Category Archives: تاریخ

مباحث متعلقه خروج امام مہدی

نام کی تصحیح
کتاب میں نام غلطی سے محمد یوسف لکھا گیا تھا جس کی تصحیح کر دی گئی ہے – مولف کا نام حافظ محمد ظفر اقبال ہے

راقم نظریہ مہدی کو بنو حسن و بنو عباس کی ایجاد کہتا ہے اور اس پر سیر حاصل بحث اپنی سابقہ کتاب “روایات ظہور مہدی جرح و تعدیل کے میزان میں “میں کر چکا ہے –امام مہدی سے متعلق کافی مواد کتب اہل سنت میں موجود ہے اور چند سالوں بعد کوئی اور کتاب چھپ جاتی ہے جس میں سنی امام مہدی کا تذکرہ نئی شان سے بیان ہوا ہوتا ہے – حال میں ایک کتاب عقیدہ امام مہدی کے حوالے سے شائع ہوئی ہے، جس کا عنوان ہے اسلام میں امام مہدی کا تصور – یہ جناب
حافظ محمد ظفر اقبال صاحب کی تالیف ہے اور اس کتاب میں بہت سے حوالہ جات علماء کی آراء کے ساتھ بیان ہوئے ہیں –
حافظ محمد ظفر اقبال صاحب کی کتاب میں پیش کردہ چند روایات پر راقم کا تحقیقی موقف پیش خدمت ہے

دور نبوی کے ادیان باطلہ

  تمام  انبیاء و رسل ، اولیاء اللہ  ، ربانی  اہل  کتاب  کا دین اسلام تھا – اب چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کی بعثت سے صدیوں  پہلے کے ہوں – یعنی  وہ دین  جو  آدم  علیہ السلام سے چلا  آ رہا ہے وہ دین، وہی ہے جس  کا  حکم  تمام بعد کے انبیاء  نے کیا ہے –  اس کو اسلام  کہا  جاتا ہے  –  اسلام  کا مطلب  شریعت  محمد ہی نہیں ہے بلکہ  شریعت  موسوی بھی اسلام ہی  ہے ، یہودیت نہیں ہے – قوم موسی کے مومن  مسلم  تھے – بنی اسرائیل  میں سے   عیسیٰ  کے  حواری بھی  مسلم تھے –  یعنی یہ سب دین اسلام پر عمل پیرا  تھے  –  اگرچہ عیسیٰ  علیہ السلام کے حواری ،  ہیکل سلیمانی میں جا کر سوختی  قربانی دیتے یا  مناسک ہیکل بجا  لاتے تھے  اور کعبہ کی  طرف نہیں بلکہ ہیکل سلیمانی کی طرف منہ  کر کے نماز پڑھتے تھے ، قرآن  میں ان سب کو مسلم  کہا  گیا ہے – معلوم ہوا   شریعت  کا ظاہر  الگ  تھا  لیکن باطن ایک تھا –

  اس دین  سے جو روز الست سے   چلا آ رہا  ہے ،  الگ  ہو  جانے والے  فرقہ ہیں – سورہ ال عمران ١٩ میں ہے

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّـٰهِ الْاِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَابَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَهُـمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَـهُـمْ ۗ وَمَنْ يَّكْـفُرْ بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ فَاِنَّ اللّـٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ  

بےشک دین اللہ کے ہاں اسلام  ہی ہے، اور جنہیں کتاب دی گئی تھی انہوں نے صحیح علم ہونے کے بعد آپس کی ضد کے باعث اختلاف کیا، اور جو شخص اللہ کی آیات  کا انکار کرے تو اللہ جلد ہی حساب لینے والا ہے۔

اب جب دین   ایک ہی قابل قبول ہے تو وہ اسلام ہے –  قرآن سورہ الانعام  میں ہے

 إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

وہ جنہوں نے  اپنے دین میں فرقے  کیے   اور گروہوں  میں  بٹ گئے   ان سے  آپ کا کوئی سروکار  نہیں ہے – ان  کا فیصلہ  اللہ پر ہے ، پھر  وہ ان کو بتائے  گا کہ انہوں نے کیا  کارگزاری کی 

عرف  عام  میں ہم  یہودیت، نصرانیت  وغیرہ  کو ہم  الگ  دین کہتے ہیں  لیکن قرآن کی ڈکشنری  میں یہ  فرقے ہیں  جو اصل  صراط سے ہٹ   گئے ہیں

یہود کے نزدیک  توریت  آخری  منزل من اللہ کتاب ہے اور  آخری  نبی ملاکی

Malachi

ہے   جس  کا دور سن ٤٢٠ ق م کا کہا  جاتا ہے –  راقم   کے نزدیک  بائبل کی کتاب جو اس نبی سے منسوب  ہے گھڑی ہوئی ہے –   قتل  انبیاء  و رسل  کو  یہودی حلقوں میں  فخر  و افسوس دونوں طرح بیان کیا جاتا ہے – یہود کے نزدیک  اصل اہمیت  اس بات کی  ہے کہ یہود  تمام قوموں  میں اللہ  تعالی کے پسندیدہ ہیں  اور  اللہ نے ارض  مقدس ان کے نام  لکھ دی ہے – یہود کے مطابق  ان کے بعض  سفھاء  و جہلاء  نے انبیاء  و رسل کا قتل کیا جس کی بنا پر ان پر عذاب آیا  جو بابل و اشوری قوم کی طرف سے ان کا   حشر  اول   تھا  یعنی  یہود کو جمع کیا گیا ان کی زمین سے نکالا گیا  –   یہود کے نزدیک حشر  دوم   عذاب نہیں آزمائش  تھا کیونکہ  اس  دور میں  انہوں نے کسی اللہ کے  رسول  کا قتل نہ کیا ( یاد رہے کہ عیسیٰ   ان کے نزدیک رسول و پیغبر نہیں ہیں ) بلکہ بعض لوگوں  نے مسیح کے ظاہر  ہونے  کا جلد گمان  کیا  اور وقت سے  پہلے ان کے  مجاہدوں   نے رومی فوج  کے خلاف  خروج کر دیا  یہ سوچ کر کہ دور خروج   مسیح  آ گیا ہے –  وقت  خروج  کے تعین  میں  اس صریح   غلطی کی وجہ سے  رومی ، یہود  پر  غالب آئے – ہیکل سلمانی فنا  ہو گیا ، یہود  کا حشر  دوم ہوا –  یہود کے مطابق   وہ ابھی بھی اللہ کے محبوب  ہیں اور جہنم میں نہیں  جائیں گے  اگر گئے بھی تو سات دن سے زیادہ نہیں جلیں گے –

عیسیٰ  و  محمد  صلی اللہ علیھما   یہود  کے نزدیک  جھوٹے  انبیاء  تھے  اسی لئے تلمود کے مطابق   عیسیٰ کو رجم کر دیا گیا اور   خیبر  میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا گیا  – احمق  راویوں  نے بیان کیا کہ اسی  زہر کے زیر اثر  وفات النبی  ہوئی  جبکہ یہ جھوٹ ہے

قرآن  میں اس کا صریح  رد ہے کہ عیسیٰ  کا قتل ہوا – قرآن میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام  کا رفع  ہوا ان کو زندہ حالت نیند  میں آسمان پر  اٹھا لیا گیا

صابئی

Sabians

کے نزدیک ان  کا مذھب  شیث بن آدم  و نوح  علیھما السلام  سے اتا ہے –  یہ انوخ کی نبوت کے بھی قائل ہیں –  کہا جاتا  ہی کہ ان کے نزدیک  آخری پیغمبر یحیی علیہ السلام   تھے اور آخری منزل من اللہ کتاب زبور ہے – یہ  لوگ عراق  میں آج بھی  آباد ہیں- البیرونی کے مطابق یہ  یہودی قبائل تھے جو غلام بنا کر  بابل  لائے  گئے تھے – وہاں یہ جادو و کہانت سے متاثر  ہوئے – اصل توریت کو کھو بیٹھے –  صابئیوں  پر معلومات  کا مصدر  صرف  ایک کتاب  ہے   جس کا نام ہے

الفلاحة النبطية   یا   الزراعة النبطية

 The Nabataean Agriculture

ہے – جو  أبو بكر أحمد بن علي بن قيس  المعروف  ابن وحشية النبطي کی تالیف ہے- کہا  جاتا  ہے کہ یہ سن ٢٩١ ھ  میں لکھی گئی تھی –  یہ کتاب   صلاح الدین  ایوبی  کے   طبیب   یہودی  حبر    میمونید

Maimonides

کے پاس بھی تھی اور اس نے بھی اس کے حوالے  اپنی کتب میں دیے ہیں

راقم البیرونی کی رائے سے متفق نہیں ہے – صابئی  کو روحانیون بھی کہا  جاتا ہے  – یہ عقیدے رکھتے ہیں کہ جو چیز آسمان میں ہے اور زمین پر اتی ہے اس کی روح ہے مثلا شہاب یا قوس قزح یا ستاروں و سیاروں میں روح ہے اور اہرام مصر انبیاء کی قبروں پر ہیں

مجوس  کے نزدیک  آخری  نبی فارس  میں زرتشت  تھے – ان کے اقوال کا مجموعہ   اوستا ہے –  مقدس آگ  رب نہیں ہے مظہر  الہی ہے ، قبلہ نما ہے  جس کو مخصوص طریقہ سے جلایا جاتا ہے –  –  مجوس  کا لفظ اصل میں فارسی میں   مگوس  ہے  ( جو معرب  ہوا تو مجوس ہوا )  – مگؤس سے ہی  میگی

Magi

کا لفظ نکلا ہے  یعنی آتش   پرست – نصرانیوں  کے نزدیک یہ علم ہیت سے واقف تھے اور   انجیل میں ذکر ہے کہ پیدائش عیسیٰ پر   ستارہ بیت لحم  پر  ظاہر ہوا اور تین مگؤس   وہاں اس ستارہ کو دیکھتے دیکھتے پہنچے  (گویا مجوس بھی منتظر  مسیح  تھے) پھر انہوں نے تحائف  عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کیے جس طرح ایک  بادشاہ کو دیے جاتے ہیں –

انگریزی میں  میگی  کا لفظ   میجی بھی ہوا اور اسی سے میجک یعنی جادو  کا لفظ نکلا ہے

 دور  عمر  میں فتح فارس  ایک روایت کے مطابق   مجوس  کے علماء کو جادو  گر قرار دے کر قتل کر دیا گیا تھا

امام شافعی اور دیگر فقہاء   نے  مجوس و صابئیوں  کا شمار اہل کتاب میں کیا ہے  ان کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا ہے

نصرانی   (الله کی پناہ) کہتے ہیں کہ عیسیٰ رب ہے – الله  کا ایک جز  (الروح آیلوھم / نور   ) عرش سے زمین تک  آیا –  ایک عورت کو حمل رکھوا دیا اور پھر اس کا وجود کا حصہ عالم بشری میں پیدا ہوا-  اس طرح عیسیٰ کو رب کہتے ہیں آج کل یہی نصرانی مذھب ہے

دور نبوی میں یا اس سے پہلے ایک فرقہ تھا جو کہتا تھا کہ عیسیٰ الله کا منہ بولا بیٹا تھا،  انسان ہی تھا  لیکن یہ فرقہ عام  نصاری کے نزدیک بدعتی تھا اور اب معدوم ہے- قرآن  میں اس کا بھی رد ہے

نصرانیوں کے نزدیک الله  تعالی  خود کو تین اقانیم   ثلاثہ   میں منقسم کرتا ہے  – اس کو لاھوت  کا  ناسوت  میں جانا کہتے ہیں – قرآن  کے مطابق  اللہ  تعالی  کے تین ٹکڑے کرنا کہ کہنا کہ   رب تعالی :   روح القدس اور عیسیٰ اور الله  ہے – یہ کفر ہے   اور اس میں شرک بھی ہے-  اس عقیدے  کو سورہ  المائدہ  میں کفر   کہا گیا  ہے کہ  نصرانیوں  نے کہا الله تو اب تین میں سے ایک  ہے- یہ عقیدہ  آجکل تمام نصرانیوں  کا ہے

سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہی عقیدہ صحیح تھا تو اللہ  تعالی  نے توریت  میں اس کا ذکر  کیوں نہ کیا ؟ اس اشکال  کا جواب نصرانی علماء  اس طرح دیتے ہیں کہ   یہود کی کم  عقلی کی وجہ سے اصل مذھب موسی نے توریت میں نہیں بتایا تھا کہ الله تین کا ایک ہے بلکہ اس میں ایک ہی  رب کا ذکر کیا گیا  لیکن اشارات  چھوڑے  گئے کہ  رب منقسم ہوتا ہے – نصرانیوں نے  اپنے فلسفہ سے  الله  تعالی کی ذات کے تین حصے کیے اور کہا کہ یہ تین رب نہیں،  ایک ہی ہیں،  صرف متشکل تین طرح ہوتے ہیں-  یعنی الله تو ایک ہی ہے لیکن ظہور الگ الگ ہے-  آج کل  نصرانی عامیوں  کی جانب سے اس کی مثال پانی سے دی جاتی ہے کہ پانی  زندگی ہے  جو  بھاپ ہے ، مائع ہے اور برف بھی ہے-   الله نے اس  عقیدے کو کفر کہا

 نصرانی اپنے مذھب کا شمار

Monotheism

یا توحیدی مذھب میں کرتے ہیں – جو ان کی خود فریبی ہے-  یعنی یہ بھی مانتے ہیں کہ الله کی تین شکیں یا ظہور یا تجلیات ہیں لیکن اس کو ایک ہی رب بھی کہتے ہیں –  نصرانی  عبادت  میں  پطرس کا اور اپنے اولیاء  کا وسیلہ بھی لیتے ہیں- پوپ

ویٹی کن میں موجود  قبر پطرس کو سجدہ  کرتا ہے

پوپ قبر پطرس کو سجدہ کرتے ہوئے

اللہ  تعالی   قرآن سورہ  المائدہ ٦٩ میں کہتا  ہے کہ وہ   یہودی ، نصرانی ، صائبی  میں سے ان کو معاف  کرے  گا  جو  اللہ  تعالی  اور روز جزا پر ایمان  لائیں  گے

اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالصَّابِئُـوْنَ وَالنَّصَارٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ  

بے شک مسلمان اور یہودی اور صابئی اور عیسائی جو کوئی بھی   اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور نیک کام کیے تو ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

سورہ  حج ١٧  میں ہے کہ   یہودی، نصرانی ، صائبی، مجوسی ، مشرکین  سب کا فیصلہ  اللہ کرے گا

اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالصَّابِئِيْنَ وَالنَّصَارٰى وَالْمَجُوْسَ وَالَّـذِيْنَ اَشْرَكُوْاۖ اِنَّ اللّـٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَـهُـمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ (17)

بے شک اللہ مسلمانوں اور یہودیوں اور صابیوں اور عیسائیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، بے شک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے۔

یہ وہ   لوگ  ہیں  جو رسول  اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم سے قبل گزرے  ہوں گے – بعثت  محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اقرار   قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہے کہ  اخروی  کامیابی  کے لئے  ضروری امر ہے –  اللہ نے  خبر دے دی ہے کہ وہ شرک کو معاف   نہیں کرے  گا

ھبل کا بت

شیعہ علامہ ضمیر اختر  نقوی  نے دعوی کیا کہ کعبه میں بت نہیں تھے اس کے گرد تھے

یہ ناقص تحقیق ہے اور اہل سنت کی کتب میں اس پر حوالے موجود ہیں کہ بت کعبہ میں رکھے ہوئے تھے – یہاں راقم شیعہ کتب کے کچھ حوالے درج کرتا ہے

شیعہ کتاب حلية الأبرار از السيد هاشم البحراني میں ہے
هبل ( بضم الهاء وفتح الباء ) صنم للجاهلية قدم بها مكة عمرو بن بن لحى من الشام وكان حجرا أحمر أو ورديا على صورة إنسان يده اليمنى مكسورة نصب في جوف الكعبة وقد جعلت له قريش يدا من ذهب
ھبل یہ انسان کی شکل کا تھا اس کو کعبہ کے وسط میں نصب کیا گیا تھا

بحار الأنوار از المجلسي میں ہے
وهبل صنم في الكعبة،

بحار الأنوار از المجلسي میں ہے
حليمة بنت أبي ذؤيب …. ودخل البيت وطاف بهبل وقبل رأسه

حليمة بنت أبي ذؤيب بیت اللہ میں داخل ہوئی اور ھبل کا طواف کیا اور اس بت کے سر کو چوما

اس  کے بر خلاف دو روایتوں میں ہے کہ  ھبل  کعبہ  کے اوپر رکھا ہوا  تھا

بحار الأنوار از المجلسي میں ہے
أبوبكر الشيرازي في نزول القرآن في شأن أميرالمؤمنين عليه السلام عن قتادة عن ابن
المسيب عن أبي هريرة قال : قال لي جابر بن عبدالله دخلنا مع النبي مكة وفي البيت
وحوله ثلاثمائة وستون صنما ، فأمر بها رسول الله صلى الله عليه واله فالقيت كلها لوجوهها ، وكان على البيت صنم طويل يقال له ( هبل

اس روایت کی مکمل سند موجود نہیں ہے – سند میں قتادہ  بصری  کا  عنعنہ  ہے جو مدلس ہے

جابر بن عبد اللہ نے ذکر کیا ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ میں ٣٦٠ بت تھے پس رسول اللہ نے حکم کیا تو سب منہ کے بل گرا دیے گئے اور بیت اللہ پر  ایک طویل بت تھا جس کو ھبل کہا جاتا تھا

علل الشرايع للشيخ الصدوق کی ایک روایت میں ہے کہ حاجی باب بني شيبة سے مسجد الحرام میں داخل ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٢٠ حج کیے اور ہر بار اس مقام پر پیشاب کیا کیونکہ علی نے کعبہ کی چھت پر سے ھبل کو گرا کر یہاں دفن کیا تھا

حدثنا محمد بن أحمد السناني وعلي بن أحمد بن محمد الدقاق والحسين بن ابراهيم بن أحمد بن هشام المكتب وعلي بن عبدالله الوراق وأحمد بن الحسن القطان رضي الله عنهم قالوا: حدثنا أبوالعباس أحمد بن يحيى زكريا القطان قال: حدثنا بكر بن عبدالله بن حبيب قال: حدثنا تميم بن بهلول عن أبيه عن أبي الحسن العبدي عن سليمان بن مهران قال: قلت لجعفر بن محمد (ع): كم حج رسول الله صلى الله عليه وآله؟ فقال: عشرين مستترا في حجة يمر بالمازمين فينزل فيبول فقلت: يابن رسول الله ولم كان ينزل هناك فيبول؟ قال: لانه أول موضع عبد فيه الاصنام، ومنه أخذ الحجر الذي نحت منه هبل الذي رمى به علي من ظهر الكعبة، لما علا ظهر رسول الله فامر بدفنه عند باب بني شيبة فصار الدخول إلى المسجد من باب بني شيبة سنة لاجل ذلك،

    سند میں تميم بن بهلول خود اہل تشیع کے ہاں  مجہول ہے – اس روایت سے معلوم ہوا کہ شیعہ زائر  بیت اللہ کے دروازے پر آ کر پیشاب کرتے تھے  اسی وجہ سے اب یہ دروازہ ختم کر دیا گیا ہے

لنک

http://qadatona.org/%D8%B9%D8%B1%D8%A8%D9%8A/%D8%A7%D9%84%D8%B1%D8%AC%D8%A7%D9%84/1925

 

مزید بتوں پر کتاب الصنام میں بات کی گئی ہے

[wpdm_package id=’8867′]

ابو حنیفه کا امام المھدی کی مدد کرنا

امام مہدی کا مکمل نام محمد بن عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب ہے – آپ نے بنو عباس کے دور میں خروج کیا اور قتل ہوئے انہی سے متعلق روایات کتب صحاح ستہ میں موجود ہیں کہ یہ امام مہدی ہیں وغیرہ اس پر تفصیلی کتاب کتب کے سیکشن میں موجود ہے -محمد المہدی کے بھائی ابراہیم  تھے – محمد نے مدنیہ میں خروج کیا اور قتل ہوئے اور ان کے چند ایام بعد بصرہ میں ابراہیم بن عبد اللہ نے خروج کیا –

بعض لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ فتنہ خروج امام المھدی میں مبتلا ہوئے – ابراہیم و محمد بن عبد اللہ المہدی کے حق میں شور و جدل کرتے تھے – اس کا ذکر ضعیف اسناد سے ہم تک پہنچا ہے -راقم کی تحقیق میں یہ قصے مخالفین کی گھرنٹ ہیں اس پروپیگنڈا سے بعض احناف بھی متاثر ہوئے ہیں

مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه از الذهبي (المتوفى: 748هـ) میں ہے
قالَ عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ: حَدَّثَنِي أَبُو نُعَيْمٍ، سَمِعْتُ زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَجْهَرُ فِي أَمْرِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جَهْرًا شَدِيدًا، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ حَتَّى نُؤْتَى فَتُوضَعَ فِي أَعْنَاقِنَا الْحِبَالُ، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: فَغَدَوْتُ أُرِيدُ أَبَا حَنِيفَةَ، فَلَقِيتُهُ رَاكِبًا يُرِيدُ وَدَاعَ عِيسَى بْنِ مُوسَى قَدْ كَادَ وَجْهُهُ يَسْوَدُّ، فَقَدِمَ بَغْدَادَ فَأُدْخِلَ
عَلَى الْمَنْصُورِ

ابو نعیم نے کہا میں نے سنا زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ کہہ رہے تھے ابو حنیفہ ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے امر پر شدید بلند آواز میں بات کر رہے تھے پس میں (زفر ) نے کہا و اللہ آپ جو بھی خواہش کر لیں لیکن جب رسیاں گردنوں میں ڈالی جائیں گی تو ہماری گردنوں میں بھی ہوں گی- ابو نعیم نے کہا پس چند دن ہوئے میں ابو حنیفہ نے ملنا چاہا تو ان سے چلتے چلتے ملاقات ہو گی وہ عِيسَى بْنِ مُوسَى کو وداع کرنا چاہتے تھے ان کا چہرہ سیاہ ہو رہا تھا بغداد پہنچے اور منصور کے پاس گئے

راقم کہتا ہے یہ ابو نعیم کا کذب ہے جس کا ذکر محدثین نے کیا ہے کہ ابو نعیم احناف کی مخالفت میں قصے گھڑتا تھا – تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
وقال العباس بن مصعب: نعيم بن حماد الفارض وضع كُتُبًا في الرّدّ على أبي حنيفة،
العباس بن مصعب نے کہا نعیم بن حماد نے ابو حنیفہ کے رد میں کتاب بنائی
جزء فيه مسائل أبي جعفر محمد بن عثمان بن أبي شيبة عن شيوخه في مسائل في الجرح والتعديل از أبو جعفر محمد بن عثمان بن أبي شيبة العبسي مولاهم الكوفي (المتوفى: 297هـ) میں ہے کہ
وسمعت ابي يقول سالت ابا نعيم يا ابا نعيم من هؤلاء الذين تركتهم من اهل الكوفة كانو يرون السيف والخروج على السلطان فقال على رأسهم ابو حنيفة وكان مرجئا يرى السيف ثم قال ابو نعيم حدثني عمار بن رزيق قال كان ابو حنيفة يكتب الى ابراهيم بن عبد الله بالبصرة يساله القدوم الى الكوفة ويوعده نصره
محمد بن عثمان بن أبي شيبة نے کہا میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے ابو نعیم سے سوال کیا کہ اے ابو نعیم وہ کون ہیں جن کو اہل کوفہ نے اس پر ترک کر دیا کہ وہ لوگ تلوار نکالنے اور حاکم کے خروج کے قائل تھے ؟ پس ابو نعیم نے کہا ان کا سردار ابو حنیفہ تھا

اور یہ مرجئ تھا تلوار نکالنے والا پھر ابو نعیم نے کہا مجھ کو عمار بن رزيق نے روایت کیا کہ ابو حنیفہ نے ابراھیم بن عبد اللہ کو بصرہ کی طرف خط لکھ کر کوفہ انے کی دعوت دی اور اس کی مدد کا وعدہ کیا
محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر عبد اللہ بن احمد بن حنبل کا قول ہے کہ یہ کذاب ہے – ابن خراش کا کہنا ہے کہ یہ كان يضع الحديث حدیث گھڑتا ہے- عمار بن رزيق پر أبو الفضل أحمد بن علي بن عمرو البيكندي البخاري کا کہنا ہے کہ یہ رافضی تھا اس کا ذکر الذھبی نے میزان میں کیا ہے- عمار کا قول بھی عجیب و غریب ہے -مرجئہ کے نزدیک ایمان ختم نہیں ہوتا اور یہ خوارج سے الگ تھے جن کے نزدیک ایمان ختم ہو جاتا ہے اسی وجہ سے خوارج اور بعض محدثین کے نزدیک  گناہ کبیرہ والا حاکم قتل کیا جا سکتا ہے – عمار بن زریق کو بینادی معلومات نہیں ہیں کہ مرجئہ کا خروج پر موقف نہیں تھا

المعرفة والتاريخ 2/ 277. میں ہے
قال يعقوب بن سُفيان: سمعت محمد بن عبد الله بن نمير يذكر عن عمار بن رزيق، وكان من علماء أهل الكوفة. قال: إذا سئلت عن شيء فلم يبن عندك فانظر ما قال أبو حنيفة فخالفه فإنك تصيب
ابن نمیر نے عمار بن رزيق کا یعقوب بن سفیان سے ذکر کیا کہ اگر یہ تم سے کوئی سوال کرے جو سمجھ میں نہ آئے تو دیکھو ابو حنیفہ (اس مسئلہ میں ) کیا کہتے ہیں، پس اس (عمار) کی مخالفت کرو ، تم (مسئلہ کی) سمجھ پا لو گے

معلوم ہوا کہ اگر محمد بن ابی شیبہ اور ابو نعیم نے جھوٹ نہیں بولا تو عمار بن زریق تعصب عصری میں اول فول بولتے رہتے تھے- تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے

قَالَ خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ: صَلَّى إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعِيدَ بِالنَّاسِ أَرْبَعًا، وَخَرَجَ مَعَهُ أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَعَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، وَهُشَيْمٌ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ فِي طَائِفَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَلَمْ يَخْرُجْ مَعَهُ شُعْبَةُ، وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يُجَاهِرُ فِي أَمْرِهِ وَيَأْمُرُ بِالْخُرُوجِ.
خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ نے کہا ابراھیم بن عبد اللہ نے عید کی بدھ کے دن لوگوں کے ساتھ عید کی اور اس کے ساتھ (محدثین میں سے ) اَبُو خَالِدٍ الأَحْمَر ، عِيسَى بْنُ يُونس عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، هُشَيْمٌ اور يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ تھے اور امام شُعْبَةُ نہ نکلے اور ابو حنیفہ کھلم کھلا اس کے امر میں بولتے اور اس کےساتھ خروج کا حکم کرتے تھے

اسی کتاب میں ہے
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ: خَرَجَ مَعَ إِبْرَاهِيمَ خَلْقٌ، وَجَمِيعُ أَهْلِ وَاسِطٍ، وَابْنَا هُشَيْمٍ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطَّحَّانُ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَغَيْرُهُمْ.
واسط کے محدثین نے بھی ابراہیم کے ساتھ خروج کیا اور اس فتنہ میں مبتلا ہوئے

الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم از أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
قَالَ أَبُو يَعْقُوبَ وَنا الْعَبَّاسُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَزَّازُ قَالَ نَا مُحَمَّد بن عُثْمَان بن أَبُو شيبَة قَالَ نَا بشر بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا نُعَيْمٍ يَقُولُ سَمِعْتُ زُفَرَ بْنَ الْهُذَيْلِ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَجْهَرُ بِالْكَلامِ أَيَّامَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جِهَارًا شَدِيدًا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ أَوْ تُوضَعُ الْحِبَالُ فِي أَعْنَاقِنَا فَلَمْ نَلْبَثْ أَنْ جَاءَ كِتَابُ ابى حَفْص إِلَى عِيسَى بْنِ مُوسَى أَنِ احْمِلْ أَبَا حَنِيفَةَ إِلَى بَغْدَادَ قَالَ فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ فَرَأَيْتُهُ رَاكِبًا عَلَى بَغْلَةٍ وَقَدْ صَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّهُ مسيح قَالَ فَحمل إِلَى بِبَغْدَاد فَعَاشَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا قَالَ فَيَقُولُونَ إِنَّهُ سَقَاهُ وَذَلِكَ فِي سَنَةِ خَمْسِينَ وَمِائَةٍ وَمَاتَ أَبُو حنيفَة وَهُوَ ابْن سبعين سنة

محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کذاب نے روایت کیا کہ زفر کہتے کہ ابو حنیفہ نے ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے دور میں شور کیا پس میں نے کہا جو خواہش کر لیں اللہ کی قسم رسی ہماری گردن میں ہو گی پس زیادہ نہ گذرا کہ ابو حفص کا خط گورنر عیسیٰ کے پاس آیا کہ ابو حنیفہ کو بغداد لاو پس ان کو تلاش کیا تو وہ اپنے خچر پر سوار چل رہے تھے اور ان کا چہرہ مسیح جیسا تھا پس ان کو بغداد لے جایا گیا وہاں پندرہ دن زندہ رہے- کہا کہتے ہیں ان کو (زہر) پلایا گیا اور یہ سن ١٥٠ ہجری تھا اور ابو حنیفہ کی وفات ہوئی وہ ستر سال کے تھے
راقم کہتا ہے سند میں بشر بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ مجہول ہے اور یہاں ابو حنیفہ کا چہرہ سیاہ سے مسیح جیسا کر دیا گیا ہے

الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم از أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
قَالَ ونا أَبُو الْقَاسِم عبيد الله بْنُ أَحْمَدَ الْبَزَّازُ قَالَ نَا أَبِي قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي عِمْرَانَ يَقُولُ سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْوَلِيدِ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا يُوسُفَ يَقُولُ إِنَّمَا كَانَ غَيْظُ الْمَنْصُورِ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ مَعَ مَعْرِفَتِهِ بِفَضْلِهِ أَنَّهُ لَمَّا خَرَجَ إِبْرَاهِيمُ بن عبد الله بْنِ حَسَنٍ بِالْبَصْرَةِ ذُكِرَ لَهُ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ وَالأَعْمَشَ يُخَاطِبَانِهِ مِنَ الْكُوفَةِ فَكَتَبَ الْمَنْصُورُ كِتَابَيْنِ عَلَى لِسَانِهِ أَحَدُهُمَا إِلَى الأَعْمَشِ وَالآخَرُ إِلَى أَبى حنيفَة من ابراهيم بن عبد الله بن حَسَنٍ وَبَعَثَ بِهِمَا مَعَ مَنْ يَثِقُ بِهِ فَلَمَّا قَرَأَ الاعمش الْكتاب أَخَذَهُ مِنَ الرَّجُلِ وَقَرَأَهُ ثُمَّ قَامَ فَأَطْعَمَهُ الشَّاةَ وَالرَّجُلُ يَنْظُرُ فَقَالَ لَهُ مَا أَرَدْتَ بِهَذَا قَالَ قُلْ لَهُ أَنْتَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَأَنْتُمْ كُلُّكُمْ لَهُ أَحْبَابٌ وَالسَّلامُ وَأما أَبُو حنيفَة فَقبل الْكتاب وَأجَاب عَنهُ فَلم يزل فِي نَفْسِ أَبِي جَعْفَرٍ حَتَّى فَعَلَ بِهِ مَا فعل

بشر بن ولید نے کہا اس نے امام ابو یوسف کو کہتے سنا کہ خلیفہ منصور کو ابو حنیفہ پر غصہ آیا کہ وہ ابراھیم بن عبد اللہ بن حسن کے ساتھ خروج میں کیوں نکلے اور ذکر کیا کہ ابو حنیفہ اور اعمش یہ کوفہ میں تقریر کرتے پس خلیفہ منصور نے ان کی زبان میں ان دونوں ابو حنیفہ اور اعمش کو لکھا
اس قول کی سند میں بشر بن الوليد بن خالد بن الوليد الكندى الفقيه المتوفی ٢٣٨ ھ پر کافی جرح بھی کتب میں موجود ہے
وكان شيخًا منحرفًا عن محمد بن الحسن
یہ امام محمد سے منحرف ہو گئے تھے
اور یہ مختلط بھی ہو گئے تھے
قال السليمانى: منكر الحديث. وقال الآجرى: سألت أبا داود: بشر بن الوليد ثقة؟ قال: لا

موسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة «من القرن الأول إلى المعاصرين مع دراسة لعقائدهم وشيء  من طرائفهم» جمع وإعداد: وليد بن أحمد الحسين الزبيري، إياد بن عبد اللطيف القيسي، مصطفى بن قحطان الحبيب، بشير بن جواد القيسي، عماد بن محمد البغدادي میں محقق لکھتے ہیں
وإن العنوان الذي عنون به الخطيب لهذه الأخبار وهو: “ذكر ما حكي عن أبي حنيفة من رأيه في الخروج على السلطان”، فيه تهويل ومبالغة، وتعميم وإبهام فليس في الأخبار التي ساقها تحت هذا العنوان، ما يفيد أن أبا حنيفة كان يدعو للثورة على الخلفاء، أو أنه أعلن هذا، وجُلُّ ما في هذه الأخبار، أن أبا إسحاق الفزاري، ادعى أن أبا حنيفة أفتى أخاه في الخروج لمؤازرة إبراهيم بن عبد الله الطالبي عندما استفتاه في ذلك
خطیب بغدادی نے جو عنوان قائم کیا ہے کہ ذکر اس حکایت کا کہ ابو حنیفہ کی سلطان کے خلاف خروج کی رائے تھی تو اس میں مبالغہ آمیزی اور عامیانہ پن اور ابہام ہے اور اس عنوان کے تحت جو ذکر کیا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس میں ہو کہ ابو حنیفہ نے خلفاء پر بدلہ لینے کی پکار کی ہو یا اس کا اعلان کیا ہو اور فی جملہ ان خبروں میں ہے کہ ابو اسحاق نے دعوی کیا ہے کہ ابو حنیفہ نے اس کے بھائی کو ابراہیم بن عبد اللہ کی مدد کے لئے خروج کا فتوی دیا جب ان سے اس پر فتوی طلب کیا گیا
خطیب بغدادی کا حوالہ ہے
أخبرني علي بن أحمد الرزاز، أخبرنا علي بن محمد بن سعيد الموصلي، قال: حدثنا الحسن بن الوضاح المؤدب، حدثنا مسلم بن أبي مسلم الحرقي، حدثنا أبو إسحاق الفزاري قال: سمعت سفيان الثوري والأوزاعي يقولان: ما وُلدَ في الإِسلام مولود أشأم على هذه الأمة من أبي حنيفة، وكان أبو حنيفة مرجئًا يرى السيف. قال لي يومًا: يا أبا إسحاق أين تسكن؟ قلت: المصيصة، قال: لو ذهبت حيث ذهب أخوك كان خيرًا. قال: وكان أخو أبي إسحاق خرج مع المبيضة على المسودة، فقتل
سند میں مسلم بن ابی مسلم الحرقي مجہول ہے

معاویہ رضی اللہ عنہ پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

پیش لفظ 5
ابو سفیان سے رشتہ داری 7
اللہ معاویہ کا پیٹ نہ بھرے 9
اللہ معاویہ کو علم دے 13
جنگ صفین کا حادثہ 15
شام اور قصاص عثمان 40
عائشہ رضی اللہ عنہا کی معاویہ پر رائے 47
معاویہ نے خلیفہ بن کر قصاص کیوں نہ لیا ؟ 49
کعب احبار کو خبر کہ معاویہ خلیفہ ہوں گے 50
معاویہ پہلا بادشاہ ہے 52
معاویہ ١٢ خلفاء میں سے ہیں 68
معاویہ ملک عضوض کے حاکم تھے 69
معاویہ متعہ کے فاعل تھے ؟ 75
نماز وتر کا ایک قصہ 79
معاویہ اور منبر النبی کی منتقلی کا قصہ 83
معاویہ کو منبر پر ہی قتل کر دو 86
معاویہ نے حسن کو زہر دلوایا؟ 87
معاویہ کا جشن منانا 94
معاویہ اور حجر کا قتل 102
معاویہ کی مشہور بدعات 107
عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے ؟ 107
نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگیں ؟ 118
حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا ؟ 121
علی پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا ؟ 123
زكاة کا بے جا مصرف کیا جانے لگا ؟ 148
ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا ؟ 154
معاویہ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے ؟ 157
مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا ؟ 158
معاویہ کے خلاف خفیہ پروپیگنڈا 167
معاویہ رضی الله عنہ کی وفات 174
محدثین کا معاویہ پر تنقید کرنا 175
شارحین حدیث کا معاویہ پر تنقید کرنا 180
مورخین کا معاویہ پر لعنت کرنا 184
مودودی کا نظریہ ملوکیت معاویہ 187
مودودی کا اظہار رائے پر تصور 188
مودودی کا دولت ثروت پر پابندی کا غیر اسلامی تصور 189
مودودی کا تقرر امراء کا فرضی تصور 190
خلافت کا حصول وہبی ہے یا عصبیت سے ممکن ہے ؟ 192
خلیفہ پر اولاد کی تقرری کی پابندی 196
مودودی اور معاویہ کی سیاست 196
دور معاویہ اور قانون کی بالا دستی پر شک 199
معاویہ اور بیت المال میں تصرف 201
زیاد ابن سمیہ کا ذکر 204

============

پیش لفظ

امیر المومنین معاویہ    رضی اللہ عنہ   ،  صحابی  رسول   مسلمانوں  کے چھٹے    خلیفہ ہیں –   رشتہ  میں   معاویہ   ،   رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی  ہیں  کیونکہ یہ   ام  المومنین  ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں – معاویہ   کو   کاتب النبی  ہونے کا شرف ملا[1]    اور    قریش  کی  ایک نمایاں  شخصیت  تھے   –      معاویہ   اہل سنت کے امام ہیں   اور بقول ابن عباس  رضی اللہ عنہ   معاویہ  فقیہ  ہیں –

اس  امت  میں  اگر کسی پر تنقید ہوئی ہے  تو ان میں سب سے  بڑھ  کر  معاویہ رضی اللہ عنہ  پر ہوئی ہے  لیکن  افسوس ناقدین  ان  کے قدم کی خاک  تک نہیں –     معاویہ  بہت مدبر  و زیرک  انسان تھے   اور   اتنے ہی بردبار بھی –    شیعی  و رافضی  منہج  والے راوة   نے   معاویہ کو  ساری زندگی تختہ مشق بنائے رکھا – طرح طرح کی  روایات    معاویہ   رضی اللہ عنہ    کے حوالے سے گھڑی  گئیں – افسوس  محدثین میں سے   بعض  نے ان   روایات کو  صحیح بھی مان  لیا  –   رہی سہی   کسر  شارحین   نے  پوری کی جن   میں سے کچھ  نے     خوف  اللہ سے عاری ہو کر   منہ کھولا  اور جہنمی سمیٹ لی –

 راقم کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ  روایت  و راوی   پر  جرح   کو ظاہر    کیا جائے کہ  متقدمین محدثین نے کیا کہا تھا    جس کو چھپا کر       لوگوں نے   بغض  معاویہ سے متعلق روایات کو صحیح قرار دیا ہے –  کتاب  میں صرف  اہل سنت کے مصادر کو  دیکھا گیا ہے   –

و  ما علینا  الا  لبلاغ

ابو شہر یار

٢٠٢٠

[1]

الذھبی سیر میں لکھتے ہیں

ونقل المفضل الغلابي عن أبي الحسن الکوفي قال کان زيد بن ثابت کاتب الوحي وکان معاوية کاتبا فيما بين النبي وبين العرب ۔عمرو بن مرة عن عبد الله بن الحارث عن زهير بن الأقمر عن عبد الله بن عمرو قال کان معاوية يکتب لرسول الله۔

ابن عبد البر نے الاستیعاب میں،ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، ابن قیم نے زاد المعاد میں،ابن الاثیر نے اسد الغابہ میں،سيوطی نے تاریخ الخلفاء میں،ابن کثیر نے الفصول اور البدایہ والنھایہ میں یہ بات بيان کی ہے کہ  امیر معاویہ کاتبين وحی میں سے تھے۔

بیعت ابو بکر پر علی کا توقف

علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی – صحيح بخاري 4240 میں ہے

، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا، وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ، فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُر

فاطمہ وفات النبی کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں پھر جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی نے رات میں ان کو دفن کیا اور اس تدفین کی اجازت ابو بکر سے نہیں لی اور فاطمہ پر خود نماز پڑھ لی اور … پھر فاطمہ کی وفات کے بعد ابو بکر کی بیعت کی

فتح الباري ميں ابن حجر نے اس پر کہا

وَأَشَارَ الْبَيْهَقِيُّ إِلَى أَنَّ فِي قَوْلِهِ وَعَاشَتْ إِلَخْ إِدْرَاجًا وَذَلِكَ أَنَّهُ وَقَعَ عِنْدَ مُسْلِمٍ مِنْ طَرِيقٍ أُخْرَى عَنْ الزُّهْرِيِّ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَقَالَ فِي آخِرِهِ قُلْتُ لِلزُّهْرِيِّ كَمْ عَاشَتْ فَاطِمَةُ بَعْدَهُ قَالَ سِتَّةُ أَشْهُرٍ وَعَزَا هَذِهِ الرِّوَايَةَ لِمُسْلِمٍ وَلَمْ يَقَعْ عِنْدَ مُسْلِمٍ هَكَذَا بَلْ فِيهِ كَمَا عِنْدَ الْبُخَارِيِّ مَوْصُولًا
بیہقی نے اشارہ کیا ہے کہ یہ قول امام الزہری کا ادراج ہے اور صحیح مسلم میں روایت ہے امام الزہری سے مروی ہے جس کے آخر میں ہے راوی نے کہا میں نے زہری سے پوچھا کہ فاطمہ کتنے روز حیات رہیں وفات النبی کے بعد ؟ زہری نے کہا چھ ماہ

وَقد صحّح بن حِبَّانَ وَغَيْرُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَغَيْرِهِ أَنَّ عَلِيًّا بَايَعَ أَبَا بَكْرٍ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ وَأَمَّا مَا وَقَعَ فِي مُسْلِمٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لَهُ لَمْ يُبَايِعْ عَلِيٌّ أَبَا بَكْرٍ حَتَّى مَاتَتْ فَاطِمَةُ قَالَ لَا وَلَا أَحَدٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ فَقَدْ ضَعَّفَهُ الْبَيْهَقِيُّ بِأَنَّ الزُّهْرِيَّ لَمْ يُسْنِدْهُ وَأَنَّ الرِّوَايَةَ الْمَوْصُولَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَصَحُّ
اور ابن حبان نے ایک روایت کی تصحیح کی ہے جو ابو سعید سے مروی ہے اور دوسروں سے کہ علی نے ابو بکر کی بیعت بالکل شروع میں ہی کر لی تھی اور وہ روایت جو صحیح مسلم میں زہری سے آئی ہے اس میں ہے کہ ایک شخص نے زہری سے ذکر کیا کہ علی نے ابو بکر کی بیعت نہیں کی یہاں تک کہ فاطمہ کی وفات ہوئی اور کہا اور بنو ہاشم میں بھی کسی نے بیعت نہیں کی اس کی تضعیف کی ہے بیہقی نے کہ زہری نے اس کی سند نہیں دی اور وہ روایت جو موصول ہے ابو سعید سے وہ اصح ہے

راقم نے ابن حجر کے اس کلام کا تعقب کیا اور صحیح ابن حبان میں دیکھا کہ کون سی روایت کو صحیح کہا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ ابن حبان نے امام زہری والی روایت کو ہی صحیح میں درج کیا ہے – صحيح ابن حبان 4823 ميں ابن حجر کي تحقيق کے برعکس صحيح بخاري جيسي روايت ہے جس ميں ہے

وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ، فَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِيٌّ، وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ فَاطِمَةُ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهَا، انْصَرَفَتْ وجُوهُ النَّاسِ عَنْ عَلِيٍّ، حَتَّى أَنْكَرَهُمْ، فَضَرَعَ عَلِيٌّ عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى مُصَالَحَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَمُبَايَعَتِهِ وَلَمْ يَكُنْ بَايَعَ تِلْكَ الْأَشْهُرَ،

یعنی ابن حبان نے اس امام زہری والی روایت کو ہی صحیح قرار دیا ہے

اب دیکھتے ہیں کہ ابو سعید سے مروی حدیث کون سی ہے جس کا امام بیہقی نے ذکر کیا ہے – یہ روایت ابو داود طيالسي ميں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خُطَبَاءُ الْأَنْصَارِ فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَقُولُ: يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا بَعَثَ رَجُلًا مِنْكُمْ قَرْنَهُ بِرَجُلٍ مِنَّا» ، فَنَحْنُ نَرَى أَنْ يَلِيَ هَذَا الْأَمْرَ رَجُلَانِ، رَجُلٌ مِنْكُمْ وَرَجُلٌ مِنَّا، فَقَامَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَقَالَ: «إِنَّ رَسُولَ [ص:496] اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَكُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّمَا يَكُونُ الْإِمَامُ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، نَحْنُ أَنْصَارُهُ كَمَا كُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: جَزَاكُمُ اللَّهُ مِنْ حَيٍّ خَيْرًا يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، وَثَبَّتَ قَائِلَكُمْ، وَاللَّهِ لَوْ قُلْتُمْ غَيْرَ هَذَا مَا صَالَحْنَاكُمْ

ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کے خطیب کھڑے ہوئے اور ان میں سے بعض کہہ رہے تھے اے گروہ مہاجرین جب رسول اللہ تم میں سے کسی کو (امیر بنا کر ) بھیجتے تو ایک ہم (انصار میں ) سے ساتھ کرتے تھے پس ہم انصار دیکھتے ہیں کہ یہ امر خلافت دو کو ملے ایک ہم میں سے ایک تم میں سے پس زید بن ثابت کھڑے ہوئے اور کہا بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو خود مہاجرین میں سے تھے اور ہم رسول اللہ کے انصاری تھے ، پس امام تو مہاجرین میں سے ہی ہونا چاہیے اور ہم مدد گار رہیں گے جس طرح ہم رسول اللہ کے مدد گار تھے پس ابو بکر رحمہ اللہ نے فرمایا اللہ تم کو جزا دے اے گروہ انصار اور تم کو بات پر قائم رکھے اللہ کو قسم اگر تم اس کے علاوہ کچھ کہتے تو اگریمنٹ نہ ہوتا

اسی متن پر تاريخ دمشق ميں اضافہ بھی ملتا ہے

وأخبرنا أبو القاسم الشحامي أنا أبو بكر البيهقي أنا أبو الحسن علي بن محمد بن علي الحافظ الإسفراييني قال (1) نا أبو علي الحسين بن علي الحافظ نا أبو بكر بن إسحاق بن خزيمة وإبراهيم بن أبي طالب قالا نا بندار بن بشار نا أبو هشام المخزومي نا وهيب نا داود بن أبي هند نا أبو نضرة عن أبي سعيد الخدري قال قبض النبي (صلى الله عليه وسلم) واجتمع الناس في دار سعد بن عبادة وفيهم أبو بكر وعمر قال فقام خطيب الأنصار فقال أتعلمون أن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) كان من المهاجرين وخليفته من المهاجرين ونحن كنا أنصار رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنحن أنصار خليفته كما كنا أنصاره قال فقام عمر بن الخطاب فقال صدق قائلكم أما لو قلتم غير هذا لم نتابعكم (2) وأخذ بيد أبي بكر وقال هذا صاحبكم فبايعوه وبايعه عمر وبايعه المهاجرون والأنصار قال فصعد أبو بكر المنبر فنظر في وجوه القوم فلم ير الزبير قال فدعا بالزبير فجاء فقال (3) قلت أين ابن عمة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وحواريه أردت أن تشق عصا المسلمين قال لا تثريب يا خليفة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فقام فبايعه ثم نظر في وجوه القوم فلم ير عليا فدعا بعلي بن أبي طالب فجاء فقال قلت ابن عم رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وختنه على ابنته أردت أن تشق عصا المسلمين قال لا تثريب يا خليفة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فبايعه

أبي سعيد الخدري نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور لوگ سعد بن عبادہ کے گھر میں جمع ہوئے جن میں ابو بکر اور عمر بھی تھے پس انصار کے خطیب کھڑے ہوئے اور کہا تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین میں سے تھے اور خلیفہ بھی مہاجرین میں سے ہونا چاہیے اور ہم مددگار ہیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے اسی طرح ہونے والے خلیفہ کے ہوں گے پس عمر بن خطاب کھڑے ہوئے اور کہا تم نے سچ کہا اگر کچھ اور کہتے تو ہم تمہاری بیعت نہیں کرتے اور ابو بکر کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا یہ تمہارے صاحب ہیں ان کی بیعت کرو اور عمر نے بیعت کی اور مہاجرین و انصار نے بھی بیعت کی پس ابو بکر لوگوں سے اوپر منبر پر کھڑے ہوئے اور
قوم کی شکلوں کو دیکھا تو ان میں زبیر کو نہیں پایا – کہا پس زبیر کو پکارا گیا اور وہ آئے – ابو سعید نے کہا میں نے زبیر سے پوچھا رسول اللہ کی چچی کا لڑکا (علی ) اور اس کے حواری کدھر ہیں یہ مسلمانوں کی لاٹھی کو توڑنا چاہتے ہیں ؟ زبیر ( فورا ابو بکر کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں ) نے کہا آپ پر کوئی الزام نہیں اے خلیفہ رسول ، اور انہوں نے ابو بکر کی بیعت کر لی پھر ابو بکر نے نظر دوڑائی تو علی کو نہیں پایا پس علی کو پکارا گیا اور وہ آئے -ابو سعید نے کہا میں نے علی سے پوچھا اے رسول اللہ کے کزن اور ( بیہودہ الفاظ بولے ) ….. تم مسلمانوں کی لاٹھی توڑنا چاہتے ہو ؟ علی نے کہا اے خلیفہ رسول ہمارا آپ پر کوئی الزام نہیں اور بیعت کر لی

راقم کہتا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے اور متن منکر ہے اول تو ابو بکر کی بیعت سعد بن عبادہ کے گھر میں نہیں باغ سقیفہ بنی ساعدہ میں ہوئی تھی دوم اس میں اہل بیت النبی کو زبردستی بلوا بلوا کر بیعت لینے کا ذکر ہے جبکہ وہ سب ابھی تدفین النبی کی تیّاریوں میں مصروف ہوں گے

سند میں وھیب بن خالد ثقہ ہے لیکن اس کو وہم بھی ہوتا ہے – اس کی سند میں أبُو نَضْرَةَ العَبْدِيُّ المُنْذِرُ بنُ مَالِكِ بنِ قُطَعَةَ بھی ہے الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِي (الثِّقَاتِ) : كَانَ مِمَّنْ يُخْطِئُ
ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں یہ وہ ہیں جو غلطی کرتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ سَعْدٍ : ثِقَةٌ، كَثِيْرُ الحَدِيْثِ، وَلَيْسَ كُلُّ أَحَدٍ يُحْتَجُّ بِهِ.
ابن سعد کہتے ہیں ثقہ ہیں کثیر الحدیث ہیں اور ہر ایک سے دلیل نہیں لی جا سکتی

اسی طرح کا متن ایک دوسرے طرق سے ہے

أخبرنا أبو القاسم إسماعيل بن أحمد أنا أحمد بن علي بن الحسن (2) بن أبي عثمان وأحمد بن محمد بن إبراهيم القصاري ح وأخبرنا أبو عبد الله بن القصاري أنا أبي أبو طاهر قالا أنا أبو القاسم إسماعيل بن الحسن (3) بن عبد الله الصرصري نا أبو عبد الله المحاملي نا القاسم بن سعيد بن المسيب نا علي بن عاصم نا الجريري عن أبي نضرة (4) عن أبي سعيد قال لما بويع أبو بكر قال أين علي لا أراه قالوا لم يحضر قال فأين الزبير قالوا لم يحضر قال ما كنت أحسب أن هذه البيعة إلا عن رضا جميع المسلمين إن هذه البيعة ليس كبيع الثوب ذي الخلق إن هذه البيعة لا مردود لها قال فلما جاء علي قال يا علي ما بطأ بك عن هذه البيعة قلت إني ابن عم رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وختنه على ابنته لقد علمت أني كنت في هذا الأمر قبلك قال لا تزري بي يا خليفة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فمد يده فبايعه فلما جاء الزبير قال ما بطأ بك عن هذه البيعة قلت (1) إني ابن عمة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وحواري رسول الله ( صلى الله عليه وسلم) أما علمت أني كنت في هذا الأمر قبلك قال لا تزري بي يا خليفة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ومد يده فبايعه

یہاں علي بن عاصم بن صهيب الواسطي ہے جو کثرت سے غلطی کرنے پر مشہور ہے امام علي بن المديني کا قول ہے
كان على بن عاصم كثير الغلط

اس طرح اس روایت کی سند و متن منکر ہے – بیعت ابو بکر کے حوالے سے ایک روایت تاريخ طبري ميں ملی ہے

حدثنا عبيد الله بن سعيد الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمِّي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَيْفُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ظَبْيَةَ الْبَجَلِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: قال عمرو بن حريث لسعيد ابن زيد: اشهدت وفاه رسول الله ص؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:فَمَتَى بُويِعَ أَبُو بَكْرٍ؟ قال: يوم مات رسول الله ص كَرِهُوا أَنْ يَبْقَوْا بَعْضَ يَوْمٍ وَلَيْسُوا فِي جَمَاعَةٍ قَالَ: فَخَالَفَ عَلَيْهِ أَحَدٌ؟ قَالَ:
لا إِلا مُرْتَدٌّ أَوْ مَنْ قَدْ كَادَ أَنْ يَرْتَدَّ، لَوْلا أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنْقِذُهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ: فَهَلْ قَعَدَ أَحَدٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ؟ قَالَ: لا، تَتَابَعَ الْمُهَاجِرُونَ عَلَى بَيْعَتِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَدْعُوَهُمْ.

عمرو بن حريث کہتے ہيں کہ ميں نے سعيد بن زيد سے دريافت کيا کہ کيا اپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کي وفات کے وقت موجود تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں پھر انہوں نے سوال کيا کہ ابو بکر سے بيعت کب کي گئي ، اس کے جواب ميں فرمايا کہ جس دن نبي صلی اللہ علیہ وسلم کي وفات ہوئي اسي دن، صحابہ اس کو اچھا نہيں جانتے تھے کہ ايک دن بھي اس طرح سے گزاريں کہ جماعت سے منسلک نہ ہوں اس پر عمرو بن حريث نے پھر پوچھا کہ کيا ابو بکر کي کسي نے مخالفت کي تھي؟ سعيد بن زيد نے جواب ديا کہ نہيں البتہ ایک مرتد نے يا انصار ميں سے اس شخص نے مخالفت کي تھي جو قريب تھا کہ مرتد ہوجاتا اگر اللہ اسکو اس سے نہ بچا ليتا عمرو بن حريث نے پھر پوچھا کہ مہاجرين ميں سے کسي
نے پہلو تہي کي تھي سعيد بن زيد نے فرمايا، نہيں بلکہ مہاجرين تو بغير بلائے ہي بيعت کرنے ٹوٹ پڑے تھے )

اس حدیث پر تاریخ طبری کے محققین کتاب صحيح وضعيف تاريخ الطبري از محمد بن طاهر البرزنجي ، إشراف ومراجعة: محمد صبحي حسن حلاق الناشر: دار ابن كثير، دمشق – بيروت میں کہتے ہیں کہ حديث ضعيف وفي متنه نكارة یہ ضعیف ہے اور متن میں نکارت ہے

کتاب المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري ، الناشر: الدار الأثرية، الأردن – دار ابن عفان، القاهرة کے مطابق اس کی سند ميں راوی الوليد بن عبد الله بن أبي ظبية مجہول ہے
لم أعرفه، ولم أعرف أباه، ولم أجد لهما تراجم
محقق کہتے ہیں اس کو نہیں جان سکا نہ اس راوی کا ترجمہ ملا

اس تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ ابن حبان نے امام زہری کے قول والی حدیث کو ہی صحیح کہا ہے اور ابن حجر کو تسامح ہوا کہ ابن حبان نے کسی اور روایت کو صحیح قرار دیا ہے – دوم تاریخ طبری کی روایت مجھول راوی کی وجہ سے ضعیف ہے اور تاریخ دمشق والی روایت کا متن منکر ہے اور سند بھی ایسی مضبوط نہیں ہے

وہابی عالم صالح المنجد نے بھی اپنی ویب سائٹ پر ان روایات کو ضعیف گردانا ہے

غور طلب ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی
اس طرح کے اختلافات موجود تھے لیکن اس میں زبردستی نہیں کی جاتی تھی کہ جبرا بیعت لی جاتی ہو

راقم سمجھتا ہے کہ امام زہری کا جملہ وضاحتی مدرج ہے لیکن حقیقت حال کے خلاف نہیں ہے

امام بخاری اور اہل بیت

شيعوں کي معتبر کتاب بصائر الدرجات از ابو جعفر محمدبن الحسن بن فروخ الصفار المعروف بالصفار القمي (المتوفي 290 ق) جو الإمام الحسن عسکري کے اصحاب ميں سے تھے اور امام بخاري و مسلم کے ہم عصر بھي ہيں  روايت پيش کرتے ہيں
حدثنا احمد بن محمد عن على بن الحكم عن سيف بن عميره عن ابى بكر الحضرمى عن حذيفة بن اسيد الغفار قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله ماتكاملت النبوة لنبى في الاظلة حتى عرضت عليه ولايتى وولاية اهل بيتى ومثلوا له فاقروا بطاعتهم وولايتهم.

حذيفة بن اسيد الغفار رضي اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلى الله عليه وآله نے فرمايا
کسي نبي کو اس وقت تک نبوت نہيں ملي جب تک اس کے سامنے ميري اور ميرے اہل بيت کي ولايت پيش نہيں کي گئي اور يہ ائمہ ان کے سامنے پيش نہيں کئے گئے پس انہوں نے ان کي ولايت و اطاعت کا اقرار کيا تب ان کو نبوت ملي

يعني شيعہ جب کسي غير نبي کو “عليہ السلام ” کہتے ہيں تو احتراما ايسا نہيں کہہ رہے ہوتے ، بلکہ وہ ان کو مامور من اللہ ، انبياء سے افضل يا کم از کم برابر جان کے ايسا کہتے ہيں اور ائمہ اہل بيت کے ساتھ  علیہ السلام کے  لاحقہ کو لگانا ضروري سمجھتے ہيں-  يہ بات اہل سنت کو معلوم ہے اس بنا پر وہ ائمہ شيعہ يا اہل بيت کے ساتھ عليہ السلام کا لاحقہ نہيں لگاتے

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں امام حسن عسکری کے ہم عصر امام بخاری کی جامع الصحیح تک میں اہل بیت کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ لگا ہوا ہے

صحيح بخاري 2089 ميں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلاَمُ، قَالَ: «كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ المَغْنَمِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الخُمُسِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي، فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ، وَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرُسِي

صحيح بخاري 4947 ميں
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الجَنَّةِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ» فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلاَ نَتَّكِلُ؟ قَالَ: «لاَ، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ» ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى} [الليل: 5] إِلَى قَوْلِهِ {فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى} [الليل: 10]

صحيح بخاري 3748 ميں
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أُتِيَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ بِرَأْسِ الحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ، فَجَعَلَ يَنْكُتُ، وَقَالَ فِي حُسْنِهِ شَيْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ: «كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَخْضُوبًا بِالوَسْمَةِ»

صحيح بخاري ميں 20 بار متن حديث ميں فاطمةَ عليها السلامُ لکھا ہوا ہے

520
2911
3092
3110
3113
3185
3705
3711
3854
4035
4240
4433
4462
5248
5362
5722
6280
6285

اور دو بار فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ تعلیق ابواب میں اتا ہے  – اس طرح کل ملا کر یہ ٢٠ حوالے بنتے ہیں

اس سب کو دکھانے کا مقصد ہے کہ اہل سنت کو معلوم ہونا  چاہیے کہ کتاب میں مذھبی الفاظ کا اضافہ کاتب کرتے رہے ہیں اور اس قسم کی پابندی کا کسی محدث نے ذکر نہیں کیا کہ کاتب ضروری ہے کہ   شیعہ یا خارجی یا رافضی نہ ہو کیونکہ کتابت ایک فن ہے اور فن کی قیمت ادا کی جاتی ہے اس میں دین و مذھب کو نہیں دیکھا جاتا  – اگرچہ یہ ضروری تھا کہ اضافہ شدہ  علیہ السلام کے الفاظ کو رضی اللہ عنہ سے بدلا جاتا  لیکن یہ نہیں کیا گیا اور اب صحیح البخاری میں الگ الگ مقامات پر ان اضافوں کو دیکھا جا سکتا ہے

عطاء اللہ حنیف بھوجیانی  اپنا فتویٰ نقل کرتے ہیں

“اہل سنت کے کسی حلقے کی طرف سے حضرت علیؓ، حسنؓ و حسینؓ کے لئے “علیہ السلام” کا استعمال شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی نقطہ نظر کے فروغ کا باعث ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔” (آثار حنیف بھوجیانی جلد اول صفحہ ۲۳۷)

بھوجیانی  کے بقول یہ اہل بیت کے ناموں کے ساتھ رحمہ اللہ وغیرہ کی اضافت محمد بن أبي حاتم الرازي الورّاق النحوي کا کمال ہے جو امام بخاری کا شاگرد ہے جبکہ اس کی دلیل نہیں ہے

مسلمانوں میں کتابت  میں یہ عالم تھا کہ امام  احمد کہتے ہیں کہ قرآن تک  نصرانی سے لکھوایا جاتا تھا کیونکہ کاتب کم تھے

جزء في مسائل عن أبي عبد الله أحمد بن حنبل المؤلف: أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز بن المَرْزُبان بن سابور بن شاهنشاه البغوي (المتوفى: 317هـ) تحقيق: أبي عبد الله محمود بن محمد الحداد
الناشر: دار العاصمة، الرياض
الطبعة: الأولى، 1407 هـ

وَقَالَ: وَسَأَلَ رَجُلٌ أَحْمَدَ وَأَنَا أَسْمَعُ: بَلَغَنِي أَنَّ نَصَارَى يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ فَهَلْ يَكُونُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ نَصَارَى الْحَيْرَةِ كَانُوا يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ، وَإِنَّمَا كَانُوا يَكْتُبُونَهَا لِقِلَّةِ مَنْ كَانَ يَكْتُبُهَا. فَقَالَ رَجُلٌ: يُعْجِبُكَ ذَلِكَ؟ ! قَالَ: لا مَا يُعْجِبُنِي.

ایک رجل  نے احمد سے پوچھا کہ: میں نے سنا ہے کہ نصاری بھی قرآن کو لکھا کرتے تھے، یہ بات صحیح ہے ؟احمد  نے جواب دیا کہ: ہاں، حیرہ کے رہنے والے نصاری قرآن کو لکھا کرتے تھے، اس لیے کہ کاتب  کم تھے۔
ایک دوسرے شخص نے پوچھا کہ: کیا تم کو اس جواب سے تعجب ہوا  ؟ اس نے کہا: نہیں

یہ حوالہ بہت سی کتب میں موجود ہے

قرآن تو تواتر سے ملا ہے اور ظاہر  ہے اس میں غلطی آج بھی فورا پکڑ لی جاتی ہے جو وعدہ الہی کی عملی شکل ہے

رہی سہی کسر  پبلشرز نے پوری کر دی کہ انہوں نے جامع الصحیح میں جہاں بھی صحابی کا نام آئے وہاں رضی اللہ عنہ وغیرہ کے الفاظ کا اضافہ خود کر دیا ہے  جبکہ محدثین میں اس قسم کا  رواج نہیں تھا نہ جرح و تعدیل کی کتب میں اصحاب رسول کے ناموں کے ساتھ رحمتوں کا لاحقہ لگایا جاتا تھا

راقم کا مدعا یہ کہنا نہیں کہ اصحاب رسول کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ نہ لکھا جائے بلکہ نسخوں کی اصل حالت اور ان کے مندرجات میں بعد والوں کی تحریفات و اضافوں کا رد کرنا ہے – مصنف ابن ابی شیبہ میں اور مصنف عبد الرزاق کے نسخوں میں اہل حدیث کے بقول احناف نے ناف سے نیچے ہاتھ باندھو اور حدیث نور کا اضافہ کر دیا ہے –  – یعنی اہل سنت کے فرقوں کے بقول احادیث تک کو نسخوں میں بدلا یا ڈالا گیا ہے

اہل حدیث علماء میں صلاح الدین یوسف اپنی کتاب “رسومات محرم الحرام اور واقعہ کربلا “صفحہ ۵۲ میں اہل سنت کے علماء کی جانب سے ائمہ اہل تشیع اور فاطمہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ لگا نے پر لکھتے ہیں:

محترم !اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ علماء و فقہاء کے لئے “امام” کے لفظ کا استعمال اس معنی میں ہوتا ہے کہ وہ حدیث و فقہ کے ماہر تھے، حضرت حسینؓ کے لئے بھی اسے اس معنیٰ میں استعمال کیا جائے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں بلکہ اس معنیٰ میں وہ بعد کے ائمہ سے زیادہ اس لفظ کے مستحق ہیں۔ لیکن بات تو یہ ہورہی ہے کہ حضرت حسینؓ کو اس معنی میں “امام” نہیں کہا جاتا، اگر ایسا ہوتا تو ابوبکر و عمر و دیگر صحابہ کرام کو بھی امام لکھا اور بولا جاتا کہ وہ علوم قرآن و حدیث کے حضرت حسینؓ سے زیادہ رمز شناس تھے۔ جب کسی بڑے سے بڑے صحابی کے لئے امام کا لفظ نہیں بولا جاتا تو اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ صرف حضرت حسینؓ کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ان معنوں میں قطعاً نہیں جن میں اس کا استعمال عام ہے۔ بلکہ یہ شیعیت کے مخصوص عقائد کا غماز ہے۔ اس لئے اہلسنت کو اس سے اجتناب کرنا چاہیئے

سوال یہ ہے کہ صحیح بخاری میں پھر علیہ السلام کیوں لکھا جا رہا ہے

==========================

نوٹ : صحیح میں اضافوں کی  مزید مثال

 کہا جاتا ہے امام بخاری نے احمد کو رحمہ اللہ لکھا

Sahih Bukhari Hadees # 377

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ : سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ ؟ فَقَالَ : مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي ، هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، ثُمَّ رَكَعَ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ ، فَهَذَا شَأْنُهُ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ : سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عْلَى مِنَ النَّمسِ ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ ، قَالَ : لَا .

