He died four years before migration of Prophet from Makkah to  Medinah.  In 637 AD (16 AH) Muslims conquered the Jerusalem. Sophronius toured caliph Umar ibn al-Khattab may Allah be pleased with him,  the city.

 

The following passages are quoted from Pratam Spritulae by John Moschos:

 

Saints are alive in graves

This story was told us by Abba Basil, priest of the monastery of the Byzantines. When I was with Abba Gregory the Patriarch at Theoupolis,  Abba Cosmas the Eunuch of the Larva of Pharon came from Jerusalem. The man was most truly a monk, orthodox and of great zeal, with no small knowledge of the scriptures. After being there a few days, the elder died. Wishing to honour his remains, the patriarch ordered that he should be buried at  a spot  in the cemetery where a Bishop lay. Two days later I came to kiss the elder grave a poor man stricken with paralysis was lying on the top of the tomb, begging alms of those who came into the church. When this poor man saw me making three prostrations and offering the priestly prayer, he said to me: O Abba this was needed a great elder, sir, whom you buried here three days ago. I answered how do you know that. He told me I was paralysed for twelve years and through this elder the Lord cured me. When I am distressed, he comes and comforts me, granting me relief. And you are about to hear yet another strange thing about this elder ever since you buried him at night calling ans saying to the bishop Touch me not, stay away, come not near, thou heretic and enemy of Truth and of the holy catholic Church of God. Having heard this from the man cured from his paralysis, I went and repeated it to the patriarch, I besought that most holy man to let us take the body of the elder and lay it in another tomb. Then the patriarch said to me believe me my child Abba Cosmos will suffer no hurt from the heretic. This has all come about that the virtue and zeal of the elder might become known to us after his departure from this world also that the doctrine of bishop should be revealed to us so that we not hold him to have been one of the orthodox[25].

 

John Moschos along with his disciple Sophronius went to  a place in Alexandria where me met a blind man, who told them the story of how he become blind

 

I went into sepulchre and stripped the corpse of its all clothes except for a single shroud. As I was leaving the sepulchre, my evil habits said to me Take the shroud too its worth the trouble. So wretch that I am I turned back and remove the shroud from the corpse, leaving it naked. At which point the dead sat up before and stretched out his hands towards me with his fingers he clawed my face and plucked out both my eyes. I cravenly left all behind and fled from the sepulchre, badly hurt and chilled with horror. Now I too have told I cam to be blind[26].

 

Dead saint’s guidance

There was an anchorite in these mountains, a great man in the eyes of God who survived for many years on the natural vegetation which could be found there. He is died in a certain small cave and we did not know, for we imagined that he had gone away to another wilderness place. One night in this anchorite appeared to our present father, that good and gentle shepherd, Abba Julian, as he slept, saying to him, Take some men and go, take me up from the place where I am lying, up on the mountain called the Deer. So our father took some brethren and went up into the mountain of which he had spoken. We sought for many hours but we did not come across the remains of the anchorite. With the passage of time, the entrance to the cave in which he lay had been covered over by shrubs and snow. As we found nothing Abba said Come children Let us go down and just as we were about to return, a deer approached and came to stand still some little distance from us. She began to dig in the earth with her hooves. When our father saw this he said to us believe me children that is where the servant of god is buried. We dug there and found his relics intact [27]

 

Oratory and Church over graves

Our holy father, Abba George…. told us: When I was about to build the church saint Kerykos at Phasaelis they dug the foundations of the church and a monk, very much an ascetic, appeared to me in my sleep. He wore a tunic of sack-cloth and on his shoulders an over garment made of rushes. In a gentle voice he said to me tell me Abba George Did it really seem just to you, sir, that after so many labour and so much endurance I should be left outside, the church you are building? Out of respect for the worth of the elder, I said to him: who in fact are you, sir? I am Peter the grazer of the Jordan. I arose at dawn and enlarged the plan of the church. As I dug I found his corpse lying there just I had seen him in my sleep. When the oratory was built I constructed a handsome monument in the right hand aisle, and there I interred him[28].

 

Forty days at grave

I have found it written that blessed Leo who become primate of the church of the Romans, remained at the tomb of apostle Peter for forty days exercising himself in fasting and prayer invoking  the apostle Peter to intercede with God fro him that his faults might be pardoned. When forty days were fulfilled, the apostle Peter appeared to him saying I prayed for you, and your sins are forgiven except for those of ordinations. This alone will be asked of you whether you did well, or not, in the ordaining those whom you ordained[29]

 

Cloak offering

We encountered Abba John the Persian at the Larva of Monidia and told us this about George the Great,  the most blessed bishop of Rome.  I went to Rome at the tomb of most blessed apostles, Peter and Paul. One day when I was standing in the city center the I saw Pope  Gregory[30] was going to pass by. I had it in mind to prostrate  myself before him. The attendants of Pope began saying to me, one by one. Abba, do not prostrate yourself. But I could not understand why they had said that to me, certainly it seems improper for me not to prostrate myself. When the Pope near and perceived that I was about to prostrate myself – the Lord is witness brethren- he prostrated himself down and refused to rise until he got up. He embraced me with great humility handed me three piece of gold, and ordered me to be given a monastic cloth, stipulating that all my needs to be taken care  of. So I glorified God who had given him such humility towards every body, such generosity with alms and such love[31].

 

Prostration at each step

When we were in Alexandria we visit Abba Theodoulos who was at the church of Saint Sophia holy wisdom by the Lighthouse. He told us:

It was in the community of our saintly father Theodoulos which is  in the wilderness of the city of Christ our God that I renounced the World there I met a great elder named Christopher, a Roman by race. One day I prostrated myself before him and said of your  charity Abba tell how you have spent your life from youth up I persisted in my request and because he knew I was making it for the benefit of my soul. He told me saying When  I renounced the World child I was full of ardour for monastic way of life. By day I would carefully observe the rule of prayer and at night I would go to pray in the cave where the saintly Theodoulos and the other holy fathers are buried. As I went down into the cave I would make a hundred prostrations to God at each step: there were eighteen steps. Having gone down all the steps, I would stay there until they struck the wood at which time I would come back up for the regular office. After ten years spent in that way with fastings and continence and physical labour, one night I came as usual to go down into the cave. After I had performed my prostrations on each step, as I was about to set foot on the floor of the cave I felt into the trance. I saw the entire floor of the cave covered with  lamps, some of which were lit and some were not. I also saw two men, wearing  mantles and clothed in white, who tended those lamps. I asked them why they had set those lamps out in such way that we could not go down and pray. They replied: These  are the lamps of the fathers. I spoke  to them again: Why some of them lit while others are not?  Again they answered those who wished to do so lit there own lamps. Then I said to them: Of your charity is my lamp lit or not? Pray they said and we will light it. Pray I immediately retorted and what I have been doing until now? With these words I returned to my senses and, and when I turned round, there was not a person to be seen. Then I said to myself Christopher , if you want to be saved,  then yet greater effort is required. At dawn  I left monastery and went to Mount Sinai. I had nothing with me but the clothes I stood up in, after I had spent fifty years of monastic endeavours. There, a voice came to me Christopher, go back to your community in which you fought in the good fight so that you may die with your fathers. And a little while he told me this, his holy soul was joyfully to rest in the Lord[32].

 

Wandering Muslim Mystics

In Islamic tradition a similar anecdote is told for Sufi mystic Ibrahim bin Adham, he is described as[33]:

 

إبراهيم بن أدهم، أبو إسحاق. من أهل بَلْخ كان من أبناء الملوك و المَياسير. خرج متصيِّداً، فهتف به هاتف، أيقظه من غَفْلَتِه. فترك طريقته، في التَّزَيُّن بالدنيا، و رَجَع إلى طريقة أهل الزُّهْد و الورع. و خرج إلى مكة، و صحب بها سفيان الثَّوري، و الفُضَيْل بن عِياض. و دخل الشام، فكان يعمل فيه، و يأكل من عمل يده

Ibrahim bin Adham, Abu Ishaque, from Bulkh, belonged to royal family went out for hunting and heard a voice, woke up from his sleep left the way of worldly adoration, turned towards the way of asceticism and piety and went to Makkah and stayed among people of Sufyan Al-Thori and Al-Fadeel bin Ayaz and entered Syria and acted there and ate (earned)by hand work.

 

An anecdote is told about Ibrahim bin Adham [34]:

Said: the day Khwaja Ibrahim bin Adham abdicated the kingdom and throne, he manumitted all slaves he has  in front of him and started his journey  towards Kabba with intention of Hajj, and said every one goes to Kabba by feet  I should go there by head. So on each step he prayed two rakat Nafil (four prostrations) and reached Makkah in fourteen years from Balkh. But astonishingly Kabba was not there! A voice spoke to him: O Ibrahim wait and be patient, Kabba has gone to visit an old lady. He  got perplexed and asked: O Lord who is that lady? It was told that there is an old lady in woods[35].  Ibrahim went to her in woods and saw Rabiyah Al-Basri there and saw Kabba circumambulating her. Ibrahim ashamed and  said to her: What a commotion you created! Rabiyah replied: Nay that commotion you have  generated. You travelled from Bulkh till here in fourteen years and even than have not found Kabba at its place, as desired. When Ibrahim heard that he said: O Rabiyah, You wished for the Kabba’s visit so you got it and I wished for the dweller of Kabba  (i.e. God) and He hid from  me.

 

The lady in this anecdote is Rabiyah Al-Adwiyah  رابعة العدوية.  Her full name was Rabiyah bint Ismael رابعة بنت اسماعيل أم عمرو العدوية  also called أم الخير. Shed died in year 135 AH and in some reports in 185 AH.  She used to claim that she worships Allah only for His Mercy and not for getting Paradise. It is showed in anecdote that she was well aware of the Ibrahim bin Adham intentions even before he uttered the whole episode.  This reflects that she was at a higher mystical level than Ibrahim bin Adham, which Ibrahim too realised.

 

Another important figure is Sufism is Abu Yazeed Al-Bustami أبو يزيد البسطامي الأكبر المشهور . His real name is طيفور بن عيسى   and died in year 261 AH [36]. Ibn Hajar reported in Lisan Al-Mezan that:

 

وقال أبو عبد الرحمن السلمي أنكر عليه أهل بسطام ونقلوا إلى الحسين بن عيسى البسطامي أنه يقول له معراج كما كان النبي صلى الله عليه وسلم فأخرجه من بسطام

And Abu Abdur Rehman Al-Sulami said that people of Bustam had rejected him and it is reported from Hussain bin Issa Al-Bustami that he (Abu Yazeed) said that he has experienced Mairaj[37] like that of Messenger of Allah peace be upon him, due to which  he was deported from Bustam.

 

Abu Talib Al-Makki (d. 386 AH) gives details of this Mairaj as[38]:

أدخلني في الفلك الأسفل فدورني في الملكوت السفلي، فأراني الأرضين وما تحتها إلى الثرى، ثم أدخلني في الفلك العلوي فطوف بي في السموات وأراني ما فيها من الجنان إلى العرش، ثم أوقفني بين يديه فقال لي: سلني أي شيء رأيت حتى أهبه لك، فقلت: ياسيدي، مارأيت شيئاً أستحسنته فأسألك إياه، فقال: أنت عبدي حقّاً

(God) entered me (Ba Yazid) in the underworld ship  and showed me his underworld kingdom, He showed me the lower earths and their cores. Then he entered me in a ship of upper-world and he passed me through heavens and I saw there are gardens till Holy Throne. Then stopped me in front of Himself and said: Ask me any thing you have seen I will gift it to you. I said: O Master I haven’t seen anything which I would appreciate so what shall I ask. He said: You are my real slave

 

Abu Yazeed used to say [39]:

يا رَبُّ! أَفْهِمْني عَنْك، فإنِّي لا أفهمُ عَنْك إلا بِكَ

O Lord, bestowed me your understanding, I don’t understand You but through You

 

He said [40]:

عرفْتُ اللهَ باللهِ، وعرفْتُ ما دونَ اللهِ بنورِ اللهِ عزَّ وجَلَّ

Understood Allah through Allah, and understood other than Allah through the Divine Light

 

He said [41]:

ما النار لاستندن إليها غدا

What is Fire (of Hell) will swallow it tomorrow!

 

 

Offering of Monastic cloak (Khaqah) by sufi Master is a tradition well known. But when did it is started? In Rahat-ul-Qulub by Fariduddin Ganj Shakar (pg 138) it is explained that in Islam it started in Mairaj (Night Journey) of Messenger of Allah peace be upon him.

 

Then discussion started on the  Kharqah. From his holy tongue he uttered that Messenger of Allah peace be upon him also got Kharqah in night of Mairaj. He called upon his companions and said I received kharqah from my Lord and it is commanded to me to give it to one of you, so the one among you, who would answer my question correctly,  I would give it to that person…(the first three caliphs answered wrong and finally).. Prophet gave the Kharqah to Ali.

 

Spending some time at the grave of holy person for divination from dead is a well known Sufi tradition. Ali Al-Hijweri writes[42]:

 

Ali bin Uthman Al-Jalabi may Allah bestow his Mercy on him had once tried to solve a problem but it didn’t solved. A similar incident occurred before it so I went to the grave of Sheikh BaYazid and stayed at his grave sight till it is solved. Finally it solved.

 

 

 

 

 

 

 

 

 


[1] Prophet Yahyah peace be upon him used to teach new converts to Islam, how to perform the ritual body washing at the river Jordan.  According to Gospels, Prophet Issa passed by Prophet Yahyah while he was teaching people and Prophet Jesus volunteered. This ritual cleaning is named Baptism by Christians.

[2] Holy spirit or Ruh Al-Qudus in Islam is not Divine but an angel known as Gabriel

[3] Gospel of Mathew 3:17

[4]  Hulul in plain words the God Almighty is believed to be descended in one of His creation

[5] Gospel of Luke 3:22

[7] The word λόγος (Logos) in John: 1- 4, is translated as Word or Kalimah. Also means cause, reason or speech.

[8] Truth in translation, Accuracy and Bias in English translations of the New Testament by Jason David BeDuhn,  pg 129

[9] Truth in translation, Accuracy and Bias in English translations of the New Testament by Jason David BeDuhn, University Press of America, Inc., 2003; BeDuhn has showed that the correct translation is Word was Divine not the Word was God.  In almost all translation in English for this verse it is said that the Word was God. Christians rendered the meaning to imply the divinity of Jesus and translated it wrongly.  Allah said Jesus is Kalima-tullah i.e. Word of Allah. In Islam that Word means the command of Allah, which indicates His Absolute Power that He created Jesus out of nothing in the womb of Virgin Mary peace be upon her. Allah had created earlier Adam peace be upon him with command as well.

[10] Early Manuscripts and Modern Translation of New Testament by Philip Wesley Comfort, Wipf and Stock Publishers, 1990

[11] http://bibletranslation.ws/trans/johnwgrk.pdf

[12] Allah informed us about His Kalimah in Quran it is “Kun” i.e. To Be.

وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

When He decrees a matter, He only says to it : “Be!” – and it is.

[13] Truth in translation, Accuracy and Bias in English translations of the New Testament by Jason David BeDuhn, pg 129

[14] Arianism is the teaching attributed to Arius (ca. AD 250–336). According to Arius Jesus was created and not present from the very beginning. He was concerned about the relationship of God to the Jesus of Nazareth. Arius asserted that the Son of God was a subordinate entity to God the Father.  Arius was deemed as a heretic by the Ecumenical First Council of Nicaea of 325.

[15] Belief of the Tathleth

[16] Logos or Kalimah is an ancient concept with sources in Greek religion that the world is made via Logos. The Gospel of John identifies the Logos, through which all things are made, as divine and further identifies Jesus as the incarnate Logos.

[17] Khabshiyah was a  Shiite sect claimed that they would not raise sword against opponents rather they prefer to kill with sticks of wood.  Khashab in Arabic means wooden.

[18] Taj al-Ursu, juz 1, pg 8241

[19] This distinction of Human and Divine nature of Jesus is  exploited by  Nestorians. Most of the Christians living in Iraq and Persia were Nestorians. Nestorianism was a doctrine proposed by Nestorius, Patriarch of Constantinople from 428–431 AD. He claimed that Jesus has two natures,  half human and half God.

[20] The infusion of Lahut in Nasut is Hulool or in plain words the God Almighty is believed to have descended into one of His creations. The concept is different from Incarnation and Avatar  in religions other than Islam, because in that case Almighty would appear among His creation. In mystical Islam, Lahut is Absorption i.e. divinity in another realm, Nasut  is  Humanity and Jabrut is Power but an intermediary state.  Ghazali elaboretd this state earlier as[20]:

وإنما عالم الجبروت بين عالم الملك وعالم الملكوت يشبه السفينة التي هي في الحركة بين الأرض والماء، فلا هي في حد اضطراب الماء، ولا هي في حد سكون الأرض

But the world of Jabrut lies  between the realm of kingdom  and angelic world,  like a ship that is in motion between Earth and water, neither it is at the limit of disturbed waters nor it is  at the limits of static Earth”. Ghazali statement indicate that there is switching between one realm to another.

[21] in Wafayat-ul- Ayan by juz 2, pg 140

[22] Literally dissolve, technically descend of God in Creation

[23] From Seer Allam Al-Nublah by Dahabi , juz 14, pg 325

[24] From Seer Allam Al-Nublah by Dahabi , juz 14, pg 325

[25] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 31-32

[26] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 60

[27] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 67-68

[28] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 74-75

[29] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 122

[30] Pope Gregory the Great was Pope of Christians from 590 AD (34 BH) to 604 AD (19 BH). Therefore he was the Pope in the life time of Prophet before our Holy Prophet peace be upon him become Messenger of Allah. After Pope Gregory, Pope Sabinian  took the office of Pope from 604 AD till 606 AD.  Pope Honorious hold office  from (625 AD, 3 AH) till (638 AD, 17AH)

[31] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 124

[32] Spiritual Meadow (Pratum Sprituale) by John Moschos, published Cistercian  Publications,  pg 82-83

[33] In Tabqat al Sufia

[34] In Anees-ul-Arwah, Uthman Haruni edited by Moinuddin Chishti, pg 17-18

 

[36] He is also called BaYazeed or BaYazid in Sufi traditions

[37] Mairaj means the travel from Earth to heavens

[38] Quwat-al-Qulub by Abu Talib Al-Makki, pg 474

[39] Tabaqat Al-Sufiah pg 36

[40] Tabaqat Al-Sufiah pg 37

[41] Mezan Al-Atedal, juz 2 pg 346

[42] in Kashaf al-Mahjoob, pg 171

 

 

Dhul-Nun Al-Misri (d. 859 AD/245 AH) was called physician of afflicted, was a legendary sufi. He was alchemist born of NubianPeninsula in Akmim in Upper Egypt. Hermetic and Gnostic influence  on Dhul-Nun is quite evident.   In Masnavi Mulana Rome, a story is told about him that:

 

Once Dhul Nun was travelling in a ship in which some gold was lost. One by one the passengers were searched, and although the gold was not found, everyone decided to blame Dhul Nun. They abused him but he remained silent until he shouted by looking at sky O my lord Thou Knowest (all)! Immediately thousands of fish appeared on the sea surface each holding pearl in their mouths. Dhul Nun stepped out of ship and started walking on sea surface.

 

Dhun-Nun wa supposed to have known the secret of the Egyptian hieroglyphs.   Ibn- Hajar wrote[1]:

كان أول من تكلم بمصر في ترتيب الأحوال وفي مقامات الأولياء فقال الجهلة: هو زنديق قال السلمي: لما مات أظلت الطيور جنازته انتهى وقال ابن يونس: يكنى أبا الفيض من قرية يقال لها: إخميم وكان يقرأ الخط القديم لقيت غير واحد من أصحابه كانوا يحكون لنا عنه عجائب

 

He is the first one in Egypt who talked about the orders and stations of Mystics. Al-Jahlah said He is Zhindeeque. Al-Sulami said: When he died birds shadowed his funeral bier. Ibn- Yunis said: He is nicknamed Abul Faidh from the town called Akhmim and he used to read the old writings, met several of his followers which narrates strange stories about him.

 

In Murroj Al-Dahab it is stated for Dhun Nun:

قال المسعودي: وأخبرني غير واحد من بلاد أخميم من صعيد مصر، عن أبي الفيض في النون بن إبراهيم المصري الِإخميمي الزاهد، وكان حكيمأ، وكانت له طريقة يأتيها ونحلة يعضدها، وكان ممن يقرأ عن أخبار هذه البرابي ودارها وامتحن كثيراً مما صور فيها ورسم عليها من الكتابة والصور، قال: رأيت في بعض البرابي كتاباً تدبرته، فإذا هو احفروا العبيد المعتقين، والأحداث المغترين والجند المتعبدين، والنبط المستعربين قال: ورأيت في بعضها كتابأ تدبَّرْته فإذا فيه يقدر المقدور والقضاء يضحك وزعم أنه رأى في آخره كتابة وتبينها بذلك القلم الأول فوجدها:

تُدَئر ُبالنجوم ولمستَ تَدْري … ورَب النجم يفعلُ ما يريد

 

Al-Masudi said: and informed me more than one person from the land of Akhmin in plain of Egypt from Abi Faigh about the Nun bin Ibrahim (Dhu’l Nun)  al-Misri al-Akhmimi, the ascetic, was a philosopher who pursued a course of his own in religion… He was one of those who elucidated the history of these temple-ruins (barabi). He roamed among them [the temples] and examined a great quantity of figures and inscriptions.. and saw discussion on them in some of his books … and also found written:

 

Touched by the stars and unknowingly touched … And Lord of the star does what he wants

 

The hieroglyphs were believed to hold the key to ancient sciences, which the Fihrist associates with Hermes; a legend developed that Hermes had become the king of Egypt.  In book Nujoon Al-Zahirah fi  Muluk Misir wal Qahirah, by ibn Tagri Bardi state that

 

إن هرمس المثلث الموصوف، بالحكمة وهو الذي تسميه العبرانيون خنوخ وهو إدريس عليه السلام استدل من أحوال الكواكب على كون الطوفان، فأمر ببناء الأهرام

Hermes the Thrice[2], attributed with wisdom and he is person called Enoch by Hebrews and he is Idris peace be upon him proved the possibility of flood  from the positions of stars, so ordered the construction of pyramids

 

For Hermes, the author of Fihrist wrote:

زعم أهل صناعة الكيمياء وهي صنعة الذهب والفضة من غير معادنها ان أول من تكلم على علم الصنعة هرمس الحكيم البابلي المنتقل الى مصر عند افتراق الناس عن بابل

People of Alchemy claim,  and it is the art by which one can make gold and silver from other minerals,  that the  first person who spoke about this  Art is  Hermes, the wise one, Babylonian, came to Egypt  when people had differences in  Babylon (i.e. war)

 

It is stated in Al-Fihrist, pg 505:

هو أبو الفيض ذو النون بن إبراهيم وكان متصوفا وله أثر في الصنعة وكتب مصنفة فمن كتبه كتاب الركن الأكبر كتاب الثقة في الصنعة

 

And he is Abul Faidh Dhul Nun bin Ibrahim and he was sufi (mystic) and has affected by Art (of Alchemy) and books he wrote includes Kitab Al-Rukn Al-Akbar, an authentic book on Art.

 

Thus Dhun Nun Al-Misri was induldged in art of Alchemy and the reading of hieroglyphs both in his times were believed to be associated with the Hermes Trismegistus[3].

 

Many Christian Gnostic sects were from Egypt[4].  In fact it’s a melting pot for all kinds of Gnostic concepts and believes. However most of there text was not well preserved until they are discovered in 1945. Gnostic sayings were passed on to disciples through sayings or folklore.  There is a saying in Coptic Gospel of Thomas[5]:

 

When you come to know yourselves, then you will become known, and you will realize that it is you who are the sons of living father. But if you will not know yourselves, you will dwell in poverty (i.e. material world/body)[6]

 

The term Gnosis also adapted in Arabic as Irfan or Gnosis.   The well known phrase:

من اعرف ربه فقد اعرفه نفسه

One who knows one’s Lord, knows one’s self

 

Was a well known Gnostic phrase almost present in all mystical lore, also appeared in Islamic literature.  Dhun Nun said[7]:

إن العارف لا يَلْزم حالةً واحدةً، إنما يلزمُ ربَّه في الحالاتِ كلِّها

Indeed the Arif (knower or one who experience gnosis) does not stay in a one single sate, he focus on his Lord all the times

Gnostic Homoousios or Hama-aust or Wahdatul Wajud?

 

The term Homoousios [ὁμοούσιος] had been used first by Gnostics.  In Gnostic texts the word homoousios is used with the concept that things generated of the same substance.  The early church theologians were aware of this concept, and also of the doctrine of emanation, by the Gnostics.  The term is used in Nicene Creed to indicate that the God the father and his son Jesus came from same substance.   Probably the word Homoousios is persianised and become Hama-aust. Meaning of Hama-aust[8] is exactly same as that of Homoousios. In Arabic mystical lore it become Wahdat-ul-Wajud meaning the unity of Existence[9].

 

According to Ghazali (d. 505 AH)  the concept of Wahdatul Wajud is a natural outcome of concept of Tauheed[10]. He discussed Tauheed in his work Ahya Ullom Deen [11]:

وليس في الوجود إلا الله تعالى

And there is no existence except that of Allah

Further he said:

            الرابعة: أن لا يرى في الوجود إلا واحداً، وهي مشاهدة الصديقين وتسمية الصوفية الفناء في التوحيد، لأنه من حيث لا يرى إلا واحداً فلا يرى نفسه أيضاً، وإذا لم ير نفسه لكونه مستغرقاً بالتوحيد كان فانياً عن نفسه في توحيده

Fourth: that he does not see an existence except the one, and this is what witnessed by Friends and Sufi called it the annihilation in Monotheism as he does not see except the one  and not even his self, and that is because he is so much indulged in Tauheed that his self is lost in it.

