خوارج سے متعلق روایات

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

عصر حاضر میں البانی ، شعیب الآرنوط ، احمد شاکر صاحبان نے احادیث کی تصحیح و تضعیف  وغیرہ پر کافی محنت کی ہے جو سنن اور مسانید تک ہی محدود ہے-  بطور مسلم  تاریخ کے حوالے سے ہمارا منہج صحیح نہیں رہا – ہمارے مورخین نے ہر طرح کا رطب و یابس اپنی کتابوں میں نقل کر دیا اور محدثین نے روایات کو فضائل سمجھتے ہوئے یا علامات النبوه میں لکھ دیا – اس طرح انسانی شخصیات بشری جامے سے نکل کر غیر بشری تصورات میں تبدیل ہو گئیں – راویوں کی چھان پھٹک کافی بعد میں شروع  ہوئی جب فتنے پورے جوبن پر آ گئے اور محدثین کہنے لگے کہ اسناد دین ہیں اور برملا اعتراف کرنے لگے کہ یہ تب احساس ہوا جب  فتنوں نے سر اٹھا لیا-  ابن سيرين  بتاتے ہیں

كَانُوا لَا يسْأَلُون عَن الْإِسْنَاد فَلَمَّا وَقعت الْفِتْنَة قَالُوا سموا لنا رجالكم

ہم تو اسناد پوچھتے تک نہیں تھے پس جب فتنہ ہوا پھر ہم نے کہنا شروع کیا اپنے رجال کے نام لو

بحوالہ النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزرکشی

قرن اول میں ہی  جعلی حدیثیں گھڑی گئیں اور ان  گھڑنے والوں  کی نگاہ انتخاب علی اور ان کی اولاد پر تھی جن کو مافوق الفطرت سمجھا جا رہا تھا-  علی  کی موت کا انکار کیا جاتا ، علی کو بادلوں میں بتایا جاتا اور ان کی خلافت کو من جانب الله ثابت کرنے کے لئے علی ہی کے اصحاب عجیب و غریب اقوال لوگ  بیان کر رہے تھے جن سے اصحاب رسول  نا واقف تھے

اس قسم کا ایک واقعہ خوارج کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے  کہ علی رضی الله عنہ نے جب خوارج سے قتال کیا تو انہوں نے اس کے بعد کہا ان کی لاشوں میں ایک پستان جیسے ہاتھ والا شخص تلاش کرو لہذا خارجیوں کی لاشیں کھنگالی گئیں اور ایک ایسا شخص مل گیا – اس پر علی نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ میری جنگ ہو گی اور ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے بازو ہو گا ، لیکن ہاتھ نہ ہو گا، اس کے بازو پر پستان کی  گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہو گی، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے – اس روایت کو بہت سے محدثین نے نقل کیا ہے (سوائے امام بخاری کے ) لیکن اس روایت کے مخالف روایت بھی ہے اسکو پیش نہیں کیا جاتا اور خود جو الفاظ ہم تک پہنچے ہیں وہ بھی دلیل رکھتے ہیں کہ یہ روایت صحیح  مفھوم سے منقول  نہیں ہوئی

اب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں

زید بن وھب الجھنی کی روایت

صحیح مسلم میں  ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَيْسَ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ»، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ، مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَاتَّكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، «وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ، وَلَيْسَ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى رَأْسِ عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ» فَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُكُونَ هَؤُلَاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَاللهِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللهِ. قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلًا، حَتَّى قَالَ: مَرَرْنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ يَوْمَئِذٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ، فَقَالَ: لَهُمْ أَلْقُوا الرِّمَاحَ، وَسُلُّوا سُيُوفَكُمْ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، فَرَجَعُوا فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ، وَسَلُّوا السُّيُوفَ، وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلَّا رَجُلَانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، قَالَ: أَخِّرُوهُمْ، فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ، فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللهُ، وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلِلَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، لَسَمِعْتَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: إِي، وَاللهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلَاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ لَهُ “

 عبد بن حمید، عبدالرزاق بن ہمام، عبدالملک بن ابی سلیمان، سلمہ بن کہیل، زید بن وہب جہنی  سے روایت ہے کہ وہ اس لشکر میں شریک تھا جو سیدنا علی (رض) کی معیت میں خوارج سے جنگ کے لئے چلا۔ تو حضرت علی (رض) نے فرمایا اے لوگو! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ ایک قوم میری امت سے نکلے گی وہ قرآن اس طرح پڑھیں گے کہ تم ان کی قرأت سے مقابلہ نہ کرسکو گے اور نہ تمہاری نماز ان کی نماز کا مقابلہ کرسکے گی اور نہ تمہارے روزے ان کے روزوں جیسے ہوں گے وہ قرآن پڑھتے ہوئے گمان کریں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے حالانکہ وہ ان کے خلاف ہوگا اور ان کی نماز ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے ان سے قتال کرنے والے لشکر کو اگر یہ معلوم ہوجائے جو نبی کریم کی زبانی ان کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے اسی عمل پر بھروسہ کرلیں اور نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کے بازو کی بانہہ نہ ہوگی اور اس کے بازو کی نوک عورت کے پستان کی طرح لوتھڑا ہوگی اس پر سفید بال ہونگے فرمایا تم معاویہ (رض) اور اہل شام سے مقابلہ کے لئے جاتے ہوئے ان کو چھوڑ جاتے ہو کہ یہ تمہارےپیچھے تمہاری اولادوں اور تمہارے اموال کو نقصان   پہنچائیں۔ اللہ کی قسم میں امید کرتا ہوں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حرام خون بہایا اور ان کے مویشی وغیرہ لوٹ لئے تم اور لوگوں کو چھوڑو اور ان کی طرف اللہ کے نام پر چلو سلمہ بن کہیل کہتے ہیں پھر مجھے زید بن و ہب نے ایک منزل کے متعلق بیان کیا۔ یہاں تک کہ ہم ایک پل سے گزرے اور جب ہمارا خوارج سے مقابلہ ہوا تو عبداللہ بن و ہب راسبی انکا سردار تھا۔ اس نے اپنے لشکر سے کہا تیر پھینک دو اور اپنی تلواریں میانوں سے کھینچ لو میں خوف کرتا ہوں کہ تمہارے ساتھ وہی معاملہ نہ ہو جو تمہارے ساتھ حروراء کے دن ہوا تھا تو وہ لوٹے اور انہوں نے نیزوں کو دور پھینک دیا اور تلواروں کو میان سے نکالا۔ لوگوں نے ان سے نیزوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور یہ ایک دوسرے پر قتل کئے گئے ہم میں صرف دو آدمی کام آئے علی (رض) نے فرمایا ان میں سے ناقص ہاتھ والے کو تلاش کرو تلاش کرنے پر نہ ملا تو علی (رض) خود کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان لوگوں پر آئے جو ایک دوسرے پر قتل ہوچکے تھے آپ نے فرمایا ان کو ہٹاؤ پھر اس کو زمین کے ساتھ ملا ہوا پایا آپ نے اَللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر فرمایا اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہنچایا تو پھر عبیدہ سلمانی نے کھڑے ہو کر کہا اے امیرالمومنین اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ آپ نے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث سنی۔ تو علی (رض) نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی یہاں تک عبیدہ نے تین بار قسم کا مطالبہ کیا اور آپ نے تین بار ہی اس کے لئے قسم کھائی۔

سنن ابوداود  ۴۷۶۸ میں بھی ہے

 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَيْسَتْ قِرَائَتُكُمْ إِلَى قِرَائَتِهِمْ شَيْئًا، وَلا صَلاتُكُمْ إِلَى صَلاتِهِمْ شَيْئًا، وَلاصِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ شَيْئًا، يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لاتُجَاوِزُ صَلاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ ﷺ لَنَكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلا لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَتْ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ > أَفَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُكُونَ هَؤُلاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ؟ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلاءِ الْقَوْمَ؛ فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلا مَنْزِلا، حَتَّى مَرَّ بِنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ، قَالَ: فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا السُّيُوفَ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، قَالَ: فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ، وَاسْتَلُّوا السُّيُوفَ، وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقَتَلُوا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضِهِمْ، قَالَ: وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلا رَجُلانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلامُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَلَمْ يَجِدُوا، قَالَ: فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه بِنَفْسِهِ، حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: أَخْرِجُوهُمْ، فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الأَرْضَ، فَكَبَّرَ، وَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ، وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! [وَ] اللَّهِ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ لَقَدْ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لاإِلَهَ إِلا هُوَ، حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ ۔
* تخريج: م/ الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۰) (صحیح)

زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:” میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قر آن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا ، نہ تمہاری صلاۃ ان کی صلاۃ کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا صیام ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے ، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لئے ( ثواب) ہے حالاں کہ وہ ان پر (عذاب ) ہو گا ، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی ، وہ اسلام سے نکل جائیں گے ، جس طرح تیرشکار سے نکل جاتا ہے ، اگر ان لوگوں کو جو انہیں قتل کر یں گے ، یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے لئے ان کے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبا نی کس چیز کا فیصلہ کیا گیا ہے ، تو وہ ضر ور اسی عمل پر بھروسا کرلیں گے -ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے بازو ہو گا ، لیکن ہاتھ نہ ہو گا، اس کے بازو پر پستان کی گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہو گی، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے”، تو کیا تم لوگ معاویہ اور ہل شام سے لڑ نے جائوگے ، اور انہیں اپنی اولاد اور اسباب پر چھو ڑدو گے (کہ وہ ان پر قبضہ کریں اور انہیں برباد کریں) اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں ( جن کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے ) اس لئے کہ انہوں نے ناحق خون بہایا ہے، لوگوں کی چراگاہوں پر شب خون مارا ہے ، چلو اللہ کے نام پر ۔ سلمہ بن کہیل کہتے ہیں : پھر زید بن وہب نے مجھے ایک ایک مقام بتا یا ( جہاں سے ہو کر وہ خارجیوں سے لڑ نے گئے تھے) یہاں تک کہ وہ ہمیں لے کر ایک پل سے گزرے۔  وہ کہتے ہیں: جب ہماری مڈ بھیڑ ہوئی تو خارجیوں کا سردا رعبداللہ بن وہب راسبی تھا اس نے ان سے کہا : نیزے پھینک دو اور تلواروں کو میان سے کھینچ لو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تم سے اسی طرح صلح کا مطالبہ نہ کریں جس طرح انہوں نے تم سے حروراء کے دن کیا تھا ، چنانچہ انہوں نے اپنے نیز ے پھینک دئیے ،تلواریں کھینچ لیں، لوگوں (مسلمانوں ) نے انہیں اپنے نیزوں سے روکا اور انہوں نے انہیں ایک پر ایک کر کے قتل کیا اور ( مسلمانوں میں سے) اس دن صرف دو آدمی شہید ہوئے ، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں مخدج یعنی لنجے کو تلاش کرو، لیکن وہ نہ پاسکے، تو آپ خود اٹھے اور ان لوگوں کے پاس آئے جو ایک پر ایک کرکے مارے گئے تھے ، آپ نے کہا: انہیں نکالو ، تو انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ سب سے نیچے زمین پر پڑا ہے ،آپ نے  نعرہ تکبیر بلند کیا اور بولے: اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے سا ری باتیں پہنچا دیں ۔ پھر عبیدہ سلمانی آپ کی طرف اٹھ کر آئے کہنے لگے: اے امیر المو منین ! قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے ؟ وہ بولے : ہاں، اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، یہاں تک کہ انہوں نے انہیں تین بار قسم دلائی اور وہ (تینوں با ر) قسم کھاتے رہے

زيد بن وهب  ایک بد مذھب شخص تھا – امام  يعقوب الفسوي کے مطابق فی حديثه خلل كثير اسکی روایات میں خلل ہوتا ہے اور

یہ کہا کرتا إن خرج الدجال تبعه من كان يحب عثمان. اگر دجال نکلے تو اس کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے جو عثمان  (رضی الله عنہ) سے محبت کرتے ہوں –  الذہبی،  ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين میں بتاتے ہیں کہ اسکی ایک حدیث عمر  (رضی الله عنہ) کے حوالے سے کہ انہوں نے حذیفہ  (رضی الله عنہ) سے کہا بالله أنا منافق الله کی قسم میں منافق ہوں-  ان روایات  کو امام يعقوب الفسوي رد کرتے اور اس کی روایات کا خلل کہتے – علی رضی الله عنہ پر بھی موصوف نے ہاتھ صاف کیا اور اس کو مسلم نے صحیح میں روایت 2071 بیان  کر دیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی  (رضی الله عنہ) کو ایک چادر دی اور وہ علی رضی الله عنہ نے اوڑھ لی اور رسول الله کے پاس گئے جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم  کے چہرے پر غضب آیا اور فرمایا  کہ فَشَقَقْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي اپنی عورتوں میں اس کو بانٹ دو- یعنی چادر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ رضی الله عنہا یا علی کی لونڈیوں کے لئے دی تھی لیکن علی اس قدر معصوم تھے یہ سب سمجھ نہ سکے اور ایسی زنانہ چادر اوڑھ بھی لی- حیرت ہے کہ امام مسلم نے اس کو صحیح میں روایت بھی کر دیا

عبيدة السلماني المرادي الهمداني کی روایت

صحیح مسلم میں روایت ہے

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،   ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،  ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، – وَاللَّفْظُ لَهُمَا – قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: ذَكَرَ الْخَوَارِجَ فَقَالَ: «فِيهِمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ»، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَحَدَّثْتُكُمْ بِمَا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ، عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ قُلْتُ: آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ

عبيدة السلماني المرادي الهمداني سے اس روایت کو امام ابن سیرین روایت کرتے ہیں اور ان سے ایوب السختیانی جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں-

ابن سیرین اور ایوب  دونوں بصری ہیں مدلس ہیں- ابن سيرين خود تو دوسروں سے کہتے رجال بتاؤ لیکن یہ خود تدلیس کر کے رجال چھپاتے ہیں

عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی روایت

صحیح مسلم کی روایت ہے عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ قبیلہ مضر کے تھے علی کے کاتب تھے بتاتے ہیں

حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْحَرُورِيَّةَ لَمَّا خَرَجَتْ، وَهُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالُوا: لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ، قَالَ عَلِيٌّ: كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَ نَاسًا، إِنِّي لَأَعْرِفُ صِفَتَهُمْ فِي هَؤُلَاءِ، «يَقُولُونَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَجُوزُ هَذَا، مِنْهُمْ، – وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ – مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللهِ إِلَيْهِ مِنْهُمْ أَسْوَدُ، إِحْدَى يَدَيْهِ طُبْيُ شَاةٍ أَوْ حَلَمَةُ ثَدْيٍ» فَلَمَّا قَتَلَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: انْظُرُوا، فَنَظَرُوا فَلَمْ يَجِدُوا شَيْئًا، فَقَالَ: ارْجِعُوا فَوَاللهِ، مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ وَجَدُوهُ فِي خَرِبَةٍ، فَأَتَوْا بِهِ حَتَّى وَضَعُوهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ عُبَيْدُ اللهِ: وَأَنَا حَاضِرُ ذَلِكَ مِنْ أَمْرِهِمْ، وَقَوْلِ عَلِيٍّ فِيهِمْ “، زَادَ يُونُسُ فِي رِوَايَتِهِ: قَالَ بُكَيْرٌ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ عَنِ ابْنِ حُنَيْنٍ أَنَّهُ، قَالَ: رَأَيْتُ ذَلِكَ الْأَسْوَدَ

عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ روایت کرتے ہیں کہ الْحَرُورِيَّةَ نے جب خروج کیا اور وہ علی بن ابی طالب کے ساتھ تھے تو الْحَرُورِيَّةَ نے کہا  حکم نہیں صرف الله کے لئے علی نے کہا یہ کلمہ حق ہے یہ اس سے باطل چاہتے ہیں بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان لوگوں کی صفت بیان کی تھی اور میں انکو انکی صفت سے جانتا ہوں یہ اپنی زبانوں پر حق کہتے ہیں جو ان کے لئے جائز نہیں ہے پھر حلق کی طرف اشارہ کیا اور ان میں سب سے برا جو اللہ نے خلق کیا ہے وہ ، وہ کالا ہے جس کا ہاتھ ایک بکری کے پستان جیسا ہے پس جب ان کا قتل ہوا تو علی نے کہا دیکھو پر نہ پایا پھر کہا واپس جاؤ دیکھو نہ میں نے جھوٹ کہا نہ انہوں نے دو یا تین دفعہ کہا پھر اس کو پایا اور ہاتھ میں اس کو دیکھا عبد الله نے کہا میں بھی ان میں تھا

اس  روایت میں دو مختلف  اقوال مبہم انداز میں مل گئے ہیں ایک یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صفت بتائی تھی کہ وہ جو بولیں گے وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا – علی رضی الله عنہ نے اس حدیث نبوی کو الْحَرُورِيَّةَ پر منطبق کیا پھر علی نے  کہا ان میں ایک کالا ہے جس کا  ہاتھ پستان جیسا ہے پھر ڈھندوایا گیا کہ وہ مر گیا یا نہیں

اغلبا  اصحاب علی کو اشتباہ ہوا اور انہوں نے حدیث نبوی  اور قول علی کو ملا کر اس کو ایک مکمل حدیث بنوی  بنا دیا

أَبُو الْوَضِيئِ کی روایت

سنن ابو داود  ۴۷۶۹ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَضِيئِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: اطْلُبُوا الْمُخْدَجَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَاسْتَخْرَجُوهُ مِنْ تَحْتِ الْقَتْلَى فِي طِينٍ، قَالَ أَبُو الْوَضِيئِ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حَبَشِيٌّ عَلَيْهِ قُرَيْطِقٌ لَهُ إِحْدَى يَدَيْنِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ عَلَيْهَا شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ شُعَيْرَاتِ الَّتِي تَكُونُ عَلَى ذَنَبِ الْيَرْبُوعِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۳۹، ۱۴۰، ۱۴۱)

– ابو الوضی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: مخدج ( لنجے ) کو تلاش کرو ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے: لوگوں نے اسے مٹی میں پڑے ہوئے مقتولین کے نیچے سے ڈھونڈ نکالا ،گویا میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں ، وہ ایک حبشی ہے چھوٹا سا کرتا پہنے ہوئے ہے، اس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے ، جس پر ایسے چھوٹے چھوٹے بال ہیں ، جیسے جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں

عباد بن نسيب کا حال مجھول ہے ابن خلفون  نے اس کو ثقات میں شمار کیا ہے اس سے قبل کسی نے توثیق نہیں کی

أَبِي مَرْيَمَ کی روایت

سنن ابوداود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: إِنْ كَانَ ذَلِكَ الْمُخْدَجُ لَمَعَنَا يَوْمَئِذٍ فِي الْمَسْجِدِ، نُجَالِسُهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَكَانَ فَقِيرًا، وَرَأَيْتُهُ مَعَ الْمَسَاكِينِ يَشْهَدُ طَعَامَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام مَعَ النَّاسِ وَقَدْ كَسَوْتُهُ بُرْنُسًا لِي.
قَالَ أَبُو مَرْيَمَ: وَكَانَ الْمُخْدَجُ يُسَمَّى نَافِعًا ذَا الثُّدَيَّةِ، وَكَانَ فِي يَدِهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ، عَلَى رَأْسِهِ حَلَمَةٌ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ سِبَالَةِ السِّنَّوْرِ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ عِنْدَ النَّاسِ اسْمُهُ حَرْقُوسُ] ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۳۳) (ضعیف الإسناد)

أبي مريم قيس الثقفي المدائني کہتے ہیں  کہ یہ مخدج( لنجا) مسجد میں اس دن ہمارے ساتھ تھا ہم اس کے ساتھ رات دن بیٹھا کرتے تھے ، وہ فقیر تھا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ مسکینو ں کے ساتھ آکر علی رضی اللہ عنہ کے کھانے پر لوگوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور میں نے اسے اپنا ایک کپڑا دیا تھا۔  ابو مریم کہتے ہیں : لوگ مخدج ( لنجے ) کو نا فع ذوالثدیہ ( پستان والا) کا نام دیتے تھے، اس کے ہاتھ میں عورت کے پستان کی طرح گوشت ابھرا ہوا تھا، اس کے سرے پر ایک گھنڈی تھی جیسے پستان میں ہوتی ہے اس پر بلی کی مونچھوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال تھے ۔  ابو داود کہتے ہیں:لوگوں کے نزدیک اس کا نام حرقوس تھا۔

البلاذري الأنساب میں کہتے ہیں نہروان میں  حرقوص بن زهير کا قتل ہوا- لہذا  پہلا خیال یہ اتا ہے  کہ اس روایت میں حَرْقُوسُ غلط ہے کتابت کی غلطی ہے لیکن مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ نام مسلسل حَرْقُوسُ لکھا گیا ہے دیگر کتب میں بھی –  یہ کوئی فرضی کردار ہے یا حقیقی ہے یہ بھی نہیں پتا  – مسند ابی یعلی کی روایت ہے

هَذَا حُرْقُوسٌ وَأُمُّهُ هَاهُنَا، قَالَ: فَأَرْسَلَ عَلِيٌّ إِلَى أُمِّهِ فَقَالَ لَهَا: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَتْ: مَا أَدْرِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ أَرْعَى غَنَمًا لِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِالرَّبَذَةِ، فَغَشِيَنِي شَيْءٌ كَهَيْئَةِ الظُّلَّةِ فَحَمَلْتُ مِنْهُ فَوَلَدْتُ هَذَا

لوگوں نے کہا یہ حُرْقُوسٌ ہے اس کی ماں ادھر کی ہے پس علی نے اس کی ماں کے پاس بھیجا اور پوچھا یہ  حُرْقُوسٌ  کیا شی ہے ؟  بولی مجھے نہیں پتا امیر الْمُؤْمِنِينَ سوائے اس کے کہ ایام جاہلیت میں میں زبده میں بکریاں چرا رہی تھی کہ غشی آ گئی اور ایک سایہ کی طرح چیز سے میں حآملہ ہوئی اور اس کو جنا

  أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ کی روایت

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا  37899 – يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو شَيْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ، قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِيٌّ ذَا الثُّدَيَّةِ قَالَ سَعْدٌ: «لَقَدْ قَتَلَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ جَانَّ  الرَّدْهَةِ»

جب اس پستان جیسے شخص کا قتل ہوا تو سعد نے کہا علی نے الرَّدْهَةِ کے جن کا قتل کر دیا

سند میں  أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ ہے جس کا حال مجھول ہے

الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة کی روایت

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَرْبِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرَةَ الْحَنَفِيُّ، أَنَّهُ شَهِدَ يَوْمَ النَّهْرَوَانِ، قَالَ: وَكُنْتُ فِيمَنِ اسْتَخْرَجَ ذَا الثِّدْيَةِ فَبَشَّرَ بِهِ عَلِيٌّ قَبْلَ أَنْ يَنْتَهِيَ إِلَيْهِ قَالَ: فَانْتَهَى إِلَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَرَحًا

علی خوشی سے سجدہ میں گر گئے

  الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة مجهول ہے

بکر بن قرواش کی روایت

مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند احمد کی روایت ہے

يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ، يُخْبِرُ عَنْ بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ ذَا الثُّدَيَّةِ الَّذِي كَانَ مَعَ أَصْحَابِ النَّهْرِ فَقَالَ: شَيْطَانُ الرَّدْهَةِ يَحْتَدِرُهُ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ يُقَالُ لَهُ الْأَشْهَبُ أَوِ ابْنُ الْأَشْهَبِ عَلَامَةُ سُوءٍ فِي قَوْمٍ ظَلَمَةٍ , فَقَالَ عَمَّارٌ الدُّهْنِيُّ حِينَ كَذَّبَ بِهِ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ , قَالَ: وَأَرَاهُ قَالَ: مِنْ دُهْنٍ , يُقَالُ لَهُ الْأَشْهَبُ أَوِ ابْنُ الْأَشْهَبِ

بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ  نے  سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ذکر کیا پستان جیسے ہاتھ والے شخص کا جو اصحاب النہر میں سے تھا اور کہا یہ تو الرَّدْهَةِ (پہاڑ میں بسنے والا) شیطان ہے

اس روایت کا ذکر الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا الفضل بن عَبد اللَّه بْنِ سُلَيْمَانَ الأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنا لُوَيْنٌ، حَدَّثَنا سُفيان، عَن الْعَلاءِ بْنِ أَبِي الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ عَنْ سَعْدٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ شَيْطَانُ الرَّدْهَةِ يَحْتَدِرُهُ رَجُلٌ مِنْ بُجَيْلَةَ، يُقَال لَهُ: الأَشْهَبُ، أَوِ ابْنُ الأشهب راعي الخيل أو راعي الْخَيْلِ عَلامَةٌ فِي قَوْمٍ ظَلَمَةٍ.

قَالَ الشَّيْخُ: وَهَذَا الْحَدِيثُ لا يُعْرَفُ إلاَّ بِبَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ عَنْ سَعْدٍ وَبَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ ما أقل ما له من الرِّوَايَاتِ.

ابن عدی کہتے ہیں اس حدیث کو صرف بکر بن قرواش روایت کرتا ہے اور … اس کی تھوڑی سی روایات ہیں

ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذهبي (المتوفى: 748هـ) لکھتے ہیں

بكر بن قرواش: عن سعد بن مالك، لا يعرف. کو میں نہیں جانتا

میزان از الذھبی میں ہے  بكر بن قرواش. ..الحديث منكر، رواه  عنه أبو الطفيل.  قال ابن المديني: لم أسمع بذكره إلا في هذا الحديث – يعنى في ذكر ذي الثدية.

بكر بن قرواش اس کی حدیث منکر ہے جو اس سے ابو طفیل روایت کرتا ہے اور امام علی المدینی کہتے ہیں میں نے اس کے حوالے سے صرف یہی حدیث سنی ہے جس میں پستان جیسے ہاتھ کا ذکر ہے

الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کی روایت

کتاب  السنة از أبو بكر الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ)   کی روایت ہے

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَدَقَةَ، قَالَ: ثَنَا الْعَبَّاسُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: ثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، وَالضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ، كَذَا قَالَ، وَإِنَّمَا  هُوَ الضَّحَّاكُ الْمِشْرَقِيُّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، الْحَدِيثُ طَوِيلٌ فِيهِ قِصَّةُ ذِي الثُّدَيَّةِ، وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ، وَأَشْهَدُ أَنِّي كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِينَ قَتَلَهُمْ، وَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَى فَأُتِيَ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “

الْأَوْزَاعِيُّ کہتے ہیں الزُّهْرِيُّ  نے مجھ سے کہا کہ الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِم نے روایت کیا ، میں سمجھتا ہوں یہ الضَّحَّاكُ الْمِشْرَقِيّ ہے کہ ابو سعید الخدری نے روایت کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ایک طویل قصہ پستان جیسے ہاتھ والے کا … ابو سعید نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ اس کو میں نے رسول الله سے سنا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ جب ان کا قتل ہوا میں ساتھ تھا اور اس صفت تک پہنچا جو رسول الله نے بیان کی

الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کے لئے ابی حاتم کہتے ہیں  لم يدرك أبا سعيد رضي الله عنهم

جامع التحصيل في أحكام المراسيل

اس کا مطلب ہے کہ  الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ، صحابی ابو سعید سے بھی  روایت کرتا ہے

امام الْأَوْزَاعِيُّ  کی رائے میں بھی یہ  الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ نہیں ہو سکتا ان کی رائے میں یہ اغلبا الضَّحَّاكُ الْمِشْرَقِيُّ، ہے لیکن اس میں ظاہر ہے کہ یہ صرف رائے ہے امام الزہری  نے دوسرا نام لیا ہے

رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ  کی روایت

امام بخاری تاریخ الکبیر میں روایت پیش کرتے ہیں

قَالَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حدَّثنا الْحَكَمُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِيرة، عَنْ أَبي صَادِقٍ، عَن رَبِيعَةَ بنِ ناجِدٍ، عَن عَلِيٍّ: دَعانِي النَّبيُّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم، فَقال: يَا عَلِيٌّ، إِنَّ لَكَ مِن عِيسَى مَثَلاً، أَبغَضَتهُ اليَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ، وأَحَبَّتهُ النَّصارَى حَتَّى أَنزَلُوهُ بِالمَنزِلِ الَّذِي لَيسَ به.

رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، علی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور کہا اے علی تمہاری مثال تو عیسیٰ جیسی ہے جن سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ انکی ماں پر بہتان لگا دیا اور نصاری نے محبت کی اور اس منزل پر لے گیر جو ان کے لئے نہیں تھی

المعجم الأوسط   از طبرانی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا حَمْدَانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَامِرِيُّ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ قَالَ: نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْعُودِيُّ قَالَ: نا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: «لَقَدْ عَلِمَ أُولُو الْعِلْمِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وعَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ فَسَلُوهَا، أَنَّ أَصْحَابَ الْأَسْوَدِ ذِي الثُّدَيَّةِ مَلْعُونُونَ عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ، وقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى»

رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، علی سے روایت کرتا ہے یقینا ال محمد صلی الله علیہ وسلم کے اہل علم جانتے ہیں اور عائشہ سے پوچھ لو کہ اس کالے پستان جیسے ہاتھ والا کے اصحاب  ان پر زبان نبی سے لعنت کی گئی ہے اور برباد ہوا وہ جس نے جھوٹ گھڑا

ان دونوں کی سند میں رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ہے

 الذھبی  میزان میں لکھتے ہیں

ربيعة بن ناجد [ق] عن علي، لا يكاد يعرف.

رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ   ، علی سے روایت کرتا ہے میں اس کو  نہیں جانتا

یہ مجھول شخص روایت کرتا ہے اور خاص ام المومنین کا حوالہ دے رہا ہے کیونکہ اس واقعہ پر ام المومنین کو اعتراض تھا جس  کی ان عراقیوں کو خبر تھی تفصیل نیچے ا رہی ہے

عبد الله بن شداد کی روایت

اب ہم جو روایت پیش کر رہے ہیں وہ مسند احمد کی ہے اور علی رضی الله عنہ کے خاص ساتھی عبد الله بن شداد بیان کرتے ہیں

 پہلے محققین کی آراء پیش کی جاتی ہیں

احمد شاکر تعلیق میں کہتے ہیں

إسناده صحيح، عبيد الله بن عياض: تابعي ثقة. عبد الله بن شداد بن الهاد: تابعي ثقة أيضاً. “خثيم” بالتصغير وتقديم المثلثة، وفي ح “خيثم” وهو تصحيف. والحديث ذكره ابن كثير في تاريخه 7/ 279 – 280 وقال: “تفرد به أحمد، وإسناده صحيح، واختاره الضياء” يعني في المختارة. وهو في مجمع الزوائد 6/ 235 – 237 وقال: “رواه أبو يعلى ورواته ثقات”، وفي هذا خطأ يقيناً، فلا أدري أصحته “رواه أحمدل” أم “رواه أحمد وأبو يعلى”. قوله “لا تواضعوه كتاب الله” و”والله لنواضعنه كتاب الله” أصل المواضعة المراهنة، فهو يريد تحكيم كتاب الله في المجادلة، فكأنهم وضعوه حكماً بينهم. الثبت، بفتح الثاء والباء: الحجة والبينة. وانظر 626. وقد رواه الحاكم 2: 152 من طريق محمد بن كثير العبدي “حدثنا يحيى بن سليم وعبد الله بن واقد عن عبد الله بن عثمان بن خثيم عن عبد الله بن شداد بن الهاد. قال: قدمت على عائشة .. ” الخ، وصححه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي، وانظر 1378 و 1379.

اس کی اسناد صحیح ہیں

شعيب الأرنؤوط مسند احمد کی تعلیق میں کہتے ہیں

إسناده حسن، يحمى بن سُليم- وهو الطائفي- مختلف فيه يتقاصر عن رتبة الصحيح له في البخاري حديث واحد، واحتجّ به مسلم والباقون، وباقي رجاله ثقات رجال الصحيح غيرَ عبيد الله بن عياض بن عمرو، فقد روى له البخاري في “الأدب المفرد” وهو ثقة، وقال ابنُ كثير في “تاريخه” 7/292 بعد أن ذكر من رواية أحمد: تَفَرد به أحمد وإسناده صحيح، واختاره الضياء (يعني في “المختارة”) .

وأخرجه أبو يعلى (474) عن إسحاق بنِ أبي إسرائيل، عن يحيى بنِ سُليم، بهذا الإسناد. وأورده الهيثمي في “المجمع” 6/235-237 ونسبه إلى أبي يعلى، ولم ينسبه إلى أحمد مع أنَّه من شرطه! وقال: رجاله ثقات.

اس کی اسناد حسن ہیں … ابن کثیر اس روایت کو صحیح کہتے ہیں اور اسی کو الضياء نے اختیار کیا ہے

یہ روایت مسند ابو یعلی میں بھی ہے جس پر محقق حسين سليم أسد کہتے ہیں  : إسناده صحيح

اب مسند احمد کی  یہ روایت  ہے

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ شَدَّادٍ، فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، وَنَحْنُ عِنْدَهَا جُلُوسٌ، مَرْجِعَهُ مِنَ الْعِرَاقِ لَيَالِيَ قُتِلَ عَلِيٌّ، فَقَالَتْ لَهُ: يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ شَدَّادٍ، هَلْ أَنْتَ صَادِقِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ؟ تُحَدِّثُنِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ، قَالَ: وَمَا لِي لَا أَصْدُقُكِ؟ قَالَتْ: فَحَدِّثْنِي عَنْ قِصَّتِهِمْ قَالَ: فَإِنَّ عَلِيًّا لَمَّا كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ، وَحَكَّمَ الْحَكَمَيْنِ (1) ، خَرَجَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةُ آلافٍ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، فَنَزَلُوا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا: حَرُورَاءُ، مِنْ جَانِبِ الْكُوفَةِ، وَإِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا: انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِيصٍ أَلْبَسَكَهُ اللهُ تَعَالَى، وَاسْمٍ سَمَّاكَ اللهُ تَعَالَى بِهِ، ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَكَّمْتَ فِي دِينِ اللهِ، فَلا حُكْمَ إِلا لِلَّهِ تَعَالَى. فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِيًّا مَا عَتَبُوا عَلَيْهِ، وَفَارَقُوهُ عَلَيْهِ، فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ: أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ. فَلَمَّا أَنِ امْتَلاتِ الدَّارُ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِيمٍ، فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ،  فَجَعَلَ يَصُكُّهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ: أَيُّهَا الْمُصْحَفُ، حَدِّثِ النَّاسَ، فَنَادَاهُ النَّاسُ فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا تَسْأَلُ عَنْهُ إِنَّمَا هُوَ مِدَادٌ فِي وَرَقٍ، وَنَحْنُ نَتَكَلَّمُ بِمَا رُوِينَا مِنْهُ، فَمَاذَا تُرِيدُ؟ قَالَ: أَصْحَابُكُمْ هَؤُلاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا، بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ كِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، يَقُولُ اللهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحًا يُوَفِّقِ اللهُ بَيْنَهُمَا فَأُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَةً مِنَ امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَنَقَمُوا عَلَيَّ أَنْ كَاتَبْتُ مُعَاوِيَةَ: كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَقَدْ جَاءَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، حِينَ صَالَحَ قَوْمَهُ قُرَيْشًا، فَكَتَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ “. فَقَالَ: سُهَيْلٌ لَا تَكْتُبْ (1) : بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. فَقَالَ: ” كَيْفَ نَكْتُبُ (2) ؟ ” فَقَالَ: اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللهُمَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَاكْتُبْ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ” فَقَالَ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ لَمْ أُخَالِفْكَ. فَكَتَبَ: هَذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ قُرَيْشًا. يَقُولُ: اللهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ” فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْكَرَهُمْ، قَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: يَا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ، إِنَّ هَذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهُ فَأَنَا أُعَرِّفُهُ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا يَعْرِفُهُ بِهِ، هَذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ وَفِي قَوْمِهِ: قَوْمٌ خَصِمُونَ

فَرُدُّوهُ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلا تُوَاضِعُوهُ كِتَابَ اللهِ. فَقَامَ خُطَبَاؤُهُمْ فَقَالُوا: وَاللهِ لَنُوَاضِعَنَّهُ كِتَابَ اللهِ، فَإِنْ جَاءَ بِحَقٍّ نَعْرِفُهُ لَنَتَّبِعَنَّهُ، وَإِنْ جَاءَ بِبَاطِلٍ لَنُبَكِّتَنَّهُ بِبَاطِلِهِ. فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللهِ الْكِتَابَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ، فِيهِمُ ابْنُ الْكَوَّاءِ، حَتَّى أَدْخَلَهُمْ عَلَى عَلِيٍّ الْكُوفَةَ، فَبَعَثَ عَلِيٌّ، إِلَى بَقِيَّتِهِمْ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَيْتُمْ، فَقِفُوا حَيْثُ شِئْتُمْ، حَتَّى تَجْتَمِعَ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا تَسْفِكُوا دَمًا حَرَامًا، أَوْ تَقْطَعُوا سَبِيلًا، أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّةً، فَإِنَّكُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَيْكُمِ الْحَرْبَ عَلَى سَوَاءٍ، إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ. فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: يَا ابْنَ شَدَّادٍ، فَقَدْ قَتَلَهُمْ فَقَالَ: وَاللهِ مَا بَعَثَ إِلَيْهِمْ حَتَّى قَطَعُوا السَّبِيلَ، وَسَفَكُوا الدَّمَ، وَاسْتَحَلُّوا أَهْلَ الذِّمَّةِ. فَقَالَتْ: آَللَّهُ؟ قَالَ: آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كَانَ. قَالَتْ: فَمَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ يَتَحَدَّثُونَهُ؟ يَقُولُونَ: ذُو الثُّدَيِّ، وَذُو الثُّدَيِّ. قَالَ: قَدْ رَأَيْتُهُ، وَقُمْتُ مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلَى، فَدَعَا النَّاسَ فَقَالَ: أَتَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَمَا أَكْثَرَ مَنْ جَاءَ يَقُولُ: قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَرَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَلَمْ يَأْتُوا فِيهِ بِثَبَتٍ يُعْرَفُ إِلَّا ذَلِكَ. قَالَتْ: فَمَا قَوْلُ عَلِيٍّ حِينَ قَامَ عَلَيْهِ كَمَا يَزْعُمُ أَهْلُ الْعِرَاقِ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ قَالَتْ: هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ؟ قَالَ: اللهُمَّ لَا. قَالَتْ: أَجَلْ، صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، يَرْحَمُ اللهُ عَلِيًّا إِنَّهُ كَانَ مِنْ كَلَامِهِ لَا يَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ إِلَّا قَالَ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، فَيَذْهَبُ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَيَزِيدُونَ عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثِ

عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو کہتے ہیں عبد الله بن شداد عائشہ رضی الله عنہا کے پاس آئے اور ہم ان کے پاس بیٹھے تھے وہ عراق سے لوٹے تھے جس رات علی کا قتل ہوا پس عائشہ رضی الله عنہا نے عبد الله بن شداد سے کہا کیا تم سچ سچ بتاؤ گے جو میں تم سے پوچھوں؟ مجھے ان کے بارے میں بتاؤ جنہوں نے علی کو قتل کیا عبد الله نے کہا اور میں سچ کیوں نہ بولوں –  ام المومنین نے کہا ان کا قصہ بیان کرو عبد الله نے کہا جب علی نے معاویہ کے لئے  (صلح نامہ) لکھ دیا اور حکم الحکمیں ہوا تو علی کی اطاعت سے ٨٠ ہزار قاری نکل پڑے اور ایک مقام جس کو حَرُورَاءُ کہا جاتا ہے کوفہ کی جانب اس میں انہوں نے پڑاؤ کیا

اور انہوں نے علی پر عتاب نکالا اور کہا  اس کی قمیص میں سے خلافت جو الله نے دی نکل گئی اور وہ نام جو الله نے اسکو دیا  پھر یہ (علی) چلا اور دین الله میں خود حکم  دینے لگا اور جبکہ حکم نہیں سوائے الله کے لئے-  پس جب یہ باتیں جن پر ان کا عتاب ہوا علی تک پہنچیں اور وہ الگ ہوئے تو علی نے حکم دیا ان کو  واپس انے کا لیکن وہ نہیں پلٹے –  اور کہا ہم امیر المومنین کی طرف داخل نہیں ہوں گے سوائے ایک شخص قرآن اٹھائے ہو … پس مصحف آگے رکھا گیا  پس علی نے اس کو اپنے ہاتھوں میں تھاما اور کہا اے مصحف! لوگوں کو بتاؤ پس لوگوں کو پکارا گیا اوراصحاب علی نے کہا اے امیر المومنین اپ مصحف سے کیسے کلام کر رہے ہیں؟ یہ تو کاغذ پر سیاہی ہے اور ہم اپ سے بات کر رہے جو اس میں روایت ہے پس اپ کیا چاہتے ہیں؟  علی نے کہا تمہارے یہ اصحاب جنہوں نے خروج کیا ہے ان کے اور میرے بیچ کتاب الله ہے – الله اس کتاب میں کہتا ہے ایک مرد و عورت کے لئے

 وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحًا يُوَفِّقِ اللهُ بَيْنَهُمَا

پس اے امت محمد خون و حرمت ہے مرد اور عورت کے لئے اور تم مجھے الزام دیتے ہو کہ میں نے معاویہ سے (صلح نامہ) لکھ لیا –  علی بن ابی طالب نے کہا  اور ہمارے پاس سہیل (مشرکین مکہ کی طرف سے) آیا اور ہم رسول الله کے ساتھ حدیبیہ میں تھے … پس رسول الله نے لکھا بسم الله الرحمان الرحیم اس پر سہیل نے کہا یہ مت لکھو پوچھا پھر کیا لکھیں بولا لکھو باسم اللھم پس رسول الله نے کہا  لکھو محمد رسول الله انہوں نے کہا اگر ہم تم کو رسول الله جانتے تو مخالفت نہ کرتے پس لکھا یہ وہ صلح ہے جو محمد بن عبد الله قریشی نے کی-   الله تعالی نے کتاب میں کہا

 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ

پس علی نے ان لوگوں پر عبد الله ابن عباس کو بھیجا- اور جو ان کو جانتا نہ ہو،  تو میں ان کو جانتا ہوں کتاب الله سے جو یہ نہیں جانتے یہ اس میں نازل ہوا ہے یہ قوم ہے ایک جھگڑالو قوم ہے – پس علی نے اپنے اصحاب کو خوارج  پر بھیجا (انہوں نے کہا) کیا  تم کتاب الله کو پیش نہیں رکھتے؟  خوارج  نے کہا ہم رکھتے ہیں پس اگر حق ہو تو ہم اس کو پہچان لیں گے اور اگر باطل ہوا تو اس کو بھی –  پس عبد الله بن عباس  نے کتاب الله  تین دن تک آگے رکھی پھر وہ ٤ ہزار کے ساتھ واپس لوٹے جو تائب ہوئے  ان میں ابْنُ الْكَوَّاءِ تھا حتی کہ یہ علی کے پاس کوفہ میں داخل ہوئے

پس علی نے باقی پر  لوگ بھیجے اور ان سے کہا کہ ہمارا تمہارا معاملہ امت محمد کے سامنے ہے لہذا جو چاہے کرو لیکن خون نہ بہانا نہ راستہ روکنا نہ ذمی پر ظلم کرنا اور اگر یہ کیا تو ہماری تم سے جنگ شروع ہو جائے گی  الله خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

پس عائشہ رضی الله عنہا نے کہا

اے ابن شداد تو کیا انہوں نے قتل کیا؟ کہا و الله انہوں نے نہیں بھیجا کسی کو سوائے اس کے کہ  خوارج نے رستہ روکا اور خون گرایا اور اہل ذمہ کو نقصان دیا پس ام المومنین نے فرمایا الله !  آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ یہ ہوا