راقم کہتا ہے اس مقام پر رحمہ اللہ کے الفاظ  متن میں تحریف  ہیں   کیونکہ زندہ  کو کوئی مرحوم نہیں کہتا

امام بخاری نے علی المدینی کا قول نقل کیا اور علی المدینی نے زندہ احمد کو  رحمہ اللہ کہا

اب سوال ہے
اول امام احمد کا اس وقت انتقال  ہو چکا تھا یا حیات تھے  ؟ زندہ پر کوئی اس طرح رحمت کی دعا نہیں کرتا اکثر مردوں پر کی جاتی ہے
علی المدینی کا تو احمد سے بھی پہلے انتقال ہو گیا تھا

دوسرا سوال ہے کہ بعض الناس  کے بقول امام بخاری نے صحیح مرتب کرنے کے بعد اس کو امام احمد پر پیش کیا
کیا اس میں یہ الفاظ اس وقت لکھے ہوئے تھے؟
زندہ شخص کو اگر آج بھی کوئی مرحوم کہہ دے تو وہ ناراض ہو  جاتا ہے جبکہ مرحوم کا مطلب ہے اس پر رحم ہو، جو دعا ہے

یہ الفاظ ہر متن میں نہیں بلکہ اس اقتباس کا حوالہ ابن اثیر المتوفي ٦٠٦ نے جامع الأصول في أحاديث الرسول مين بھی دیا ہے اور رحمہ اللہ علیہ نہیں لکھا
قال البخاري: قال علي بن عبد الله (2) : سألني أحمد بن حنبل عن هذا الحديث؟ وقال: إنما أردتُ أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم- كان أعلى من الناس، فلا بأس أن يكون الإمام أعلى من الناس بهذا الحديث، قال: فقلت له: إن سفيانَ بن عيينة كان يُسألُ عن هذا كثيراً فلم تسمعه منه؟ قال: لا

حمیدی ٤٨٨ ھ نے الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم میں اس اقتباس کا ذکر کیا ہے
قَالَ أَبُو عبد الله البُخَارِيّ: قَالَ عَليّ بن عبد الله: سَأَلَني أَحْمد بن حَنْبَل عَن هَذَا الحَدِيث، وَقَالَ: إِنَّمَا أردْت أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ أَعلَى من النَّاس، فَلَا بَأْس أَن يكون الإِمَام أَعلَى من النَّاس بِهَذَا الحَدِيث. قَالَ: فَقلت لَهُ: إِن سُفْيَان بن عُيَيْنَة كَانَ يسْأَل عَن هَذَا كثيرا، فَلم تسمعه مِنْهُ؟ قَالَ: لَا

یعنی حمیدی اور ابن اثیر کے دور تک یعنی ٦٠٦ ہجری تک صحیح بخاری کے متن میں یہاں احمد کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ نہیں لکھا تھا اس کو بعد میں ڈالا گیا ہے

شاتم رسول کی سزا کا اختلاف

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

ایک مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر محبت نہ کرے –  رسول الله صلی الله علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق اور ظرف کا نمونہ تھے اور کسی کو بھی آپ نے اپنی زندگی میں آیذآ نہ دی-

سن ٢٠٠ ہجری کے آس پاس فقہاء میں ایک بحث نے جنم لیا کہ ذمی یا اہل کتاب جو اہل اسلام کے ساتھ ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریں ان کی کیا سزا ہے – اس پر فقہاء کا اختلاف ہوا

صحيح بخاري حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: مَرَّ يَهُودِيٌّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَعَلَيْكَ» فَقَالَ رَسُولُ   اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَتَدْرُونَ مَا يَقُولُ؟ قَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ نَقْتُلُهُ؟ قَالَ: ” لاَ، إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الكِتَابِ، فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ

انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس گزرا بولا تم پر موت ہو پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا تم پر بھی

لوگوں نے کہا یا رسول الله اس کو قتل کر دیں آپ نے کہا نہیں

اگر تم کو اہل کتاب سلام کہیں تو بولو تم پر بھی

امام  بخاری  نے اس روایت کو باب بَابُ قَتْلِ الخَوَارِجِ وَالمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَيْهِمْ میں بیان کیا ہے یعنی خوارج اور ملحدوں کا قتل اتمام حجت کے بعد

اسی طرح اس کا بَابُ إِذَا عَرَّضَ الذِّمِّيُّ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَرِّحْ میں ذکر کیا باب جب ذمی   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے

امام الشافعی کی رائے میں اگر کوئی اہل کتاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے تو وہ عہد توڑتا ہے اس کا خون مباح ہو جاتا ہے – امام  بخاری کی رائے اس کے خلاف ہے-

کتاب  رد المحتار على الدر المختار از ابن عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) کے مطابق قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لَا يُنْقَضُ

عَهْدُهُ ابو حنیفہ کہتے ہیں اس سے عہد نہیں ٹوٹتا

کتاب مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله کے مطابق

سَمِعت ابي يَقُول فِيمَن سبّ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ تضرب عُنُقه

میں نے اپنے باپ کو سنا کہ جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے اس کی گردن مار دو

کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق أبو يعقوب المروزي کہتے ہیں إسحاق بن راهويه کہتے ہیں شاتم رسول کو

 قال إسحاق: إذا عرض بعيب النبي صلى الله عليه وسلم قام مقام الشتم، يُقتل، إذا لم يكن ذاك منه سهواً

قتل کیا جائے گا – اگر غلطی سے نہیں ہوا

یعنی اسحاق بن رهویہ نے گنجائش رکھی ہے کہ شاتم رسول اگر غلطی سے کر بیٹھا ہے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا

غیر مقلدین اور وہابیوں  کے امام ابن تیمیہ نے کتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول ج ١ ص ٥٥٨  میں امام احمد کی رائے کو ترجیح دی  جو أحكام أهل الملل میں ابو بکر الخلال سے نقل کی گئی ہے کہ امام احمد نے کہا

كل من شتم النبي صلى الله عليه وسلم مسلما كان أو كافرا فعليه القتل

ہر کوئی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے چاہے مسلمان ہو یا کافر اس پر قتل ہے

احناف کی فقہ کی کتاب  البحر الرائق شرح كنز الدقائق از ابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) کے مطابق

وَمِمَّنْ صَرَّحَ بِقَبُولِ تَوْبَتِهِ عِنْدَنَا الْإِمَامُ السُّبْكِيُّ فِي السَّيْفِ الْمَسْلُولِ وَقَالَ إنَّهُ لَمْ يَجِدْ لِلْحَنَفِيَّةِ إلَّا قَبُولَ التَّوْبَةِ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ فِي إسْقَاطِهِ الْقَتْلَ قَالُوا هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَالِكٍ وَنُقِلَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

اور  ہم میں سے جنہوں نے اس کی صرآحت کی ہے کہ (شاتم رسول کی)  توبہ قبول ہوتی ہے ان میں امام سبکی ہیں کتاب السَّيْفِ الْمَسْلُولِ میں اور کہا ہے کہ ان کو احناف میں کوئی نہ ملا سوائے توبہ کی قبولیت کے کہ قبول توبہ  سے  شاتم النبی کے قتل کا حکم ختم ہو جاتا ہے جو اہل کوفہ اور امام مالک  کا مذھب ہے اور ابو بکر رضی الله عنہ سے نقل کیا گیا ہے

احناف کی فقہ کی کتاب مختصر القدوري في الفقه الحنفي   از أحمد بن محمد بن أحمد بن جعفر بن حمدان أبو الحسين القدوري (المتوفى: 428هـ) کے مطابق

ومن امتنع من أداء الجزية أو قتل مسلما أو سب النبي عليه الصلاة والسلام أو زنى بمسلمة لم ينقض عهده ولا ينتقض العهد إلا بأن يلحق بدار الحرب أو يغلبوا على موضع فيحاربونا

اور جو جزیہ نہ دے اور مسلمان کا قتل کرے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو گالی دے یا مسلمان سے زنا کرے تو اس سے عہد ختم نہیں ہوتا اور یہ عہد نہیں ٹوٹتا سوائے اس کے کہ وہ دار الحرب سے مل جائے اور کسی مقام پر غلبہ پا کر مسلمانوں سے  جنگ کرے

 اسی طرح کا قول حنفی فقہ کی  کتاب العناية شرح الهداية میں ہے

 امت میں شتم رسول کی سزا کا اختلاف شروع سے چلا آ رہا ہے اس میں کسی ایک رائے کو ہی مرجوع قرار نہیں دیا جا سکتا اور عجیب بات ہے کہ آج لوگوں نے قرآن کی آیات تک اس کے حوالے سے بیان کرنا شروع کر دی ہیں

جن سے ظاہر ہے کہ سیاق و سباق سے نکال کر آیات کو اپنے مدعآ میں پیش کیا گیا ہے ورنہ فقہاء کا اختلاف کیوں ہے

شتم رسول یا سب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر قتل کرنے کے لئے جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں

کعب بن اشرف کا قتل

دلائل النبوه البیہقی، سنن ابی داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ، حَدَّثَهُمْ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَحَدَ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ يَهْجُو النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ، مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُشْرِكُونَ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ، وَالْيَهُودُ وَكَانُوا يُؤْذُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ، فَأَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ بِالصَّبْرِ وَالْعَفْوِ، فَفِيهِمْ أَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [آل عمران: 186] الْآيَةَ، فَلَمَّا أَبَى كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رَهْطًا يَقْتُلُونَهُ،

 کعب بن اشرف یہودی شاعر تھا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا۔ اور اپنے شعروں میں قریش کے کافروں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف بھڑکاتا تھا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ملے جلے لوگ تھے۔   ان میں مسلمان بھی تھے جنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت نے جمع کردیا تھا

اور مشرکین بھی تھے جو بت پرست  تھے  اور اُن میں یہودی بھی تھے جو ہتھیاروں او رقلعوں کے مالک تھے اور وہ اوس و خزرج قبائل کے حلیف تھے۔  رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی جب مدینہ تشریف آوری ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے سب لوگوں کی اصلاح کا ارادہ فرمایا۔ایک آدمی مسلمان ہوتا تو اس کا باپ مشرک ہوتا۔ کوئی دوسرا مسلمان ہوتا تو اس کابھائی مشرک ہوتا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی آمد مبارک پرمشرکین اور یہودانِ مدینہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کرام کو شدید قسم کی اذیت سے دوچار کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اس پر صبر و تحمل اور ان سے درگزر کرنے کا حکم دیا۔

ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی  وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ} [آل عمران: 186] الْآيَةَ

اور بلاشبہ آپ ضرور ان سے سنیں گے جن کو آپ سے پہلے کتاب دی گئی

پھر جب کعب بن اشرف نے بغاوت کی تو آپ نے سعد بن معاذ کو حکم دیا کہ کسی کو بھیجیں جو اسکو قتل کرے

اسکی سند میں أبو اليمان الحكم بن نافع البهرانى الحمصى   جو شُعَيْبِ بنِ أَبِي حَمْزَةَ  سے روایت کر رہے ہیں  جن کے لئے الذھبی کتاب سير أعلام النبلاء میں لکھتے ہیں

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ: عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، قَالَ: لَمْ يَسْمَعْ أَبُو اليَمَانِ مِنْ شُعَيْبٍ إِلاَّ حَدِيْثاً وَاحِداً، وَالبَاقِي إِجَازَةً

سَعِيْدُ بنُ عَمْرٍو البَرْذَعِيُّ نے أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ سے روایت کیا انہوں نے کہا ابو اليَمَانِ نے شُعَيْبٍ سے صرف ایک ہی حدیث روایت کی اور باقی اجازہ ہے

   تهذيب الكمال کے مطابق احمد کہتے ہیں

فَكَانَ وَلَدُ شُعَيْبٍ يَقُوْلُ: إِنَّ أَبَا اليَمَانِ جَاءنِي، فَأَخَذَ كُتُبَ شُعَيْبٍ مِنِّي بَعْدُ، وَهُوَ يَقُوْلُ: أَخْبَرَنَا.  فَكَأَنَّهُ اسْتَحَلَّ ذَلِكَ، بِأَنْ سَمِعَ شُعَيْباً يَقُوْلُ لِقَوْمٍ: ارْوُوْهُ عَنِّي.

قَالَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ: سَمِعْتُ أَبَا اليَمَانِ يَقُوْلُ: قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: كَيْفَ سَمِعْتَ الكُتُبَ مِنْ شُعَيْبٍ؟ قُلْتُ: قَرَأْتُ عَلَيْهِ بَعْضَهُ، وَبَعْضُهُ قَرَأَهُ عَلَيَّ، وَبَعْضُهُ أَجَازَ لِي، وَبَعْضُهُ مُنَاوَلَةً. قَالَ: فَقَالَ فِي كُلِّهِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ

شُعَيْبٍ کے بیٹے کہتے تھے کہ أَبَا اليَمَانِ میرے پاس آیا اور مجھ سے والد کی کتب لیں اور کہنے لگا اخبرنا!  پس اس نے اس کو جائز سمجھا اور میرے والد ایک قوم سے کہتے یہ مجھ سے روایت (کیسے)  کرتا ہے

إِبْرَاهِيْمُ بنُ دَيْزِيْلَ نے کہا میں نے أَبَا اليَمَانِ کو کہتے سنا وہ کہتے مجھ سے امام احمد نے کہا تم شُعَيْبٍ سے کتاب کیسے سنتے ہو ؟ میں نے کہا بعض میں اس پر پڑھتا ہوں اور بعض وہ مجھ کو سناتا ہے اور بعض کی اس نے اجازت دی اور بعض کا مناولہ کہا میں نے  اس سب پر کہا اخبرنا شُعَيْبٌ

یعنی أَبَا اليَمَانِ الحكم بن نافع اس کا کھلم کھلا اقرار کرتے تھے کہ ہر بات جس پر وہ اخبرنا شُعَيْبٌ کہتے ہیں اس میں سے ہر حدیث ان کی سنی ہوئی نہیں ہے

روایت تاریخ کے مطابق غلط ہے – صحیحین میں کعب کی قتل کی وجوہات نہیں بیان ہوئیں –  ابن اسحاق کی سیرت کے مطابق کعب مدینہ کا باسی نہ تھا اس کی ننھیال مدینہ میں تھی اور اس کے ہمدرد اس کے ساتھ تھے کعب کا باپ قبیلہ بنی طی کا تھا جو مدینہ کے شمال میں تھا  لیکن کعب ایک یہودی سیٹھ تھا اور عرب میں سفر کرتا اور قبائل کو مدینہ پر حملہ کے لئے اکساتا یہاں تک کہ اس نے عباس رضی الله عنہ کی بیوی نبی صلی الله علیہ وسلم کی مومنہ چچی لبابہ الکبری رضی الله عنہآ کے لئے بیہودہ شاعری کی

لہذا کعب کا قتل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہجو پر نہیں بلکہ فتنہ پردازی کرنے پر ہوا تھا

کعب کے واقعہ کا شتم رسول سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک خاص حکم تھا جو فتنہ اور مدینہ کی سلامتی کے لئے لیا گیا تھا

ابو رافع کا قتل

محمد بن اسحٰق  سیرت میں لکھتے ہیں

ولما انقضی شأن الخندق وأمر بنی قریظة وکان سلام بن أبي الحقیق وهو أبو رافع فیمن حزب الأحزاب علی رسول الله صلی الله علیہ وسلم وکانت الأوس قبل أحد قتلت کعب بن الأشرف في عداوته لرسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وتحریضه علیه استأذنت الخزرج رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم في قتل سلام بن أبي الحقیق وھو بخیبر فأذن لھم.

جب غزوۂ خندق اور بنو قریظہ کے یہود کامعاملہ پورا ہوگیا – ابو رافع  سلام بن ابی الحقیق یہودی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے  خلاف اتحادیوں کو جمع کیا تھا۔ اُحد سے پہلے اَوس قبیلے کےلوگوں نے کعب بن اشرف کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی عداوت اور لوگوں کی وجہ سےقتل کیا تھا توخزرج والوں نے ابورافع یہودی کے قتل کی اجازت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے طلب کی اور اس وقت ابو رافع خیبر میں تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت دی۔

اس واقعہ کا بھی سب و شتم کرنے سے تعلق نہیں ہے یہ بھی ایک خاص حکم ہے جو بطور حاکم نبی صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ کی سلامتی کے لئے دیا

ایک ام ولد کا قتل

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی اُمّ ولد تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی۔ وہ نابینا صحابی اسے منع کرتے لیکن وہ باز نہ آتی تھی۔…. ایک رات جب وہ نبی   صلی  الله علیہ وسلم کی بدگوئی کرنے لگی تو اُس نے برچھا پکڑا تو اسے اس کے پیٹ پر رکھ دیا اور اُس پر اپنا بوجھ ڈالا اور اسےقتل کردیا۔ جب یہ بات نبی کریم صلی  الله علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:

 ألا اشهدوا إن دمها هدر 

 خبردار، گواہ ہوجاؤ اس لونڈی کا خون ضائع و رائیگاں ہے

سنن أبي داود (4361)، سنن النسائي (4075)،سنن الدارقطني‎ المطالب العالیة (2046)، إتحاف الخيرة المھرة للبوصیری

البانی اس حدیث کے بارے  میں   إرواء الغلیل میں  کہتے  ہیں: إسنادہ صحیح علی شرط مسلم   اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔  امام حاکم کہتے ہیں هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مسلم کی شرط پر لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی –

امام حاکم تصحیح حدیث میں غلطیاں کرنے پر مشھور و معروف ہیں یہاں تک کہ انبیاء پر وسیلہ کی وسیلہ کی تہمت لگاتے اور رفض میں علی کو تمام صحابہ سے افضل قرار  دینے والی روایات  کو بھی صحیح کہتے  تھے

إس كي سند میں عثمان الشحام العدوى ہے –  جس کے لئے امام یحییٰ القطان  کہتے ہیں

يعرف وينكر ولم يكن عندي بذاك

اس کو پہچانا اور انکار کیا جاتا ہے اور میرے نزدیک ایسا (مظبوط) نہیں

میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے :  نسائی خود کہتے ہیں قال النسائي: ليس بالقوى. میرے نزدیک قوی نہیں

جس راوی کی روایت نسائی خود کہیں مظبوط نہیں اس کو علماء آج انکی ہی کتاب سے نقل کر کے کیسے  صحیح قرار دے  سکتے ہیں

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق

قال أبو أحمد الحاكم: عثمان بن مسلم أبو سلمة الشحام ليس بالمتين عندهم.

أبو أحمد الحاكم کہتے ہیں : عثمان محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں ہے

الغرض بعض محدثین اس کو ثقہ کہتے ہیں لیکن حلال و حرام  میں اس کی روایت مظبوط نہیں وہ بھی جب اس بنیاد پر قتل کا فتوی دیا جا رہا ہو- عصر حاضر کے علماء میں سے شعَيب الأرنؤوط ، سنن ابو داود پر اپنی تحقیق میں  کہتے ہیں

إسناده قوي من أجل عثمان الشحام، فهو صدوق لا بأس به وباقي رجاله ثقات.

عثمان الشحام کی وجہ سے اس روایت کی اسناد قوی ہیں کیونکہ وہ صدوق ہے اس میں کوئی برائی نہیں اور باقی رجال ثقہ ہیں

یعنی جو راوی متقدمین  محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں  تھا وہ آج معتبر ہو چلا ہے

ایک صحابی کا بہن کو قتل کرنا

معرفہ صحابہ از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْخَلَّالُ، ثنا ابْنُ كَاسِبٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ السَّلَمَ بْنَ يَزِيدَ، وَيَزِيدَ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَاهُ عَنْ عُمَيْرِ بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ أُخْتٌ، فَكَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آذَتْهُ فِيهِ وَشَتَمَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مُشْرِكَةً، فَاشْتَمَلَ لَهَا يَوْمًا عَلَى السَّيْفِ، ثُمَّ أَتَاهَا فَوَضَعَهُ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا، فَقَامَ بَنُوهَا وَصَاحُوا وَقَالُوا: قَدْ عَلِمْنَا مَنْ قَتَلَهَا، أَفَيَقْتُلُ أَمَّنَا وَهَؤُلَاءِ قَوْمٌ لَهُمْ آبَاءٌ، وَأُمَّهَاتٌ مُشْرِكُونَ؟ فَلَمَّا خَافَ عُمَيْرٌ أَنْ يَقْتُلُوا غَيْرَ قَاتِلِهَا ذَهَبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: «أَقَتَلْتَ أُخْتَكَ؟» ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «وَلِمَ؟» ، قَالَ: إِنَّهَا كَانَتْ تُؤْذِينِي فِيكَ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِيهَا فَسَأَلَهُمْ، فَسَمَّوْا غَيْرَ قَاتِلِهَا، فَأَخْبَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ، وَأَهْدَرَ دَمَهَا، قَالُوا: سَمْعًا وَطَاعَةً

 عمیر بن اُمیہ کی ایک بہن تھی اور عمیر جب نبی صلی الله علیہ وسلم  کی طرف جاتے تو وہ اُنہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے تکلیف دیتی اور نبی   صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور وہ مشرکہ تھی۔ اُنہوں نے ایک دن تلوار اُٹھائی پھر اپنی  بہن کے پاس آئے، اسے تلوار کا وار کرکے قتل کردیا۔ اس کے بیٹے اُٹھے، اُنہوں نے چیخ و پکار کی اور کہنے لگے کہ ہمیں معلوم ہے، کس نے اسے قتل کیا ہے؟ کیا ہمیں امن و امان دے کرقتل کیا گیا ہے؟ اور اس قوم کے آباء و اجداد اور مائیں مشرک ہیں۔ جب عمیر کو یہ خوف لاحق ہوا کہ وہ اپنی ماں کے بدلے میں کسی کو ناجائز قتل کردیں گے تو وہ نبی کریم صلی  الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کوخبر دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

  أقتلت أختك

کیا تم نے اپنی بہن کوقتل کیا ہے۔

 انہوں نے کہا ہاں۔آپ صلی الله علیہ وسلمنے کہا:   ولم؟   تم نے اسے کیوں قتل کیا

 تو اُنہوں نے کہا:    إنها کانت تؤذینی فیك      یہ مجھے آپ کے بارے میں تکلیف دیتی تھی۔

 تو نبی صلی الله علیہ وسلمنےاس کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا تو اُنہوں نے کسی اور کو قاتل بنایا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلمنے ان کو خبر دی اور اس کا خون رائیگاں قراردیا تو اُنہوں نے کہا: ہم نے سنا اور مان لیا

الإصابة  ، المعجم الکبیر از طبرانی،  مجمع الزوائد, أسد الغابة‎‎

اسکی سند میں يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب کا تفرد ہے  –  کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ا بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) کے مطابق

قال النسائي يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب ليس بشَيْءٍ

نسائی کہتے ہیں يَعْقُوب بْن حميد بن كاسب کوئی چیز نہیں

کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی  کے مطابق

أَبُو حَاتِمٍ کہتے ہیں ضَعِيْفُ الحَدِيْثِ

بخاری نے صحیح میں ایک یعقوب سے روایت لی اور لوگوں کا گمان ہے کہ یہ يَعْقُوب غير مَنْسُوب اصل میں ابْن حميد بن كاسب ہے دیکھئے الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد از أحمد بن محمد بن الحسين بن الحسن، أبو نصر البخاري الكلاباذي – اس بنیاد پر یعقوب ابْن حميد بن كاسب کو صحیح بخاری کا راوی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ائمہ حدیث اس پر متفق نہیں ہیں

اس روایت میں عُمَيْرِ بْنِ أُمَيَّةَ نامی ایک صحابی کا ذکر ہے جو صرف اسی روایت سے جانے جاتے ہیں- یہ واقعی صحابی بھی تھے یا نہیں کسی اور دلیل سے ثابت نہیں-

ایک یہودیہ کا قتل

سنن ابو داود اور سنن الکبری البیہقی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، «أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ، فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ، فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا

ایک یہودیہ عورت نبی صلی الله علیہ وسلم  کو گالیاں دیا کرتی اور آپ کے بارے میں نازیبا کلمات کہا کرتی تھی۔ ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئی تو اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے اس کا خون باطل قرار دیا۔

اس روایت کے بارے میں  إرواء الغلیل میں   البانی  کہتے ہیں   إسناده صحیح علی شرط الشیخین  اس کی سند بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن بعد میں اس قول سے رجوع کرتے ہیں اور کتاب صحيح وضعيف سنن أبي داود

 میں کہتے ہیں ضعيف الإسناد

کتاب  الأحاديث المختارة أو المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما از ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) کے مطابق كَذَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُد  إِسْنَاده مُنْقَطع اسطرح ابو داود نے روایت کیا ہے اسناد منقطع ہیں

حد قتل صرف مرتکب ِتوہین رسالت کے لیے

سنن الکبری البیہقی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ، نا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، نا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، عَنْ أَبِي السَّوَّارِ، عَنْ  أَبِي بَرْزَةَ، أَنَّ رَجُلًا، سَبَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: ” أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 ابو برزہ کہتے ہیں ایک شخص نے ابو بکر رضی الله عنہ کو گالی دی -میں نے کہا یا خلیفہ رسول آپ کی اجازت ہو تو گردن مار دوں؟  ابو بکر رضی الله عنہ  نے کہا لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یہ حد رسول الله کے بعد کسی کے لئے نہیں

ایک اور روایت میں ہے   لا والله ما کانت لبشر بعد محمد صلی الله علیہ وسلم

الله کی قسم   رسول الله کے بعد یہ کسی  بشر کے لئے نہیں

سنن أبي داؤد    سنن النسائي   ‎‎ السنن الکبری للنسائي

میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق ابن معین اس کی سند میں توبہ العنبری کی تضعیف کرتے ہیں

یہ روایت مستدرک الحاکم میں بھی ہے لیکن الذھبی تلخيص میں اس پر سکوت کرتے ہیں جس سے ظاہر سے وہ اس کی صحت پر مطمئن نہ تھے

یہ روایت مبہم ہے- ابو بکر رضی الله عنہ کس بات پر ناراض تھے واضح نہیں- اور کسی کا اسطرح دخل در معقولات کرنا بے ادبی ہے –  الفاظ لَا لَيْسَتْ هَذِهِ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا مطلب ہے ایسا حکم دینا صرف رسول الله کا حق ہے –  صحیح  بخاری کی  حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہودی جو کہتا تھا تم پر موت ہو اس کو قتل کرنے سے منع کیا

 ایک  عیسائی کو سزا

سنن الکبری بیہقی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَارِسِيُّ , أنبأ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَصْفَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ فَارِسٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: قَالَ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ: ثنا الْمُبَارَكُ، أنبأ حَرْمَلَةُ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، أَنَّ عَرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ مَرَّ بِهِ نَصْرَانِيٌّ فَدَعَاهُ إِلَى الْإِسْلَامِ , فَتَنَاوَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَهُ , فَرَفَعَ عَرَفَةُ يَدَهُ فَدَقَّ أَنْفَهُ , فَرُفِعَ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ , فَقَالَ عَمْرٌو: أَعْطَيْنَاهُمُ الْعَهْدَ. فَقَالَ عَرَفَةُ: مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَكُونَ أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ يُظْهِرُوا شَتْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِنَّمَا أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ نُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ كَنَائِسِهِمْ , يَقُولُونَ فِيهَا مَا بَدَا لَهُمْ , وَأَنْ لَا نُحَمِّلَهُمْ مَا لَا يَطِيقُونَ , وَإِنْ أَرَادَهُمْ عَدُوٌّ قَاتَلْنَاهُمْ مِنْ وَرَائِهِمْ , وَنُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ أَحْكَامِهِمْ , إِلَّا أَنْ يَأْتُوا رَاضِينَ بِأَحْكَامِنَا , فَنَحْكُمَ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِ اللهِ وَحُكْمِ رَسُولِهِ , وَإِنْ غَيَّبُوا عَنَّا لَمْ نَعْرِضْ لَهُمْ فِيهَا. قَالَ عَمْرٌو: صَدَقْتَ وَكَانَ عَرَفَةُ لَهُ صُحْبَةٌ

كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ  کہتے ہیں کہ َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کے پاس سے ایک عیسائی گزرا تو اُنہوں نے اسے اسلام کی دعوت پیش کی تو اُس عیسائی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی اہانت کی۔ َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور اس کی ناک پھوڑ دی ۔ یہ مقدمه عمرو بن العاص کے پاس لایا گیا تو عمرو نے کہا  ہم نے ان کو عہد و پیمان دیا ہے (یعنی ان کی حفاظت ہم پر لازم ہے) َعرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ نے کہا اللہ کی پناہ! ہم ان کو اس بات پر عہد و پیمان دیں کہ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر سب و شتم کا اظہار کریں۔ ہم نے ان کو اس بات کا عہد دیا ہے کہ ہم اُنہیں ان کے گرجا گھروں میں چھوڑ دیں وہ اپنے گرجا گھروں میں جو کہنا ہے کہیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالیں اوراگر کوئی دشمن ان کا قصد کرے تو ہم ان کے پیچھے ان سے لڑائی لڑیں اور اُنہیں ان کے احکامات پر چھوڑ دیں، اِلا یہ کہ وہ ہمارے احکامات پر راضی ہوکر آئیں تو ہم ان کے درمیان اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں اوراگر وہ ہم سے غائب ہوں تو ہم ان کے پیچھے نہ پڑیں۔   عمرو بن العاص نے فرمایا: صدقتَ تم نے سچ کہا – (بیہقی نے کہا) اور عَرَفَةُ صحابی ہیں

سند میں كعب بن علقمة بن كعب التنوخى  المصری ہیں – بخاری نے تاریخ الکبیر میں نام لکھا ہے نہ جرح کی نہ تعدیل – صرف ابن حبان نے  ثقآت میں ذکر کیا ہے – بخاری نے الأدب المفرد  میں روایت لکھی ہے ایسے رویوں کا مجھول سمجھا جاتا ہے جن پر نہ جرح ہو نہ تعدیل ہو

عرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کا صحابی ہونا واضح نہیں – لہذا دونوں مجھول راوی ہیں –روایت کے آخر میں بیہقی نے کہا ہے عَرَفَةُ صحابی ہیں لیکن ابن حجر الإصابة في تمييز الصحابة میں کہتے ہیں   ذكره ابن قانع، وابن حبّان ان کا ابن قانع اور ابن حبان نے ذکر کیا ہے – آبن  قانِع  المتوفی ٣٥١ ھ کتاب معجم الصحابة میں ان کا ذکر کرتے ہیں –  اس سے قبل کسی نے ان کو صحابی قرار نہ دیا – بہت سے لوگوں کو اس بنیاد پر صحابی نہیں کہا گیا کہ انہوں نے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دور دیکھا ان سے کچھ سنا نہیں- عرَفَةَ بْنَ الْحَارِثِ الْكِنْدِيَّ کے بارے میں تو یہ بھی نہیں پتا کہ واقعی دور نبوی بھی پایا تھا یا نہیں-  ایک روایت کے مطابق جو جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزَّوائِد

 میں ہے عرفہ نے حجہ الوداع کے وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا لیکن اس کو البانی ضعیف کہتے ہیں

علی رضی الله عنہ کی روایت

ایک اور روایت ہے جو مجمع الزوائد ،میں ہے

عَنْ عَلِيٍّ – يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ” «مَنْ سَبَّ الْأَنْبِيَاءَ قُتِلَ، وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي جُلِدَ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ وَالْأَوْسَطِ عَنْ شَيْخِهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيِّ رَمَاهُ النَّسَائِيُّ بِالْكَذِبِ.

علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو انبیاء کو گالی دے قتل کر دو اور جو میرے اصحاب کو گالی دے اسے کوڑے مارو

اس کو طبرانی نے الصغیر اور الاوسط میں اپنے شیخ عبید الله سے روایت کیا جن کو  نسائی نے جھوٹ بولنے پر پھینک دیا  ہے

عمیر بن عدی رضی الله عنہ کی روایت

مسند الشهاب از أبو عبد الله محمد بن سلامة بن جعفر بن علي بن حكمون القضاعي المصري (المتوفى: 454هـ) کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ أَبُو طَاهِرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدُونٍ الْمَوْصِلِيُّ، قَدِمَ عَلَيْنَا، أبنا أَبُو الْحَسَنِ، عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْحَرْبِيُّ الْحَنْبَلِيُّ السُّكَّرِيُّ، ثنا أَبُو الْفَضْلِ، جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الْجُرْجَرَائِيُّ بِهَا، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلَاءِ الشَّامِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ اللَّخْمِيُّ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي خَطْمَةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِجَاءٍ لَهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ ذَلِكَ، وَقَالَ: «مَنْ لِي بِهَا؟» فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهَا: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَتْ تَمَّارَةٌ تَبِيعُ التَّمْرَ، قَالَ: فَأَتَاهَا أَجْوَدَ مِنْ هَذَا قَالَ: فَدَخَلَتِ التُّرْبَةَ، قَالَ: وَدَخَلَ خَلْفَهَا، فَنَظَرَ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَلَمْ يَرَ إِلَّا خِوَانًا، قَالَ: فَعَلَا بِهِ رَأْسَهَا حَتَّى دَمَغَهَا بِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ كَفَيْتُكَهَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَأَرْسَلَهَا مَثَلًا

اس سند میں مجالد بن سعید ہے جو ضعیف ہے –  ابن عدی ، ابن جوزی اور البانی کے مطابق روایت موضوع ہے جس کو محمد بن الحجاج اللَّخمي نے گھڑا ہے

دوسری سند ہے

أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ التُّسْتَرِيُّ، وَذُو النُّونِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا نا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَسْكَرِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، نا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، أنا الْوَاقِدِيُّ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَتْ عَصْمَاءُ بِنْتُ مَرْوَانَ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَكَانَ زَوْجُهَا يَزِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ حِصْنٍ الْخَطْمِيُّ، وَكَانَتْ تُحَرِّضُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَتُؤْذِيهِمْ، وَتَقُولُ الشِّعْرَ، فَجَعَلَ عُمَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ نَذْرًا أَنَّهُ لَئِنْ رَدَّ اللَّهُ رَسُولَهُ سَالِمًا مِنْ بَدْرٍ لَيَقْتُلَنَّهَا، قَالَ: فَعَدَا عَلَيْهَا عُمَيْرٌ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَقَتَلَهَا، ثُمَّ لَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى مَعَهُ الصُّبْحَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَصَفَّحُهُمْ إِذَا قَامَ يَدْخُلُ مَنْزِلَهُ، فَقَالَ لِعُمَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ: «قَتَلْتَ عَصْمَاءَ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ فِي قَتْلِهَا شَيْءٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَهِيَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اس کی سند میں َعبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ اور ان کا باپ دونوں مجھول ہیں ،  لگتا ہے یہ غلطی ہے،  کیونکہ ایک راوی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ الْفُضَيْلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عُمَيْرِ بْنِ عَدِيِّ کے نام کا ہے

سند میں واقدی ہے جو ضعیف ہے

تہذیب التہذیب از ابن حجر کے مطابق امام احمد کہتے ہیں الْحَارِثِ بْنِ الْفُضَيْلِ

ليس بمحفوظ الحديث  حدیث میں محفوظ نہیں

ليس بمحمود الحديث حدیث میں قابل تعریف نہیں

عمیر بن عدی نے ایک گستاخ عورت کو قتل کیا اسکی خبر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ہوئی

آپ نے فرمایا

لا ينتطح فيها عنزان

اس میں دو بکریوں کے سینگ بھی نہیں الجھیں گے

یعنی اس میں کسی کو اختلاف نہ ہو گا

لیکن جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں محدثین اس کو ایک موضوع روایت کہتے ہیں

بنی قریظہ کی عورت کا قتل

مسند احمد کی راویت ہے

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: لَمْ يَقْتُلْ مِنْ نِسَائِهِمْ إِلَّا امْرَأَةً وَاحِدَةً. قَالَتْ: وَاللَّهِ إِنَّهَا لَعِنْدِي تَحَدَّثُ مَعِي، تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا، «وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ رِجَالَهُمْ بِالسُّوقِ» ، إِذْ هَتَفَ هَاتِفٌ بِاسْمِهَا: أَيْنَ فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: أَنَا وَاللَّهِ، قَالَتْ: قُلْتُ: وَيْلَكِ، وَمَا لَكِ؟ قَالَتْ: أُقْتَلُ. قَالَتْ: قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَتْ: حَدَثٌ أَحْدَثْتُهُ. قَالَتْ: فَانْطُلِقَ بِهَا، فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَنْسَى عَجَبِي مِنْ طِيبِ نَفْسِهَا، وَكَثْرَةِ ضَحِكِهَا وَقَدْ عَرَفَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ

عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ عورتوں میں سے کسی کا قتل نہ ہوا سوائے ایک عورت کے جو گستاخ تھی

اسکی تمام اسناد میں محمّد بن اسحاق ہے جو ضعیف ہے اور احمد کہتے ہیں اس سے حلال و حرام کی روایت نہیں لینی چاہیے

مصنف عبد الرزاق کی روایت

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ. . . أَوْ قَالَ: أَلْفَيْنِ أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَسُبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَكْفِينِي عَدُوِّي؟» فَخَرَجَ إِلَيْهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَقَتَلَهَا

مصنف عبد الرزاق کے نسخہ میں الفاظ مکمل نقل نہیں ہوئے  أبو نعيم نے  معرفة الصحابة (6/ 3162) میں اس کا مکمل متن و سند نقل کیا ہے :
حدثنا أحمد بن محمد بن يوسف، ثنا عبد الله بن محمد البغوي، ثنا زهير بن محمد، ثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن سماك بن الفضل، عن عروة بن محمد، عن رجل  من بلقين، قال: كانت امرأة تسب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «من يكفيني عدوتي، فخرج خالد بن الوليد فقتلها

سماك بن الفضل روایت کرتے ہیں  عروة بن محمد سے وہ  بلقين میں سے ایک شخص سے کہ ایک عورت تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کون میری مدد کرتا ہے میری دشمن کے لئے پس خالد بن ولید نکلے اور اس کو قتل کر دیا

اسکی سند میں عروة بْن مُحَمَّد بْن عطية السعدي الجشمي ہیں جن کو  سُلَيْمان بن عبد الملك اور عُمَر بْن عبد العزيز اور يزيد بن عبد الملك نے يمن پر عامل مقرر کیا تھا – عروہ ایک مجھول سے روایت نقل کر رہے ہیں جس کا نام و نسب نہیں پتا

لیکن پانچویں صدی کی کتاب المحلی از ابن حزم کی روایت ہے

وَحَدَّثَنَا حُمَامٌ نا عَبَّاسُ بْنُ أَصْبَغَ نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَيْمَنَ نا أَبُو مُحَمَّدٍ حَبِيبٌ الْبُخَارِيُّ – هُوَ صَاحِبُ أَبِي ثَوْرٍ ثِقَةٌ مَشْهُورٌ – نا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ سَمِعْت عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ: ” دَخَلْت عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ لِي: أَتَعْرِفُ حَدِيثًا مُسْنَدًا فِيمَنْ سَبَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – فَيُقْتَلُ؟ قُلْت: نَعَمْ، فَذَكَرْت لَهُ حَدِيثَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ ” رَجُلٍ ” مِنْ بُلْقِينَ قَالَ «كَانَ رَجُلٌ يَشْتُمُ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ -: مَنْ يَكْفِينِي عَدُوًّا لِي؟ فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَنَا فَبَعَثَهُ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – إلَيْهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ: لَيْسَ هَذَا مُسْنَدًا، هُوَ عَنْ رَجُلٍ؟ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِهَذَا يُعْرَفُ هَذَا الرَّجُلُ وَهُوَ اسْمُهُ، قَدْ أَتَى النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَبَايَعَهُ، وَهُوَ مَشْهُورٌ مَعْرُوفٌ؟ قَالَ: فَأَمَرَ لِي بِأَلْفِ دِينَارٍ؟»

علی المدینی کو کہتے محمد بن سہل نے سنا کہ میں (علی المدینی) امیر المومنین (المامون) کے پاس داخل ہوا انہوں نے پوچھا :کیا آپ کو کوئی مسند روایت پتا ہے جس میں نبی کی گستاخی پر قتل کی سزا ہو؟ میں نے کہا جی ؛ پس ان سے حدیث ذکر کی کہ عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے سماک سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے بلقین کے رجل سے روایت کیا کہ … امیر المومنین نے کہا اس میں تو روایت عن رجل سے ہے مسند کیسے ہوئی؟ میں نے کہا اے امیر المومنین اس رجل کا نام ہی ایسے لیا جاتا تھا اور یہی اسکا نام ہے یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور انکی بیعت کی اور یہ مشھور و معروف ہیں پس امیر المومنین نے ہزار دینار عطا کیے

ابن حزم کہتے ہیں

 هَذَا حَدِيثٌ مُسْنَدٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ عَبْدُ الرَّزَّاقِ كَمَا ذَكَرَهُ، وَهَذَا رَجُلٌ مِنْ الصَّحَابَةِ مَعْرُوفٌ اسْمُهُ الَّذِي سَمَّاهُ بِهِ أَهْلُهُ ” رَجُلٌ ” مِنْ بُلْقِينَ.

یہ حدیث مسند ہے صحیح ہے اس کو علی بن المدینی نے روایت کیا ہے عبد الرزاق سے جیسا کہ ذکر کیا اور یہ  رجل صحابہ میں سے ہے جن کو انکے گھر والوں نے ایسا نام دیا کہ بلقین کا آدمی

یہ سب اگر آپ نے پڑھ لیا ہے تو سنئے یہ سب غلط ہے اور اس کی وجوہ یہ ہیں

اول محدثین اور عباسی خلفاء میں باپ مارے کا بیر تھا وہ ایک دوسرے کو پسند نہ کرتے تھے اور معتزلی عقائد رکھتے تھے

دوم محدثین کی خلق قرآن کے مسئلہ پر سخت جانچ پڑتال کی جاتی – امام احمد کو علی المدینی کے دور کے ہیں ان کو کوڑے بھی لگے

سوم عبّاسی خلفاء نے اہل رائے والے علماء کو قاضی کے منصب دیے  – محدثین کی عزت افزائی کا ان کو کوئی شوق نہ تھا یہی وجہ تھی کہ محدثین اور اہل رائے میں ایک مخاصمت جنم لے چکی تھی

لہذا عباسی خلفاء کے اہل رائے والے قاضی امام ابو حنیفہ ، امام یوسف اور امام محمد کا فتوی یہ تھا کہ ذمی شاتم کو قتل نہیں کیا جائے گا – امیر المومنین المأمون  نے انعام سے نوازا اور حدیث کو ایک طرح علی المدینی نے بیچ دیا – ایسا ممکن نہیں محدثین حدیث سنانے کے پیسے نہ لیتے تھے

اب رجل من بلقین کا قبول کرنا بھی ایک فرضی داستان ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ رجل من بلقین ایک صحابی ہے اور  صحابہ کلھم عدول ہیں لہذا روایت درست ہے لیکن اس بنیاد پر تو ہر وہ روایت درست مان لینی چاہیے جس میں دور نبوی کے لوگوں کا لقاء ثابت نہ ہو

اب غور سے پڑھیں اسی کتاب المحلی میں ابن حزم ایک دوسرے مسئلہ پر لکھتے ہیں

رُوِّينَاهُ مِنْ طَرِيقِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ «عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ أَحَدٌ أَحَقُّ بِشَيْءٍ مِنْ الْمَغْنَمِ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَ: لَا، حَتَّى السَّهْمُ يَأْخُذُهُ أَحَدُكُمْ مِنْ جَنْبِهِ فَلَيْسَ أَحَقَّ مِنْ أَخِيهِ بِهِ» . قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: هَذَا عَنْ رَجُلٍ مَجْهُولٍ لَا يُدْرَى أَصَدَقَ فِي ادِّعَائِهِ الصُّحْبَةَ أَمْ لَا؟

اور ہم سے روایت کیا گیا ہے حماد بن سلمہ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ «عَنْ رَجُلٍ مِنْ بُلْقِينَ کے طرق سے …. ابن حزم کہتے ہیں یہ رجل مجھول ہے – نہیں پتا کہ اس کا دعوی صحابی ہونا سچا بھی ہے یا نہیں

یعنی ایک ہی کتاب میں رجل من بلقین کو مجھول کہہ کر رد کیا اور جب اس کی شاتم رسول کی روایت آئی تو سب بھول بھال گئے

یہ روایت ان علماء میں چلتی رہی جو قتل کا فتوی دیتے تھے یہاں تک کہ ابن حجر نے  الإصابة في تمييز الصحابة
میں لکھا کہ اوپر امیر المومنین المامون والآ قصہ جس کو ابن حزم صحیح کہہ گئے ہیں  کذب ہے کتاب میں ابن حجر نے لکھآ

قلت: محمد بن سهل ما عرفته، وفي طبقته محمد بن سهل العطار رماه الدارقطنيّ بالوضع وقال: ناقض ابن حزم

میں کہتا ہوں کہ محمد بن سہل نہیں جانا جاتا اور اس طبقہ میں محمد بن سهل العطار ہے جس کو دارقطنی نے حدیث وضع کرنے پر پھینک دیا ہے اور یہ ابن حزم کی غلطی ہے

الغرض روایات مظبوط نہیں اور فقہاء باوجود قرآن پڑھنے کے اس مسئلہ میں ایک رائے نہیں لہذا آج یہ کہنا کہ اس عمل کی سزا پر اجماع ہے  غلط قول ہے

عمر بغیر پوچھے قتل کرتے رهتے

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے

أخبرنا يونس بن عبد الأعلى قراءة، أنبأ ابن وهب، أخبرني عبد الله بن لهيعة عن أبي الأسود قال: اختصم رجلان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقضى بينهما، فقال الذي قضى عليه: ردنا إلى عمر بن الخطاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، انطلقا إلى عمر، فلما أتيا عمر قال الرجل: يا ابن الخطاب قضى لي رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا، فقال: ردنا إلى عمر حتى أخرج إليكما فأقضي بينكما، فخرج إليهما، مشتملا على سيفه فضرب الذي قال: ردنا إلى عمر فقتله، وأدبر الآخر فارا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، قتل عمر والله صاحبي ولو ما أني أعجزته لقتلني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما كنت أظن أن يجترئ عمر على قتل مؤمنين، فأنزل الله تعالى فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما فهدر دم ذلك الرجل وبرئ عمر من قتله، فكره الله أن يسن ذلك بعد، فقال: «ولو أنا كتبنا عليهم أن اقتلوا أنفسكم أو اخرجوا من دياركم ما فعلوه إلا قليل منهم» إلى قوله: وأشد تثبيتا

یونس بن عبد الاعلیٰ عبدللہ بن وھب سے روایت کرتے ہیں کہ ابن الہیعہ نے انہیں ابو الاسود سے نقل کرتے ہوئے خبر دی: دو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس جھگڑا لے گئے آپ نے ان کے درمیان فیصلہ فرمایا جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا ہم کو حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے؟ دونوں عمر ؓکے پاس چلے جب عمر ؓ کے پاس آئے تو ایک آدمی نے کہا اے ابن خطاب میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرما دیا ہے اس معاملہ میں اس نے کہا ہم عمر ؓ کے پاس جائیں گے تو ہم آپ کے پاس آگئے عمر ؓ نے پوچھا (اس آدمی سے) کہا ایسے ہی ہے؟ اس نے کہا ہاں عمر ؓ نے فرمایا اپنی جگہ پر رہو یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آؤں تمہارے درمیان فیصلہ کروں حضرت عمر اپنی تلوار لے کر آئے اس پر تلوار سے وار کیا جس نے کہا تھا کہ ہم عمر کے پاس جائیں گے اور اس کو قتل کردیا اور دوسرا پیٹھ پھیر کر بھاگا اور رسول اللہ ﷺ سے آکر کہا یا رسول اللہ اللہ کی قسم عمر ؓ نے میرے ساتھی کو قتل کردیا اگر میں بھی وہاں رکا رہتا تو وہ مجھے بھی قتل کردیتے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرا گمان یہ نہیں تھا۔ کہ عمر ؓ ایمان والوں کو قتل کی جرات کریں گے تو اس پر یہ آیت اتری لفظ آیت ’’ فلا وربک لا یؤمنون‘‘ تو اس آدمی کا خون باطل ہوگیا اور عمر ؓ اس کے قتل سے بری ہوگئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں اس طریقہ کو ناپسند کیا تو بعد والی آیات نازل فرمائیں اور فرمایا لفظ آیت ’’ ولو انا کتبنا علیہم ان اقتلوا انفسکم‘‘ سے لے کر ’’واشد تثبیتا‘‘ تک

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا (66)
جواب

یہ روایت منکر ہے

تعزیری احکام صرف حاکم کا حق ہے اور دور نبوی میں قتل کا حکم صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کر سکتے ہیں – کوئی اور نہیں

محمد الأمين بن عبد الله الأرمي العلوي الهرري الشافعی کتاب تفسير حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن میں کہتے ہیں
وهذا مرسل غريب في إسناده ابن لهيعة.
یہ روایت مرسل ہے عجیب و منفرد ہے اس کی سند میں ابن لهيعة ہے

ابن کثیر تفسیر میں اس قصے کو نقل کر کے کہتے ہیں
وَهُوَ أثر غريب مُرْسَلٌ، وَابْنُ لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ
یہ اثر عجیب ہے مرسل ہے اور ابْنُ لَهِيعَةَ ضعیف ہے

محاسن التأويل میں المؤلف: محمد جمال الدين بن محمد سعيد بن قاسم الحلاق القاسمي (المتوفى: 1332هـ) کہتے ہیں
وهو أثر غريب مرسل. وابن لهيعة ضعيف

اس راوی پر محدثین کا اختلاف رہا ہے – بعض نے مطلقا ضعیف کہا ہے بعض نے کہا کہ اگر ابن المبارك وابن وهب والمقري اس سے روایت کریں تو لکھ لو
اس طرح اس قصے کو قبول کرنے والے کہتے ہیں ابن وھب نے روایت کیا ہے لہذا قبول کیا جائے گا
لیکن یہ قول اس وقت لیا جاتا ہے جب اختلاط کا خطرہ ہو کیونکہ عبد الله بن لهيعة آخری عمر میں مختلط تھا اور اس نے اپنی کتابیں بھی جلا دیں تھیں
——
موصوف مدلس بھی ہیں اور یہ جرح اس سند پر بھی ہے اس کو کوئی رد نہیں کر سکتا
ابن سعد نے طبقات میں بحث کو سمیٹا ہے کہ
إنه كان ضعيفاً
یہ ضعیف ہی ہے

ابن ابی حاتم جن کی تفسیر میں یہ قصہ ہے ان کے باپ کا کہنا تھا
وأبو حاتم: أمره مضطرب،
عبد الله بن لهيعة کا کام مضطرب ہے

روایت میں شیعیت ہے

اس کو رافضی الکلبی نے بھی روایت کیا ہے
قال الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس: نزلت في رجل من المنافقين يقال له بشر كان بينه وبين يهودي خصومة، فقال اليهودي: انطلق بنا إلى محمد، وقال المنافق: بل نأتي كعب بن الأشرف -وهو الذي سماه الله تعالى الطاغوت- فأبى اليهودي إلا أن يخاصمه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رأى المنافق ذلك “أتى معه” النبي صلى الله عليه وسلم واختصما إليه فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم لليهودي فلما خرجا من عنده لزمه المنافق وقال: ننطلق إلى عمر بن الخطاب فأقبلا إلى عمر، فقال اليهودي: اختصمت أنا وهذا إلى محمد فقضى لي عليه فلم يرض بقضائه وزعم أنه مخاصم إليك وتعلق بي فجئت معه، فقال عمر للمنافق: أكذلك؟ فقال: نعم فقال لهما: رويدكما حتى أخرج إليكما فدخل عمر البيت وأخذ السيف فاشتمل عليه ثم خرج إليهما فضرب به المنافق حتى برد وقال: هكذا أقضي بين من لم يرض بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهرب اليهودي، ونزلت هذه الآية وقال جبريل عليه السلام: إن عمر فرق بين الحق والباطل فسمي الفاروق.
الکلبی ابو صالح سے اور ابو صالح ابن عبّاسؓ سے روایت کرتے ہیں: یہ آیت بشر نامی ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئی۔ بشر اور ایک یہودی کے مابین جھگڑا ہوا۔ یہودی نے کہا چلو آؤ محمد کے پاس فیصلہ کے لئے چلیں۔ منافق نے کہا نہیں بلکہ ہم کعب بن اشرف یہودی – جسے اللہ تعالی نے طاغوت کا نام دیا – کے پاس چلیں۔ یہودی نے فیصلہ کروانے سے ہی انکار کیا مگر یہ کہ جھگڑے کا فیصلہ رسول اللہ سے کروایا جائے۔ جب منافق نے یہ دیکھا تو وہ اس کے ساتھ نبی ﷺ کے کی طرف چل دیا اور دونوں نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ وہ دونوں جب آپ کے پاس سے نکلے تو منافق نے عمر بن خطابؓ کے پاس چلنے پر اصرار کیا اور وہ دونوں عمر ؓکے پاس پہنچے۔ یہودی نے کہا، میں اور یہ شخص اپنا جھگڑا محمد کے پاس لے کر گئے اور محمد نے میرے حق میں اور اس کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ چنانچہ یہ ان کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور آپ کے پاس آنے کا کہا تو میں آپ اس کے ساتھ آپ کی طرف آیا۔ عمر ؓنے منافق سے پوچھا، ‘کیا یہی معاملہ ہے؟’ اس نے کہا، ‘جی ہاں۔’ عمرؓ نے ان دونوں سے کہا تم دونوں میری واپسی کا انتظار کرو۔ عمر ؓ اپنے گھر گئے، اپنی تلوار اٹھائی اور واپس ان دونوں کے پاس لوٹے اور منافق پر وار کیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: “جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کے لئے میرا یہی فیصلہ ہے۔” یہ دیکھ کر یہودی بھاگ گیا۔ اس پر یہ آیت (النساء ٦٥) نازل ہوئی اور جبریل علیہ السلام نے کہا: بے شک عمر ؓنے حق اور باطل کے درمیان فرق کر دیا اور انہوں نے آپ کا نام “الفاروق” رکھا

اور ابن الہیعہ نے اغلبا تدلیس کی ہے کیونکہ ابی الاسود سے لے کر عمر رضی الله عنہ یا کسی صحابی تک سند نہیں ہے

الكَلْبِيُّ مُحَمَّدُ بنُ السَّائِبِ بنِ بِشْرٍ المتوفي ١٤٦ اور ابن الہیعہ المتوفی ١٧٤ کے ہیں دونوں پر شیعت کا اثر تھا – روایت کو عمر رضی الله عنہ کی تنقیص میں بیان کیا گیا کہ وہ حکم نبوی انے سے قبل ہی اپنی چلاتے تھے

ابن خطل کا قتل

حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو ابن خطل کعبہ کے پردے میں چھپ گیا آپ نے حکم دیا اس کو وہیں قتل کر دیا جائے

ابو داود کہتے ہیں أَبُو بَرْزَةَ رضی الله عنہ  نے  اس کا قتل کیا اور امام مالک کا قول ہے کہ اس روز رسول الله احرام میں نہ تھے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے کالا عمامہ باندھا ہوا تھا یعنی سر بھی ڈھکا ہوا تھا

کیونکہ احرام کی حالت میں قتل حرام ہے اس لئے فقہاء میں اس پر بحث ہوتی ہے کہ کیا حرم میں بغیر احرام داخل ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟  یہ عمل الله کی خاص اجازت سے ہوا

اب بحث یہ ہے کہ ابن خطل کا قتل کیوں ہوا ؟  کتاب الشريعة از الآجُرِّيُّ کے مطابق علی رضی الله عنہ کا قول ہے

كَانَ ابْنُ خَطَلٍ يَكْتُبُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابن خطل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے لکھتا تھا

یعنی ابن خطل  ایک کاتب تھا جو مرتد ہو گیا تھا اور چونکہ مرتد کا قتل ہوتا ہے اس لئے اس کا قتل ہوا یہ گناہ تمام دیگر گناہوں پر سبقت لے گیا ورنہ مکہ میں تو سب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف تھے

کتاب  شرح السنة از البغوي  کے مطابق

أَنَّ ابْنَ خَطْلٍ كَانَ بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهٍ مَعَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَمَّرَ الْأَنْصَارِيَّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، وَثَبَ عَلَى الْأَنْصَارِيِّ، فَقَتَلَهُ، وَذَهَبَ بِمَالِهِ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِهِ لِخِيَانَتِهِ.

ابن خطل کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک کام سے ایک انصاری صحابی کے ساتھ  بھیجا اور انصاری کو امیر کیا پس جب وہ رستہ میں تھے ابن خطل نے انصاری پر قابو پایا اور ان کو قتل  کر کے مال لے بھاگا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا قتل خیانت کرنے پر کیا

اہل مکہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نام رکھے ہوئے تھے بعض ان کو

ابن ابی کبشہ کہتے (سیرت ابن اسحاق)  یعنی ابی کبشہ کا بیٹا جو ایک ستارہ پرست تھا اور الشعری کا پجاری تھا یعنی عربوں کے نزدیک لا دین تھا

بعض اہل مکہ ان کو مذمم کہتے (مسند احمد، صحیح بخاری) یعنی وہ جو قابل مذمت ہو

صحیح بخاری کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا

أَلاَ تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ، يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ

کیا تم کو حیرت نہیں ہوتی کہ کس طرح الله نے قریش کی گالیوں کو ہٹایا اور ان کی لعنت کو؟ کہ وہ ایک مذمم کو گالی دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں اور میں محمد ہوں

یعنی الله میری تعریف کر رہا ہے اور قریش الله سے دعائیں کر رہے ہیں کہ مجھ پر لعنت ہو

 آپ صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ان تمام گالی دینے والوں کو معاف کر دیا

—-

معالم السنن میں خطابی کہتے ہیں

وحكي، عَن أبي حنيفة أنه قاله لا يقتل الذمي بشتم النبي صلى الله عليه وسلم ما هم عليه من الشرك أعظم.

اور امام ابو حنیفہ سے حکایت کیا گیا ہے کہ ذمی کو گالی دینے پر قتل نہیں کیا جائے گا ان پر پہلے سے شرک  (کا گناہ) ہے جو بڑا ہے

یعنی جب شرک جسے گناہ پر ان کو قتل نہیں کیا جاتا تو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دینے  پر کیسے کیا جا سکتا ہے؟

امام ابو حنیفہ کی رائے کی تائید صحیح البخاری کی حدیث سے ہوتی ہے

ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ اللَّهُ: «كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، وَشَتَمَنِي، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ، فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ [ص:20] إِيَّايَ فَزَعَمَ أَنِّي لاَ أَقْدِرُ أَنْ أُعِيدَهُ كَمَا كَانَ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ، فَقَوْلُهُ لِي وَلَدٌ، فَسُبْحَانِي أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا»

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالی کہتا ہے

ابن آدم نے میری تکذیب کی اور اس کے لئے یہ مقام نہیں

اور مجھ کو گالی دی …. یہ کہہ کر کہ میرا بیٹا ہے جبکہ میں پاک ہوں کہ کسی کو بیٹے کے  طور پر لوں

آجکل بعض جھلا کہتے پھرتے ہیں کہ شاتم رسول ذمی کی سزا پر بحث نہ کی جائے کیونکہ یہ دین دار اور دنیا پرست لوگوں کا جھگڑا ہے لیکن ان جھلا نے امام ابو حنیفہ رحمہ الله علیہ تک کو دنیا دار طبقہ میں ملا دیا ہے

ناطقہ سربہ گریباں خامہ انگشت

گانے والیوں کو سزا

ابن تیمیہ نے اپنی کتاب  الصارم المسلول على شاتم الرسول میں ایک قصہ نقل کیا ہے

فمن ذلك ما ذكره سيف بن عمر التميمي في كتاب “الردة والفتوح” عن شيوخه قال: “ورفع إلى المهاجر يعني المهاجر بن أبي أمية وكان أميرا على اليمامة ونواحيها امرأتان مغنيتان غنت إحداهما بشتم النبي صلى الله عليه وسلم فقطع يدها ونزع ثنيتيها وغنت الأخرى بهجاء المسلمين فقطع يدها ونزع ثنيتيها فكتب إليه أبو بكر: بلغني الذي سرت به في المرأة التي تغنت وزمرت بشتم النبي صلى الله عليه وسلم فلولا ما قد سبقتني لأمرتك بقتلها لأن حد الأنبياء ليس يشبه الحدود فمن تعاطى ذلك من مسلم فهو مرتد أو معاهد فهو محارب غادر”.

  سيف بن عمر التميمی نے اپنی کتاب “الردة والفتوح” میں اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے کہ   المهاجر بن أبي أمية جو یمامہ پر امیر تھے وہاں دو عورتیں ان پر پیش مقدمے میں ہوئیں جو گاتی اور ہجو رسول کرتی تھیں –  المهاجر بن أبي أمية نے  اس کے ہاتھ کاٹ دیئے اور اس کے اگلے دانت نکال دیئے۔  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے اسے یہ سزانہ دی ہوتی تو تمہیں حکم دیتاکہ اس عورت کو قتل کردو۔کیونکہ انبیاء کرام کی گستاخی کی حددوسرے لوگوں کی(گستاخی کی) حدود کے مشابہ نہیں ہوتی ۔

سيف بن عمر التميمي  سے تعزیری احکام نہیں لئے جا سکتے یہ حدیث میں متروک ہے البتہ تاریخ میں قبول کیا جاتا ہے – دوم اس کی کتب معدوم ہیں اور سیف کے شیوخ بھی پارسا نہیں کہ اس قسم کی سخت سزا اس کی سند سے لی جائے

راہب کا قتل

ابن تیمیہ نے اپنی کتاب  الصارم المسلول على شاتم الرسول میں ایک قصہ نقل کیا ہے

ومن ذلك ما استدل به الإمام أحمد ورواه عنه هشيم: ثنا حصين عمن حدثه عن ابن عمر قال: مر به راهب فقيل له: هذا يسب النبي صلى الله عليه وسلم فقال ابن عمر: “لو سمعته لقتلته إنا لم نعطهم الذمة على أن يسبوا نبينا صلى الله عليه وسلم”.
ورواه أيضا من حديث الثوري عن حصين عن الشيخ أن ابن عمر أصلت على راهب سب النبي صلى الله عليه وسلم بالسيف وقال: “إنا لم نصالحهم على سب النبي صلى الله عليه وسلم”.

اور اسی سے استدلال  امام احمد نے  کیا ہے جو انہوں نے  هشيم: ثنا حصين عمن حدثه عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا کہ  عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک (عیسائی) راہب گزرا جس کے بارے میں لوگوں نے کہا کہ یہ حضوراکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتاہے – عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں اس سے گستاخانہ کلمات سن لیتاتو اس کی گردن اڑادیتا۔ ہم گستاخ رسول کی تعظیم نہیں کرتے – اور ایسا ہی روایت کیا گیا ہے  حديث الثوري عن حصين عن الشيخ أن ابن عمر

راقم کہتا ہے دونوں سندیں مخدوش ہیں مجہول لوگوں کی خبریں ہیں

علی کا حکم قتل کر دو

اہل سنت کہتے ہیں علی کا حکم تھا کہ شاتم رسول کو قتل کر دو – اس پر روایت پیش کرتے ہیں

مصنف عبد الرزاق میں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، 9708 – عَنِ ابْنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَلِيًّا قَالَ: فِيمَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُضْرَبُ عُنُقُهُ»
عبدالرزاق ، ابْنِ التَّيْمِيِّ سے روایت کرتے ہیں وہ باپ سے کہ علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جو شخص رسول الله کی طرف جھوٹ منسوب کرے اسے قتل کردیاجائے گا۔
(مصنف عبدالرزاق حدیث ٩٧٠٨ نمبر)

محدثین نے اس حکم پر عمل نہیں کیا اور متروک اور وضاع یعنی حدیث گھڑنے والوں کی روایات جمع کی ہیں ان میں کسی کو بھی قتل نہیں کیا گیا
سوال یہ ہے کہ جھوٹی احادیث بنانے والا تو معتوب ہے تو سنانے والا کیوں نہیں جیسا کہ آجکل عام ہو چکا ہے

نصرانی کا قتل

مصنف عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَخْبَرَنِي أَبِي: أَنَّ أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى خَرَجَ إِلَى عَدَنٍ فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ النَّصَارَى سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَشَارَ فِيهِ فَأَشَارَ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ الصَّنَعَانِيُّ أَنْ يَقْتُلَهُ “، فَقَتَلَهُ، وَرَوَى لَهُ فِي ذَلِكَ حَدِيثًا قَالَ: وَكَانَ قَدْ لَقِيَ عُمَرَ وَسَمِعَ مِنْهُ عِلْمًا كَثِيرًا قَالَ: فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَيُّوبُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ، أَوْ إِلَى الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، فَكَتَبَ يُحَسِّنُ ذَلِكَ

عبد الرزاق نے کہا ان کو ان کے باپ نے خبر دی کہ َيُّوبَ بْنَ يَحْيَى عدن کے لئے نکلے تو ان پر پیش ہوا کہ آدمی نصرانی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو گالی دیتا تھا پس انہوں نے اس پر اشارہ طلب کیا اور عبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ الصَّنَعَانِيُّ نے کہا اس کو قتل کر دو پس وہ قتل کیا گیا اور اس حدیث میں روایت کیا گیا ہے کہا ان کو عمر سے ملاقات ہے اور ان سے کثیر علم لیا کہا پس َ أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى نے عبد الملک بن مروان کو خط لکھا یا الولید کی طرف اور اس نے کہا اچھا کیا

راقم کہتا ہے أَيُّوبَ بْنَ يَحْيَى مجہول ہے

 علی نے گستاخِ رسولؐ کی زبان کاٹ دی

اہل تشیع کی کتب میں ایک دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے

رسول الله کے مدنی دور میں کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔ اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے رسول الله کے سامنے پھینک دیا- رسول اللہ نے حکم دیا: اس کی زبان کاٹ دو۔ بعض صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟  رسول الله نے فرمایا: نہیں، تم نہیں اور علی کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو – علی بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے اور قنبر کو حکم دیا: جا کر میرا اونٹ لے آئیں اونٹ آیا علی نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیے اور اس کو اونٹ پہ بیٹھایا، پھر فرمایا: تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لونگا- اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ، علی نے تو رسول اللہ کی نافرمانی کی – رسول الله کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: یا رسول اللہ آپ نے کہا تھا زبان کاٹ دو، اور علی نے اس گستاخ شاعر کو 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا رسول الله مسکرائے اور فرمایا علی میری بات سمجھ گئے – افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی – وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ: یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو ،علی نے تو کاٹی ہی نہیں – اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شاعر وضو کررہا ہے- پھر وہ مسجد میں جا کر جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے: یا رسول الله آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں اور یوں ہوا کہ علی نے گستاخ رسول کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔

مختصرا یہ واقعہ کتاب دعائم الإسلام – القاضي النعمان المغربي – ج 2 – ص 323 میں بیان ہوا ہے
وعنه ( ع ) أنه قال : جاء شاعر إلى النبي ( صلع ) فسأله
وأطرأه ( 1 ) ، فقال بعض أصحابه : قم معه فاقطع لسانه . فخرج ثم رجع
فقال : يا رسول الله ، أقطع لسانه ؟ قال : إنما أمرتك أن تقطع لسانه
بالعطاء .