 

Ibn Al-Arabi proposed a theory that the reality of the Matter is that this Universe is not real. It does not even exist. The whole Universe is still at the conceptual level in the mind of Creator. Therefore whatever we see is an illusion of reality. Centred in his philosophy was the theme that one cannot experience the reality itself but rather a projection of it, created by us.   According to Ibn Al-Arabi this was exactly the concept when Abu Yazeed uttered[12]:

 

I am Subhani (Impeccable i.e. God), how (great) is my State!

 

Now naturally if world is not created then what its reality? According to Ibn-Arabi there are Descends or Tanzzulat[13] in Holy Wisdom of Allah (Nadhubillah). The concept is similar to Emanations in Greek philosophy[14]:

 

Maratib Illahiyyah  (Divine Emanations)

First two emanation represent descend in the wisdom of God.

 

1. Haqiqat Muhammadiyah[15] – descend in the Wisdom of God- still in state of Lahut

2. Aeon[16] Thabita (Proven Aeon)[17]

 

One may understand it by the example of a carpenter who wants to make a chair. So first he thought about it. What design he likes and how many legs etc. It is a blue print but still in mind of carpenter.  So likewise according to Ibn Al-Arabi first God cursorily thought about creating universe that state is Haqiat Muhammadiyyah.  Afterwards God thought in detail about the creation that is state of Aeon Thabita i.e. it is proved that Almighty wants to create.  As both these Emanations occurred in mind of God so they represent His Holy Wisdom and one cannot separate philosophically the Wisdom of God, His attribute, from Him[18]. So these two emanations are Divine. The rest of Emanations are in fact not real because they were not happened yet.

 

Maratib Koniyyah[19] or Imkanniyah[20] (Reflection of Aeon Thabita)

 

3. Aeon of Ruh (Spirit)

4. Aeon Mithal[21]

5. Aeon Jasad (Body) – State of Nasut

6. Aeon Insan (Human) – Khalifat-ul-Allah

 

The above four emanations are nothing but reflections of Aeon Thabita. Like if we try to see Sun in the mirror we would see the image of Sun. We may call it Sun but in fact it is not real Sun.  So this Universe is still in state of Blue print in the mind of God, not created and thus it’s an illusion for us.  Now the outcome of all this discussion is that if in reality everything is happening in the Wisdom of God then what we see is an attribute of God.  Corollary to it is,  as Widom of God is Qadeem, the whole Universe become something which cannot be annihilated.

 

Shah Waliullah[22] elaborated in his book Sataat without referring to Ibn Al-Arabi’s Emanations  theory as:

 

And the example of this emanation is that we made an impression of word Zayd on a ring and we have not yet cast it on wax or mud. But the sensory image of word Zayd is created in our mind. And this existence (i.e. image of Zayd in mind) last with the ring (project). And this existence is set for the image of Zayd and not for Amr (another name). .. after that we brought wax and mud and transferred the image of Zayd (from our mind) on the wax or mud and it immediately created on it. That (image on ring) is complete and this (image on wax or mud) is temporary.  That image is in state of wisdom and this image is in state of seen.

 

In fact, Ibn Al-Arabi is influenced by the Neo-platonic thoughts of Plotinus[23]. Ibn Al-Arabi proposed his emanations theory similar to what already proposed by Plotinus, however in cloak of Islamic terms. Mystic scholars have attempted to homogenise all the different realms the Sufi mystics proposed like that of Ghazali and Ibn Al-Arabi. But that attempt does not give fruitful results instead it would generate more confusion. Each of the mystic has proposed realms to explain their theories. So its better to understand them individually.

 

Ibn Arabi gave the philosophical support to the theory of Wahdat-ul-Wajud.  Theory has enjoyed high acceptance in most Sufi factions and it also helped to explain the previous mystical utterances with were believed to be blasphemous.

 


[1] in Lisan al-Meezan, juz 1, pg 386

[2] Hermes is called Thrice due to concept that he was King, Prophet and Wise

[3] Corpus Hermeticum contains less than 20 books which are  associated with Hermes Trismegistus.

[4] Gnosticism was a mystical Christian theology highly developed in Egypt. According to Gnostics Jesus does not had a physical body but was a kind of energy.

[5] Coptic Gospel of Thomas, Nag Hammadi Librray, discovered in 1945

[6] Saying 42, Coptic Gospel of Thomas, From book Lost Chrittianities by  Bart D. Eherman, Oxford University Press, 2003

[7] quoted in Tabaqat Al-Sufiyah, pg 24

[8] Also written as Hama-oost

[9] Wahdatul Wajud is present in the earliest of Sufi traditions but it is said that Muhiuddin Ibn Al-Arabi (d. 638 AH)  also called Sheikh Akbar developed this concept. However Ibn Al-Arabi had not developed it but in fact elaborated it in philosophical jargon.

[10] Tauheed, Oneness of God

[11] Ahya Ullom Deen by Ghazali, juz 3, pg 301

[12] Futuhat Al-Makkiyah by Ibn Al-Arabi, juz 1, pg 272

[13] Tanzzulat or Descends means actually the going in lesser states than the primary one.

[14] All things are derived from the first reality or perfect God by steps of degradation to lesser degrees of the first reality or God, and at every step the emanating beings are less pure, less perfect, less divine.  It is also said that Plotinus proposed this first (Wikipedia)

[15] In mystic lore this state is also called Martaba Wahdat, Haqiqatul Haqqaique, Aqal Awal, Alam Siffat, Zahur Awal, Ummul- Faidh

[16] Aeon according to Plato, denotes the eternal world of ideas. Word Aeon is arabised as Ayan normally translated in Sufi mystic lore as Alam or world but also means age or period. In Hebrew, Aeon is translated as Olam (see Wikipedia) which is equivalent of Alam in Arabic. Olam/Olamot in Kabbalah refers to the particular descending in Spiritual Realms.

[17] Also called Marttaba Wahidiyat, Qabliyat Zahur, Dhil-lil-Mamdood

[18] In mystic lore, Wisdom or Kalimah is an attribute of God, many took the belief that it is an attribute (Siffat) and others took the belief that it is (Order) Amr of God not his attribute (see book Al-Tarruf by Al-Kalabadhi).

[19] Konniyyah means related to  God’s Plan.

[20] Imkaniyyah means there is a possibility that it happen or simply Expected Aeons

[21] The world of similitudes”, also called Alam al-Khayal

[22] Shah Wliullah is inclined towards Wahdatul Shahud concept. He started from the terminology of Ibn Al-Arabi and gradually developed his case for Wahdat ul Shahud.

[23] Plotinus, (ca. 204/5–270 CE) was a major philosopher of the ancient world. His book  Enneads is the collection of his metaphysical writings which  have inspired centuries of Pagan, Christian, Jewish, Islamic and Gnostic metaphysicians and mystics.

 

After the emergence of concept of Wahdatul Wujud the difference between Allah and His creation is lost. Devout Muslim scholars rejected it as it placed philosophically Islam among religions like the Hinduism[1]. To safeguard their believes mystics introduced a new concept called  Wahdatul Shuhud  (Unity of Witness) which  they claim has separated God from His creation. It is said that Ala al-Dawlah Simnānī (d. 736 AH) from India, proposed this slightly different theory called Wahdatul Shuhud.  But in reality it had been referred earlier by Ali Hajweri (d. 465 AH) and Abdul Qadir Jeelani (d. 561 AH) in their books. Later  mystics also accepted that the two theories are nothing but verbal controversies.

 

Wahdatul Shuhud is more a mystical state then philosophical doctrine of Existence. In this state the space and time dimensions are lifted for a mystic. He may travel backward or forward in time to see exactly what happened in past or will happen in future. Now in this state one does not require Ilm-ul-Jafr. It is more powerful then the state of Imam is Shiite literature.  Mujaddid alf Al-Thani (Ahmed Sarhindi)  wrote in his Maktoobat[2]:

 

Tauheed Shahudi is that the he witnesses only one Being, the Truth means Salik (mystic) vision focused only on One Being (i.e. God)

 

Mujaddid alf Al-Thani (Ahmed Sarhindi) wrote in Mubdah wal Maad:

I saw in this sate that angels are still in state of prostration for Adam and have not lifted their heads yet.  And I saw Angels of Illiyeen which were commanded not for prostrations that they are lost and absorbed in state of  their Mashhud (literally Vision i.e. Looking at God) 

 

Ashraf Ali Thanvi described this state in his book Imdad Al-Mushtaque:

It is recorded that in the Night Journey  (Mairaj)  Messenger of Allah peace be upon him met Moses .. there arrived Imam Ghazali and said Salam to them. Moses upbraided Ghazali[3] that why you are speaking in front of Elders? .. Ghazali said: Allah asked you (Moses) a simple question which you replied at length .. (on this Prophet intervened and said) Respect O Ghazali!

 

Shah Waliullah described this state in his book Anfas ul Arfeen:

My father used to tell me that one day at the time of Asar prayer (Evening prayer)  I was in sate of Muraqibah that the Ghaybat engulfed me. For me that span of time is extended over 40 million years and in that span the events from the beginning of creation till the day of judgement are revealed to me.  (The author said )  I also remember that he said that the distance between the alphabets of La Illaha illallah is ten thousand years

 

What is clear from these stories is the state of Wahdatul Shahood is a state of power and Jabrut. The time and space makes no sense for him or her.

 

In that state Abu Yazeed Al-Bustami (d. 261 AH) said[4]:

وقيل له: علمنا الاسم الاعظم. قال: ليس له حد، إنما هو فراغ قلبك لوحدانيته، فإذا كنت كذلك، فارفع له أي اسم شئت من أسمائه إليه

It is said to him: Teach us the Great Name (of God): He said: there is no limit of it. It is openness of your heart to oneness, when you attain that state, any name will be elevated for you, which you like from His Names.

 

Hence the initial quest by some mystics for the Divine Name now no longer needed. Mystic  has now become so powerful that his own experience of Mukashifa[5] is enough.

 

For the vision in this state, Shah Waliullah writes in his book Sata’t:

Tajalli (Theophany) is a creation (of God) which represent Creator with some of His attributes and due to which one could associate that to Him. The details of this note is that  when someone sees God in dream, with God wearing a tiara on head and sitting of Holy Throne then although that image looked like creation but the source of this vision is the preconceived knowledge which is already there in the mind…. If that vision is does not give us any information on the attributes of God then it is not called Tajjali. … Tajali must be directed by God[6]

 

After Mansur Bin Al-Hallaj no Sufi had claimed the divinity (or Lahut state). But they found a way out. Whenever they wanted they get into Jabrut state and whenever they wanted arrive back in Nasut state and acted as ordinary humans do.

 

Muslim claim that their mystics not only   hear behind the curtain but they act along angels as well. Shah Waliullah (d. 1176 AH) wrote [7]:

 

Likewise is the case of a human that he is indulged in his worldly life in eating, drinking and lust and affairs related to body and remained busy in different levels of  life but he remained connected with the angels of lower sphere and to them he feel inclined  and got attracted to them.  So when he dies all his bodily matters are disconnected and he returned to his original nature and merged with angels and become one of them. Then revelations (from God) are started to him as well (like angels) and he started acting like them.

 

An anecdote is told about Abu Yazid Bustami [8]:

Then he narrated in its agreement the event that once Sheikh  Ali Makki dreamt that: I am  carrying the Divine Throne on my head, At dawn I thought in mind to before whom should I disclose my dream for interpretation.  Then my soul whispered me that go to Ba Yazid Bustami for interpretation. Preoccupied with these thoughts stepped out of  my house and saw that whole Bustam is in wailing.  I stood flabbergasted for a while then  asked someone what happened. I have been told that (Ab)bu Yazid Bustami died. (Hearing that Sheikh  Ali Makki shouted a cry and fell down. Wailing he reached the funeral but due to large number of attendants could’t got the chance to  reach near funeral bier. After some attempts he managed to reach near the bier and shouldered it. There BaYazid called: O Ali the dream you saw, it has this interpretation. This funeral bier of BaYazid is the Divine Throne  which you are carrying over your head.

 

Probably that is why  Al-Ghazali  said that the secrets must not be revealed[9]:

فاعلم أن هذه غاية علوم المكاشفات. وأسرار هذا العلم لا يجوز أن تسطر في كتاب، فقد قال العارفون: إفشاء سر الربوبية كفر

You must know that the purpose of knowledge of Meditation, and the secrets of this knowledge, are not allowed to be written in book. As people who acquired gnosis said: Revealing of  secrets is kufr.

 

 

 

Prophet peace be upon him has informed the Muslims that the time would come when faith would become unknown  again[10]:

بدأ الإسلام غريبا وسيعود كما بدأ غريبا فطوبى للغرباء

Islam started as a stranger  and it will become again a stranger, blessed would be strangers (who would accept it in that state)!

 

Different ideologies and believes would take over the Muslims and they would remain indulged in those such that they would read the Quran but would not understand it [11]:

 

Narrated Abu Said Al-Khudri:  I heard Allah’s Apostle saying, “There will appear some people among you whose prayer will make you look down upon yours, and whose fasting will make you look down upon yours, but they will recite the Qur’an which will not exceed their throats and they will go out of Islam as an arrow goes out through the game whereupon the archer would examine the arrowhead but see nothing, and look at the unfeathered arrow but see nothing, and look at the arrow feathers but see nothing, and finally he suspects to find something in the lower part of the arrow.”

 

This time has already started.

 

Due to their common agenda,  the Mystics are all same irrespective of race, creed and religion. They represent the first approach and they would remain loyal to it. After the Islam’s encounter with mysticism there are beings roaming on earth who claimed to be more powerful then one might ever thought of!

 

It is a parting of the ways between the faith which Muhammad peace be upon him proclaimed and what mystics gave to us. It is clear that these mystics have started a new thing in Islam and claimed for them a position higher than that of Prophet peace be upon him, as Allah said:

 

فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا

but that they did not observe it with the right observance

 

 

 


[1] In Hinduism the believe of unity of existence is supported (see  Gita)

[2] Maktobat Mujaddid Alf Thani, juz 1, Maktoob 43

[3] Imam Ghazali (d. 505 AH). There is a minimum 460 years gap between Ghazali and Night Journey.

[4] Seer Aallam Al Nublah by Dahabi , juz 13 pg 86

[5] Revelation about Hidden World obtained in Trance state or via Meditation

[6] Tajali in mystical Islam is the word to describe the visual experience with God like what Moses saw in Burning Bush was a Tajali. It was initiated by God and not by Moses.

[7] in Hujatul-llah Al-Baligha pg 74

[8] in Rahat-al-Qulub by Fariduddin Ganj Shakar, pg 215

[9] wrote in Ahya Ullom Al-Deen juz 3 pg 338

[10] Sahih Muslim, narrated by Abi Hurrairah

[11] Bukhari, Volume 6, Book 61, Number 578

 

Tassawuf or Mysticism is a human endeavor to reach its Creator. Its a bottom-up approach contrary to top-down approach of revelations.  Quran and Hadith only supports the revelation from God. The rest is a human innovation which unfortunately has no bounds and limits.  Jews  and Christians before Islam  and even in times of our Prophet had practiced that and later converted Muslims of Syria and Iraq restarted it about 100 years after the event of  migration.   The question is  why not we follow the revelations of our God which He sent down on us and He Himself will protect His words against any adulteration. Where stands the visions and trances of mystics if they are against Quran?  Obviously they are all rejected and on Day of Judgement the people who would be in most loss, would be those who had spend there lives thinking that whatever they are doing is correct.