اور وہ کیا چیز ہے جو اہل عراق کی مجھ تک پہنچی جس کی یہ روایت کر رہے ہیں؟

کہتے ہیں  پستان والا تھا

ابن شداد نے کہا میں نے اسکو دیکھا اور علی کے ساتھ اس کے قتل گاہ پر بھی کھڑا ہوا اور لوگوں کو پکارا اور پوچھا تم اس کو پہچانتے ہو؟ تو  اکثر نے کہا ہاں ہم نے اسکو مسجد فلاں  میں دیکھا تھا نماز پڑھتے ہوئے اور اس مسجد بنی فلاں میں نماز پڑھتے ہوئے  اور کوئی نہیں تھا  جو اثبات سے اس کو جانتا ہو سوائے اس  کے

ام المومنین نے فرمایا اور علی نے کیا کہا جب وہ اس پر کھڑے ہوئے جیسا کہ اہل عراق دعوی کر رہے ہیں؟ ابن شداد نے کہا میں نے سنا کہتے ہیں سچ کہا  الله اور  رسول الله نے –

ام المومنین نے فرمایا

کیا تم نے ان سے سنا کہ انہوں نے اس کے علاوہ کہا

ابن شداد نے کہا اللھم نہیں

ام المومنین نے فرمایا ٹھیک ہے سچ کہا الله اور اس کے رسول نے -الله رحم کرے علی پر – بے شک ان کے کلام میں کوئی چیز ایسی نہیں جو حیران کرے سوائے اس کے کہا سچ کہا الله اور اس کے رسول نے-  پس اہل عراق چلے ان پر جھوٹ بولنے اور ان کی بات میں اضافہ کرنے

یعنی اس پستان والے خارجی کو کوئی جانتا تک نہیں تھا سوائے اس کے کہ یہ مسجد میں نماز پڑھتا تھا اور نہ علی نے اس موقعہ پر اس کو کوئی نشانی قرار دیا  نہ اس میں ہے کہ علی نے کوئی سجدہ کیا اور کوئی حدیث سنائی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پستان والے کی خبر دی نہ اس کو سب سے برا خارجی قرار دیا  – ایک نامعلوم لاش ملی اس کی بابت سوال کیا کہ کون ہے  اور لوگ بھی اس سے لا علم تھے کون ہے

سنن الکبری البیہقی میں اس روایت پر امام بیہقی کہتے ہیں

حَدِيثُ الثُّدَيَّةِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ , قَدْ ذَكَرْنَاهُ فِيمَا مَضَى , وَيَجُوزُ أَنْ لَا يَسْمَعَهُ ابْنُ شَدَّادٍ , وَسَمِعَهُ غَيْرُهُ , وَاللهُ أَعْلَمُ

پستان والی حدیث صحیح ہے اس کا ہم نے ذکر کیا جو گزرا ہے اور یہ جائز ہے کہ ابن شداد نے اس کو نہ سنا ہو اوروں نے سنا ہو و الله اعلم

راقم کہتا ہے امام بیہقی کی تاویل باطل ہے ابن شداد کوئی نابالغ بچہ نہیں علی کے اصحاب میں سے ہے اور وہ وہ بیان کر رہے ہیں جو ان کو پتا ہے کہ لوگوں نے علی کی بات میں اضافہ کیا

قول نبوی کے مطابق یہ آخری دور میں ہو گا

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَإِنَّ الحَرْبَ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، حُدَثَاءُ [ص:201] الأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ البَرِيَّةِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ»

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن کوفی نے، ان سے سوید بن غفلہ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایک قوم پیدا ہو گی نوجوانوں  اور کم عقلوں کی۔ یہ لوگ ایسا بہترین کلام پڑھیں گے جو بہترین خلق کا (پیغمبر کا) ہے یا ایسا کلام پڑھیں گے جو سارے خلق کے کلاموں سے افضل ہے۔ (یعنی حدیث یا آیت پڑھیں گے اس سے سند لائیں گے) لیکن اسلام سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کر کے نکل جاتا ہے ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو۔ کیونکہ ان کا قتل قیامت میں اس شخص کے لیے باعث اجر ہو گا جو انہیں قتل کر دے گا

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، قِتَالُهُمْ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ “

صحیح مسلم میں ہے

حديث:2455حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ جَمِيعًا عَنْ وَکِيعٍ قَالَ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ إِذَا حَدَّثْتُکُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنْ السَّمَائِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ وَإِذَا حَدَّثْتُکُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَکُمْ فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَائُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ :  محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبداللہ بن سعید اشج، وکیع، اعمش، خیثمہ، حضرت سو ید بن غفلہ  سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا اگر میں تم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث بیان کروں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمائی تو مجھے آسمان سے گر پڑنا زیادہ محبوب ہے اس سے کہ میں وہ بات کہوں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں بیان فرمائی اور جب وہ بات بیان کروں جو میرے اور تمہارے درمیان ہے تو جان لو کہ جنگ دھوکہ بازی کا نام ہے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے عنقریب اخیر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی نوعمر اور ان کے عقل والے بیوقوف ہونگے بات تو سب مخلوق سے اچھی کریں گے قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نہ اترے گا دین سے وہ اسطرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے جب تم ان سے ملو تو ان کو قتل کردینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والے کو اللہ کے ہاں قیامت کے دن ثواب ہوگا۔

التنقيح کے مطابق دارقطنی کہتے ہیں

ليس لسويد بن غفلةَ عن علي صحيحٌ مرفوعٌ إلى النبي – صلى الله عليه وسلم – غيرُ هذا

سوید کی علی سے روایت کردہ کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں سوائے اس روایت کے

التوشيح شرح الجامع الصحيح از امام  السيوطي کے مطابق

قال حمزة الكتاني: ليس يصح له عن عليّ غير هذا الحديث

حمزة الكتاني کہتے ہیں اس کی علی سے کوئی صحیح حدیث نہیں سوائے اس کے

راقم کہتا ہے یہ روایت قرن اول کے لئے نہیں ہے   – اس روایت میں اس واقعہ کا ہونا  آخری زمانہ یا قرب قیامت  میں بتایا گیا ہے  سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ کی سند سے اسی طرح  مسند ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

نا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ النَّاسِ، يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَمَنْ لَقِيَهُمْ فَلْيَقْتُلْهُمْ، فَإِنَّ لِمَنْ قَتَلَهُمْ أَجْرًا عِنْدَ اللَّهِ»

یہاں یہ عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے جس میں زر بن حبیش اس کو روایت کرتے ہیں اور یہ وقوعہ آخری دور کا ہے

سند میں أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ اور عاصم بن ابی النجود دو مختلط ہیں

باوجود تلاش کے کوئی شارح نہیں ملا جو يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ  آخری زمانے کے الفاظ کو قرن اول سے ملانے پر کوئی بحث کرے سب اس سے کترا گئے

یہ روایت علی رضی الله عنہ کی ہی روایت کردہ ہے

قول نبوی : ان کو پاتا تو قتل کرتا

صحیح بخاری میں روایت ہے جس میں ایک شخص عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذِي الخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ اتا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تقسیم مال پر جرح کرتا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی نسل میں سے ایک قوم نکلے گی  جو دین سے ایسا نکلے گی جیسے تیر کمان سے  –

ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا: یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا۔ اس پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے سامنے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر جانور میں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تیر کے پر کو دیکھا جائے لیکن اس پر کوئی نشان نہیں

راوی کہتا ہے وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ میں گمان کرتا ہوں انہوں نے کہا میں ان کو پاتا تو ثمود کی طرح قتل کرتا  بعض اوقات راویوں نے قوم عاد کے الفاظ استمعال کیے ہیں

یہ الفاظ بہت شدید ہیں – لیکن اس روایت پر عبد الله بن زبیر اور ابن عباس رضی الله عنہم عمل نہیں کرتے وہ خوارج کو حج کرنے دیتے ہیں ان کے سوالات کے جواب دیتے ہیں یہاں تک کہ امام بخاری جو اس روایت کو نقل کر رہے ہیں وہ خوارج سے روایت لیتے ہیں صحیح میں لکھتے ہیں

ظاہر ہے  عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی کی نسل تو علی رضی الله عنہ کے دور میں  قوم بنی بھی نہیں ہو گی- اس سے بھی ظاہر ہے کہ یہ قرن اول میں نہیں ہو گا

سمت و جہت  کی اہمیت

صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ، يُحَدِّثُ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ المَشْرِقِ، وَيَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لاَ يَعُودُونَ فِيهِ حَتَّى يَعُودَ السَّهْمُ إِلَى فُوقِهِ»، قِيلَ مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: ” سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ – أَوْ قَالَ: التَّسْبِيدُ –

مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ ، أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سے روایت کرتے ہیں کہ مشرق سے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا اور دین سے ایسا نکلیں ہے جیسے تیر کمان سے پھر واپس اس دین میں نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر سر کے اوپر سے گزرے پوچھا ان کی کیا نشانی ہے فرمایا : سر کا حلق کرانا

اس روایت  کے مطابق یہ گروہ مدینہ کے  مشرق سے نکلے گا نہ کہ عراق سے جو شمال میں ہے دوم وہ دین سے نکلیں گے یہاں تک کہ جب جنگ ہو گی تو واپس اسلام میں آئیں گے سوم سر مونڈھ دیں گے

اس میں سے کوئی بھی نشانی حروریہ پر فٹ نہیں بیٹھتی- شروع کے   خوارج یمنی قحطانی  اور مصری تھے جو مغرب اور جنوب ہے وہاں سے مدینہ کے شمال میں عراق میں گئے

خوارج کی اکثریت علی کی شہادت کے بعد قبیلہ ازد کی  ہوئی جو مدینہ کے مشرق میں ہے اور عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذِي الخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ جو قبیلہ بنو تمیم کا  تھا ، مدینہ کے مشرق کا تھا اس پر اس روایت کو منطبق کیا جا سکتا ہے  لیکن دور علی میں خوارج یمنی اور مصری تھے- قاتل علی ،  ابن ملجم  المرادی خود ایک قحطانی تھا جو مصر منتقل ہوا اور وہاں سے کوفہ

اس روایت میں اضافہ ہے کہ خوارج واپس رجوع کر لیں گے جب تیر سروں پر سے گزرے گا

جو فرقہ  عبادت میں سختی کرتا ہو اور ایک سخت موقف اپنا لے اس کو جنگ کر کے واپس قائل کرنا ناممکن ہے یہ دلائل سے ہی کیا جا سکتا ہے جیسا علی رضی الله عنہ نے کیا کہ انہوں نے عباس رضی الله عنہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ قرآن سے ہی دلائل دے کر ان کو سمجھائیں

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، فَسَأَلاَهُ عَنْ الحَرُورِيَّةِ: أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لاَ أَدْرِي مَا الحَرُورِيَّةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الأُمَّةِ – وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا – قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَكُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ، يَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ، – أَوْ حَنَاجِرَهُمْ – يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَيَنْظُرُ [ص:17] الرَّامِي إِلَى سَهْمِهِ، إِلَى نَصْلِهِ، إِلَى رِصَافِهِ، فَيَتَمَارَى فِي الفُوقَةِ، هَلْ عَلِقَ بِهَا مِنَ الدَّمِ شَيْءٌ

ابی سلمہ اور عطا بن یسار کہتے ہیں وہ ابی سعید الخدری کے پاس پہنچے اور ان سے حروریہ پر سوال کیا کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے حروریہ کے متعلق کچھ سنا تھا ؟  ابو سعید رضی الله عنہ نے کہا  ان کو نہیں پتا کہ  حروریہ  کیا ہے- میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ اس امت میں اور انہوں نے نہیں کہا اس میں سے ایک قوم نکلے گی جو اپنی نماز کو تمہاری نماز سے حقیر سمجھیں گے قرآن پڑھیں گے جو حلق سے نیچے نہیں جائے گا ۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جانور میں سے پار نکل جاتا ہے اور پھر تیر پھینکنے والا اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے بعد جڑ میں (جو کمان سے لگی رہتی ہے) اس کو شک ہوتا ہے شاید اس میں خون لگا ہو مگر وہ بھی صاف

ابو سعید الخدری رضی الله عنہ نے حروریہ پر براہ راست اس روایت کو ثبت نہیں کیا بلکہ کہا اس امت میں ایک قوم نکلے گی –  اوپر دی گئی دونوں روایات ایک ہی صحابی سے ہیں ایک میں وہ حروریہ سے لا علم ہیں دوسری میں وہ کہتے ہیں قتال پر یہ گروہ واپس آ جائے گا یہ قابل غور ہے حروریہ مشرق میں نہیں شمال میں سے نکلے اور شاید اسی وجہ سے ابو سعید رضی الله عنہ نے جو سنا تھا اس کے مطابق کہا

یہ عربی النسل ہوں گے

صحيح البخاري كي روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الحَضْرَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الخَوْلاَنِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ يَقُولُ: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ» قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ» قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ: «هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا» قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ «فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى [ص:200] ذَلِكَ

حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ تو اکثر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر ونیکی اور بھلائی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر و برائی کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں میں کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤ   حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ اسلام سے قبل جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے پھر الله نے اس خیر کو بھیجا پس کیا اس خیر کے بعد شر ہے ؟ رسول الله نے فرمایا ہاں -میں نے پوچھا اور کیا شر کے بعد پھر خیر ہو گا؟ فرمایا ہاں لیکن اس میں دخن ہو گا میں نے پوچھا دخن ؟ فرمایا قوم ہو گی جو بغیر ہدایت ، ہدایت کی بات کریں گے تم ان کو جانو پہچانو گے میں نے کہا اس کے بعد کیا شرہو گا ؟  فرمایا ہاں داعی ہوں گے جو  جہنم کے دروازوں پر کھڑے لوگوں کو پکاریں گے جو ان کو جواب دے اس کو اس میں جھونک دیں گے میں نے کہا ان کی نشانی بیان کر دیں – آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ ہماری کھال جیسے اور ہماری زبان بولتے ہوں گے – میں نے پوچھا ان کو پاؤ تو کیا اس پر میں کیا کروں ؟ فرمایا مسلمانوں کی جماعت کو لازم کرو اور ان کے امام کو میں نے پوچھا اگر نہ جماعت ہو نہ امام اپ نے فرمایا تو درخت کی جڑ چبا لو یہاں تک کہ موت ا جائے اور تم اسی پر رہو

الغرض ان روایات کو یہاں جمع کیا گیا ہے تاکہ ان کا تجزیہ کیا جا سکے- مختلف کتابوں میں الگ الگ سندووں سے  اس  واقعہ  کوپڑھنے سے قاری پر اس کا تضاد ظاہر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان  میں جو مافوق الفطرت بات کہی گئی ہے کہ علی نے ایک جن کا قتل کرا دیا اس کو بیان کیا جاتا ہے-  روایت صحیح متن سے منقول نہیں ہوئی اور اس میں راویوں کا اختلاف ہے خود اصحاب علی سے ہی نقل ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ  علی رضی الله عنہ کا قول سمجھنے میں لوگوں کو غلطی ہوئی اور بات کچھ سے کچھ ہوتی چلی گئی- بعض روایات میں ہے علی مقتل گاہ تک گئے بعض میں ہے اپنے مقام پر ہی رہے لوگوں سے کھوج کرواتے رہے