کتاب  شرح أصول الكافي از  مولي محمد صالح المازندراني میں پر لکھا ہے

ويختلف الناس في فهم القرآن ومثاله ما روي أن شاعرا مدح النبي (صلى الله عليه وآله) فقال لبعض أصحابه: إقطع لسانه. والظاهر منه قطع اللسان بالسكين لكن القرينة العقلية تدل على عدم كونه مرادا ولم يفهمه الصحابي حتى دله غيره بأن المراد الإحسان إلى الشاعر فان الإحسان يقطع اللسان إذ لا يأمر النبي (صلى الله عليه وآله) بقطع اللسان 

اور لوگوں کا فہم قرآن پر اختلاف ہوا اور اس کی مثال ہے جو روایت کیا جاتا ہے کہ ایک شاعر نے (گستاخانہ) مدح النبی صلی الله علیہ و اله کی پس بعض اصحاب نے کہا اس کی زبان کاٹ دو اور ظاہر مفہوم ہے کہ چھری سے زبان کاٹ دو لیکن عقلی قرینہ دلالت کرتا ہے کہ یھاں اس سے یہ مراد نہیں ہے اور صحابی اس کو سمجھ نہ سکے یہاں تک کہ دوسروں نے دلیل دی کہ اس سے مراد شاعر پر احسان ہے کیونکہ احسان زبان کاٹ دیتا ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ و اله نے  قطع زبان کا حکم نہیں کیا تھا

الغرض شاتم رسول اگر غیر مسلم ہے تو اس  کے قتل پر کوئی صحیح حدیث نہیں اور جن لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے مثلا کعب بن اشرف وغیرہ ان کا قتل اس تناظر میں نہیں ہوا بلکہ مدینہ کی سلامتی لے لئے کیا گیا تھا

عقيدة الرازيين

امام ابو زرعہ الرازی اور امام ابو حاتم الرازی  نیشاپور  فارس کے  دو ممتاز محدثین تھے جن کے نزدیک ان کے دور کے  دیگر محدثین نے بھی علم حدیث اور علم جرح و تعدیل میں غلطیاں کی تھیں –  ان ائمہ نے باقاعدہ امام بخاری کی علم جرح و تعدیل میں غلطیوں پر کتاب لکھی اور ان کے نزدیک کتاب صحیح مسلم نہیں لکھی جانی چاہیے تھی کیونکہ اس میں غیر صحیح روایات آ گئی ہیں

 حنبلییوں  یا سلفیوں  نے ان  ائمہ کو   اپنا ہم عقیدہ قرار دینے کے لئے ان کے حوالے سے ایک اقتباس گھڑا ہے جس کا ذکر پانچویں صدی ہجری سے ہونا شروع ہوا

اس اقتباس کی تین اسناد  ملی ہیں

پہلی سند

کتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از عبد العزيز بن فيصل الراجحي میں دعوی کیا گیا ہے کہ الحافظ أبو العلاء الهمذاني  نے اپنی کتاب اپنی کتاب میں امام ابی حاتم کا عقیدہ پیش کیا ہے

قال الحافظ أبو العلاء الهمذاني (ت 569 هـ) قي ” فتواه في ذكر الاعتقاد وذم الاختلاف ” (ص 90 – 91) : (فصل في ذكر الاعتقاد الذي أجمع عليه علماء البلاد) .ثم روى بسنده الصحيح إلى الإمام الحافظ أبي محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم (ت 327 هـ) قال: (سألت أبي وأبا زرعة – رضي الله عنهما -: عن مذاهب أهل السنة، وما أدركا عليه العلماء في جميع الأمصار: حجازا، وعراقا، ومصر، وشاما، ويمنا؟ فكان من مذهبهم:

* أن الإيمان قول، وعمل، يزيد، وينقص.

* والقرآن كلام الله غير مخلوق بجميع جهاته) .

ثم ذكر بقية معتقدهما، إلى أن قالا (ص 93) :

* (وأن الجهمية كفار.

* والرافضة رفضوا الإسلام.

* والخوارج مراق.

* ومن زعم أن القرآن مخلوق: فهو كافر كفرا ينقل عن الملة.

* ومن شك في كفره ممن يفهم: فهو كافر.

* ومن شك في كلام الله، فوقف فيه شاكا يقول: لا أدري مخلون أو غير مخلوق: فهو جهمي.

* ومن وقف في القرآن جاهلا: علم، وبدع، ولم يكفر

ومن قال: لفظي بالقرآن مخلوق، أو القرآن بلفظي مخلوق: فهو جهمي) اهـ.

وممن كفر القائلين بخلق القرآن، جماعات – ذكر كثيرا منهم:

عبد العزيز بن فيصل الراجحي نے دعوی کیا کہ اس کی سند صحیح ہے-

أخبرنا الشيخ الجليل الزاهد الثقة أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار بن أحمد بن القاسم قال: أخبرنا الشيخ أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي، وأبو بكر محمد بن عبد الملك بن بشران، قالا: حدثنا أبو الحسن علي بن عبد العزيز بن مردك بن أحمد البرذعي قال: أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم – أسعده الله ورضي عنه – قال:

یہ سند نامکمل ہے –

دوسری سند

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة از  أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ الْمُقْرِئُ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ  مُحَمَّدِ بْنِ حَبَشٍ الْمُقْرِئُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ أَبِي وَأَبَا زُرْعَةَ عَنْ مَذَاهِبِ أَهْلِ السُّنَّةِ فِي أُصُولِ الدِّينِ , وَمَا أَدْرَكَا عَلَيْهِ الْعُلَمَاءَ فِي جَمِيعِ الْأَمْصَارِ , وَمَا يَعْتَقِدَانِ مِنْ ذَلِكَ , فَقَالَا

اس سند میں  الْحُسَيْنُ بْنُ  مُحَمَّدِ بْنِ حَبَشٍ الْمُقْرِئُ  مجہول الحال ہے

تیسری سند

كتاب أصل السنة واعتقاد الدين از أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي المتوفي: 445 هـ میں ہے

 سند ہے

قال أخبرنا أبو زيد … (1) قراءة عليه، قال: أخبرنا الشيخ أبو طالب عبد القادر بن محمد بن عبد القادر بن محمد بن يوسف، قراءة عليه وهو يسمع وأنا أسمع، فأقر به، قال: أخبرنا الشيخ أبو إسحاق إبراهيم بن عمر بن أحمد البرمكي، رحمه الله، قال: حدثنا أبو الحسن علي بن عبد العزيز بن مردك بن أحمد البرذعي، قال: أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم، أسعده الله ورضي عنه، قال

 سألت أبی   و أبا زرعۃ   رضی اللّٰہ عنہما عن مذاھب أھل[السنۃ] فی أصول الدین ، وما أدر کا علیہ العلماء فی جمیع الأمصار ، وما یعتقدان من ذلک ، فقالا : أدرکنا العلماء فی جمیع الأ مصار حجازًا وعراقًا ومصرًا وشامًا ویمنًا ، فکان من مذھبھم :

  أبو زید   مجہول ہے جس    کا نام تک معلوم نہیں اور نہ حفظ کا پتا ہے نہ ضبط کا

متن

البتہ متن ہے

امام ابو محمد عبدالرحمٰن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا : میں نے اپنے والد(ابو حاتم الرازی) اور ابوزرعہ (الرازی) رحمہما اللہ سے اصول دین میں مذاہبِ اہل سنت کے بارے میں پوچھا اور (یہ کہ )انھوں نے تمام شہروں کے علماء کو کس(عقیدے) پر پایا ہے اور آپ دونوں کا کیا عقیدہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا : ہم نے حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن کے تمام شہروں میں علماء کو اس (درج ذیل) مذہب پر پایا:

(۱)۔ إن الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص۔

بے شک ایمان قول و عمل(کا نام) ہے (اور یہ) زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔

(۲)۔ والقرآن كلام الله غير مخلوق بجميع جهاته۔

قرآن الکریم ہر لحاظ سے اللہ سبحانہ وتعالٰی کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔

(۳)۔ والقدر خيره وشره من الله [عز وجل]۔

اچھی اور بری تقدیر، اللہ سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے ہے۔

(۴)۔ وخير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر الصديق، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان، ثم علي بن ابی طالب رضي الله عنهم

وهم الخلفاء الراشدون المهديون۔

نبی اکرم ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر صدیق ہیں پھر عمر بن الخطاب، پھر عثمان بن عفان، پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم اور یہی خلفاء راشدین مہدیین ہیں۔

(۵)۔ وأن العشرة الذين سماهم رسول الله ﷺ وشهد لهم بالجنة على ما شهد بہ، وقوله الحق۔

عشرہ (مبشرہ) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے (ہمارے نزدیک) وہ جنتی ہیں اور آپ ﷺ کی بات حق ہے۔

(۶)۔ والترحم على جميع أصحاب محمد ﷺ ، والكف عما شجر بينهم۔

محمد ﷺ کے تمام صحابہ کے بارے میں رحمت(اور رضی اللہ عنھم) کی دعا مانگنی چاہئے اور ان کے درمیان جو اختلافات تھے ان کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے۔

(۷)۔ وأن الله عزوجل علٰى عرشه بائن من خلقه، كما وصف نفسه في كتابه على لسان رسوله [ﷺ] ، بلا كيف ، أحاط بكل شيء علما.

ليس كمثله شيء وهو السميع البصير۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی اپنے عرش پر بغیر(سوال) کیفیت(مستوی) ہے، اپنی مخلوق سے(بلحاظِ ذات) جدا ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب(قرآن الکریم) میں اور رسول اللہ ﷺ کی زبان(مبارک پر) بیان فرمایا ہے۔ اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

(۸)۔ والله تبارك وتعالى يُرى في الآخرة، ويراه أهل الجنة بأبصارهم ويسمعون كلامه كيف شاء وكما شاء۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی آخرت میں نظر ائے گا، جنتی لوگ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے(اسی کا) کام ہے جیسے چاہے اور جب چاہے۔

(۹)۔ والجنة[ حق]، والنار حق، وهما مخلوقتان [لا يفنيان أبدًا] : فالجنة ثواب لأوليائه، والنار عقاب لأهل معصيته، إلا من رحم۔

جنت حق ہے، جہنم حق ہے، اور یہ دونوں مخلوق ہیں کبھی فنانہ ہوں گی، اللہ سبحانہ وتعالٰی کے دوستوں کے لئے جنت کا بدلہ ہے، اور ان کے نافرمانوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے سوائے ان کے جن پر وہ(اللہ سبحانہ وتعالٰی) رحم رفرمائے۔

(۱۰)۔ والصراط حق۔

(پل) صراط حق ہے۔

(۱۱)۔ والميزان [الذي] له كفتان يوزن فيه أعمال العباد حسنها وسيئها حق ۔

میزان(ترازو) کے دو پلڑے ہیں جن میں بندوں کے اچھے اور بُرے اعمال تولے چائیں گے۔

(۱۲)۔ والحوض المكرم به نبينا ﷺحق والشفاعة حق۔

نبی اکرمﷺ کا حوض کوثر حق ہے، اور شفاعت حق ہے۔

(۱۳)۔ وأن ناسًا من أهل التوحيد يخرجون من النار بالشفاعة حق۔

اہل توحید(مسلمانوں) میں سے (بعض) لوگوں کا (آپﷺ کی) شفاعت کے زریعے سے (جہنم کی) آگ سے نکلنا حق ہے۔

(۱۴)۔وعذاب القبر حق ۔

عذابِ قبر حق ہے۔

(۱۵)۔ ومنكر ونكير [حق]۔

منکر و نکیر (قبر میں سوال و جواب والے فرشتے) حق ہیں۔

(۱۶)۔ والكرام الكاتبون حق۔

کرامًا کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتے) حق ہے۔

(۱۷)۔ والبعث بعد الموت حق۔

موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔

(۱۸)۔ وأهل الكبائر في مشيئة الله عز وجل ، لا نكَّفر أهل القبلة بذنوبهم ، ونكل سرائرهم إلى الله عز وجل۔

کبیرہ گناہ کرنے والوں کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کی مشیت(اور ارادے) پر ہے (چاہے تو عذاب دے، چاہے تو بخش دے) ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے گناہوں کی وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کرتے، ہم ان کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے سپرد کرتے ہیں۔

(۱۹)۔ ونقيم فرض الجهاد والحج مع أئمة المسلمين في كل دهر وزمان۔

ہر زمانے(اور علاقے) میں ہم مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور حج کی فرضیت پر عمل پیرا ہیں۔

(۲۰)۔ ولا نرى الخروج على الأئمة ولا القتال في الفتنة۔

ہم  حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے قائل نہیں ہیں اور نہ فتنے(کے دور) میں (ایک دوسرے سے) قتال کے قائل ہیں۔

(۲۱)۔ ونسمع ونطيع لمن ولاه [الله أمرنا] ولا ننزع يدًا من طاعة۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی نے جسے ہمارا حاکم بنایا ہے، ہم اس کی سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں اور اطاعت سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے۔

(۲۲)۔ ونتبع السنة والجماعة ونتجنب الشذوذ والخلاف والفرقة۔

ہم (اہل) سنت والجماعت (کے اجماع) کی پیروی کرتے ہیں اور شزوذ، اختلاف اور فرقہ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔

(۲۳)۔ وأن الجهاد ماضٍ منذ بعث الله [عز وجل] نبيه ﷺ إلى قيام الساعة مع أولي الأمر من أئمة المسلمين، لايبطله شيء۔

جب سے اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنی نبی اکرمﷺ کو (نبی و رسول بناکر) مبعوث فرمایا ہے، مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر(کافروں کے خلاف) جہاد جاری رہے گا۔ اسے کوئی چیز باطل نہیں کرے گی(یعنی جہاد ہمیشہ جاری رہے گا)

(۲۴)۔ والحج كذلك۔

اور یہی معاملہ حج کا(بھی) ہے۔

(۲۵)۔ ودفع الصدقات من السوائم إلى أولي الأمر من [أئمة] المسلمين۔

مسلمان حکمرانوں کے پاس جانوروں(اور دیگر اموال) کے صدقات(زکوۃ، عشر) جمع کرائے جائیں گے۔

(۲۶)۔ والناس مؤمنون في أحكامهم ومواريثهم، ولا يُدرى ما هم عند الله [عز وجل] فمن قال : إنہ مؤمن حقًا فھو مبتدع ومن قال : ھو مؤمن عنداللّٰہ فھو من الکاذبین ومن قال : إنی مؤمن باللّٰہ فھو مصیب۔

لوگ اپنے احکام اور وراثت میں مومن ہیں، اور اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں ان کا کیا مقام ہے معلوم نہیں، جو شخص اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ یقیناً مومن ہے تو وہ شخص بدعتی ہے، اور جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں(بھی) مومن ہے تو ایسا شخص جھوٹوں میں سے ہے۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ میں اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ساتھ مومن (یعنی اللہ سبحانہ وتعالٰی پر ایمان رکھتا) ہوں تو یہ شخص (صحیح) مصیب ہے۔

(۲۷)۔ والمرجئة مبتدعة ۔

مرجئہ بدعتی گمراہ ہیں۔

(۲۸)۔ والقدرية مبتدعة ضلال، ومن أنكر منهم أن الله [عز وجل] يعلم ما يكون قبل أن يكون فهو كافر۔

قدریہ (تقدیر کا انکار کرنے والے) بدعتی گمراہ ہیں اور ان میں سے جو شخص یہ دعوی کرے کہ اللہ سبحانہ وتعالٰی، کسی کام کے ہونے سے پہلے اس کا علم نہیں رکھتا تو ایسا شخص کافر ہے۔

(۲۹)۔ وأن الجهمية كفار۔

جہمیہ کفار ہیں۔

(۳۰)۔ و[أن] الرافضة رفضوا الإسلام۔

رافضیوں نے اسلام چھوڑ دیا ہے۔

(۳۱)۔ والخوارج مُرّاق۔

خوارج (دین سے) نکلے ہوئے ہیں۔

(۳۲)۔ ومن زعم أن القرآن مخلوق فهو كافر [بالله العظيم] – كفرًا ينقل من الملة ومن شك في كفره ممن يفهم فهو كافر۔

جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن الکریم مخلوق ہے تو وہ کافر ہے، ملت (اسلامیہ) سے خارج ہے۔ اور جو شخص سوجھ بوجھ (اور اقامت حجت) کے باوجود اس شخص کے کفر میں شک کرے تو وہ(بھی) کافر ہے۔

(۳۳)۔ ومن شك في كلام الله [عز وجل-] فوقف شاكًا فيه يقول : لا أدري مخلوق أو غير مخلوق فهو جهمي۔

جو شخص اللہ سبحانہ وتعالٰی کے کلام کے بارے میں شک کرتے ہوئے توقف کرے اور کہے کہ مجھے پتا نہیں کہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق تو ایسا شخص جہمی ہے۔

(۳۴)۔ ومن وقف في القرآن جاهلا عُلِّمَ وبُدِّع ولم يُكفَّر۔

جو جاہل شخص قرآن الکریم کے بارے میں توقف کرے تو اسے سمجھایا جائے گا، اُسے بدعتی سمجھا جائے گا اور اُس کی تکفیر نہیں کی جائی گی۔

(۳۵)۔ ومن قال لفظي بالقرآن مخلوق ، أو القرآن بلفظي مخلوق فهو جهمي۔

جو شخص لفظی بالقرآن(میرے الفاظ جن سے میں قرآن مجید پڑھتا ہوں) یا القرآن بلفظی مخلوق(قرآن الکریم میرے الفاظ کے

ساتھ مخلوق) کہے تو وہ جہمی(گمراہ) ہے۔

تبصرہ

یقینا یہ تمام متن گھڑا ہوا ہے اس کی متعدد وجوہات  میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رافضی کا جنازہ امام ابو زرعہ پڑھتے تھے

كتاب الضعفاء: لأبي زرعة الرازي یا   أجوبة أبي زرعة على أسئلة البرذعي

وقال لي أبو زرعة: “لما مات عبد المؤمن بن علي حضرت جنازته وكنت أؤدب (8) لعلي ابنه، فكنت (9) لا ألتفت إلا وورائي إما رافضي، أو مبتدع، وإما بلية (10) فما زلت حتى صليت عليه وانصرفت”.

البرذعي کہتے ہیں  أبو زرعة  نے کہا  … میں التفات نہیں کرتا ہوں لیکن پیچھے ان کے (مرنے کے کہ ) اگر رافضی ہو بدعتی ہو یا فتنہ پرداز ہو پس ان پر جنازہ پڑھتا ہوں اور چلا اتا ہوں

یعنی البرذعي نے خود بیان کہ   أبو زرعة کے نزدیک رافضی مسلمان ہے وہ اس کا جنازہ پڑھتے تھے –

اس میں الخلفاء الراشدون المهديون میں صرف چار کو شمار کیا گیا ہے حسن اور معاویہ کو اس سے خارج کر دیا گیا ہے جو بہت بعد کا اہل سنت کا موقف بنا تھا

اس میں لفظي بالقرآن مخلوق ، أو القرآن بلفظي مخلوق کو صریح جہمی لکھا گیا ہے جبکہ یہ امام کرابیسی کا امام بخاری کا اور امام الذھبی کا مذھب ہے

اس کے علاوہ عشرہ مبشرہ کی منکر روایت کو بھی اس متن میں صحیح بنا کر پیش کیا گیا ہے جبکہ یہ روایت صحیح سند سے معلوم نہیں-عشرہ مبشرہ والی روایت کی سند  منقطع ہے – علل دارقطنی میں ہے

وَقَدْ بَيَّنَ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ هِلَالٍ أَنَّهُ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنَ ابْنِ ظَالِمٍ، وَأَنَّ بَيْنَهُمَا رَجُلًا

اس سے واضح ہے کہ ھلال بن نے اس کو ابن ظالم سے نہیں سنا ان کے درمیان کوئی شخص ہے

کتاب العلل لابن أبي حاتم میں ہے

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ عبد العزيز الدَّراوَرْدي   ، عن عبد الرحمن بن حُمَيد بن عبد الرحمن بْنِ عَوْف، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ جدِّه (2) عبد الرحمن بن عَوْف، عن النبيِّ (ص) قَالَ: عَشَرَةٌ فِي الجَنَّةِ.  وَرَوَاهُ مُوسَى بْن يعقوب الزَّمْعي   ، عَنِ عمر بن سعيد بن شُرَيح  ، عن عبد الرحمن ابن حُمَيد، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بن زيد، عن النبيِّ (ص) .

قلتُ لأَبِي: أيُّهما أشبهُ؟

قَالَ: حديثُ مُوسَى أشبهُ؛ لأنَّ الحديثَ يُروى عَنْ سَعِيدٍ (2) مِنْ طُرُقٍ شَتَّى، ولا يُعرَف عن عبد الرحمن بن عَوْف، عن النبيِّ (ص) ، في هذا – شيء

میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ حدیث جو عبد العزيز الدَّراوَرْدي نے عن عبد الرحمن بن حُمَيد بن عبد الرحمن بْنِ عَوْف، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ جدِّه  عبد الرحمن بن عَوْف، عن النبيِّ کی سند سے روایت کی ہے کہ فرمایا دس جنت میں ہیں-  اس کو مُوسَى بْن يعقوب الزَّمْعي  نے    عمر بن سعيد بن شُرَيح  ، عن عبد الرحمن ابن حُمَيد، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بن زيد، عن النبيِّ (ص)  کی سند سے بھی روایت  کیا ہے – میں نے پوچھا کون سی اچھی ہے ؟

میرے باپ نے کہا موسی کی حدیث اچھی ہے کیونکہ یہ حدیث سعید سے مختلف طرق سے آئی ہے اور عبد الرحمن بن عَوْف کا نبی سے کچھ روایت کرنا میں نہیں جانتا 

ابی حاتم کے نزدیک اس کی سند عبد الرحمن بن حُمَيد بن عبد الرحمن بْنِ عَوْف، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ سَعِيدِ بن زيد، عن النبيِّ والی اچھی ہے – راقم کہتا ہے اس کی سند  میں عمر بن سعيد بن شُرَيح ہے جس کو  خود ابی حاتم  نے ضعیف کہا  ہے

   مضطرب الحديث، ليس بقوي

یعنی سند کو اچھا کہنا اس بنا پر ہے کہ سعید نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں ضعیف راوی ہے اور یہ روایت صحیح سند سے ابی حاتم کے پاس نہیں ہے

لہذا راقم کو شک ہے کہ جو عقیدہ امام حاتم سے منسوب کیا گیا وہ گھڑا ہوا ہے کیونکہ اس  میں ہے

(۵)۔ وأن العشرة الذين سماهم رسول الله ﷺ وشهد لهم بالجنة على ما شهد بہ، وقوله الحق۔

عشرہ (مبشرہ) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے (ہمارے نزدیک) وہ جنتی ہیں اور آپ ﷺ کی بات حق ہے۔

جب کہ اس کی کوئی صحیح سند امام ابو حاتم کے پاس نہیں ہے

عرض عمل نہیں ہوتا سلف کا قول

 امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) سے طلاق کے حوالے سے سوال کیا گیا جو  ان کے فتووں میں موجود ہے جس کو  فَتَّاوَى الإِمامِ النَّوَوَيِ  یا المَسَائِل المنْثورَةِ  کہا جاتا

مسألة: رجل حلف “بالله” أو بالطلاق، أن ابن صياد هو الدجال، وأن النبي – صلى الله عليه وسلم – يسمع الصلاة عليه، من غير مبلغ هل يحنث

الجواب: لا يحكم بالحنث للشك في ذلك والورع أن يلزم الحنث.

مسئلہ : ایک شخص نے الله کی قسم کھائی یا (بیوی کو) طلاق کی قسم لی کہ ابن صیاد ہی الدجال ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم  اپنے اپ پر درود سنتے ہیں ، (ان کو) پہنچتا نہیں ہے ، تو کیا قسم ٹوٹ گئی؟

جواب: اس قسم کا حکم ٹوٹنے کا نہیں ہے  کیونکہ اس میں شک ہے اور احتیاطا    لازم ہے کہ قسم ٹوٹ جائے گی

قریب ٣٠٠ سال بعد امام شمس محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902 هـ) سے امام النووی کے اس فتوے پر سوال ہوا جس کا ذکر الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية  میں ہے

 مسألة ما قولكم في قول صاحب العلم المنشور في فضل الأيام والشهور: أولعت فسقة القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، ثم أبطل ما احتجوا به وفي حديث: “ما من أحد يسلم علي … ” إلى آخره وهل تعم الصلاة أم لا؟ وهل هو في الحاضر عند الحرجة الشريفة أو يعم وإن بعدت المسافة أم لا؟ وقول بعض الخطباء في الثانية: فإنه في هذا اليوم يسمع بأذنيه صلاة من يصلي عليه، ومعنى “لتعرض”في حديث أنس “وتبلغني” في غيره، وهل هذا الكتاب مشهور، أو عليه العمل أم لا؟

وفي مسألة في فتاوى النووي، وهي: رجل حلف بالطلاق الثلاث، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة عليه وفي الجواب لا يحكم بالحنث للشك في ذلك والورع أن يلتزم الحنث بينوا لنا ذلك مبسوطًا؟

نعم، قد جاء أنه صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة والسلام ممن يصلي ويسلم عليه عند قبره الشريف خاصة. ومن كان بعيدًا عنه يبلغه، ومما ورد في ذلك ما رواه أبو الشيخ الحافظ في كتاب “الثواب” له بسند جيد كما قال شيخنا …. وإذا تقرر هذا، فما نقله السائل عن صاحب “العلم المنشور في فضل الأيام والشهور” أنه قال: أولعت فسقه القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، فيشبه أن يكون إنكارًا منه لمن يقول بسماعه له بلاد واسطة عن بعد، وإذا كان كذلك فهو إنكار صحيح، وأما مطلقًا بحيث يتناول القريب فلا، والعلم المنشور وإن كان مشهورًا ففي مصنفع وهو الإمام أبو الخطاب ابن دحية مع كونه موصوًا بالمعرفة، وسعة العلم مقال وفي وإذا تقرر هذا، فما نقله السائل عن صاحب “العلم المنشور في فضل الأيام والشهور” أنه قال: أولعت فسقه القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، فيشبه أن يكون إنكارًا منه لمن يقول بسماعه له بلاد واسطة عن بعد، وإذا كان كذلك فهو إنكار صحيح، وأما مطلقًا بحيث يتناول القريب فلا، والعلم المنشور وإن كان مشهورًا ففي مصنفع وهو الإمام أبو الخطاب ابن دحية مع كونه موصوًا بالمعرفة، وسعة العلم مقال وفي تواليفه أشياء تنقم عليه من تصحيح وتضعيف عفا الله عنا وعنه….. والفرع المنقول عن فتاوي النووي رحمه الله في عدم الحكم باحلنث فيمن حلف بالطلاق الثلاث أنه صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة عليك للشك في ذلك صحيح، ولكن الورع كما قال: أن يلتزم الحنث. وقد صرح النووي في مقدمه شرح مسلم أنه لو حلف في غير أحاديث الصحيحين بالطلاق أنها من قول النبي صلى الله عليه وسلم أنا لا نحنثه، لكن تستحب له الرجعة احتياطًا لاحتمال الحنث وهو احتمال ظاهر، فهذا يوافق ما في الفتاوي بخلاف ما لو حلف في أحاديث الصحيحين، لأن احتمال الحنث فيهما هو في غاية من الضعف، ولذلك لا يستحب له المراجعة، لضعف احتمال موجبها، والهل الموفق.

مسئلہ:  کیا کہنا ہے اپ  کا ایک صاحب کتاب  العلم المنشور في فضل الأيام والشهور  دنوں اور مہینوں کی افضلیت کے حوالے سے قول پر : قصہ گوؤں نے بکواس کی کہ اپ صلی الله علیہ وسلم  سننتے ہیں جب درود ان پر پڑھا جاتا ہے پھر اس  کی دلیل کو رد کیا اور  حدیث میں ہے کوئی نہیں جو مجھ پر  سلام  کہے  (اور الله میری روح کو نہ لوٹا دے ) آخر تک تو کیا اپ نبی علیہ السلام پر (درود) ہمیشہ (پیش) ہوتا ہے یا نہیں ؟ اور کیا وہ اپنے حجرہ شریفہ میں حاضر ہیں وہاں ہوتے ہیں اور اگر (درود پڑھنے والے میں اور  حجرہ شریفہ میں بھی) مسافت   دور ہو  ؟ اور بعض خطیبوں کا  دوسرے قول پر کہنا کہ یہی دن ہے کہ اپ صلی الله علیہ وسلم  درود اپنے  کانوں سے سنتے ہیں جو ان پر درود کہے اور حدیث میں عرض (درود ) کا کیا مطلب ہے اور حدیث انس میں تبلغني (پہنچتا  ہے ) کا کیا مفہوم ہے ؟ اور کیا یہ کتاب مشہور ہے اس پر عمل ہے یا نہیں؟

اسی طرح فتاوی نووی میں ہے ایک شخص نے الله کی قسم کھائی یا (بیوی کو) طلاق کی قسم لی کہ ابن صیاد ہی الدجال ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم  اپنے اپ پر درود سنتے ہیں ، (ان کو) پہنچتا نہیں ہے ، تو کیا قسم ٹوٹ گئی؟ نووی نے کہا  اس قسم کا حکم ٹوٹنے کا نہیں ہے  کیونکہ اس میں شک ہے اور احتیاطا    لازم ہے کہ قسم ٹوٹ جائے گی  تو اس حوالے سے ہمارے لئے تفصیل سے وضاحت کر دیں

 سخاوی نے جواب دیا: ہاں یہ آیا ہے کہ اپ صلى الله عليه وسلم بے شک درود و سلام سنتے ہیں جب کوئی نبی صلى الله عليه وسلم پر درود و سلام قبر شریف پر  خاص کہے  اور جو دور ہے اس کا پہنچتا ہے اور اس حوالے سے کتاب الثواب از ابو الشیخ میں حدیث اتی ہے سند جید کے ساتھ جیسا ہمارے شیخ  (ابن حجر ) کا کہنا ہے ….. تو اس سب کے اقرار کے بعد جو سائل نے کتاب العلم المنشور في فضل الأيام والشهور کے حوالے سے سوال کیا ہے قصہ گوؤں نے بکواس کی کہ  رسول الله صلى الله عليه وسلم اپنے اوپر  پڑھے جانے والا درود  سنتے ہیں  تو اس پر شبہ ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ انکار کر رہے ہیں جو یہ بلا واسطہ سننے کا کہے اور اگر ایسا ہے تو یہ انکار صحیح ہے اور اگر وہ مطلقا انکار کر رہے ہیں کہ قریب کو بھی ملا رہے ہیں تو ایسا نہیں ہے اور یہ کتاب العلم المنشور جو مشہور ہے یہ تصنیف ہے امام أبو الخطاب ابن دحية (أبو الخطاب عمر بن الحسن بن علي   الكلبي المتوفی ٦٣٣ ھ) کی جو موصوف ہیں معرفت و وسعت علم سے اور ان کی توالیف میں چیزیں ہیں جن میں صحیح و ضعیف ہے الله کی مغفرت کرے … اور جو امام نووی سے منقول ہے کہ تین طلاق کی قسم نہ ٹوٹے گی کہ اگر شک ہو کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں یا نہیں تو یہ صحیح ہے لیکن احتیاط یہ ہے جیسا کہ نووی نے کہا کہ یہ ٹوٹ جائے گی اور نووی نے مقدمہ صحیح مسلم میں صراحت کی ہے کہ کہ اگر صحیین سے باہر کی احادیث پر  قسم لی کہ یہ قول نبی نہیں ہیں تو قسم نہ ٹوٹے گی لیکن مستحب ہے کہ کہ احتیاط ہے کہ یہ ٹوٹ جائے گی جو ظاہر احتمال ہے تو یہ موافق ہے اس فتوی سے کہ اگر صحیحین کی احادیث ہوں تو قسم ٹوٹ جائے گی کیونکہ وہ ضعیف ہو سکتی ہیں

اس بحث سے معلوم ہوا کہ

أبو الخطاب عمر بن الحسن بن علي  الأندلسي السبتي  الكلبي المتوفی ٦٣٣ ھ   نے اپنی کتابوں میں نبی صلی الله علیہ وسلم پر عرض عمل یا درود پیش ہونے کو رد کیا تھا

امام النووی کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات میں شک موجود تھا

لیکن افسوس متاخرین نے ان اقوال کو رد کر دیا اور واپس انہی احادیث کو صحیح کہہ دیا جن میں عرض عمل کا شرکیہ عقیدہ موجود تھا

مہر نبوت کی خبر

کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسم اطہر پر پیٹھ پر کبوتری کے انڈے برابر ایک مسا  تھا اس پر بال بھی تھے – اس کو مہر نبوت کا نام دیا گیا – آج ہم اس سے  متعلق روایات کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ کن راویوں نے اس کو بیان کیا ہے

جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے منسوب روایات

طبقات ابن سعد میں ہے

ذِكْرُ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ الَّذِي كَانَ بَيْنَ كَتِفَيْ رَسُولِ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ وَالْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالا: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سماك أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ

وَصَفَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ: وَرَأَيْتُ خَاتَمَهُ عِنْدَ كَتِفَيْهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ تُشْبِهُ جِسْمَهُ.

سماک بن حرب نے کہا اس نے جابر رضی الله عنہ سے سنا کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا وصف بیان کیا کہا میں نے ان کے شانوں کے پاس مہر دیکھی جو کبوتری کے انڈے جیسی تھی

قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سِمَاكٍ.حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ قَالَ: رَأَيْتُ الْخَاتَمَ الَّذِي

فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – سَلْعَةً مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ.

جابر بن سمرہ نے کہا انہوں نے وہ مہر دیکھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسم پر تھی اس کی جنس کبوتری کے انڈے جیسی تھی

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ: نَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ

عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَأَنَّهُ بَيْضَةٌ.

سماک نے کہا جابر نے کہا میں نے دیکھی وہ مہر جو رسول الله  کی پیٹھ پر تھی جیسے کہ کوئی انڈا ہو

صحیح مسلم میں ہے

حديث:1583و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاکٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ وَکَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ وَکَانَ کَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ قَالَ لَا بَلْ کَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَکَانَ مُسْتَدِيرًا وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ کَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ يُشْبِهُ جَسَدَهُ

 جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک اور داڑھی مبارک کا اگلا حصہ سفید ہوگیا تھا اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیل لگاتے تو سفیدی ظاہر نہ ہوتی اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک کے بال پراگندہ ہوتے تو سفیدی ظاہر ہوجاتی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک کے بال بہت گھنے تھے ایک آدمی کہنے لگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس تلوار کی طرح ہے – جابر (رض) کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس سورج اور چاند کی طرح گولائی مائل تھا اور میں نے مہر نبوت آپ کے کندھے مبارک کے پاس دیکھی جس طرح کہ کبوتر کا انڈہ اور اس کا رنگ آپ کے جسم مبارک کے مشابہ تھا۔

حديث:1584حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاکٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ خَاتَمًا فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَأَنَّهُ بَيْضَةُ حَمَامٍ

جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پشت مبارک میں مہر نبوت دیکھی جیسا کہ کبوتر کا انڈا۔

حديث:1585و حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سِمَاکٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ

ان تمام کی اسناد میں سماک بن حرب کا تفرد ہے جس کا کہنا ہے کہ یہ کبوتر کے انڈے برابر مسا تھا

احمد کہتے ہیں سماک مضطرب الحدیث ہے

قال أبو طالب أحمد بن حميد: قلت لأحمد بن حنبل: سماك بن حرب مضطرب الحديث؟ قال: نعم. «الجرح والتعديل

قال يعقوب بن سفيان: قال أحمد بن حنبل: حديث سماك بن حرب مضطرب. «المعرفة والتاريخ

کتاب  ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از الذھبی کے مطابق

كان شعبة يضعفه وقال ابن المبارك ضعيف الحديث

امام شعبة اس کی تضعیف کرتے اور ابن مبارک اس کو ضعیف الحدیث قرار دیتے

سماک کا انتقال بنو امیہ کے آخری دور میں هشام بن عبد الملك کے دور میں ہوا

أَبِي رمثة رضی الله عنہ سے منسوب روایات

طبقات ابن سعد میں ہے

[أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ. أَخْبَرَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ. أَخْبَرَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ عَنْ أَبِي رمثة قال: قال لي رسول الله. ص: يَا أَبَا رِمْثَةَ ادْنُ مِنِّي امْسَحْ ظَهْرِي. فَدَنَوْتُ فَمَسَحَتْ ظَهْرَهُ ثُمَّ وَضَعَتْ أَصَابِعِي عَلَى الْخَاتَمِ فَغَمَزْتُهَا. قُلْنَا لَهُ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعْرٌ مُجْتَمِعٌ عِنْدَ كَتِفَيْهِ] .

عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے أَبِي رمثة سے روایت کیا کہ کہا مجھ سے رسول الله نے کہا اے أَبِي رمثة میری پیٹھ کو صاف کرو میں ایسا کیا تو میں نے پیٹھ مبارک کو چھوا پھر میری انگلی اس مہر پر لگی تو میں نے اس کو دبایا- ہم نے کہا یہ

مہر کیا تھی؟ کہا کچھ بال جمع تھے ان  کے شانوں کے پاس

سند میں  الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ،  امام احمد کے نزدیک یثبج الحدیث  ہے

 عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے بیان کیا کہ یہ بال تھے – یہی الفاظ ا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے ایک دوسرے صحابی سے بھی منسوب کیے ہیں

طبقات ابن سعد میں ہے

[أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ وَهِشَامٌ أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَسَعْدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالُوا: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ. حَدَّثَنِي إِيَادُ بْنُ لَقِيطٍ عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: فَنَظَرَ أَبِي إِلَى مِثْلِ السِّلْعَةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كَأَطَبِّ الرِّجَالِ أَلا أُعَالِجُهَا لَكَ؟ فَقَالَ: لا. طَبِيبُهَا الَّذِي خَلَقَهَا] .

إِيَادُ بْنُ لَقِيطٍ نے أَبِي رِمْثَةَ سے روایت کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  کے پاس گیا

تو میرے باپ نے ایک چیز شانوں پر دیکھی تو کہا یا رسول الله میں لوگوں کا طبیب جیسا ہوں کیا اس کا علاج نہ کر دوں ؟ فرمایا : نہیں اس کا علاج وہ کرے گا جس نے اس کو خلق کیا

اس سند میں عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ  المتوفی ١٦٩ ھ ہے جس کو البزار نے ضعیف کہا ہے

[أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِيُّ. حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِذَا فِي كَتِفِهِ مِثْلَ بَعْرَةِ الْبَعِيرِ أَوْ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ.

فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلا أُدَاوِيكَ مِنْهَا؟ فَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ نَتَطَبَّبُ. فَقَالَ: يُدَاوِيهَا الَّذِي وَضَعَهَا]

عَاصِمٍ نے أَبِي رِمْثَةَ سے روایت کیا کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم پاس پہنچا  تو ان کے  شانے پر اونٹ کی آنکھ یا کبوتری کے انڈے جیسی تھی تو میں کہا اے رسول الله یہ کیا ہے اس کی دوا اپ کیوں نہیں لیتے ؟ میں اپنے گھر والوں کا طبیب ہوں پس فرمایا اس کو دوا دے گا جس نے اس کو بنایا

سند میں عاصم بن بهْدلة اور حماد بن سلمہ دونوں مختلط ہوئے ہیں

قرہ سے منسوب روایات

طبقات ابن سعد میں ہے

أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ. أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُشَيْرٍ. حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي رَهْطٍ مِنْ مُزَيْنَةَ فبايعته وإن قميصه لمطلق ثم أدخلت يدي فِي جَيْبِ قَمِيصِهِ فَمَسِسْتُ الْخَاتَمَ.

مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ نے اپنے باپ سے روایت کیا کہا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچا ایک مزینہ کے گروہ کے ساتھ ان کی ہم نے بیعت کی .. پھر میں نے ان کی قمیص کی جیب میں ہاتھ داخل کر کے انکی مہر کو

چھوا

اس کی سند  میں قرہ بن آیاس ہیں

کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق

قرة بن إياس والد معاوية بن قرة أنكر شعبة أن يكون له صحبة والجمهور أثبتوا له الصحبة والرواية

قرة بن إياس …..   شعبہ نے انکار کیا ہے کہ یہ صحابی تھے اور جمہور کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ صحابی ہیں

امام شعبہ کی اس رائے کی وجہ احمد العلل میں بتاتے ہیں

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدَّثنا سليمان ابو داود، عن شعبة، عن معاوية -يعني ابن قرة – قال: كان أبي يحدثنا عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، فلا أدري سمع منه، أو حدث عنه

عبد الله بن احمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے شعبہ ہے انہوں نے معاویہ سے روایت کیا کہ

میرے باپ قرہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے پس میں نہیں جانتا کہ انہوں نے سنا تھا یا صرف ان

کی بات بیان کرتے تھے

جب معاویہ بن قرہ کو خود ہی شک ہو کہ باپ نے واقعی رسول الله سے سنا بھی تھا یا نہیں تو آج ہم اس کو کیسے قبول کر لیں؟

لہذا روایت ضعیف  ہے

عبد الله بن سرجس سے منسوب روایات

[أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ وَخَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ. أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسٍ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَهُوَ جَالِسٌ فِي أَصْحَابِهِ. فَدُرْتُ مِنْ خَلْفِهِ فَعَرَفَ الَّذِي أُرِيدُهُ. فَأَلْقَى الرِّدَاءَ عَنْ ظَهْرِهِ. فَنَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ عَلَى بَعْضِ الْكَتِفِ مِثْلَ الْجُمْعِ. قَالَ حَمَّادٌ: جُمْعُ الْكَفِّ. وَجَمَعَ حَمَّادٌ كَفَّهُ وَضَمَّ أَصَابِعَهُ. حَوْلَهُ خِيلانٌ كَأَنَّهَا الثَّآلِيلُ. ثُمَّ جِئْتُ فَاسْتَقْبَلْتُهُ فَقُلْتُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: وَلَكَ! فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَسْتَغْفِرُ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ وَلَكُمْ. وَتَلا الآيَةَ: «وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِناتِ» محمد: 19. هَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ.

عَاصِمٌ الأَحْوَلُ نے عبد الله بن سرجس سے روایت کیا کہا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچا وہ اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے میں ان کے پیچھے آیا تو وہ جان گئے میں کیا چاہتا ہوں پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے پیٹھ پر سے چادر ہٹا دی تو میں نے وہ مہر دیکھی جو شانوں میں سے بعض پر تھی جیسے جمع ہو – حماد نے کہا جیسے مٹھی جمع ہوتی ہے اور حماد نے انگلیاں بند کر کے مٹھی بنائی – اس کے گرد ایسا تھا جیسے مسے ہوں – پھر میں ان کے سامنے آیا اور میں نے کہا الله اپ کی مغفرت کرے یا رسول الله ! فرمایا اور تمہاری بھی مغفرت کرے – ان سے بعض قوم نے کہا  رسول الله نے تمہاری مغفرت مانگی ؟ کہا ہاں تمھاری بھی ! اور تلاوت کیا اور اپنے لیے استغفار کرو اور مومنوں اور مومنات کے لئے  سورہ محمد – ایسا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ نے کہا

عبد الله بن سرجس کی سند سے دیگر کتب میں بھی ہے مثلا

صحیح مسلم

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ – رضي الله عنه – قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَأَكَلْتُ مَعَهُ خُبْزًا وَلَحْمًا أَوْ قَالَ ثَرِيدًا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ أَسْتَغْفَرَ لَكَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ نَعَمْ وَلَكَ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ (وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ) قَالَ ثُمَّ دُرْتُ خَلْفَهُ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عِنْدَ نَاغِضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى (9) جُمْعًا (10) عَلَيْهِ خِيلَانٌ (11) كَأَمْثَالِ الثَّآلِيلِ. (م 7/ 86 – 87)

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَرْجِسَ، قَالَ: ” تَرَوْنَ هَذَا الشَّيْخَ، يَعْنِي نَفْسَهُ، كَلَّمْتُ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكَلْتُ مَعَهُ، وَرَأَيْتُ الْعَلَامَةَ الَّتِي بَيْنَ كَتِفَيْهِ، وَهِيَ فِي طَرَفِ نُغْضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى، كَأَنَّهُ جُمْعٌ، يَعْنِي الْكَفَّ الْمُجْتَمِعَ، وَقَالَ بِيَدِهِ فَقَبَضَهَا عَلَيْهِ، خِيلَانٌ كَهَيْئَةِ الثَّآلِيلِ ” (2)

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ: «أَنَّهُ رَأَى الْخَاتَمَ الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صُحْبَةٌ» (حم) 20774

– حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عِيسَى أَبُو بِشْرٍ الرَّاسِبِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ أَبُو زَيْدٍ الْقَيْسِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، أَنَّهُ قَالَ: «قَدْ رَأَى عَبْدُ اللَّهِ

بْنُ سَرْجِسَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ تَكُنْ لَهُ صُحْبَةٌ» (حم) 20779

لیکن امام احمد کا کہنا ہے عبد الله بن سرجس صحابی نہیں اس نے رسول الله کو صرف دیکھا سنا نہیں

السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ سے منسوب روایات

صحیح  بخاری میں ہے

6352 – حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنِ الجَعْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ، «فَمَسَحَ رَأْسِي، وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الحَجَلَةِ»

السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ نے کہا میں اپنی خالہ کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا پس  انہوں نے کہا یا رسول الله میرے بھانجے کو مرگی ہے پس اپ نے میرے سر کا مسح کیا اور برکت کی دعا کی پھر وضو کیا پس میں نے وضو کا پانی پیا پھر میں ان کی پیٹھ  پیچھے کھڑا ہوا تو دیکھا وہاں ایک مہر تھی زِرِّ الحَجَلَةِ کا ابھار  ہو

یہی روایت کتاب  الشريعة از أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے

وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي حَسَّانَ الْأَنْمَاطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ , فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ , ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ , ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ مِثْلِ زِرِّ الْحَجَلَةِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا “

ان دونوں کی سند میں الجعد بن عبد الرحمن بن أوس أبو زيد الكندي ہے اور امام علی المدینی کا کہنا ہے کہ امام مالک اس سے کچھ روایت نہ کرتے تھے

كذا ذكره أبو الوليد الباجي في كتاب «التعديل والتجريح» وقال: قال علي ابن المديني: لم يرو عنه مالك بن أنس شيئا.

اس حدیث کے الفاظ غیر واضح ہیں – صحیح بخاری میں ہے

، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحُجْلَةُ:‏‏‏‏ مِنْ حُجَلِ الْفَرَسِ الَّذِي بَيْنَ عَيْنَيْهِ

محمد بن عبیداللہ نے کہا کہ«حجلة» ، «حجل الفرس» سے مشتق ہے جو گھوڑے کی اس سفیدی کو کہتے ہیں جو اس کی دونوں

آنکھوں کے بیچ میں ہوتی ہے۔

اس سے کچھ واضح نہیں ہوا کہ  یہ مہر یا مسا کس قسم کا تھا

اس کے برعکس دلائل النبوه از بیہقی اور شرح السنہ از بغوی میں ہے

وَحَكَى أَبُو سُلَيْمَانَ ” عَنْ بَعْضِهِمْ: أَنَّ رِزَّ الْحَجَلَةِ: بَيْضُ الْحَجَلِ

ان الفاظ کا مطلب مادہ پرندے کا انڈا ہے

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے منسوب روایات

 مسند احمد میں ہے

– حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ، حَدَّثَنَا أَبُو لَيْلَى، قَالَ أَبِي: ” سَمَّاهُ سُرَيْجٌ: عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَيْسَرَةَ الْخُرَاسَانِيَّ “، عَنْ عَتَّابٍ الْبَكْرِيِّ قَالَ: كُنَّا نُجَالِسُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ بِالْمَدِينَةِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَانَ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، فَقَالَ: بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ، «هَكَذَا لَحْمٌ نَاشِزٌ بَيْنَ كَتِفَيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (حم) 11656

عَتَّابٍ الْبَكْرِيِّ  نے کہا ہم ابو سعید الخدری کے ساتھ  مدینہ میں مجلس کرتے پس ان سے پوچھتے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مہر نبوت پر جو ان کے شانوں کے درمیان تھی –پس انہوں نے کہا شہادت کی انگلی کی طرح – اس کا گوشت تھا کندھوں کے درمیان

عَتَّابٍ الْبَكْرِيِّ ، ابن حجر کے نزدیک مقبول ہے ایسا وہ مجہول  کہنے کی بجائے کہتے ہیں – البتہ روایت میں ہے کہ یہ انگلی کی طرح گوشت تھا

ابو زید عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ رضی الله عنہ سے منسوب روایات

مسند احمد میں ہے

– حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَزْرَةُ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْتَرِبْ مِنِّي»، فَاقْتَرَبْتُ مِنْهُ، فَقَالَ: «أَدْخِلْ يَدَكَ فَامْسَحْ ظَهْرِي»، قَالَ: فَأَدْخَلْتُ يَدِي فِي قَمِيصِهِ، فَمَسَحْتُ ظَهْرَهُ، فَوَقَعَ خَاتَمُ

النُّبُوَّةِ بَيْنَ إِصْبَعَيَّ، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ، فَقَالَ: «شَعَرَاتٌ بَيْنَ كَتِفَيْهِ» (حم) 20732

عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے کہا ابو زید نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے کہا میرے پاس آو – پس میں ان کے پاس گیا – اپ نے فرمایا اپنا ہاتھ داخل کرو اور میری کمر کو مسح کرو – پس میں نے قمیص میں ہاتھ داخل کیا اپ کی پیٹھ کا مسح کیا تو میرا ہاتھ پڑا مہر النبوت پر جو انگلی کے  بیچ میں آئی – پس میں نے اس مہر نبوت پر سوال کیا – پس اپ نے فرمایا یہ بال ہیں کندھوں کے درمیان

– حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَهِيكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا زَيْدٍ عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ قَالَ: «رَأَيْتُ الْخَاتَمَ

الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرَجُلٍ قَالَ بِإِصْبَعِهِ الثَّالِثَةِ هَكَذَا، فَمَسَحْتُهُ بِيَدِي» (حم) 22882

أَبَا نَهِيكٍ عثمان بن نهيك الأزدي الفراهيدي کہتے عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ نے کہا میں نے وہ مہر دیکھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے شانوں کے درمیان تھی  جیسا کہ ایک آدمی نے اپنی تیسری انگلی سے اس طرح کہا، میں نے اسے ہاتھ سے چھوا

سند میں عثمان بن نهيك الأزدي الفراهيدي  مجہول ہے

– حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا زَيْدٍ ادْنُ مِنِّي، وَامْسَحْ ظَهْرِي». وَكَشَفَ ظَهْرَهُ، فَمَسَحْتُ ظَهْرَهُ، وَجَعَلْتُ الْخَاتَمَ بَيْنَ أَصَابِعِي. قَالَ: فَغَمَزْتُهَا. قَالَ فَقِيلَ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعَرٌمُجْتَمِعٌ عَلَى كَتِفِه. (حم) 22889

– أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي عَاصِمٍ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ الْيَشْكُرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “ادْنُ مِنِّي فَامْسَحْ ظَهْرِي”. قَالَ: فَكَشَفْتُ عَنْ ظَهْرِهِ، وَجَعَلْتُ الْخَاتَمَ بَيْنَ أُصْبُعِي فَغَمَزْتُهَا،

قِيلَ: وَمَا الْخَاتَمُ؟ قَالَ: شَعْرٌ مُجْتَمِعٌ عَلَى كَتِفِهِ (رقم طبعة با وزير: 6267) , (حب) 6300 [قال الألباني]: صحيح – “المختصر” (31/ 17).

عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ نے ابو زید کا قول بیان کیا کہ مہر اصل میں بال جمع  تھے

سلمان الفارسی رضی الله عنہ کی روایت

مسند احمد میں سلمان کے ایمان لانے کے قصے کی روایت ہے

وَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ، فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، فَقُلْتُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ

میں ان کے پیچھے کھڑا ہوا اس پر سے چادر کو ہٹایا تو کہا میں گواہی دیتا ہوں اپ نبی ہیں

سند ضعیف  ہے – سند میں  أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ ہے  جس کی توثیق نہیں ملی

طبرانی میں ہے سلمان نے خبر دی

فَإِنَّهُ النَّبِيُّ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمَ النُّبُوَّةِ

یہ نبی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی اور اس کی نشانی یہ ہے کہ ان کے شانوں کے درمیان نبوت کی مہر ہے

سند میں السَّلْمُ بْنُ الصَّلْتِ  مجہول ہے

طبرانی الکبیر میں ہے سلامة العجلي نے کہا سلمان نے خبر دی

بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ

ان کے شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے

لسان المیزان از ابن حجر کے مطابق سلامہ مجہول ہے

طبرانی الکبیر اور مستدرک الحاکم  میں ہےعبد الله بن عبد القدوس نے أَبُو الطُّفَيْلِ کی سند سے روایت کیا کہ  سلمان نے خبر دی

فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، فَقُلْتُ: اللهُ أَكْبَرُ، هَذِهِ وَاحِدَةٌ،

جب نظر ختم نبوت پر گئی جو شانوں کے درمیان تھی میں بولا الله اکبر یہ وہی ہے

سند میں عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ  سخت ضعیف راوی ہے

معلوم ہوا کہ اس قسم کا کوئی اہل کتاب کا قول تھا

دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَالَ: كُنْتُ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ مِنْ أَهْلِ أَصْبَهَانَ …. وَإِنَّ فِيهِ عَلَامَاتٍ لَا تَخْفَى: بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ

سلمان نے خبر دی کہ وہ فارس اصفہان کے ہیں … انہوں نے رسول الله کی علامت جو چھپی نہیں تھیں دیکھیں کہ ان کے شانوں کے درمیان مہر  نبوت ہے

سند میں أحمد بن عبد الجبار بن محمد العطاردي الكوفي  ضعیف ہے جو مدلس بھی ہے

ابن عباس رضی الله عنہ  کی روایت

دلائل النبوه از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ مَحْبُوبٍ الدَّهَّانُ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ، عَنِ الْكَلْبِيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ حَبْرًا مِنْ أَحْبَارِ الْيَهُودِ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَكَانَ قَارِئًا لِلْتَوْرَاةِ فَوَافَقَهُ وَهُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ يُوسُفَ كَمَا أُنْزِلَتْ عَلَى مُوسَى فِي التَّوْرَاةِ فَقَالَ لَهُ الْحَبْرُ: يَا مُحَمَّدُ، مَنْ عَلَّمَكَهَا؟ قَالَ: «اللهُ عَلَّمَنِيهَا» ، قَالَ: فَتَعَجَّبَ الْحَبْرُ لِمَا سَمِعَ مِنْهُ فَرَجَعَ إِلَى الْيَهُودِ، فَقَالَ لَهُمْ: أَتَعْلَمُونَ وَاللهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَا أُنْزِلَ فِي التَّوْرَاةِ، قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى دَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ وَنَظَرُوا إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ فَجَعَلُوا يَسْتَمِعُونَ إِلَى قِرَاءَتِهِ لِسُورَةِ يُوسُفَ، فَتَعَجَّبُوا مِنْهُ وَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، مَنْ عَلَّمَكَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَّمَنِيهَا اللهُ» ، وَنَزَلَ: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} [يوسف: 7] . يَقُولُ لِمَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرِهِمْ وَأَرَادَ أَنْ يَعْلَمَ عِلْمَهُمْ، فَأَسْلَمَ الْقَوْمُ عِنْدَ ذَلِكَ

الْكَلْبِيّ نے ْ أَبِي صَالِحٍ سے روایت کیا کہ ابن عباس نے کہا علمائے یہود میں سے ایک عالم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس  ایک روز آیا اور وہ توریت کی قرات کرتا تھا  لہذا جانتا تھا اور رسول الله اس وقت سورہ یوسف قرات کر رہے تھے جیسی موسی پر توریت میں نازل ہوئی – پس حبر یہود نے کہا اے محمد کس نے یہ سکھائی؟ اپ نے فرمایا الله نے – یہودی  حیران ہوا جب اس نے سورت سنی پھر یہود کے پاس گیا اور ان سے کہا کیا تم کو معلوم بھی ہے الله کی قسم محمد تو قرآن میں قرات کرتا ہے ایسا ہی توریت میں ہے – پس ایک گروہ یہود اپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور ان کو صفت سے پہچان گیا اور ان کی مہر کو دیکھا جو شانوں کے درمیان تھی  پس وہ سورہ یوسف سننے لگے اور حیران ہوتے رہے اور بولے اے محمد کس نے سکھائی؟ اپ نے فرمایا الله نے سکھائی

اس کی سند الکلبی کی وجہ سے ضعیف ہے

الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ رضی الله عنہ  کی روایت

طبرانی الکبیر میں روایت ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُدَ الْمَكِّيُّ، ثنا النُّعْمَانُ بْنُ شِبْلٍ الْبَاهِلِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ قَالَا: ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُخَرِّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي أُمُّ بَكْرِ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ: مَرَّ بِي يَهُودِيٌّ وَأَنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ فَوَقَعَ ثَوْبُهُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فِي ظَهْرِهِ» ، فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: ارْفَعْ ثَوْبَهُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَذَهَبْتُ أَرْفَعُ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ظَهْرِهِ «فَنَفَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِيَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ»

 أُمُّ بَكْرِ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ ایک یہودی گزرا اور میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے تھا اور رسول الله وضو کر رہے تھے تو کمر پر سے کپڑا تھا اور وہاں نبوت کی مہر تھی- پس یہودی بولا اس کپڑے کو ہٹاو- پس میں رسول الله کے پاس گیا ان کی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹا دیا – پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک چلو پانی کا میرے منہ پر مارا

سند ضعیف ہے أُمُّ بَكْرِ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ راویہ  مجہول ہے

أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدٍ کی روایت

طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا مَسْعَدَةُ بْنُ سَعْدٍ الْعَطَّارُ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّقْرِ السُّكَّرِيُّ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، ثنا بَكَّارُ بْنُ جَارَسْتَ، ثنا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدٍ، قَالَتْ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ

اس کی سند ضعیف ہے – سند میں بَكَّارُ بْنُ جَارَسْتَ  جس کو لین الحدیث کہا جاتا ہے

مستدرک الحاکم میں بھی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ، ثنا خَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ، عَنْ عَمِّهِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَكْبَرِ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ وَمَعَهُ ابْنَتُهُ أُمُّ خَالِدٍ، فَجَاءَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا قَمِيصٌ أَصْفَرُ وَقَدْ أَعْجَبَ الْجَارِيَةَ قَمِيصُهَا، وَقَدْ كَانَتْ فَهِمَتْ بَعْضَ كَلَامِ الْحَبَشَةِ فَرَاطَنَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَلَامِ الْحَبَشَةِ سَنَهْ سَنَهْ وَهِيَ بِالْحَبَشَةِ حَسَنٌ حَسَنٌ، ثُمَّ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْلِي وأَخْلِقِي، أَبْلِي وأَخْلِقِي» قَالَ: فَأَبْلَتْ وَاللَّهِ، ثُمَّ أَخْلَقَتْ، ثُمَّ مَالَتْ إِلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَتْ يَدَهَا عَلَى مَوْضِعِ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَأَخَذَهَا أَبُوهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهَا» صَحِيحُ الْإِسْنَادِ قَدِ اتَّفَقَ الشَّيْخَانِ عَلَى إِخْرَاجِ أَحَادِيثَ لِإِسْحَاقَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ آبَائِهِ وَعُمُوَمَتِهِ، وَهَذِهِ أُمُّ خَالِدٍ بِنْتُ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ الَّتِي حَمَلَهَا أَبُوهَا صَغِيرَةً إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَحِبَتْ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَوَتْ عَنْهُ

اس کی سند کو الذھبی نے تلخیص میں  منقطع قرار دیا ہے

علی رضی الله عنہ کی روایت

ترمذی کی ایک مشہور حدیث شمائل پر ہے

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنِ الحُسَيْنِ بْنِ أَبِي حَلِيمَةَ مِنْ قَصْرِ الأَحْنَفِ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ المَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ، إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ وَلَا بِالقَصِيرِ المُتَرَدِّدِ وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ القَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ بِالجَعْدِ القَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ كَانَ جَعْدًا رَجِلًا وَلَمْ يَكُنْ بِالمُطَهَّمِ، وَلَا بِالمُكَلْثَمِ، وَكَانَ فِي الوَجْهِ تَدْوِيرٌ، أَبْيَضُ مُشْرَبٌ، أَدْعَجُ العَيْنَيْنِ، أَهْدَبُ الأَشْفَارِ، جَلِيلُ المُشَاشِ، وَالكَتَدِ، أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ شَثْنُ الكَفَّيْنِ وَالقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ، وَإِذَا التَفَتَ التَفَتَ مَعًا، بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، أَجْوَدُ النَّاسِ صَدْرًا، وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً، وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيكَةً، وَأَكْرَمُهُمْ عِشْرَةً، مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ، يَقُولُ نَاعِتُهُ: لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ “: «هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ». قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: سَمِعْتُ الأَصْمَعِيَّ، يَقُولُ فِي تَفْسِيرِ صِفَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: المُمَّغِطُ الذَّاهِبُ طُولًا. وَسَمِعْتُ أَعْرَابِيًّا يَقُولُ فِي كَلَامِهِ: تَمَغَّطَ فِي نُشَّابَتِهِ أَيْ مَدَّهَا مَدًّا شَدِيدًا. وَأَمَّا المُتَرَدِّدُ: فَالدَّاخِلُ بَعْضُهُ فِي بَعْضٍ قِصَرًا. وَأَمَّا القَطَطُ. فَالشَّدِيدُ الجُعُودَةِ، وَالرَّجِلُ الَّذِي فِي شَعْرِهِ حُجُونَةٌ أَيْ: يَنْحَنِي قَلِيلًا. [ص:600] وَأَمَّا المُطَهَّمُ، فَالبَادِنُ الكَثِيرُ اللَّحْمِ. وَأَمَّا المُكَلْثَمُ: فَالمُدَوَّرُ الوَجْهِ. وَأَمَّا المُشْرَبُ: فَهُوَ الَّذِي فِي بَيَاضِهِ حُمْرَةٌ. وَالأَدْعَجُ: الشَّدِيدُ سَوَادِ العَيْنِ، وَالأَهْدَبُ، الطَّوِيلُ الأَشْفَارِ، وَالكَتَدُ، مُجْتَمَعُ الكَتِفَيْنِ، وَهُوَ الكَاهِلُ. وَالمَسْرُبَةُ، هُوَ الشَّعْرُ الدَّقِيقُ الَّذِي هُوَ كَأَنَّهُ قَضِيبٌ مِنَ الصَّدْرِ إِلَى السُّرَّةِ. وَالشَّثْنُ: الغَلِيظُ الأَصَابِعِ مِنَ الكَفَّيْنِ وَالقَدَمَيْنِ. وَالتَّقَلُّعُ: أَنْ يَمْشِيَ بِقُوَّةٍ. وَالصَّبَبُ: الحُدُورُ، نَقُولُ: انْحَدَرْنَا فِي صَبُوبٍ وَصَبَبٍ. وَقَوْلُهُ:جَلِيلُ المُشَاشِ، يُرِيدُ رُءُوسَ المَنَاكِبِ. وَالعِشْرَةُ: الصُّحْبَةُ، وَالعَشِيرُ: الصَّاحِبُ. وَالبَدِيهَةُ: المُفَاجَأَةُ، يُقَالُ بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ: أَيْ فَجَأْتُهُ

علی رضی اللہ عنہ نے (نبی  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے) فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آخری نبی ہیں۔

اگرچہ اس کو صحیح کہہ دیا جاتا ہے جبکہ اس کی سند منقطع ہے – جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

إبراهيم بن محمد بن الحنيفة عن جده علي رضي الله عنه قال أبو زرعة مرسل

ابراہیم بن محمد کی اپنے دادا علی سے روایت مرسل ہے

ابراہیم المَهدِيُ مِنّا أَهلَ البَيتِ والی روایت کے بھی راوی ہیں – اس تناظر میں قابل غور ہے کہ یہ مہر نبوت کا ذکر کرتے ہیں

عائشہ رضی الله عنہا کی روایت

دلائل النبوہ از بیہقی میں ہے

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا قَالَتْ: ” كَانَ مِنْ صِفَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،…. کَانَ وَاسِعَ الظَّهْرِ، بَيْنَ کَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

6: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /362، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 /304.

  عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ   نبی   صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پشتِ اقدس کشادہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی۔

اس کی سند صَبِيحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْفَرَغَانِيُّ  کی وجہ سے ضعیف ہے جو صَاحِبُ مَنَاكِيرَ مشہور ہے

أَبِي مُوسَى رضی الله عنہ کی روایت

دلائل النبوه از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ طَلْحَةُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الصَّقْرِ الْبَغْدَادِيُّ، بِهَا قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى الْآدَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّامِ،… لَمْ يَمُرَّ بِشَجَرَةٍ وَلَا حَجَرٍ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ، خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فِي أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلُ التُّفَّاحَةِ

نصرانی رَّاهِبُ نے کہا  رسول الله  کسی درخت یا یا پتھر کے پاس سے نہ گزرتے لیکن وہ سب ان کو سجدہ کرتے اور یہ سجدہ نبی کو ہی کرتے ہیں اور میں ان کو پہچانتا ہوں مہر نبوت سے جو شانوں  پر سیب جیسی ہے

سند میں عبد الرحمن بن غزوان  ، أبو نوح، قراد ہے جو منکرات بیان کرتا ہے اس روایت کا متن بھی منکر ہے کیونکہ سورہ حج میں ہے درخت و شجر صرف الله کو سجدہ کرتے ہیں.

یہاں بیان ہوا کہ بچپن میں ہی مہر اس قدر بڑی تھی کہ گویا سیب ہو

ابن اسحاق کی روایت

دلائل النبوه از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ : وَكَانَ أَبُو طَالِبٍ هُوَ الَّذِي يَلِي أَمْرَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ جَدِّهِ، كَانَ إِلَيْهِ وَمَعَهُ , ثُمَّ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ خَرَجَ فِي رَكْبٍ إِلَى الشَّامِ تَاجِرًا…. فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُهُ فَيُوَافِقُ ذَلِكَ مَا عِنْدَ بَحِيرَاءَ مِنْ صِفَتِهِ , ثُمَّ نَظَرَ إِلَى ظَهْرِهِ فَرَأَى خَاتَمَ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عَلَى مَوْضِعِهِ مِنْ صِفَتِهِ الَّتِي عِنْدَهُ

بَحِيرَاءَ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کمر کو دیکھا ان کے شانوں کے درمیان اس مقام پر جس کی صفت اس کے پاس (پہلے سے) تھی

یہ سند منقطع ہے – ابن اسحٰق سے لے کر ابو طالب تک کوئی راوی نہیں

مہر نبوت پر  کیا لکھا تھا؟

بعض روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس مہر پر محمد رسول الله لکھا تھا – اس کو محدثین عصر نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن قابل غور ہے کہ اس ابھار کو  مہر نبوت کیوں کہا گیا؟ کس طرح یہ نبوت کا نشان تھا؟

 صحیح ابن حبان میں ہے

أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ الْفَتْحِ بْنِ سَالِمٍ الْمُرَبَّعِيُّ (2) الْعَابِدُ، بِسَمَرْقَنْدَ، حَدَّثَنَا رَجَاءُ بْنُ مُرَجًّى الْحَافِظُ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَاضِي سَمَرْقَنْدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «كَانَ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ الْبُنْدُقَةِ مِنْ لَحْمٍ عَلَيْهِ، مَكْتُوبٌ مُحَمَّدُ رَسُولِ اللَّهِ

موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان از أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي (المتوفى: 807هـ) میں ہے

 أنبأنا نصر بن الفتح بن سالم (1) المربعي (2) العابد بسمرقند، حدثنا رجاء بن مُرَجَّى الحافظ، حدثنا إسحاق بن إبراهيم قاضي سمرقند، حدثنا ابن جريج، عن عطاء. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ خَاتَمُ النُبُوَّةِ في ظَهْرِ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- مِثْلَ

الْبُنْدُقَةِ  مِنْ لَحْمٍ عَلَيْهِ مُكْتُوبٌ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله” (1).

قُلْتُ: اخْتَلَطَ عَلَى بَعْضِ الرُّوَاةِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ بِالخَاتَمِ الَّذِي كَانَ يَخْتِمُ بِهِ الْكُتُبَ.

ابن عمر سے مروی ہے کہ اس مہر پر محمد رسول الله لکھ تھا

ہیثمی نے کہا میں کہتا ہوں اس میں بعض راویوں نے ملا دیا ہے اس مہر (جسم والی)  کو اس مہر سے جس کو تحریر میں استعمال کیا

قابل غور ہے امام المہدی یعنی محمد بن عبد اللہ بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب المعروف نفس الزکیہ کو بھی

صاحب الخال کہا جاتا تھا یعنی مسے  والا یا تل والا

 مقاتل الطالبيين  از أبو الفرج اصبہانی یعنی  علي بن الحسين بن محمد بن احمد بن الهيثم بن عبد الرحمن ابن مروان بن عبد الله بن مروان  میں روایت ہے

حدثني محمد بن إسماعيل بن جعفر الجعفري عن امه رقية بنت موسى بن عبدالله بن الحسن بن الحسن عن سعيد ابن عقبة الجهني – وكان عبدالله بن الحسن اخذه منها فكان في حجره – قال.ولد محمد وبين كتفيه خال اسود كهيئة البيضة عظيما فكان يقال له.المهدي

سعيد ابن عقبة الجهني نے بیان کیا کہ عبد الله بن الحسن ان سے (بات) لیتے – وہ اپنے  حجرے میں  تھے کہا محمد بن عبد الله المہدی پیدا ہوا تو اس کے شانوں کے درمیان ایک کالا  مسا تھا جیسے بڑا انڈا  ہو اس کو   المہدی کہا جاتا

مہر نبوت کی خبر معروف اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے بیان نہیں کی نہ ہی امہات المومنین رضی الله عنہم نے اس کی خبر دی – مزید براں جن لوگوں کا اس کی روایات میں تفرد ہے وہ بعد کے ہیں اور ان کے بیانات میں تضاد بہت ہے

سنن نسائی کی روایت ہے

الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ مُزَاحِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «خَرَجَ مِنَ الْجِعِرَّانَةِ لَيْلًا فَنَظَرْتُ إِلَى ظَهْرِهِ كَأَنَّهُ سَبِيكَةُ فِضَّةٍ فَاعْتَمَرَ وَأَصْبَحَ بِهَا كَبَائِتٍ

 مخرش کعبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ   نبی   صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات کو مقام جعرانہ سے نکلے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیٹھ مبارک کی طرف دیکھا تو اُسے خالص سفید چاندی کی طرح چمکتا ہوا پایا، پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عمرہ ادا فرمایا۔

یعنی پیٹھ مبارک پر  کوئی انڈے جیسی یا اونٹ کی آنکھ جیسی یا بالوں کا گچھا یا سیب جیسی غدود نما کوئی  چیز نہیں تھی

گمان غالب ہے کہ مہدی کی تحریک جو ١٢٠ ہجری کے بعد برپا ہوئی اس میں محمد المہدی کی تائید میں مہر نبوت کو بطور ایک نشانی بیان کیا گیا تاکہ عوام الناس کو یہ بتایا جائے کہ اس  المہدی کے جسم پر بھی وہی نشان ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسم اطہر پر تھا

و الله اعلم

تاریخ ٣

جواب

لیکن ابن سبا کے وجود پر سیف کا تفرد نہیں ہے – دیگر اسناد سے معلوم ہے

ابن سبا سے ظاہر ہے بہت لوگوں کی ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ یہ گردش میں رہا اور پھر معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوا
لیکن اس کا فلسفہ اہل تشیع نے قبول کر لیا جو خالص یہودی تصوف ہے
اس کی تفصیل کتاب میں ہے
Ali in Biblical Clouds

ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا
أخرج من طريق سيف بن عمر التميمي في الفتوح له قصة طويلة لا يصح إسنادها.
الفتوح میں سیف بن عمر کی سند سے اس پر ایک طویل قصہ ہے اس کی اسناد صحیح نہیں
پھر ابن حجر نے وہ اسناد دیں جن میں سیف بن عمر نہیں ہے اور ابن سبا کے وجود کی خبر ہے جو مندرجہ ذیل ہیں
ومن طريق ابن أبي خيثمة: حدثنا محمد بن عباد , حَدَّثَنا سُفيان، عَن عمار الدهني سمعت أبا الطفيل يقول: رأيت المُسَيَّب بن نجبة أتي به بلببه وعلي على المنبر فقال: ما شأنه؟ فقال: يكذب على الله وعلى رسوله.
ابو طفیل نے کہا میں نے المسيب بن نجبة بن ربيعة بن رياح بن عوف بن هلال بن شمخ بن فرارة الفزارى کو دیکھا جو علی کے پاس آیا اور علی منبر پر تھے کہا اس (ابن سبا) کا کیا حال ہے ؟ یہ تو الله اور اس کے رسول پر جھوٹ کہتا ہے

حدثنا عَمْرو بن مروزق حدثنا شُعبة، عَن سلمة بن كهيل عن زيد بن وهب قال: قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه: ما لي ولهذا الخبيث الأسود، يعني عبد الله بن سبأ – كان يقع في أبي بكر وعمر.
زيد بن وهب نے کہا علی نے کہا میرے اور اس کالے خبیث کے بیچ کیا ہے یعنی عبد الله بن سبا

ومن طريق محمد بن عثمان بن أبي شيبة: حَدَّثَنا محمد بن العلاء , حَدَّثَنا أبو بكر بن عَيَّاش، عَن مجالد عن الشعبي قال: أول من كذب عبد الله بن سبأ.
الشعبي (المتوفی ١٠٠ ھ) نے کہا سب سے پہلا جھوٹا عبد الله بن سبا ہے

وقال أبو يَعلَى الموصلي في مسنده: حَدَّثَنا أبو كريب , حَدَّثَنا محمد بن الحسن الأسدي , حَدَّثَنا هارون بن صالح عن الحارث بن عبد الرحمن، عَن أبي الجلاس سمعت عَلِيًّا يقول لعبد الله بن سبأ: والله ما أفضى إلي بشيء كتمه أحدا من الناس ولقد سمعته يقول: إن بين يدي الساعة ثلاثين كذابا وإنك لأحدهم.
أبي الجلاس نے کہا علی کو سنا انہوں نے عبد الله بن سبا کا ذکر کیا کہا الله کی قسم مجھے کون سی چیز اس طرف لے گئی کہ میں لوگوں سے کچھ چھپاؤں؟ اور میں نے سنا کہ قیامت سے قبل تیس جھوٹے ہیں جن میں سے وہ ایک ہے

وقال أبو إسحاق الفزاري: عن شُعبة، عَن سلمة بن كهيل، عَن أبي الزعراء [ص:485] أو عن زيد بن وهب أن سويد بن غفلة دخل على علي في إمارته فقال: إني مررت بنفر يذكرون أبا بكر وعمر يرون أنك تضمر لهما مثل ذلك منهم عبد الله بن سبأ – وكان عبد الله أول من أظهر ذلك – فقال علي: ما لي ولهذا الخبيث الأسود. ثم قال: معاذ الله أن أضمر لهما إلا الحسن الجميل.
سويد بن غفلة ، علی کے پاس آئے ان کی خلافت میں کہا میں ایک گروہ پر گذرا جو ابو بکر اور عمر کا ذکر کرتے ہیں کہتے ہیں اپ ان دونوں سے (حق) چھپاتے تھے ہیں ایسا ہی کہا جیسا ابن سبا کہتا تھا – علی نے کہا مجھے اس کالے خبیث سے کیا سروکار – اللہ کی پناہ کی میں دونوں سے کچھ چھپاؤں سوائے وہ جو جسن وجمال (والی ازواج) ہوں

ان روایات کو ابن حجر نے صحیح اسناد سے نقل کیا ہے جن میں سیف بن عمر نہیں ہے اور عبد الله بن سبا کا ترجمہ قائم کیا ہے- اس طرح اس کے وجود کا اثبات کیا ہے

قال ابن حبان: كان سبئيا من أصحاب عبد الله بن سبأ، كان يقول: إن عليا يرجع إلى الدنيا
ابن حبان نے کہا سبئيا وہ ہیں جو اصحاب ابن سبا ہیں اور کہا کرتے کہ علی دنیا میں پلٹیں گے

تفسیر عبد الرزاق میں ہے
قَالَ مَعْمَرٌ: وَكَانَ قَتَادَةُ إِذَا قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: {فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ} [آل عمران: 7] قَالَ: إِنْ لَمْ تَكُنِ الْحَرُورِيَّةُ أَوِ السَّبَئِيَّةُ , فَلَا أَدْرِي مَنْ هُمْ
معمر نے کہا قتادہ (المتوفي ١١٨ ھ) تلاوت کرتے وہ {فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ} [آل عمران: 7] (جن کے دل ٹیڑھے ہیں ال عمران) – کہتے اگر یہ خوارج اور سبائی نہیں تو معلوم نہیں اور کون ہیں

تفسیر طبری میں بھی قتادہ کا قول ہے
حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبد الرزاق قال، أخبرنا معمر، عن قتادة في قوله:”فأما الذين في قُلوبهم زَيغٌ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاءَ الفتنة”، وكان قتادة إذا قرأ هذه الآية:”فأما الذين في قلوبهم زيغ” قال: إن لم يكونوا الحرُوريّة والسبائية

تفسیر ابن المنذر میں ہے
وتتأول السبئية إذ يقولون فِيهِ بغير الحق إِنَّمَا يقولون قول الله عَزَّ وَجَلَّ: وَأَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لا يَبْعَثُ اللهُ مَنْ يَمُوتُ، فيجعلونها فيمن يخاصمهم من أمة محمد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بعث الموتى قبل يَوْم الْقِيَامَةِ
السبئية نے بلا حق اس آیت کی تاویل کی کہ الله کا قول ہے وَأَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لا يَبْعَثُ اللهُ مَنْ يَمُوتُ، پس اس سے انہوں نے امت محمد کو لڑوایا کہ قیامت سے قبل مردوں کو زندہ کیا جائے گا

طبری تفسیر میں کہتے ہیں
وَاللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ لَبِدْعَةٌ، وَإِنَّ النَّصْرَانِيَّةَ لَبِدْعةٌ، وَإِنَّ الْحَرُورِيَّةَ لَبِدْعَةٌ، وَإِنَّ السَّبَئِيَّةَ لَبِدْعَةٌ،
یہود (دین حق میں) بدعت ہیں نصرانی بدعت ہیں خوارج بدعت ہیں اور السَّبَئِيَّةَ بدعت ہیں

امام بخاری تاريخ الكبير 5 / 187 کہتے ہیں
قَالَ البُخَارِيُّ ، قَالَ عَلِيٌّ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا الزُهْرِيُّ، قَالَ: كَانَ الحَسَنُ أَوْثَقَهُمَا، وَكَانَ عَبْدُ اللهِ يَتْبَعِ السَّبَائِيَّةَ
امام زہری نے کہا … عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ الهَاشِمِيُّ السَّبَائِيَّةَ کے پیچھے چلتا تھا

الکامل از ابن عدی میں ہے
حَدَّثَنَا السَّاجِيُّ، حَدَّثَنا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا أَبُو معاوية، قَال: قَال الأَعْمَش اتق هذه السبئية فإني أدركت الناس وإنما يسمونهم الكذابين
أَبُو معاوية نے کہا الأَعْمَش نے کہا السبئية سے بچو کیونکہ میں لوگوں سے ملا وہ ان کو کذاب نام دیتے ہیں

اسی کتاب میں ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے
حَدَّثَنا السَّاجِيُّ، حَدَّثَنا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا عثمان بن الهيثم، حَدَّثَنا عَبد الْوَهَّابِ بْنُ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَال: إذا كثرت القدرية بالبصرة استكفت أهلها، وَإذا كثرت السبئية بالكوفة استكفت أهلها.
کوفہ میں السبئية کی کثرت ہوئی یہاں تک کہ انہوں نے وہاں کے رہنے والوں کو گھیر لیا

تاریخ ابن ابی خیثمہ میں ہے
حَدَّثَنَا هَارُون بْنُ مَعْرُوف، قَالَ: حَدَّثَنا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَسَنُ وعَبْدُ اللَّهِ ابْنَا مُحَمَّدٍ وكانَ حَسَنٌ أَرْضَاهُمَا وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَتَّبِعُ حَدِيثَ السَّبَئِيَّةِ.
امام زہری نے کہا … عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ الهَاشِمِيُّ السَّبَائِيَّةَ کے پیچھے چلتا تھا

تہذیب الکمال از المزی میں عبد الله بن محمد بن عقیل کے ترجمہ میں اسی قول میں ہے
قال: وكَانَ عَبد اللَّهِ يتبع – وفي رواية: يجمع – أحاديث السبئية وهم صنف من الروافض.
یہ (عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ ) السبئية کی احادیث جمع کرتا جو روافض میں سے ایک صنف ہے

امام احمد نے ابن سبا کا ذکر کیا
وقال صالح بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدثنا معاذ، قال: حدثنا ابن عون، قال: ذكرت لإبراهيم رجلين من السبئية، يعني المغيرة بن سعيد، وأبا عبد الرحيم، قد عرفهما، قال: إحذروهما، فإنهما كذأبان. «سؤالاته» (325)
ابن عون، نے کہا میں نے ابراہیم سے السبئية میں سے دو کا ذکر کیا یعنی المغيرة بن سعيد، وأبا عبد الرحيم … پس کہا یہ کذاب ہیں

یہ حوالے ثابت کرتے ہیں سیف بن عمر سے پہلے سے لوگ ابن سبا کا ذکر کر رہے تھے یہاں کہ ائمہ محدثین نے بھی ابن سبا اور اس کے فرقے کے وجود کا اقرار کیا ہے مثلا قتادہ، الشعبي ، امام زہری، اعمش وغیرہ جو سیف بن عمر سے پہلے کے ہیں
یہ تو صرف اہل سنت کی کتب ہیں اہل تشیع کی کتابوں میں بھی اس کے حوالے بھرے پڑے ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں کتنے عرصہ تک رہے؟

1۔ بخاری جلد 4 کتاب نمبر 56 حدیث نمبر 748 روایت انس رضی اللہ عنہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں دس 10 سال رھے۔

2۔ بخاری جلد 5 کتاب نمبر 58 حدیث نمبر 242 روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہے کہ رسول اللہ مکہ میں 13 سال رھے۔

3۔ مسلم کتاب نمبر 30 حدیث نمبر 5809 روایت ابن عباس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں 15 سال رھے۔
۔۔۔۔بھائی ان روایات میں تضاد ہے کونسی رویات صحیح ہیں؟؟

جواب

حدثنا عبيد الله بن موسى، ‏‏‏‏‏‏عن شيبان، ‏‏‏‏‏‏عن يحيى، ‏‏‏‏‏‏عن ابي سلمة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اخبرتني عائشة، ‏‏‏‏‏‏وابن عباس رضي الله عنهم، ‏‏‏‏‏‏قالا:‏‏‏‏ “لبث النبي صلى الله عليه وسلم بمكة عشر سنين ينزل عليه القرآن، ‏‏‏‏‏‏وبالمدينة عشر سنين”.
ہم سے عبداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے یحییٰ بن کثیر نے ‘ ان سے سلمی بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا کہ مجھ کو عائشہ، عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس سال رہے اور قرآن نازل ہوتا رہا اور مدینہ میں بھی دس سال تک رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہاں بھی قرآن نازل ہوتا رہا۔
اس کی سند مضبوط نہیں ہے اس میں أبي سلمة بنِ عبد الرحمن ہے جو حسن الحدیث ہے

ابن عباس اس سے خوش نہ تھے
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا يونس. قال: حدثنا حماد بن زيد، عن معمر، عن الزهري. قال: كان أبو سلمة يسأل ابن عباس، فكان يخزن عنه
امام احمد العلل میں لکھتے ہیں امام زہری نے کہا ابو سلمہ ابن عباس سے سوال کرتا پس ان کو اس سے غم ہوا

البتہ امام مالک اس کے قائل تھے کہ نبوت کے بعد رسول الله مکہ میں دس سال رہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلا بِالْقَصِيرِ، وَلا بِالأَبْيَضِ الأَمْهَقِ، وَلَيْسَ بِالآدَمِ، وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلا بِالسَّبْطِ، بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ ”
اسی کو امام بخاری نے حدیث 3547 میں نقل کیا ہے

انس نے کہا رسول الله مکہ میں دس سال رہے

ابن عباس سے مروی ہے ١٣ سال رہے
حَدَّثَني مَطَرُ بْنُ الفَضْلِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ، وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ» , (خ) 3903

صحیح مسلم میں بھی ہے
وحَدَّثَنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: “أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ سَنَةً يُوحَى إِلَيْهِ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً”

ابن عباس نے کہا رسول الله مکہ میں ١٣ سال رہے
یہ متفق علیہ روایت ہوئی لہذا اس قول کو قبولیت ملی ہے

نبوت کے بعد رسول الله مکہ میں ١٥ سال رہے
صحیح مسلم میں ہے
وحَدَّثَنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: “أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَى الضَّوْءَ سَبْعَ سِنِينَ، وَلَا يَرَى شَيْئًا وَثَمَانَ سِنِينَ يُوحَى إِلَيْهِ، وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًا”
اس کی سند عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ کی وجہ سے ضعیف ہے
اس کا متن بھی منکر ہے

لب لباب ہے کہ انس رضی الله عنہ کا قول ہے کہ ١٠ سال رہے اور ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے ١٣ سال رہے

یعنی یہ اصحاب رسول کا اختلاف ہوا

حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری کلمات

کربلا میں اپنی شہادت سے تھوڑی دیر پہلے اپنے اصحاب علیہم الرضوان کے مجمع میں ایک خطبہ پڑھا جس میں حمد و صلوۃ کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ارشاد فرمایا کہ:
قَدنَزل من الامرِ مَاترون وانَّ الدنیا قد تغیرت وتنکرت وادبر معروفھا وانشمرت حتی لم یبق منھا الا کصبابۃ الاناء ألاحسبی من عیش کالمرعی الوبیل الا ترون الحق لایعمل بہ والباطل لایتناھی عنہ لیرغب المؤمن فی لقاء اللہ تعالیٰ وانی لااری الموت الاسعادۃ والحیاۃ مع الظالمین الاجرما۔

ترجمہ:
یقینا مجھ پر وہ معاملہ اُتر پڑ اہے جس کو تم لوگ دیکھ رہے ہو، بلاشبہ دنیا بدل گئی اور اجنبی ہوگئی۔ دنیا کی شرعی باتوں نے پیٹھ پھیرلی۔ اور دنیا کپڑے سمیٹ کر بھاگ نکلی اور دنیا نہیں باقی رہ گئی مگر اتنی ہی جیسے کہ برتن میں تھوڑا سا بچا ہوا پانی، بس میری زندگی کا سازو سامان مضر چراگاہ جیسا رہ گیا ہے کیا تم لوگ دیکھ نہیں رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے باز نہیں آرہے ہیں لہذا اب ہر مومن کو خدا عزوجل سے ملاقات کی رغبت ہونی چاہیے اور میں تو موت کو بہت بڑی سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو بہت بڑا جرم سمجھتاہوں

جواب

تاریخ طبری میں ہے
قَالَ أَبُو مِخْنَفٍ: عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي الْعَيْزَارِ

قام حسين ع بذي حسم، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: إنه قَدْ نزل من الأمر مَا قَدْ ترون، وإن الدُّنْيَا قَدْ تغيرت وتنكرت، وأدبر معروفها واستمرت جدا، فلم يبق منها الا صبابه كصبابة الإناء، وخسيس عيش كالمرعى الوبيل أَلا ترون أن الحق لا يعمل بِهِ، وأن الباطل لا يتناهى عنه! ليرغب المؤمن فِي لقاء اللَّه محقا، [فإني لا أَرَى الموت إلا شهادة، وَلا الحياة مع الظالمين إلا برما

سند بے کار ہے

قال النسائي يَحْيى بن عقبة بن أبي العيزار ليس بثقة.
قال أبو حاتم: يفتعل الحديث.
وقال أبو زكريا (1) بن معين: ليس بشئ.
وقال البخاري: منكر الحديث.
ابن معين: كذاب خبيث عدو الله، كان يسخر به.

ابو مخنف بھی متروک ہے

تاریخ زبیر بن بکار میں بھی ہے
الزُّبَيْرُ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ: لَمَّا نَزلَ عُمَرُ بنُ سَعْدٍ بِالحُسَيْنِ خَطبَ أَصْحَابَهُ، وَقَالَ: قَدْ نَزلَ بِنَا مَا تَرَوْنَ، وَإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَغَيَّرَتْ وَتَنكَّرَتْ، وَأَدْبَرَ مَعْرُوفُهَا، وَاسْتُمْرِئَتْ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهَا إلَّا كَصُبَابَةِ الإِنَاءِ، وَإِلاَّ خَسِيسُ عَيْشٍ كَالمَرْعَى الوَبِيْلِ, ألَا تَرَوْنَ الحَقَّ لاَ يُعْمَلُ بِهِ، وَالبَاطِلَ لاَ يُتنَاهَى عَنْهُ? لِيَرْغَبَ المُؤْمِنُ فِي لِقَاءِ اللهِ. إنِّي لاَ أَرَى المَوْتَ إلَّا سَعَادَةً، وَالحيَاةَ مَعَ الظَّالِمِيَنَ إلَّا نَدَماً.

اس کی سند بھی بے کار ہے
سند میں محمد بن الحسن بن زَبَالَة المخزوميُّ ہے جو
قال أبو داود: كذاب.
وقال النَّسائيّ: متروك.
ہے

صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ عُمْرَةِ القَضَاءِ) صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں

(باب: عمرہ قضا کا بیان)

4251

. حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ كَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ قَالُوا لَا نُقِرُّ لَكَ بِهَذَا لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاكَ شَيْئًا وَلَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ امْحُ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ عَلِيٌّ لَا وَاللَّهِ لَا أَمْحُوكَ أَبَدًا فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ وَلَيْسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يُدْخِلُ مَكَّةَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّيْفَ فِي الْقِرَابِ وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتْبَعَهُ وَأَنْ لَا يَمْنَعَ مِنْ أَصْحَابِهِ أَحَدًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا قُلْ لِصَاحِبِكَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبِعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي يَا عَمِّ يَا عَمِّ فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ حَمَلَتْهَا فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَزَيْدٌ وَجَعْفَرٌ قَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ بِنْتُ عَمِّي وَقَالَ جَعْفَرٌ ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي وَقَالَ زَيْدٌ ابْنَةُ أَخِي فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا وَقَالَ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ وَقَالَ لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي وَقَالَ لِزَيْدٍ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَا تَتَزَوَّجُ بِنْتَ حَمْزَةَ قَالَ إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ

جواب

ترجمہ ہے
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ
اپ صلی الله علیہ وسلم لکھنے میں اچھے نہیں تھے پس رَسُولُ اللهِ کے مقام پر لکھا

کتاب شرح الطيبي على مشكاة المصابيح از الطيبي (743هـ) میں ہے
قال القاضي عياض: احتج بهذا أناس علي أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب ذلك بيده, وقالوا: إن الله تعالي أجرى ذلك علي يده, إما بأن كتب القلم بيده وهو غير عالم بما كتب, أو بأن الله تعالي علمه ذلك حينئذ, زيادة في معجزته كما علمه ما لم يعلم, وجعله تاليا بعدما لم يكن يتلو بعد النبوة, وهو لا يقدح في وصفه بالأمي.
قاضی عیاض نے کہا لوگوں نے دلیل لی ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا اور کہا الله تعالی نے ان کے ہاتھ پر اس تحریر کو جاری کر دیا – جہاں تک قلم سے لکھنے کا تعلق ہے اور وہ اس سے لا علم تھے کیا لکھ رہے ہیں یا الله نے اس وقت ان کو علم دے دیا اس وقت اور یہ رسول الله کے معجزات میں ہے جو الله نے علم دیا

\فتح الباری میں ہے اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا لکھنا معجزہ تھا
. وقول الباجي أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كتب بعد أن لم يكتب وأن ذلك معجزة أخرى

عمدة القاري شرح صحيح البخاري از عینی میں ہے
وَقَالَ السُّهيْلي: وَالْحق أَن قَوْله: فَكتب، أَي: أَمر عليا أَن يكْتب. قلت: هُوَ بِعَيْنِه الْجَواب الثَّانِي. (الثَّالِث) : أَنه كتب بِنَفسِهِ خرقاً للْعَادَة على سَبِيل المعجزة،
السُّهيْلي نے کہا حق یہ ہے کہ قول انہوں نے لکھا تو یہ انہوں نے علی کو حکم کیا کہ لکھیں اور میں عینی کہتا ہوں … ان کا لکھنا خرق عادت میں سے معجزہ تھا

یعنی اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خود لکھا تو وہ اس وقت کا معجزہ تھا
—————-
صحیح مسلم میں ہے
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَرِنِي مَكَانَهَا فَأَرَاهُ مَكَانَهَا فَمَحَاهَا وَكَتَبَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا مجھے دکھاو وہ جگہ – پس اپ کو دکھایا گیا تو اپ نے اس کو مٹا دیا اور لکھا ابن عبد الله

یعنی رسول الله نے
محمد رسول الله کے الفاظ مٹا کر کر دیا
محمد بن عبد الله

یعنی امام مسلم کے نزدیک یہ کوئی معجزہ نہیں تھا صرف اتنا ہی اپ صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ رسول الله ہٹا کر ابن عبد الله کر دیا
رسول الله کے ہاتھ میں انگوٹھی تھی جس پر اپ نے محمد رسول الله کندہ کروا رکھا تھا ممکن ہے اس مہر والی انگوٹھی کو دیکھ کر اس وقت لکھا ہو
================
مجموعہ احادیث میں روایت میں یہ الفاظ
وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللهِ
صرف ابی اسحاق الکوفی نے روایت کیے ہیں جو کوفہ کے شیعہ ہیں اور شیعہ کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے – اہل سنت اس کے انکاری ہیں جو قرآن کے مطابق ہے
میرے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے

امام ذھبی اپنی کتاب تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں کہ

أن عُمَرَ حَبَسَ ثَلَاثَهَ: إبْنَ مَسْعُوْدٍ وَأبَا الدَرْدَاءِ وَأبَا مَسْعُوْدَ الأنْصَارِی فَقَالَ: قَدْ أکْثَرْتُمُ الْحَدِیْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللّهِ صلى الله علیه وسلم

جواب

اس کی سند میں سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ہے جس پر میں نے کئی بار جرح پیش کی ہے

یہ قول إبراهيم بن عبدالرحمن نے بیان کیا ہے
الهيثمي نے مجمع الزوائد ج:1 ص:149 میں لکھا ہے
رواه الطبراني في الأوسط – قلت : هذا أثر منقطع وإبراهيم ولد سنة عشرين ولم يدرك من حياة عمر إلا ثلاث سنين وابن مسعود كان بالكوفة ولا يصح هذا عن عمر (قلت : ويأتي باب التثبت عن بعض الحديث)انتهى.
طبرانی نے اس کو اوسط میں روایت کیا ہے میں کہتا ہوں یہ اثر منقطع ہے إبراهيم بن عبدالرحمن سن ٢٠ میں پیدا ہوا اور ان نے عمر کو نہیں پایا سوائے زندگی کے تین سال اور ابن مسعود تو کوفہ میں تھے اور یہ إبراهيم بن عبدالرحمن کا قول صحیح نہیں ہے

جواب

صحیح بخاری میں ہے
باب أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ

وَفَتَرَ الوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:30]، فِيمَا بَلَغَنَا، حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الجِبَالِ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا،
الوحی رک گئی تو رسول الله غم کا شکار ہوئے جیسا ہم تک پہنچا – حزن ہوا پہاڑ کی چوٹی پر جاتے باربار کہ گرا دیں – جب اوپر پہنچتے جبریل ظاہر ہوتے کہتے اپ رسول الله ہیں اے محمد

روایت صحیح ہے امام زہری کی سند سے ہے
شعیب مسند احمد میں کہتے ہیں
إسناده صحيح على شرط الشيخين دون قوله: حتى حزن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فيما بلغنا- حزناً … فهو بلاغات الزهري، وهي واهية.
اسناد تو امام بخاری و مسلم کی شرط پر ہیں لیکن یہ اس قول کے سوا صحیح ہے کہ یہاں تک کہ رسول الله کو غم ہوتا جیسا ہم تک آیا تو یہ امام الزہری کی بلاغات میں سے ہے اور یہ واہی ہے

البانی نے بھی اس روایت کا انکار کیا ہے اپنے عجیب انداز میں کہ صحیح بھی کہہ دیا اور ان الفاظ کو رد بھی کر دیا کتاب التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں اس روایت کو پیش کیا اور
الفاظ نقل کیے
وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ـ فِيمَا بَلَغَنَا ـ حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا لِكَيْ يتردى من رؤوس شَوَاهِقِ الْجِبَالِ
اس کے بعد کہا
تعليق الشيخ الألباني] صحيح دون جملة التردي ـ ((مختصر البخاري))
صحیح ہے اس التردي (گرا دیں) کے جملہ کے بغیر

کتاب صحيح موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان میں البانی نے کہا
فهي زيادة منقطعة، فهي لا تصح، كما كنت نبهت على ذلك في تعليقي على كتابي “مختصر صحيح البخاري
یہ اضافہ منقطع ہے صحیح نہیں ہے جیساکہ میں نے اپنی تعلیق میں متنبہ کیا ہے میری کتاب مختصر صحیح البخاری میں

کتاب الْمُخْتَصَرُ النَّصِيحُ فِي تَهْذِيبِ الْكِتَابِ الْجَامِعِ الْصَّحِيحِ المؤلف: المُهَلَّبُ بنُ أَحْمَدَ بنِ أَبِي صُفْرَةَ أَسِيْدِ بنِ عَبْدِ اللهِ الأَسَدِيُّ الأَنْدَلُسِيُّ، المَرِيِيُّ (المتوفى: 435هـ) میں ہے کہ یہ اضافہ امام زہری سے معمر نے لیا ہے
زَادَ مَعْمَرٌ: حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنَا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ

شرح الحديث المقتفى في مبعث النبي المصطفى المؤلف: أبو القاسم شهاب الدين عبد الرحمن بن إسماعيل بن إبراهيم المقدسي الدمشقي المعروف بأبي شامة (المتوفى: 665هـ) میں ہے
قَوْله: ” وفتر الْوَحْي فَتْرَة حَتَّى حزن النَّبِي – صلى الله عليه وسلم – فِيمَا بلغنَا حزنا غَدا مِنْهُ مرَارًا كي يتردى من رُؤُوس شَوَاهِق الْجبَال “:
هَذَا من كَلَام الزُّهْرِيّ أَو غَيره غير عَائِشَة وَالله أعلم لقَوْله: ” فِيمَا بلغنَا “، (وَلم تقل عَائِشَة فِي شَيْء من هَذَا الحَدِيث ذَلِك وَأَن كَانَت لم
تدْرك وقته، وحديثها هَذَا من جملَة الْأَحَادِيث الَّتِي يعبر عَنْهَا بمراسيل الصَّحَابَة) .
یہ امام زہری کا کلام ہے یا کسی اور کا عائشہ کا و الله اعلم اس قول ہم تک پہنچا اور … یہ حدیث مراسیل صحابہ میں سے ہے

یعنی پہلے لوگ کہتے تھے کہ یہ الفاظ عائشہ رضی الله عنہا کے بھی ہو سکتے ہیں

===================

یہ عصر حاضر میں ہی لوگوں نے اس میں یہ علت نکالی ہے متقدمین میں سے کسی نے اس روایت کا انکار نہیں کیا ہے
سوال ہے کہ امام بخاری نے اس پر کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیا اگر یہ مدرج جملہ تھا؟

میرے نزدیک روایت صحیح ہے البتہ اس میں ہے کہ جبریل اتے اور کہتے اپ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں یہ کئی بار نہیں ایک بار ہوا
رسول الله نے جبریل کو اصلی صورت دو بار دیکھا ایک بار فترت الوحی کے دور میں اور دوسری بار سدرہ المنتہی پر

لہذا یہ پہاڑ پر چڑھنے والی بات ایک بار کی ہے

==========
انجیل میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیکل کی دیوار پر چڑھ گئے اور شیطان نے وہاں سے اپنے اپ گرا دینے کو کہا
Mathew 4:5
Then the devil took Him to the holy city and set Him on the pinnacle of the temple. 6“If You are the Son of God,” he said, “throw Yourself down.

انبیاء بشر تھے لہذا ان کو وقت لگا کہ وہ اس نئی حقیقت کو قبول کر سکیں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر کہا جاتا ہے دو سال تک الوحی نہیں آئی
————-

صحیح مسلم میں ہے
وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَى الضَّوْءَ سَبْعَ سِنِينَ، وَلَا يَرَى شَيْئًا وَثَمَانَ سِنِينَ يُوحَى إِلَيْهِ، وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًا»

ابن عباس نے کہا رسول الله مکہ میں پندرہ سال رہے وہاں سات سال تک صرف آوازیں سنتے اور روشنی دیکھتے رہے اور کوئی اور چیز (یعنی فرشتہ) نہ دیکھا پھر آٹھویں سال سے الوحی شروع ہوئی اور مدینہ میں دس سال رہے

راقم کہتا ہے یہ روایت صحیح نہیں ہے لیکن اس کو چھپا دیا جاتا ہے جبکہ یہ صحیح مسلم کی ہے
کہاں ہیں وہ جو کہتے ہیں صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں؟

 عمار کی روایت بے کار ہے

وقال البخاري: أكثر من روى عنه أهل البصرة وفي ” الأوسط ” من تواريخه، وقال عمار بن أبي عمار عن ابن عباس: ” توفي النبي – صلى الله عليه وسلم – وهو ابن خمس وستين ” ولا يتابع عليه، وكان شعبة يتكلم في عمار
امام بخاری نے تاریخ الاوسط کہا اس سے اکثر اہل بصرہ نے روایت کیا ہے اور کہا عمار بن ابی عمار نے ابن عباس سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ ٦٥ سال کے تھے – اس کی کوئی متابعت نہیں کرتا اور شعبہ ، عمار پر کلام کرتے تھے

مسند احمد صدیق اکبر کی مرویات
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ عَبْد اللَّهِ وَسَمِعْتُهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْتَ وَرِثْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْ أَهْلُهُ قَالَ فَقَالَ لَا بَلْ أَهْلُهُ قَالَتْ فَأَيْنَ سَهْمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً ثُمَّ قَبَضَهُ جَعَلَهُ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ فَرَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَقَالَتْ فَأَنْتَ وَمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوگیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث آپ ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ؟ انہوں نے جواباً فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ ہی ان کے وارث ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ کہاں ہے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی چیز کھلاتا ہے، پھر انہیں اپنے پاس بلالیتا ہے تو اس کا نظم ونسق اس شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو خلیفہ وقت ہو، اس لئے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس مال کو مسلمانوں میں تقسیم کردوں، یہ تمام تفصیل سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جو سناہے، آپ اسے زیادہ جانتے ہیں، چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔
جواب
متن میں الفاظ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔موجود نہیں ہیں مترجم کی کذب بیانی ہے
احمد شاکر کہتے ہیں إسناده صحيح، الوليد بن جميع هو الوليد بن عبد الله بن جميع، نسب إلى جده، وهو ثقة. أبو الطفيل هو عامر بن واثلة، من صغار الصحابة،اس کی اسناد صحیح ہیں الوليد بن عبد الله بن جميع، ثقہ ہے اور أبو الطفيل عامر بن واثلة، چھوٹے اصحاب رسول میں سے ہے
شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں اسناد حسن ہیں
ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں ذکر کیا ہے اور کہاابن كثير في ” البداية ” 5 / 289 بعد أن أورد هذا الحديث عن ” المسند “: ففي لفظ هذا الحديث غرابة ونكارة، ولعله روي بمعنى ما فهمه بعض الرواة، وفيهم من فيه تشيُّعاس حدیث میں الفاظ کی غرابت و نکارت ہے اور لگتا ہے بعض راویوں نے اس کو اپنے فہم پر روایت کیا ہے اور ان میں شیعیت ہے

راقم کہتا ہے مسند احمد کی روایت ضعیف ہےنہ الولید ثقہ ہے نہ ابو طفیل صحابی ہے

==========

صحیح بخاری حدیث 6726 میں ہےفَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْفاطمہ نے ابو بکر کو چھوڑ دیا اور ان سے بات نہ کرتیں یہاں تک کہ موت ہوئی

============
اس کے برعکس احمد شاکر اور شعيب الأرنؤوط دونوں مسند احمد کی اس روایت کی تعلیق میں لکھتے ہیںوقد روينا عن أبي بكر رضى الله عنه أنه ترضى فاطمة وتلاينها قبل موتها، فرضيت، رضى الله عنهااور ہم سے روایت کیا گیا ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کی سند سے کہ وہ فاطمہ سے راضی تھے اور ان کو اپنے موقف پر لائے پس وہ راضی ہوئیں رضی الله عنہا
اس طرح ان دونوں نے صحیح بخاری کی حدیث کا انکار کیا
================

الکامل از ابن عدی میں ہےحَدَّثَنَا ابْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثني صَالِحُ بْنُ أَحْمَد بْن حنبل، قَال: حَدَّثَنا علي، قَالَ: سَمِعْتُ جرير بْن عَبد الحميد، وقِيلَ لَهُ: كَانَ مغيرة ينكر الرواية، عَن أبي الطفيل؟ قَال: نَعم.مغيرة ، ابی طفیل کی روایات کا انکار کرتے تھے
ابو طفیل آخری عمر میں المختار الثقفي کذاب کے ساتھ تھے جس کا قتل ابن زبیر رضی الله عنہ نے کرایا

جواب

حسن رضی اللہ عنہ   شادی پر شادیان کرتے رهتے اور ایک  کے بعد ایک بیوی کو طلاق دیتے رهتے تھے – علی رضی اللہ عنہ کو یہ پسند نہیں تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے ان کے لشکر میں پھوٹ پڑ سکتی ہے –

طبقات ابن سعد میں ہے

قال: أخبرنا محمد بن عمر. قال: حدثني حاتم بن إسماعيل.

عن جعفر بن محمد. عن أبيه. قال: [قال علي: يا أهل الكوفة: لا تزوجوا الحسن بن علي فإنه رجل مطلاق فقال رجل من همدان والله لنزوجنه فما رضي أمسك وما كره طلق]

امام جعفر نے اپنے باپ سے انہوں نے علی سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا اے اہل کوفہ حسن بن علی سے شادی مت کرو کیونکہ یہ آدمی بس طلاقیں دیتا ہے تو ہمدان کے ایک شخص نے کہا  اللہ  کی قسم ہم تو شادیاں کریں گے وہ چاہیں تو رکھیں اور چاہیں تو چھوڑ دیں

   قال: أخبرنا محمد بن عمر. قال: حدثني علي بن عمر. عن أبيه. [عن علي بن حسين قال: كان الحسن بن علي مطلاقا للنساء وكان لا يفارق امرأة إلا وهي تحبه] .

علی بن حسین نے کہا  کہ چچا حسن تو عورتوں کو طلاقیں دیتے اور ان کو نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ ان سے محبت نہ نہ کر لیتیں

مصنف ابن ابي شيبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، أَوْ يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ، لَا تُزَوِّجُوا حَسَنًا، فَإِنَّهُ رَجُلٌ مِطْلَاقٌ»

امام جعفر نے اپنے باپ سے انہوں نے علی سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا اے اہل کوفہ حسن بن علی سے شادی مت کرو کیونکہ یہ آدمی بس طلاقیں دیتا ہے تو ہمدان کے ایک شخص نے کہا  اللہ  کی قسم ہم تو شادیاں کریں گے وہ چاہیں تو رکھیں اور چاہیں تو چھوڑ دیں

 تاريخ الاسلام از الذھبي میں ہے

وَعَنْ جَعْفَرٍ الصَّادِقِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ لَا تُزَوِّجُوا الْحَسَنَ فَإِنَّهُ رَجُلٌ مِطْلَاقٌ، فَقَالَ رَجُلٌ: وَاللَّهِ لَنُزَوِّجَنَّهُ، فَمَا رَضِيَ أَمْسَكَ، وَمَا كَرِهَ طَلَّقَ

جعفر صادق نے کہا کہ علی نے کہا اے کوفہ والوں حسن سے شادیاں مت کرو یہ تو طلاق دے دیتا ہے تو ایک شخص نے کہا ہم تو شادی کریں گے وہ چاہیں تو روک رکھیں نہ پسند کریں تو طلاق دیں

سير الاعلام النبلا میں الذھبی قول لائے ہیں

جعفر بن محمد، عن أبيه؛ قال علي: يا أهل الكوفة! لا تزوجوا الحسن، فإنه رَجُلٌ مِطْلاَقٌ، قَدْ خَشِيْتُ أَنْ يُورِثَنَا عَدَاوَةً فِي القبَائِلِ.

علی نے کہا اے اہل کوفہ  حسن سے شادیاں  مت کرو یہ تو طلاق دے دیتا ہے مجھ کو ڈر ہے کہ اس کی وارثت پر قبائل میں فساد ہو جائے گا

مصادر  اہل تشیع  میں حسن کی شادیاں

مصادر أهل تشيع کو راقم نے دیکھا  تو اس میں روایت ملی – الكافي از  كليني ميں ہے

حميد بن زياد، عن الحسن بن محمد بن سماعة، عن محمد بن زياد بن عيسى، عن عبدالله بن سنان، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: إن عليا قال وهو على المنبر: لا تزوجوا الحسن فإنه رجل مطلاق، فقام رجل من همدان فقال: بلى والله لنزوجنه وهو ابن رسول الله صلى الله عليه وآله وابن أمير المؤمنين عليه السلام فإن شاء أمسك وإن شاء طلق

ابو عبد اللہ نے کہا علی کہا کرتے اور وہ منبر پر ہوتے کہ حسن سے شادی مت کرو یہ طلاق دے دے گا پس ہمدان کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا بلکہ ہم تو شادی ضرور کریں گے یہ رسول اللہ کے نواسے اور امیر المومنین کے بیٹے ہیں ، چاہیں تو بیوی رکھیں اور چاہیں تو طلاق دیں

اسی قسم کی مندرجہ ذیل روایات بھی ہیں

 (510665)

 عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن محمدبن إسماعيل بن بزيع، عن جعفر بن بشير، عن يحيى بن أبي العلاء، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: إن الحسن بن علي عليه السلام طلق خمسين امرأة فقام علي عليه السلام بالكوفة فقال: يا معاشر أهل الكوفة لا تنكحوا الحسن فإنه رجل مطلاق فقام إليه رجل فقال: بلى والله لننكحنه فإنه ابن رسول الله صلى الله عليه وآله وابن فاطمة عليها السلام فإن أعجبته أمسك وإن كره طلق

وسائل الشيعة میں ہے

محمّد بن يعقوب ، عن عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمّد ، عن محمّد بن إسماعيل بن بزيع ، عن جعفر بن بشير ، عن يحيى بن أبي العلاء ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : إن الحسن بن علي ( عليه السلام ) طلق خمسين امرأة فقام علي ( عليه السلام ) بالكوفة فقال : يا معشر أهل الكوفة لا تنكحوا الحسن فانه رجل مطلاق ، فقام اليه رجل فقال : بلى

سداد العباد ورشاد العباد میں ہے

 روي في عدة أخبار أن علياً   جاءه جماعة، فقالوا: ياأبا الحسن إن ولدك الحسن  قد خطب إلينا كريمتنا وكذلك الحسين   فقال: لا تزوجوا الحسن   فإنه رجل مطلاق، وزوجوا الحسين

اس طرح اہل سنت اور اہل تشیع  اس پر متفق ہیں کہ حسن کثرت سے شادیاں کرتے اور طلاق دیتے تھے

وسائل الشیعہ میں ہے

وعن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن غير واحد ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : ما من شيء مما أحله الله أبغض إليه من الطلاق وإن الله عزّ وجلّ يبغض المطلاق الذواق

ابو عبد اللہ امام جعفر   نے کہا وہ چیزیں جو اللہ نے حلال کی ہے اس میں سب سے قابل نفرت طلاق ہے  اور اللہ اس سے نفرت کرتا ہے جو مزے  کے لئے طلاقیں دے

الکافی از کلینی میں ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن محمدبن إسماعيل بن بزيع، عن جعفر بن بشير، عن يحيى بن أبي العلاء، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: إن الحسن بن علي عليه السلام طلق خمسين امرأة فقام علي عليه السلام بالكوفة فقال: يا معاشر أهل الكوفة لا تنكحوا الحسن فإنه رجل مطلاق فقام إليه رجل فقال: بلى والله لننكحنه فإنه ابن رسول الله صلى الله عليه وآله وابن فاطمة عليها السلام فإن أعجبته أمسك وإن كره طلق

امام جعفر سے روایت ہے کہ حسن نے پچاس عورتوں کو طلاق دی  پس علی  کوفہ میں (منبر پر) کھڑے  ہوئے پس فرمایا اے لوگوں حسن سے نکاح مت کرو یہ شخص طلاقیں دیتا ہے پس ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا بلا شبہ اللہ کی قسم  ہم تو نکاح ضرور کریں گے کیونکہ یہ رسول کا بیٹا نواسہ ہے اور فاطمہ کا بیٹا ہے اگر ان کو پسند ہو تو بیوی رکھیں ناپسند آئے تو چھوڑ دیں

بعض جہلاء  کا کہنا ہے کہ تاریخ بنو امیہ اور بنو عباس کی مرتب کردہ ہے جبکہ یہ روایات شیعہ مصادر میں بھی ہیں-  بعض احمقوں نے اعتراض میں  کہا کہ حسن سے ہی لوگ شادی کیوں کرتے تھے حسین سے کیوں نہیں  کرتے تھے ؟ راقم کہتا ہے کہ حسن کی مقبولیت کوفہ میں حسین سے بڑھ کر تھی  – اسی وجہ سے حسن کو خلیفہ کیا گیا –  روایات ظاہر کرتی ہیں کہ حسن  کی مقبولیت کوفہ میں حسین و علی سے بڑھ گئی تھی اور لوگ اسی پر خوش تھے کہ حسن  شادیاں کرتے ہیں – راقم سمجھتا ہے کہ حسن شوقیہ شادیان نہیں کرتے تھے –

وسائل الشیعہ میں ہے

وعن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن غير واحد ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : ما من شيء مما أحله الله أبغض إليه من الطلاق وإن الله عزّ وجلّ يبغض المطلاق الذواق

ابو عبد اللہ امام جعفر   نے کہا وہ چیزیں جو اللہ نے حلال کی ہے اس میں سب سے قابل نفرت طلاق ہے  اور اللہ اس سے نفرت کرتا ہے جو مزے  کے لئے طلاقیں دے

یہ شادیان کرنے کا مقصد قبائل  کی ہمدردیان  حاصل کرنا تھا – متعدد نکاح میں  مقصد حکمت تھی

متاخرین شیعہ نے اس کا انکار کیا ہے  مثلا شیعہ عالم کی کتاب  دروس تمهيدية في القواعد الرجالية از المؤلف محمد باقر الأيرواني میں ہے ہمارے عامی کہتے ہیں

  ان في الكتب الأربعة احاديث قد لا يمكن التصديق بصدورها  من قبيل ما ذكره في الكافي في كتاب الطلاق من ان أمير المؤمنين (عليه السلام)ارتقى المنبر وقال : لا تزوجوا ولدي الحسن (عليه السلام) فانه مطلاق

ہمارے شیعوں کی چار کتب میں احادیث ہیں جن کی تصدیق ممکن نہیں ہے اس قبیل میں سے بعض وہ  ہیں جو الکافی کی کتاب طلاق میں ہے کہ امیر المومنین علی  منبر پر چڑھے اور کہا حسن سے شادیاں مت کرو یہ طلاق دیتا ہے

اس اعتراض کا جواب علماء نے اسی کتاب میں دیا

اجبنا ما الفائدة في الحفاظ على الصدور والغاء الظهور ؟ ! ! ان تقديس أهل البيت (عليهم السلام) واخبارهم يلزم ان يدعونا للحفاظ عليها صدوراً وظهوراً ، اما التسليم بصدورها مع عدم العمل بظهورها فهو رفع بالتالي لليد عن اخبار أهل البيت (عليهم السلام)ويعني عدم عملنا بها

ہم علماء کہتے ہیں کہ حفاظ سے ان خبروں کا صدور اور ان خبروں کو پھیلنے کا فائدہ کیا ہے ؟ اہل بیت (علیہ السلام) کی تقدیس اور ان کی خبروں کو لازم ہے کہ ہم ان کو ان کی  ظاہری صورت میں محفوظ رکھیں ، ان احادیث  کے اجراء کو تسلیم کریں

کتاب ثقات از ابن حبان میں ہے

مغیرہ نے ٨٠ عورتوں کو اسلام میں گھیرا

اسد الغابہ میں ہے
أحصن ثلاثمائة امرأة فِي الإسلام
مغیرہ نے ٣٠٠ عورتوں کو اسلام میں گھیرا

یہاں سند نہیں ہے صرف کہا جاتا ہے لکھا ہے

تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال از امام الذھبی میں ہے

وقال ابن شوذب: أحصن المغيرة أربعًا من بنات أبي سفيان
، وروى بكر بن عبيد الله المزني عن المغيرة قال: أحصنت سبعين امرأة،
قال مالك: كان المغيرة نكاحًا للنساء، وكان ينكح أربعًا جميعًا ويطلقهن
جميعًا، وروى سحنون عن عبد الله بن نافع الصائغ قال: أحصن المغيرة
ثلاثمائة امرأة في الإسلام قال محمد بن وضاح القرظي: غير عبد الله
ابن نافع يقول: ألف امرأة

وروى الهيثم بن عدي عن مجالد عن
الشعبي سمعت المغيرة بن شعبة يقول: ما غلبني أحد قط، إلا غلام
من بني الحارث بن كعب، فإني خطبت امرأة منهم فأصغى إلي الغلام، وقال: أيها الأمير لا خير لك فيها إنى رأيت رجلاً يقببها، فانصرفت
عنها، فبلغني أن الغلام تزوجها فقلت: ألست زعمت كيت وكيت فقال:
ما كذبت رأيت أباها يقبلها

ابن شوذب نے کہا مغیرہ نے ابو سفیان کی چار بیٹیوں سے شادی کی اور بکر بن عبید اللہ نے روایت کیا کہ مغیرہ نے ستر عورتوں سے شادی کی

اور مالک نے کہا مغیرہ چار سے شادی کرتے پھر ایک ساتھ ان چار کو طلاق دیتے
سحنون نے عبد الله بن نافع الصائغ سے روایت کیا کہ مغیرہ نے ٣٠٠ عورتوں سے شادی کی
محمد بن وضاح القرظي نے کہا ہزار عورتوں سے شادی کی
الهيثم بن عدي عن مجالد عن الشعبي کی سند سے ہے کہ اس نے مغیرہ کو کہتے سنا کہ مجھ پر کسی کا غلبہ نہ ہوا سوائے بنی حارث کے اس لڑکے
کے کہ میں نے ان کی ایک عورت سے نکاح کیا

راقم کہتا ہے عبد الله بن شوذب اس سند میں بقول امام ابن حزم مجہول ہے
اور مالک کے قول کی سند معلوم نہیں ہے
عبد الله بن نافع الصائغ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے
محمد بن وضاح القرظي اندلس کے محدث ہیں اور یہ غلطی کرتے ہیں
الهيثم بن عدي اخباری ہے اور ابن معین کہتے ہیں کذاب ہے

سنن الکبری بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، ثنا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيِّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:….، وَلَقَدْ تَزَوَّجْتُ سَبْعِينَ أَوْ بِضْعًا وَسَبْعِينَ امْرَأَةً “

مغیرہ نے ستر عورتوں سے نکاح کیا
سند منقطع ہے
قال ابن أَبي خيثمة عن يَحْيَى بن مَعِين: لم يسمع بكر من المغيرة

جواب

حسن کے انتقال کے بعد جعدة بِنْتُ الأَشْعَثِ بعد میں حیات رہیں اور ان کی اہل بیت ہی میں   ابن  عباس کے بیٹے العباس بن عبد الله بن عباس بن عبد المطلب بن هاشم سے  شادی ہوئی اور  ان سے محمد بن عباس اور قریبه بن عباس پیدا ہوئے – ماشاء اللہ – محمد بن العباس وقريبة بنت العباس وأمهما جعدة بنت الأشعث بن قيس بن معدي كرب بن معاوية بن جبلة الكندي

اگر جعدہ نے زہر دیا ہوتا تو  ابن عباس رضی اللہ عنہ  کی وہ کبھی بہو نہیں بن سکتی تھیں- لگتا ہے کہ بنو عباس کے دور میں رافضیوں نے ان قصوں کو مشہور کیا کہ  بنو عباس کی ماں  یا ابن عباس  کی  بہو سازشی تھیں

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

امام احمد اور حب علی

پیش لفظ

امام  احمد بن  حنبل کو  امام بخاری  کا استاد کہا  جاتا ہے ، لیکن اگر ان کی کتب احاديث کا مطالعہ  کیا  جائے تو دونوں میں حیرت انگیز  تفاوت پایا جاتا ہے – زیرنظر   مضمون سن ٨٠ کی دہائی میں شمارہ حبل الله میں شائع ہوا تھا،  جو مسند احمد بن حنبل اور صحیح بخاری کے سلسلے میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی رحمہ الله علیہ کے  تحقیقی مقالہ کے طور پر چھپا تھا- اس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ تاریخ کے حوالے سے امام بخاری  اور امام احمد کے منہج میں فرق ہے جو ان کی کتب کا تقابل کرنے سے واضح ہوتا ہے – مزید یہ کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں امام احمد سے براہ راست  کوئی بھی روایت بیان نہیں کی جبکہ دونوں ہم عصر تھے اور امام احمد کے لئے مشھور کیا گیا ہے کہ وہ امام بخاری کے استاد تھے  –   علم دوستوں کے لئے اس مضمون کو کتابی شکل دی گئی ہے

عصر حاضر کے  عرب محققین دکتور    شعیب الأرنؤوط ،   دکتور     احمد شاکر اور  ناصر الدین البانی نے    اس مضمون میں پیش کردہ  مسند احمد کی بعض روایات کو صحیح کہا ہے اور بعض کو ضعیف-   لہذا ان   محقیقن  کے اختلاف و اجماع کا بھی   حاشیہ    میں ذکر کر دیا گیا  ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ  عرب  محققین کی ان آراء کو قبول کرنے سے خود صحیح بخاری کی روایات ہی مشکوک ہو جاتی ہیں – واضح رہے کہ ہمارے نزدیک  اس مضمون  میں پیش کردہ  مسند احمد کی تمام روایات ضعیف ہیں اور اس  پر  ویب سائٹ پر  پہلے سے  کافی مواد  موجود ہے جو محققین کے لئے قابل غور ہے-


دیگر مباحث

اہل سنت میں رافضیت کے بیچ

مستشرقین واقدی اور مسند احمد

امام احمد اور عمار (رضی) کا قتل

امام احمد اور حدیث کساء

————-

حرف آخر

امام احمد کا علی رضی الله عنہ  کے مخالفین کے حوالے سے بغض کا انداز تھا وہ  معاویہ رضی الله عنہ کو خلفیہ نہیں مانتے تھے  اور ان کو بادشاہ قرار دیتے تھے – امام احمد کے نزدیک معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت شروع ہونے سے پہلے ہی حقیقی خلافت ختم ہو چکی تھی – امام احمد کے نزدیک اگرچہ اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں کہ  معاویہ یا لشکر شام  نے  عمار رضی الله عنہ  کا قتل کیا-  امام احمد حدیث کساء کو بھی   منکر قرار دیتے تھے – امام احمد اس سے بھی منع کرتے کہ کوئی امیر یزید سے روایت بھی کرے

امام احمد کے نزدیک وہ شخص لائق کرم نہیں جو معاویہ رضی الله عنہ کو گالی دے

وقال ابن هانيء: وسئل (يعني أبا عبد الله أحمد بن حنبل) عن الذي يشتم معاوية أيصلى خلفه؟ قال: لا يصلى خلفه ولا كرامة. «سؤالاته» (296) .

ابن هانيء: نے کہا میں نے احمد سے پوچھا کیا اس کے پیچھے نماز پڑھ لوں جو معاویہ کو گالی دے ؟ کہا اس کے پیچھے نماز مت پڑھو نہ عزت کرو

   البتہ احمد نے  حب علی میں  مسند میں  شیعیت  کی راویات کو اکھٹا کر دیا جو بغداد میں اس دور میں سر چڑھ چکی تھی –

محدثين أور صوفیاء کا   اتحاد

سن ٢٠٠ ہجری کے بعد مسلمانوں میں قبر والوں سے شغف بڑھ رہا تھا – وہاں جا کر محدثین اپنی ببتائیں عرض کرتے اور قبور کو تریاق مجرب قرار دیتے تھے

ذهبی کتا ب سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب
اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے

امام احمد ابدال کی تلاش میں رہتے جن سے دعا کرا سکیں

امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله، دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة

احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے

اور ابن حبان کتاب ثقات میں لکھتے ہیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

ابن عساکر تاریخ الدمشق ج ٢ ص ٣١٥ میں لکھتے ہیں

مسجد مغارة الدم مسجد الدير الذي  كان لرهبان النصارى فجعل مسجدا

مسجد مغارة الدم  مسجد دیر عیسائی راہبوں کا مسکن تھے جن کو مسجد بنایا گیا

یہ مقام  جبل قاسيون دمشق میں ہے اور  ہابیل علیہ السلام سے منسوب تھا اور بعض کے نزدیک عزیر سے

کتاب البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق

بِجَبَلِ قَاسِيُونَ شَمَالِيَّ دِمَشْقَ مَغَارَةٌ يُقَالُ لَهَا مَغَارَةُ الدَّمِ مَشْهُورَةٌ بِأَنَّهَا الْمَكَانُ الَّذِي قَتَلَ قَابِيلُ أَخَاهُ هَابِيلَ عِنْدَهَا وَذَلِكَ مِمَّا تَلَقَّوْهُ عَنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَاللَّهُ أَعْلَمُ بِصِحَّةِ ذَلِكَ.