یہ روایات اہل سنت کی کتب  میں ہیں حیرت ہے اہل تشیع کی معتمد علیہ کتاب الکافی از کلینی میں اس قسم کی ایک بھی روایت نہیں ہے جبکہ یہ روایات علی رضی الله عنہ   کے فضائل میں سے ہے

حروریہ سے علی کی جنگ ان کی خلافت سے خروج کی وجہ سے ہوئی کیونکہ وہ بیعت دے  کر  علی کو چھوڑ چکے تھے اور اولوالامر کی اطاعت کے منکر ہو گئے تھے – معاویہ یا عمرو بن العاص رضی الله عنہم نے علی رضی الله عنہ کی بیعت ہی نہیں کی لہذا ان پر خارجی کا حکم نہیں لگایا گیا- معاویہ رضی الله عنہ نے علی رضی الله عنہ  کو خلیفہ تسلیم نہیں کیا یہاں تک کہ حسن  رضی الله عنہ نے الٹا   خلافت چھوڑ کر معاویہ رضی الله عنہ کو مسند خلافت دے دی

حروریہ علی رضی الله عنہ کے اجتھاد کے خلاف تھے کہ معاویہ رضی الله عنہ سے صلح ہو وہ کسی بھی طرح یہ قبول نہیں کر پائے  اور علی رضی الله عنہ سے ہی  حجت کرنے لگے ان سے قتال کا علی نے کوئی حکم نہیں دیا جب تک انہوں نے خود فساد فی الارض کا مظاہرہ نہیں کیا نہ فورا ان کو عاد و ثمود کہا بلکہ ابن عبّاس رضی الله عنہ کو بھیجا کہ ان کو سمجھائیں – لہذا علی کا ان خوارج سے قتال بطور حاکم  حد شرعی کا نفاذ تھا نہ کہ کسی حدیث رسول کی روشنی میں ان کا قتل عام

اصحاب علی میں سے مفرط لوگوں نے علی کی  ابن ملجم کے ہاتھوں شہادت کے بعد علی کا حروریہ سے متعلق موقف  اتنا مسخ کر دیا کہ ان کا تاریخی و شرعی پہلو ہی غیر واضح ہو کر رہ گیا

انے والے دور میں اصحاب رسول نے حروریہ کو خوارج کا نام دیا اور خوارج نے بہت سے متواتر مسائل کا انکار کیا یہاں تک کہ ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کسی پر جرح کرتیں تو کہتیں کیا تو حروریہ ہے


نتائج

ان روایات میں تطبیق اس طرح ممکن ہے ایسے گمراہ گروہ نکلیں  گے

جو بنو تمیم سے عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی کی نسل سے  ہوں گے

مدینہ کے مشرق میں ہوں گے

عرب نسل اور زبان والے ہوں گے

حذیفہ اور ابو سعید الخدری رضی الله عنہم کے مطابق یہ لوگ  قرن اول میں نہیں ہیں   اسی طرح علی رضی الله عنہ بھی ان کو آخری زمانے میں بتاتے ہیں 

احادیث میں ان گمراہ گروہوں کو خاص حروریہ یا خوارج نہیں کہا گیا بلکہ خوارج ،  اہل سنت اور اہل تشیع کے گمراہ فرقے بھی ان میں سے ہو سکتے  ہیں جو قرآن پڑھ رہے ہیں لیکن حلق سے نیچے نہیں جا رہا

 روایت کی سب سے اہم بات نہ تو اس کی جرح تعدیل ہوتی ہے نہ راوی کی بحث بلکہ اس کا متن سب سے اہم ہوتا ہے کہ آخر ایسا کہا ہی کیوں گیا – راوی پر جرح کر کے اس کو رد کرنا آسان ہے لیکن اس کے متن میں چھپی بات تک پہنچنا اسی وقت ممکن ہے جب تمام  روایات کو دیکھا اور ان کی جانچ کی جائے –-  تاریخ کے حوالے سے علم  الحدیث میں متن کی صنف میں اتنا کام نہیں ہوا جتنا درکار ہے

23 thoughts on “خوارج سے متعلق روایات

  1. وجاہت

    ‌صحيح البخاري: كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ (بَابُ مَنْ تَرَكَ قِتَالَ الخَوَارِجِ لِلتَّأَلُّفِ، وَأَنْ لاَ يَنْفِرَ النَّاسُ عَنْهُ) صحیح بخاری: کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان (باب: دل ملانے کے لیے کسی مصلحت سے کہ لوگوں کو نفرت نہ پیدا ہوخارجیوں کو نہ قتل کرنا)

    6933 . حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيمِيُّ فَقَالَ اعْدِلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ يُنْظَرُ فِي قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَصْلِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ ثُمَّ يُنْظَرُ فِي رِصَافِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَضِيِّهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آيَتُهُمْ رَجُلٌ إِحْدَى يَدَيْهِ أَوْ قَالَ ثَدْيَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ قَالَ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ يَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنْ النَّاسِ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ أَشْهَدُ سَمِعْتُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيًّا قَتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ جِيءَ بِالرَّجُلِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَنَزَلَتْ فِيهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ

    ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبردی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرمارہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاافسوس اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اورکون کرے گا۔ اس پر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن ماردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے سامنے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھوگے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہوجائیں گے جس طرح تیر جانور میں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تیر کے پر کو دیکھا جائے لیکن اس پر کوئی نشان نہیں پھر اس پیکان کو دیکھا جائے اور وہاں بھی کوئی نشان نہیں پھر اس کے باڑ کو دیکھا جائے اور یہاں بھی کوئی نشان نہیں پھر اس کے لڑکی کو دیکھا جائے اور وہاں بھی کوئی نشان نہیں کیوں کہ وہ ( جانور کے جسم سے تیر چلایاگیاتھا) لید گوبر اور خون سب سے آگے( بے داغ) نکل گیا( اسی طرح وہ لوگ اسلام سے صاف نکل جائیں گے) ان کی نشانی ایک مرد ہوگا جس کا ایک ہاتھ عورت کی چھاتی کی طرح یا یوں فرمایا کہ گوشت کے تھل تھل کرتے لوتھڑے کی طرح ہوگا۔ یہ لوگ مسلمانوں میں پھوٹ کے زمانہ میں پیدا ہوں گے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہروان میں ان سے جنگ کی تھی اور میں اس جنگ میں ان کے ساتھ تھا اور ان کے پاس ان لوگوں کے ایک شخص کو قیدی بناکر لایا گیا تو اس میں وہی تمام چیزیں تھیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ” ان میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کے صدقات کی تقسیم میں عیب پکڑتے ہیں“ ۔

    جنگ نہروان کہاں کب اور کن کے درمیان ہوئی

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس قسم کی روایات میں ایک کھچڑی ہے جس میں ادھر ادھر سب ملا دیا گیا نہ وقت کی تہذیب ہے نہ زمانے کی تقسیم ہے
      اس لئے ایک ایک کر کے اس کو دیکھیں

      اول : عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی ہے بنو تمیم کا ہے جو آج کل سعودی عرب میں نجد کا علاقہ ہے یہ مدینہ کا مشرق ہے اس کی نسل سے لوگ نکلیں ہے جو دین میں متشدد ہوں گے نبی صلی الله علیہ وسلم اور علی رضی الله عنہ کی زندگی میں ایسا ممکن نہیں کہ ان کی نسل بن گئی ہو
      ذی الخویصرہ تمیمی کا راز یہ ہے کہ یہ اصحاب علی میں سے ہیں صحابی ہے اور اس نے جمل میں علی کی جانب سے قتال کیا ہے – اس کے مخالف (معاویہ اور عمرو بن العاص) اس کا شمار ان میں کرتے ہیں جو دین سے نکل جائیں گے یھاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ ذی الخویصرہ تمیمی خوارج سے مل گیا تھا
      اب یہ ایک تضاد ہے ایک شخص کافر ہو اور خوارج کو کافر، علی بھی نہیں مانتے نہ اہل سنت خوارج کو کافر قرار دیتے ہیں – أسد الغابة في معرفة الصحابة میں ذو الخويصرة التميمي کا شمار ابن اثیر نے اصحاب رسول میں کیا ہے

      دوم خوارج سے علی نے نہروان میں جنگ کی کیونکہ انہوں نے بلوائی والی حرکت کی لوگوں کو لوٹا آور فساد و قتل کیا پہلے ان کو سمجھانے کے لئے ابن عباس رضی الله عنہ کو بھیجا لیکن خوراج نہیں مانے اور اپنے غصے میں انہوں نے یہ مزید فسادی حرکتیں کیں – خوارج کو اہل قبلہ سمجھا جاتا ہے واجب القتل نہیں سمجھا جاتا

      سوم یہ بات کہ اس جنگ میں ایک ایسا شخص تھا جس کا ہاتھ پستان جیسا تھا اس پر مضطرب روایات ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اس پر بلاگ لکھا ہے
      https://www.islamic-belief.net/خوارج-سے-متعلق-روایات/
      اب یھاں یہ واپس بخاری نے زندہ کر دیا ہے اس کو قیدی بنا دیا ہے باقی محدثین اس کو لاش کہتے ہیں اور پھر کوئی کہتا ہے یہ لا وارث لاش تھی کوئی کہتا ہے یہ مسجد میں دیکھا گیا کوئی کہتا ہے جن تھا کوئی کہتا ہے شیطان تھا وغیرہ وغیرہ

      چہارم : یہ واقعہ کہ لوگ دین سے نکل جائیں گے قرب قیامت کا ہے نہ کہ دور علی کا

      صحیح بخاری کی حدیث ہے

      حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَإِنَّ الحَرْبَ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، حُدَثَاءُ [ص:201] الأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ البَرِيَّةِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ»

      ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن کوفی نے، ان سے سوید بن غفلہ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایک قوم پیدا ہو گی نوجوانوں اور کم عقلوں کی۔ یہ لوگ ایسا بہترین کلام پڑھیں گے جو بہترین خلق کا (پیغمبر کا) ہے یا ایسا کلام پڑھیں گے جو سارے خلق کے کلاموں سے افضل ہے۔ (یعنی حدیث یا آیت پڑھیں گے اس سے سند لائیں گے) لیکن اسلام سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کر کے نکل جاتا ہے ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو۔ کیونکہ ان کا قتل قیامت میں اس شخص کے لیے باعث اجر ہو گا جو انہیں قتل کر دے گا

      پنجم : ابو سعید رضی الله عنہ کی ہی ایک دوسری روایت جو صحیح بخاری میں ہے اس میں راوی کہتا ہے
      راوی کہتا ہے وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ میں گمان کرتا ہوں انہوں نے کہا میں ان کو پاتا تو ثمود کی طرح
      قتل کرتا بعض اوقات راویوں نے قوم عاد کے الفاظ استمعال کیے ہیں – یہ الفاظ بہت شدید ہیں – لیکن اس روایت پر عبد الله بن زبیر اور ابن عباس رضی الله عنہم عمل نہیں کرتے وہ خوارج کو حج کرنے دیتے ہیں ان کے سوالات کے جواب دیتے ہیں یہاں تک کہ امام بخاری جو اس روایت کو نقل کر رہے ہیں وہ خوارج سے روایت لیتے ہیں صحیح میں لکھتے ہیں

      ——–

      الغرض ان روایات میں اضطراب ہے ان کو تفصیلا دیکھا جائے اس پر آسانی کے لئے بلاگ موجود ہے

      Reply
  2. وجاہت

    نوٹ

    إبن حجر نے اپنی کتاب المطالب العالية کتاب تفسير میں یہ روایت صحيح سند سے درج کی ہے.
    وقال : مسدد : ، ثنا : يحيى ، عن الأعمش ، عن زيد بن وهب قال : سمعت حذيفة ، يقول : مات رجل من المنافقين فلم أصل عليه ، فقال عمر : ما منعك أن تصلي عليه ؟ ، قلت : إنه منهم ، فقال : أبالله منهم أنا ؟ ، قلت : لا ، قال : فبكى عمر ، إسناده صحيح ، وقد إستنكره يعقوب بن سفيان من حديث زيد بن وهب

    علامہ شمس الدین ذہبی نے میزان الاعتدال، جلد 3، صفحہ 158، رقم 3034، دار الکتب العلمیہ بیروت میں زید ابن وھب کے ترجمہ میں فسوی کی جرح کو پڑی شدو مد سے رد کرا ہے
    اس کے ساتھ ساتھ زید ابن وھب کی توثیق نقل کری اور یہ حدیث بھی نقل کری جس میں جناب عمر کا اقرار کا ذکر ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      راقم الذھبی اس کی توثیق سے اتفاق نہیں کرتا الفسوی کا قول صحیح ہے

      زيد بن وهب ایک بد مذھب شخص تھا – امام يعقوب الفسوي کے مطابق فی حديثه خلل كثير اسکی روایات میں خلل ہوتا ہے اور

      یہ کہا کرتا إن خرج الدجال تبعه من كان يحب عثمان. اگر دجال نکلے تو اس کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے جو عثمان (رضی الله عنہ) سے محبت کرتے ہوں – الذہبی، ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين میں بتاتے ہیں کہ اسکی ایک حدیث عمر (رضی الله عنہ) کے حوالے سے کہ انہوں نے حذیفہ (رضی الله عنہ) سے کہا بالله أنا منافق الله کی قسم میں منافق ہوں- ان روایات کو امام يعقوب الفسوي رد کرتے اور اس کی روایات کا خلل کہتے – علی رضی الله عنہ پر بھی موصوف نے ہاتھ صاف کیا اور اس کو مسلم نے صحیح میں روایت 2071 بیان کر دیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی (رضی الله عنہ) کو ایک چادر دی اور وہ علی رضی الله عنہ نے اوڑھ لی اور رسول الله کے پاس گئے جس پر اپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر غضب آیا اور فرمایا کہ فَشَقَقْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي اپنی عورتوں میں اس کو بانٹ دو- یعنی چادر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ رضی الله عنہا یا علی کی لونڈیوں کے لئے دی تھی لیکن علی اس قدر معصوم تھے یہ سب سمجھ نہ سکے اور ایسی زنانہ چادر اوڑھ بھی لی- حیرت ہے کہ امام مسلم نے اس کو صحیح میں روایت بھی کر دیا