 جبل قاسیون شمال دمشق میں ایک غار ہے جس کو مَغَارَةُ الدَّمِ  کہا جاتا ہے جو اس مکان کے طور پر مشھور ہے اس میں قابیل نے ہابیل  کا قتل کیا تھا اور ایسا اہل کتاب میں قبول چلا آ رہا  ہے اور الله ہی اس بات کی صحت جانتا ہے

ابن کثیر مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ قدامة کے لئے البداية والنهاية میں لکھتے ہیں کہ ہر پیر اور جمعرات کو وہ اس مقام پر جاتے

 وَكَانَ يَزُورُ مَغَارَةَ الدَّمِ فِي كُلِّ يَوْمِ اثنين وخميس

یعنی زمین کے ان مقامات سے جہاں اولیاء الله کا قتل ہوا یا ان کی قبریں ہیں یہ تبرک  حاصل کرنے کے مقامات عوام کے علاوہ خواص محدثین میں بھی مشہور ہو چلے تھے- زمین و آسمان میں روحانیت کے ڈانڈے قبروں پر جا کر مل رہے تھے

اسی دوران محدثین اپس میں غیر محسوس انداز میں وہ روایات صحیح کہہ رہے تھے جن کو بیان کرنے سے سلف امت یعنی امام مالک منع کرتے تھے یعنی روایت کہ الله نے آدم کو صورت رحمان پر پیدا کیا

کتاب قوت القلوب از  أبو طالب المكي میں ہے

وهجر الإمام أحمد بن حنبل رحمه الله تعالى أبا ثور صاحب الشافعي لما سئل عن معنى قول النبي: إن اللّه تعالى خلق آدم على صورته قال: إن الهاء عائدة على آدم فغضب وقال: ويله وأي صورة كانت لآدم يخلقه عليها؟ ويله يقول إن اللّه تعالى خلق على مثال فأي شيء يعمل في الحديث المفسر إن الله تعالى خلق آدم على صورة الرحمن، فبلغ ذلك أبا ثور فجاءه واعتذر وحلف أنه ما قلت عن اعتقاد وإنما هو رأي رأيته والقول ما قلت وهو مذهبي

اور امام احمد بن حنبل نے ابو ثور صاحب الشافعی   کی تفسیر پر  اختلاف کیا  جب ابو ثور  سے  قول نبوی پر سوال ہوا  کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا ؟  أبا ثور صاحب الشافعي  نے کہا اس میں  الهاء کی ضمیر  آدم کی طرف ہے- پس احمد کو غصہ آیا اور کہا : افسوس   آدم  کے لئے پھر کیا  صورت پر تھی جس پر ان کی تخلیق ہوئی؟   تو کس چیز  (صورت )  پر   تخلیق آدم میں عمل ہوا (  پھر)  حدیث  میں تفسیر  آ گئی ہے کہ الله تعالی نے آدم کو صورت رحمان پر خلق کیا- پس  جب یہ بات ابو ثور کو پہنچی وہ   آئے اور عذر  پیش کیا اور قسم لی کہ انہوں نے رائے سے کلام کیا تھا ، نہ کہ اعتقاد  سے اور ان  کا قول بھی وہی ہے جو احمد کا ہے اور یہی (اب ) ان کا مذھب ہے

ساتویں صدی ہجری میں انہی اجزاء کو شیخ صوفیاء  محی الدین ابن العربی المتوفی ٦٣٨ ھ  جن کو شیخ اکبر کہا جاتا ہے انہوں نے اس پر کتاب الفتوحات المکیہ میں   حدیث إن الله خلق آدم على صورة الرحمن کے حوالہ سے لکھا

ج ١ ص ٧٨ : ورد في الحديث إضافة الصورة إلى الله في الصحيح وغيره مثل حديث عكرمة قال عليه السلام ” رأيت ربي في صورة شاب الحديث ” هذا حال من النبي صلى الله عليه وسلم وهو في كلام العرب معلوم متعارف وكذلك قوله عليه السلام ” إن الله خلق آدم على صورته اعلم أن المثلية الواردة في القرآن لغوية لا عقلية

اور الصحیح میں  حدیث میں آیا ہے صورت کی اضافت الله کی طرف ہے اور دیگر میں بھی جیسے عکرمہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو جوان کی صورت دیکھا یہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حال بیان کیا جو کلام عرب معلوم ہے اور متعارف ہے اور اسی طرح اپ کا قول ہے بے شک الله نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا – جان لو کہ  مثالین جو  قرآن میں  ہیں وہ لغوی ہیں عقلی نہیں ہیں

ج ١ ص ٩ : من الخبر الثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الله خلق آدم على صورته من حيث إعادة الضمير على الله ويؤيد هذا النظر الرواية الأخرى وهي قوله عليه السلام على صورة الرحمن وهذه الرواية وإن لم تصح من طريق أهل النقل فهي صحيحة من طريق الكشف

نبی صلی الله علیہ وسلم سے خبر ثابت ہے کہ الله نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا اس وجہ سے کہ اس میں ضمیر پلٹتی ہے الله کی طرف اور اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہے جس میں ہے صورت الرحمان پر خلق کیا اور یہ وہ روایت ہے اور اگر یہ اہل نقل کے نزدیک سندا صحیح نہ بھی ہو تو یہ صحیح  ہوئی ہے کشف سے

پھر ابن عربی حروف  کے اسرار پر بات کرتے ہیں

ج ٣ ص ٥١ : فقوله للشئ كن بحرفين الكاف والنون بمنزلة اليدين في خلق آدم

الله کا قول کہ کن کہتا ہے اس میں دو حرف ہیں ک اور ن  یہ آدم کی تخلیق میں ہاتھوں کی طرح ہیں

ج ٤ ص ٤٩ : وورد في الصحيح أن الله خلق آدم على صورته وهو الإنسان الكامل

اور الصحیح میں آیا ہے کہ الله نے آدم کو اپنی  صورت پر خلق کیا اور وہ الانسان الکامل تھے

ج ١ ص ٣٣ : ولهذا قال إن الله خلق آدم على صورة الرحمن فنطقت بالثناء على موجدها فقالت لام ياء هاء حاء طاء فأظهرت نطقاً ما خفي خطاً لأن الألف التي في طه وحم وطس موجودة نطقاً خفيت

اور اس وجہ سے الله نے آدم کو اپنی صورت خلق کیا پس اپنی موجودات کی تعریف بولی پس کہا

ل  ی ھ ح ط  پس اس سے ظاہر ہوا گویائی ظاہر ہوئی

پھر ابن عربی نے اس کتاب میں حروف کو عالموں سے ملایا

عالم الجبروت عند أبي طالب المكي ونسميه نحن عالم العظمة وهو الهاء والهمزة

العالم الأعلى وهو عالم الملكوت وهو الحاء والخاء والعين والغين

العالم الوسط وهو عالم الجبروت عندنا وعند أكثر أصحابنا وهو التاء والثاء والجيم والدال والذال والراء والزاي والظاء والكاف واللام والنون والصاد والضاد والقاف والسين والشين والياء

عالم الامتزاج بين عالم الجبروت الوسط وبين عالم الملكوت وهو الكاف والقاف

العالم الأسفل وهو عالم الملك والشهادة وهو الباء والميم والواو

یعنی ابن عربی نے حدیث سے وہ وہ ثابت کر دیا کہ خالق و مخلوق کے بیچ کی حدیں سمٹنے لگیں

اس طرح انسان الکامل کا تصور بن گیا

محدثین قبروں پر جا رہے تھے وہاں دعا کرتے صاحب قبر کو پکارتے نہیں تھے – امام الذھبی نے اس کا ذکر کیا کہ

سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٣٤٣ پر  کہتے ہیں  ہیں

يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

  ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

محدثین خواب  میں صوفیاء کی خبریں پا رہے تھے –  القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ  از  شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) کے مطابق

أبي بكر بن محمد بن عمر قال كنت عند أبي بكر بن مجاهد فجاء الشبلي فقام إليه أبو بكر بن مجاهد فعانقه وقبل بين عينيه، وقلت له يا سيدي تفعل بالشبلي هكذا وأنت وجميع من ببغداد يتصوران أو قال يقولون أنه مجنون فقال لي فعلت كما رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فعل به وذلك أني رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في المنام وقد أقبل الشبلي فقام إليه وقبل بين عينيه فقلت يا رسول الله أتفعل هذا بالشبلي فقال هذا يقرأ بعد صلاته لقد جاءكم رسول من أنفيكم إلى آخر السورة ويتبعها بالصلاة علي وفي رواية لأنه لم يصل صلاة فريضة إلا ويقرأ {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ} الآية، ويقول ثلاث مرات صلى الله عليك يا محمد، صلى الله عليك يا محمد، صلى الله عليك يا محمد، قال فلما دخل الشبلي سألته عما يذكر في الصلاة فذكر مثله، وهي عند ابن بشكوال من طريق أبي القاسم الخفاف قال كنت يوماً اقرأ القرآن على رجل يكني أبا بكر وكان ولياً لله فإذا بأبي بكر الشبلي قد جاء إلى رجل يكني بأبي الطيب كان من أهل العلم فذكر قصة طويلة وقال في آخرها: ومشى الشبلي إلى مسجد أبي بكر بن مجاهد فدخل عليه فقام إليه فتحدث أصحاب ابن مجاهد بحديثهما وقالوا له أنت لم تقم لعلي بن عيسى الوزير وتقوم للشبلي فقال ألا أقوم لمن يعظمه رسول الله – صلى الله عليه وسلم – رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في النوم فقال لي يا أبا بكر إذا كان في غد فييدخل عليك رجل من أهل الجنة فإذا جاءك فأكرمه قال ابن مجاهد فلما كان بعد ذلك بليلتين أو أكثر رأيت النبي – صلى الله عليه وسلم – في المنام فقال لي يا أبا بكر أكرمك الله كما أكرمت رجلاً من أهل الجنة، فقلت يارسول الله لم أستحق الشبلي هذا منك فقال هذا رجل يصلي خمس صلوات يذكر في أثر كل صلاة ويقرأ {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ} الآية، يقول ذلك منذ ثمانين سنة أفلا أكرم من يفعل هذا؟ قلت ويستأنس هنا بحديث أبي إمامه – رضي الله عنه – عن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال من دعا بهؤلاء الجعوات في دبر كل صلاة مكتوبة حلت له الشفاعة مني يوم القيامة، اللهم أعط محمداً الوسيلة وأجعل في المصطفين محبته وفي العالمين درجته وفي المقربين داره رواه الطبراني في الكبير وفي سنده مطرح بن يزيد وهو ضعيف, وأما عند إقامة الصلاة فعن الحسن البصري قال من قال مثل ما يقول المؤذن فإذا قال المؤذن قد قامت الصلاة قال اللهم رب هذه الدعوة الصادقة والصلاة القائمة صل على محمد عبدك وروسلك وأبلغه درجة الوسيلة في الجنة، دخل في شفاعة محمد صلى الله عليه وسلم أو نالته شفاعة محمد – صلى الله عليه وسلم – رواه الحسن بن عرفة والنميري.

الزاهد أبو بكر دلف بن جعفر بن يونس الشبلي كي پیدائش سن ٢٤٧ ہے اور وفات ٣٣٤ ہجری  ہے

 

تذکرہ کچھ متصوفین کا

غیر مقلد  عبد اللہ محدث روپڑی

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 150 – 155 جلد 01 فتاویٰ اہل حدیث – حافظ عبد اللہ محدث روپڑی – ادارہ احیاء السنۃ النبویۃ، سرگودھا​

اب رہی ”توحید الٰہی” سو اس کے متعلق بہت دنیا بہکی ہوئی ہے۔ بعض تو اس کا مطلب ” ہمہ اوست” سمجھتے ہیں یعنی ہر شئے عین خدا ہے، جیسے برف اور پانی بظاہر دو معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت ایک ہے اسی طرح خدا اور دیگر موجودات ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تمام موجودات وحدت حقیقی کا عکس ہیں۔ جیسے ایک شخص کے ارد گرد کئی شیشے رکھ دیئے جائیں تو سب میں اس کا عکس پڑتا ہے ایسے ہی خدا اصل ہے اور باقی اشیاء اس کا عکس ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ کُلی جزئ کی مثال ہے جیسے انسان اور زید عمر بکر ہیں۔ حقیقت سب کی خدا ہے اور یہ تَعَیُّنَات حوادث ہیں۔ غرض دُنیا عجیب گھورکھدندے میں پڑی ہوئی ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔
صحیح راستہ اس میں یہ ہے کہ اگر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ خدا کے کوئی شئے حقیقۃً موجود نہیں اور یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ محض توہمات ہیں جیسے ”سوفسطائیہ” فرقہ کہتا ہے کہ آگ کی گرمی اور پانی کی برودت وہمی اور خیالی چیز ہے تو یہ سراسر گمراہی ہے۔ اور اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ موجودات انسانی ایجادات کی طرح نہیں کہ انسان کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں بلکہ یہ ان کا وجود خدا کے سہارے پر ہے اگر اُدھر سے قطع تعلق فرض کیا جائے تو ان کا کوئی وجود نہیں۔ تو یہ مطلب صحیح ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بجلی کا کرنٹ (برقی رَو) قمقموں کے لئے ہے۔ گویا حقیقت میں اس وقت بھی ہر شئے فانی ہے مگر ایک علمی رنگ مین اس کو سمجھنا ہے اور ایک حقیقت کا سامنے آنا ہے۔ علمی رنگ مین تو سمجھنے والے بہت ہیں مگر حقیقت کا اس طرح سامنے آنا جیسے آنکھوں سے کوئی شے دیکھی جاتی ہے یہ خاص اربابِ بصیرت کا حِصّہ ہے گویا قیامت والی فنا اس وقت ان کے سامنے ہے۔ پس آیہ کریمہ کل شئ هالك الا وجهه۔ ان کے حق مین نقد ہے نہ اُدھار۔
نوٹ:
ابن عربیؒ، رومیؒ اور جامیؒ وغیرہ کے کلمات اس توحید مین مشتبہ ہیں۔ اس لئے بعض لوگ ان کے حق مین اچھا اعتقاد رکھتے ہیں بعض بُرا۔ ابن تیمیہؒ وغیرہ ابن عربیؒ سے بہت بدظن ہیں۔ اسی طرح رومیؒ اور جامیؒ کو کئی علماء برا کہتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ جب ان کا کلام محتمل ہے جیسے جامیؒ کا کلام اُوپر نقل ہو چکا ہے اور وہ درحقیقت ابن عربیؒ کا ہے۔ کیونکہ ابن عربی کی کتاب ”عوارف المعارف” سے ماخوذ ہے تو پھر ان کے حق مین سُوء ظنی ٹھیک نہیں۔ اسی طرح رومیؒ کو خیال کر لینا چاہیئے، گرض حتی الوسع فتویٰ میں احتیاط چاہیئے۔ جب تک پُوری تسلی نہ ہو فتویٰ نہ لگانا چاہیئے خاص کر جب وہ گزرچکے۔اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہو چکا تو اَب کُرید کی کیا ضرورت؟ بلکہ صرف اس آیت پر کفایت کرنی چاہیئے۔
تلك امة قد خلت لها ماكسبت ولكم كسبتم ولا تسئلون عما كانو تعملون
نوٹ:
ابن عربیؒ وغیرہ کاکچھ ذکر ”تنظیم” جلد 9 نمبر 22 مورخہ 29 مارچ 1940 ء مطابق 20 صفر المظفر 1359 ھ میں بھی ہو چکا ہے اور رسال ”تعریف اہلسنت” کے صفحہ 365 ، 366 میں بھی ہم اس کے متعلق کافی لکھ چکے ہیں زیادہ تفصیل مطلوب ہو تو وہاں ملاحظہ ہو۔

ابن عربی کو رحمہ الله علیہ لکھا گیا ہے

 

نذیر حسین

ملا حظہ فرمائیں: صفحہ 123 – 124 الحیاۃ بعدالمماۃ – فضل حسین بہاری – المکتبۃ الاثریہ، سانگلہ ہل

یعنی شیخ کی آخری تصنیف فتوحات مکیہ سے ان کے گناہ کا کفارہ ہو گیا ہے

ثناء اللہ امرتسری  

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 334 جلد 01 فتاویٰ ثنائیہ – ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری – ادارہ ترجمان السنہ، لاہور

خطبات بہاولپوری

راقم کہتا ہے تصوف سے ہندوستان ہی نہیں محدثین بھی متاثر تھے – سچ بولیں اور سچ  پھیلائیں

 

غلغلہ مہدی ، جہادی اور علماء ٢

کتاب  روایات ظہور مہدی

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

راقم  سن ٢٠٠٠ ع  سے  روایات مہدی و مسیح پر  تحقیق کر رہا ہے –  راقم اپنی تحقیقات کو حرف آخر نہیں کہتا بلکہ  یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جہت میں مزید باب کھلیں گے اگر  مسئلہ مہدی پر   غیر جانبداری سے تحقیق ہو- افسوس   امام ابن خلدون    نے مسئلہ  پر کلام کیا تھا لیکن ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا – یہ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ اپنے عبقری اذہان کی ناقدری کرتے ہیں –   اس کتاب کو ٢٠١٥ میں اس ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا-  کتاب میں صرف  اہل سنت    کے  نظریہ مہدی  پر غور کیا گیا  ہے جس کو بعض لوگ عقیدہ سمجھ رہے ہیں –      نظریہ مہدی  کے پس پردہ کیا    مذہبی  و سیاسی   افکار ہیں ؟ ان پر غور کیا گیا ہے –     اس     کی جڑیں     وہ    احادیث  و آثار ہیں جو محدثین نے اپنی کتابوں میں سب سے آخر میں نقل کیں -کتاب  میں    تاریخی حقائق  کے میزان پر   روایات مہدی کا جانچا  گیا ہے –   اس سلسلے میں  رہنمائی  جرح و تعدیل کی کتب سے   ملتی ہے کہ متقدمین محدثین اس سلسلے میں کسی بھی مرفوع قول  نبوی کو صحیح نہیں قرار دیتے تھے مثلا  امام وکیع بن جراح  اور عبد الرحمان بن المہدی    وغیرہ

عصر حاضر میں    شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد پر ایک گروہ   مدینہ میں مہدی تلاش کر رہا ہے اور اپنا مخالف   کوئی اصفہانی فارسی  دجال بتاتا  ہے – دوسری طرف شیعہ ہیں  جنہوں نے  امام مہدی کو   مافوق الفطرت  قرار دے دیا ہے جو ابھی تک اپنے غار میں ہیں

 مسلمانوں میں اس بنا پر مشرق وسطی کا پورا خطہ  خون کی ہولی میں نہا رہا ہے –   اپنی سیاست کی بساط  احادیث رسول  و اہل بیت کے نام پر بچھا  کر  نوجوانوں کو شطرنج   کے  مہروں کی طرف  جنگ و جدل میں   دھکیلا  جا رہا  ہے –    داعش اور اس قبیل کی فسادی تنظیموں نے عراق میں خلافت  بھی بنا لی ہے اور ابھی  نا معلوم کتنی معصوم مسلمان لڑکیوں کو  خلیفہ  کی مخالفت کے جرم میں لونڈی بنایا جا رہا ہو گا ؟       پتا نہیں کس کا سر کاٹا جا رہا ہو گا ؟ اور دلیل  روایت سے لی جا رہی  ہو گی –  اب یہ تو ظاہر فساد ہے اور پس پردہ  معصوم بنے یہ علماء ہیں جو چپ سادھے   لونڈی کو کھنگالنے   والی  روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں کہ اس کو سر بازار  کھول کر دیکھا جا سکتا ہے – افسوس   شام کے عرب محقق  البانی اس طرح کی   روایات کو صحیح الاسنا د کہہ گئے ہیں –  شام کے فضائل پر کتابیں   جو لوگ بھول چلے تھے  البانی    نے   ان پر  تعلیق لکھی–  اور نهایة العالم      (عالم کا اختتام ) نام کی کتب نے  لوگوں کو اس طرف لگا دیا کہ  قرب قیامت ہے ، مہدی انے والا ہے –   ساتھ ہی  مدخلیت   (ربیع المدخلی سے منسوب تکفیری سوچ)   مدینہ سے نکلی  جو ایک وبا کی طرح  عربوں میں پھیلی  اور  مصر سے  یہ  تکفیری سوچ  عرب سے ہوتی  اسامہ بن لادن کے ساتھ افغانستان پہنچی اور ایک وبا کی طرح عالم   اسلام میں پھیلی

اب  ایک کے بعد ایک مہدی آ رہے ہیں اور آئیں  گے

 ایک عام مسلمان آخر کیا کرے – مسئلہ کے  حل کے لئے کہاں جائے؟     مسجدوں میں  محراب و منبر سے  نظریہ مہدی کی تبلیغ کی جاتی ہے   اور دعوی کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے کی تمام احادیث صحیح ہیں –  ہر بدلتی صدی میں    قائلین   ظہور مہدی کے تضاد لا تعداد  ہیں  مثلا  ایک روایت جو  ثوبان رضی الله عنہ سے مروی ہے اس کے مطابق  عرب کے مشرق سے   ، خراسان سے جھنڈے آئیں گے اور   ان میں الله کا خلیفہ المہدی ہو گا – اس روایت کو متقدمیں محدثین رد کرتے تھے –  لیکن   بعد میں  لوگ آئے   جنہوں نے علم چھپایا اور   اس روایت کو صحیح کہا – اس کے بعد خراسان میں طالبان آ گئے – مخالف  حلقوں میں  اب ثوبان والی روایت ضعیف قرار پائی  اور واپس وہی محدثین  کی آراء پیش کرنے لگ گئے کہ یہ روایت صحیح نہیں –  ام سلمہ رضی الله عنہا سے مروی  ایک حدیث ہے کہ تین خلفاء کے بیٹوں میں فساد ہو گا  وغیرہ  (اس کی تفصیل کتاب میں ہے)  اس کو البانی نے ضعیف کہا تھا   لیکن   اس کو صحیح مان کر  کتابوں میں پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ حوثی نکل آئے اب  واپس البانی  کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ یہ ضعیف تھی –   اس طرح    مہدی و مسیح کے نام پر سیاست جاری ہے جس میں علماء پس پردہ کام کر رہے ہیں

راقم کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کاش یہ علماء  دیدہ بینا  کے ساتھ اس ظلم سے کنارہ کشی کرتے

اے کاش

ہمارے گراں قدر ناقدین نے ہماری توجہ چند کتب کی طرف کرائی ہے  – ایک عبد العليم البستوي کتاب  الاحاديث الواردة في المهدي في ميزان الجرح والتعديل ہے   جو مدینہ یونیورسٹی   میں ایک مقالہ کے طور پر لکھی گئی تھی  اور دوسری   کتاب مہدی علیہ السلام سے متعلق صحیح عقیدہ میں عبد الہادی  عبد الخالق مدنی   جو سعودی عرب میں  الاحسا  ء  سے  چھپی ہے –  اس کے علاوہ اردو میں اس مسئلہ مہدی پر جو کتب ہیں ان سے بھی استفادہ کیا گیا ہے –  لہذا   محقیقن کی آراء کو    کتاب هذا   میں  حواشی میں  اور بعض مقام پر متن میں  شامل کر دیا گیا ہے  تاکہ  قارئین کے  آگے     صرف ہماری رائے ہی نہ ہو  تو وہ پوری دیانت سے جو راقم  کہنا چاہتا ہے اس کو سمجھ سکیں

الله مومنوں کا حامی و ناصر ہو اور ان کو شر  اور فتنہ مہدی و دجال سے محفوظ رکھے

امین

ابو شہریار

٢٠١٧


تاریخ ٢

ڈاکٹر اسرار احمد کا حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں یہ موقف تھا ۔۔۔۔ کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حسن رضی کی خلافت کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت علی رضی نے فرمایا ۔۔۔نہ میں تم کو اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی اس سے منع کرتا ہوں تم جسے چاہو امر خلافت کے لئے بہتر سمجھو اُسے مقرر کر لینا ۔۔۔۔۔ کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

البداية والنهاية میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ علی نے کہا
قَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ عَلِيًّا، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا ضَرَبَهُ ابْنُ مُلْجَمٍ قَالُوا لَهُ: اسْتَخْلِفْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. فَقَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَدَعُكُمْ كَمَا تَرَكَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَنْهُ وَسَلَّمَ – يَعْنِي بِغَيْرِ اسْتِخْلَافٍ
میں تم کو کسی کی طرف نہیں بلاتا اور ایسے ہی چھوڑ رہا ہوں جیسے رسول الله نے بغیر خلیفہ کیے چھوڑا
یہ قول بلا سند ہے
ابن کثیر تاریخ میں بے پر کی اڑا دیتے ہیں اور وثوق سے بیان کرتے ہیں کہ گویا یہ سچ ہو
اغلبا اسرار احمد نے اسی کتاب کو دیکھا ہو گا
راقم سمجھتا ہے علی رضی الله عنہ نے ایسا کچھ نہیں کہا ہو گا وہ حسن رضی الله عنہ کو ہی خلیفہ کر کے گئے ہوں گے کیونکہ علی شروع سے خلافت کے متمنی تھے (اس پر بخاری کی روایت بھی ہے) اور بڑی مشکل سے وہ خلیفہ ہوئے تھے – خلافت کوئی عام چیز نہیں کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے
—————
انساب الاشرف میں ہے خلافت چھوڑنے کے بعد حسن نے کہا
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بن أبراهيم الدور في، ومحمد بن حاتم المروزي قالا: حدثنا أَبُو دَاوُدَ- صَاحِبُ الطَّيَالِسَةِ- عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يزيد بن حمير، عن عبد الرحمان بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ: إِنَّكَ تُرِيدُ الْخِلَافَةَ. فَقَالَ: [كَانَتْ جَمَاجِمُ الْعَرَبِ بِيَدِي يُسَالِمُونَ مَنْ سَالَمْتُ، وَيُحَارِبُونَ مَنْ حَارَبْتُ، فَتَرَكْتُهَا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ، ثُمَّ أُرِيدُهَا بِأَهْلِ الْحِجَازِ؟ وَقَالَ أحدهما: يا أتياس الحجاز؟
جبیر بن نفیر نے روایت کیا کہ انہوں نے حسن سے کہا لوگ کہتے ہیں اپ خلافت چاہتے ہیں – حسن نے کہا عرب کی کھوپڑیاں (یعنی جمہور) میرے پاس ہیں جس کو میں چھوڑووں یہ چھوڑتے ہیں جس میں میں لڑو لڑتے ہیں لیکن میں نے الله کی رضا کے لئے اس کو چھوڑا – پھر یہ اہل حجاز کیا چاہتے ہیں یا کہا یہ بلیک میل کرتے ہیں
ایک نسخہ میں لکھا ہے
فتركتها ابتغاء وجه الله، ثم أبتزها بأتياس أهل الحجاز؟
اہل حجاز بلیک میل کرتے ہیں
سند میں يزيد بن حمير مجھول ہے
——

امام حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے کہ علی کے قتل کی رات حسن نے خطبہ دیا

أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي فَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَنَا ابْنُ النَّبِيِّ، وَأَنَا ابْنُ الْوَصِيِّ، وَأَنَا ابْنُ الْبَشِيرِ، وَأَنَا ابْنُ النَّذِيرِ، وَأَنَا ابْنُ الدَّاعِي إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ، وَأَنَا ابْنُ السِّرَاجِ الْمُنِيرِ، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِي كَانَ جِبْرِيلُ يَنْزِلُ إِلَيْنَا وَيَصْعَدُ مِنْ عِنْدِنَا، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِي أَذْهَبَ اللَّهُ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهَّرَهُمْ تَطْهِيرًا، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِي افْتَرَضَ اللَّهُ مَوَدَّتَهُمْ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا} [الشورى: 23] فَاقْتِرَافُ الْحَسَنَةِ مَوَدَّتُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ
اے لوگوں جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں حسن بن علی ہوں اور میں ابن نبی ہوں اور ابن الوصی ہوں اور میں ابن النذیر ہوں اور ابن بشیر ہوں اور ابن الداعی ہوں الله کے اذن سے اور میں روشن چراغ کا بیٹا ہوں اور میں اہل بیت میں سے ہوں ہم پر جبریل اتے تھے اور ہمارے ہاں سے اوپر جاتے تھے اور میں وہ اہل بیت ہوں جن سے رجس کو دور کیا گیا اور ان کو خوب پاک کیا گیا اور میں اہل بیت میں سے ہوں جن سے محبت کرنا الله نے ہر مسلم پر فرض کیا پس الله تعالی نے کہا

اس کی سند میں إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ جَعْفَرِ مجہول ہے
———–

مستدرک الحاکم میں ہے
أَنَا حَمْزَةُ بْنُ الْعَبَّاسِ بْنِ الْفَضْلِ الْعَقَبِيُّ بِبَغْدَادَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ سَلَّامٍ السَّوَّاقُ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا شَيْبَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: بُويِعَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ بِالْكُوفَةِ عُقَيْبَ قَتْلِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ وَأَخَذَ الْبَيْعَةَ عَنْ أَصْحَابِهِ، فَحَدَّثَنِي حَارِثَةُ بْنُ مُضَرِّبٍ قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ يَقُولُ: «وَاللَّهِ لَا أُبَايِعُكُمْ إِلَّا عَلَى مَا أَقُولُ لَكُمْ» ، قَالُوا: مَا هِيَ؟ قَالَ: «تُسَالِمُونَ مَنْ سَالَمْتُ، وَتُحَارِبُونَ مَنْ حَارَبْتُ» ، وَلَمَّا تَمَّتِ الْبَيْعَةُ خَطَبَ
حسن کی بیعت ہوئی علی کی کے بعد اور میں نے سنا حسن نے کہا الله کی قسم میں جو کہہ رہا ہوں اس پر بیعت کر رہا ہوں – لوگوں نے پوچھا کیا ؟ حسن نے کہا کہ جس کو چھوڑوں چھوڑ دینا اور جس سے جنگ کروں کرنا
اس کی سند میں عبيد الله بن موسى کٹر شیعہ ہیں اور محدثین اس سے روایت میں متذبذب رہے ہیں کبھی لکھتے کبھی نہ لکھتے
امام بخاری کے شیخ ہیں

———-
الغرض اس پر یہ روایت و آراء ہیں

3199 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دُحَیْمٍ الشَّیْبَانِیُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ الْغِفَارِیُّ، ثنا أَبُو نُعَیْمٍ، وَقَبِیصَةُ، قَالَا: ثنا سُفْیَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَعَانَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ قَبْلَ تَحْرِیمِ الْخَمْرِ، فَحَضَرَتْ صَلَاةُ الْمَغْرِبِ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ ” فَقَرَأَ قُلْ یَا أَیُّهَا الْکَافِرُونَ فَالْتَبَسَ عَلَیْهِ فَنَزَلَتْ {لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُکَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ} [النساء: 43] الْآیَةُ «هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ یُخْرِجَاهُ» وَفِی هَذَا الْحَدِیثِ فَائِدَةٌ کَثِیرَةٌ وَهِیَ أَنَّ الْخَوَارِجَ تَنْسِبُ هَذَا السُّکْرَ، وَهَذِهِ الْقِرَاءَةَ إِلَى أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ دُونَ غَیْرِهِ وَقَدْ بَرَّأَهُ اللَّهُ مِنْهَا فَإِنَّهُ رَاوِی هَذَا الْحَدِیثِ ”

[التعلیق – من تلخیص الذهبی] 3199 – صحیح

جواب

عبد الله بن حبيب أبو عبد الرحمن السلمي نے کہا علی نے کہا انصار میں سے ایک رجل نے ہمیں بلایا – مغرب کی نماز کا وقت ہوا وہ شخص آگے بڑھا نماز میں قرات کی جس میں التباس پیدا ہوا اس پر آیت نازل ہوئی
حاکم نے کہا یہ صحیح الاسناد ہے … اس میں خوارج نے علی سے اس مدہوشی کی نسبت کی اور الله نے ان کو اس الزام سے فارغ کیا
————

مستدرک حاکم میں ہے
———-

سند منقطع ہے یا نہیں اس پر اختلاف ہے
عبد الله بن حبيب أبو عبد الرحمن السلمي کا سماع علی سے نہیں ہے
قال أبو حاتم لا تثبت روايته عن علي رضي الله عنه
ابو حاتم نے کہا اس کی روایت علی سے ثابت نہیں ہے
قال شعبة: لم يسمع أبو عبد الرحمن من عثمان، ولا من عبد الله، ولكن قد سمع من علي
شعبہ کہتے ہیں علی سے سنا ہے

واقدی کا کہنا ہے
قال: أبو عبد الرحمن [السلمي] شهد مع علي صفين، ثم صار بعدذلك عثمانيا يعب أمر علي
أبو عبد الرحمن نے علی کے ساتھ صفین کی جنگ کو دیکھا پھر ان سے الگ ہو کر عثمان کے (حمایتی) ہوئے اور علی کو امر (خلافت) میں عیب دیتے تھے
یعنی یہ صاحب علی سے ان کی زندگی میں ہی متنفر ہو چکے تھے
——-
امامت کس نے کی ؟ اس پر روایات میں اختلاف ہے
روى أن عبد الرحمن ابن عوف رضى الله عنه دعا المسلمين لطعام ، فأكلوا وشربوا الخر ، قبل أن تحرم ، فسكروا ، فصلوا المغرب ، وقرأ إمامهم علىّ بن أبى طالب ، وقيل عبد الرحمن بن عوف ، كما روى عن عبد الله نفسه أنه المصلى إماماً وكما روى وعن علىّ أن الإمام حينئذ عبد الرحمن
روایت کیا جاتا ہے عبد الرحمن ابن عوف رضى الله عنه نے مسلمانوں کی دعوت کی اور کھایا پیا شراب پی پھر مغرب پڑھی اور علی امام ہوئے قرات کی اور کہا جاتا ہے قرات عبد الرحمن ابن عوف رضى الله عنه نے کی اور عبد الله ابن مسعود کی اپنی روایت میں انہوں نے امامت کی اور علی کی روایت ہے کہ عبد الرحمن ابن عوف رضى الله عنه نے امامت کی

سنن الکبری بیہقی میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، أنا أَبُو بَكْرِ بْنُ دَاسَةَ ثنا أَبُو دَاوُدَ ثنا مُسَدَّدٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ [ص:573] رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ دَعَاهُ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ فَسَقَاهُمَا قَبْلَ أَنْ يَحْرُمَ الْخَمْرُ فَأَمَّهُمْ عَلِيٌّ فِي الْمَغْرِبِ وَقَرَأَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ فَخَلَطَ فِيهَا فَنَزَلَتْ {لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعَلْمُوا مَا تَقُولُونَ} [النساء: 43]

أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِی نے کہا علی نے امامت کی
—–
سنن الکبری نسائی میں ہے علی نے امامت کی
عَنْ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ ابْنِ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ دَعَاهُ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، فَسَقَاهُمَا قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ الْخَمْرُ، فَأَمَّهُمْ عَلِيٌّ فِي الْمَغْرِبِ فَقَرَأَ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ فَخَلَطَ فِيهَا، فَنَزَلَتْ: {لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ} [النساء: 43] ”
أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِی نے کہا علی نے امامت کی
—-
ترمذی میں یہی راوی کہتا ہے عبد الرحمان بن عوف نے کی

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، نَحْوَ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ هِشَامٍ.
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: صَنَعَ لَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ طَعَامًا فَدَعَانَا وَسَقَانَا مِنَ الخَمْرِ، فَأَخَذَتِ الخَمْرُ مِنَّا، وَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَقَدَّمُونِي فَقَرَأْتُ: {قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ لاَ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ} وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ. قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ}.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.

أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِی نے کہا عبد الرحمان بن عوف نے امامت کی

———–

یعنی متن میں اضطراب بھی ہے أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِی نے کہا علی نے امامت کی اور یہ بھی بعض دفعہ کہا کسی انصاری نے کی
امام حاکم کو معلوم نہیں کیوں خوارج کی سوجھی کیونکہ شراب پی کر قرات میں غلطی کرنا سورہ نساء کی آیات کے نزول سے پہلے گناہ نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ ایک چیز جب حرام ہی نہیں تو اس کے اثرات کے تحت کوئی کچھ بھی کر سکتا ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ بُكِيَ عَلَيْهِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ الله عَنْهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ يَبْكُوا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ الله عَنْهُ لِهِشَامِ بْنِ الْوَلِيدِ قُمْ فَأَخْرِجِ النِّسَاءَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ الله عَنْهَا أُحَرِّجُكَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ الله عَنْهُ ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنْتُ لَكَ فَدَخَلَ فَقَالَتْ أَمُخْرِجِي أَنْتَ يَا بُنَيَّ فَقَالَ أَمَّا لَكِ فَقَدْ أَذِنْتُ لَكِ فَجَعَلَ يُخْرِجُهُنَّ امْرَأَةً امْرَأَةً وَهُوَ رَضِيَ الله عَنْهُ يَضْرِبُهُنَّ بِالدِّرَّةِ فَخَرَجَتْ أُمُّ فَرْوَةَ وَفَرَّقَ بَيْنَهُنَّ أَوْ قَالَ فَرَّقَ بَيْنَ النَّوَائِحِ

سعید بن مسیب نے کہا جب ابو بکر مر گئے ان پر (گھر والے) روئے – عمر نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے میت کو زندہ کے رونے پر عذاب ہوتا ہے پس انہوں نے منع کیا- عمر نے ہشام بن الولید سے کہا اٹھو عورتوں کو باہر کرو – عائشہ نے کہا تم نکلو- عمر نے کہا ہشام تم حجرہ میں داخل ہو تم کو اجازت میں نے دی – عائشہ نے کہا تم مجھ کو بیٹے نکالو گے ؟ اس نے کہا اپ یہ کریں اپ کے لئے مجھے حکم دیا گیا ہے – پس ایک ایک عورت کو نکال دیا اور عائشہ نے اس کو درہ مارا پس ام فروہ نکلیں اور عائشہ اور ہشام کو دور کیا یا کہا رونے والیوں کو اس سے الگ کیا

جواب

سند منقطع ہے سعید بن المسیب
ولد لسنتين مضتا من خلافة عمر رضي الله عنه
خلافت عمر میں دو سال گزرے تب پیدا ہوئے
یہ قول خود سعید کا ہے
يحيى بن سعيد قال: سمعت سعيد بن المسيب يقول: ولدت لسنتين مضتا من خلافة عمر »

قال أبو حاتم لا يصح له سماع
ابی حاتم کہتے ہیں عمر سے سماع بھی نہیں ہے

راقم کو لگتا ہے یہ عبد الرزاق کے اختلاط کے دور کی روایت ہے

صحيح البخاري: كِتَابُ الجَنَائِزِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ) صحیح بخاری: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل

(باب: نبی کریمﷺ اور صحابہ کی قبروں کا بیان)

1390 . حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِلاَلٍ هُوَ الوَزَّانُ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي لَمْ يَقُمْ مِنْهُ: «لَعَنَ اللَّهُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ، لَوْلاَ ذَلِكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ غَيْرَ أَنَّهُ خَشِيَ – أَوْ خُشِيَ أَنَّ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا وَعَنْ هِلاَلٍ، قَالَ: كَنَّانِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَلَمْ يُولَدْ لِيحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ سُفْيَانَ التَّمَّارِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ: «أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا» حَدَّثَنَا فَرْوَةُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، لَمَّا سَقَطَ عَلَيْهِمُ الحَائِطُ فِي زَمَانِ الوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ المَلِكِ، أَخَذُوا فِي بِنَائِهِ فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ، فَفَزِعُوا وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ: «لاَ وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ»

حکم : صحیح 1390 .

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن حمیدنے‘ ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ جانبرنہ ہوسکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی یہود ونصاریٰ پر لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مساجد بنالیا۔ اگر یہ ڈرنہ ہوتاتو آپ کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن ڈر اس کا ہے کہ کہیں اسے بھی لوگ سجدہ گاہ نہ بنالیں۔ اور ہلال سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر نے میری کنیت ( ابوعوانہ یعنی عوانہ کے والد ) رکھ دی تھی ورنہ میرے کوئی اولاد نہ تھی۔ہم سے محمد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم نے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے علی بن مسہرنے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں ( جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی ) دیوار گری اور لوگ اسے ( زیادہ اونچی ) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں خدا گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔

جواب

روایت صحیح ہے
اس پر کیا اشکال ہے ؟

طبقات ابن سعد میں ہے
قَالَ: أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ: لَمَّا سَقَطَ الْحَائِطُ عَنْهُمْ فِي زَمَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ أُخِذَ فِي بِنَائِهِ فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ فَفَزِعُوا وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ: لا وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيِّ. مَا هِيَ إِلا قَدَمُ عُمَرَ.

جمل من أنساب الأشراف از المؤلف: أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ) میں بھی ہے

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ الأَنْبَارِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ: لَمَّا سَقَطَ الْحَائِطُ عَلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأَبِي بَكْر وَعُمَرَ رَضِيَ الله عنهما فِي زَمَنِ الْوَليِدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَخَذُوا فِي بِنَائِهِ فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ فَفَزِعُوا وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ: وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا هِيَ إِلا قَدَمُ عُمَرَ.

الشريعة المؤلف: أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے
وَحَدَّثَنَا ابْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ بْنِ زَكَرِيَّا أَبُو حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ إِلَى الْقَبْرِ , فَأَمَرَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ اللَّهُ فَرُفِعَ حَتَّى لَا يُصَلِّيَ فِيهِ النَّاسُ , فَلَمَّا هُدِمَ بَدَتْ قَدَمٌ بِسَاقٍ وَرَقَبَةٍ؛ قَالَ: فَفَزِعَ مِنْ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَأَتَاهُ عُرْوَةُ فَقَالَ: هَذَا سَاقُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَرُكْبَتُهُ , فَسُرِّيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ
شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ نے هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ سے روایت کیا کہ میرے باپ عُرْوَةَ نے بیان کیا کہ لوگ قبر پر نماز پڑھتے – پس عمر بن عبد العزیز رحمہ الله نے اس کو بلند کیا کہ لوگ اس میں نماز نہ پڑھیں پس جب اس کو منہدم کیا تو ایک قدم پنڈلی … کے ساتھ دیکھا- کہا پس عمر بن عبد العزیز اس پر گھبرا گئے اور عروه آئے اور کہا یہ عمر کی پنڈلی ہے اور گھٹنے ہے -پس اس سے عمر بن عبد العزیز خوش ہوئے

حجرہ کی تعمیر کے وقت ایک دیوار گری اور قدم ظاہر ہو گیا – لوگوں کو لگا یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قدم ہو سکتا ہے اور سراسیمگی پھیل گئی اور پھر عروہ بن زبیر جو حجرہ عائشہ کو جانتے تھے انہوں نے انداز کر لیا کہ یہ قدم عمر کا ہے

اول اس کو صرف ہشام بن عروہ نے روایت کیا ہے
دوم عائشہ خود جنگ احد میں شامل تھیں

سیدنا انس فرماتے ہیں میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم کو دیکھا۔ وہ دونوں پائنچے چڑھائے ہوئے تھیں اور مجھے ان کی پنڈلیوں کے پچھلے حصے نظر آ رہے تھے۔ یہ دونوں مشکیں اوپر اٹھائے ہوئے تھیں اور مجاہدین کو پانی پلاتیں۔ پھر جا کر انھیں بھر لاتیں اور مجاہدین کو پانی پلاتیں۔
سوم جنگ بدر کے ایک واقعہ کی راوی ہیں

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهَا قَالَتْ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قِبَلَ بَدْرٍ فَلَمَّا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ أَدْرَكَهُ رَجُلٌ قَدْ كَانَ يُذْكَرُ مِنْهُ جُرْأَةٌ وَ نَجْدَةٌ فَفَرِحَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ رَأَوْهُ فَلَمَّا أَدْرَكَهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم جِئْتُ لِأَتَّبِعَكَ وَ أُصِيبَ مَعَكَ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ؟ قَالَ لاَ قَالَ فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ قَالَتْ ثُمَّ مَضَى حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالشَّجَرَةِ أَدْرَكَهُ الرَّجُلُ فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ قَالَ فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ قَالَ ثُمَّ رَجَعَ فَأَدْرَكَهُ بِالْبَيْدَائِ فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ ؟ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَانْطَلِقْ
ام ا لمومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ،بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر کی طرف نکلے۔ جب (مقام) حرۃ الوبرہ (جو مدینہ سے چار میل پر ہے) پہنچے ،تو ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، جس کی بہادری اور اصالت کا شہرہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اس کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو اس نے کہا کہ میں اس لیے آیا ہوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلوں اور جو ملے اس میں حصہ پاؤں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے؟” اس نے کہا کہ نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” تو لوٹ جا، میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا ۔”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جب (مقام)شجرہ پہنچے، تو وہ شخص پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور وہی کہا جو پہلے کہا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا اور فرمایا:” لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔” پھر وہ لوٹ گیا۔ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (مقام) بیداء میں ملا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا :”کیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا ہے؟ ” اب وہ شخص بولا کہ ہاں میں یقین رکھتا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” پھر چل۔ ”

چہارم اسامہ کے زخمی چہرہ  کو صاف کرنے کا حکم نبی نے ان کو دیا

سیدہ عائشہ صدیقہ کا بیان ہے کہ اسامہ دروازے کی چوکھٹ پر سے پھسل گئے اور ان کے چہرے پر زخم آ گیا۔ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ اسامہ سے گندگی دور کر دو۔ مجھے گھن آئی اسامہ تو خون چاٹنے لگے اور اسے اپنے چہرے سے ہٹانے لگے۔
جواب

اس حدیث میں ہشام کا تفرد نہیں ہے
مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانِ عَشْرَةَ»

مسند اسحاق میں ہے
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، نا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَجْلَحُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ وَدَخَلَ بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ

مسند ابی یعلی میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَبَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ. زَوَّجَهَا إِيَّاهُ أَبُو بَكْرٍ»

طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ سَهْلٍ الْحَنَّاطُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْأَسَدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «تَزَوَّجْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ»

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «أُدْخِلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَمَكَثْتُ عِنْدَهُ تِسْعَ سِنِينَ»
یہ روایات صحیح ہیں
———–
ان تمام کی اسناد میں “ملزم” ہشام بن عروه اور ان کی اولاد نہیں ہے

———-

ہجرت سے نو سال قبل عائشہ رضی الله عنہا کی پیدائش ہوئی اور اس دور میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا ابو بکر رضی الله عنہ کے گھر آنا جانا بھی تھا
پھر جب اپ ٦ سال کی ہوئیں تو ہجرت سے ٣ سال قبل اپ کا نکاح ہوا
اس عمر میں اپ جو باتیں یاد رکھ سکیں وہ وہی ہیں جو ایک ٦ سال کی بچی یاد رکھ سکے

کیا قرآن میں اسماعیل کا ذکر نہیں کہ بچہ جب چلنے لگا تو اس کے ذبح کا حکم آیا اس نے کہا اے باپ کر گزریے اپ مجھ کو صبر والا پائیں گے

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَابُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ

——-

سنن ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ ذُرَيْحٍ، عَنْ البَهِي عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: عَثَرَ أُسَامَةُ بِعَتَبَةِ الْبَابِ، فَشُجَّ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: “أَمِيطِي عَنْهُ الْأَذَى” فَتَقَذَّرْتُهُ، فَجَعَلَ يَمُصُّ عَنْهُ الدَّمَ وَيَمُجُّهُ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: “لَوْ كَانَ أُسَامَةُ جَارِيَةً لَحَلَّيْتُهُ وَكَسَوْتُهُ حَتَّى أُنَفِّقَهُ

اس کی سند منقطع ہے راوی عبد الله البهي کا سماع عائشہ سے نہیں ہے
کتاب جامع التحصیل میں ہے
سئل أحمد بن حنبل هل سمع من عائشة رضي الله عنها قال ما أرى في هذا شيئا إنما يروي عن عروة
امام احمد سے سوال کیا کہ البھی نے عائشہ سے سنا ہے ؟ کہا میں نہیں دیکھتا کہ کوئی چیز روایت کرتا ہو بلکہ یہ تو عروه سے روایت کرتا ہے
———
اقتباس میں جو حوالے دیے گئے ہیں وہ اور مزید یہ ہیں
وأخرجه أحمد (25082)، وابن سعد في “الطبقات” 4/ 61 – 62، وابن أبي شيبة 12/ 139 – 140، وابن أبي الدنيا في “العيال” (228)، وأبو يعلى (4597)، وابن حبان (7056)، والبيهقي في “الشعب” (11017) میں سب میں اسی منقطع طرق سے ہے

روایت ضعیف ہے لہذا اس پر تبصرہ بے کار ہے
—-

جنگ بدر والا واقعہ عائشہ نے نبی سے سنا ہے جبکہ وہ وہاں خود موجود نہیں تھیں
ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا بہت سی روایت بیان کرتی ہیں جن کی خبر ان کو نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہوئی مثلا الوحی کیسے شروع ہوئی بخاری کی شروع کی روایات میں سے ہے لیکن یہ انہوں نے کس سے سنا ؟ ظاہر ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا – اسی طرح یہ مشرک والا واقعہ بھی انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا

اس کی مثال اس طرح بھی ہے کہ معراج کی روایت ابو ذر اور انس سے مروی ہیں جبکہ یہ معراج کے موقعہ پر موجود نہیں تھے

——

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، انْهَزَمَ النَّاسُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، وَأُمَّ سُلَيْمٍ وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ، أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا تَنْقُزَانِ القِرَبَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: تَنْقُلاَنِ القِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا، ثُمَّ تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ القَوْمِ، ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلَآَنِهَا، ثُمَّ تَجِيئَانِ فَتُفْرِغَانِهَا فِي أَفْوَاهِ القَوْمِ ”

حدیث صحیح ہے
——–

یہ جنگ احد کا ذکر ہے اس کے بعد الاحزاب میں پردے کی آیات نازل ہوئیں

عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ ثقہ ہیں اور ان کے استاد بھی

ام المومنین محاذ جنگ پر لڑ رہی ہیں یا زخمیوں کو پانی پلا رہی ہیں ؟ روایت میں تلوار کا ذکر ہی نہیں لہذا یہ کسی حدیث میں نہیں کہ ام المومنین نے تلوار بھی چلائی

ایک شیعہ کا اعترض یہ ہے کہ

مصنف ابن ابی شیبہ کا شمار اہلسنت کے مستند ترین کتب میں ہوتا ہے۔ جلد ۷، صفحہ ۴۳۲، طبع مکتبۃ الرشد، ریاض؛

لنک

http://shamela.ws/browse.php/book-9944/page-41850

میں ایک روایت نقل ہوئی ہے، جس میں ایک جملہ آتا ہے کہ عمر نے کہا

وَايْمُ اللَّهِ مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ

خدا کی قسم! یہ بات مجھے اس بات سے نہیں روکے گی کہ یہ لوگ آپ کے گھر میں جمع ہوں- میں حکم دوں گا کہ گھر کو جلا دیا جائے

دوسری طرف

ڈاکٹر علی صلابی نے اس روایت کو اپنی کتاب، اسمی المطالب فی سیرۃ امیر المومنین علی ابن ابی طالب، جز ۱، صفحہ ۲۰۲، طبع مکتبۃ الصحابہ، امارات؛ پر نقل کیا ہے- اور حاشیہ میں سند کو بھی صحیح مانا ہے

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اس جملے کو بالکل غائب کر دیا ہے۔ اور عمر کے گفتگو کا ایک لفظ میں ختم کر دیا کہ انہوں نے بات چیت کی ( وكلمها)۔

چلیں نقل نہیں کی تو نہیں کی

موصوف نے ایک اور ہی بات کہہ ڈالی

کہتے ہیں

وقد زاد الروافض في هذه الرواية واختلفوا إفكا وبهتانًا وزورًا، وقالوا إن عمر قال: إذا اجتمع عندك هؤلاء النفر ان لأُحرقنَّ عليهم هذا البيت، لأنهم أرادوا شق عصا المسلمين

رافضیوں نے اس روایت میں اضافہ کیا، اور جھوٹ، بہتان اور دروغ گوئی کی کہ عمر نے کہا کہ ( إذا اجتمع عندك هؤلاء النفر ان لأُحرقنَّ عليهم هذا البيت) کیونکہ وہ مسلمانوں کے عصا(یعنی قوت) کو توڑنے کا ارادہ رکھتے تھے

لنک

http://shamela.ws/browse.php/book-36424/page-200

جواب

شیعہ عالم کی بات درست ہے

روایت کے متن میں جس کو وہابی علماء نے درست قرار دیے دیا ہے اس میں ہے کہ عمر نے دھمکی دی کہ میں گھر جلا دوں گا

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ الله بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: «يَا بِنْتَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالله مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ الله مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ الله لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ

زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کی بیعت ہوئی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو علی اور زبیر، فاطمہ کے پاس آئے اور ان سے مشورہ کرنے لگے اور … پس جب اس کی خبر عمر کو ہوئی تو وہ فاطمہ کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ کی بیٹی الله کی قسم ہم کو آپ کے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا اور ان کے بعد آپ سے زیادہ لیکن الله کے لئے یہ مجھے مانع نہ ہو گا کہ میں ایک جتھا اپ کے لئے لے آوں کہ وہ اس گھر کو جلا دے، پس جب عمر چلے گئے تو فاطمہ نے علی سے کہا کیا اپ کو پتا ہے عمر آئے تھے اور الله کی قسم لے کر گئے ہیں کہ اگر دیر کی تو وہ گھر جلا ڈالیں گے اور الله کی قسم وہ یہ کر دیں گے جس کی قسم لی ہے پس سید ھے سیدھے جاؤ …. اور واپس نہ آنا حتی کہ ابو بکر کی بیعت کر لو

راقم اس روایت کو رد کرتا ہے الصلابی اور بن باز کا اس کو درست کہتا ان کی حماقت ہے

اس کی تفصیل اسی ویب سائٹ پر ایک دوسرے سوال میں ہے

ان چار احادیث کی تحقیق چاہیے

١.

مصنف عبد الرزاق

قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: ” أَوَّلُ مَا اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ (صلى الله عليه وسلم ) فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ، فَاسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي فَأَذِنَّ لَهُ، قَالَتْ: فَخَرَجَ وَيَدٌ لَهُ عَلَى الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَيَدٌ أُخْرَى عَلَى يَدِ رَجُلٍ آخَرَ، وَهُوَ يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ فِي الأَرْضِ “، فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ؟ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ،وَلَكِنَّ عَائِشَةَ لا تَطِيبُ لَهَا نَفْسًا بِخَيْرٍ .

٢.

صحيح البخاري

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ ” لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ (صلى الله عليه وسلم ) وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلَاهُ الْأَرْضَ، وَكَانَ بَيْنَ الْعَبَّاسِ وَرَجُلٍ آخَرَ “، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ، فَقَالَ لِي: وَهَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ

٣.

مسند أحمد بن حنبل

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَت: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ، فَاسْتَأْذَنَ نِسَاءَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ (صلى الله عليه وسلم ) مُعْتَمِدًا عَلَى الْعَبَّاسِ وَعَلَى رَجُلٍ آخَرَ، وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاس: أَتَدْرِي مَنْ ذَلِكَ الرَّجُلُ؟ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَلَكِنَّ عَائِشَةَ لَا تَطِيبُ لَهَا نَفْسًا، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقَالَ النَّبِيُّ (صلى الله عليه وسلم) وَهُوَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ: ” مُرْ النَّاسَ فَلْيُصَلُّوا ” فَلَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا عُمَرُ، صَلِّ بِالنَّاسِ، فَصَلَّى بِهِمْ، فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ (صلى الله عليه وسلم ) صَوْتَهُ فَعَرَفَهُ، وَكَانَ جَهِيرَ الصَّوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلى الله عليه وسلم ): ” أَلَيْسَ هَذَا صَوْتَ عُمَرَ؟ “، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: ” يَأْبَى اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ ذَلِكَ وَالْمُؤْمِنُونَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ “، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ، وَإِنَّهُ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ بَكَى، قَالَتْ: وَمَا قُلْتِ ذَلِكَ إِلَّا كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَشاءم النَّاسُ بِأَبِي بَكْرٍ أَنْ يَكُونَ أَوَّلَ مَنْ قَامَ مَقَامَ رَسُولِ اللَّهِ (صلى الله عليه وسلم ) فَقَالَ: ” مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ “، فَرَاجَعَتْهُ، فَقَالَ: ” مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ

اس حدیث کو دیکھیں

لنک

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-9-4046/?s=%D9%85%DB%8C%D9%85%D9%88%D9%86%DB%81+%DA%A9%DB%92+%DA%AF%DA%BE%D8%B1+

مسند احمد ۔ جلد نہم ۔ حدیث 4046

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مرویات

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ فَاسْتَأْذَنَ نِسَاءَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي فَأَذِنَّ لَهُ فَخَرَجَ رَسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَمِدًا عَلَى الْعَبَّاسِ وَعَلَى رَجُلٍ آخَرَ وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَتَدْرِي مَنْ ذَلِكَ الرَّجُلُ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَلَكِنَّ عَائِشَةَ لَا تَطِيبُ لَهَا نَفْسًا قَالَ الزُّهْرِيُّ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ مُرْ النَّاسَ فَلْيُصَلُّوا فَلَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ فَصَلَّى بِهِمْ فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ فَعَرَفَهُ وَكَانَ جَهِيرَ الصَّوْتِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَيْسَ هَذَا صَوْتَ عُمَرَ قَالُوا بَلَى قَالَ يَأْبَى اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ ذَلِكَ وَالْمُؤْمِنُونَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ قَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ وَإِنَّهُ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ بَكَى قَالَ وَمَا قُلْتِ ذَلِكَ إِلَّا كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَأَثَّمَ النَّاسُ بِأَبِي بَكْرٍ أَنْ يَكُونَ أَوَّلَ مَنْ قَامَ مَقَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَرَاجَعَتْهُ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ إِنَّكُمْ صَوَاحِبُ يُوسُفَ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ہوا تھا، نبی علیہ السلام نے اپنی ازواج مطہرات سے بیماری کے ایام میرے گھر میں گذارنے کی اجازت طلب کی تو سب نے اجازت دے دی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے آدمی (بقول راوی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کا نام ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا) کے سہارے پر وہاں سے نکلے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک زمین پر گھستے ہوئے جا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ہی حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے فرما دیا تھا کہ لوگوں سے کہہ دو، وہ نماز پڑھ لیں، عبداللہ واپس جا رہے تھے کہ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہہ دیا کہ اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چنانچہ وہ نماز پڑھانے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو فوراً پہچان گئے کیونکہ ان کی آواز بلند تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ عمر کی آواز نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اور مومنین اس سے انکار کرتے ہیں، ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ابوبکر رقیق القلب آدمی ہیں، وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکیں گے، کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب بھی قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو رونے لگتے تھے، اور میں نے یہ بات صرف اس لئے کہی تھی کہ کہیں لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ یہ ہے وہ پہلا آدمی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑا ہوا تھا اور گنہگار بن جائیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، جب میں نے تکرار کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا اور فرمایا تم تو یوسف علیہ السلام پر فریفتہ ہونے والی عورتوں کی طرح ہو (جو دل میں کچھ رکھتی تھیں اور زبان سے کچھ ظاہر کرتی تھیں)

============

اس حدیث پر شعَيب الأرنؤوط نے کہا ہے کہ

الحكم على المتن: صحيح
إسناده متصل ، رجاله ثقات ، رجاله رجال الشيخين
٤.

مسند احمد

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ أَوَّلُ مَا اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ فَاسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِهَا فَأَذِنَّ لَهُ فَخَرَجَ وَيَدٌ لَهُ عَلَى الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَيَدٌ لَهُ عَلَى رَجُلٍ آخَرَ وَهُوَ يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ فِي الْأَرْضِ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ أَتَدْرُونَ مَنْ الرَّجُلُ الْآخَرُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ هُوَ عَلِيٌّ وَلَكِنَّ عَائِشَةَ لَا تَطِيبُ لَهُ نَفْسًا

==============

الله آپ کو جزایۓ خیر دے – آمین

جواب

اس میں ایک علت ہے

پہلی اور چوتھی کو معمر سے عبد الرازق نے روایت کیا ہے یعنی یہ یمن میں سنائی گئی صحیح سمجھی گئی ہے
دوسری کو هشام بن يوسف الصنعانى ، أبو عبد الرحمن الأبناوى نے معمر سے روایت کیا ہے جو یمن کے ہیں اس کو بھی صحیح سمجھا گیا ہے
لیکن مسند احمد والی کو معمر سے عَبْدُ الأَعْلَى بنُ عَبْدِ الأَعْلَى السَّامِيُّ القُرَشِيُّ نے روایت کیا ہے جو بصرہ کے ہیں اور اس پر محدثین کو اعتراض ہے کہ معمر کی روایت بصرہ میں صحیح نہیں ہیں
عبد الاعلی کے لئے ابن سعد کہتے ہیں ولم يكن بالقوي في الحديث یہ حدیث میں قوی نہیں ہیں
دوم معمر کی بصرہ میں روایت بعض محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ہے

قال أبو حاتم صالح الحديث وما حدث به بالبصرة ففيه أغاليط
ابو حاتم نے کہا معمر صالح حدیث ہے جو بصرہ میں روایت کیا اس میں غلطیاں ہیں

کتاب معرفة الرجال عن يحيى بن معين کے مطابق
وحدثنى ابو بكر بن بن ابى النصر قال سألت يحيى بن معين قلت من اثبت الناس فى الزهرى ممن روى عنه قال مالك بن انس فقلت له ثم من بعد مالك بن انس فقال معمر
ابن معین نے کہا زہری کی روایت میں امام مالک سب سے بہتر ہیں پھر معمر

چہارم قال ابن العطار: إنه يدلس
معمر تدلیس بھی کرتے ہیں

امام احمد نے کہا
قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: سمعت ابن المبارك يقول: ما رأيت أحدًا أروى عن الزهري من معمر، إلا ما كان من يونس، فإن يونس كتب كل شيء. «العلل» (109)
ابن مبارک نے کہا میں نہیں دیکھتا کہ معمر کی زہری سے روایت کوئی لکھتا ہو سوائے اس کے کہ اس روایت کے جو یونس کی زہری سے ہوں

یعنی بعض محدثین کے نزدیک معمر کی بصرہ میں روایت قابل قبول ہے (مثلا امام بخاری ) اور بعض کے نزدیک اس قسم کی اسناد میں اغلاط و انقطاع و تدلیس ہو سکتی ہے مثلا ابی حاتم کے نزدیک یہ غلطیوں سے پر ہیں

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ اخْتِبَاءِ النَّبِيِّ ﷺ دَعْوَةَ الشَّفَاعَةِ لِأُمَّتِهِ) صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان (باب: نبی ﷺنے فرمایا کہ میں لوگوں میں سب سے پہلے ہو جنت کی سفارش کرنے والا اور تمام انبیاء سے میرے پیروکار زیادہ ہونگے)

500 . حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: «فِي النَّارِ»، فَلَمَّا قَفَّى دَعَاهُ، فَقَالَ: «إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ»

حکم : صحیح 500 . حضرت انس ﷜ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا:اے اللہ کے رسول ! میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’ آگ میں ۔‘‘ پھر جب وہ پلٹ گیا توآپ نے اسے بلا کر فرمایا:’’ بلاشبہ میراباپ اور تمہارا باپ آگ میں ہیں ۔ ‘‘

===========

کیا عربی میں لوگ چچا کے لئے بھی أَبِي بولتے ہیں

جیسا کہ ان دو احادیث میں کہا گیا

صحيح مسلم: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابٌ فِي تَقْدِيمِ الزَّكَاةِ وَمَنْعِهَا) صحیح مسلم: کتاب: زکوٰۃ کے احکام و مسائل (باب: وقت سے پہلے زکاۃ دینا اور زکاۃ کی ادائیگی روک لینا)

2277 . و حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ عَلَى الصَّدَقَةِ فَقِيلَ مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَالْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ وَأَمَّا خَالِدٌ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا قَدْ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتَادَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَمَّا الْعَبَّاسُ فَهِيَ عَلَيَّ وَمِثْلُهَا مَعَهَا ثُمَّ قَالَ يَا عُمَرُ أَمَا شَعَرْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ

2277 . حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زکا ۃ کی وصولی کے لیے بھیجا تو (بعد میں آپ سے) کہا گیا کہ ابن جمیل خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زکاۃ روک لی ہے (نہیں دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :” ابن جمیل تو اس کے علاوہ کسی اور بات کا بدلہ نہیں لے رہا کہ وہ پہلے فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی کر دیا رہے خالد تو تم ان پر زیادتی کر ہے ہو۔انھوں نے اپنی زر ہیں اور ہتھیا ر (جنگی ساز و سامان ) اللہ کی را ہ میں وقف کر رکھے ہیں باقی رہے عباس تو ان کی زکاۃ میرے ذمے ہے اور اتنی اس کے ساتھ اور بھی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :” اے عمر!کیا تمھیں معلوم نہیں ،انسان کا چچا اس کے باپ جیسا ہو تا ہے ؟”(ان کی زکاۃ تم مجھ سے طلب کر سکتے تھے۔)

……..

صحيح البخاري: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَفِي الرِّقَابِ وَالغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ) صحیح بخاری: کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان (باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان)

1468 . حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ فَقِيلَ مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَأَمَّا خَالِدٌ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا قَدْ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَعَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ وَمِثْلُهَا مَعَهَا تَابَعَهُ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ هِيَ عَلَيْهِ وَمِثْلُهَا مَعَهَا وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ حُدِّثْتُ عَنِ الْأَعْرَجِ بِمِثْلِهِ

. ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن جمیل یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک وہ فقیر تھا۔ پھر اللہ نے اپنے رسول کی دعا کی برکت سے اسے مالدار بنادیا۔ باقی رہے خالد ‘ تو ان پر تم لوگ ظلم کرتے ہو۔ انہوں نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کررکھی ہیں۔ اور عباس بن عبدالمطلب ‘ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ اور ان کی زکوٰۃ انہی پر صدقہ ہے۔ اور اتنا ہی اور انہیں میری طرف سے دینا ہے۔ اس روایت کی متابعت ابوالزناد نے اپنے والد سے کی اور ابن اسحاق نے ابوالزناد سے یہ الفاظ بیان کیے۔ ہی علیہ ومثلہا معہا ( صدقہ کے لفظ کے بغیر ) اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے اعرج سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی گئی۔

=============

حضور صلی الله علیہ وسلم کے والدین کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہیے – ایک بھائی نے پوچھا ہے اور یہ حدیث پیش کی ہے

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ اسْتِئْذَانِ النَّبِيِّ ﷺ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ) صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل (باب: بنی اکرم ﷺ کا اپنے رب سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کے لیے اجازت مانگنا)

2259 . حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ زَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْرَ أُمِّهِ فَبَكَى وَأَبْكَى مَنْ حَوْلَهُ فَقَالَ اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي فِي أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَهَا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي وَاسْتَأْذَنْتُهُ فِي أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأُذِنَ لِي فَزُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْمَوْتَ

. محمد بن عبید نے یزید بن کیسان سے ،انھوں نے ابو حازم سے اور اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی،آپ روئے اور اپنے اردگرد والوں کو بھی رلایا،پھر فرمایا:”میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ میں ان کے لئے بخشش کی طلب کروں تو مجھے اجازت نہیں دی گئی اور میں نے اجازت مانگی کہ میں ان کی قبر کی زیارت کروں تو اس نے مجھے اجازت دے دی،پس تم بھی قبروں کی زیارت کیاکرو کیونکہ وہ تمھیں موت کی یاددلاتی ہیں۔”

جواب

نبوت سے قبل نبی صلی الله علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اسی مشرکین کے مذھب پر تھے جو چلا آ رہا تھا – اس کی دلیل البیہقی شعب الایمان کی روایت ہے کہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم پیدا ہوئے تو دادا عبد المطلب نے ان کو ھبل بت پر کعبہ میں پیش کیا
فَأَخَذَهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ فَأَدْخَلَهُ على هُبَلَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، وَذَكَرَ ابْنُ إِسْحَاقَ دُعَاءَهُ وَأَبْيَاتَهُ الَّتِي قَالَهَا فِي شُكْرِ اللهِ تَعَالَى عَلَى مَا وَهَبَهُ
اس روایت کی سند سیرت کی احادیث کے معیار کے مطابق صحیح ہے

مشرکین اللہ کی عبادت کرتے تھے اور ساتھ ہی اپنے قبائلی اله کی بھی

یہی عقیدہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے سگے چچا ابو لھب، ابو طالب، حمزہ اور عباس کا تھا

——

حدیث میں کہا گیا چچا باپ کی طرح ہے – یہ بات رشتہ داری کی ہے کہ چچا کا مقام باپ جیسا ہے- جب والد نہ ہوں تو چچا کا رتبہ بلند سمجھا گیا ہے – ہماری برصغیر کی روایات میں بھی ہے کہ چچا کو باپ کی طرح عزت دی جاتی ہے لیکن اس کو ابا جان نہیں کہا جاتا
لیکن عربی میں ہمیں کچھ مختلف انداز ملتا ہے

قرآن میں ہے
نعبد إلهك وإله آبائك ابراهيم واسماعيل واسحاق
یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے کہا : ہم اپ کے اله کی اور اپ کے باپوں ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق کے الہ کی عبادت کریں گے

یہ معلوم ہے کہ اسمعیل ، یعقوب کے چچا ہیں لیکن قرآن میں ان کو بھی باپ کا رتبہ دیا گیا ہے

حدیث میں ہے رسول الله نے کہا
أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبَ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ
میں ابن عبد المطلب ہوں

جبکہ نبی ابن عبدالله بن عبد المطلب ہیں نہ کہ ابن عبد المطلب
لیکن مجاز میں دادا کو بھی باپ کہا جا سکتا ہے دوم نبی صلی الله علیہ وسلم کی پرورش ان کے والد نے نہیں کی بلکہ دادا نے کی
اور یہ بات معروف تھی

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے فتح مکہ پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا
فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُدُّوا عَلَيَّ أَبِي , رُدُّوا عَلَيَّ أَبِي
میرے باپ کو لاو
یھاں اپ نے عباس کو طلب کیا تھا

اگرچہ یہ منقطع روایت ہے اور عکرمہ مولی ابن عباس نے روایت کیا ہے

لہذا سیاق و سباق دیکھ کر متعین کیا جائے گا کہ کیا کہا جا رہا ہے ایسا انداز کہ چچا یا دادا کو بھی باپ کہا گیا ہو بہت کم ہوتا ہے لیکن یہ ممکن ہے

———

قرآن میں ہے
(واذ قال ابراهيم لابيه آزر أتتخذ اصناما آلهة انى اريك وقومك في ضلال مبين

اس پر تفسیر قمی میں ہے
حدثني ابى عن صفوان عن ابن مسكان قال قال ابوعبدالله عليه السلام ان آزر ابا ابراهيم كان منجما لنمرود بن كنعان فقال له انى ارى في حساب النجوم ان هذا الزمان يحدث رجلا فينسخ هذا الدين ويدعو إلى دين آخر، فقال نمرود في أي بلاد يكون؟ قال في هذه البلاد، وكان منزل نمرود بكونى ربا (كوثي ريا خ ل)

ابن مسکان نے کہا امام ابو عبد الله علیہ السلام نے فرمایا ازر ابراہیم کے والد، نمرود کے ایک منجم تھے

یعنی ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي کے دور تک اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ازر باپ نہیں تھا
اس کی وجہ اہل تشیع کے عقیدہ میں ارتقاء ہے جو معصوم عن الخطا کے حوالے سے ہے کہ جو معصوم ہے اس کی نسل بھی معصوم ہوتی ہے اور یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ سن ٣٣٠ ہجری تک اہل تشیع اس عقیدہ میں ہم خیال نہیں تھے

ازر، ابراہیم کے باپ ہی تھے اس کی دلیل ہے کہ قرآن میں ان کو یا ابتی بھی لکھا گیا ہے ورنہ یہاں یا عمی ہوتا
اور حدیث میں ازر کو ایک دنبے کی صورت جہنم میں پھینکا جائے گا کیونکہ ابراہیم نے دعا کی کہ روز محشر ذلت نہ دی جائے

حدیث مسلم شریف کی تھی کہ جس میں سیدہ عائشہ کے پاس ایک نوجوان آتے ہیں اور رسول کے غسل کا پوچھتے ہیں ، جب آپ بتاتی ہیں کہ آپ محض دو صاع پانی سے بھی غسل کر لیتے تھے تو حیرانی میں سوال ہوتا ہے کہ کیسے ممکن ؟- تو سیدہ کہتی ہیں لو میں ابھی کر رہی ہوں – قصہ مختصر انہوں نے غسل کیا –

کیا ایسی کوئی حدیث ہے اور کیا یہ صحیح ہے

جواب

باب : اس بارے میں کہ ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا چاہیے

حدیث نمبر : 251
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثني عبد الصمد، قال حدثني شعبة، قال حدثني أبو بكر بن حفص، قال سمعت أبا سلمة، يقول دخلت أنا وأخو، عائشة على عائشة فسألها أخوها عن غسل النبي، صلى الله عليه وسلم فدعت بإناء نحوا من صاع، فاغتسلت وأفاضت على رأسها، وبيننا وبينها حجاب‏.‏ قال أبو عبد الله قال يزيد بن هارون وبهز والجدي عن شعبة قدر صاع‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد نے، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، انھوں نے کہا ہم سے ابوبکر بن حفص نے، انھوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے یہ حدیث سنی کہ میں ( ابوسلمہ ) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عائشہ کی خدمت میں گئے۔ ان کے بھائی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں سوال کیا۔ تو آپ نے صاع جیسا ایک برتن منگوایا۔ پھر غسل کیا اور اپنے اوپر پانی بہایا۔ اس وقت ہمارے درمیان اور ان کے درمیان پردہ حائل تھا۔ امام ابوعبداللہ ( بخاری ) کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون، بہز اور جدی نے شعبہ سے قدر صاع کے الفاظ روایت کئے ہیں۔
————–
تشریح : یہ ابوسلمہ عبد الله بن عبد الرحمن بن عوف ، عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے اور آپ کے محرم تھے- ان صاحب کو دودھ أُمُّ كُلْثُومٍ بنت ابی بکر نے پلایا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ سے خود غسل فرماکر ان کو طریقہ غسل کی تعلیم فرمائ
دوسرے شخص کے لئے کہا جاتا ہے یہ عائشہ رضی الله عنہا کے بھائی تھے یا عبدالله بن یزید تھے
عبد الرحمن بن أبي بكر رضي الله عنهما وقيل هو عبد الله بن يزيد أخوها من الرضاع

——-

عائشہ رضی الله عنہا نے صرف یہ سمجھانے کے لئے کہ وہ خود کم ازلم ایک صاع پانی سے غسل کی قائل ہیں انہوں نے اس کو بہا کر دیکھایا کہ یہ کیا جا سکتا ہے جب ان دونوں نے پردے کے نیچے سے پانی بہتا دیکھا تو جان گئے کہ یہی عائشہ رضی الله عنہا کی رائے ہے
یہ پریکٹکل کرنا ضروری نہیں تھا لیکن اغلبا مکلمل بات ہم تک نہیں پہنچی کہ یہ دو حضرات ایک صاع کے حوالے سے اس قدر شش و پنج میں کیوں تھے کہ عائشہ رضی الله عنہا کو ایسا کرنا پڑا
——–

سندا اس کو صرف عبد الله بن حفص بن عمر بن سَعْد بن أبي وقاص الزهري نے بیان کیا ہے
بہت سے محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں ابن عبد البر کی طرف سے کہا جاتا ہے
والثقة أجمعوا على ذلك.

لیکن امام یحیی بن معین کہتے ہیں
ليسوا بشَيْءٍ.
کوئی چیز نہیں
الکامل از ابن عدی

حَدَّثَنَا مُحَمد بْن علي، حَدَّثَنا عثمان بن سعد قلت ليحيى فعبد الله بن حفص بن عُمَر بن سعد وعمار وعمر أخواه عن آبائهم عن أجدادهم كيف حال هؤلاء قال ليسوا بشَيْءٍ.

جرح و تعدیل از ابن ابی حاتم میں دوسرا قول ہے کہ یہ ثقہ ہے

عبد الرحمن قال ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين قال: أبو بكر بن حفص ثقة.

 

جواب

اس پر روایات ہیں

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «ذُكِرَ لِي أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ، وَأَصْحَابَهُ شَرِبُوا شَرَابًا بِالشَّامِ، وَأَنَا سَائِلٌ عَنْهُ، فَإِنْ كَانَ مُسْكِرًا جَلَدْتُهُمْ»
السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ نے کہا مجھ سے عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ مجھ سے ذکر کیا گیا ہے کہ عبید الله اور اس کے اصحاب نے شام میں شراب پی ہے اور میں اس پر سوال کروں گا اگر ایسا ہوا تو کوڑے لگاؤں گا

مصنف عبد الرزاق میں ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «شَهِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا» فَقَالَ: «إِنِّي وَجَدْتُ مِنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رِيحَ الشَّرَابِ، وَإِنِّي سَأَلْتُهُ عَنْهَا فَزَعَمَ أَنَّهَا الطِّلَاءُ، وَإِنِّي سَائِلٌ عَنِ الشَّرَابِ الَّذِي شَرِبَ، فَإِنْ كَانَ مُسْكِرًا جَلَدْتُهُ» قَالَ: فَشَهِدْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَجْلِدُهُ
السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ میں نے عمر کے ساتھ جنازہ پڑھا اس کے بعد وہ ہماری طرف پلٹے کہا میں نے عبید الله میں سے شراب کی بو پائی اور میں نے جب سوال کیا تو یہ الطِّلَاءُ تھا میں نے اس سے پوچھا یہ کیا پیا تھا اگر نشہ اور ہوا تو کوڑے ماروں گا – پس میں نے دیکھا انہوں نے اس کو کوڑے مارے

موطا میں ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، أَخْبَرَهُ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ مِنْ فُلانٍ رِيحَ شَرَابٍ، فَسَأَلْتُهُ، فَزَعَمَ أَنَّهُ شَرِبَ طِلاءً، وَأَنَا سَائِلٌ عَنْهُ، فَإِنْ كَانَ يُسْكِرُ جَلَدْتُهُ الْحَدَّ، فَجَلَدَهُ الْحَدَّ
عمر نے کہا میں نے فلاں کے منہ سے شراب کی بو پائی

الاصابہ از ابن حجر میں ہے
أبو شحمة بن عمر بن الخطاب «2» . جاء في خبر واه أن أباه جلده في الزنا فمات
أبو شحمة بن عمر بن الخطاب کے بارے میں ایک واہی خبر ہے کہ ان کے باپ نے کوڑے مارے زنا کی وجہ سے یہاں تک کہ مرے

قال ابن قتيبة، قال: وأما أبو شحمة بن عمر فضربه عمر الحد في الشراب، وفي أمر آخر، فمات ولا عقب له
ابن قتیبہ نے کہا کہ عمر نے اپنے بیٹے ابو شحمہ کو شراب پر کوڑے مارے اور یہ مر گئے

کیا قبلہ اول بیت المقدس تھا اور بعد میں قبلہ تبدیل ہوکر خانہ کعبہ ہوا یا قبلہ اول پہلے ہی سے خانہ کعبہ تھا البتہ کچھ مصلحت کے تحت کچھ عرصے کے لئے قبلہ بیت القدس بنایا گیا جو بعدمیں دوبارہ خانہ کعبہ میں تبدیل ہو ا اس بارے میں آپ سے قران و حدیث سے و ضاحت درکا ر ہے

جواب

موسی علیہ السلام جب مصر میں تھے تو قبلہ مسلمانوں کے گھر تھے
وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
سورہ یونس

مسلمانوں نے اس آیت کے مفہوم کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے لہذا التَّفْسِيرُ البَسِيْط از الواحدی میں ہے کہ
وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً}، قال يريد: إلى الكعبة
تفسیر ابن جریر طبری میں اس کی سند ہے
حدثنا ابن حميد قال، حدثنا حكام، عن محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن المنهال، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس: (واجعلوا بيوتكم قبلة) ، يعني الكعبة.
جس پر التَّفْسِيرُ البَسِيْط کے عرب محقق کہتے ہیں
من رواية محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن المنهال بن عمرو الأسدي؛ والأول سيء الحفظ جدًا، فاخش الخطأ، كثير المناكير كما في “تهذيب التهذيب” 3/ 627، والثاني صدوق ربما وهم كما في “التقريب” (6918).
اس کی سند میں محمد بن  عبد الرحمان بن ابی لیلی ہے جو خراب حافظہ اور فحش غلطیاں کریا ہے دوسرا المنھال ہے جو وہمی ہے

وابن جريج عن ابن عباس قال: كانت الكعبة قبلة موسى ومن معه
اور ابن جریج نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ کعبہ موسی اور جو ان کے ساتھ تھے ان کا قبلہ تھا
لیکن التَّفْسِيرُ البَسِيْط کے عرب محقق کہتے ہیں اس میں ابن جریج کا عنعنہ ہے اور یہ مدلس ہے

اسی تفسیر میں دوسرا قول ابن عباس سے منسوب ہے
فأُمروا أن يتخذوا مساجد في بيوتهم ويصلوا فيها خوفًا من فرعون (3)، وهذا قول ابن عباس في رواية عكرمة (4)، وإبراهيم (5)، وابن زيد (6)، والربيع (7)، وأبي مالك (8)، والسدي (9)، والضحاك (10)، واختيار الفراء (11)، والزجاج (12).
جس کے مطابق مصر میں فرعون کے خوف سے گھروں کو قبلہ کیا یہ ابن عباس کا قول ہے
جس کو ٨ شاگردوں نے بیان کیا ہے

کعبہ کو قبلہ موسی کے لئے مقرر نہیں کیا گیا نہ یہ حکم توریت میں ہے اور خود سنت داود  پر عمل کرتے ہوئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ١٧ ماہ یروشلم کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے

مصر کے بعد بنی اسرائیل کے لئے دشت میں خیمہ ربانی قبلہ تھا کیونکہ ٤٠ سال تک ان پر سمت واضح نہیں رہی تھی
پھر فتح یروشلم یا کنعان کے بعد داود علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بیت المقدس تعمیر کریں اور وہ قبلہ ہوا
یہودی روایات کے مطابق خروج مصر سے لے کر داود علیہ السلام کے بادشاہ بننے تک ٤٣٦ سال ہیں
یعنی ٤٣٦ سال تک خیمہ ربانی ہی قبلہ رہا یہاں تک کہ داود علیہ السلام نے یروشلم کو دار الخلافہ کیا اور وہاں مسجد الاقصی تعمیر کی

حشر دوم کے بعد بیت المقدس نہ رہا لہذا اہل کتاب قبلہ کو مشرق کہتے ہیں چاہے یروشلم مغرب میں ہی کیوں نہ ہو
تفسیر میں ص ٩٢ پر راقم نے لکھا ہے
Jews called their Qiblah Mizrah (Hebrew: …meaning East). Mizrah or East thus become
the word for direction of prayer among Jews.

مسلمان شروع سے کعبہ کو قبلہ مان کر نماز پڑھتے تھے صرف مدینہ میں ١٧ ماہ کے لئے بیت المقدس کو قبلہ کیا گیا اور پھر واپس مکہ کو کر دیا گیا

———–
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے
وَقَدْ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْميّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَر، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ قلتُ: يَا رسولَ اللَّهِ، أيُّ مَسجِد وُضِع فِي الْأَرْضِ أوَّلُ؟ قَالَ: “الْمسْجِدُ الْحَرَامُ”. قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ: “الْمسجِدُ الأقْصَى”. قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: “أرْبَعُونَ سَنَةً”. قلتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ: ثُم حَيْثُ أدْرَكْت (3) الصَلاةَ فَصَلِّ، فَكُلُّهَا مَسْجِدٌ”.
وَأَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ، وَمُسْلِمٌ، مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، بِهِ ((4) المسند (5/150) وصحيح البخاري برقم (3366، 3425) وصحيح مسلم برقم (520)
ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ہے؟
آپ نے فرمایا مسجد الحرام، پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد بیت المقدس پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا وقت ہے؟ فرمایا چالیس سال پوچھا پھر کون سی؟ آپ نے فرمایا جہاں کہیں نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لیا کرو ساری زمین مسجد ہے (مسند احمد وبخاری مسلم)۔(صحیح بخاری:3366)

تبصرہ
⇓ کیا مسجد الحرام اور مسجد الاقصی کی تعمیر میں ٤٠ سال کا دور تھا ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/مساجد/
صحیح متن نہیں ہے روایت متنا غلط ہے

وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا شَرِيك عَنْ مُجالد، عَنِ الشَّعْبيّ عَنْ علِيّ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا} قَالَ: كَانَتِ الْبُيُوتُ قِبْلَةً، وَلَكِنَّهُ كَانَ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِعِبَادَةِ اللَّهِ [تَعَالَى] علی نے کہا الله کا قول پہلا گھر جو انسانوں نے لئے بنا وہ بکہ میں ہے مبارک ہے علی نے کہا پہلے گھر قبلہ ہوتے اور جو گھر عبادت کے لئے بنا وہ کعبہ تھا

تبصرہ
سند میں شریک کا حافظہ خراب ہے مجالد ضعیف ہے
شعبی کا سماع علی رضی الله عنہ سے نہیں ہے
اگرچہ امام بخاری نے شعبی کی علی سے روایت لی ہے لیکن العلائی  جامع التحصیل میں  کہتے ہیں مجرد امکان لقاء پر اس کو نہیں لیا جا سکتا
عامر بن شراحيل الشعبي أحد الأئمة روى عن علي رضي الله عنه وذلك في صحيح البخاري وهو لا يكتفي بمجرد إمكان اللقاء

مسند احمد میں ایک روایت ہے کہ:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُمَرَ بْنِ قَيْسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَشْعَثِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:
( بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ فَأَذِنَ لَهُ فَقَالَ السَّامُ عَلَيْكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْكَ قَالَتْ فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ قَالَتْ ثُمَّ دَخَلَ الثَّانِيَةَ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْكَ قَالَتْ ثُمَّ دَخَلَ الثَّالِثَةَ فَقَالَ السَّامُ عَلَيْكَ قَالَتْ فَقُلْتُ بَلْ السَّامُ عَلَيْكُمْ وَغَضَبُ اللَّهِ إِخْوَانَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ أَتُحَيُّونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا لَمْ يُحَيِّهِ بِهِ اللَّهُ قَالَتْ:
فَنَظَرَ إِلَيَّ فَقَالَ مَهْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ قَالُوا قَوْلًا فَرَدَدْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَلَمْ يَضُرَّنَا شَيْءٌ وَلَزِمَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّهُمْ لَا يَحْسُدُونَا عَلَى شَيْءٍ كَمَا يَحْسُدُونَا عَلَى يَوْمِ الْجُمُعَةِ الَّتِي هَدَانَا اللَّهُ لَهَا وَضَلُّوا عَنْهَا وَعَلَى الْقِبْلَةِ الَّتِي هَدَانَا اللَّهُ لَهَا وَضَلُّوا عَنْهَا وَعَلَى قَوْلِنَا خَلْفَ الْإِمَامِ آمِينَ )
صححه الألباني.، وله شواهد. :
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک یہودی آدمی نے اندر آنے کی اجازت چاہی، نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے اجازت دے دی، اس نے آکر ” السام علیک ” کہا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صرف ” وعلیک ” کہہ دیا میں نے کچھ بولنا چاہا لیکن رک گئی، تین مرتبہ وہ اسی طرح آیا اور یہی کہتا رہا،
آخر کار میں نے کہہ دیا کہ اے بندروں اور خنزیروں کے بھائی ! تم پر ہی موت اور اللہ کا غضب نازل ہو، کیا تم نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس انداز میں آداب کرتے ہو، جس میں اللہ نے انہیں مخاطب نہیں کیا، اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے میری طرف دیکھ کر فرمایا رک جاؤ، اللہ تعالیٰ فحش کلامی اور بیہودہ گوئی کو پسند نہیں فرماتا، انہوں نے ایک بات کہی، ہم نے انہیں اس کا جواب دے دیا، اب ہمیں تو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی البتہ ان کے ساتھ قیامت تک لے لئے یہ چیز لازم ہوجائے گی، یہ لوگ ہماری کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا جمعہ کے دن پر حسد کرتے ہیں جس کی ہدایت اللہ نے ہمیں دی ہے، اور (کعبہ کو )ہمارا قبلہ بنائے جانے پر بھی ہم سے حسد کرتے ہیں اور یہ لوگ اس سے گمراہ رہے، اسی طرح یہ لوگ ہم سے امام کے پیچھے آمین کہنے پر حسد کرتے ہیں

تبصرہ
یہ روایت بھی ضعیف ہے
حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ اختلاط کا شکار ہوئے
سند میں على بن عاصم [د، ق، ت] بن صهيب، أبو الحسن الواسطي، مولى آل أبي بكر الصديق بھی ضعیف ہے

⇓ کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم یہودیوں کو سور اور بندرووں کے بھائی کہہ کر کلام کرتے تھے؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/متفرق/

=============

کعبہ پہلی عبادت گاہ مسجد ہے جو تعمیر ہوئی

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (96) سورۃ آل عمران
بلاشبہ سب سے پہلا گھر (عبادت گاہ) جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے، اس گھر کو برکت دی گئی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا ”
کعبہ کا مقام الله تعالیٰٰ کے رازوں میں سے ہے جس کو مخلوق پر ظاہر نہیں کیا گیا کہ ایک بے اب وادی جو لاوا کی چٹانوں سے گھری ہے اس میں ایسی کیا بات ہے کہ کائنات کی تخلیق کے وقت اس کی وجہ سے زمین و آسمان کی گردش میں ٤ ماہ محترم ہو گئے
ہم کو اس کا علم نہیں دیا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے لیکن کعبہ کی ایک اہمیت شروع سے تخلیق کائنات سے ہے اس کو لیکن قبلہ ہر نبی کے لئے نہیں کیا گیا

جیسا راقم کو معلوم ہے کہ داود سے لے کر عیسیٰ تک سب نے بیت المقدس میں ہیکل کی طرف منہ کر کے ہی عبادت کی ہے
قرآن میں ہے
وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ
تم ان کے قبلہ کی اتباع نہیں کرو گے

تو ظاہر ہے قبلوں کا یہ فرق الله کا حکم ہی تھا جو پہلے کچھ تھا پھر بدل دیا گیا

قبلے بدلنا الله کا حکم تھا – بنی اسرائیل کے لیے کچھ امت محمد کے لئے کچھ

ابراھیم علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کیا لیکن اس وقت قبلہ کا کوئی حکم نہیں ملتا – کعبہ ایک عبادت گاہ ضرور تھی جس کے مناسک حج بھی ابراہیم نے بحکم الہی بتائے
کعبه کے اندر عبادت کی جاتی تھی جو کسی بھی رخ پر کی جا سکتی ہے

اسی طرح کہا جاتا ہے طوفان نوح سے کعبہ مٹی میں چلا گیا اور ہم کو معلوم ہے کہ عرب میں انے والے انبیاء ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام کے قبلہ کی کوئی تفصیل نہیں آئی ہے صرف یہ پتا ہے کہ قوم ثمود کا ایک شخص حرم کی حدود میں تھا جب اس کی قوم پر عذاب آیا لیکن جیسے ہی نکلا ایک پتھر آسمان سے آیا اور وہ اس سے ہلاک ہوا
ایک سفر میں اس کی قبر سے اصحاب رسول نے سونا نکالا

ابن سعد طبقات میں لکہتے ہیں
جب اسماء بنت نعمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ہوں میں آپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون اس نے کہا میری بہن قتیلہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آگے بڑہے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو یہ دونوں بہن بہائی مرتد ہوگئے۔ پھر قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اور پھر مکشوع مرادی نے ان سے نکاح کیا۔
آگے لکہتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو قبیلہ کندہ کی ایک عورت قتیلہ کے مالک ہوئے تھے لیکن وہ اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہوگئی تھی پھر بعد میں اس سے عکرمہ نے نکاح کرلیا یہ بات حضرت صدیق رضہ کو گراں گزری لیکن حضرت عمر رضہ نے انہیں کہا کہ یہ عورت امہات میں سے نہیں ہے نہ آپ نے اس کو اختیار دیا نہ ہی اس کو پردہ کرایا اور اللہ تعالی نے آپ کو اس سے بری کردیا ہے کیوں کہ وہ مرتد ہوگئی ہے،،
ھمیں اس عورت قتیلہ کے ام المومنین ھونے یا نہ ھونے کی بحث سے کچھ لینا دینا نہیں ،، بس یہ طریقہ نکاح جو روایت ھوا ھے کہ ایک خیمے سے عزت کرا کر نکلے ھیں تو گلی میں کھڑے کھڑے دوسرا نکاح کر لیا اور وہ بھی اس عورت سے کہ جو اتنے ایمان والی تھی کہ وفات کا سن کر ھی مرتد ھو گئ ،،، انا للہ و انا الیہ راجعون ،،،

جواب

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کسی أميمة بنت النعمان بن شراحيل الجونية نامی عورت سے شادی کی اور وہ اس نے الله کی پناہ مانگی
یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی ہے اور کتب حدیث میں اس کی سند میں حَمْزَةُ بْنُ أَبِي أُسَيْدٍ مَالِكُ بْنُ رَبِيعَةَ السَّاعِدِيُّ الْمَدَنِيُّ کا تفرد ہے
یہ قلیل حدیث ہے اور متقدمین میں اس کی توثیق سوائے ابن حبان کے کسی نے نہیں کی
راقم اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا معلوم نہیں کہ امام بخاری نے یہ حدیث کس بنا پر لکھی ہے کیونکہ انہوں نے خود تاریخ الکبیر میں اس کی توثیق نہیں کی

اس کی دوسری سند میں عَبَّاسُ بنُ سَهْلِ بنِ سَعْدٍ الأَنْصَارِيُّ ہے – یہ ثقہ ہیں
لیکن اس خبر کا انفراد ایسا ہے کہ یہ امہات المومنین ہی بیان کریں تو صحیح سمجھی جا سکتی ہے
کیونکہ میاں بیوی کی بات ہر ایک کا مسئلہ نہیں ہے
اس کے لئے ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے بھی یہ بیان کیا
کتاب معرفة الصحابة لابن منده میں اس کی سند ہے
أخبرنا أبو عمرو أحمد بن محمد بن إبراهيم، حدثنا محمد بن علي بن راشد الطبري، حدثنا يحيى بن عبد الله بن الضحاك، عن الأوزاعي، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة: أن الجونية لما أتي بها النبي صلى الله عليه وسلم قالت: أعوذ بالله منك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لقد عذت بمعاذ، الحقي بأهلك.

لیکن اس میں يحيى بن عبد الله بن الضحاك ہے جو ضعیف ہے

کتاب : الْمُخْتَصَرُ النَّصِيحُ فِي تَهْذِيبِ الْكِتَابِ الْجَامِعِ الْصَّحِيحِ از المھلب میں اس کی سند ہے
وَنَا الْحُمَيْدِيُّ, نَا الْوَلِيدُ, نَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ: أَيُّ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ, عَنْ عَائِشَةَ, أَنَّ ابْنَةَ الْجَوْنِ لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَنَا مِنْهَا, قَالَتْ: أَعُوذُ بِالله مِنْكَ, فَقَالَ لَهَا: «لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ الْحَقِي بِأَهْلِكِ».
اس میں الولید بن مسلم ہے جس کا الأَوْزَاعِيُّ سے سماع پر محدثین کو اعتراض ہے

پھر کیا زبردستی شادی ہو سکتی ہے ؟ جو عورت رسول الله سے شادی نہ کرنا چاہتی ہو ممکن نہیں کہ نبی صلی الله علیہ

وسلم اس سے شادی کرتے
وَكَانَ تَزَوُّجُهُ إِيَّاهَا فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الأَوَّلِ سَنَةَ تِسْعٍ مِنَ الْهِجْرَةِ
یہ واقعہ سنن ٩ ہجری کا کہا جاتا ہے

سوره الاحزاب میں ہے

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیْکَ وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیْ ھَاجَرْنَ مَعَکَ وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَھَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَھَا خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْھِمْ فِیْٓ اَزْوَاجِھِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا. تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْھُنَّ وَتُءْوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَآءُ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ ذٰلِکَ اَدْآٰی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُھُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَآ اٰتَیْتَھُنَّ کُلُّھُنَّ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا. لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنْم بَعْدُ وَلَآاَنْ تَبَدَّلَ بِھِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُھُنَّ اِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا. (الاحزاب۳۳: ۵۰۔۵۲)
’’اے پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم)، ہم نے تمھاری وہ بیویاں تمھارے لیے جائز ٹھہرائی ہیں جن کے مہر تم ادا کرچکے ہو اور (اسی طرح)وہ (خاندانی) عورتیں جو (تمھارے کسی جنگی اقدام کے نتیجے میں) اللہ تمھارے قبضے میں لے آئے اور تمھاری وہ چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنھوں نے تمھارے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ مسلمان عورت جواپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کردے، اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے۔ یہ حکم دوسرے مسلمانوں سے الگ صرف آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے خاص ہے۔ ہم کو معلوم ہے جو کچھ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے معاملے میں ان پر فرض کیا ہے۔(اس لیے خاص ہے)کہ اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں) تم پر کوئی تنگی نہ رہے۔ اور (اگر کوئی کوتاہی ہو تو)اللہ بخشنے والا ہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔ تمھیں اختیار ہے کہ ان میں سے جسے چاہو، الگ رکھو اور جسے چاہو، ساتھ رکھو، اور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلا لو۔ اس معاملے میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ وضاحت اس کے زیادہ قرین ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی اور جو کچھ بھی تم ان سب کو دو گے، اس پر راضی رہیں گی۔ اور اللہ جانتا ہے جو تمھارے دلوں میں ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے۔ ان کے علاوہ کوئی عورت تمھارے لیے جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ ، اگرچہ وہ تمھیں کتنی ہی پسند ہوں۔ لونڈیاں البتہ (اس کے بعد بھی) جائز ہیں اور (یہ حقیقت ہے کہ)اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھے ہوئے۔‘‘

آیات میں موجود ہے
ان کے علاوہ کوئی عورت تمھارے لیے جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ

سن ٧ هجري مين المقوقس حاكم مصر نے ماریہ قبطیہ اپ صلی الله علیہ وسلم کو تحفہ میں دیں اپ نے ان کو لونڈی بنا لیا بیوی نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے اس وقت یہ مزید نکاح کی پابندی آ چکی تھی اس بنا پر راقم سمجھتا ہے کہ یہ قصہ جو واقدی اور ہشام نے بیان کیا گھڑا ہوا ہے

جواب

ایک قول بیان ہوا ہے جو الکامل سے لیا گیا ہے

الكامل 7: 75. از ابن الاثیر میں سن ٢٤٠ ہجری کے حالات پر لکھا ہے
وفيها توفى القاضي أبو عبد الله أحمد بن دؤاد في المحرم بعد ابنه أبي الوليد بعشرين يوما، وكان داعية إلى القول بخلق القرآن وغيره من مذاهب المعتزلة وأخذ ذلك عن بشر المريسي وأخذه بشر من الجهم بن صفوان، وأخذه جهم من الجعد بن درهم، وأخذه الجعد من أبان بن سمعان، وأخذه أبان من طالوت ابن أخت لبيد بن الاعصم وختنه. وأخذه طالوت من لبيد بن الاعصم اليهودي الذي سحر النبي صلى الله عليه وسلم، وكان لبيد يقول: بخلق التوراة، وأول من صنف في ذلك طالوت، وكان زنديقا، فأفشى الزندقة
اور اس میں القاضي أبو عبد الله أحمد بن دؤاد کی وفات ، ان کے بیٹے أبي الوليد کی وفات کے ٢٠ دن بعد محرم میں ہوئی- اور وہ خلق قرآن کے داعی تھے جو معتزلة کا مذھب ہے اور اس کو انہوں نے بشر المريسي نے لیا اور بشر المريسي نے اس کو جھم بن صفوان سے لیا اور جھم بن صفوان نے اس کو الجعد بن درهم لیا اور الجعد بن درهم نے اس کو ابان بن سمعان سے لیا

لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس کا قائل کون ہے کیونکہ ابن اثیر بہت بعد کے ہیں
جادو کی بنیاد بات یہ ہے کہ کلمات میں قوت ہے اسی وجہ سے کلمات کو اعداد میں تبدیل کیا جاتا ہے لہذا خلق قرآن کا قول ممکن نہیں کہ جادو گروں سے لیا گیا ہو یہ پروپیگنڈا معلوم ہوتا ہے

امام احمد کے ساتھ کیا ہوا معلوم نہیں ان کے حوالے سے احمد کے شاگرد حنبل بن اسحاق نے ایک کتاب گھڑی جس کو المنحہ امام احمد کہا جاتا ہے
اس میں امام احمد کے مرنے کے بعد بیان کیا گیا کہ احمد نے حنبل بن اسحق کو بیان کیا کہ دربار میں کیا کلام ہوا کس طرح کوڑے لگے وغیرہ
راقم سمجھتا ہے کتاب جھوٹ ہے کیونکہ اس میں امام احمد کہتے ہیں خلق قرآن کا قائل کافر ہے اور پھر عباسی خلیفہ جو اسی کا قائل ہے اس کو امیر المومنین کہتے ہیں
امام احمد نے جیل میں اور کوڑے کھانے کے دوران نبی صلی الله علیہ وسلم کے بال قمیص میں باندھ رکھے تھے جو ان کو کسی نے جیل میں دیے ؟ یہ کتاب پوری فسانہ عجائب ہے
عباسی خلفاء کے دور تک نہ تو نبی صلی الله علیہ وسلم کی تلوار معلوم تھی نہ جوتی معلوم تھی نہ بال معلوم تھے
ان بالوں کو بعد میں احمد کی قبر میں بھی رکھا گیا
سب جھوٹ ہے جو اماموں کی شان بڑھانے اور ان کو طاغوت بنانے کے لئے بیان کیا گیا ہے
اگر سچ ہے تو امام احمد بدعتی ثابت ہوتے ہیں

شمس الدین ذہبی لکھتے ہیں:

قال: وقد کانَ صار اليّ شعرٌ من شعرِ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في کُمّ قمیصي، فوجَّہ اليّ اسحاقُ بنُ ابراہیمَ، یقول: ما ہذا المصرور؟ قلت شعرٌ من شعر رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسعی بعضہم لیخرق القمیص عنّي، فقال المعتصم لاتخرقوہ، فنزع، فظننت أنہ انما دُرِیٴَ عن القمیصِ الخرقُ بالشعر. (سیر أعلام النبلاء، ص:۴۸۱، ج:۹)

امام احمد بن حنبل نے کہا کہ نبی صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک مجھے حاصل ہوئے تھے، جو میرے کُرتے کی آستین میں تھے، اسحاق بن ابراہیم میرے پاس آکر کہنے لگا: یہ بندھی (رکھی) ہوئی چیز کیا ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے چند موئے مبارک ہیں، خلیفہ کے آدمیوں میں سے ایک میرا کُرتا پھاڑنے کے لیے لپکا، تو معتصم نے کہا: اس کو مت پھاڑو، پس کرتا اتارلیاگیا، (أحمد نے کہا ) میرے گمان میں موئے مبارک کی برکت کی وجہ سے کرتا پھاڑے جانے سے محفوظ رہا۔

كتاب مين مشهور محدثين مثلا امام یحیی بن معین اور ابن سعد پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے معتزلہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور اپنے خلق قرآن کے موقف سے رجوع کیا
=======
البتہ یہ مشہور بات ہے کہ امام احمد کو کوڑے لگے اس کو مورخین نے قبول کیا ہے

تاریخ دمشق از ابن عساکر اور سير أعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق
وَفِي رَمَضَانَ: كَانَتْ مِحْنَةُ الإِمَامِ أَحْمَدَ فِي القُرْآنِ، وضُرِبَ بِالسِّيَاطِ حَتَّى زَالَ عَقْلُهُ، وَلَمْ يُجِبْ، فَأَطْلَقُوهُ
سن ٢٢٠ ہجری میں امام احمد کی آزمائش ہوئی اور اس میں کوڑے لگے یہاں تک کہ عقل چلی گئی

راقم اس قول کو قبول کرتا ہے – لگتا ہے عقائد میں اضطراب اسی بنا پر پیدا ہوا اور اس کے بعد امام احمد نے عود روح کو قبول کر لیا ہو گا

شذرات الذهب في أخبار من ذهب

(3/ 188)
قال الرّبيع: كتب إليه الشّافعيّ من مصر، فلما قرأ الكتاب بكى، فسألته عن ذلك فقال: إنه يذكر أنه رأى النّبيّ- صلى الله عليه وسلم- وقال: «اكتب إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل واقرأ عليه مني السّلام وقل له: إنك ستمتحن على القول بخلق القرآن فلا تجبهم، نرفع لك علما إلى يوم القيامة» .
قال الربيع: فقلت له: البشارة، فخلع عليّ قميصه وأخذت جوابه، فلما قدمت على الشافعيّ وأخبرته بالقميص قال: لا نفجعك فيه ولكن بلّه وادفع إليّ ماءه حتّى أكون شريكا لك فيه.

امام شافعی رحمہ اللہ نے لکھا تھا

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے ٗ وہ فرماتے ہیں کہ احمد کو میرا سلام کہو… اور انہیں اطلاع دو کہ عن قریب خلقِ قرآن کے مسئلے میں ان کی آزمائش ہو گی… خبر دار خلقِ قرآن کا اقرار نہ کریں… اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان کے علم کو قیامت تک برقرار رکھیں گے۔
خط پڑھ کر امام احمد رونے لگے ۔ پھر اپنا کرتا اُتار کر مجھے دیا۔ میں اسے لے کر مصر واپس آ گیا اور امام شافعی رحمہ اللہ سے سفر کے حالات بیان کیے۔ اس کے کرتے کا بھی ذکر کیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے سن کر فرمایا
میں وہ کرتا تو تم سے نہیں مانگتا… ہاں اتنا کرو کہ اسے پانی میں تر کر کے ٗ وہ پانی مجھے دے دو… تاکہ میں اس سے برکت حاصل کروں۔ ​

جواب

شذرات الذهب في أخبار من ذهب
المؤلف: عبد الحي بن أحمد بن محمد ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ) نامی کتاب میں یہ قول ہے جس کی سند نہیں ہے

البتہ کتاب المنحة إمام أحمد أز المقدسي أور مناقب إمام أحمد أز ابن جوزي مين اس کی سند ہے

أخبرنا عبد الملك بن أبي القاسم، قال: أخبرنا عبد الله بن محمد الأنصاري، قال: أخبرنا غالب بن علي، قال: أخبرنا محمد بن الحسين، قال: حدثنا محمد بن عبد الله بن شاذان، قال: سمعت أبا القاسم بن صدقة، يقول: سمعت علي بن عبد العزيز الطلحي، قال: قال لي الربيع: قال لي الشافعي: يا ربيع، خذ كتابي وامض به وسلمه إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل، وأتني بالجواب، قال الربيع: فدخلت بغداد ومعي الكتاب، فلقيت أحمد بن حنبل صلاة الصبح، فصليت معه الفجر، فلما انفتل من المحراب، سلمت إليه الكتاب، وقلت له: هذا كتاب أخيك الشافعي من مصر. فقال أحمد: نظرت فيه؟ قلت: لا، فكسر أحمد الخاتم، وقرأ الكتاب فتغرغرت عيناه بالدموع، فقلت له: أي شيء فيه يا أبا عبد الله؟ فقال: يذكر أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم في المنام، فقال له: اكتب إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل، واقرأ عليه مني السلام، وقل: إنك ستمتحن وتدعى إلى خلق القرآن، فلا تجبهم يرفع الله لك علماً إلى يوم القيامة.
قال الربيع: فقلت: البشارة، فخلع قميصه الذي يلي جلده، فدفعه إلي فأخذته وخرجت إلى مصر، وأخذت جواب الكتاب، وسلمته إلى الشافعي، فقال لي: يا ربيع، أي شيء الذي دفع إليك؟ قلت: القميص الذي يلي جلده. فقال لي الشافعي: ليس نفجعك به، ولكن بله، وادفع إلينا الماء حتى أشركك فيه.

تاریخ دمشق میں اس کی سند ہے
أخبرني أبو المظفر عبد المنعم بن عبد الكريم القشيري أنا أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي أنا أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين (1) بن محمد بن موسى قراءة عليه قال سمعت محمد بن عبد الله بن شاذان يقول سمعت أبا القاسم بن صدقة يقول سمعت علي بن عبد العزيز الطلحي يقول قال لي الربيع إن الشافعي خرج إلى مصر وأنا معه فقال لي يا ربيع خذ كتابي هذا فامض به وسلمه إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل وائتني بالجواب قال الربيع فدخلت بغداد ومعي الكتاب فلقيت أحمد بن حنبل صلاة الصبح فصليت معه الفجر فلما انفتل من المحراب سلمت إليه الكتاب وقلت له هذا كتاب أخيك الشافعي من مصر فقال أحمد نظرت فيه قلت لا فكسر أبو عبد الله الختم وقرأ الكتاب وتغرغرت عيناه بالدموع فقلت إيش فيه يا أبا عبد الله قال يذكر أنه رأى النبي (صلى الله عليه وسلم) في النوم فقال له اكتب إلى أبي عبد الله أحمد بن حنبل واقرأ عليه مني السلام وقل إنك ستمتحن وتدعى إلى خلق القرآن فلا تجبهم فسيرفع الله لك علما إلى يوم القيامة قال الربيع فقلت البشارة فخلع أحد قميصيه الذي يلي جلده ودفعه إلي فأخذته وخرجت إلى مصر وأخذت جواب الكتاب فسلمته إلى الشافعي فقال لي الشافعي يا ربيع إيش الذي دفع إليك قلت القميص الذي يلي جلده قال الشافعي ليس نفجعك به ولكن بله وادفع إلي الماء حتى أشركك فيه حدثناها أبو محمد عبد الجبار بن محمد بن أحمد الحواري البيهقي الفقيه إملاء بنيسابور نا الإمام أبو سعيد القشيري إملاء وهو عبد الواحد بن عبد الكريم أنا الحاكم أبو جعفر محمد بن محمد الصفار أنا عبد الله بن يوسف قال سمعت محمد بن عبد الله الرازي قال سمعت جعفر بن محمد المالكي يقول قال الربيع بن سليمان إن الشافعي رحمه الله خرج إلى مصر فقال لي يا ربيع خذ كتابي هذا فامض

علي بن عبد العزيز الطلحي کا معلوم نہیں ہو سکا کون ہے
اس کے علاوہ محمد بن عبد الله بن عبد العزيز بن شاذان الصُّوفِي الرازي: ليس بثقة. ہے
محمَّد بن الحسين بن محمَّد بن موسى صوفی انسان تھے امام بیہقی اور حاکم کے شیخ ہیں بحوالہ السَّلسَبِيلُ النَّقِي في تَرَاجِمِ شيُوخ البَيِهَقِيّ اور الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم – تاریخ بغداد کے مطابق یہ غير ثقة ہے

================
اسی طرح کا کے قول کا ذکر بدر الدین عینی نے عمدہ القاری میں بھی کیا ہے
وَأَخْبرنِي الْحَافِظ أَبُو سعيد ابْن العلائي قَالَ: رَأَيْت فِي كَلَام أَحْمد بن حَنْبَل فِي جُزْء قديم عَلَيْهِ خطّ ابْن نَاصِر وَغَيره من الْحفاظ، أَن الإِمَام أَحْمد سُئِلَ عَن تَقْبِيل قبر النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وتقبيل منبره، فَقَالَ: لَا بَأْس بذلك، قَالَ: فأريناه للشَّيْخ تَقِيّ الدّين بن تَيْمِية فَصَارَ يتعجب من ذَلِك، وَيَقُول: عجبت أَحْمد عِنْدِي جليل يَقُوله؟ هَذَا كَلَامه أَو معنى كَلَامه؟ وَقَالَ: وَأي عجب فِي ذَلِك وَقد روينَا عَن الإِمَام أَحْمد أَنه غسل قَمِيصًا للشَّافِعِيّ وَشرب المَاء الَّذِي غسله بِهِ، وَإِذا كَانَ هَذَا تَعْظِيمه لأهل الْعلم فَكيف بمقادير الصَّحَابَة؟ وَكَيف بآثار الْأَنْبِيَاء، عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام؟

الْحَافِظ أَبُو سعيد ابْن العلائي نے خبر دی کہ انہوں نے احمد کی ایک قدیم تحریر میں دیکھا کہ ان سے سوال ہوا کہ کیا قبر نبی کو بوسہ دیا جا سکتا ہے ؟ امام احمد نے کہا کوئی برائی نہیں پس ہم نے یہ قول ابن تیمیہ کو دکھایا تو ان کو تعجب ہوا اور کہا کسی عجیب بات احمد نے کی؟ کیا یہ احمد کا ہی کلام ہے یا کسی نے اس پر کہا ہے –
اس پر کہا گیا کہ اس میں کیا عجیب بات ہے جب یہ روایت بھی کیا گیا ہے کہ احمد نے امام شافعی کی قمیص کو دھویا اور اس کا دھون پیا تو یہ تھی اہل علم کی تعظیم
=========================
لگتا ہے عربوں نے اماموں کو چڑھانے کے لئے اس قسم کے قول گھڑے کہ لوگ ایک دوسرے کی قمیصوں کا دھون پیتے تھے

وره نور کی یہ آیات کن لوگوں کے لئے نازل ہوئی ہیں اور وہ لوگ کون تھے

إِنَّ الَّذِينَ جَاءُو بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿24:11﴾ لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ ﴿24:12﴾ لَوْلَا جَاءُو عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ ﴿24:13﴾ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿24:14﴾ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ ﴿24:15﴾ وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴿24:16﴾ يَعِظُكُمَ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ﴿24:17﴾ وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآَيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿24:18﴾ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آَمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿24:19﴾ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
﴿24:20﴾

جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں8 وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ 9 اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے۔ 10 جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا، اور جس شخص نے اِس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا 11 اس کے لیے عذابِ عظیم ہے ۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سُنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا 12 اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟ 13 وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں) چار گواہ کیوں نہ لائے؟

اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں، اللہ کے نزدیک وہی جھُوٹے ہیں۔ 14 اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آلیتا۔ (ذرا غور تو کرو، اُس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے) جبکہ تمہاری ایک زبان سے دُوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کی متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔

کیوں نہ اُسے سُنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ”ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سُبحان اللہ، یہ تو ایک بہتانِ عظیم ہے۔“ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔ اللہ تمہیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔ 15

جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، 16 اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔17 اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق و رحیم ہے، (تو یہ چیز جو ابھی تمہارے اندر پھیلائی گئی تھی بدترین نتائج دکھا دیتی)۔

جواب

واقعہ افک اصل میں ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا پر الزام تھا – اس افواہ کو منافقین نے پھیلایا اور کافی دن مدینہ میں اس پر ماحول پس مردہ رہا اور مسلمانوں کی آزمائش ہوئی

رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ سفر میں جاتے ہوئے ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے تھے جس کا قرعہ نکل آتا اسے ہمراہ لے جاتے۔اس غزوہ میں قرعہ حضرت عائشہ رض کے نام نکلا اور آپ ﷺ انہیں ساتھ لےگئے غزوے سے واپسی میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا گیا۔حضر ت عائشہ اپنی حاجت کےلئےگئیں اور اپنی بہن کا ہار جسے عاریتاً لےگئی تھیں کھو بیٹھیں،احساس ہوتے ہی فوراً اس جگہ واپس گئیں جہاں ہار غائب ہوا تھا اسی دوران وہ لوگ آئے جو آپ کا ہودج اونٹ پر لادا کرتے تھے، انہوں نے سمجھا کہ آپ ہودج کے اندر تشریف فرماہیں ۔اس لئے اسے اونٹ پر لاد دیا اور ہودج کےہلکے پن پر نہ چونکے۔کیونکہ عائشہ رض ابھی نو عمر تھیں۔بدن موٹااور بوجھل نہ تھا نیز چونکہ کئی آدمیوں نے مل کر ہودج اٹھایا تھااسلئے بھی ہلکے پن پر تعجب نہ ہوا۔اگر صرف ایک آدمی یا دو آدمی اٹھاتے تو انہیں ضرور محسوس ہوجاتا۔
بہرحال حضرت عائشہ رض ہار ڈھونڈھ کر قیام گاہ پہنچیں تو پورا لشکرجاچکا تھا،اور میدان بالکل خالی پڑا تھا نہ کوئی پکارنے والا اور نہ جواب دینے والا،وہ اس خیال سے وہیں بیٹھ گئیں کہ اگرلوگ انہیں نہ پائیں گےتو پلٹ کر واپس اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔لیکن اللہ اپنے امر پر غالب ہے وہ بالائے عرش سے جو تدبیر چاہتا ہے کرتا ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ رض کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئیں پھر صفوان بن معطل رض کی یہ آواز سن کر بیدار ہوئیں کہ “انا للہ وانا الیہ راجعون” رسول اللہ ﷺ کی بیوی ۔۔۔۔۔۔؟ وہ پچھلی رات کو چلا آرہا تھا۔صبح کو اس جگہ پہنچا جہاں آپ موجود تھیں۔انہوں نے جب حضرت عائشہ رض کو دیکھا تو پہچان لیا ،کیونکہ وہ پردے کا حکم نازل ہونے پہلے بھی انہیں دیکھ چکےتھے۔انہوں نے انا للہ پڑھی اور اپنی سوار ی بٹھا کر حضرت عائشہ رض کے قریب کر دی۔ حضرت عائشہ رض اس پر سوار ہو گئیں ۔حضرت صفوان نے انا للہ کے سوا زبان سے ایک لفظ نہ نکالا چپ چاپ سواری کی نکیل تھامی اور پیدل چلتے ہوئے لشکر میں آگئے ۔یہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا اور لشکر پڑاؤ ڈال چکاتھا۔انہیں اسی کیفیت میں آتاد دیکھ کر مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کیا اور اللہ کے دشمن خبیث عبد اللہ بن ابی کو بھڑاس نکالنے کا ایک موقع مل گیا ۔چنانچہ اس کے پہلو میں نفاق اور حسد کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے اس کے کرب پنہاں کو عیاں اور نمایاں کیا،یعنی بدکاری کی تہمت تراش کر واقعات کے تانے بانے بننا ،تہمت کے خاک میں رنگ بھرنا ،اور اسے پھیلانابڑھانا ادھیڑنا اور بننا شروع کیا ۔اس کے ساتھی اسی بات کو بنیاد بنا کر اس کا تقرب حاصل کرنے لگے۔اور جب مدینہ آئے تو ان تہمت تراشوں نے خوب جم کرپرپیگنڈہ کیا۔ادھر رسو ل اللہ ﷺ خاموش تھے کچھ بول نہیں رہے تھے،لیکن جب لمبے عرصے تک وحی نہ آئی تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رض سے علیحدگی کے متعلق اپنے خاص صحابہ سے مشورہ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صراحت کیئے بغیر اشاروں اشاروں میں مشورہ دیا کہ آپ ان سے علیحدگی اختیار کرکے کسی اور سے شادی کر لیں،لیکن حضرت اسامہ وغیرہ نے مشورہ دیا کہ آپ ﷺ انہیں اپنی زوجیت سے میں برقرار رکھیں،اور دشمنوں کی بات پر کان نہ دھریں۔اس کے بعد آپ ﷺ نے منر پر کھڑے ہوکر عبد اللہ بنن ابی کی ایذارسانیوں سے نجات دلانے کی طرف توجہ دلائی،اس پر حضرت سعد بن معاذ اور اسیدبن حضیررضی اللہ عنھما نے اسکے قتل کی اجازت چاہی لیکن حضرت سعد بن عبادہ پر جو عبدا للہ بن ابی کے قبیلہ خزرج کے سردار تھے قبائلی حمیت غالب آگئی،اور دونوں حضرات میں ترش کلامی ہو گئی،جس کے نتیجے میں دونوں قبیلے بھڑک اٹھے ،رسول اللہ ﷺ نے خاصی مشکل سے انہیں خاموش کیا ،پھر خود بھی خاموش ہوگئے۔ادھر حضرت عائشہ رض کا حال یہ تھا کہ وہ غزوے سے واپس آتے ہی بیمارپڑگئی تھیں اور ایک مہینےتک مسلسل بیمار رہیں انہیں اس تہمت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا ،البتہ انہیں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ بیماری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جو لطف و عنایت ہو ا کرتی تھی اب وہ نظر نہیں آرہی تھی۔بیماری ختم ہوئی تو وہ ایک رات ام مسطح کے ہمراہ قضائے حاجت کےلئے میدان میں گئیں،اتفاق سے ام مسطح اپنی چادر میں پھنس کر پھسل گئیں اور اس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو بد دعا دی ۔حضرت عائشہ رض نے اس حرکت پر انہیں ٹوکا تو انہوں نے حضرت عائشہ رض کو یہ بتلانے کےلئے کہ میرا بیٹا بھی پرو پیگنڈے کے جرم میں شریک ہے تہمت کا واقعہ کہہ سنایا۔حضرت عائشہ رض نے واپس آکر اس خبر کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگانےکی غرض سے رسول اللہ ﷺسے والدیں کے پاس جانے کی اجازت چاہی پھر اجاز ت پا کر والدین کے پاس تشریف لے گئیں اور صورت حال کا یقینی طورپ علم ہو گیا تو بے اختیار رونے لگیں۔اورپھر دو راتیں اور ایک دن روتے روتے گذر گیا۔اس دوران نہ نیند کا سرمہ لگایا نہ آنسوکی جھڑی رکی ۔وہ محسوس کرتی تھیں کہ روتے روتے کلیجہ شق ہو جائے گا۔اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے کلمہ شہادت پر مشتمل خطبہ پڑھااور اما بعد کہہ کر فرمایا: اے عائشہ مجھے تمہارے متعلق ایسی اور ایسی بات کا پتہ چلا ہے ،اگر تم اس سے بری ہو تو اللہ تعالی عنقریب تمہاری برات نازل فرما دیں گے ۔اور اگر خدا نخواستہ تم سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے تو تم اللہ سےمغفرت مانگو اور توبہ کر کیونکہ بندہ جب کوئی گناہ کا اقرار کرےکے اللہ کے حضورتوبہ کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتے ہیں۔
اس وقت حضرت عائشہ رض کے آنسو ایک دم تھم گئے اور اب انہیں آنسو کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہو رہا تھا۔انہوں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ آپﷺ کو جواب دیں لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا جواب دیں۔اس کے بعد حضرت عاشہ رض نے خو ہی کہا: “واللہ میں جانتی ہوں کہ یہ بات سنتے سنتے آپ لوگوں کے دلوں میان چھی طرح بیٹھ گئ ہے اور آپ لوگوں نے اسے بالکل سچ مان لیا ہے اسلئے اب اگر میں یہ کہوں کہ میں بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بری ہوں۔تو آُ لوگ میری بات سچ نہیں سمجھیں گئے اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کر لوں ۔۔۔حالانکہ اللہ خوب جانتا کہ میں سے بری ہوں۔۔۔تو آپ لوگ صحیح مان لیں گے۔ایسی صورت میں واللہ میرے لئے اور آپ لوگوں کے لئے وہی مثل ہے جسے حضرت یوسف ؑ کے والد نے کہا تھا کہ”:
فصبر جمیل واللہ المستعان علیٰ ما تصفون۔
صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم لوگ کہتے ہو اس پر اللہ کی مدد مطلوب ہے۔
اس کے بعد حضرت عائشہ رض دوسری طرف جا کر لیٹ گئیں اور اسی وقت رسول اللہ ﷺ پروحی کا نزول شروع ہو گیا۔جب آپ ﷺ پر نزول وحی کی شدت و کیفیت ختم ہوئی تو آپ مسکرارہےتھےاور آپ ﷺ نے پہلی بات جو فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ:اے عائشہ رض اللہ نے تمہیں بری کر دیا۔اس پر (خوشی سے) ان کی ماں بولیں (عائشہ ) حضور کی جانب اٹھوا(شکریہ ادا کرو) انہوں نے اپنے دامن کی براءت اور رسول اللہ ﷺ کی محبت پر اعتمادووثوق کے سبب قدرے ناز کے انداز سے کہا : “واللہ میں تو ان کی طرف نہ اٹھوں گی اور صرف اللہ حمد کروں گی” اس موقع پر واقعہ افک سے متعلق جو آیات اللہ نے نازل فرمائی وہ سورہ نور کی دس آیات ہیں جو:
ان الذین جاء وک بالا فک عصبۃ منکم” سے شروع ہوتی ہیں۔

====================

اپ نے اس واقعہ کا ذکر کیا اور تمنا عمادی کی کتب کا یا قاری حنیف ڈار کا حوالہ دیا تھا – ان دونوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایسا نہیں ہوا بلکہ معلوم نہیں یہ کس کے بارے میں آیات ہیں
دوم تمنا عمادی نے اس کو امام الزہری کی گھرنٹ قرار دیا کہ انہوں نے اس کو شامی لوگوں کے ساتھ یا بنی امیہ کے ساتھ مل کر گھڑا اور یہ سب عبد الملک بن مروان کے کہنے پر کیا گیا
اسی قسم کی بے سروپا باتیں امام الزہری پر تحقیق میں تمنا نے لکھیں جس کو بعد میں حبیب الرحمان کاندھلوی گروپ نے چھاپا- راقم نے اس کو سن ٩٠ کی دہائی میں پڑھا تھا اور اسی دور میں اس پر تحقیق کر کے تمنا عمادی کی کتاب کو فضول کتاب قرار دے دیا تھا

بہر الحال مقدمہ کے پہلو یہ ہیں کہ
اول اس کو صرف امام الزہری نے روایت کیا ہے ان کا تفرد ہے

راقم کہتا ہے یہ دعوی باطل ہے

امام الزہری کا اس واقعہ کو روایت کرنے میں تفرد نہیں ہے
کتاب المعجم الكبير از طبرانی میں واقعہ تفصیلی موجود ہے
سند الگ ہے یھاں اس کو ابن عمر سے روایت کیا گیا ہے الزہری کا نام و نشان نہیں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَلَّادٍ الدَّوْرَقِيُّ، ثنا سَعْدَانُ بْنُ زَكَرِيَّا الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللهِ التَّيْمِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ أَثْلَاثًا،

صحیح بخاری میں امام زہری کے علاوہ یہ سليمان ، عن ابي الضحى ، عن مسروق کی سند سے بھی ہے کہ افک کی آیات عائشہ رضی الله عنہا سے متعلق ہیں
فواد عبدالباقی حدیث نمبر: 2488

حدثني بشر بن خالد ، اخبرنا محمد يعني ابن جعفر ، عن شعبة ، عن سليمان ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، قال:‏‏‏‏ ” دخلت على عائشة وعندها حسان بن ثابت، ‏‏‏‏‏‏ينشدها شعرا يشبب بابيات له، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ حصان رزان ما تزن بريبة وتصبح غرثى من لحوم الغوافل فقالت له عائشة : لكنك لست كذلك، ‏‏‏‏‏‏قال مسروق:‏‏‏‏ فقلت لها:‏‏‏‏ لم تاذنين له يدخل عليك وقد، ‏‏‏‏‏‏قال الله:‏‏‏‏ والذي تولى كبره منهم له عذاب عظيم سورة النور آية 11، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ فاي عذاب اشد من العمى؟ إنه كان ينافح او عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.

مسروق سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، ان کے پاس سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے، ایک شعر سنا رہے تھے، اپنی غزل میں سے جو چند بیتوں کی انہوں نے کہی تھی: وہ شعر یہ ہے۔ پاک ہیں اور عقل والی ان پہ کچھ تہمت نہیں صبح کو اٹھتی ہیں بھوکی غافلوں کے گوشت سے  ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حسان رضی اللہ عنہ سے کہا:تو ایسا نہیں ہے   مسروق نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ حسان کو اپنے پاس کیوں آنے دیتی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی شان میں فرمایا: «وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ» (۲۴-النور:۱۱) یعنی جس شخص نے ان میں سے بیڑا اٹھایا بڑی بات کا (یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے کا) اس کے واسطے بڑا عذاب ہے۔   سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس سے زیادہ عذاب کیا ہو گا کہ وہ اندھا ہو گیا اور کہا کہ حسان جواب دیا کرتا تھا یا ہجو کرتا تھا کافروں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔

روایت میں ہے
يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذُرُنِي مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي
اے مسلمانوں کون ہے جو اس شخص کے حوالے سے عذر دے کہ کہ یہ میرے اہل بیت تک کیسے جا رہا ہے

یعنی امہات المومننیں کے حوالے سے آوٹ پٹانگ بک رہا ہے

دوسرا اعتراض تھا کہ یہ روایت مجموعہ ہے

مسند احمد میں سند ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سند میں امام الزہری نے ایک مکسچر بنا دیا ہے یعنی تمام اقوال جمع کر کے مکمل قصہ کی شکل دی ہے
محدثین کو یہ بات معلوم ہے اور یہ کام ابن اسحاق اور واقدی بھی کرتے ہیں جب تاریخی روایات اتی ہیں
لیکن ہم کو معلوم ہے کہ الزہری کا اس میں تفرد نہیں لہذا یہ اعتراض مضبوط نہیں رہا
———–

واقعہ افک مدینہ میں منافقین کی وجہ سے ہوا اس پر مزید شواہد ہیں
سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ المتوفی ٥ ہجری کا ذکر اتا ہے – غزوہ خندق ٥ ہجری میں ہوئی.
واقعہ افک غزوہ بنی مصطلق یا غزوۂ مُرَیسیع سے واپسی پر پیش آیا جو٥ ہجری میں ہوا اس وقت تک پردے کی آیات نازل ہو چکی تھیں
ابن حجر کا بھی یہی قول ہے کہ یہ دونوں واقعات سن ٥ ہجری میں ہوئے
——–
بَرِيْرَةُ مَوْلاَةُ أُمِّ المُؤْمِنِيْنَ عَائِشَةَ کا ذکر اس میں اتا ہے کہ ان سے بھی ام المومنین کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے
الذھبی کہتے ہیں یہ عُتْبَةَ بنِ أَبِي لَهَبٍ کی لونڈی تھیں اور پھر عائشہ رضی الله عنہا نے ان کو لیا
فِي حَدِيْثِ القَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ: كَانَ فِي بَرِيْرَةَ ثَلاَثُ سُنَنٍ
یہ تین سال لونڈی رہیں
الذہبی کہتے ہیں
قُلْتُ: بَرِيْرَةُ لَمَّا أَعْتَقَتْهَا عَائِشَةُ – وَقْتَ بَاعُوْهَا – كَانَ ذَلِكَ وَابْنُ عَبَّاسٍ بِالمَدِيْنَةِ، وَإِنَّمَا قَدِمَهَا بَعْدَ عَامِ الفَتْحِ. فَأَمَّا الجَارِيَةُ الَّتِي فِي حَدِيْثِ الإِفْكِ الَّتِي سُئِلَتْ عَمَّا تَعْلَمُ مِنْ عَائِشَةَ، فَأُخْرَى غَيْرُ بَرِيْرَةَ
میں کہتا ہوں بریرہ کو جب عائشہ نے آزاد کیا … تو ابن عباس مدینہ میں تھے اور یہ فتح مکہ کے بعد آئے – پس وہ لونڈی جو افک کی حدیث میں ہے وہ بریرہ نہیں کوئی اور ہو گی
اگر یہ غلطی ہے تو یہ نہایت معمولی ہے کیونکہ لونڈی کا نام بھلایا جا سکتا ہے
شعيب الأرناؤوط نے سیر الاعلام کی تعلیق میں کہا ہے
كون الجارية بريرة هنا، وهم من بعض الرواة نبه عليه ابن القيم، في ” زاد المعاد ” 3 / 268؟ ؟ مؤسسة الرسالة بتحقيقنا، واخذه عنه الزركشي في ” الاجابة ” ص 48.

الْإِجَابَةُ لِإِيْرَادِ مَا اسْتَدْرَكَتْهُ عَائِشَةُ عَلَى الصَّحَابَةِ المؤلف: أبو عبد الله بدر الدين محمد بن عبد الله بن بهادر الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق اس میں

وَالْمَخْلَصُ مِنْ هَذَاالْإِشْكَالِ أَنَّ تَفْسِيْرَالْجَارِيَةِ بِبَرِيْرَةَ مُدْرَجٌ فِي الْحَدِيْث مِنْ بَعْضِ الرُّوَاة ظَنًّا مِنْهُ أَنَّهَا هِيَ. وَهَذَا كَثِيْرًا مَّا يَقَعُ فِي الْحَدِيْثِ مِنْ تَفْسِيْرِ بَعْضِ الرُّوَاةِ، فَيُظَنُّ أَنَّهُ مِنَ الْحَدِيْث وَهُوَ نَوْع غَامِضٌ لَا يَنْتَبِهُ لَهُ إِلَّا الْحُذَّاقُ.
بریرہ رضی الله عنہا کا ذکر راوی کا ادراج ہے
—————-
روایت میں مِسْطَحُ بنُ أُثَاثَةَ بنِ عَبَّادِ بنِ المُطَّلِبِ المُطَّلِبِيُّ المتوفی ٣٤ کا ذکر اتا ہے

اس واقعہ کی پاداش میں کسی کو کوڑے نہیں مارے گئے کیونکہ کوئی گواہ بن کر کھڑا نہ ہوا تھا
سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا قتيبةُ بنُ سعيدٍ الثقفيُّ ومالكُ بنُ عبدِ الواحد المِسمَعِيُّ -وهذا حديثه- أن ابنَ أبي عدي حدَّثهم، عن محمَّد بنِ إسحاق، عن عبدِ اللهِ بنِ أبي بكرٍ، عن عَمرةَ
عن عائِشَة، قالت: لما نزلَ عُذري قامَ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلم- على المِنبرِ فذَكَر ذلكَ، وتلا -تعني القرآنَ- فلما نزلَ مِن المِنْبرِ أمَرَ بالرَّجُلينِ والمرأةِ فضُرِبُوا حَدَّهم
أمر بالرجلين والمرأة فضربوا حدهم.
رسول الله نے حکم کیا کہ دو مردوں اور ایک عورت کو کوڑے مارے جائیں
سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا النُّفيليُّ، حدَّثنا محمدُ بنُ سَلَمَة، عن محمدِ بنِ إسحاقَ، بهذا الحديثِ، لم يذكُر عائِشةَ، قال:
فأمَرَ برجلين وامرأةٍ ممن تكلمَ بالفاحِشَة: حسانَ بنِ ثابتٍ ومِسْطَح بنِ أُثاثَةَ. قال النُّفيلي: ويقولُونَ: المرأة: حمْنَةُ بنتُ جَحْشٍ
کہ ان تین کو کوڑے لگے

راقم کہتا ہے ابن اسحاق اور عبد الله بن محمَّد بن علي بن نُفَيل الحراني سے اصحاب رسول تک کی سند نہیں ہے
عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم بہت ارسال کرتا ہے
ابن اسحاق مدلس بھی ہے اور اس کا تفرد بھی ہے

ابن قتیبہ کے مطابق مسطح بن أثاثة رضى الله عنه
وهو الّذي قذف «عائشة» – رضى الله عنها.
والّذي قذفت به: صفوان بن المعطّل-
مسطح بن أثاثة رضى الله عنه نے الزام لگایا تھا

ابو داود کی روایت کو البانی نے حسن کہا ہے یعنی یہ صحیح کے درجے کی نہیں
راقم کہتا ہے ابن اسحق کو یونہی جھوٹا نہیں کہا گیا اس کی وجوہات بھی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے
==============
اہل تشیع نے حادثہ افک کو مارية القبطية کے حوالے سے آیات قرار دیا ہے
تفسیر قمی میں ہے
واما قوله: (ان الذين جاؤا بالافك عصبة منكم لا تحسبوه شرا لكم بل هو خير لكم) فان العامة رووا انها نزلت في عائشة وما رميت به في غزوة بني المصطلق من خزاعة واما الخاصة فانهم رووا انها نزلت في مارية القبطية وما رمتها به عايشة ء المنافقات.
حدثنا محمد بن جعفر قال حدثنا محمد بن عيسى عن الحسن بن علي بن فضال قال حدثنا عبدالله (محمد خ ل) بن بكير عن زرارة قال: سمعت ابا جعفر عليهما السلام يقول: لما مات ابراهيم بن رسول الله صلى الله عليه وآله حزن عليه حزنا شديدا فقالت عايشة ما الذي يحزنك عليه فما هو إلا ابن جريح، فبعث رسول الله صلى الله عليه وآله عليا وامره بقتله فذهب علي عليه السلام اليه ومعه السيف وكان جريح القبطي في حائط وضرب علي عليه السلام باب البستان فأقبل اليه جريح ليفتح له الباب فلما رأى عليا عليه السلام عرف في وجهه الغضب فأدبر راجعا ولم يفتح الباب فوثب علي عليه السلام على الحائط ونزل إلى البستان واتبعه وولى جريح مدبرا فلما خشي ان يرهقه صعد في نخلة وصعد علي عليه السلام في اثره فلما دنا منه رمى بنفسه من فوق النخلة فبدت عورته فاذا ليس له ما للرجال ولا ما للنساء فانصرف علي عليه السلام إلى النبي صلى الله عليه وآله فقال يا رسول الله إذا بعثتني في الامر اكون فيه كالمسمار المحمى في الوتر ام اثبت؟ قال فقال لا بل اثبت، فقال والذي بعثك بالحق ما له ما للرجال ولا ما للنساء فقال رسول الله صلى الله عليه وآله الحمد لله الذى يصرف عنا السوء اهل البيت

عام یہ ہے کہ یہ عائشہ کے بارے میں ہے .. لیکن خواص روایت کرتے ہیں کہ یہ مارية القبطية کے لئے نازل ہوئیں
زرارة بن أعين نے کہا میں نے ابو جعفر سے سنا کہ جب ابراہیم کی وفات ہوئی تو اپ صلی الله علیہ وسلم کو شدید غم ہوا یہاں تک کہ عائشہ نے کہا اپ کو کس نے غم میں مبتلا کر دیا سوائے اس جریج کے بیٹے نے (یعنی ابراہیم کو جریج کا بیٹا قرار دیا ) پس یہ سن کر نبی نے علی کو ایک لشکر کے ساتھ بھیجا کہ جریج قبطی کو قتل کر دے اس کے باغ میں اور علی نے باغ کے دروازے پر ضرب لگائی – جریج آیا اور دروازہ کھولا جب علی کو دیکھا تو بھاگا … جریج ننگا ہو گیا دیکھا اس میں مردوں والی چیز نہیں ہے پس واپس آئے اور خبر دی … نبی نے فرمایا اللہ کا شکر جس نے میرے اہل بیت سے برائی کو درو رکھا

راقم کہتا ہے : ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی کے مطابق زرارة بن أعين الكوفي ایک نمبر کا جھوٹا ہے
قال سفيان الثوري: ما رأى أبا جعفر.
الثوري کہتے ہیں اس نے ابو جعفر کو نہیں دیکھا

انساب کے ماہر ابن حزم الأندلسي القرطبي (المتوفى: 456هـ) کتاب جمهرة أنساب العرب میں لکھتے ہیں

ومات إبراهيم قبل موت النبي صلى الله عليه وسلم، بأربعة أشهر؛ ودفن بالبقيع
اور ابراہیم کی وفات نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے چار ماہ پہلے ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئے

یعنی ذیقعد میں ١٠ ہجری میں وفات ہوئی اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی

یہ واقعہ آخری دور نبوی کا ہے اس کے بعد حجه الوداع ہوا اور یہ ممکن نہیں کہ سوره النور سن ٩ یا ١٠ میں نازل ہوئی ہو

تفسیر التبيان في تفسير القرآن از أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي میں ہے
وكان سبب الافك ان عائشة ضاع عقدها في غزوة بني المصطلق، وكانت تباعدت لقضاء الحاجة، فرجعت تطلبه، وحمل هودجها على بعيرها ظنا منهم بها أنها فيه، فلما صارت إلى الموضع وجدتهم قد رحلوا عنه، وكان صفوان ابن معطل السلمي الذكواني من وراء الجيش فمر بها، فلما عرفها أناخ بعيره حتى ركبته، وهو يسوقه حتى أتى الجيش بعد ما نزلوا في قائم الظهيرة. هكذا رواه الزهري عن عائشة.

أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي نے سرے سے زرارة کی روایت نقل ہی نہیں کی بلکہ وہی امام الزہری کی روایت بیان کی
تفسير مجمع البيان از أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي میں بھی امام الزہری کی روایت بیان ہوئی ہے

قرآن میں ہے کہ
لو لا إذ سمعتموه ظن المؤمنون و المؤمنات بأنفسهم خيرا
کیوں نہ مومن مردوں اور عورتوں نے گمان نیک کیا اپنے دلوں جب اس کو سنا

یہ افک لوگوں میں پھیل گیا تھا لیکن ابی جعفر سے منسوب قول میں ابراہیم پسر نبی کو ولد الزنا کا قول لوگوں میں پھیلا نہیں کہا گیا

لہذا شیعہ عالم الطباطبائي نے تفسیر تفسير الميزان میں عبد الله بن بكير اور زرارہ کی روایت کو رد کیا ہے
و هذه الروايات لا تخلو من نظر…..اللهم إلا أن تكون الروايات قاصرة في شرحها للقصة.
الطباطبائي نے کہا یہ روایات نظر سے خالی نہیں … اور ان آیات کی شرح میں قاصر ہیں
=========

واقعہ افک پر خوارج کی آراء

تفسير الهواري کے مطابق
هذا كان في شأن عائشة
آیات کا شان نزول عائشہ سے متعلق ہے

تفسير اطفيش کے مطابق
إنَّ الَّذين جاءوا بالإفك } الكذب العظيم ، وهو قذف عائشة وصفوان بالزنى { عُصبةٌ } جماعة ، وأصله الجماعة المتعصبون
یہ واقعہ عائشہ رضی الله عنہا سے متعلق ہوا

یہ خوارج کی مشہور تفاسیر ہیں

صحیح بخاری کی اس حدیث

لنک

http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/4750

آپ نے دریافت فرمایا کہ زینب ! تم نے بھی کوئی چیز کبھی دیکھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے کان اور میری آنکھ کو خدا سلامت رکھے ، میں نے ان کے اندر خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ازواج مطہرات میں وہی ایک تھیں جو مجھ سے بھی اوپر رہنا چاہتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پرہیز گاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا ۔ لیکن ان کی بہن حمنہ ان کے لئے لڑی اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوگئی ۔

جواب

حمنة بنت جحش نبی صلی الله علیہ وسلم کی کزن تھیں- یہ رسول الله کی چچی أميمة بنت عبد المطلب کی بیٹی تھیں – پہلے یہ مصعب بن عُمَير کی بیوی تھیں جنگ احد میں جب مصعب بن عُمَير شہید ہوئے تو یہ طلحة بن عُبَيد الله کی بیوی بنیں
أفك سے پہلے پردے کی آیات نازل ہو چکی تھیں لہذا اس طرح مومن عورتوں کا منافقوں سے گٹھ جوڑ ممکن نہیں کہ وہ عبد الله بن ابی سے ملتی ہوں اور ام المومنین کے خلاف کسی سازش کا حصہ بن گئی ہوں

کہا گیا کہ اس میں ان حد لگی جبکہ حد قذف کے احکام بعد میں نازل ہوئے ہیں
عن عائشة -رضي اللَّه عنها-، قالت: “لما نزل عُذْرِي قام النبيُّ -صلى اللَّه عليه وسلم- عَلَى المنبر، فذكر ذاكَ، وتلا -تعني القرآن- فلما نزلَ من المنبر أمر بالرجلين والمرأة، فضُرِبوا حَدَّهم
منذری نے سنن ابو داود میں کہا ہے کہ
وقد تقدم الاختلاف في الاحتجاج بحديث محمد بن إسحاق.
سند میں ابن اسحق ہے جس سے دلیل لینے پر اختلاف ہے
———-
الْقَاضِي عِيَاضٌ نے کہا
وَعِنْدِي أَنَّهُ إنَّمَا لَمْ يُحَدَّ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَقْذِفْ
میرے نزدیک عبد الله بن ابی پر کوئی حد نہیں لگی کیونکہ اسنے الزام نہیں لگایا تھا

الْمَاوَرْدِيِّ کہتے ہیں
إنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمْ يَجْلِدْ أَحَدًا مِنْ الْقَذَفَةِ، لِعَائِشَةَ
نبی صلی الله علیہ وسلم نے کسی کو قذف میں کوڑے عائشہ کے لئے نہیں مارے

حمنة بنت جحش سات سال تک استحاضہ کی بیماری میں مبتلا رہیں یہاں تک کہ نمازوں کا مسئلہ رہا یہ ممکن نہیں کہ ایک بیمار عورت اس طرح مدینہ میں سازش کا حصہ بن جائے
———-

صحیح بخاری میں ہے
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/4141
عروہ نے پہلی سند کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ حسان بن ثابت ‘ مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش کے سوا تہمت لگانے میں شریک کسی کا بھی نام نہیں لیا کہ مجھے ان کا علم ہوتا ۔ اگرچہ اس میں شریک ہونے والے بہت سے تھے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ( کہ جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ بہت سے ہیں ) لیکن اس معاملہ میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا عبد اللہ بن ابی ابن سلول تھا ۔

سند میں ابراہیم بن سعد ہے اور اس شخص پر راقم اسماء و صفات کے سلسلے میں جرح کر چکا ہے

إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ کی سند

إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف المتوفی ١٨٤ ھ یا ١٨٥ ھ

امام المحدثین يحيى بن سعيد القطان اس راوی کے سخت خلاف ہیں

امام احمد کے بیٹے العلل میں بتاتے ہیں کہ

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: ذكرنا عند يحيى بن سعيد حديثا من حديث عقيل. فقال لي يحيى: يا أبا عبد الله، عقيل وإبراهيم بن سعد!! عقيل وإبراهيم بن سعد!! كأنه يضعفهما. قال أبي: وأي شيء ينفعه من ذا، هؤلاء ثقات، لم يخبرهما يحي. «العلل» (282 و2475 و3422) .

میرے باپ نے ذکر کیا کہ یحیی کے سامنے عقیل کی حدیث کا ہم نے ذکر کیا انہوں نے کہا اے ابو عبد الله عقیل اور ابراہیم بن سعد، عقیل اور ابراہیم بن سعد جیسا کہ وہ تضعیف کر رہے ہوں

کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مطابق

كَانَ وَكِيْعٌ كَفَّ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنْهُ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْهُ.

وَكِيْعٌ اس کی روایت سے رکے رہے پھر روایت کرنا شروع کر دیا

اس کے برعکس امام عقیلی کہتے ہیں بحوالہ إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي

ذكره العقيلي في كتاب ” الجرح والتعديل ” قال: قال عبد الله بن أحمد بن حنبل قال أبي: حدثنا وكيع مرة عن إبراهيم بن سعد، ثم قال: أجيزوا عليه وتركه بأخرة.

عقیلی نے اس کا ذکر کتاب الجرح والتعديل میں کیا اور کہا کہ عبد الله نے کہا کہ امام احمد نے کہا وكيع نے ایک بار ابراہیم سے روایت کیا پھر کہا اور … آخر میں بالکل ترک کر دیا

قَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ: سَمَاعُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ لَيْسَ بِذَاكَ، لأَنَّهُ كَانَ صَغِيْراً.

صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ نے کہا اس کا سماع امام الزہری ویسا (اچھا نہیں) ہے کیونکہ یہ چھوٹا تھا

تاریخ الاسلام میں الذھبی نے جزرہ کا قول پیش کیا کہ كَانَ صغيرا حين سمع من الزهري انہوں نے بچپنے میں الزہری سے سنا

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق أبي عبد الرحمن السلمي نے کہا

قدم إبراهيم العراق سنة أربع وثمانين ومائة، فأكرمه الرشيد وأظهر بره، وتوفي في هذه السنة، وله خمس وسبعون سنة.

ابراہیم عراق سن ١٨٤ ھ میں پہنچے ان کی الرشید نے عزت افزائی کی اور اسی سال انتقال ہوا اور یہ ٧٥ سال کے تھے

اس دور میں عراقیوں نے ان سے روایات لیں جن پر امام یحیی بن سعید القطان اور امام وکیع کو اعتراض تھا اور انہوں نے ان کو ترک کیا لیکن امام احمد امام ابن معین نے ان کی روایات لے لیں اور اسی طرح امام بخاری و مسلم کے شیوخ نے بھی لے لیں

اور دوسری حدیث صحیح مسلم کی ہے
اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ
اس سند پر بھی راقم اپنے مضمون کیا عائشہ مسلسل پردہ کرتیں میں جرح کر چکا ہے
سند میں حماد بن اسامہ ہے جس کے لئے محدثین نے کہا تھا

يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) کتاب المعرفة والتاريخ میں لکھتے ہیں

قَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: كَانَ أَبُو أُسَامَةَ ِذَا رَأَى عَائِشَةَ فِي الْكِتَابِ حَكَّهَا فَلَيْتَهُ لَا يَكُونُ إِفْرَاطٌ فِي الْوَجْهِ الْآخَرِ.

سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ يُوهِنُ أَبَا أُسَامَةَ، ثُمَّ قَالَ يُعْجَبُ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمَعْرِفَتِهِ بِأَبِي أُسَامَةَ ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ

عمر بن حفص بن غیاث المتوفی ٢٢٢ ھ کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا ابو اسامہ جب کتاب میں عائشہ لکھا دیکھتا تو اس کو مسخ کر دیتا یہاں تک کہ اس ( روایت) میں پھر کسی دوسری جانب سے اتنا افراط نہیں آ پآتا

يعقوب بن سفيان کہتے ہیں میں نے مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ کو سنا وہ ابو اسامہ کو کمزور قرار دیتے تھے پھر کہا مجھے (مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ کو) ابی بکر بن ابی شیبہ پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس ابو اسامہ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے روایت لیتے ہیں

===========

ممکن ہے کہ حمنہ رضی الله عنہا نے کچھ ایسا کہا ہو جو عائشہ رضی الله عنہا کو پسند نہ آیا ہو
لیکن کیا کہا اس کی تفصیل کہیں نہیں ہے

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ

(بَابٌ فِي فَضْلِ النَّبِيِّ ﷺ​) جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں

(باب: نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کابیان​)

3609 . حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِي الْبَاب عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ
حکم : صحیح

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا:’ جب آدم روح اورجسم کے درمیان تھے’ ۱؎ ۔( یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہورہی تھی)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔

=========

اس حدیث کی تحقیق درکار ہے۔۔۔۔۔کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کہ امام ترمذی اور ناصر البانی نے حسن کہا ہے

جواب

مسند احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: ” وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ
عبد الله بن أبي الجذعاء مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا اپ کب نبی ہوئے؟ فرمایا جب آدم جسد و روح کے درمیان تھے

اس کو شعیب نے صحیح کہا ہے

یہ روایت قابل غور ہے اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ آدم علیہ السلام اس وقت نبی نہیں تھے کیونکہ تخیلق سے پہلے تقدیر لکھی گئی اس میں تمام انبیاء جو صلب آدم سے ہیں ان کو نبی مقرر کیا گیا ان کی ارواح کو خلق کیا گیا اور آدم جب جسد و روح کے درمیان تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقدر لکھا گیا کہ یہ آخری نبی ہوں گے

طحاوی مشکل الاثار میں کہتے ہیں
وَأَمَّا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ “، فَإِنَّهُ، وَإِنْ كَانَ حِينَئِذٍ نَبِيًّا، فَقَدْ كَانَ اللهُ تَعَالَى كَتَبَهُ فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ نَبِيًّا
اس حدیث میں ہے کہ وہ اس وقت نبی تھے تپ پس الله نے ان کا نبی ہونا لوح محفوط میں لکھا

یعنی بنی آدم کی تقدیر لکھی گئی جب آدم جسد اور روح کے درمیان کی حالت میں تھے

 الْمُعْتَزلَة غیر مقلدین اور عذاب قبر

غیر مقلدین جن کا عقائد میں ارتقاء جاری ہے ان کے ایک علم کلام کے ماہر ابو جابر دامانوی کتاب عذاب قبر میں لکھتے ہیں

اس امت میں خوارج اور معتزلہ وغیرہ پیدا ہوئے جو عذاب قبر کا انکار کر چکے ہیں اور موجودہ دور میں ڈاکٹر عثمانی صاحب ان پرانے فرقوں کی بازگشت ہیں۔  عذاب القبر کے متعلق اہل اسلام کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ قبر کی راحت و آرام اور قبر کا عذاب حق ہے اور قبر میں دفن میت کے بعد دو فرشتوں منکر و نکیر کا آنا اور ان کا میت سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق سوال کرنا مومن کا راحت و آرام میں رہنا اور اس پر صبح و شام جنت کا پیش کیا جانا جب کہ کفار و مشرکین اور منافقین کا قبر میں عذاب میں مبتلا ہونا فرشتوں کا انہیں لوہے کے گرز سے مارنا میت کا چیخنا و چلانا اور ہیبت ناک آوازیں نکالنا۔غرض احادیث صحیحہ میں قبر کے حالات کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر ایمان لانا لازم اور ضروری ہے اور ایمانیات میں شامل ہے۔جبکہ عذاب قبر کا انکار کفر ہے اس کا انکاری ایمان و توحید سے خالی ہے چاہے وہ اپنے ایمان کو کتنا ہی خالص کیوں نہ کہے۔ 

ائمہ غیر مقلدین مثلا  نذیر حسین جن کو یہ شیخ الکل  کہتے ہیں اور بدیع الدین راشدی اور  قاضی شوکانی  یمنی کا عقیدہ تھا کہ مردہ میں روح واپس پلٹ اتی ہے اور  زندہ حالت میں ہی عذاب ہوتا ہے – امام ابن عبد البر کے مطابق روح قیامت تک افنیہ القبور میں ہی رہتی ہیں یعنی قبرستان  کے میدان میں اور شیخ ابن تیمیہ و ابن قیم کا عقیدہ تھا کہ روح سورج کی شعآع جیسی کوئی شی ہے جو قبر میں  آتی جاتی رہتی ہے   گویا انرجی ہے- عبد الوہاب النجدی  کا عقیدہ بھی ابن تیمیہ جیسا ہے جس میں روح نہ صرف عام آدمی میں انبیاء  میں بھی اتی ہے

غیر مقلدین کا  سن ٢٠٠٠ سے  عقیدہ ہے کہ مردے میں تدفین کے بعد روح کو واپس ڈالا جاتا ہے جس سے میت میں  قوت سماعت آ جاتی ہے وہ قدموں کی چاپ سننے لگتی ہے اور صحیح مسلم کی ایک روایت کی غلط تاویل کے بعد ان کے مطابق مردہ قبر پر موجود افراد سے مانوس ہوتا ہے اور اس دوران فرشتے سوال کرتے ہیں – اس کے بعد روح کو نکال لیا جاتا ہے وہ آسمان منتقل کر دی جاتی ہے  پھر میت پر بلا روح   عذاب ہوتا ہے جس میں پسلیاں ادھر ادھر ہوتی ہیں مردہ چیخیں مارتا ہے جس کو چوپائے سنتے ہیں – اس کے پیچھے  ضعیف و معلول روایات کا انبار ہے جن کو صحیح  روایات سے ملا کر ایک گنجلک عقیدہ بنا دیا گیا ہے  اور اس کو ایسے پیش کیا جاتا ہے گویا یہ سلف سے چلا آ رہا ہو

اس سلسلے میں باربار غیر مقلدین معتزلہ کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ عذاب قبر کے انکاری تھے – معتزلہ اور ان  کی تحاریر تو معدوم ہیں لیکن اہل سنت ان کا کیا عقیدہ عذاب قبر کے حوالے سے بتاتے ہیں اس کو دیکھتے ہیں

تمام  الْمُعْتَزلَة عذاب قبر کے انکاری نہیں تھے

فتح السلام شرح عمدة الأحكام، للحافظ ابن حجر العسقلاني مأخوذ من كتابه فتح الباري از أبو محمد عبد السلام بن محمد العامر کے مطابق

قوله: (من عذاب القبر) فيه ردّ على من أنكره مطلقاً من الخوارج وبعض المعتزلة كضرار بن عمرو وبشر المريسيّ ومن وافقهما.

وخالفهم في ذلك أكثر المعتزلة وجميع أهل السّنّة وغيرهم , وأكثروا من الاحتجاج له. وذهب بعض المعتزلة كالجيّانيّ: إلى أنّه يقع على الكفّار دون المؤمنين.

ابن حجر کا قول (من عذاب القبر) اس میں رد ہے خوارج کا اور بعض الْمُعْتَزلَة کا   جنہوں نے  مطلقا عذاب کا انکار  کیا ہے جیسے  ضرار بن عمرو اور بشر المريسيّ  اور وہ جنہوں نے انکی موافقت کی ہے

كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از   محمَّد الخَضِر بن سيد عبد الله بن أحمد الجكني الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق

وأنكرت المعتزلة عذاب القبر والخوارج وبعض المرجئة، لكن قال القاضي عبد الجبار رئيس المعتزلة: إن قيل: مذهبكم أدّاكم إلى إنكار عذاب القبر، وقد أطبقت عليه الأمة. قيل: هذا الأمر إنما أنكره ضِرار بن عمرو، ولما كان من أصحاب واصل ظنوا أن ذلك مما أنكرته المعتزلة، وليس الأمر كذلك، بل المعتزلة رجلان: أحدهما: يُجوِّز ذلك كما وردت به الأخبار، والثاني: يقطع بذلك، وأكثر شيوخنا يقطعون بذلك، وإنما يُنْكَر قول جماعة من الجهلة: إنهم يعذَّبون وهم موتى. ودليل العقل يمنع من ذلك.

اور المعتزلة نے عذاب قبر کا انکار کیا اور خوارج اورکچھ مرجیہ نے انکار کیا ہے لیکن قاضی عبد الجبار   المعتزلة  کے سردارکہتے ہیں  کہا جاتا ہے  تمہارا مذھب تم کو عذاب قبر کے انکار پر لے جاتا ہے اور بے شک اس میں امت کو طبقات میں کر دیتا ہے – کہا جاتا ہے کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس کا انکار ضِرار بن عمرو نے کیا جبکہ وہ  اصحاب واصل بن عطا  میں سے ہے – اس سے لوگوں نے یہ گمان کیا  المعتزلة اس کے انکاری ہیں جبکہ ایسا نہیں تھا بلکہ المعتزلة میں دو  (بڑے ) اشخاص تھے ایک اس  کے جواز کا قائل ہے  اور یہ بات روایات میں بیان ہوئی ہے  اور دوسرا اس سے الگ ہے  – اور ہمارے اکثر شیوخ اس سے الگ ہی ہیں اور انکی طرف سے ایک  جاہلوں کی اس  جماعت کا  انکار کیا گیا ہے  جو یہ کہتے ہیں کہ ان کو عذاب ہو گا اور یہ مردہ ہوں گے اور عقل کی دلیل اس سے مانع   ہے 

کتاب شرح سنن ابن ماجه – الإعلام بسنته عليه السلام از  مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) کے مطابق

إنّما أنكره أولًا ضرار بن عمرو، ولما كان من

أصحاب واصل ظنوا أن ذلك مما أنكرته المعتزلة، وليس الأمر كذلك بل

المعتزلة رجلان: أحدهما يجوز ذلك كما وردت به الأخبار، والثاني يقطع

بذلك، وأكثر شيوخنا يقطعون بذلك إنّما ينكرون قول طائفة من الجهلة أنّهم

يعذبون وهم موتى، ودليل العقل يمنع من ذلك، وبنحوه قاله أبو عبد الله

المرزباني في كتاب الطبقات أيضًا،

بے شک اس کا شروع شروع میں ضرار بن عمرو نے انکار کیا اور اصحاب واصل نے گمان کیا کہ اس کا انکار المعتزلة نے کیا ہے جبکہ  اصل بات یہ ہے کہ  المعتزلة میں دو اشخاص تھے ایک اس  کے جواز کا قائل ہے  اور یہ بات روایات میں بیان ہوئی ہے  اور دوسرا اس سے الگ ہے  – اور ہمارے اکثر شیوخ اس سے الگ ہی ہیں اور انکی طرف سے ایک  جاہلوں کی اس  جماعت کا  انکار کیا گیا ہے  جو یہ کہتے ہیں کہ ان کو عذاب ہو گا اور یہ مردہ ہوں گے اور عقل کی دلیل اس سے مانع   ہے  –  ابو عبد الله المرزباني کہتے ہیں کتاب الطبقات میں ایسا ہی ہے

معلوم ہوا کہ معتزلہ کے بعض  جہلاء نے وہی عقیدہ اختیار کیا جو آج غیر مقلدین کا ہے کہ مردہ میت کو بغیر روح عذاب ہوتا ہے اسکا رد کیا گیا

المعتزلةِ کی طرف انکار عذاب قبر ثابت نہیں ہے

کتاب   فيض الباري على صحيح البخاري میں  محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري   الديوبندي (المتوفى: 1353هـ) لکھتے ہیں

وما نُسِب إلى المعتزلةِ أنهم يُنْكِرون عذابَ القَبْر فلم يثبت عندي إلا عن بِشْر المَرِيسي وضِرار بنِ عمروِ. وبِشْرٌ كان يختلف إلى دَرْس أبي يوسف رحمه الله تعالى، فلما بلغه من شأَن بِشْر قال: إني لأَصْلِبنَّك – وكَان قاضيًا – فَفَرَّ المَرِيسي   خائفًا، ثُم رَجَعَ بعد وفاته. أما ضِرارًا فلا أَعْرف مَنْ هو.

اور جو المعتزلةِ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ عذاب قبر کا انکار کرتے ہیں تو یہ میرے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے سوائے  ضرار بن عمرو اور بشر المريسيّ کے لئے –   اور بشر المريسيّ امام ابو یوسف سے درس میں اختلاف کرتا تھا پس جب  انکو بشر کی حالت پتا چلی انہوں نے کہا میں تجھ کو صلیب دوں گا اور وہ قاضی تھے پس بشر المریسی فرار ہو گیا ڈر کر پھر پلٹا انکی وفات کے بعد – اور ضرار بن عمرو کو میں نہیں جانتا یہ کون ہے

امام بخاری اور عذاب قبر

  فتح الباري شرح صحيح البخاري از  أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي کے مطابق

لم يتعرض المصنف في الترجمة لكون عذاب القبر يقع على الروح فقط، أو عليها وعلى الجسد، وفيه خلاف شهير عند المتكلمين، وكأنه تركه لأن الأدلة التي يرضاها ليست قاطعة في أحد الأمرين، فلم يتقلد الحكم في ذلك، واكتفى بإثبات وجوده، خلافًا لمن نفاه مطلقًا من الخوارج، وبعض المعتزلة، كضرار بن عمرو وبِشر المريسيّ ومن وافقهما. وخالفهما في ذلك أكثر المعتزلة، وجميع أهل السُنَّة وغيرهم، وأكثروا من الاحتجاج له.وذهب بعض المعتزلة كالجبائيّ إلى أنه يقع على الكفار دون المؤمنين، وبعض الأحاديث الآتية عليهم أيضًا.

مصنف امام بخاری نے یہاں ترجمہ میں  اس پر  زور نہیں دیا (یا ظاہر نہیں کیا)  کہ عذاب قبر صرف روح کو ہوتا ہے یا روح پر اور جسم  (دونوں) پر ہوتا ہے اور اس کے خلاف متکمین میں بہت کچھ مشھور ہے اور گویا کہ (قصدا) انہوں نے ترک کیا کیونکہ دلائل جس سے راضی ہوں وہ قطعی نہیں تھے پس انہوں نے اس پر حکم نہیں باندھا اور صرف اثبات وجود (عذاب قبر) پرہی اکتفآ کیا ہے – یہ خلاف ہے اس نفی مطلق کے  جو خوارج اور بعض المعتزلة نے کی ہے  جیسے ضرار بن عمرو  اور بِشر المريسيّ  اور وہ جنہوں نے انکی دونوں کی موافقت کی اور اس کی (عذاب قبر کے انکار کی ) اکثر المعتزلة  اور اہل سنت نے مخالفت کی  اور  اس سے الاحتجاج   لینے والوں کی اکثریت  ہے اور بعض المعتزلة جیسے الجبائيّ کہتے ہیں یہ (صرف) کفار کو ہو گا مومنوں پر نہیں اور بعض احادیث سے اس پر اخذ کیا ہے 

یہ اقوال ثابت کرتے ہیں کہ تمام المعتزلة   عذاب قبر کے انکاری نہیں تھے بلکہ ایک دو ہی افراد تھے

الْمُعْتَزلَة کا عقیدہ :  الم و عذاب میت کو ہے

کتاب  المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج از  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) میں ہے

أَنَّ مَذْهَبَ أَهْلِ السُّنَّةِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ كَمَا ذَكَرْنَا خِلَافًا لِلْخَوَارِجِ وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَةِ وَبَعْضُ الْمُرْجِئَةِ نَفَوْا ذَلِكَ ثُمَّ الْمُعَذَّبُ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ الْجَسَدُ بِعَيْنِهِ أَوْ بَعْضُهُ بَعْدَ إِعَادَةِ الرُّوحِ إِلَيْهِ أَوْ إِلَى جُزْءٍ مِنْهُ وَخَالَفَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إِعَادَةُ الرُّوحِ قَالَ أَصْحَابُنَا هَذَا فَاسِدٌ لِأَنَّ الْأَلَمَ  وَالْإِحْسَاسَ إِنَّمَا يَكُونُ فِي الْحَيِّ

بے شک اہل سنت کا مذھب اثبات عذاب قبر ہے جیسا ہم نے ذکر کیا بر خوارج اور الْمُعْتَزِلَةِ کے بڑوں اور بعض الْمُرْجِئَةِ  کے- یہ لوگ اس کا  انکار کرتے ہیں  – پھر عذاب پانے والا اہل سنت میں پورا جسد ہے   یا اس کا بعض حصہ آعآدہ روح کے  بعد جو  پورے جسد یا اس کے اجزاء میں ہوتا ہے  اور اس کی مخالفت کی ہے امام  ابن جریر طبری نے اور عبد الله بن کرام نے اور ایک گروہ نے اور کہا ہے عذاب کے لئے روح لوٹنا شرط نہیں ہے – ہمارے اصحاب ( اہل سنت جواب میں) کہتے ہیں یہ ( قول یا رائے)  فاسد ہے کیونکہ الم و احساس زندہ کے لئے ہے

وهابي عالم عاصم القریوتی نے  ٣٦ سال قبل لکھا تھا

qaryuti1

سن ١٩٨٤ میں شمارہ محدث میں مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی نے اپنا عقیدہ ان الفاظ میں بیان کیا

جب ہم خود اس بات کے قائل ہیں کہ عذاب و ثواب قبر کا بیشر انحصار روح یا روح کے جسم پر ہوتا ہے۔ البتہ اس کی شدت سے کبھی کبھار قبر میں پڑا ہوا جسدِ عنصری بھی متاثر ہو جاتا ہے

یعنی عذاب قبر اصلا روح کو ہے جس کا اثر کبھی کبھار جسد عنصری پر ہوتا ہے

حیرت ہے کہ آج غیر مقلدین نے قریوتی  اور کیلانی صاحب کا عقیدہ چھوڑ  دیا ہے

ابو جابر دامانوی کا عقیدہ ہے کہ عذاب قبر تدفین سے پہلے شروع ہو جاتا ہے  اعادہ روح سے بھی پہلے لہذا کتاب دین الخالص قسط اول و دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عذاب١

غیر مقلدین ٣٠ سال پہلے  عذاب قبر کی ابتداء حالت نزع سے بتاتے تھے یعنی اس کا آغاز قبر میں عود روح سے نہیں ہوتا

روح صرف چند سوالوں کے لئے اتی ہے دامانوی دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عقیدہ٢

یہ کس حدیث میں ہے کہ روح واپس جسم سے نکال لی جاتی ہے ؟ عود روح کی روایت جو شیعہ راویوں المنھال اور زاذان نے البراء بن عازب رضی الله عنہ سے منسوب کی ہے اس میں تو اس سے الٹ لکھا ہے اس کے مطابق  روح جب بھی آسمان کی طرف جائے گی اس کو واپس زمین کی طرف  پھینک دیا جائے گا

دامانوی کے مطابق روح پر عذاب قبر نہیں ہوتا اس پر عذاب جہنم ہوتا ہے دین الخالص قسط دوم میں لکھتے ہیں

دامانوی عقید٣٢

یہ بھی قیاس ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے

اسی کتاب میں دامانوی لکھتے ہیں

دامانوی عقید٤

یعنی روح جہنم میں ہی رہے گی اور جسد بلا روح کو عذاب ہو گا

کہتے ہیں

سانپ نکل گیا لکیر پیٹا کرو

اہل سنت کا یہ عقیدہ نہیں ہے یہ کرامیہ کا عقیدہ ہے جو غیر مقلدین اختیار کر چکے ہیں

شَرْحُ صَحِيح مُسْلِمِ لِلقَاضِى عِيَاض المُسَمَّى إِكمَالُ المُعْلِمِ بفَوَائِدِ مُسْلِم از قاضی  عياض بن موسى  (المتوفى: 544هـ) کے مطابق

وأن مذهب أهل السنة تصحيح هذه الأحاديث وإمرارها على وجهها؛ لصحة طرقها، وقبول السلف لها. خلافًا لجميع الخوارج، ومعظم المعتزلة، وبعض المرجئة؛ إذ لا استحالة فيها ولا رد للعقل، ولكن المعذب الجسد بعينه بعد صرف الروح إليه أو إلى جزء منه، خلافاً لمحمد بن جرير (3) وعبد الله بن كرام (4) ومن قال بقولهما؛ من أنه لا يشترط الحياة؛ إذ لا يصح الحس والألم واللذة إلا من حى

اور اہل سنت کا مذھب ان احادیث کی تصحیح ہے اور اس کو ظاہر پر منظور کرتے ہیں اس سے صحیح طرق کی وجہ سے اور سلف کے قبول کی وجہ سے  اور خلاف ہے یہ تمام خوارج اور المعتزلة کے بڑوں اور المرجئة کے – کیونکہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں اور عقل کا رد نہیں ہے بلکہ جسد جیسا ہے اس کی طرف روح لانے پر یا اس کے اجزاء پر عذاب ہے اور یہ خلاف ہے امام طبری اور عبد الله بن کرام کے اور وہ جس نے اس جیسا قول کہا  کہ عذاب کی شرط زندگی نہیں ہے – کیونکہ اگر حس صحیح نہیں تو الم و لذت تو نہیں ہے سوائے زندہ کے لئے

کتاب  عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں العینی لکھتے ہیں

 وَقَالَ الصَّالِحِي من الْمُعْتَزلَة وَابْن جرير الطَّبَرِيّ وَطَائِفَة من الْمُتَكَلِّمين يجوز التعذيب على الْمَوْتَى من غير إحْيَاء وَهَذَا خُرُوج عَن الْمَعْقُول لِأَن الجماد لَا حس لَهُ فَكيف يتَصَوَّر تعذيبه

اور (ابو حسین  محمد بن مسلم) الصَّالِحِي  (مصنف كتاب الْإِدْرَاك)  نے الْمُعْتَزلَة میں سے  اور امام طبری نے اور متکمین کے ایک گروہ نے جائز کیا ہے کہ بغیر زندگی کے  مردوں  پر  عذاب ہو   اور یہ عقل سے عاری بات ہے کیونکہ جمادات میں حس نہیں ہوتی تو پھر عذاب کا  تصور کیسے کیا جا سکتا ہے

علامہ عینی کے قول سے ثابت ہے جسد بلا روح پر عذاب الْمُعْتَزلَة کا عقیدہ تھا جس کو غیر مقلدین اختیار کر چکے ہیں

کتاب التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة از  القرطبي (المتوفى: 671هـ) کے مطابق

وقال الأكثرون من المعتزلة: لا يجوز تسمية ملائكة الله تعالى بمنكر ونكير، وإنما المنكر ما يبدو من تلجلجله إذا سئل، وتقريع الملكين له هو النكير، وقال صالح: عذاب القبر جائز، وأنه يجري على الموتى من غير رد الأرواح إلى الأجساد، وأن الميت يجوز أن يألم ويحس ويعلم. وهذا مذهب جماعة من الكرامية.  وقال بعض المعتزلة: إن الله يعذب الموتى في قبورهم، ويحدث فيهم الآلآم وهم لا يشعرون، فإذا حشروا وجدوا تلك الآلام. وزعموا أن سبيل المعذبين من الموتى، كسبيل السكران أو المغشى عليه، لو ضربوا لم يجدوا الآلام، فإذا عاد إليهم العقل وجدوا تلك الآلام، وأما الباقون من المعتزلة.  مثل ضرار بن عمرو وبشر المريسي ويحيى بن كامل وغيرهم، فإنهم أنكروا عذاب القبر أصلاً، وقالوا: إن من مات فهو ميت في قبره إلى يوم البعث وهذه أقوال كلها فاسدة تردها الأخبار الثابتة وفي التنزيل: {النار يعرضون عليها غدواً وعشياً} . وسيأتي من الأخبار مزيد بيان، وبالله التوفيق والعصمة والله أعلم.

اور المعتزلة میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ الله کے فرشتوں کو منکر نکیر نہیں کہنا چاہیے اور  صالح نے کہا عذاب قبر جائز ہے اور یہ مردوں پر ہوتا ہے روحیں لوٹائے بغیر اور میت کے لئے  جائز ہے کہ وہ الم کا احساس کرے اور جانتی ہو اور یہ مذہب کرامیہ کی ایک جماعت کا ہے – اور بعض المعتزلة نے کہا الله مرودں کو قبروں میں عذاب کرتا ہے اور ان پر الم اتا ہے اور وہ اس کا شعور نہیں کرتے لیکن جب حشر ہو گا ان کو اس کا احساس ہو گا اور انہوں نے دعوی کیا کہ مردوں میں عذاب پانے والے ایک بے ہوش اور غشی والے شخص کی طرح ہیں اس پر ضرب لگاو تو اس کو احساس نہیں ہوتا لیکن جب عقل اتی ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے اور المعتزلة میں باقی کہتے ہیں مثلا ضرار اور بشر اور یحیی اور دیگر یہ وہ ہیں جنہوں نے اصلا عذاب کا انکار کیا ہے اور کہتے ہیں جو مرا وہ میت ہے اپنی قبر میں قیامت تک کے لئے اور یہ تمام اقوال فاسد ہیں جو رد ہوتے ہیں ثابت خبروں سے اور قرآن میں ہے ال فرعون اگ پر پیش کیے جاتے ہیں 

قرطبی کے بقول بعض المعتزلة اور کرامیہ کا عقیدہ ایک تھا کہ میت بلا روح عذاب سہتی ہے جو آج کل کے غیر مقلدین کا عقیدہ ہے

الإعلام بفوائد عمدة الأحكام ابن الملقن الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)کے مطابق

وقال بعضهم: عذاب القبر جائز وأنه يجري على [الموتى]   من غير رد أرواحهم إلى أجسادهم وأن الميت يجوز أن يألم ويحس وهذا مذهب جماعة من الكرامية. وقال بعض المعتزلة: إن الله يعذب [الموتى]   في قبورهم ويحدث فيهم الآلام وهم لا يشعرون فإذا حُشروا وجدو تلك الآلام، كالسكران والمغشي عليه، لو ضربوا لم يجدوا ألمًا   فإذا عاد عقلهم إليهم وجدوا تلك الآلام. وأما الباقون سنن المعتزلة مثل ضرار  بن [عمرو]   وبشر   المريسي ويحيى   بن أبي كامل وغيرهم: فإنهم أنكروا عذاب القبر أصلًا.  وهذه أقوال كلها فاسدة تردها الأحاديث الثابتة، والله الموفق.  وإلى الإِنكار أيضًا ذهبت الخوارج وبعض المرجئة. ثم المعذب عند أهل السنة: الجسد بعينه أو بعضه بعد إعادة الروح إليه [أو]  إلى جزء منه، وخالف في ذلك محمد بن [حزم]  وابن كرام   وطائفة، فقالوا: لا يشترط إعادة الروح، وهو فاسد توضحه الرواية السالفة (سمع صوت إنسانين يعذبان) فإن الصوت لا يكون [إلَّا]   من جسم حي  أجوف 

اور بعض کہتے ہیں عذاب قبر جائز ہے اور یہ مردوں کو ہوتا ہے روح لوٹائے بغیر اور یہ میت کے لئے جائز ہے کہ احساس الم کرے اور یہ کرامیہ کی جماعت کا مذھب ہے  اور بعض المعتزلة کہتے ہیں اللہ مردوں کو قبروں میں عذاب کرتا ہے اور ان پر الم ہوتا ہے لیکن انکو اسکا شعور نہیں ہے پس جب حشر ہو گا انکو یہ الم مل جائے گا – (مردوں کی کیفیت ایسی ہے ) جیسے غشی ہوتی ہے کہ انکو مارو تو انکو الم نہیں ملتا پس جب عقل واپس اتی ہے انکو الم ملتا ہے- اور باقی المعتزلة  مثلا  ضرار  بن [عمرو]   وبشر   المريسي ويحيى   بن أبي كامل وغيرهم تو یہ سب اصلا  عذاب کا انکار کرتے ہیں – اور یہ تمام اقوال فاسد ہیں جن کا رد ثابت حدیثوں سے ہوتا ہے اللہ توفیق دینے والا ہے اور اسی انکار کی طرف  خواراج اور بعض المرجئة کا مذھب ہے- پھر معذب اہل سنت کے نزدیک جسد اور اس کے جیسا ہے روح لوٹانے پر یا اجزاء پر اور اسکی مخالفت کی ہے ابن حزم نے ابن کرام نے اور ایک گروہ نے اور کہا کہ اعادہ روح اس کی شرط نہیں ہے اور یہ فاسد ہے انکی وضاحت ہوتی ہے پچھلی حدیثوں سے (دو انسانوں کی آواز سنی جن کو عذاب ہو رہا تھا)  کیونکہ آواز نہیں ہے الا جسم زندہ ہو (مٹی سے) خالی ہو

ابن ملقن کے بقول عذاب   اہل سنت میں حی یا زندہ کے لئے ہے جس کے جسم میں مٹی نہ ہو اور کرامیہ کا مذھب ہے کہ یہ لاش کو بلا روح ہوتا ہے

اہل سنت کی عقیدہ عذاب قبر میں دو آراء

العرف الشذي شرح سنن الترمذي از المؤلف: محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ)

ونسب إلى المعتزلة أنهم ينكرون عذاب القبر، ويرد عليه أن المعتزلة المختار عدم إكفارهم، وإذا كانوا أنكروا عذاب القبر فكيف يكونوا أهل القبلة؟ أقول: يقال أولاً: لعل التواتر نظري، وثانياً: أنه لم ينكر أحد منهم إلا ضرار بن عمرو وبشر المريسي، وإني في هذا أيضاً متردد ما لم ير عبارتهما. ثم لأهل السنة قولان؛ قيل: إن العذاب للروح فقط، وقيل: للروح والجسد والمشهور الثاني، اختاره أكثر شارحي الهداية وهو المختار

اور المعتزلة سے عذاب قبر کا انکار منسوب کیا جاتا ہے اور اس کا رد کیا جاتا ہے کہ  المعتزلة جو  مختار تھے کہ وہ عذاب قبر کا کفر  کرتے ہیں  اور اگر وہ عذاب قبر کے انکاری ہیں تو انکو اہل قبلہ کیسے لیں؟ میں کہتا ہوں پہلی بات تواتر نظری ہے اور دوسری اس کا انکار صرف ضرار بن عمرو وبشر المريسي نے کیا ہے اور میں خود متردد ہوں کیونکہ میں نے اس پر انکی  کوئی عبارت اس پر نہیں پائی- پھر خود اہل سنت میں عذاب قبر پر دو قول ہیں ایک یہ کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے دوسرا یہ کہ یہ جسم و روح کو ہوتا ہے اور دوسرا مشھور ہے اس کو الهداية کے اکثر شارحین نے  لیا ہے اور یہ مختار ہے

امام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور
اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا

کتاب  إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از المؤلف: أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) کے مطابق بھی بعض ٩٢٣ ھ میں کہہ رہے تھے کہ یہ صرف روح کا سننا ہے

إما بآذان رؤوسهم، كما هو قول الجمهور، أو بآذان الروح فقط، والمعتمد قول الجمهور، لأنه: لو كان العذاب على الروح فقط، لم يكن للقبر بذلك اختصاص، وقد قال قتادة، كما عند المؤلّف في غزوة بدر: أحياهم الله تعالى حتى أسمعهم توبيخًا أو نقمة.

اور سروں میں موجود کان ہیں وہ سنتے ہیں یہ جمہور کہتے ہیں یا پھر فقط روح کے کان ہیں اور معتمد جمہور کا قول ہے کیونکہ عذاب اگر صرف روح کو ہو تو قبر کی کوئی خصوصیت نہیں ہے اور قتادہ نے غزوہ بدر کے لئے کہا کہ ان مشرکین کو زندہ کیا توبیخ کے لئے

یعنی قسطلانی نے ایک معجزہ کو معمول سمجھ لیا  جبکہ امت میں صرف روح پر عذاب کی رائے بھی چلی آ رہی ہے

لہذا اس  مسئلہ میں دو قول ہیں ایک یہ ہے کہ عذاب صرف روح کو ہوتا ہے جس کا ذکر سلف کرتے ہیں لیکن یہ قول کہ یہ صرف جسد کو بلا روح ہوتا ہے عبد الله بن کرام کے فرقہ کرامیہ اور الْمُعْتَزلَة میں الصالحی کا تھا

خوارج اور غیر مقلدین

ابو جابر دامانوی نے خوارج کے انکار عذاب قبر کا حوالہ دیا ہے- اطلاعا عرض ہے کہ اس میں خوارج مختلف الخیال ہیں اکثر کی رائے میں عذاب کفار و منافق پر ہوتا ہے ایمان والوں کے لئے وہ اس کو جزم سے بیان نہیں کرتے

یہاں ہم ایک خارجی عالم  ناصر بن أبي نبهان  الأباضي المتوفی ١٢٦٣  کی رائے پیش کرتے ہیں

إن الله قادر أن يخلق له نوع حياة، يجوز بها ما يدرك الألم والتنعيم، من غير إعادة الروح إليه لئلا يحتاج إلى نزع حياة جديدة، ويجوز بإعادة الحياة دون إعادة الروح

اور بے شک الله تعالی قادر ہے کہ ایک نوع کی حیات (مردوں میں) پیدا کر دے جس سے ان کو الم و راحت کا ادرک ہو بغیر روح لوٹائے کیونکہ اس کو اس نئی حیات کی ضرورت ہے اور جائز ہے کہ حیات کا لوٹنا ہو بغیر إعادة روح کے

بحوالہ  آراء الشيخ ابن أبي نبهان في قاموس الشريعة

ان کا ترجمہ یہاں دیکھ سکتے ہیں

https://ar.wikipedia.org/wiki/ناصر_بن_جاعد_الخروصي#.D9.85.D8.A4.D9.84.D9.81.D8.A7.D8.AA.D9.87

یہ رائے آج سے ١٧٤ سال پہلے خوارج  کے ایک عالم پیش کر چکے تھے – سن ٢٠٠٠ ع سے اس کی تبلیغ فرقہ غیر مقلدین کر رہے  ہیں

جادو برج فرشتے اور محدثین ٢

قرآن میں سوره البقرہ میں ہے  کہ بابل میں یہود سحر کا علم حاصل کرتے تھے جو ان کی آزمائش تھا آیات ہیں

واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون

اور  (یہود) لگے اس  (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان  نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر!  لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو-  اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں،  آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا

سحر کا علم ان کو فرشتوں هاروت وماروت  سے ملا  تھا لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ فتنہ ہے لیکن اپنی سابقہ حرکتوں کو توجیہ دینے کے لئے انہوں نے تمام علوم کا مخزن چاہے ( شرک و سحر ہی کیوں نہ ہو ) سانپ کو  قراردیا – یہود کے مطابق یہ سب اس شجر علم میں چھپا تھا جو جنت عدن کے بیچوں بیچ تھا –  واضح رہے کہ موجودہ  توریت کی  کتاب پیدائش میں سانپ سے مراد شیطان نہیں ہے بلکہ انسانوں کا ہمدرد ایک مخلوق ہے جو چھپ کر انسان کو علم دیتا ہے جبکہ الله تعالی کا ارادہ انسان کو کم علم رکھنے کا تھا – یہ سب کیوں لکھا گیا اس پر آپ تفصیل

https://www.islamic-belief.net/muslim-belief/satan/ابراہیمی-ادیان-میں-شیطان-کا-تصور/

میں پڑھ سکتے ہیں

سحر کا علم دنیا میں ہاروت و ماروت سے پہلے مصریوں کے پاس بھی تھا جس کا ذکر موسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن میں موجود ہے کہ جادو گرووں نے موسی علیہ السلام اور حاضرین  کا تخیل تبدیل کر دیا اور ایک عظیم سحر کے ساتھ ائے جس میں لاٹھیاں اور رسیاں چلتی ہوئی محسوس ہوئیں

یہاں سوره البقرہ میں بتایا گیا کہ بابل میں یہود کا ذوق شادی شدہ عورتوں کو حاصل کرنے کی طرف ہوا جس میں ان کو طلاق دلانے کے لئے سحر و جادو کیا جاتا – اگر سحر صرف نظر بندی ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا لہذا اس کو ایک شیطانی عمل  کہا جاتا ہے جس میں شریعت کی پابندی کو رد کیا جاتا ہے اور حسد انسان کو سحر کی طرف لے جاتا ہے

اس میں گرہ لگا کر پھونکا جاتا ہے سوره الفلق

تیسری صدی میں جب معتزلہ کا زور تھا انہوں نے مجوسیوں کی طرح الله کی طرف شر کو منسوب کرنے سے انکار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا حسن کی طرح قبیح و سحر و شر کی نسبت الله کی طرف درست ہے ؟ کیا الله خالق سحر و شر ہے ؟

علماء نے اس کا جواب دیا کہ قرآن سے ثابت ہے کہ الله ہی شیطان کا خالق ہے اور تمام گناہ اس نے لکھ دیے ہیں لہذا وہی شر کا خالق ہے – کسی بھی علم کا اثر انگیز ہونا بھی اسی حکم کے تحت ہے لہذا اگرچہ سحر شرک و ناپسندیدہ ہے اس کی تاثیر من جانب الله ہے

 ہاروت و ماروت الله کے دو فرشتے تھے جو سحر کا علم لے کر بابل میں اترے اور یہود کی آزمائش بنے- اگر ہاروت و ماروت نے جادو نہیں سکھایا تو وہ یہ کیوں کہتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں کفر مت کرو

دوسری صدی ہجری

سابقہ یمنی یہودی کعب الاحبار ایک قصہ سناتے

تفسیر عبد الرزاق  المتوفي ٢١١ هجري کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَال – نا الثَّوْرِيُّ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ سَالِمٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ كَعْبٍ , قَالَ: «ذَكَرَتِ الْمَلَائِكَةُ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ , وَمَا يَأْتُونَ مِنَ الذُّنُوبِ» فَقِيلَ لَهُمْ: «اخْتَارُوا مَلَكَيْنِ , فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ» قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا: «إِنِّي أُرْسِلُ رُسُلِي إِلَى النَّاسِ , وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمَا رَسُولٌ , انْزِلَا وَلَا تُشْرِكَا بِي شَيْئًا , وَلَا تَزْنِيَا , وَلَا تَسْرِقَا» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ كَعْبٌ: «فَمَا اسْتَكْمَلَا يَوْمَهُمَا الَّذِي أُنْزِلَا فِيهِ حَتَّى عَمِلَا مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا»

کعب نے کہا : ذکر کیا فرشتوں کا ان کا جو نبی آدم پر نگہبان تھے اور جو ان کے گناہوں کے بارے میں ہے پس ان فرشتوں سے کہا گیا کہ چن لو فرشتوں کو انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا اور ہاروت و ماروت سے کہا میں اپنے سفیر بنی آدم کی طرف بھیج رہا ہوں اور میرے اور تمھارے درمیان کوئی اور نہیں ہو گا بنی آدم  پر نازل ہو اور شرک نہ کرنا نہ زنا اور نہ چوری – ابن عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ کعب نے کہا انہوں نے وہ کام نہ کیا جس پر نازل کیا گیا تھا یہاں تک کہ حرام کام کیا

اسنادی حیثیت سے قطع نظر ان روایات میں یہود کی کتاب

Book of Enoch

Book of Jubilees

کا قصہ نقل کیا گیا ہے ہبوط شدہ فرشتے

Fallen Angels

یا

Watchers

اپنے ہی ہبوط شدہ فرشتوں میں سے دو کو انسانوں کو سحر سکھانے بھیجتے ہیں

یہود کے مطابق انوخ اصلا ادریس علیہ السلام  کا نام ہے

ایک روایت قتادہ بصری سے منسوب ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ نا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: «كَتَبَتِ الشَّيَاطِينُ كُتُبًا فِيهَا كُفْرٌ وَشِرْكٌ , ثُمَّ دَفَنَتْ تِلْكَ الْكُتُبَ تَحْتَ كُرْسِيِّ سُلَيْمَانَ , فَلَمَّا مَاتَ سُلَيْمَانُ اسْتَخْرَجَ النَّاسُ تِلْكَ الْكُتُبَ» فَقَالُوا: هَذَا عِلْمٌ كَتَمَنَاهُ سُلَيْمَانُ فَقَالَ اللَّهُ: {وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102]

شیاطین نے کتابیں لکھیں جس میں کفر و شرک تھا پھر ان کو سلیمان  کے تخت کے نیچے چھپا دیا پھر جب سلیمان کی وفات  ہوئی تو لوگوں نے ان کو نکالا اور کہا یہ وہ علم ہے جو سلیمان نے ہم سے چھپایا پس الله نے کہا{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة:

تذكرة الحفاظ از الذھبی کے مطابق مفسر مجاہد نے تحقیق کی

ذكر محمد بن حميد أخبرنا عبد الله بن عبد القدوس عن الأعمش قال: كان مجاهد لا يسمع بأعجوبة إلا ذهب لينظر إليها. ذهب الى حضرموت ليرى بئر برهوت وذهب الى بابل وعليه وال فقال له مجاهد: تعرض على هاروت وماروت فدعا رجلا من السحرة فقال: اذهب به فقال اليهودي بشرط ألا تدعو الله عندهما قال فذهب به الى قلعة فقطع منها حجرا ثم قال خذ برجلى فهوى به حتى انتهى الى جوبة فإذا هما معلقين منكسين كالجبلين فلما رأيتهما قلت سبحان الله خالقكما فاضطربا فكأن الجبال تدكدكت فغشي على وعلى اليهودي ثم أفاق قبلى فقال قد أهلكت نفسك وأهلكتنى.

الأعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں سنتے یہاں تک کہ اس کو دیکھتے وہ حضر الموت گئے تاکہ برهوت کا کنواں دیکھیں اور بابل گئےوہاں افسر تھا اس سے کہا مجھ پر ہاروت و ماروت کو پیش کرو پس  جادو گروں کو بلایا گیا ان سے کہا کہ وہاں تک لے چلو ایک یہودی نے کہا اس شرط پر کہ وہاں ہاروت و ماروت کے سامنے اللہ کو نہیں پکارو گے  – پس وہ وہاں گئے قلعہ تک اس کا پتھر نکالا گیا پھر یہودی نے پیر سے پکڑا اور لے گیا جہاں دو پہاڑوں کی طرح ہاروت و ماروت معلق تھے پس ان کو دیکھا  (تو بے ساختہ مجاہد بولے) سبحان الله جس نے ان کو خلق کیا – اس پر  وہ (فرشتے) ہل گئے اور مجاہد  اور یہودی غش کھا گئے پھرجب  افاقہ ہوا تو یہودی بولا:  تم نے تو اپنے آپ کو اور مجھے مروا ہی دیا تھا

تیسری صدی ہجری

امام احمد اس قصے  کو منکر کہتے تھے – الكتاب: أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از آبو حذيفة، نبيل بن منصور بن يعقوب بن سلطان البصارة الكويتي

وقال أحمد بن حنبل: هذا منكر، إنما يروى عن كعب” المنتخب لابن قدامة ص 296 ہ

امام احمد نے کہا یہ منکر ہے اس کو کعب نے روایت کیا ہے

چوتھی صدی ہجری

تفسیر ابن ابی حاتم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ- يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَيُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ مُجَاهِدٍ. قَالَ: كُنْتُ نَازِلا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَالَ لِغُلامِهِ. انْظُرْ طَلَعَتِ الْحَمْرَاءُ لَا مَرْحَبًا بِهَا وَلا أَهْلا وَلا حَيَّاهَا اللَّهُ هِيَ صَاحِبَةُ الْمَلَكَيْنِ- قَالَتِ الْمَلائِكَةُ: رَبِّ كَيْفَ تَدَعُ عُصَاةَ بَنِي آدَمَ وَهُمْ يَسْفِكُونَ الدَّمَ الْحَرَامَ، وَيَنْتَهِكُونَ مَحَارِمَكَ، وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ؟  قَالَ: إِنِّي قَدِ ابْتَلَيْتُهُمْ فَلَعَلِّي إِنِ ابْتَلَيْتُكُمُ بِمِثْلِ الَّذِي ابْتَلَيْتُهُمْ بِهِ فَعَلْتُمْ كَالذي يَفْعَلُونَ قَالُوا: لَا. قَالَ: فَاخْتَارُوا مِنْ خِيَارِكُمُ اثْنَيْنِ، فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ فَقَالَ لَهُمَا إِنِّي مُهْبِطُكُمَا إِلَى الأَرْضِ وَعَاهِدٌ إِلَيْكُمَا أَنْ لَا تُشْرِكَا وَلا تَزْنِيَا، وَلا تَخُونَا. فَأُهْبِطَا إِلَى الأَرْضِ، وَأَلْقَى عَلَيْهِمَا الشَّبَقَ وَأُهْبِطَتْ لَهُمَا الزُّهْرَةُ فِي أَحْسَنِ صُورَةِ امْرَأَةٍ فَتَعَرَّضَتْ

مجاہد کہتے ہیں ہم سفر  میں آبن عمر رضی الله عنہ کے ساتھ تھے  پس جب رات ہوئی انہوں نے لڑکے سے کہا دیکھو الْحَمْرَاءُ کا طلوع ہوا اس میں خوش آمدید نہیں ہے نہ اس کے اہل کے لئے … یہ ان فرشتوں کی ساتھی ہے – فرشتوں نے کہا اے رب ہم انسانوں کے گناہوں کو کیسے دور کریں وہ خون بہا رہے ہیں اور زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں؟ کہا : بے شک میں ان کی آزمائش کروں گا جس طرح میں نے تم کو آزمائش میں ڈالا اور دیکھوں گا کیسا عمل کرتے ہیں ؟ … پس اپنے فرشتوں میں سے چنوں دو کو – انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا ان سے کہا زمین پر ہبوط کرو اور تم پر عہد ہے نہ شرک کرنا نہ زنا اور نہ خیانت پس وہ زمین پر اترے اور ان پر شہوانیت القی کی گئی اور الزہرا کو بھی اترا یا ایک حسین عورت کی شکل میں اور ان کا دیکھنا ہوا

سياره الزهراء يا

Venus

کو الْحَمْرَاءُ کہا گیا ہے یعنی سرخی مائل اور اس کو ایک عورت کہا گیا ہے جو مجسم ہوئی اور فرشتوں ہاروت و ماروت کی آزمائش بنی  خبر دی گئی کہ فرشتے انسانوں سے جلتے تھے اس تاک میں رہتے کہ الله تعالی کے سامنے ثابت کر سکیں کہ ہم نے جو پہلے کہا تھا کہ یہ انسان فسادی ہے اس کو صحیح ثابت کر سکیں – اس پر الله نے کہا کہ تم فرشتوں سے خود دو کو چنوں اور پھر وہ فرشتے کیا آزمائش بنتے وہ خود الزہرا پر عاشق ہو گئے

کتاب العلل از ابن ابی حاتم میں ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے اس روایت پر سوال کیا

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ معاذ بن خالد العَسْقلاني عَنْ زُهَير (1) بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَير (2) ، عَنْ نَافِعٍ، عن عبد الله بْنِ عُمَرَ؛ أنَّه سَمِعَ النبيَّ (ص) يقول: إِنَّ آدَمَ [لَمَّا] (3) أَهْبَطَهُ (4) اللهُ إلَى الأَرْضِ، قَالَتِ المَلاَئِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (5) ، قَالُوا: رَبَّنَا، نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ … وذكَرَ الحديثَ: قِصَّةَ (6) هاروتَ وماروتَ؟

قَالَ أَبِي: هذا حديثٌ مُنكَرٌ

میرے باپ نے کہا یہ منکر ہے

ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج 10، ص 3241-3242 پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں

قَوْلُهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
18355 – وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَرَادَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ فَأَعْطَى الْجَرَادَةَ خَاتَمَهُ وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ، وَكَانَتْ أَحَبَّ نِسَائِهِ إِلَيْهِ فَجَاءَ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهَا: هَاتِي خَاتَمِي فَأَعْطَتْهُ فَلَمَّا لَبِسَهُ دَانَتْ لَهُ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَالشَّيَاطِينُ، فَلَمَّا خَرَجَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْخَلَاءِ قال لها: هَاتِي خَاتَمِي فَقَالَتْ: قَدْ أَعْطَيْتُهُ سُلَيْمَانَ قَالَ: أَنَا سُلَيْمَانُ قَالَتْ: كَذَبْتَ لَسْتَ سُلَيْمَانَ فَجَعَلَ لَا يَأْتِي أَحَدًا يَقُولُ: أَنَا سُلَيْمَانُ إِلا كَذَّبَهُ حَتَّى جَعَلَ الصِّبْيَانُ يَرْمُونَهُ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَامَ الشَّيْطَانُ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ.
فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدَّ عَلَى سليمان عليه السلام سلطانه ألْقَى فِي قُلُوبِ النَّاسِ إِنْكَارَ ذَلِكَ الشَّيْطَانِ فَأَرْسَلُوا إِلَى نِسَاءِ «1» سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَقَالُوا لهن أيكون من سليمان شيء؟ قلنا: نَعَمْ إِنَّهُ يَأْتِينَا وَنَحْنُ حُيَّضٌ، وَمَا كَانَ يَأْتِينَا قَبْلَ ذَلِكَ

قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام بیت الخلاء میں جاتے، اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے، جو کہ ان کی بیوی تھی، اور سب سے عزیز تھی۔ شیطان حضرت سلیمان کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے میری انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی، تو سب جن و انس و شیطان اس کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نکلے، تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیمان کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیمان ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم سلیمان نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیمان ہوں، اور ان کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا- جب اللہ نے اس بات کا ارادہ کیا کہ حضرت سلیمان کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیمان میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب وہ ہمارے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔

یہاں اس پر قوی سند لکھا ہوا ہے راقم کہتا ہے

تفسیر ابن حاتم ٩٠٠ صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355 ہے جس پر وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں تصرف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟

اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضًا ما قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن حسين، قال: حدثنا محمد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة وعلي بن محمد، قال: حدثنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الأعمش، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله – تعال ى-: {وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ}، قال: أراد سليمان -عليه الصلاة والسلام- أن يدخل الخلاء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها

اس کی سند میں المنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے

چوتھی صدی کے ہی  ابن حبان اس روایت کو صحیح ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ  میں نقل کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكير عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  (إِنَّ آدَمَ ـ لَمَّا أُهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ ـ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مِنْ يُفسد فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ونُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: 30] قَالُوا: رَبَّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلَانِ قَالُوا: رَبَّنَا هَارُوتُ وَمَارُوتُ قَالَ: فَاهْبِطَا إِلَى الْأَرْضِ قَالَ: فَمُثِّلَتْ لَهُمُ الزُّهْرةُ امْرَأَةً مِنْ أَحْسَنِ الْبَشَرِ فَجَاءَاهَا فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تكَلِّما بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ مِنَ الْإِشْرَاكِ قَالَا: وَاللَّهِ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ أَبَدًا فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بصبيٍّ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيَّ فَقَالَا: لَا وَاللَّهِ لَا نَقْتُلُهُ أَبَدًا فَذَهَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحٍ مِنْ خَمْرٍ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْرَ فَشَرِبَا فَسَكِرَا فَوَقَعَا عَلَيْهَا وَقَتَلَا الصَّبِيَّ فَلَمَّا أَفَاقَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ: وَاللَّهِ مَا تركتُما مِنْ شَيْءٍ أَثِيمًا إِلَّا فَعَلْتُمَاهُ حِينَ سَكِرْتُما فخُيِّرا ـ عِنْدَ ذَلِكَ ـ بَيْنَ عَذَابِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الآخرة فاختارا عذاب الدنيا)

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: الزُّهرة ـ هَذِهِ ـ: امْرَأَةٌ كَانَتْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ، لَا أَنَّهَا الزُّهرة الَّتِي هِيَ فِي السَّمَاءِ، الَّتِي هِيَ مِنَ الخُنَّسِ.

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا فرمایا: جب آدم کا زمین کی طرف ہبوط ہوا فرشتوں نے کہا اے رب کیا اس کو خلیفہ کیا ہے کہ اس میں فساد کرے اور خون بہائے اور ہم آپ کی تعریف کرتے ہیں اور تقدس کرتے ہیں ؟ فرمایا : میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے – فرشتوں نے کہا  ہمارے رب ہم انسانوں سے بڑھ کر آپ کے اطاعت گزار ہیں الله تعالی نے فرشتوں سے کہا : فرشتوں کو لو پس دیکھیں یہ کیا عمل کرتے ہیں- فرشتوں نے کہا : آے رب ہاروت و ماروت ہیں- حکم الہی ہوا : زمین کی طرف ہبوط کرو – وہاں الزہرا انسانوں میں سے ایک حسن عورت ان کو ورغلائے گی پس وہ ان فرشتوں کے پاس گئی اور نفس کے  بارے میں سوال کیا (یعنی زنا کی ہاروت و ماروت نے ترغیب دی) اور بولی : نہیں الله کی قسم میں نہیں کروں گی یہاں تک کہ تم شرکیہ کلمات ادا کرو – ہاروت و ماروت نے کہا و الله ہم یہ کلمات نہیں بولیں گے پس وہ لوٹ گئی ایک لڑکے کے ساتھ اور واپس انہوں نے  نفس کا سوال کیا  وہ بولی میں اس لڑکے کو مار ڈالوں گی فرشتوں نے کہا نہیں مارو وہ لوٹ گئی پھر آئی ایک قدح لے کر شراب کا اس پر سوال کیا فرشتوں نے کہا ہم نہیں پییں گے یہاں تک کہ وہ پی گئے پس وہ واقعہ ہوا (زنا) اور لڑکے کو قتل کیا – جب افاقہ ہوا عورت بولی الله کی قسم میں نے تم کو کہیں کا نہ چھوڑا گناہ میں کوئی چیز نہیں جو تم نہ کر بیٹھے ہو اور تم نے نہیں کیا جب تک شراب نہ پی لی  … تم نے دنیا و آخرت میں سے دنیا کا  عذاب چنا

ابو حاتم ابن حبان نے کہا الزہرہ یہ اس دور میں عورت تھی وہ وہ نہیں جو آسمان میں ہے جو الخنس ہے

ابن حبان نے اس روایت کو صحیح میں لکھا اس میں اختلاف صرف یہ کیا کہ الزہرہ کو ایک مسجم عورت کی بجائے ایک حقیقی عورت کہا

البدء والتاريخ  از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ)  قصة هاروت وماروت،  اختلفوا المسلمون [1] فيه اختلافا كثيرا

القدسی نے تاریخ میں لکھا کہ مسلمانوں کا اس پر اختلاف ہے

یعنی ابن ابی حاتم اس کو منکر کہتے ہیں اور ابن حبان صحیح

العلل دارقطنی از امام دارقطنی المتوفی ٣٨٥ ھ  میں ہے

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وسلم: أن آدم لما أهبطه الله إلى الأرض قالت الملائكة: أي رب: {أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء} ، قالوا: ربنا، نحن أطوع لك من بني آدم، قال الله للملائكة: هلموا ملكين … فذكر قصة هاروت وماروت.

فقال: اختلف فيه على نافع:

فرواه موسى بن جبير، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وَخَالَفَهُ مُوسَى بْنُ عقبة، فرواه عن نافع، عن ابن عمر، عن كعب الأحبار، من رواية الثوري، عن موسى بن عقبة.

وقال إبراهيم بن طهمان: عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه، عن كعب.

دارقطنی نے العلل میں اس کی اسناد نقل کیں لیکن رد نہیں کیا

پانچویں صدی ہجری

امام حاکم  المتوفی ٤٠٥ ھ مستدرک میں اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

آٹھویں صدی ہجری

الذھبی سیر میں لکھتے ہیں

قُلْتُ: وَلِمُجَاهِدٍ أَقْوَالٌ وَغَرَائِبُ فِي العِلْمِ وَالتَّفْسِيْرِ تُسْتَنْكَرُ، وَبَلَغَنَا: أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَابِلَ، وَطَلَبَ مِنْ مُتَوَلِّيْهَا أَنْ يُوْقِفَهُ عَلَى هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ.

میں کہتا ہوں : مجاہد کے اقوال اور علم و تفسیر میں غریب باتیں ہیں جن کا انکار کیا جاتا ہے اور ہم تک پہنچا ہے کہ یہ بابل گئے اور وہاں کے متولی سے کہا کہ ہاروت و ماروت سے ملاو

لیکن  الذھبی مستدرک حاکم کی تلخیص میں ہاروت و ماروت کے  اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، أَنْبَأَ إِسْحَاقُ، أَنْبَأَ حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ وَكَانَ ثِقَةً، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102] الْآيَةُ. قَالَ: ” إِنَّ النَّاسَ بَعْدَ آدَمَ وَقَعُوا فِي الشِّرْكِ اتَّخَذُوا هَذِهِ الْأَصْنَامَ، وَعَبَدُوا غَيْرَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَتِ الْمَلَائِكَةُ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ وَيَقُولُونَ: رَبَّنَا خَلَقْتَ عِبَادَكَ فَأَحْسَنْتَ خَلْقَهُمْ، وَرَزَقْتَهُمْ فَأَحْسَنْتَ رِزْقَهُمْ، فَعَصَوْكَ وَعَبَدُوا غَيْرَكَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُمْ فِي غَيْبٍ فَجَعَلُوا لَا يَعْذُرُونَهُمْ ” فَقَالَ: اخْتَارُوا مِنْكُمُ اثْنَيْنِ أُهْبِطُهُمَا إِلَى الْأَرْضِ، فَآمُرُهُمَا وَأَنْهَاهُمَا ” فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ – قَالَ: وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِيهِمَا – وَقَالَ فِيهِ: فَلَمَّا شَرِبَا الْخَمْرَ وَانْتَشَيَا وَقَعَا بِالْمَرْأَةِ وَقَتَلَا النَّفْسَ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَظَرُوا إِلَيْهِمَا وَمَا يَعْمَلَانِ فَفِي ذَلِكَ أُنْزِلَتْ {وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ، وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ} [الشورى: 5] الْآيَةُ. قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ الْمَلَائِكَةُ يَعْذُرُونَ أَهْلَ الْأَرْضِ وَيَدْعُونَ لَهُمْ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]  3655 – صحيح

نویں صدی ہجری

هیثمی  المتوفی ٨٠٧ ہجری کتاب مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: اسْمُ الْمَلَكَيْنِ اللَّذَيْنِ يَأْتِيَانِ فِي الْقَبْرِ مُنْكَرٌ وَنَكِيرٌ، وَكَانَ اسْمُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ – وَهُمَا فِي السَّمَاءِ – عَزَرًا وَعَزِيزًا ..  رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

اس کی اسناد حسن ہیں

ابن حجر المتوفي ٨٥٢ هجري  فتح الباری میں کہتے ہیں

قال الحافظ: وقصة هاروت وماروت جاءت بسند حسن من حديث ابن عمر في مسند أحمد

اور ہاروت و ماروت کا قصہ حسن سند سے مسند احمد میں ہے ابن عمر کی سند سے

دسویں صدی ہجری

التخريج الصغير والتحبير الكبير  ابن المِبْرَد الحنبلي (المتوفى: 909 هـ)

حديث: “هَارُوتَ وَمَارُوتَ” الإمام أحمد، وابن حبان، بسند صحيح.

ابن المِبْرَد  کے مطابق مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں اس کی سند صحیح ہے

الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)

قصة هاروت وماروت.  وفي مسند أحمد، وصحح ابن حبان من حديث ابن عمر بسند صحيح.

قلت: لها طرق عديدة استوعبتها في التفسير المسند، وفي تخريج أحاديث الشفاء، انتهى.

قصہ ہاروت و ماروت کا یہ مسند احمد صحیح ابن حبان میں ہے صحیح سند سے ابن عمر رضی الله عنہ کی

میں السيوطي کہتا ہوں اس کے بہت سے طرق مسند احمد کی تفسیر میں ہے اور احادیث کتاب الشفاء کی تخریج میں

کتاب  تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة  المؤلف: نور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (المتوفى: 963هـ)

” وَمن طَرِيقه (خطّ) من حَدِيث ابْن عمر، وَفِيه قصَّة لنافع مَعَ ابْن عمر وَلَا يَصح، فِيهِ الْفرج بن فضَالة، وسنيد ضعفه أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ (تعقبه) الْحَافِظ ابْن حجر فِي القَوْل المسدد فَقَالَ: أخرجه أَحْمد فِي مُسْنده وَابْن حبَان فِي صَحِيحه من وَجه آخر، وَله طرق كَثِيرَة جمعتها فِي جُزْء مُفْرد يكَاد الْوَاقِف عَلَيْهَا لكثرتها وَقُوَّة مخارج أَكْثَرهَا يقطع بِوُقُوع هَذِه الْقِصَّة، انْتهى قَالَ السُّيُوطِيّ: وجمعت أَنا طرقها فِي التَّفْسِير الْمسند وَفِي التَّفْسِير الْمَأْثُور فَجَاءَت نيفا وَعشْرين طَرِيقا مَا بَين مَرْفُوع وَمَوْقُوف، وَلِحَدِيث ابْن عمر بِخُصُوصِهِ طرق مُتعَدِّدَة.

اور جو طرق حدیث ابن عمر کا ہے اور اس میں نافع کا ابن عمر کے ساتھ کا قصہ ہے صحیح نہیں ہے اس میں فرج بن فضالہ ہے اور سنید ہے جس کی تضعیف کی ہے ابو داود نے اور نسائی نے اس کا تعقب کیا ہے ابن حجر نے کتاب القول لمسدد میں اور کہا ہے اس کی تخریج کی ہے احمد نے مسند میں ابن حبان نے صحیح میں  دوسرے طرق سے اور اس کے کثیر طرق ہیں جو سب مل کر ایک جز بن جاتے ہیں اور واقف جان جاتا ہے اس کثرت پر اور مخارج کی قوت پر … السُّيُوطِيّ نے کہا اور میں نے جمع کر دیا ہے اس کے طرق تفسیر میں اور … خاص کر ابن عمر کی حدیث کے تو بہت طرق ہیں

تذكرة الموضوعات میں محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ) لکھتے ہیں

قِصَّةُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ مَعَ الزَّهْرَةِ وَهُبُوطِهِ إِلَى الأَرْضِ امْرَأَةً حَسَنَةً حِينَ طَغَتِ الْمَلائِكَةُ وَشُرْبِهِمَا الْخَمْرَ وقتلهما النَّفس وزناهما» عَن ابْن عمر رَفعه وَفِيه مُوسَى ابْن جُبَير مُخْتَلف فِيهِ وَلَكِن قد توبع، وَلأبي نعيم عَن عَليّ قَالَ «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّهْرَةَ وَقَالَ إِنَّهَا فتنت الْملكَيْنِ» وَقيل الصَّحِيح وَقفه على كَعْب وَكَذَا قَالَ الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز قصتهما فِي الْفرج بن فضَالة: ضَعِيف قلت قَالَ ابْن حجر لَهَا طرق كَثِيرَة يقطع بوقوعها لقُوَّة مخارجها.

قصہ ہاروت و ماروت کا الزہرا کے ساتھ اور ان کا زمین پر ہبوط کرنا ایک حسین عورت کے ساتھ اور فرشتوں کا بغاوت کرنا اور شراب پینا اور قتل نفس کرنا اور زنا کرنا جو ابن عمر سے مروی ہے ان تک جاتا ہے اور اس میں موسی بن جبیر ہے مختلف فیہ ہے لیکن اس کی متابعت کی ہے ابو نعیم نے علی کی روایت سے کہ الله کی لعنت ہو الزہرا پر اور کہا اس نے فرشتوں کو آزمائش میں ڈالا اور کہا ہے صحیح ہے کعب پر موقوف ہے اور اسی طرح کہا ہے البیہقی نے اور فرج کےقصہ پر کہا ضعیف ہے میں کہتا ہوں ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے طرق بہت سے ہیں

ابن کثیر نے تفسیر میں لکھا

ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر، ج 7، ص 59-60 میں درج کیا ہے۔ سند کے بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ

إسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما قَوِيٌّ، وَلَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَلَقَّاهُ ابْنُ عباس رضي الله عنهما إِنْ صَحَّ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ طائفة لا يعتقدون نبوة سليمان عليه الصلاة والسلام فَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا كَانَ فِي هذا السِّيَاقِ مُنْكَرَاتٌ مِنْ أَشَدِّهَا ذِكْرُ النِّسَاءِ فَإِنَّ المشهور عن مجاهد وغير واحد من أئمة السلف أَنَّ ذَلِكَ الْجِنِّيَّ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَى نِسَاءِ سليمان بل عصمهن الله عز وجل منه تشريفا وتكريما لنبيه عليه السلام. وَقَدْ رُوِيَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ مُطَوَّلَةً عَنْ جَمَاعَةٍ من السلف رضي الله عنهم كَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَجَمَاعَةٍ آخَرِينَ وَكُلُّهَا مُتَلَقَّاةٌ مِنْ قَصَصِ أَهْلِ الْكِتَابِ، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.

اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حضرت سلیمان کی نبوت کا منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر ائمہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور شرف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ سلف میں ایک جماعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت، زید بن اسلم، اور بعد کی ایک جماعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے ملا

راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے یہ کام ابن عباس رضی الله عنہ کا نہیں کہ اہل کتاب سے روایت کریں بلکہ اس میں جرح منہال بن عمرو پر ہے

چودھویں صدی ہجری

کتاب التحرير والتنوير از محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) کے مطابق

وَلِأَهْلِ الْقِصَصِ هُنَا قِصَّةٌ خُرَافِيَّةٌ مِنْ مَوْضُوعَاتِ الْيَهُودِ فِي خُرَافَاتِهِمُ الْحَدِيثَةِ اعْتَادَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ ذِكْرَهَا مِنْهُمُ ابْنُ عَطِيَّةَ وَالْبَيْضَاوِيُّ وَأَشَارَ الْمُحَقِّقُونَ مِثْلُ الْبَيْضَاوِيِّ وَالْفَخْرِ وَابْنِ كَثِيرٍ وَالْقُرْطُبِيِّ وَابْنِ عَرَفَةَ إِلَى كَذِبِهَا وَأَنَّهَا مِنْ مَرْوِيَّاتِ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَقَدْ وَهِمَ فِيهَا بَعْضُ الْمُتَسَاهِلِينَ فِي الْحَدِيثِ فَنَسَبُوا رِوَايَتَهَا عَنِ النَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ عَنْ بَعْضِ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ وَاهِيَةٍ وَالْعَجَبُ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى كَيْفَ أَخْرَجَهَا مُسْنَدَةً لِلنَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَعَلَّهَا مَدْسُوسَةٌ عَلَى الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَوْ أَنَّهُ غَرَّهُ فِيهَا ظَاهِرُ حَالِ رُوَاتِهَا مَعَ أَنَّ فِيهِمْ مُوسَى بْنَ جُبَيْرٍ وَهُوَ مُتَكَلَّمٌ فِيهِ

اور اہل قصص کے لئے اس میں بہت سے یہودیوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں جس سے مفسرین دھوکہ کھا گئے ان میں ابن عطیہ اور بیضاوی ہیں اور محققین مثلا بیضاوی اور فخر الرازی اورابن کثیر اور قرطبی اور ابن عرفہ نے ان کے کذب کی طرف اشارہ کیا ہے  جو  بے شک کعب الاحبار کی مرویات ہیں اور اس میں وہم ہے بعض متساهلین کا حدیث کے لئے تو انہوں نے ان قصوں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے  یا بعض اصحاب رسول کی طرف واہیات اسناد کے ساتھ اور عجیب بات ہے کہ امام احمد بن حنبل الله رحم کرے نے ان کو کیسے مسند میں لکھا اور ہو سکتا ہے وہ بہک گئے ہوں اس کے ظاہر حال پر اس میں موسی بن جبیر ہے اور متکلم فیہ ہے

یہ بھی لکھتے ہیں

وَ (هَارُوتَ وَمَارُوتَ) بَدَلٌ مِنَ (الْمَلَكَيْنِ) وَهُمَا اسْمَانِ كَلْدَانِيَّانِ دَخَلَهُمَا تَغْيِيرُ التَّعْرِيفِ لِإِجْرَائِهِمَا عَلَى خِفَّةِ الْأَوْزَانِ الْعَرَبِيَّةِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَارُوتَ مُعَرَّبُ (هَارُوكَا) وَهُوَ اسْمُ الْقَمَرِ عِنْدَ الْكَلْدَانِيِّينَ وَأَنَّ مَارُوتَ مُعَرَّبُ (مَا رُودَاخَ) وَهُوَ اسْمُ الْمُشْتَرِي عِنْدَهُمْ وَكَانُوا يَعُدُّونَ الْكَوَاكِبَ السَّيَّارَةَ مِنَ الْمَعْبُودَاتِ الْمُقَدَّسَةِ الَّتِي هِيَ دُونَ الْآلِهَةِ لَا سِيَّمَا الْقَمَرِ فَإِنَّهُ أَشَدُّ الْكَوَاكِبِ تَأْثِيرًا عِنْدَهُمْ فِي هَذَا الْعَالَمِ وَهُوَ رَمْزُ الْأُنْثَى، وَكَذَلِكَ الْمُشْتَرِي فَهُوَ أَشْرَفُ الْكَوَاكِبِ السَّبْعَةِ عِنْدَهُمْ وَلَعَلَّهُ كَانَ رَمْزَ الذَّكَرِ عِنْدَهُمْ كَمَا كَانَ بَعْلٌ عِنْدَ الْكَنْعَانِيِّينَ الْفِنِيقِيِّينَ.

اور ہاروت و ماروت فرشتوں کا بدل ہیں اور یہ نام کلدانی کے ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے تبدیل کر کے عربیوزن پر اور ظاہر ہے ہاروت معرب ہے ہاروکا کا جو چاند کا نام ہے کلدانیوں کے نزدیک اور ماروت معرب ہے ماروداخ کا جو مشتری کا نام ہے ان کے ہاں – اور یہ کواکب کو مقدس معبودات میں شمار کرتے تھے  خاص طور پر چاند کو کیونکہ یہ کواکب میں سب سے بڑھ کر تاثیر رکھتا ہے ان کے نزدیک تمام عالم میں اور یہ رمز ہے مونث پر اور اسی طرح مشتری سات کواکب میں سب سے با عزت ہے جو اشارہ ہے مذکر پر ان کے نزدیک جیسا کہ بعل تھا فونشیوں  اور کنعآنیوں کے نزدیک

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں  شعيب الأرنؤوط   لکھتے ہیں

قلت: وقول الحافظ ابن حجر في “القول المسدد” 40-41 بأن: للحديث طرقاً كثيرة جمعتها في جزء مفرد يكاد الواقف عليه أن يقطع بوقوع هذه القصة لكثرة الطرق الواردة فيها وقوَّة مخارج أكثرها، خطأ مبين منه -رحمه الله- ردَّه عليه العلامة أحمد شاكر -رحمه الله- في تعليقه على “المسند” (6178) فقال: أمَّا هذا الذي جزم به الحافظ بصحة وقوع هذه القصة صحة قريبة من القطع لكثرة طرقها وقوة مخارج أكثرها، فلا، فإنها كلها طرق معلولة أو واهية إلى مخالفتها الواضحة للعقل، لا من جهة عصمة الملائكة القطعية فقط، بل من ناحية أن الكوكب الذي نراه صغيراً في عين الناظر قد يكون حجمه أضعاف حجم الكرة الأرضية بالآلاف المؤلفة من الأضعاف، فأنَّى يكون جسم المرأة الصغير إلى هذه الأجرام الفلكية الهائلة!

  شعيب الأرنؤوط نے ابن حجر کی تصحیح کو ایک غلطی قرار دیا اور احمد شاکر نے بھی ابن حجر کی رائے کو رد کیا

بابل کا مذھب

بابل میں مردوک

Marduk

 کی پوجا ہوتی تھی – بابلی زبان میں مردوک کو

Marutuk

ماروتک

بولا جاتا تھا

 Frymer-Kensky, Tikva (2005). Jones, Lindsay, ed. Marduk. Encyclopedia of religion 8 (2 ed.). New York. pp. 5702–5703. ISBN 0-02-865741-1.

https://en.wikipedia.org/wiki/Marduk

بعض مغربی محققین اس بات تک پہنچے ہیں کہ یہ بابلی دیوتا اصلا فرشتے تھے تصاویر میں بھی اس کو پروں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے

جادوگروں نے اس قصے میں  سیارہ الزہرا یعنی وینس ، چاند اور مشتری کا  اثر  تمثیلی انداز میں سکھایا  ہے کہ یہ چاند اور مشتری کا جادو الزہرا کی موجودگی میں بڑھ جاتا ہے – چاند کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس کی ٢٧ منزلیں  ہیں جن میں چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے اور عبرانی کے بھی ٢٧ حروف ہیں لہذا کلمات شرکیہ کو ان سے ملا کر اخذ کیا جاتا  تھا

In general, though not always, the zodiac is divided into 27 or 28 segments relative to fixed stars – one for each day of the lunar month, which is 27.3 days long

https://en.wikipedia.org/wiki/Lunar_mansion

بابل کی اسیری سے پہلے بنی اسرائیل جو عبرانی استمال کرتے تھے اس کو

Palaeo-Hebrew alphabet

کہا جاتا ہے جس میں ٢٢ حروف تھے جو ابجد حروف کہلاتے ہیں

یہود کے مطابق بابل کی اسیری میں کسی موقع پر ان  کی زبان تبدیل ہوئی جس میں اشوری اور بابلی زبان سے حروف لئے گئے

بائیس حروف کو ٢٧ میں بدلنے کے پیچھے کیا چاند کی ٢٧ منازل تھیں ؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب ہمارے اسلامی جادو یا سحر کی کتب میں ہے جس پر کسی اور بلاگ میں بحث ہو گی

اہل تشیع اور دجال

عموما اہل تشیع  دجال کی روایات بیان نہیں کرتے لہذا یہاں ان کی کتب کی کچھ روایات نقل کی جاتی ہیں تاکہ دیکھیں کہ اس کے بارے میں ان کی کیا آراء ہیں

الكافي – از  الكليني – ج 8 – ص 296 – 297 کی روایت ہے

حمید بن زياد ، عن الحسن بن محمد الكندي ، عن غير واحد من أصحابه عن أبان بن عثمان ، عن أبي جعفر الأحول : والفضيل بن يسار ، عن زكريا النقاض ( 4 ) . عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : سمعته يقول : الناس صاروا بعد رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) بمنزلة من اتبع هارون ( عليه السلام ) ومن اتبع العجل وإن أبا بكر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) ( 5 ) إلا القرآن ‹ صفحة 297 › وإن عمر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإن عثمان دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإنه ليس من أحد يدعو إلى أن يخرج الدجال إلا سيجد من يبايعه ومن رفع راية ضلال [ – ة ] فصاحبها طاغوت .

زكريا النقاض  ، ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابی جعفر علیہ السلام کو سنا کہہ رہے تھے لوگ رسول الله صلى الله عليه وآله  کے بعد ہو گئے اس کے ساتھ جس کی منزلت ان کی سی تھی جنہوں نے ہارون کی اتباع کی اور (دوسرا گروہ) ان کی جنہوں نے گوسالہ پرستی کی اور ابو بکر نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (ابو بکر کی اتباع کی)  اور عمر نے پکارا تو علی نے انکار کیا  سوائے قرآن کے لئے (عمر کی اتباع کی)  اور عثمان نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (عثمان کی اتباع کی)  اور ایسا کوئی نہ ہو گا کہ وہ دجال کے لئے پکارے  تو وہ خود ان میں  سے ہو جائے گا  جوگمراہی کا جھنڈا اٹھائے ہوں اور طاغوت کے  ساتھی ہوں

الأمالي – از الصدوق – ص 345 – 347 کی روایت ہے

حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق ( رحمه الله ) ، قال : حدثنا عبد العزيز ابن يحيى الجلودي ، قال : [ حدثنا محمد بن عطية ، قال : حدثنا عبد الله بن عمرو بن سعيد البصري ، قال : حدثنا ] ( 3 ) هشام بن جعفر ، عن حماد ، عن عبد الله بن سليمان ( 4 ) ، وكان قارئا للكتب ، قال : قرأت في الإنجيل : يا عيسى ، جد في أمري ولا ‹ صفحة 346 › تهزل ، واسمع وأطع ، يا بن الطاهرة الطهر البكر البتول ، أتيت ( 1 ) من غير فحل ، أنا خلقتك آية للعالمين ، فإياي فاعبد ، وعلي فتوكل ، خذ الكتاب بقوة ، فسر لأهل سوريا السريانية ، وبلغ من بين يديك أني أنا الله الدائم الذي لا أزول ، صدقوا النبي ( صلى الله عليه وآله ) الأمي صاحب الجمل والمدرعة ( 2 ) والتاج – وهي العمامة – والنعلين والهراوة – وهي القضيب – الأنجل العينين ( 3 ) ، الصلت الجبين ( 4 ) ، الواضح ( 5 ) الخدين ، الأقنى الانف ، المفجل ( 6 ) الثنايا ، كأن عنقه إبريق فضة ، كأن الذهب يجري في تراقيه ، له شعرات من صدره إلى سرته ، ليس على بطنه ولا على صدره شعر ، أسمر اللون ، دقيق المسربة ( 7 ) ، شثن ( 8 ) الكف والقدم ، إذا التفت التفت جميعا ، وإذا مشى كأنما يتقلع ( 9 ) من الصخرة وينحدر من صبب ( 10 ) ، وإذا جاء مع القوم بذهم ( 11 ) ، عرقه في وجهه كاللؤلؤ ، وريح المسك ينفح منه ، لم ير قبله مثله ولا بعده ، طيب الريح ، نكاح النساء ذو النسل القليل ، إنما نسله من مباركة لها بيت في الجنة ، لا صخب فيه ولا نصب ، يكفلها في آخر الزمان كما كفل زكريا أمك ، لها فرخان مستشهدان ، كلامه القرآن ، ودينه الاسلام ، وأنا السلام ، طوبى لمن أدرك زمانه ، وشهد أيامه ، وسمع كلامه . ‹ صفحة 347 › قال عيسى ( عليه السلام ) : يا رب ، وما طوبى ؟ قال : شجرة في الجنة ، أنا غرستها ، تظل الجنان ، أصلها من رضوان ، ماؤها من تسنيم ، برده برد الكافور ، وطعمه طعم الزنجبيل ، من يشرب من تلك العين شربة لا يظلما بعدها أبدا . فقال عيسى ( عليه السلام ) : اللهم اسقني منها . قال : حرام – يا عيسى – على البشر أن يشربوا منها حتى يشرب ذلك النبي ، وحرام على الأمم أن يشربوا منها حتى تشرب أمة ذلك النبي ، أرفعك إلي ثم أهبطك في آخر الزمان لترى من أمة ذلك النبي العجائب ، ولتعينهم على العين الدجال ، أهبطك في وقت الصلاة لتصلي معهم إنهم أمة مرحومة

عبد الله بن سليمان جو کتب سماوی کو پڑھنے والے تھے کہتے ہیں میں نے انجیل میں پڑھا … عیسیٰ نے الله سے کہا اے رب یہ طوبی کیا ہے ؟ کہا جنت کا درخت ہے  اس کا پانی تسنیم ہے اس کی ٹھنڈک کافور جیسی ہے اور کھانا زنجبیل جیسا ہے اور جو اس چشمہ سے پی لے اس کو پیاس نہ لگے گی کبھی بھی عیسیٰ نے کہا اے الله مجھے پلا دے فرمایا حرام ہے اے عیسیٰ کہ کوئی اس میں سے بشر پئے جب تک اس کو النبی (محمد) نہ پئے اور اس کی امت پر حرام ہے حتی کہ انکا النبی نہ پئے- میں تجھ کو اٹھا لوں گا پھر واپس آخری زمانے میں تیرا هبوط ہو گا کہ تم اس النبی العجائب کی امت دیکھو گے اور اس امت کی لعین دجال کے مقابلے میں مدد کرو گے اور تمہارا هبوط نماز کے وقت ہو گا کہ تم اس رحمت والی امت کے ساتھ نماز پڑھو

انجیل میں  طوبی کا کہیں نہیں لکھا عبد بن سلیمان کو یہ انجیل کہاں سے ملی پتا نہیں

الخصال – از الصدوق – ص 431 – 432 کی روایت ہے

عن أبي الطفيل ( 2 ) ، عن حذيفة بن أسيد قال : اطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وآله من غرفة له ونحن نتذاكر الساعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لا تقوم الساعة حتى تكون عشر آيات : الدجال ، والدخان ، وطلوع الشمس من مغربها ، ودابة الأرض ، و يأجوع ومأجوج ، وثلاث خسوف : خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة ‹ صفحة 432 › العرب ، ونار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر ، تنزل معهم إذا نزلوا وتقيل معهم إذا قالوا . عشر خصال جمعها الله عز وجل لنبيه وأهل بيته صلوات الله عليهم

حذيفة بن أسيد کہتے ہیں ان کو رسول الله صلى الله عليه وآله نے خبر دی اپنے  غرفة میں  اور ہم وہاں قیامت کا ذکر کر رہے تھے  رسول الله صلى الله عليه وآله  نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ہوں دجال دھواں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا  دابه الارض یاجوج اور ماجوج  تین خسوف مغرب مشرق اور عرب میں اور اگ جو عدن کی تہہ سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف جمع کرے گی

ثواب الأعمال – از الصدوق – ص 54  کی روایت ہے

 ومن صام من رجب أربعة أيام عوفي من البلايا كلها من الجنون والجذام والبرص وفتنة الدجال واجبر من عذاب القبر

 جس نے رجب کے چار دن کے  روزے رکھے  وہ اس کو بچائیں گے جنون سے جذام سے برص سے اور دجال کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے بھی

الأمالي – از الصدوق – ص 681

 حدثنا محمد بن علي ماجيلويه ( رحمه الله ) ، قال : حدثني عمي محمد ابن أبي القاسم ، قال : حدثني محمد بن علي الكوفي ، عن المفضل بن صالح الأسدي ، عن محمد بن مروان ، عن أبي عبد الله الصادق ، عن أبيه ، عن آبائه ( عليهم السلام ) ، قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يوم القيامة يهوديا . قيل : يا رسول الله ، وإن شهد الشهادتين ؟ قال : نعم ، فإنما احتجز بهاتين الكلمتين عن سفك دمه ، أو يؤدي الجزية عن يد وهو صاغر . ثم قال : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يهوديا . قيل : فكيف ، يا رسول الله ؟ قال : إن أدرك الدجال آمن به

أبي عبد الله الصادق اپنے باپ اور ان کے اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا اے رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) اور اگر وہ دو شہادتیں دے دے  فرمایا ہاں ….   رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے پھر فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا کیسے اے رسول الله ؟ فرمایا جب وہ دجال کو پائے گا تو اس پر ایمان لائے گا

یہ روایت دلیل ہوئی کہ دجال یہودی ہو گا اس کو ذہن میں رکھیں ابھی نیچے اس پر بحث آ رہی ہے

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 14 – ص 348

 وبإسناده عن الحسين بن سعيد ، عن صفوان وابن فضال ، عن ابن بكير ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : ذكر الدجال فقال : لا يبقى ( 1 ) منهل إلا وطأه إلا مكة والمدينة ، فإن على كل ثقب من أثقابها ( 2 ) ملكا يحفظها من الطاعون والدجال

أبي عبد الله عليه السلام نے فرمایا اور انہوں نے دجال کا ذکر کیا پس فرمایا اس سے کوئی (شہر) نہ بچے گا کہ جو  اس کا مطیع نہ ہو سوائے مکہ مدینہ کے کہ  اس کے ہر گھڑے اور خندق میں فرشتہ ہو گا اور وہاں دجال اور طاعون نہ آ سکے گا

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 16 – ص 179

وفي ( صفات الشيعة ) عن محمد بن موسى بن المتوكل ، ( عن محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، ) ( 1 ) عن الحسن بن علي الخزاز قال : سمعت الرضا ( عليه السلام ) يقول : إن ممن ينتحل مودتنا أهل البيت من هو أشد فتنة على شيعتنا من الدجال ، فقلت : بماذا ؟ قال : بموالاة أعدائنا ، ومعاداة أوليائنا إنه إذا كان كذلك اختلط الحق بالباطل ، واشتبه الامر فلم يعرف مؤمن من منافق

الحسن بن علي الخزاز کہتے ہیں انہوں نے امام الرضا علیہ السلام کو سنا انہوں نے کہا جس کے اندر ہماری محبت ہو وہ اس دجال کے فتنہ میں اس پر بہت سخت ہو گا میں نے پوچھا ایسا کیوں؟ فرمایا ہمارے دشمنوں سے دوستی کی وجہ سے اور ہمارے دوستوں سے عداوت رکھنے کی وجہ سے سو جب ایسا ہو تو حق و باطل مل جائے گا اور امر مشتبہ ہو جائے گا لہذا مومن اور منافق پہچان نہ سکیں گے

یہ روایات اہل تشیع  کی کتب کی ہیں – ان میں اہم بات ہے کہ امام مہدی کا ذکر ہی نہیں حالانکہ امام مہدی اور  عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر شیعہ اور سنی ایک ساتھ بیان کرتے ہیں- اہل تشیع نے اس کا حل نکالا کہ صرف امام مہدی کا ذکر کرو- دجال کی روایات وہ مجلس میں بیان نہیں کرتے اور اس میں ایک عام شیعہ کا تصور ہے کہ قرب قیامت میں صرف امام مہدی آئیں گے اور سنی ختم ہو جائیں گے صرف شیعہ رہ جائیں گے لیکن یہاں روایات میں ہے کہ اہل بیت کے دشمن دجال کی تمیز کھو دیں گے اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی کے بعد انے والے دجال کے وقت تک اہل بیت کے دشمن ہوں- یہ تضاد ہے جو امام مہدی اور خروج دجال کے حوالے سے ان کی کتب میں پایا جاتا ہے

عصر حاضر کے شیعہ محققین اور شارحین نے ایک نئی شخصیت سفیانی کو دجال سے ملا دیا ہے – سفیانی ایک شخص بتایا جاتا ہے جو ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل سے ہے اس کا نام عثمان بن عنبسہ  لیا جاتا ہے اور اس  کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ روم سے آئے گا اس کا چہرہ سرخ اور انکھیں نیلی ہوں گی اور گلے میں صلیب ہو گی (صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص651۔  نعمانی، الغیبة، ترجمه: جواد غفاری، ص435۔  طوسی، الغیبة، بصیرتی، قم، ص278۔   مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص205) –

سفیانی کے لئے شیعہ کتب میں  کچھ روایات میں ہے

وخروج السفياني براية خضراء وصليب من ذهب» (مختصر بصائر الدرجات للحسن بن سليمان الحلي: ص199

سفیانی کا خروج سبز جھنڈے اور سونے کی صلیب کے ساتھ ہے

وعن بشير بن غالب قال: يقبل السفياني من بلاد الروم منتصرا في عنقه صليب وهو صاحب القوم) (كتاب الغيبة للشيخ الطوسي: ص463

سفیانی بلاد روم سے مدد لے گا گلے میں صلیب ہو گی اور اس قوم میں سے ہو گا

السفياني… لم يعبد الله قط ولم ير مكة ولا المدينة قط» (بحار الأنوار للعلامة المجلسي: ج52، ص254

سفیانی الله کی عبادت نہ کبھی کرے گا نہ مکہ دیکھے گا نہ مدینہ

یعنی سفیانی ایک نصرانی ہو گا  اللہ کی عبادت نہ کرتا ہو گا اور روم کی مدد لے گا اور انہی میں سے ہو  گا

یہ روایات الکافی کی نہیں ہیں – الکافی میں دجال سے متعلق  اس قسم کی کوئی روایت نہیں

اس کے برعکس اہل سنت کے مطابق دجال ایک گھنگھریالے بال والا ہو گا اس کی شکل عربوں میں حجازیوں جیسی ہو گی اور ایک انکھ پھولنے والے انگور جیسی ابلی پڑ رہی ہو گی- گویا دجال اہل سنت بد صورت ہو گا اور دجال اہل تشیع کے ہاں نیلی آنکھوں والا رومیوں جیسا ( اغلبا حسین) ہو گا

اب ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل کے لوگ کب روم منتقل ہوئے الله کو پتا ہے اور وہاں سے ایک خالص عربی نام  عثمان بن عنبسہ  کے ساتھ اس کا خروج بھی عجیب بات ہے – دوم سفیانی کے گلے میں صلیب بھی ہے یعنی اگر سفیانی دجال ہے تو اہل تشیع کا دجال اب عیسائیوں میں سے ہے اور اہل سنت اس کو یہودی بتاتے ہیں یہ بھی اختلاف اہم ہے

سفیانی کی حقیقت – کتب شیعہ میں

تاریخ کے مطابق  السفیانی   سے مراد  يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان  جو   معاویہ رضی الله عنہ کے پڑ پوتے ہیں  انہوں نے دمشق  میں بنو امیہ کے آخری دور میں  خروج کیا-

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٦٤ – ٢٦٥

 عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد ، عن عثمان بن عيسى ، عن بكر بن محمد ، عن سدير قال : قال أبو عبد الله ( عليه السلام ) : يا سدير ألزم بيتك وكن حلسا من  أحلاسه  واسكن ما سكن الليل والنهار فإذا بلغك أن السفياني قد خرج فارحل إلينا ولو على رجلك

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اے سدير اپنے گھر میں رہو .. پس جب السفیانی کی خبر آئے تو ہمارے طرف سفر کرو چاہے چل کر آنا پڑے

تبصرہ السفیانی سے مراد ایک اموی ہیں جو ابو سفیان رضی الله تعالی عنہ کے پڑ پڑ پوتے ہیں. تاریخ الیعقوبی از الیعقوبی المتوفی ٢٨٤ ھ کے مطابق

وخرج أبو محمد السفياني، وهو يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان، بما لديه……… ، وكان ذلك سنة ١٣٣ ھ

اور ابو محمد السفیانی کا خروج ہوا اور وہ ہیں اور یہ سن ١٣٣ ھ میں ہوا-   امام جعفر المتوفی ١٤٨ ھ کے دور میں السفیانی کا خروج ہو چکا تھا

السفیانی کا خروج ہو گیا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٠٩

 علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن محبوب عن إسحاق بن عمار ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : لا ترون ما تحبون حتى يختلف بنو فلان  فيما بينهم فإذا اختلفوا طمع الناس وتفرقت الكلمة وخرج السفياني

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا کیا تم دیکھتے نہیں جو تم کو پسند ہے کہ بنو فلاں میں جو ان کے پاس ہے اس پر اختلاف ہوا ، پس جب اختلاف ہوا لوگوں کا لالچ بڑھا اور وہ بکھر گئے اور السفیانی کا خروج ہوا

تبصرہ    بنو فلاں سے مراد بنو امیہ ہیں جن میں آپس میں خلافت پر  پھوٹ پڑھ گئی تھی. امام جعفر کے مطابق السفیانی کا خروج ہو گیا ہے یہ دور ١٢٦ سے ١٣٣ ھ کا  ہے

السفیانی  کو قتل کر دیا جائے گا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٣٣١

حميد بن زياد ، عن أبي العباس عبيد الله بن أحمد الدهقان ، عن علي ابن الحسن الطاطري ، عن محمد بن زياد بياع السابري ، عن أبان ، عن صباح بن سيابة عن المعلى بن خنيس قال : ذهبت بكتاب عبد السلام بن نعيم وسدير وكتب غير واحد إلى أبي عبد الله ( عليه السلام ) حين ظهرت المسودة قبل أن يظهر ولد العباس بأنا قد قدرنا أن يؤول هذا الامر إليك فما ترى ؟ قال : فضرب بالكتب الأرض ثم قال : أف أف ما أنا لهؤلاء بإمام أما يعلمون أنه إنما يقتل السفياني

جب (بنو عبّاس سے پہلے) المسودہ  ظاہر ہوئے  (ابو عبدللہ سے بذریعہ خط ان کی رائے پوچھی گئی تو) انہوں نے خط زمین پر پھینک دیا پھر أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اف اف کیا میں ان لوگوں کے نزدیک امام نہیں،   کیا ان کو پتا نہیں کہ  یہی تو السفیانی کو قتل کریں گے

تبصرہ      حاشیہ میں المسودہ سے مراد أصحاب أبي مسلم المروزي لکھا ہے جو درست ہے ابو مسلم خراسانی کالے کپڑے اور کالے پگڑیاں باندھ کر نکلے تھے .امام جعفر کا گمان درست ثابت ہوا السفیانی کو قتل کیا گیا

المھدی کا اعلان

بحارالانوارج۲۵ص۹۱۱ص٨٤   میں روایت ہے  ،    ابوبصیر ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں

 راوی: میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں،قائم علیہ السلام کا خروج کب ہوگا؟

 امام جعفر صادق:اے ابامحمد!ہم اہل بیت علیہ السلام اس وقت کو متعین نہیں کرتے،آپ نے فرمایا کہ وقت مقرر کر دینے والے جھوٹے ہیں، لیکن اے ابومحمد قائم کے خروج سے پہلے پانچ کام ہوں گے

 ماہ رمضان میں آسمان سے نداءآئے گی  سفیانی کاخروج ہوگا  ، خراسانی کا خروج ہوگا،   نفس ذکیہ کاقتل ہوگا  بیداءمیں زمین دھنس جائے گی۔

راوی: میں نے پوچھا کس طرح نداءآئے گی؟

 امام علیہ السلام:حضرت قائم علیہ السلام کا نام اور آپ کے باپ کے نام کےساتھ لیا جائے گا اور اسی طرح اعلان ہوگا   فلاں کا فلاں بیٹا قائم آل محمد علیہم السلام ہیں، ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو، اللہ کی کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں بچے گی کہ جس میں روح ہے مگر یہ کہ وہ اس آواز کو سنے گی سویا ہوا اس آواز سے جاگ جائے گا اور اپنے گھر کے صحن میں دوڑ کر آ جائے گا اور پردہ والی عورت اپنے پردے سے باہر نکل آئے گی، قائم علیہ السلامیہ آواز سن کر خروج فرمائیں گے یہ آوازجبرئیل علیہ السلام کی ہوگی

تبصرہ ابو مسلم خراسانی کا خروج ہو گیا اور محمّد بن عبدللہ المھدی نفس الزکیہ کا بھی خروج ہو چکا. ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رویوں کا گمان تھا کہ   حسین  کی نسل سے  المہدی ظاہر ہونے والا ہے-  لیکن دو نشانیاں  رمضان  میں آسمان سے نداء  اور  بیدا میں زمین کا دھنسنا نہیں ہوا-

 یہ تمام نشانیاں    ایک ساتھ ظاہر ہونی تھیں  لیکن نہیں ہوئیں

سفیانی کو اہل تشیع کا اب دجال کہنا سراسر غلط ہے اور اوپر والی روایت کو جو دجال سے متعلق تھیں ان میں زبر دستی اپنی رائے کو شامل کرنے کے مترادف ہے

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية نام کے ابو سفیان رضی الله عنہ کے ایک پوتے تھے جو اپنے زمانے میں ایک معتدل شخصیت تھے اور قبول عامہ ایسی تھی کہ لوگ ثآلث مقرر کرتے تھے

ابن حزم نے کتاب  جمهرة أنساب العرب  میں لکھا ہے

أراد أهل الأردن القيام به باسم الخلافة، إذ قام مروان: أمه زينب بنت الزبير بن العوام

اہل اردن نے ارادہ کیا تھا  کہ مروان کے قیام (خلافت) پر ان کے نام پر خلافت قائم کرنے کا – ان کی والدہ کا نام زينب بنت الزبير بن العوام ہے

کتاب نسب قريش از أبو عبد الله الزبيري (المتوفى: 236هـ) کے مطابق کے والد عنبسة بن عمرو بن عثمان بن عفان ہیں

اغلبا شیعان کو خطرہ تھا کہ کہیں اہل اردن (جن میں ممکن ہے عیسائی ہوں ) کہیں اس شخص کے لئے خلافت  قائم نہ کر دیں – یہ ابو سفیان رضی الله عنہ کی اولاد میں سے بھی ہیں لہذا اس بنیاد پر عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية کے خلاف روایات بنا دی گئیں – عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية تو انتقال کر گئے لیکن روایات شیعوں کے پاس رہ گئیں

عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ کی خلافت مکہ سے بصرہ تک تھی اور عبد الملک کی شام میں دونوں میں رابطہ کے فرائض عثمان بن عنبسة  انجام دیتے تھے کیونکہ عثمان بن عنبسة دونوں کے رشتہ دار تھے عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ عثمان بن عنبسة کے ماموں تھے

یعنی  اہل تشیع جس السفیانی کا انتظار کر رہے ہیں وہ گزر چکا  ہے چاہے يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہوں یا عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية ہوں

الله ہم سب کو ہدایت دے

دجالوں میں سے

منکرین حدیث اور قادیانیوں میں کیا اقدار مشترک ہیں؟

جواب

سر سید احمد خان جو ١٨١٧ میں پیدا ہوئے  اور ١٨٩٨ میں وفات ہوئی  ایک منکر حدیث تھے اور نیچری کے نام سے مشھور تھے انہوں نے تفسیر القران لکھی اور اس میں فرشتوں و جنات کے وجود، معجزات  کا انکار کر دیا – کعبه کو بطور قبلہ تسلیم نہ کر سکے اور ہر عبادت کو خام خیالی قرار دے ڈالا –  سن ١٨٣٦ ع میں مرزا غلام احمد پیدا ہوا اور سن ١٨٩١ ع میں اس نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا پھر ١٩٠١ ع میں نبوت کا دعوی کیا بحوالہ سیرت المہدی از بشیر الدین محمود- یعنی ٥٥ سال تک اس کا عقیدہ نزول مسیح کا رہا اور پھر ایک دن خود ہی مسیح بن بیٹھا

یہ دونوں افراد ہم عصر تھے ایک نے انکار حدیث اور تاویل قرآن میں شہرت پائی اور دوسرے نے جھوٹی نبوت سے- لیکن دونوں ایک بات میں ہم خیال تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہو گئی ہے – اصلی عیسیٰ کی وفات  کا انکار ان دونوں نے کیا

مرزا غلام احمد کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی موت ہو چکی ہے ان کی قبر کشمیر میں ہے بحوالہ براہین احمدیہ ص ٢٢٨ لیکن غلام احمد نزول مسیح سے مراد اپنے آپ کو لیتا تھا اور اس کے نزدیک وہ ان احادیث کا مصداق تھا جن میں ہے کہ مسیح علیہ السلام دمشق میں نازل هوں گے – اس کے نزدیک اس میں دمشق سے مراد استعارہ و تشبیہ تھی اور اس کے بقول رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس میں اجمالی علم دیا گیا تھا اور اس طرح اس کذآب نے خود کو کہا کہ اس کو مکمل علم ہوا ہے بحوالہ ازالہ اوہام ص ٣٤٦ ج دوم

احادیث میں ہے کہ مسیح علیہ السلام کا نزول دمشق میں ہو گا – اس کے  القا پر مرزا لکھتا ہے :” پس واضح ہوا کہ دمشق کے لفظ کی تاویل میں میرے پر من جانب الله یہ ظاہر کیا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات و خیالات کے پیرو ہیں جن کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی کچھ محبت اور احکام الہی کی کچھ عظمت نہیں جنہوں نے اپنی خواہشوں کو اپنا معمول بنا رکھا ہے اور اپنے نفس امارہ کے حکموں کے ایسے مطیع ہیں کہ مقدسوں اور پاکوں کا خون بھی ان کی نظر میں سہل اور آسان ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور خدا تعالی کا موجود ہونا ان کی نگاہ میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو انھیں سمجھ نہیں اتا اور کیونکہ طبیب کو بیماروں کی طرف آنا چاہیے اس لئے ضروری تھا کہ مسیح ایسے ہی لوگوں میں نازل ہو” بحوالہ حاشیہ ازالہ اوہام ص ٣٣ سے ٣٤

حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام دو زرد چادریں اورٹھے ہوئے نازل ہوں گے- اس کی اس کذاب نے تاویل کی کہ اس سے مراد ہے کہ دو بیماریاں مسیح کو ہوں گے- مرزا نے کہا” میرے سر میں کمی خواب ہے… تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ ہے اور…. نیچے رات دن کثرت پیشآب رہتا ہے” بحوالہ سیرت المہدی ج ٢ ص  ١٤٥پر

مرزا کذاب نے خود کو ہندووں کا کرشن  قرار دیا  – اس کے ایک معتقد نے لکھا :غلام احمد صاحب نے خدا سے الہام پا کر دعوی کیا :” میں مسلمانوں کے واسطے مہدی ہوں ، عسائیوں  کے لئے مسیح ہوں اور ہندووں کے لئے کرشن ہوں اور دوسری قوموں کے لئے موعود ہوں “بحوالہ تبلیغ ہدایت از مرزا بشیر احمد ص ١٦ اور ١٧ پر

مرزا کا عقیدہ تھا کہ الله ہر طرف موجود ہے لہذا نزول مسیح پر اس نے لکھآ:”  اب ظاہر ہے الله تعالی ہر جگہ موجود ہے صرف آسمان کے اندر محدود نہیں پس اس کی طرف اٹھائے جانے کے معنی آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے کس طرح ہو سکتے ہیں” بحوالہ تبلیغ ہدایت ص ٣٧ پر

قرآن کی آیت یا عیسیٰ انی متوفیک و رفعک الی کا قادیانی مرزا بشیر احمد نے ترجمہ کیا کہ

اے عیسیٰ میں ہی تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا – بحوالہ تبلیغ ہدایت

یہ ترجمہ آج تک منکرین حدیث میں مقبول ہے

مرزا کو ایک الہام انگریزی میں ہوا جس میں گرامر کی غلطیاں تھیں اس پر اس نے قرآن میں بھی گرامر کی غلطی گنوا دی

مرزا کا عقیدہ تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا امتی نبی بن سکتا ہے اور یہ خاتم النبین یعنی نبوت کی مہر کا مطلب ہے

مرزا ممکن ہے ایک نفسیانی مریض ہو اور اس دور میں چونکہ علاج معالجہ کی سہولیات نہ تھیں تو یہ اپنے القا کو وحی  سمجھتا ہو جیسا کہ اس نے خود اپنے دعوی نبوت کا اعلان کیا  پھر انکار کیا اور پھر اقرار کیا مرزا نے حقیقت الوھی میں لکھا

اللہ نے مجھ پر وحی بھیجی اور میرا نام رسل رکھا یعنی پہلے ایک رسول ہوتا تھا اورپھر مجھ میں سارے رسول جمع کر دیے گئے ہیں۔میں آدم بھی ہوں۔ شیش بھی ہوں۔ یعقوب بھی ہوں اور ابراہیم بھی ہوں۔اسمائیل بھی میں اور محمد احمد بھی میں ہوں

الله اس کے پیرو کاروں کو ہدایت دے

 

مرزا کو بطور نبی کافی لوگوں نے تسلیم کیا اور ساتھ ہی جنہوں نے نہیں کیا لیکن اس کو پڑھا ان میں انکار حدیث کا رجحان پیدا ہوا- سر سید کا مشن سیاسی تھا اور مرزا کا خالص دینی- اس طرح ایک اضطراب کی کیفیت اس دور میں پیدا ہوئی دوسری طرف اس رجحان کو اور تقویت ملتی گئی اور انکار حدیث میں تاویل قرآن بھی شامل ہو گیا اس کے لئے مرزا پرویز نے نام کمایا

غلغلہ مہدی، جہادی اورعلماء

مرجان مصطفى سالم الجوهري المتوفی ١٤٣٦ ھ   / ٢٠١٥ جس كا قلمي نام أبو عمرو عبد الحکیم حسان تھا اس نے کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان  لکھی  جس میں   اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا – اس شخص نے اہرام مصر اور آثار قدیمہ کو منہدم کرنے کا فتوی دیا یہ مصر  میں قید   میں ٢٠١٥ میں  ہلاک ہوا – یہ كلية أصول الدين جامعہ ازہر کا طالب علم تھا اور بعد میں افغانستان میں  ملا عمر کا استاد تھا – یہ یمن سے افغانستان منتقل ہوا اور سلفی جہادی سوچ رکھتا تھا-  اس شخص نے جماعة الجهاد الإسلامي کی بنیاد رکھی اور حکمرانوں کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے مزاحمت کے دوران معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا – سن ٢٠٠٣ میں  اس کی سوچ کا علمبردار اسامہ بن لادن تھا  جس کو سفید گھوڑے پر سوار دکھایا جاتا یا گویا وہ افغانوں کا مہدی تھا جو قدیم خراسان سے ظاہر ہونے کو تھا – ان کے پشتبان طالبان اس کے سحر میں گرفتار تھے جو  اپنے آپ کو انہی جھوٹی موضوع روایات کا محور سمجھ رہے تھے جو ظہور مہدی کے حوالے سے ہیں جن کو  سلفی و دیوبندی حضرات نے تعویذ کی طرح گلے میں ڈال رکھا ہے سلفی جہادی ابن تیمیہ کی متشدد سوچ سے ابھرنے والی تنظیمیں ہیں جن کی پشت پر بہت سے عرب علماء ہیں اور ان کے ہتھیار کے طور پر برصغیر و افغانستان  کے مسلمان ردعمل ظاہر کرتے ہیں – دوسری طرف برصغیر کے دیوبندی حلقوں میں بھی امام مہدی کا چرچا تھا یہاں سرفراز خان صفدر اپنی کتاب توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام میں  لکھ رہے تھے کہ طالبان نما مخلوق مسیح علیہ السلام کے ساتھ خواب میں دیکھی- مفتی شامزی  نے بھی امام مہدی پر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں کیا موضوع روایت ہوتی کیا مدلس راوی ہوتا ہے ان کو اس سے کوئی سرورکار نہ تھا – بس ایک تلاطم روایات تھا جس میں صحیح اور غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز مٹ چکی تھی- الغرض مدرسوں میں ایک کلائمیکس کا وقت تھا علماء کا سرور دیکھنے والا تھا اور نوک قلم سے جھلک رہا تھا

لیکن افسوس ایک عفریت اپنے عقب سے نکلنے کو تھا- شوق جہاد میں نظر و فکر  کے تجزیے رخصت پر جا چکے تھے  اور مہدی آخر الزمان کی رن میں آمد کے نوبت کے شور میں  سلفی و دیوبندی عوام واپس سنن اربع کی کتب کو کھنگال کر روایات مہدی جمع  کررہی تھیں

کہتے ہیں جب کسی چیز کا وقت نہ ہو اور اس کا انتظار کیا جائے تو اس کا ردعمل ختم نہیں ہوتا ہمارے لئے اہل کتاب کی تاریخ تھی کہ کس طرح ہر دور میں مسیح کا انتظار کرتے رہے اور اصلی تک کو قتل کرنے کے در پے ہوئے کہ علماء کی رائے  اصلی مسیح کی رائے سے موافقت نہ رکھتی تھی – علمائے یہود نے اس کا حل نکالا کہ الله کو مجبور کر دو کہ مسیح کو بھیجے لہذا جنگ کی اگ بھڑکاو – جنگ ہو گی مسیح آئے گا (جس کے لئے الله قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اس کو بجھا دیتا ہے) – یہی انداز ان جہادی گروہوں کا ہوا کہ  جہاد کرو مہدی آئے گا گویا ایک شعر پر ایمان لائے کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے – جبکہ یہ شعر ہی غلط ہے یہ شاعرانہ بات ہے وحی الہی نہیں-

علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں

سن ٧٠ کی دہائی میں مطووں کی فوج میں سے ایک،  محمد بن عبد الله القحطانی کو خیال آیا کہ میں مہدی ہوں ایک جماعت کثیر کو لیا حرم پر قابض ہوا اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے  جہنم واصل ہوا – اس کے ساتھ جن علماء کا اٹھنا بیٹھنا تھا ان کو بچا لیا گیا  کچھ واپس برصغیر بھی پہنچے- اس وقت اس دبی چنگاری کو بجھا دیا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن سلفی علماء اپنے من پسند لوگوں کو بچا لے گئے- ایک عالم  عبد الله بن زيد آل محمود  المتوفی ١٤١٧ ھ  نے   سچ بولتے ہوئے  المہدی کی روایات کو  کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر  میں رد کیا    اور صاف  کہا کہ یہ ایک  اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد سلفی سوچ واپس متحرک ہوئی اور  عبد العزيز بن عبد الله بن باز کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ)  نے اپنی کتاب   الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر   میں  عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور  رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا اور اگر آپ کتاب دیکھیں تو ٤١١ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کوئی علمی بات نہیں ایک منقطع روایت کو دس سے اوپر دفعہ لکھا گیا ہے کہ اس کی سند جید ہے – افسوس درس حدیث دینے والے  چوٹی کے علماء  میں اتنی قابلیت نہیں کہ ایک دفعہ ہی سند چیک کر لیں بھلا کیا روایت ہے سنئے مسند الحارث بن أبي أسامة  کی روایت ہے

حدثنا إسماعيل بن عبد الكريم، حدثنا إبراهيم بن عقيل، عن أبيه، عن وهب بن منبه، عن جابر -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «ينزل عيسى ابن مريم، فيقول أميرهم المهدي: تعال صلِّ بنا، فيقول: لا، إن بعضهم أمير بعض، تكرمة الله لهذه الأمة

جابر رضي الله عنه  سے  مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا  بے شک عیسیٰ ابن مریم  نازل ہونگے اور ان سے امیر المہدی کہیں گے   آ جائیں نماز پڑھائیں پس وہ کہیں گے نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں اللہ نے اس امت کی تکریم کی ہے

یہ روایت  منقطع ہے- کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل   کے مطابق

وهب بن منبه قال بن معين لم يلق جابر بن عبد الله

وهب بن منبه  کے لئے ابن معين  کہتے ہیں ان کی ملاقات جابر بن عبد الله سے نہیں ہوئی

اس کتاب میں ابن معین کہتے ہیں وھب  کی روایت ابن جابر سے ایک کتاب سے تھی ، یہ بھی کہا ان کے پاس ایک صحیفہ تھا

 هو صحيفة ليست بشيء

وہ صحیفہ کوئی چیز نہیں

حمود بن عبد الله اس  کتاب میں بس یہی راگ لاپتے رہے  کہ ابن قیم  اس کا ذکر کتاب  المنار المنيف   میں کرتے ہیں کہتے ہیں وهذا إسناد جيد اس کی سند جید ہے – مسلک پرستی یہ نہیں تو اور کیا ہے

انہی حلقوں میں ایک رجحان مدخلیت بھی ہے- یعنی اس سلسلے میں اس قدر لٹریچر آ موجود ہوا ہے کہ الہی توبہ جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ایڈونچرازم کا درس ہے – تکفیر ہے –  مغربی ملکوں میں پڑھنا حرام ہے، ان کی سیر حرام ہے، ان میں جانا حرام ہے – ضابطہ اخلاق اور تہذیب کا  عملا جنازہ ہی اٹھا دیا گیا ہے اور ہر جانب سے نئے  افکار کو پیش کیا جا رہا ہے کسی کو شام میں اب سفیانی نظر آ رہا ہے (یہ بھی ضعیف روایت ہے ) –  ایک اور بات جو ان گروہوں میں مشترک ہے وہ ہے کفار و اہل کتاب سے دوستی کی بحث

اب ہم پوچھتے ہیں

ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح  بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا

کیا  آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے  کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا

جب مسلمان کا دوسروں سے معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا

عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ  اہل کتاب میں سے تھیں

اہل کتاب سے شادی ہو سکتی ہے دوستی نہیں! مطلب آپ بات سمجھ نہ پائے

بقول حافظ

چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطاست

سخن شناس نئی ، دلبرا، خطا اینجاست

  بعض آیات  کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام  کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا

ایک اور کتاب دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار یا الولاہ و البراء از صالح  بن الفوزان میں بھی اسی خارجی طرز کا انداز ہے موصوف غیر مسلموں کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے حتی کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو کاتب کی نوکری تک نہ دی جائے (صفحہ ١٨ اور ١٩)- جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بنو امیہ کے خلفاء نے اہل کتاب کو اپنی بیرو کریسی میں شامل کیا انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا لیکن   یہ روایت بیہقی شعب ایمان کی   ہے

أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيُّ بِالْكُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ دُحَيْمٌ , نا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ , نا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ , عَنْ أَسْبَاطٍ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ , عَنْ أَبِي مُوسَى , فِي كَاتِبٍ لَهُ نَصْرَانِيٍّ عَجِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ كِتَابِهِ , فَقَالَ: إِنَّهُ نَصْرَانِيٌّ قَالَ أَبُو مُوسَى: فَانْتَهَرَنِي وَضَرَبَ فَخِذِي وَقَالَ: ”   أَخْرِجْهُ ” وَقَرَأَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] , وَقَالَ: {لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51] , قَالَ أَبُو مُوسَى: وَاللهِ مَا تَوَلَّيْتُهُ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ , قَالَ: ” أَمَا وَجَدْتَ فِي أَهْلِ الْإِسْلَامِ مَنْ يَكْتُبُ لَكَ لَا تُدْنِهِمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللهُ , وَلَا تَأْمَنْهُمْ إِذَا خَانَهُمُ اللهُ , وَلَا تُعِزَّهُمْ بَعْدَ إِذْ أَذَلَّهُمُ اللهُ

 اسباط بن نصر  روایت کرتا ہے سماک سے  وہ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ سے وہ ابو موسی سے کہ عمر رضی الله عنہ نے ان کے نصرانی کاتب پر تعجب کیا اور دلیل میں سوره ممتحنہ اور المائدہ کی آیات سنائی

اسکی سند میں سماک بن حرب کا تفرد ہے کتاب المختلطين از  العلائي  کے مطابق وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن حجة

نسائی کہتے ہیں جس میں یہ منفرد ہو وہ حجت نہیں ہے  دوم اسباط بن نصر  خود ایک ضعیف راوی ہے

صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩)  ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں

اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک  تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے

اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے

ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ  کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم  سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی

اصل میں اس قبیل کے علماء کا غلطی یہ ہے کہ آیات کو جو مشرکین مکہ کے لئے تھیں ان کو آج کل کے اہل کتاب پر لگا دیتے ہیں اور جو احکام اہل کتاب کے لئے تھے  ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں اور جو ان کی نہ سنے اس کو منافق قرار دے دیتے ہیں اور مسند رسالت پر براجمان ہونے کی کوشش میں ہیں اگرچہ زبان سے اس کے انکاری ہیں لیکن وہ عمل جو خالص وحی الہی سے ہی ممکن ہیں ان کی تلقین کرتے پھرتے ہیں مثلا کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے اختلاف ہوا تو اس پر مرتد کا فتوی جڑنا ، ان کی بیویوں کو علیحدگی کا حکم دینا ، ان کے حمل گروانا ، پھر معاشی بائیکاٹ اور کوئی  انکی پارٹی کا جوان مرد عامی ذہین اٹھ کر ایسے صحیح العقیدہ  مخالفین کو قتل کر دے تو اس گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا

اس خوف و دہشت میں رہنے والے علماء جس تفسیاتی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اسی میں اپنے معتقدین کو بھی مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ دین تو نصیحت کا نام ہے کچھ اور نہیں

مشرکین مکہ کا دھرم ختم ہوا تو وہ ایک فطری عمل تھا-  اس پر نوشتہ دیوار آ چکا تھا لوگ جوق در جوق اسلام میں آ رہے تھے پرانے مندروں کے بچے کچھے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان کے بت توڑے اور مندر ڈھا دیے گئے لیکن یہ صرف عرب میں ہوا- مسلمانوں نے مصر فتح کیا لیکن فرعونوں کی مورتیاں آج تک باقی رہیں – کسی من چلے کو خیال نہ آیا کہ ان تو توڑا جائے- یہ آج ان سلفی علماء کو ہی خیال کیوں آیا؟ بدھآ کے بتوں تو نہیں توڑا گیا اور عباسی خلافت تک آتش کدہ نوبہار البوزی میں اگ جلتی رہی – ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کو اسی وقت بجھا دیا جاتا

مدینہ کی سیاست ایک وقتی نوعیت کی چیز تھی- جس میں منافق اور یہود کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ تھا جس میں ان کا مقصد تھا کہ رسول الله کو کسی طرح مشرکین مکہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے اور ہم واپس مدینہ کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس کا منصوبہ الگ تھا اس تناظر میں آیات نازل ہوئیں کہ جس نے رسول الله کی مخالفت کی وہ منافق ہے اور کافر سے درپردہ دوستی سے منع کیا گیا وہ دور گزر گیا

امت مسلمہ اتنی وسیع ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس کو کوئی ختم نہ کر سکے گا لہذا علماء کو چاہیے اس نفسیاتی خوف سے باہر نکلیں  اور تہذیب کے دائرے میں  بین المذآھب ڈائلاگ کرنا سیکھیں