      Reply
  3. وجاہت

    مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 621
    حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویات
    حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَنَحْنُ عِنْدَهَا جُلُوسٌ مَرْجِعَهُ مِنْ الْعِرَاقِ لَيَالِيَ قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَتْ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ هَلْ أَنْتَ صَادِقِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ تُحَدِّثُنِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَمَا لِي لَا أَصْدُقُكِ قَالَتْ فَحَدِّثْنِي عَنْ قِصَّتِهِمْ قَالَ فَإِنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ وَحَكَمَ الْحَكَمَانِ خَرَجَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةُ آلَافٍ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ فَنَزَلُوا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا حَرُورَاءُ مِنْ جَانِبِ الْكُوفَةِ وَإِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِيصٍ أَلْبَسَكَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَاسْمٍ سَمَّاكَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَكَّمْتَ فِي دِينِ اللَّهِ فَلَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ تَعَالَى فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا عَتَبُوا عَلَيْهِ وَفَارَقُوهُ عَلَيْهِ فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَّا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا أَنْ امْتَلَأَتْ الدَّارُ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِيمٍ فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَصُكُّهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ أَيُّهَا الْمُصْحَفُ حَدِّثْ النَّاسَ فَنَادَاهُ النَّاسُ فَقَالُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا تَسْأَلُ عَنْهُ إِنَّمَا هُوَ مِدَادٌ فِي وَرَقٍ وَنَحْنُ نَتَكَلَّمُ بِمَا رُوِينَا مِنْهُ فَمَاذَا تُرِيدُ قَالَ أَصْحَابُكُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ كِتَابُ اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقْ اللَّهُ بَيْنَهُمَا فَأُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَةً مِنْ امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَنَقَمُوا عَلَيَّ أَنْ كَاتَبْتُ مُعَاوِيَةَ كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ جَاءَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ حِينَ صَالَحَ قَوْمَهُ قُرَيْشًا فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ سُهَيْلٌ لَا تَكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ كَيْفَ نَكْتُبُ فَقَالَ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ أُخَالِفْكَ فَكَتَبَ هَذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قُرَيْشًا يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْكَرَهُمْ قَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ يَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ يَا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ إِنَّ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهُ فَأَنَا أُعَرِّفُهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا يَعْرِفُهُ بِهِ هَذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ وَفِي قَوْمِهِ قَوْمٌ خَصِمُونَ فَرُدُّوهُ إِلَى صَاحِبِهِ وَلَا تُوَاضِعُوهُ كِتَابَ اللَّهِ فَقَامَ خُطَبَاؤُهُمْ فَقَالُوا وَاللَّهِ لَنُوَاضِعَنَّهُ كِتَابَ اللَّهِ فَإِنْ جَاءَ بِحَقٍّ نَعْرِفُهُ لَنَتَّبِعَنَّهُ وَإِنْ جَاءَ بِبَاطِلٍ لَنُبَكِّتَنَّهُ بِبَاطِلِهِ فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللَّهِ الْكِتَابَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلَافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ فِيهِمْ ابْنُ الْكَوَّاءِ حَتَّى أَدْخَلَهُمْ عَلَى عَلِيٍّ الْكُوفَةَ فَبَعَثَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى بَقِيَّتِهِمْ فَقَالَ قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَيْتُمْ فَقِفُوا حَيْثُ شِئْتُمْ حَتَّى تَجْتَمِعَ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا تَسْفِكُوا دَمًا حَرَامًا أَوْ تَقْطَعُوا سَبِيلًا أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّةً فَإِنَّكُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَيْكُمْ الْحَرْبَ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا يَا ابْنَ شَدَّادٍ فَقَدْ قَتَلَهُمْ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا بَعَثَ إِلَيْهِمْ حَتَّى قَطَعُوا السَّبِيلَ وَسَفَكُوا الدَّمَ وَاسْتَحَلُّوا أَهْلَ الذِّمَّةِ فَقَالَتْ أَاللَّهِ قَالَ أَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كَانَ قَالَتْ فَمَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ يَتَحَدَّثُونَهُ يَقُولُونَ ذُو الثُّدَيِّ وَذُو الثُّدَيِّ قَالَ قَدْ رَأَيْتُهُ وَقُمْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلَى فَدَعَا النَّاسَ فَقَالَ أَتَعْرِفُونَ هَذَا فَمَا أَكْثَرَ مَنْ جَاءَ يَقُولُ قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي وَرَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي وَلَمْ يَأْتُوا فِيهِ بِثَبَتٍ يُعْرَفُ إِلَّا ذَلِكَ قَالَتْ فَمَا قَوْلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ قَامَ عَلَيْهِ كَمَا يَزْعُمُ أَهْلُ الْعِرَاقِ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَتْ هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالَ اللَّهُمَّ لَا قَالَتْ أَجَلْ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ يَرْحَمُ اللَّهُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّهُ كَانَ مِنْ كَلَامِهِ لَا يَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ إِلَّا قَالَ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَيَذْهَبُ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ وَيَزِيدُونَ عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثِ
    عبیداللہ بن عیاض کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند روز بعد حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ عراق سے واپس آکر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت ہم لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے فرمایا عبداللہ! میں تم سے جو پوچھوں گی، اس کا صحیح جواب دوگے؟ کیا تم مجھے ان لوگوں کے بارے بتا سکتے ہو جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوشہید کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے سچ کیوں نہیں بولوں گا، فرمایا کہ پھر مجھے ان کا قصہ سناؤ۔
    حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت شروع کی اور دونوں ثالثوں نے اپنا اپنا فیصلہ سنادیا، تو آٹھ ہزار لوگ جنہیں قراء کہا جاتا تھا ، نکل کر کوفہ کے ایک طرف حروراء نامی علاقے میں چلے گئے، وہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ اللہ نے آپ کو جو قمیص پہنائی تھی، آپ نے اسے اتار دیا اور اللہ نے آپ کو جو نام عطاء کیا تھا آپ نے اسے اپنے آپ سے دور کردیا، پھر آپ نے جاکر دین کے معاملے ثالث کو قبول کرلیا، حالانکہ حکم تو صرف اللہ کا ہی چلتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ لوگ ان سے ناراض ہو کر جدا ہوگئے ہیں تو انہوں نے منادی کو یہ نداء لگانے کا حکم دیا کہ امیرالمومنین کے پاس صرف وہی شخص آئے جس نے قرآن کریم اٹھا رکھا ہو، جب ان کا گھر قرآن پڑھنے والوں سے بھر گیا تو انہوں نے قرآن کریم کا ایک بڑا نسخہ منگوا کر اپنے سامنے رکھا، اور اسے اپنے ہاتھ سے ہلاتے ہوئے کہنے لگے اے قرآن! لوگوں کو بتا، یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے امیرالمومنین! آپ اس نسخے سے کیا پوچھ رہے ہیں ؟ یہ تو کاغذ میں روشنائی ہے، ہاں ! اس کے حوالے ہم تک جو احکام پہنچے ہیں وہ ہم ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں، آپ کا اس سے مقصد کیا ہے؟ فرمایا تمہارے یہ ساتھی جو ہم سے جدا ہو کر چلے گئے ہیں ، میرے اور ان کے درمیان قرآن کریم ہی فیصلہ کرے گا، اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں میاں بیوی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کے اہل خانہ کی طرف سے بھیجو، اگر ان کی نیت محض اصلاح کی ہوئی تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، میرا خیال ہے کہ ایک آدمی اور ایک عورت کی نسبت پوری امت کا خون اور حرمت زیادہ اہم ہے (اس لئے اگر میں نے اس معاملہ میں ثالثی کو قبول کیا تو کونسا گناہ کیا؟) اور انہیں اس بات پر جو غصہ ہے کہ میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خط و کتاب کی ہے ( تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو پھر مسلمان اور صحابی ہیں) جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں تھے اور سہیل بن عمرو ہمارے پاس آیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم قریش سے صلح کی تھی تو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا ، بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس پر سہیل نے کہا کہ آپ اس طرح مت لکھوائیے؟ نی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کس طرح لکھوائیں؟ اس نے کہا کہ آپ باسمک اللہم لکھیں ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نام محمد رسول اللہ لکھوایا تو اس نے کہا کہ اگر میں آپ کو اللہ کا پیغمبر مانتا تو کبھی آپ کی مخالفت نہ کرتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ لکھوائے
    ہذا ماصالح محمد بن عبداللہ قریشا
    اور اللہ فرماتا ہے کہ پیغمبر اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے (میں نے تو اس نمونے کی پیروی کی ہے)
    اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس سمجھانے کے لئے بھیجا، راوی کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ گیا تھا، جب ہم ان کے وسط لشکر میں پہنچے تو ابن الکواء نامی ایک شخص لوگوں کے سامنے تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے حاملین قرآن! یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آئے ہیں، جو شخص انہیں نہ جانتا ہو، میں اس کے سامنے ان کا تعارف قرآن کریم سے پیش کر دیتاہوں، یہ وہی ہیں کہ ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں قرآن کریم میں قوم خصمون، یعنی جھگڑالو قوم کا لفظ وارد ہوا ہے، اس لئے انہیں ان کے ساتھی یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس واپس بھیج دو اور کتاب اللہ کو ان کے سامنے مت بچھاؤ۔ یہ سن کر ان کے خطباء کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ بخدا! ہم تو ان کے سامنے کتاب اللہ کو پیش کریں گے، اگر یہ حق بات لے کر آئے ہیں تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر یہ باطل لے کر آئے ہیں تو ہم اس باطل کو خاموش کرا دیں گے، چنانچہ تین دن تک وہ لوگ کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مناظرہ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے چار ہزار لوگ اپنے عقائد سے رجوع کر کے توبہ تائب ہو کر واپس آگئے، جن میں خود ابن الکواء بھی شامل تھا اور یہ سب کے سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بقیہ افراد کی طرف قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوا دیا کہ ہمارا اور ان لوگوں کا جو معاملہ ہوا وہ تم نے دیکھ لیا، اب تم جہاں چاہو ٹھہرو، تاآنکہ امت مسلمہ متفق ہوجائے، ہمارے اور تمہارے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ تم ناحق کسی کا خون نہ بہاؤ، ڈاکے نہ ڈالو اور ذمیوں پر ظلم وستم نہ ڈھاؤ، اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تم پر جنگ مسلط کر دیں گے کیونکہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔
    یہ ساری روئیداد سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ابن شداد! کیا انہوں نے پھر قتال کیا ان لوگوں سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وقت تک ان کے پاس اپنا کوئی لشکر نہیں بھیجا جب تک انہوں نے مذکورہ معاہدے کو ختم نہ کر دیا انہوں نے ڈاکے دالے، لوگوں کا خون ناحق بہایا، اور ذمیوں پر دست درازی کو حلال سمجھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کیا بخدا! ایسا ہی ہوا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! اس اللہ کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ اس بات کی کیا حقیقت ہے جو مجھ تک اہل عراق کے ذریعے پہنچی ہے کہ ذوالثدی نامی کوئی شخص تھا؟ حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود اس شخص کو دیکھا ہے اور مقتولین میں اس کی لاش پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا بھی ہوا ہوں اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بلا کر پوچھا تھا کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ اکثر لوگوں نے یہی کہا کہ میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، کوئی مضبوط بات جس سے اس کی پہچان ہوسکتی، وہ لوگ نہ بتاسکے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی لاش کے پاس کھڑے تھے تو انہوں نے کیا وہی بات کہی تھی جو اہل عراق بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ آپ نے اس کے علاوہ بھی ان کے منہ سے کوئی بات سنی؟ انہوں نے کہا بخدا! نہیں، فرمایا اچھا ٹھیک ہے، اللہ علی پر رحم فرمائے، یہ ان کا تکیہ کلام ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں جب بھی کوئی چیز اچھی یا تعجب خیز معلوم ہوتی ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اہل عراق ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا شروع کردیتے ہیں اور اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی یہ روایت صحیح ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا

      Reply
  4. Aysha butt

    Kya kuwarij k bary mn yeh baat sahih hai k wo muslim pr kufar o shirk ki tohmat lagaye gy. Or kufar k lie utrny wali ayat muslim pr fit kry gy… Uncha tehband bandhy gy.apny nazirayt mn mutashadad hon gy

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس بلاگ میں اسی پر بحث ہے

      وہ لوگ جنہوں نے علی کو خلیفہ ماننے سے انکار کیا ان کو خروج کرنے والا یا خارجی کہا جاتا ہے
      اس نظریہ کے لوگ کہ علی نے معاویہ سے معاہدہ کر کے غلطی کی آج بھی ہیں اور ان کو اباضیہ کہا جاتا ہے
      اور یہ عمان الجزائر تیونس میں رہتے ہیں – عمان کی حکومت اباضی ہے
      دور نبوی سے بھی قبل سے یہ علاقہ قبیلہ ازد کا مسکن ہے جو خارجی نظریات کو ابن عباس اور حجاج بن یوسف کی زندگی میں اپنا چکا تھا اور آج تک یہ اسی عقیدہ کے حامل ہیں

      حروریہ سے علی کی جنگ ان کی خلافت سے خروج کی وجہ سے ہوئی کیونکہ وہ بیعت دے کر علی کو چھوڑ چکے تھے اور اولوالامر کی اطاعت کے منکر ہو گئے تھے – معاویہ یا عمرو بن العاص رضی الله عنہم نے علی رضی الله عنہ کی بیعت ہی نہیں کی لہذا ان پر خارجی کا حکم نہیں لگایا گیا-
      حروریہ علی رضی الله عنہ کے اجتھاد کے خلاف تھے کہ معاویہ رضی الله عنہ سے صلح ہو وہ کسی بھی طرح یہ قبول نہیں کر پائے اور علی رضی الله عنہ سے ہی حجت کرنے لگے ان سے قتال کا علی نے کوئی حکم نہیں دیا جب تک انہوں نے خود فساد فی الارض کا مظاہرہ نہیں کیا نہ فورا ان کو عاد و ثمود کہا بلکہ ابن عبّاس رضی الله عنہ کو بھیجا کہ ان کو سمجھائیں – لہذا علی کا ان خوارج سے قتال بطور حاکم حد شرعی کا نفاذ تھا نہ کہ کسی حدیث رسول کی روشنی میں ان کا قتل عام
      ——

      یہ قول نبوی کہ ایسا گروہ ہو گا جو سر مونڈھے گا اور تہبند اوپر باندہے گا یہ آخری دور کا ذکر ہے قرن اول کا نہیں ہے – یہ علی کے بطور خلیفہ انکاری خوارج سے متلعق نہیں ہے

      صحیح بخاری کی حدیث ہے

      حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَإِنَّ الحَرْبَ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، حُدَثَاءُ [ص:201] الأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ البَرِيَّةِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ»

      ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن کوفی نے، ان سے سوید بن غفلہ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایک قوم پیدا ہو گی نوجوانوں اور کم عقلوں کی۔ یہ لوگ ایسا بہترین کلام پڑھیں گے جو بہترین خلق کا (پیغمبر کا) ہے یا ایسا کلام پڑھیں گے جو سارے خلق کے کلاموں سے افضل ہے۔ (یعنی حدیث یا آیت پڑھیں گے اس سے سند لائیں گے) لیکن اسلام سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کر کے نکل جاتا ہے ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو۔ کیونکہ ان کا قتل قیامت میں اس شخص کے لیے باعث اجر ہو گا جو انہیں قتل کر دے گا

      یہ عربی النسل ہوں گے – اس بلاگ میں موجود ہے دیکھ سکتی ہیں

      Reply
  5. Aysha butt

    Ibne majah ki riwayt hai .k
    Kuwarij jahanum k dogs hai…..
    tehqiq bta dein
    Kufar ne Nabi s.a.w pr shirk ki tohmat lagai ….. Nabi s.a.w ne kha jis ne mujh se muhabt kior tabdari ki us ne Allah se muhbat or tabedari ki
    Toh kufar ne kha yeh to mushrik hogya
    Tafseer kabir jild 10 pg 194
    Roh ul mani Jild 1 pg 91

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      خوارج جہنم کے کتے ہیں
      منقطع السند ہے راوی الأعمش کا سماع صحابی عبدَ الله بن أبي أوفى سے نہیں ہے
      ———

      کفار نے شرک کی تہمت لگائی یہ کس آیت کے تحت ہے؟ مجھے یہ قول روح المعانی میں نہیں ملا

      Reply
  6. Aysha butt

    ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ. (من قول ابن عمر رضی الله عنه)
    ’’وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں۔‘‘ (قولِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مستفاد)
    بخاری، الصحيح، کتاب، استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539
    Is ka bta dein

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ صحیح بخاری کی معلق روایت ہے یعنی باب میں بلا سند امام بخاری نے ابن عمر کا قول نقل کیا ہے
      وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ ، وَقَالَ : إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ
      انہوں نے وہ آیات جو کفار کے لئے تھیں ان کا اطلاق مومنوں پر کیا

      وَقَالَ أَبُو جَعْفَر الطَّبَرِيّ فِي كتاب تَهْذِيب الْآثَار لَهُ ثَنَا يُونُس ثَنَا ابْن وهب أَخْبرنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ بكيرا حَدثهُ أَنه سَأَلَ نَافِعًا كَيفَ كَانَ رَأْي ابْن عمر فِي الحرورية قَالَ يراهم شرار خلق الله انْطَلقُوا إِلَى آيَات فِي الْكفَّار فجعلوها فِي الْمُؤمنِينَ
      بُكَيْرِ بنِ الأَشَجِّ نے نافع سے سوال کیا کہ ابن عمر کی حروریہ پر کیا رائے تھی ؟ انہوں نے کہا وہ ان کو شری مخلوق کہتے کہ انہوں نے وہ آیات جو کفار کے لئے تھیں ان کا اطلاق مومنوں پر کیا
      سند صحیح ہے
      =========
      لیکن اس میں یہ الفاظ نہیں کہ ان کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں – خوارج کے نزدیک اصحاب رسول گمراہ تھے احکام الہی کے حوالے سے کافر یا مشرک نہیں تھے
      خوارج کے نزدیک علی نے احکام الہی پر عمل نہیں کیا باغیوں سے معاہدے کیے جو ان کے نزدیک صحیح نہیں تھا

      Reply
      1. Aysha butt

        Ye akwal ab kisi jamat pr fit krna sahih hsi
        Yeh gair mukalid k lie boly jate hai

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          یہ اقوال میرے نزدیک ایک خاص جماعت کے لئے ہیں جو عرب ہوں گے جزیرہ العرب سے نکلیں گے ذو خویصرہ کی نسل سے بنو تمیم سے ہوں گے مدینہ کے مشرق کے ہوں گے
          یہ قرب قیامت سے قبل ظاہر ہوں گے
          و الله اعلم

          Reply
  7. Aysha butt

    …………………..
    28. اَلْأَجْرُ الْعَظِيْمُ لِمَنْ قَتَلَهُمْ.
    ’’ان کے قتل کرنے والے کو اجرِ عظیم ملے گا۔‘‘
    مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066
    …………………..
    29. خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوْهُ.
    ’’وہ شخص بہترین مقتول (شہید) ہوگا جسے وہ قتل کر دیں گے۔‘‘
    ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000
    …………………..
    30. شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاءِ.
    ’’وہ آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہوں گے۔‘‘
    ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000
    Iska bta dein

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة
      المؤلف: أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کے مطابق
      أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيٍّ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ , قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ نَافِعٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْمُلَائِيِّ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي السُّلَيْكِ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , قَالَ: كُنْتُ بِدِمَشْقَ زَمَنَ عَبْدِ الْمَلِكِ فَجِيءَ بِرُؤُوسِ الْخَوَارِجِ فَنُصِبَتْ عَلَى أَعْوَادٍ , فَجِئْتُ لَأَنْظُرُ فِيهَا , فَإِذَا أَبُو أُمَامَةَ [ص:115] عِنْدَهَا فَدَنَوْتُ فَنَظَرْتُ إِلَيْهَا , ثُمَّ قَالَ: «كِلَابُ النَّارِ» – ثَلَاثَ مَرَّاتٍ – «شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ , وَمَنْ قَتَلُوهُ خَيْرُ قَتْلَى تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ» . قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
      یہ ابو امامہ کے الفاظ ہیں اور واقعہ عبد الملک بن مروان کے دور میں ہوا جب دمشق میں روس خوارج کے سر پہنچے

      أَبُو أُمَامَةَ البَاهِلِيُّ المتوفی ٨٦ ھ نے خوارج کو جہنم کے کتے کہا
      اس کی سند میں حزور ويقال نافع ويقال سعيد بن الحزور أبو غالب البصري ہے جو مختلف فیہ ہے غلطی کرتا ہے
      اس سند کو صحیح بھی حسن بھی کہا گیا ہے

      یعنی ابو امامہ رضی الله عنہ کے نزدیک لوگ گذر چکے ان کا قتل ہو چکا

      Reply
  8. وجاہت

    علی (رضی الله عنہ) کو ایک چادر دی اور وہ علی رضی الله عنہ نے اوڑھ لی اور رسول الله کے پاس گئے

    ====

    یہ بات تو حضرت عمر رضی الله اور حضرت اسامہ رضی الله کے لئے بھی کی گئی – صحیح احادیث ہیں

    صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2024 حدیث مرفوع مکررات 56 متفق علیہ 27

    آدم، شعبہ، ابوبکر بن حفص، سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو ایک ریشمی جوڑا بھیجا آپ نے حضرت عمر (رض) کو پہنتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہننے کے لئے نہیں بھیجا تھا، اس کو وہی شخص پہنتا ہے، جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں، میں نے صرف اس لئے بھیجا تھا کہ اس کو بیچ کر فائدہ اٹھاؤ۔

    ==========

    مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 522 حدیث مرفوع مکررات 56 متفق علیہ 27

    حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہنے لگے کہ اگر آپ اسے خرید لیتے تو وفود کے سامنے پہن لیا کرتے؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو چنددن بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں کہیں سے چند ریشمی حلے آئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان میں سے ایک جوڑا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی بھجوادیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ آپ نے خود ہی تو اس کے متعلق وہ بات فرمائی تھی جو میں نے سنی تھی اور اب آپ ہی نے مجھے یہ ریشمی جوڑا بھیج دیا؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میں نے تمہیں یہ اس لئے بھجوایا ہے کہ تم اسے فروخت کرکے اس کی قیمت اپنے استعمال میں لے آؤ یا اپنے گھروالوں کو اس کے دوپٹے بنادو۔ اسی طرح حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے وہ ریشمی جوڑا پہن رکھا تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میں نے یہ تمہیں پہننے کے لئے نہیں بھجوایا تھا میں نے تو اس لئے بھجوایا تھا کہ تم اسے فروخت کردو یہ مجھے معلوم نہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے یہ فرمایا تھا یا نہیں کہ اپنے گھروالوں کو اس کے دوپٹے بنادو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں ریشمی لباس پہن کر آئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں دیکھا تو وہ کہنے لگے کہ آپ ہی نے تو مجھے پہنایاہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اسے پھاڑ کر اپنی عورتوں کے درمیان دوپٹے تقسیم کردو یا اپنی ضرورت پوری کر لو۔

    ========

    مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1840 حدیث مرفوع مکررات 56 متفق علیہ 27

    حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عطارد کو کچھ ریشمی جوڑے بیچتے ہوئے دیکھا تو بارگارہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں نے عطارد کو ریشمی جوڑے بیچتے ہوئے دیکھا ہے اگر آپ اس میں سے ایک جوڑا خرید لیتے تو وفود کے سامنے اور عید اور جمعہ کے موقع پر پہن لیتے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ شخص پہنتا ہے جس کا کوئی آخرت میں حصہ نہ ہو۔ کچھ عرصے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں کہیں سے کچھ ریشمی جوڑے آ گئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان میں سے ایک جوڑا حضرت علی رضی اللہ عنہ کودے دیا ایک حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کودے دیا اور ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھجوا دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اسے پھاڑ کر اس کے دوپٹے عورتوں میں تقسیم کردو اسی اثنا میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر کہنے لگے یا رسول اللہ میں نے ریشم کے متعلق آپ کو جو فرماتے ہوئے سنا تھا وہ آپ ہی نے فرمایا تھا اور پھر آپ ہی نے مجھے یہ جوڑا بھیج دیا؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میں نے اسے تمہارے پاس اس لئے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ تم اسے فروخت کر لوجبکہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے وہ جوڑا پہن لیا اور باہر نکل آئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں تیز نظروں سے دیکھنے لگے جب حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں گھور کر دیکھ رہے ہیں توکہنے لگے یا رسول اللہ آپ ہی نے مجھے یہ لباس پہنایا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اسے پھاڑ کر عورتوں کے درمیان دوپٹے تقسیم کردو یا جیسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا۔

    ========

    صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 906 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 56 متفق علیہ 27

    شیبان بن فروخ، جریر بن حازم، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے عطارد تمیمی کو بازار میں (کپڑوں کا) ایک ریشمی جوڑا رکھے ہوئے دیکھا وہ ایک ایسا آدمی تھا کہ جو بادشاہوں کے پاس جاتا اور ان سے (مال وغیرہ) وصول کرتا حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں نے عطارد کو دیکھا کہ اس نے بازار میں ایک ریشمی جوڑا بیچنے کے لئے رکھا ہوا ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس جوڑے کو خرید لیں اور جب عرب کا کوئی وفد آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں آیا کرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) وہ جوڑا پہن لیا کریں راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت عمر (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جمعہ کے دن بھی پہن لیا کریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا دنیا میں ریشم کا کپڑا وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے پھر اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں ریشمی کپڑے کے چند جوڑے لائے گئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک جوڑا حضرت عمر (رض) کی طرف بھیج دیا اور ایک جوڑا حضرت اسامہ بن زید (رض) کی طرف بھیج دیا اور ایک جوڑا حضرت علی بن ابی طالب (رض) کو عطا فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ان جوڑوں کو پھاڑ کر اپنی عورتوں کی اوڑھنیاں بنا لینا راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اس جوڑے کو اٹھا کر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس جوڑے کو میری طرف بھیجا ہے حالانکہ آپ نے گزشتہ روز عطارد کے جوڑے کے بارے میں اس طرح فرمایا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اے عمر میں نے یہ جوڑا تیری طرف اس لئے نہیں بھیجا تاکہ تو اسے پہنے بلکہ میں نے یہ جوڑا تیری طرف اس لئے بھیجا تھا تاکہ تو اس سے فائدہ حاصل کرے اور حضرت اسامہ وہی ریشمی جوڑا پہن کر آپ کی خدمت میں آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت اسامہ (رض) کی طرف بڑے غور سے دیکھا جس کی وجہ سے حضرت اسامہ (رض) نے پہچان لیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ جوڑا پہننا ناپسند لگا ہے حضرت اسامہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہی تو یہ جوڑا میری طرف بھیجا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میں نے یہ جوڑا تیری طرف اس لئے نہیں بھیجا تاکہ تو اسے پہنے بلکہ میں نے یہ جوڑا تیری طرف اس لئے بھیجا ہے تاکہ تو اسے پھاڑ کر اپنی عورتوں کے لئے اوڑھنیاں بنائے۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      روایات سے معلوم ہوا کہ رسول الله نے ریشم پہنے سے منع کیا لیکن تین جلیل القدر اصحاب نے اس کو پہنا عمر نے اسامہ نے اور علی نے – لیکن علی کے حوالے سے روایات میں اضطراب و خلل ہے

      مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1840 میں ہے
      نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان میں سے ایک جوڑا حضرت علی رضی اللہ عنہ کودے دیا ایک حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کودے دیا اور ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھجوا دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اسے پھاڑ کر اس کے دوپٹے عورتوں میں تقسیم کردو اسی اثنا میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر کہنے لگے یا رسول اللہ میں نے ریشم کے متعلق آپ کو جو فرماتے ہوئے سنا تھا وہ آپ ہی نے فرمایا تھا اور پھر آپ ہی نے مجھے یہ جوڑا بھیج دیا؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میں نے اسے تمہارے پاس اس لئے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ تم اسے فروخت کر لو

      صحیح مسلم میں ہے
      حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا غندر ، عن شعبة ، عن عبد الملك بن ميسرة ، عن زيد بن وهب ، عن علي بن ابي طالب ، قال:‏‏‏‏ كساني رسول الله صلى الله عليه وسلم حلة سيراء، ‏‏‏‏‏‏فخرجت فيها، ‏‏‏‏‏‏” فرايت الغضب في وجهه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فشققتها بين نسائي ”
      امیرالمومنین اسد اللہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ریشمی جوڑا مجھے دیا، میں اسے پہن کر نکلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ میں پایا پھر میں نے اس کو پھاڑ کر عورتوں کو دے دیا۔

      راقم کہتا ہے صحیح مسلم میں ترجمہ غلط کیا گیا ہے ترجمہ ہے
      رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا اس کو پھاڑ کر اپنی عورتوں میں تقسیم کر دو

      اضطراب اس طرح ہے کہ
      اول علی کو جب دیکھا تو کیا حکم کیا بیچنے کا یا بانٹے کا –
      أبو عون محمد بن عبيد الله بن سعيد الثقفي. نے عبد الرحمن بن قيس ، أبو صالح الحنفى الكوفى سے روایت کیا ہے کہ سربندھن بنانے کا حکم کیا اور نَافِعٌ نے ابْنِ عُمَرَ سے روایت کیا ہے کہ بیچنے کا حکم کیا اور زید بن وھب نے بیان کیا ہے کہ عورتوں میں باٹنے کا حکم کیا
      دوم علی کو کہا اپنی عورتوں میں تقسیم کر دو- کون سی عورتیں؟ ان کو تو ایک ہی بیوی تھیں اور باقی جو رشتہ دار تھیں وہ تو خود رسول الله کی رشتہ دار ہوئیں

      علی کے حوالے سے اس روایت میں خاص اضطراب پایا جاتا ہے اس کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے لیکن جب الفسوی نے کہا زید کی روایت خلل زدہ ہے تو ان کے علم میں اس کی دیگر روایات بھی ہوں گی جس کی بنا پر یہ حکم اس پر لگایا گیا ہے – زید پر جرح میں نے خود نہیں کی الفسوی کا قول بیان کیا تھا لہذا زید تو مجروح ہے – باقی یہ کام روایت میں تین اصحاب سے منسوب کیا گیا ہے جو عجیب بات ہے کہ کیا لوگ حدیث سنتے لیکن سمجھ نہ پاتے تھے کہ ریشم حرام ہے ؟ اس کے کپڑے پہن کر رسول الله کے پاس جاتے جبکہ کوئی اور نہیں جاتا تھا – آج بھی اپ کو قیمتی کپڑا ملے تو سلواتے وقت یا پہنتے وقت اپ سوچیں گے کہ ایسا کوئی اور پہنتا ہے یا نہیں –

      Reply
  9. jawad

    السلام و علیکم و رحم الله

    آپ نے اس عنوان ” امام بخاری نے جارجی عمران القطان تک کی روایت صحیح میں لکھی ہے جو علی رضی الله عنہ کے قاتل کی تعریف کرتا تھا

    کے تحت لکھا ہے

    واضح رہے کہ ایسی روایات جن میں شیعہ کو یا خوارج کو “جہنم کے کتے” کہا گیا ہو وہ سب بعد کی پیدا وار معلول روایات ہیں

    مذکورہ روایت کی تفصیل و تحقیق درکار ہے ؟؟

    مزید یہ کہ نہ صرف ہمارے لبرل طبقے، بلکہ عرب علماء وغیرہ کی طرف سے بھی خوارج سے متعلق شد و مد سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے اور عوام کو با آور کرایا جاتا ہے کہ داعش اور القاعدہ وہی “خوارج ” ہیں جن کا احادیث نبوی میں ذکر ہے

    روایت :
    عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه فَسَأَلاَهُ عَنِ الْحَرُوْرِيَّةِ: أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ: لاَ أَدْرِي مَا الْحَرُوْرِيَّةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُوْنَ صَلاَتَکُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ، يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ أَوْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ … الحديث. متفق عليه.
    ”حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے-

    میرے نزدیک یہاں نبی کریم (صل الله علیہ و آ له وسلم) کا فرمان کہ “وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُوْنَ صَلاَتَکُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ یہ خطاب صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے تھا- نہ کہ آجکل کے مسلمانوں سے-.ہماری نمازیں تو اس قابل ہی نہیں کہ کسی سے اس کا تقابل کیا جاسکے – یہ خیر القرون کے خوارج تھے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اصحاب کرام اپنی نمازوں کی خوبصورتی کا تقابل ان خوارج کی نمازوں سے کریں گے اور اپنی نمازوں کو حقیر جانیں گے

    میرے خیال میں جو داعش یا القاعدہ ہیں وہ صحیح منہج پر نہیں ہیں اور مفسد ہیں- لیکن احادیث میں بیان کردہ خوارج کی تعریف پر پورا نہیں اترتے (واللہ اعلم

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      خوارج جہنم کے کتے ہیں
      اس پر ایک روایت مسند احمد کی ہے جس میں شیعہ راوی ہیں اور ظاہر ہے یہ بدعتی عقیدے کے اثبات پر روایت ہے

      حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ كُوفِيٌّ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ قَالَ: أَتَيْتُ (1) عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى وَهُوَ مَحْجُوبُ الْبَصَرِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ لِي: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ وَالِدُكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَتَلَتْهُ الْأَزَارِقَةُ، قَالَ: لَعَنَ اللهُ الْأَزَارِقَةَ، لَعَنَ اللهُ الْأَزَارِقَةَ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” أَنَّهُمْ كِلَابُ النَّارِ “، قَالَ: قُلْتُ: الْأَزَارِقَةُ وَحْدَهُمْ أَمِ الْخَوَارِجُ كُلُّهَا؟ قَالَ: ” بَلِ الْخَوَارِجُ كُلُّهَا “. قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ السُّلْطَانَ يَظْلِمُ النَّاسَ، وَيَفْعَلُ بِهِمْ، (2) قَالَ: فَتَنَاوَلَ يَدِي فَغَمَزَهَا بِيَدِهِ غَمْزَةً شَدِيدَةً (3) ، ثُمَّ قَالَ: ” وَيْحَكَ يَا ابْنَ جُمْهَانَ عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ (4) إِنْ كَانَ السُّلْطَانُ يَسْمَعُ مِنْكَ، فَأْتِهِ فِي بَيْتِهِ، فَأَخْبِرْهُ بِمَا تَعْلَمُ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْكَ، وَإِلَّا فَدَعْهُ، فَإِنَّكَ لَسْتَ بِأَعْلَمَ مِنْهُ
      الْحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ نے کہا مجھ سے سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ نے کہا میں ابن ابی اوفی کے پاس پہنچا …. الْأَزَارِقَةَ کا ذکر کیا … ابن ابی اوفی نے کہا رسول الله نے فرمایا تھا خوارج جہنم کے کتے ہیں

      روایت میں الْأَزَارِقَہ کا ذکر ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کا قتل جائز کہتے تھے
      سند میں حشرج بن نباتة ہے
      البخاري كتاب الضعفاء له: وهذا لم يتابع عليه
      نسانی نے غیر قوی کہا ہے

      دوسری
      حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بَجِيرٍ، (1) حَدَّثَنَا سَيَّارٌ قَالَ: …أَبُو أُمَامَةَ
      سند میں سيّار بن عبد اللَّه ایک مجہول ہے
      بعض کا دعوی ہے صحابی ہے لیکن اس سے روایت نہیں ملی

      عبد الله بن احمد کی السنہ میں ہے
      عكرمة بن عمار، عن أبي عمار شداد بن عبد الله الدمشقي، عن أبي أمامة.
      سند میں عكرمة بن عمار مدلس ہے – احمد نے اس کو ضعیف کہا ہے

      مسند احمد میں ہے
      حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا غَالِبٍ يَقُولُ: لَمَّا أُتِيَ بِرُءُوسِ الْأزَارِقَةِ فَنُصِبَتْ عَلَى دَرَجِ دِمَشْقَ، جَاءَ أَبُو أُمَامَةَ
      اور
      حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنُهْ رَأَى رُءُوسًا مَنْصُوبَةً عَلَى دَرَجِ مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَقَالَ أَبُو أُمَامَةَ: ” كِلَابُ النَّارِ كِلَابُ النَّارِ
      اور ترمذی میں ہے
      حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، قَالَ: رَأَى أَبُو أُمَامَةَ رُءُوسًا مَنْصُوبَةً عَلَى دَرَجِ دِمَشْقَ، فَقَالَ أَبُو أُمَامَةَ: «كِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ،
      ان سب میں سند میں أبي غالب البصري مضبوط نہیں ہے

      مسند احمد میں ہے
      حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ قَالَ: سَمِعْتُ صَفْوَانَ بْنَ سُلَيْمٍ يَقُولُ: دَخَلَ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ دِمَشْقَ فَرَأَى رُءُوسَ حَرُورَاءَ قَدْ نُصِبَتْ فَقَالَ: ” كِلَابُ النَّارِ كِلَابُ النَّارِ،
      صَفْوَانَ بْنَ سُلَيْمٍ ثقہ ہیں لیکن ابو امامہ سے ان کے سماع کا اثبات نہیں ہوا

      ابن ماجہ میں ہے
      حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخَوَارِجُ كِلَابُ النَّارِ
      سند منقطع ہے الْأَعْمَشِ کا سماع ابن ابی اوفی سے نہیں
      [تعليق محمد فؤاد عبد الباقي]
      في الزوائد أن رجال الإسناد ثقات. إلا أن فيه أنقطاعا.

      الغرض یہ روایات متاخرین نے بیان کی ہیں جب خوارج کا ایک فرقہ الازرقه قتل کرنے لگا – خیال رہے کہ تمام خوارج اس فرقے کے نہیں تھے ان میں بھی الگ الگ موقف تھا – پھر موجودہ اہل سنت کے وہ فرقے جو بنو امیہ مخالف ہیں وہ ان روایات کو لہک لہک کر بیان کرتے ہیں -غور کریں الازرقہ قتل اصل میں بنو امیہ کا کر رہے تھے جو بقول شخصے ظالم تھے نماز وقت پر نہیں پڑھتے تھے جو گناہ کبیرہ ہے – محدثین ہی کی ایک جماعت کے نزدیک گناہ کبیرہ میں ایمان نہیں ہوتا تو اس تناظر میں خوارج کیا صحیح نہیں تھے ؟ راقم اس وجہ سے ان روایات پر تنقید کرتا رہا ہے لیکن افسوس لوگ غور نہیں کرتے

      ———-
      وہ روایات جن میں ہے کہ وہ نماز پڑھیں گے اور زبردست نماز ہو گی تو آج جا کر عمان میں دیکھ لیتے ہیں جہاں خوارج کی حکومت ہے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی جاتی ہے – ہم یا فرقے اس پر غور کیوں نہیں کرتے

      ان روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرب قیامت میں کسی گروہ کا ذکر تھا جو بنو تمیم سے نکلے گا ذی خویصرہ کی نسل کا ہو گا – میرے نزدیک یہ دور نبی کی بات نہیں کیونکہ نسل دس بیس سال میں نہیں بنتی اس کو وقت درکار ہوتا ہے
      علی کے مد مقابل لوگ اس روایت پر پورا نہیں اترتے
      و اللہ اعلم
      ————

      نوٹ خوارج سے متعلق راوی کا شہر دیکھیں یا تو دمشق ہو گا یا بصرہ – کیونکہ الازرقه یا الصفریہ وہاں حملہ کرتے تھے
      دوم مشرق سے فتنہ نکلے گا بھی غور طلب ہے کیونکہ قبیلہ الازد کا مسکن مشرق میں عمان و بحرین کے درمیان تھا

      ===========

      آجکل قبر مجاور بریلوی علماء کے ہاتھ ناریل لگ گیا ہے وہ ہر تقریر میں پہلے داعش فسادیوں کا ذکر کرتے ہیں پھر ان کا قبروں کو مسمار کرنے کا عمل کا تذکرہ کرتے ہیں پھر اس بلاگ میں جن راویات کا ذکر ہے ان کو بھی ملا دیتے ہیں – یہی کام ہمارے اخباری دانشور کر رہے ہیں – یہ سوچ سب غلط ہے
      اول تو بعض عمل اور موقف سرے سے صحیح نہیں ان پر بات کرنی چاہیئے ایک ہے گناہ کبیرہ کا مرتکب کیا ہے کافر ہے یا مومن ہی ہے
      یہ جڑ ہے
      https://www.islamic-belief.net/کیا-ایمان-میں-کمی-و-زیادتی-ہوتی-ہے؟/

      اسی لئے خوارج پر بات کرنے سے پہلے میں نے اس بلاگ کو لگایا تھا
      ——–
      دوم ان فرقوں کے نزدیک مہدی کا ظہور عراق سے ہے – پوچھا جائے اس پر کیا موقف ہے تو معلوم ہو گا کہ بریلوی ہوں یا سلفی ہوں سب کہتے ہیں امام مہدی آ رہے ہیں فرق ہے تو صرف یہ کہ بریلویوں اور داعش کے نزدیک مہدی عراقی و شامی ہے – دیوبندیوں اور القاعدہ کے نزدیک مہدی خراسانی و افغانی ہے لیکن اس کو بھی عراق جانا ہے – اہل حدیث وہابیوں سلفیوں میں بعض کے نزدیک مدنی ہے اور بعض کے نزدیک عراقی ہے – حزب التحریر کے نزدیک مہدی یروشملی یا فلسطینی ہے
      اور پھر شیعوں کے مہدی عراقی الگ ہیں
      ——
      میری معلومات باقی ہم سب کی طرح داعش پر ناقص ہیں یہاں تک کہ میں نے عربوں سے بھی پوچھا اور عرب عراقیوں کو بھی نہیں پتا یہ کون لوگ ہیں – یہ کوئی اعتقادی جماعت معلوم نہیں ہوتی – نہ ان کا کوئی لٹریچر ہے
      مجھ کو یہ کوئی مشرق وسطی کی اپس کی سیاست معلوم ہوتی ہے جس میں مذھب سے زیادہ اور عوامل شامل ہیں

      Reply
      1. jawad

        شکریہ معلومات کا

        جتنا آجکل “خوارج” سے متعلق روایات کو تمام فرقے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں- پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا- خوارج اور کبیرہ گناہ پر بحث کرنے والے علماء خود فرقہ واریت کا شکار ہیں جو بذات خود کبیرہ گناہ ہے – الله اوراس کے رسول کا فرقہ پرستوں سے کوئی واسطہ نہیں- اور مہدی کا نظریہ تو گھڑا ہی بنو امیہ کی مخالفت کی بنا پرگیا ہے-اور چوںکہ پہلے خوارج وہ تھے جنہوں نے علی رضی الله عنہ کو کافر قرار دیا- تو آجکل رافضیت پسند اور میڈیا پرست مللاؤں کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے کہ جو بھی علی رضی الله عنہ کی خلافت کو بلفصل نہ سمجھے اور معاویہ رضی الله عنہ یا یزید بن معاویہ رحم الله کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرے اس کو “خارجی” کا لقب دے دو

        الله ہمارے حال پر رحم کرے

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          صحیح کہا اپ نے اہل سنت بر صغیر میں آجکل بے مہار انداز میں خارجی کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے
          دوسری طرف راقم نے خوارج کی کتب دیکھی ہیں جن میں علی رضی الله عنہ کو امام لکھا جاتا ہے یعنی خارجی تو علی کے حوالے سے موقف میں نرمی پیدا کر چکے ہیں اور ہم اصل خوارج یا الازدیؤن کو چھوڑ کر اہل سنت میں خوارج ڈھونڈ رہے ہیں

          Reply
          1. jawad

            جی ہاں بلکل

            اور اب یہ اصطلاح برصغیر سے ہوتی ہوئی سرزمین عرب میں بھی جا پہنچی ہے – اور وہاں بھی یہ فتویٰ بازی عام ہوتی جا رہی ہے کہ جو بھی حاکم وقت (یعنی بادشاہ) کی مخالفت کرتا ہے اس کو بھی خارجیوں کی صف میں کھڑا کردیا جائے- شاید یہ یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھنے والے “پرنس” اپنے آپ کو علی و معاویہ رضی الله عنہ کا ہم پلہ سمجھتے ہیں

Leave a Reply to Islamic-Belief Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *