قدمونی قدمونی پر ایک نظر

ایک مشھور روایت ہے کہ مردہ کو جب کھاٹ پر رکھا جاتا ہے وہ کلام کرتا ہے – اس بلاگ میں اس کی اسناد پر بحث کی گئی ہے

صحیح بخاری -> کتاب الجنائز –  باب کلام المیت علی الجنازۃ
باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا

حدیث نمبر : 1380
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق”.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے اگر انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

الطبقات الكبرى از  المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) اور مسند احمد میں ہے کہ یہ قول ابو ہریرہ کا تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، وَأَسْرِعُوا بِي إِسْرَاعًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي. وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَتِي أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي “

ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، نے المقبری سے روایت کیا انہوں نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو بستر پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو بستر پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے کہ ابو ہریرہ کا قول تھا

قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ بِأَبِي هُرَيْرَةَ الْمَوْتُ قَالَ: لَا تَضْرِبُوا عَلَى قَبْرِي فُسْطَاطًا , وَلَا تَتَّبِعُونِي بِنَارٍ، فَإِذَا حَمَلْتُمُونِي , فَأَسْرِعُوا , فَإِنْ أَكُنْ صَالِحًا تَأْتُونَ بِيِ إِلَى رَبِّي، وَإِنْ أَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ , فَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ تَطْرَحُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

ابو معشر نے کہا سعید المقبری نے کہا جب ابو ہریرہ کی وفات کا وقت آیا کہا میری قبر پر خیمہ نہ لگانا نہ میرے  پیچھے اگ لے کر جانا پس جب مجھے اٹھانا جلدی کرنا کیونکہ اگر میں نیک ہوں تو تم مجھے میرے رب کی طرف لے جا رہے ہو اور اگر اس کے علاوہ ہوں تو تم ایک چیز اپنے کندھوں سے پھینک رہے ہو

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَيَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِي بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِيرِهِ قَالَ: يَا وَيْلَهُ أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِي؟ “

المقبری نے عبد الرحمان مولی ابو ہریرہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ بے شک ابو ہریرہ جب ان کی وفات کا وقت آیا کہا نہ میرے اوپر خیمہ لگانا نہ اگ ساتھ لے کر چلنا اور میرا جنازہ تیزی سے لے جانا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا جب صالح بندے کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے یا مومن بندے کو تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور کافر کو جنازہ پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو

حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً [ص:466] قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ تَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصُعِقَ ” قَالَ حَجَّاجٌ: لَصُعِقَ

سعید المقبری نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے ابو سعید الخدری سے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب جنازہ کورکھتے  ہیں اور مرد  اس کو گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر یہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے لے چلو اور اگر بد ہے تو کہتا ہے بربادی کہاں جا رہے ہو اس آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور انسان سنے تو بے ہوش ہو جائے

سعید بن ابی سعید ( أَبُو سَعْدٍ بنُ كَيْسَانَ) ایک ہی روایت تین  سندوں سے بیان کر رہا ہے

 ایک سعید المقبری  عنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

دوسری  سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ کی سند سے

تیسری سعید المقبری  عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، کی سند سے

سعید المقبری سے تین لوگوں نے اس روایت کو لیا أبي معشر الْمَدِينِيّ ، دوسرے لَيْثٌ بن سعد ، تیسرے ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني کا تفرد ہے

ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق

سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث

ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے

ابی معشر کے مطابق یہ الفاظ ابو ہریرہ کے ہیں اس کو حدیث نبوی نہیں کہا ہے  یعنی موقوف عن ابو ہریرہ ہے

یہ بات کہ میت کے اس قول کو انسان کے سوا سب سنتے ہیں یہ صرف ابو سعید الخدری  کی سند سے ہیں

لہذا محدثین اس کو صرف دو سندوں سے قبول کرتے ہیں جو لیث اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ کی اسناد ہیں

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي اختلاط کا شکار تھے

المختلطين از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيد بن أبي سعيد المَقْبُرِي المدني:

 قال شعبة: ساء بعد ما كبر.

وقال محمد بن سعد: ثقة إلا أنه اختلط قبل موته بأربع سنين.

شعبہ کہتے ہیں یہ بوڑھے ہوئے تو خراب ہوئے

ابن سعد نے کہا یہ ثقہ ہیں لیکن یہ مرنے سے ٤ سال قبل اختلاط کا شکار ہوئے

قال الواقدى: كبُر واختلط قبل موته بأربع سنين – واقدی نے کہا بوڑھے ہوئے اور مرنے سے ٤ سال قبل مختلط ہوئے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ)  کے مطابق ١٢٥ ھ میں وفات ہوئی

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق

وفي كتاب الباجي عن ابن المديني: قال ابن عجلان: كانت عنده أحاديث سندها عن رجال عن أبي هريرة فاختلطت عليه فجعلها كلها عن أبي هريرة.

اور الباجی کی کتاب میں ابن المدینی سے روایت ہے کہ ابن عجلان نے کہا ان کے پاس احادیث تھیں جو عن رجال عن ابو ہریرہ سے تھیں ان کو جب اختلاط ہوا تو انہوں نے تمام کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

شعبہ نے بھی احتیاط کی ہے اور کہا ہے کہ سعید  بوڑھے ہو چکے تھے

وَقَال يَعْقُوب بْن شَيْبَة: قد كَانَ تغير وكبر واختلط قبل موته، يقال: بأربع سنين، حَتَّى استثنى بعض المحدثين عنه ما كتب عنه فِي كبره مما كتب قبله، فَكَانَ شعبة يَقُول: حَدَّثَنَا سَعِيد الْمَقْبُرِيّ بعدما كبر.

يَعْقُوب بْن شَيْبَة نے کہا کہ یہ بدل گئے اور بوڑھے ہوئے اور مرنے سے پہلے مختلط ہو چکے تھے کہا جاتا ہے ٤ سال یہاں تک کہ بعض محدثین نے اس کو الگ کیا ہے جو ان کے بڑھاپے سے پہلے لکھا یہاں تک کہ شعبہ کہتے کہ سعید المقبری نے روایت کیا بوڑھا ہونے کے بعد

قال يحيى القطان: “سمعتُ محمد بن عجلان يقولُ: كان سعيدٌ المقبري يُحَدِّث عن أبيه عن أبي هريرة، وعن رجل عن أبي هريرة، فاختلط عليَّ فجعلتها كلها عن أبي هريرة   الميزان: (3/645)

یحیی القطان کہتے ہیں میں نے ابن عجلان کو سنا کہ سعید المقبری اپنے باپ سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے اور سعید ایک آدمی سے اور وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتا لیکن جب سعید کو اختلاط ہوا تو سعید المقبری نے ان تمام روایات کو ابو ہریرہ سے روایت کر دیا

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

سعيدا المقبري سمع من أبي هريرة ومن أبيه عن أبي هريرة وأنه اختلف عليه في أحاديث وقالوا أنه اختلط قبل موته وأثبت الناس فيه الليث بن سعد يميز ما روى عن أبي هريرة مما روى عن أبيه عنه وتقدم أن ما كان من حديثه مرسلا عن أبي  هريرة فإنه لا يضر لأن أباه الواسطة

سعید المقبری نے ابو ہریرہ سے سنا اور اپنے باپ سے انہوں نے ابو ہریرہ سے اور ان کی احادیث پر اختلاف ہوا اور کہا کہ یہ مرنے سے قبل مختلط ہوئے اور لوگوں میں سب سے ثابت ان سے روایت کرنے میں اللیث ہیں جو اس کی  تمیز کر سکتے ہیں کہ یہ ابو ہریرہ سے کیا روایت کرتے ہیں اور کیا اپنے باپ سے کرتے ہیں اور جیسا کہ گزرا ان کا ابو ہریرہ سے روایت کرنا مرسل ہے اگرچہ اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے سنا ہے

سعید المقبری کو اختلاط تھا الذھبی نے اس کا انکار کیا اس پر ابن الكيال (المتوفى: 929هـ) نے کتاب  الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات میں لکھا

 والعجب من الذهبي انكار اختلاطه وقد أقر باختلاطه الواقدي وابن سعد ويعقوب بن شيبة وابن حبان

اور الذھبی کی عجیب بات ہے کہ اس کا انکار کیا اور اس اختلاط کا ذکر کیا ہے واقدی نے  ابن سعد نے یعقوب نے اور ابن حبان نے 

اگرچہ ابن معین نے کہا تھا کہ ابن أبي ذئب کی سعید المقبری سے روایت سب سے مناسب ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین اس کو بھی منکر کہتے ہیں –  العلل لابن أبي حاتم از محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ)  کے مطابق ایک روایت اس کو انہوں نے اپنے باپ ابی حاتم پر پیش کیا اور سوال کیا کہ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  روایت کرتے ہیں

عَنِ ابْنِ أَبِي ذئبٍ  ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ  ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قال: قال رسولُ الله (ص)   : إِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ ، فَأَنَا قُلْتُهُ، وَإِذَا بَلغَكُمْ عَنِّي حَدِيثًا  لاَ يَحْسُنُ بِي أَنْ أَقُولَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَمْ أَقُلْهُ.

قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ؛ الثقاتُ لا يَرْفَعُونَهُ

ابْنِ أَبِي ذئبٍ روایت کرتے سعید المقبری سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو کوئی حدیث پہنچے جو اچھی لگے کہ میں نے کہی ہو تو اس کو میں نے ہی کہا ہے اور اگر تم کو حدیث پہنچے جو اچھی نہ لگے کہ میں نے کہی ہو تو وہ مجھ سے نہیں نہ میں نے اس کو کہا ہے

ابی حاتم نے کہا یہ حدیث منکر ہے – ثقات اس کو نہیں پہچانتے

یعنی  سعید المقبری  کی باپ سے ان کی ابو ہریرہ سے روایت منکر بھی کہی گئی ہے

امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں ایک اور روایت کا حوالہ دیا

وَقال ابْنُ طَهمان،  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب، عَنْ سَعِيدٍ المَقبُريّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم؛ مَا سَمِعتُم عَنِّي مِن حَدِيثٍ تَعرِفُونَهُ فَصَدِّقُوهُ.  وَقال يَحيى: عَنْ أَبي هُرَيرةَ، وَهُوَ وهمٌ، لَيْسَ فِيهِ أَبو هُرَيرةَ.

ابْنِ أَبي ذِئب نے سعید المقبری سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میری جو حدیث سنو اس کو پہچانو تصدیق کرو اور یحیی نے کہا یہ عن ابو ہریرہ ہے –   لیکن یہ وہم ہے اس میں ابو ہریرہ نہیں ہے

یعنی امام بخاری کے نزدیک   ابْنِ أَبي ذِئب کی روایت میں سعید المقبری نے براہ راست نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  عَنِ ابْنِ أَبي ذِئب نے دور اختلاط میں سنا ہے

یاد رہے کہ ابن أبي ذئب مدلس بھی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ رجال کے حوالے سے احتیاط سے بھی کام نہیں لیتے تھے

اس سند میں عبد الرحمن بن مهران بھی  ہے – جس کے بارے میں محدثین کی معلومات کم ہیں

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

البرقانی کہتے ہیں میں دارقطنی سے کے بارے میں پوچھا  کہا  مدنی بوڑھا اعتبار کیا جاتا ہے

یہاں اعتبار محدثین کی اصطلاح ہے  کہ روایت لکھ لی جائے حتی کہ شاہد ملے

ابن حجر نے صرف مقبول من الثالثة  تسرے درجے کا مقبول کہا ہے – اس کی وضاحت خود تقریب میں اس طرح کی

من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ ” مقبول ” حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.

جس کی احادیث بہت کم ہوں اور اس پر کوئی بات ثابت نہیں کہ اس کی حدیث ترک کی جائے تو اس کے لئے مقبول کا لفظ سے اشارہ کیا ہے  جب متابعت ہو ورنہ یہ لین الحدیث ہو گا

یعنی ایسا راوی جس پر کوئی جرح کا خاص کلمہ نہ ہو اس کی احادیث بھی کم ہوں تو اس کی روایت لکھی جائے گی جسکی  روایت کی متابعت ملنے پر یہ مقبول کہلائے گا وگرنہ لین الحدیث  (کمزور ) ہے

ان وجوہات کی بنا پر اس طرق کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا

اب کس کی روایت سعید المقبری سے لیں؟

وقال الساجي: حدثني أحمد بن محمد قال: قلت ليحيى بن معين: من أثبت الناس في سعيد المقبري؟ قال: ابن أبي ذئب

ابن معین نے کہا اس سے روایت کرنے میں اثبت ابن أبي ذئب ہے

ابن حراش: جليل، أثبت الناس فيه الليث بْن سَعْد –  ابن خراش نے کہا اثبت لیث ہے

دارقطنی کہتے ہیں

لأنَّ الليث بن سعد ضبط عن المقبري ما رواه عن أبي هريرة، وما رواه عن أبيه عن أبي هريرة

لیث بن سعد یاد رکھتے تھے المقبری کی روایت جو انہوں  نے ابو ہریرہ سے روایت کی اور جو انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے  ابو ہریرہ سے روایت کی

  وقال عبد الله: سَمِعتُهُ يقول (يعني أَباه) : أصح الناس حديثًا عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ليث بن سعد، يفصل ما روى عن أبي هريرة، وما (روى) عن أبيه، عن أبي هريرة، هو ثبت في حديثه جدًا. «العلل» (659) .

عبد الله نے کہا میں نے باپ سے سنا کہ سعید المقبری سے روایت کرنے میں سب سے صحیح ليث بن سعد ہے جو واضح کرتے ہیں جو یہ اپنے باپ سے وہ ابو ہریرہ سے روایت کر دیتے ہیں اور جو یہ صرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں

محدثین میں بعض نے لیث کی سند پسند کی اور بعض نے ابن أبي ذئب کی سند – لیکن جیسا واضح کیا اس میں ابن أبي ذئب بھی قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ محدثین کی اس طرق سے روایت کردہ متن کو رد کرتے ہیں- لیث کو اس لیے پسند کیا جاتا تھا کہ وہ تمیز کر لیتے تھے کہ سعید المقبری نے  اختلاط میں جو روایات اپنے باپ سے اور ابو ہریرہ سے روایت کی ہیں ان میں کون سی صحیح ہیں گویا یہ ایک طرح کا لیث کا اندازہ ہے جس کی بنیاد پر سعید المقبری کے اختلاط والی روایات کو لیا گیا ہے

 الليث بن سعد بن عبد الرحمن بن عقبة مصری ہیں سن ٩٤ میں پیدا ہوئے اور سن ١١٣ میں حج کیا  اور ١٧٥ میں وفات ہوئی

قال ابن بكير  سَمِعْتُ اللَّيْثَ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَمائَةٍ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِيْنَ سَنَةً

ابن بکیر نے کہا میں نے اللَّيْثَ سے سنا کہ انہوں نے امام الزہری سے مکہ میں سن ١١٣ میں سنا

  سعید المقبری سن ١١٩ ھ سے ١٢٣ ھ تک مختلط تھے- محدثین کا یہ کہنا کہ لیث کے اندر صلاحیت تھی کہ وہ سعید المقبری کی سند میں علت کو جان لیتے تھے ظاہر کرتا ہے کہ سعید المقبری میں اختلاط کی کیفیت شروع ہی ہوئی تھی کہ لیث نے ان سے سنا

عجیب بات یہ ہے کہ لیث کو جب سعید یہ روایت سناتے ہیں تو اس کو سعید الخدری رضی الله عنہ کی حدیث کہتے ہیں اور جب ابن ابِي ذئبٍ کو یہ سناتے ہیں تو اس کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث قرار دیتے ہیں

اس اشکال کو اپ مندرجہ ذیل جدول میں دیکھ سکتے ہیں

ابن ابِي ذئبٍ کی سند

 

قال البَرْقانِيّ: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ عبد الرحمن بن مهران، عن أبي هريرة، فقال: شيخ مدني، يعتبر به

لیث کی سند کتاب
حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند أبي يعلى

 

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ سنن نسائی
حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ مسند احمد
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ مسند احمد
حَدَّثَنا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: صحیح بخاری
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صحیح بخاری
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أبو داود الطيالسي
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، مسند أحمد
حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَحَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ أَبِي هُرَيْرَةَ مسند أحمد
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ سنن نسائی
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،

 

صحیح ابن حبان

المزی تہذیب الکمال میں  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة  کے ترجمہ میں یہ روایت لکھ کر کہتے ہیں

هكذا رواه ابن أَبي ذئب، وخالفه الليث بْن سعد (س)  فرواه عَنْ سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ

ایسا ابن أَبي ذئب نے روایت کیا ہے (یعنی  ابن أَبي ذئب عَن سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرة ) اور ان کی مخالفت کی ہے الليث بْن سعد نے انہوں نے اس کو  سَعِيد الْمَقْبُرِيِّ، عَن أَبِيهِ، عَن أَبِي سَعِيد الخُدْرِيّ کی سند سے روایت کیا ہے

راقم کے خیال میں یہ روایت دور اختلاط کی ہے جس کی بنا پر اسناد میں یہ گھپلا پیدا ہو رہا ہے اور چونکہ لیث کا حجاز پہنچنا بھی اسی دور کے پاس کا ہے جس میں لیث کو مختلط کہا گیا ہے گمان غالب ہے کہ اسناد میں  یہ تضاد اس کیفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ سفیان بن عُيَيْنَة،   سعید المقبری کے پاس  پہنچے لیکن

فإن ابن عُيَيْنَة أتاه فرأى لعابه يسيل فلم يحمل عنه، وحدث عنه مالك والليث

اس کا لعاب اس کے منہ سے بہہ رہا تھا لہذا نہیں لکھا

سفيان بن عيينة بن أبي عمران ميمون سن ١٠٧ میں پیدا ہوئے

کتاب سیر الاعلام النبلاء از الذھبی کے مطابق

سمع في سنة تسع عشرة ومائة ، وسنة عشرين ، وبعد ذلك

سفيان بن عيينة نے سن ١١٩ اور ١٢٠ اور اس کے بعد سنا ہے

سفيان بن عيينة کوفہ میں پیدا ہوئے اس کے بعد حجاز کا سفر کیا جہاں ١١٩ کے بعد لوگوں سے سنا اس دور میں انہوں نے سعید المقبری کو دیکھا جن کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا

تہذیب الکمال کے مطابق

وَقَال نوح بْن حبيب القومسي: سَعِيد بْن أَبي سَعِيد، وابن أَبي مليكة، وقيس بْن سَعْد، ماتوا سنة سبع عشرة ومئة.

نوح بْن حبيب نے کہا کہ سعید بن ابی سعید کی موت سن ١١٧ میں ہوئی

 خليفة بْن خياط کے بقول ١٢٦ میں ہوئی

أَبُو بَكْر بْن أَبي خَيْثَمَة اور ابن سعد کے مطابق ١٢٣ میں ہوئی

وَقَال الواقدي، ويعقوب بْن شَيْبَة، وغير واحد: مات فِي أول خلافة هشام بن عبد الملك.

الواقدي اور يعقوب بْن شَيْبَة  اور ایک سے زائد محدثین کہتے ہیں  هشام بن عبد الملك (١٠٥ سے ١٢٥ تک خلیفہ) کی خلافت کے شروع میں ہوئی

اس طرح دیکھا جائے تو  زیادہ ترمحدثین  سعید المقبری کی موت کو ١١٧ ہجری کے پاس لے اتے ہیں جس میں اللیث نے مکہ جا کر حج کیا  گویا اللیث نے سعید المقبری کو عالم اختلاط میں پایا ہے یہ قول کہ وفات ١٢٠ کے بعد ہوئی یہ ہشام بن عبد الملک کی خلافت کا آخری دور بن جاتا ہے لہذا یہ صحیح نہیں ہے- ہشام نے ٢٠ سال حکومت کی ہے تو تاریخ وفات میں  یہ کوئی معمولی فرق نہیں رہتا

اختلاط کا دورانیہ ٤ سال کا تھا لیکن تاریخ وفات میں اختلاف کی بنا پر واضح نہیں رہا کہ یہ کب شروع ہوا

اگر ١١٧ وفات لی جائے تو اس کا مطلب ہے اختلاط سن ١١٣ میں شروع ہوا

قال الْبُخَارِيّ : مات بعد نَافِع.

نافع کی موت ١١٩ یا ١٢٠ میں ہوئی ہے بحوالہ سیر الاعلام النبلاء

امام بخاری نے  تاريخ الصغير یا  التاريخ الأوسط میں  صرف یہ لکھا ہے کہ سعید المقبری کی وفات نافع کے بعد ہوئی کوئی سال بیان نہیں کیا جبکہ اختلاط کا علم ہونا ضروری ہے- امام بخاری نے یھاں سعید المقبری کے حوالے سے اللیث پر اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح سمجھا ہے

امام مالک نے بھی سعید المقبری سے روایت لی ہے لیکن یہ نہیں لکھی بلکہ روایت بیان کی

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني کی سند ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ كَيْفَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ، فَقَالَ: ” أَنَا لَعَمْرِ اللَّهِ أُخْبِرُكَ، أَتْبَعُهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَإِذَا وُضِعَتْ كَبَّرْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَصَلَّيْتُ عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ قُلْتُ: اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ “، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا قِرَاءَةَ عَلَى الْجِنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ

امام مالک نے سعید المقبری سے انہوں نے  اپنے باپ سے روایت کیا  انہوں نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ جنازہ پر نماز کیسے پڑھیں؟ ابو ہریرہ نے  کہا لعمر الله میں اس کی خبر دیتا ہوں میت کے اہل کے ساتھ ہوں گے پس جب رکھیں تو الله کی تکبیر و حمد کہیں اور نبی پر درود پھر کہیں

اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ، إِنْ كَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْهُ، اللَّهُمَّ لا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ

امام محمد نے کہا یہ قول ہم لیتے ہیں کہ جنازہ پر قرات نہیں ہے اور یہی قول ابو حنیفہ رَحِمَهُ اللَّهُ کا ہے 

قابل غور ہے  کہ امام مالک تو مدینہ کے ہی تھے انہوں نے یہ  قدمونی والی روایت  نہ لکھی جبکہ اللیث جو ١١٧ میں مصر سے آئے ان کو اختلاط کی کیفیت میں سعید المقبری ملے اور انہوں نے اس کو روایت کیا

الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے
قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين

امام حاکم نے کہا – امام مالک حکم ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر

مستدرک میں حاکم کہتے ہیں

مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ الْحَكَمُ فِي حَدِيثِ الْمَدَنِيِّينَ….. وَاحْتَجَّ بِهِ فِي الْمُوَطَّأِ

اہل مدینہ کی احادیث پر امام مالک فیصلہ کرنے والے ہیں   یہ وہ حدیث ہے جس  سے امام مالک نے موطا میں دلیل لی ہے

لہذا سعید المقبری کی روایت جو امام مالک نے نہ  لکھی ہو  اس کی کوئی نہ کوئی تو وجہ ضرور ہے جس میں یہ کلام المیت والی روایت بھی ہے

50 thoughts on “قدمونی قدمونی پر ایک نظر

  1. وجاہت

    الله آپ کو جزایۓ خیر دے – آمیں

    Reply
  2. افضل خان

    امام مالک نے جو روایت بیان کی ہے اس کے مطابق جنارہ کی نماز میں قرات نہیں ہے یا سوره فاتحہ نہیں ہے ؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ جنازہ میں سوره فاتحہ پڑھی جائے گی اس کی سند صحیح بخاری اور مصنف عبد الرزاق میں ہے
      عَبْدُ الرَّزَّاقِ،
      6427 – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جِنَازَةٍ فَقَرَأَ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ، فَقُلْتُ لَهُ فَقَالَ: «إِنَّهُ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ أَوْ إِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ
      لیکن اس روایت میں جہاں بھی یہ اتی ہے اس میں سعد بن ابراہیم کا تفرد ہے جن کی اصحاب رسول میں کسی سے ملاقات نہیں ہے

      سیر الاعلام النبلاء از الذھبی میں ہے
      سعد بن ابراھیم مدینہ کے ہیں لیکن وہاں انہوں نے روایت نہیں کیا علی المدینی نے کہا
      كَانَ سَعْدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ لاَ يُحَدِّثُ بِالمَدِيْنَةِ، فَلِذَلِكَ لَمْ يَكْتُبْ عَنْهُ أَهْلُهَا، وَمَالِكٌ لَمْ يُكْتَبْ عَنْهُ
      سعد نے مدینہ میں روایت نہیں کیا ان کے گھر والوں نے ان سے نہ لکھا امام مالک نے بھی نہ لکھا
      سفیان بن عیینہ نے مکہ میں اور شعبہ نے وسط میں ان سے لکھا ہے
      سوال  ہے کہ سعد نے اپنے شہر میں روایات بیان کیوں نہیں کیں یہاں تک کہ امام مالک  جنازہ میں سوره فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں
      اس روایت کو بیان کرنے کے باوجود امام ترمذی کے مطابق خود سفیان ثوری جنازہ میں قرات کے قائل نہیں ہیں

      مروزی نے العلل میں لکھا ہے
      وَقَالَ: كَانَ مَالك ينْتَقد الرِّجَال
      اور
      إِن مَالِكًا لم يرو عَنهُ
      امام مالک رجال پر تنقید کرتے اور انہوں نے سعد بن ابراہیم سے روایت نہیں کرتے تھے

      شرح علل ترمذی میں ابن رجب کہتے ہیں
      فإن مالكاً لم يحدث عن سعد بن إبراهيم
      امام مالک سعد بن ابراہیم سے روایت نہیں کرتے

      کتاب تحرير علوم الحديث از عبد الله بن يوسف الجديع کے مطابق علی المدینی نے کہا
      وكان مالك بن أنس يتكلم فيه، وكان لا يروي عنه مالك شيئاً، وكان سعد قد طعن على مالك في نسبه
      امام مالک ، سعد بن ابراہیم پر کلام کرتے اس سے بالکل روایت نہ کرتے اور یہ سعد امام مالک کے نسب پر طعن کرتا تھا

      ————————–
      المنتقى من السنن المسندة از ابن جارود میں ہے

      حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: ثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ طَلْحَةَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَرَأَ عَلَى جَنَازَةٍ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَجَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ وَقَالَ: «إِنَّمَا جَهَرْتُ لِأُعْلِمَكُمْ أَنَّهَا سُنَّةٌ، وَاْلْإِمَامُ كَفَّهَا»
      لیکن یہاں سفیان ثوری ہیں مدلس کا عنعنہ ہے

      خود سفیان ثوری اس روایت پر عمل نہیں کرتے – سنن ترمذی میں ہے کہ سفیان جنازہ کی نماز میں قرات نہیں کرتے تھے صرف حمد و ثنا کرتے تھے
      معلوم ہوا یہ روایت سفیان کے نزدیک خود قابل قبول نہیں ہے
      ———-

      مصنف ابن ابی شبیہ میں ہے
      حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَرَأَ عَلَى جِنَازَةٍ وَجَهَرَ، وَقَالَ: «إِنَّمَا فَعَلْتُهُ لِتَعْلَمُوا أَنَّ فِيهَا قِرَاءَةً»
      ابن عجلان نے کہا سعید المقبری نے کہا کہ ابن عباس نے جنازہ پڑھا اور اس میں جہر سے قرات کی اور کہا میں نے یہ کیا کہ تم کو معلوم ہو کہ اس میں قرات ہے

      امام مالک نے کہا ابن عجلان کو حدیث کا علم نہیں ہے
      ابن عجلان اہل مدینہ میں سے ہیں

      الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر میں ہے
      قال الحاكم: مالك هو الحكم في حديث المدنيين

      امام حاکم نے کہا – امام مالک حکم ہیں اہل مدینہ کی حدیث پر

      اب علت یہ ہے کہ امام مالک نے اس روایت کو چھوڑ کر سعید المقبری کی موطا میں وہ روایت لکھی ہے جس میں قرات کا ذکر نہیں ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
      جو اس بلاگ کے آخر میں لکھی گئی ہے
      ——–

      ایک روایت مستدرک میں شرحبيل بن سعد کی سند سے ہے
      أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ثنا مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، حَدَّثَنِي شُرَحْبِيلُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَضَرْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى بِنَا عَلَى جِنَازَةٍ بِالْأَبْوَاءِ وَكَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ رَافِعًا صَوْتَهُ بِهَا، ثُمَّ صَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
      لیکن شرحبيل بن سعد بہت ضعیف ہے یہاں تک کہ مورخین نے بھی اس کو چھوڑ دیا
      قال يحيى القطان: سئل محمد بن إسحاق عنه فقال: نحن لا نروى عنه شيئا

      =========
      بعض اہل حدیث مثلا ابو جابر دامانوی نے اپنی کتاب نماز جنازہ کا مسنون طریقہ میں کہا ہے کہ قرات کی روایت اصحاب رسول میں اور بھی بیان کرتے ہیں پھر دلیل دی کہ مصنف عبد الرزاق میں ابو امامہ بن سھل بن حنیف کی روایت ہے اور ان صاحب کو رضی الله عنہ لکھ کر دھوکہ دیا گویا کہ یہ کوئی صحابی ہو
      صحیح یہ ہے کہ ان کا سماع رسول الله سے نہیں اور جس روایت کا حوالہ دیا وہ مصنف عبد الرزاق میں ہے
      أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سُهَيْلِ بْنِ حُنَيْفٍ يُحَدِّثُ ابْنَ الْمُسَيِّبِ قَالَ: «السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ أَنْ يُكَبِّرَ، ثُمَّ يَقْرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، ثُمَّ يُصَلِّيَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يُخْلِصَ الدُّعَاءَ لِلْمَيِّتِ، وَلَا يَقْرَأَ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى، ثُمَّ يُسَلِّمَ فِي نَفْسِهِ عَنْ يَمِينِهِ»،
      اس میں ابو امامہ نے اس کو سعید المسیب کا قول نقل کیا ہے نہ کہ حدیث رسول اور آخر میں امام ابن المسیب کا قول ہے کہ امام سیدھی جانب سلام پھیرے گا

      =========
      مسند الشافعی کی روایت ہے
      أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَى عَلَى الْجِنَازَةِ.
      عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے جنازہ میں سوره فاتحہ پڑھی
      اس کی سند میں موسی بن وردان ہے جس کو ابن معین نے ضعیف اور ابن عدی نے کمزور قرار دیا ہے
      ———-
      مسند حمیدی اور طبرانی کی روایت میں سهل بن عتيك الأنصاريّ رضی الله عنہ کے جنازہ کی نماز کا ذکر ہے کہ اس میں فاتحہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھی
      لیکن اصابہ از ابن حجر نے حمیدی کی روایت ہے
      وأخرج من طريق الحميدي، عن يحيى بن يزيد بن عبد الملك النوفلي، عن أبي عبادة الزرقيّ، عن ابن شهاب، عن عبيد اللَّه بن عبد اللَّه بن عتبة، عن ابن عباس- أنّ رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلم لما أتي بجنازة سهل بن عتيك كبّر عليها أربعا، وقرأ بفاتحة الكتاب.
      [وقال: وقفه محمد بن الحسن وضحاك، وقاله عن يحيى- وهو غريب من حديث الزّهري، لا يعرف إلا من هذا الوجه

      میزان الاعتدال میں ہے
      يحيى بن يزيد بن عبد الملك النوفلي المدني.
      قال أبو حاتم: منكر الحديث، لا أدرى منه أو من أبيه.

      اور طبرانی کی روایت پر ابن حجر کہا
      فإن الطّبراني أخرجه من طريق يعقوب بن يزيد، عن الزّهري، ولكن لا ذكر فيه لابن عتيك، ولا لرفع الحديث، بل هو موقوف على ابن عبّاس وهو شاذّ من حيث السّند، فإن المحفوظ عن الزّهري في هذا ما رواه يونس وشعيب عنه عن أبي أمامة بن سهل، عن رجال من أصحاب النبيّ صلّى اللَّه عليه وسلم موقوفا. ومن رواية الزهري عن محمد بن سويد عن الضّحاك بن قيس عن حبيب بن مسلمة موقوفا أيضا
      ابن عباس کی روایت شاذ ہے اور محفوظ وہ ہے جو ابو امامہ نے رجال اصحاب النبی سے روایت کیا ہے

      راقم کہتا ہے کہ ابو امامہ نے اصلا ابن المسیب سے اس کو سنا ہے
      ابن حجر نے لکھا ہے کہ الضحاك بن قيس الفهري نے بھی اس کو موقوف روایت کیا ہے
      کتاب جامع التحصیل کے مطابق ابی حاتم اور ابن عبد البر کے مطابق یہ صحابی نہیں ہے

      اسی طرح حبيب بن مسلمة الفهري پر بھی اتفاق نہیں ہے کہ واقعی صحابی ہیں یا نہیں
      ———-
      سنن الکبری البیہقی میں ہے
      أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ السُّنَّةَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ أَنْ يُقْرَأَ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً ثُمَّ يُكَبِّرُ ثَلَاثًا وَالتَّسْلِيمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ»
      ابی امامہ سھل نے کہا جنازہ میں قرات ہے
      لیکن یہ صحابی نہیں اور یہ انہوں نے ابن المسیب کا قول بیان کیا ہے

      ——-
      فقہاء نے ان ضعیف روایات سے دلیل لے کر جنازہ کی نماز میں فاتحہ کا حکم کیا ہے
      البتہ احناف نے موطا کی روایت کو ترجیح دی ہے جس میں صرف حمد ہے

      طبرانی کبیر کی روایت ہے
      حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو الْقَطِرَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الطُّفَيْلِ النَّخَعِيُّ، ثنا شَرِيكٌ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «لَمْ يُوَقَّتْ لَنَا فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ قِرَاءَةٌ، وَلَا قَوْلٌ، كَبِّرْ مَا كَبَّرَ الْإِمَامُ، وَأَكْثِرْ مِنْ طَيِّبِ الْقَوْلِ»
      مسروق نے کہا ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا ہمارے لئے میت پر نماز میں قرات یا قول نہیں کی گئی ہے بس امام کی تکبیر پر تکبیر کریں گے اور اکثر اچھا قول کہیں گے
      اسی کتاب کی دوسری روایت ہے
      حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، ثنا شَرِيكٌ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، أَوْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: «لَمْ يُوَقَّتْ لَنَا عَلَى الْجَنَازَةِ قَوْلٌ وَلَا قِرَاءَةٌ، كَبِّرْ مَا كَبَّرَ الْإِمَامُ، أَكْثِرْ مِنْ أَطْيَبِ الْكَلَامِ»
      مسروق یا علقمہ نے کہا ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا ہمارے لئے جنازہ میں نہ قول ہے نہ قرات ہے – امام کی تکبیر پر تکبیر کرو اور اکثر اچھا کلام کرو

      دارقطنی نے علل میں ذکر کیا ہے کہ
      وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمْ يُوَقَّتْ لَنَا فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ. … وَالْمَحْفُوظُ قَوْلُ مَنْ قَالَ لَمْ يُوَقِّتْ لَنَا
      محفوظ وہ ہے جس میں ہے کہ ابن مسعود نے کہا کہ ہمارے لئے مقرر نہیں کیا گیا

      یعنی یہ روایت صحیح ہے محفوظ ہے

      مجمع الزوائد میں الہیثمی نے لکھا ہے
      وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَمْ يُوَقَّتْ لَنَا فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ قِرَاءَةٌ وَلَا قَوْلٌ، كَبِّرْ مَا كَبَّرَ الْإِمَامُ، وَأَكْثِرْ مِنْ طِيبِ الْكَلَامِ.
      رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.
      اس کے رجال صحیح کے ہیں

      اس اثر کو احناف نے لیا ہے

      Reply
  3. خواجہ

    راجح کیا ہے یعنی نماز جنازہ میں قرات کی جائے گی یا نہیں کی جائیگی۔؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس میں اختلاف ہے

      امام مالک اور ابو حنیفہ کے نزدیک نہیں کی جائے گی
      امام بخاری اور احمد کے نزدیک کی جائے گی

      Reply
  4. خواجہ

    عمل کس پر کیا جائے؟ ؟

    Reply
  5. خواجہ

    جزاک اللہ خیرا

    Reply
  6. خواجہ

    مرد اور عورت کی نماز پر آپ کی کوئی تحریر مل سکتی ہے؟؟

    Reply
  7. خواجہ

    آپ کے دیے گئے لنک پر کچھ خاص نہیں ملا اگر کچھ اور آپ خاص مرد اور عورت کی نماز پر تحریر دیں تو مہربانی ہوگی

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس پر کوئی تحریر نہیں کیا کیونکہ ہمارا موقف ہے کہ مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں جو احناف جدید فرق بتاتے ہیں وہ چند روایات ہیں جن میں مجہولین ہیں

      Reply
      1. خواجہ

        وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ (صحیح مسلم )
        اس سےبھی منع فرماتے کہ آدمی اپنے بازو اس طرح بچھا دے جس طرح درندہ بچھاتا ہے،

        کیا اس میں بھی شیخ مجھولین موجود ہے

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          اس کے بہت طرق ہیں
          روایت صحیح ہے

          Reply
  8. خواجہ

    بات طرق کی نہیں *الرجل*سے یہاں مرد کی تخصیص ہوتی ہے جو واضح نص ہے کہ یہاں صرف مرد سے کہا جارہا ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      بہت خوب

      بھائی راوی نے روایت بالمعنی کی ہے یا وہی الفاظ ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہے
      اپ کو شاید معلوم نہیں – یہ کوئی دلیل نہیں کہ الرجل ہے – کیونکہ مرد مرد کو(راوی راوی کو) روایت سنا رہا ہے تو وہ بات کو اپنے انداز میں کہہ رہا ہے
      مس الذکر یا مرد کا عضو تناسل چھونے پر وضو ٹوٹ جائے گا ایک عورت کی روایت ہے -سوال ہو سکتا ہے اس عورت کو کیا یہ مسائل تھے؟

      ——
      تخصص واقعي ہوئی یا نہیں کیونکہ حدیث میں أَحَدُكُمْ الفاظ بھی آئے ہیں
      عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَعْتَدِلْ، وَلَا يَفْتَرِشْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ»
      عَنْ أَنَسٍ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَعْتَدِلُ أَحَدُكُمْ فِي السُّجُودِ وَلا يَفْتَرِشُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبْعِ.
      عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ

      یہاں ہے یعنی تم میں سے کوئی سجدہ کرے
      مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں ہے
      یہاں تک کہ عائشہ رضی الله عنہا نے بھی اس کو روایت کیا ہے اور انہوں نے یہ بالکل نہیں کہا کہ یہ مرد کی نماز کے لئے ہے میں الگ طرح پڑھتی ہوں
      راقم کو احناف کی فقہ کی کتب جو معلوم ہیں ان میں اس طرح تخصیص کی کوئی دلیل نہیں معلوم
      اپ چند معروف فقہ حنفی کی کتابوں کا ذکر کریں جو عربی میں ہوں جس میں الرجل سے احادیث پر تخصیص کا اصول قائم کرنے کا ذکر ہو خیال رہے انڈیا پاکستان کے مولویوں کی کتب درکار یا دلیل نہیں ہیں

      Reply
  9. عبدالله

    السلام عليكم!

    بخاری کی کلام المیت والی روایت کی ڈاکٹر عثمانی نے جو تاویل کی ھے اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں …؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/06/Azab-e-Barzakh1.pdf

      اس کے صفحہ ١٩ اور ٢٠ پر انہوں نے لکھا ہے

      اس میں صاف آ گیا وہ مردہ ہے زندہ نہیں پھر اس سے زندگی کا اثبات کیسا

      ڈاکٹر صاحب کے دور میں اہل حدیث ابن تیمیہ والا عقیدہ رکھتے تھے کہ مردہ میں روح کبھی بھی کہیں بھی آ سکتی ہے – اس دور میں عود روح کو استثنا نہیں کہا جاتا تھا اور ان کے مخالف وہابی قریوتی اور عبد الرحمان کیلانی کا بھی یہی مذھب تھا کہ میت زندہ ہو جاتی ہے
      ڈاکٹر صاحب اس کا رد کر رہے ہیں لیکن انہوں نے اس کی تاویل پیش کی کہ یہ زبان مقال ہے
      یعنی کہنے والوں کا کہنا ہوتا ہے کہ نیک شخص ہے اور اس طرح وہ اس کو زبان و ادب کا ایک انداز کہہ رہے ہیں

      ڈاکٹر صاحب نے یہ قول مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح از ملا علی القاری سے لیا ہے

      (وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (” إِذَا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ) ” أَيْ: بَيْنَ يَدَيِ الرِّجَالِ، وَهُيِّئَتْ لِيَحْمِلُوهَا. (فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ) : ” أَيْ: بِلِسَانِ الْحَالِ أَوْ بِلِسَانِ الْمَقَالِ.
      ——
      حاشية السندي على سنن النسائي (مطبوع مع السنن)
      المؤلف: محمد بن عبد الهادي التتوي، أبو الحسن، نور الدين السندي (المتوفى: 1138هـ)

      قيل يحْتَمل أَن الْقَائِل الرّوح أَو الْجَسَد بِوَاسِطَة رد الرّوح إِلَيْهِ وَقَوله يسمع صَوتهَا الخ يدل على أَنه قَول بِلِسَانِ الْمَقَالِ لَا بِلِسَانِ الْحَالِ
      —–
      عمدة القاري شرح صحيح البخاري
      المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)

      وَقَالَ ابْن بزيزة: فِي قَوْله: (يسمع صَوتهَا كل شَيْء) . هُوَ بِلِسَان الْمقَال لَا بِلِسَان الْحَال
      —-
      المنهل الحديث في شرح الحديث
      المؤلف: الأستاذ الدكتور موسى شاهين لاشين

      أما الجمهور فعلى أن هذا القول بصوت لكنهم اختلفوا هل الناطق الجسد في تلك الحال ليكون ذلك في بشرى المؤمن وبؤس الكافر قال ابن بطال إنما يقول ذلك الروح لأن الجسد لا يتكلم بعد خروج الروح منه وقال ابن المنير لا مانع أن يرد الله الروح إلى الجسد في تلك الحال ليكون ذلك زيادة في بشرى المؤمن وبؤس الكافر وقال الحافظ ابن حجر: ظاهر الحديث أن قائل ذلك هو الجسد المحمول على الأعناق

      ———
      میری تحقیق میں یہ روایت منکر ہے یہ راوی کے اختلاط کے دور کی ہے
      تفصیل یہاں ہے
      https://www.islamic-belief.net/ابو-ہریرہ-رض-کی-چند-احادیث/

      Reply
  10. عبدالله

    اور بخاری کی قرع النعال والی روایت کی ڈاکٹر عثمانی صاحب نے جو تاویل کی ھے اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اصل میں زین ابن المنیر نے کہا کہ لاش فرشتوں کے قدموں کی چاپ سنتی ہے
      قدمونی والی روایت پر ابن المنیر کا کہنا تھا کہ جنازہ پر ہی عود روح ہو جاتا ہے
      ———

      ڈاکٹر صاحب کو اس میں فرشتوں کی قدموں کی چاپ کا قول پسند آیا انہوں نے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ عالم برزخ میں ہو رہا ہے
      لیکن اس میں بہت سے مسائل اور ہیں – عالم برزخ میں قبر بھی تو الله کے حکم سے فرشتے دے رہے یعنی برزخ کا مقام اس میں ہر جگہ فرشتے ہی فرشتے ہیں
      اس لئے انہوں نے تولی و ذھب اصحاب کا جو ترجمہ کیا ہے کہ معاملہ اختتام کو پہنچ گیا وہ ترجمہ نہیں ہے ان کا اپنا ذاتی مفہوم ہے

      مزید مسئلہ یہ ہے کہ مردہ کی چیخ جانور سنتے ہیں؟
      اس پر صحیح میں حدیث موجود ہے

      ———
      میں نے جب اس سب کو دیکھا تو پہلے چوپائے والی روایت کا معلوم ہوا کہ امام طحاوی نے اس کو رد کیا ہے
      تفصیل یہاں ہے
      ⇓ کیا چوپائے عذاب قبرسنتے ہیں
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/

      پھر قرع النعال پر معلوم ہوا کہ محدثین کا اس پر عمل نہیں – لغوی و نحویوں کے مطابق اس میں عربی کی غلطی ہے
      محققین کے نزدیک قتادہ کی منفرد روایت نہیں لی جائے گی
      یہ سب اس روایت کی علتتیں ہیں
      اس بنا پر اس کو منکر کہتا ہوں
      اس کو صحیح سمجھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط عربی بولنے کی تہمت لگانا ہے
      https://www.islamic-belief.net/حدیث-قرع-النعال-پر-ایک-نظر-٢/

      ————-

      عذاب قبر کی تمام متضاد روایات پر جو میں سمجھا ہوں وہ اس کتاب میں ہے
      https://www.islamic-belief.net/کتاب-اثبات-عذاب-القبر/

      مزید دلائل اور زین ابن المنیر نے اصل میں کیا کہا یہاں ہے
      https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2018/07/سماع-الموتی-کا-عقیدہ.pdf
      اس کا صفحہ ١٢٨ دیکھیں

      Reply
  11. ابو عبداللہ

    آپ نے لکھا کہ امام بخاری کا عقیدہ ہے کہ مردے کی چیخ جانور سنتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ سننے کا معاملہ کہاں کا ہے دنیا کا یا عالم برزخ کا؟ دوسری بات کیا روایت لانے سے محدث کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عالم برزخ میں چوپایوں کا ذکر کسی حدیث میں نہیں ملا
      آپ کے پاس کوئی اس سلسلے میں شواہد ہوں تو پیش کریں
      ————-

      محدث کا روایت پر صحیح کا حکم لگانا اس کا عقیدہ ہے- امام بخاری نے” جامع الصحیح” میں جو احادیث دی وہ مجموعی طور پر ان کے عقیدہ کی نشاندھی کرتی ہیں
      بلکہ صحیح کے علاوہ کتاب خلق افعال العباد بھی ان کے عقیدے کی ہے

      Reply
  12. ابوعبداللہ

    کیا خود بخاری کی حدیث سے ہی برزخ میں جانوروں کا ہونا ثابت نہیں ہوتا؟ کیونکہ جنت میں بیل ،بکری، اونٹنی کا ذکر تو مسلم میں ہے۔ دوسری بات ڈاکٹر عثمانی صاحب نے احمد بن حنبل کے علاوہ امام ابوداؤد پر فتوی نہیں لگایا جبکہ ابوداؤد نے اعادہ روح کی روایت کو صحیح کہا ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      صحیح بخاری کی حدیث میں جس میں چوپایوں کے عذاب سننے کا ذکر ہے وہ منکر ہے
      ⇓ کیا چوپائے عذاب قبرسنتے ہیں
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/
      ——-

      جنت میں بیل ،بکری، اونٹنی کا ذکر تو مسلم میں ہے
      تو بھائی صاحب بات ابھی بات ہو رہی ہے عذاب برزخ کی جو جہنم میں ہے جہاں پر عذاب ہوتا ہے جو بقول شخصے چوپائے سنتے ہیں
      جہنم میں چوپائے کا ذکر میرے علم میں نہیں
      ————
      ابو داود نے کہاں پر عود روح والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے ؟
      دوم ڈاکٹر صاحب نے امام احمد پر بھی عود روح والی روایت یا مسند احمد کی کسی بھی روایت کی بنیاد پر فتوی نہیں لگایا ہے بلکہ مسدد والے خط کی وجہ سے لگایا ہے کیونکہ اس میں صریحا احمد نے اس کے متن کو عقیدہ قرار دیا ہے یعنی اس مخصوص حدیث کو صحیح سمجھا ہے
      امام احمد یا ابو داود نے اپنی کتب کو “الصحیح” قرار نہیں دیا جبکہ امام بخاری کا معاملہ الگ ہے انہوں نے کتاب جامع کو “الصحیح” قرار دیا ہے
      اس کو سمجھیں

      Reply
  13. ابوعبداللہ

    میرا مطلب جہنم میں جانور نہیں بلکہ عالم آخرت میں جانور ھے مثلا”جیل کے باہر کسی قیدی کے چیخنے کی آواز سننے کا مطلب یہ تو نہیں کہ سننے والا بھی جیل میں ہے؟ دوسری بات بخاری کی روایت کی تاویل تو ممکن ہے پھر آپ کیسے لکھ رہے ہیں کہ بخاری زمین پر سننے کے قائل ہیں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا ۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی ( بات کی ) تصدیق نہیں کر سکی ۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دو بوڑھی عورتیں تھیں ، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا ، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے ۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے ۔

      یہ روایت واقعہ کسوف کی باقی روایات سے متصادم ہے اس وجہ سے قابل رد ہے
      آپ ایک ساتھ اس کو اور باقی کو صحیح نہیں کہہ سکتے – امام بخاری سے یہاں غلطی ہوئی ہے
      اور اسکی تفصیل موجود ہے
      ⇑ کیا چوپائے عذاب قبرسنتے ہیں
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/

      متن باقی واقعہ کسوف کی احادیث سے متصادم ہے

      ===============

      آپ نے کہا
      میرا مطلب جہنم میں جانور نہیں بلکہ عالم آخرت میں جانور ھے

      جب یہ آخرت میں ہے تو بھی یہ جنت کے حوالے سے ہی ہے – جہنم کے حوالے سے نہیں ہے
      ————

      جب جہنم میں چوپائے ہیں ہی نہیں اور عذاب برزخ وہاں ہو رہا ہے تو آپ کے نزدیک میت کی یہ چیخ سات آسمانوں میں زمیں میں سب میں گونج رہی ہے ؟ ایسی بات حماقت سے کم نہیں ہے
      آواز ہمیشہ محدود ہوتی ہے اس کا اس قدر بلند ہونا قبول نہیں کیا جا سکتا
      روایت کی کیا تاویل کی گئی ہے ؟ جو آپ نے کی اس سے میت مزید پاور فل ہو گئی کہ اس کی آواز زمین و آسمانوں میں سب جگہ ہے

      Reply
  14. Islamic-Belief Post author

    ڈاکٹر عثمانی صاحب چوپایوں کے سننے کے قائل نہیں کیونکہ انہوں نے مسلم کی ایک حدیث پر تبصرہ کر کے اپنا موقف وہاں واضح کر دیا ہے
    ڈاکٹر عثمانی میں اور امام بخاری میں فرق ہے
    ڈاکٹر عثمانی کا طریقہ اہل رائے جیسا ہے وہ حدیث پر رائے زنی کرتے ہیں اور بیشتر احناف میں خبر واحد سے عقیدہ نہیں لیا جاتا
    امام بخاری محدثین میں سے ہیں – محدثین خبر واحد سے بھی عقیدہ لیتے تھے

    —————–
    آپ سے سادہ سوال ہے ایک روایت صحیح سند سے ہو متن بظاہر قرآن سے الگ ہو تو علم حدیث میں ایسی روایت کا کیا حکم ہے

    جواب با حوالہ دیں کسی علم حدیث کی کتاب سے

    Reply
  15. Islamic-Belief Post author

    کیا ممکن نہیں کہ جہنم کی چیخ جنت کے جانورسنیں
    جواب
    آپ خود بتائیں کہ یہ کیسے ممکن ہے جنت تو سکون کا مقام ہے یا وہاں بھی عذاب ہے کم ازکم سماعت پر؟ ایسا ممکن ہی نہیں

    آپ کا مسلسل اصرار کیوں ہے کہ اس روایت کو مان لیا جائے تاویل کی جائے جبکہ ہم کو علم آ گیا ہے کہ کسوف کی باقی روایات سے متصادم ہے اور متن میں غلطی ہے – پھر بھی اس حدیث کی تاویل کی بات کرنا مسلک پرستی کی نشانی ہے
    —————

    ڈاکٹر عثمانی سے صرف نظر ہوا ورنہ ایسا ممکن نہیں کہ وہ اس روایت کو دیکھ کر اس کی تحقیق و تبصرہ نہ کرتے

    ڈاکٹر صاحب نے گمان کیا ہے کہ امام بخاری اگر ان احادیث کو الصحیح میں لکھا تو ان کی بھی یہی تاویلات ہوں گی جو ڈاکٹر عثمانی نے احادیث پر کی ہیں لیکن اس کی ڈاکٹر صاحب کے پاس دلیل کیا ہے ؟ کوئی نہیں ہے

    مجھے آپ کی باتوں سے فرقہ پرستی کی بو آ رہی ہے- اپ جو بات حق ہے وہ کریں ادھر ادھر ، اگر مگر کا کلام مجھ سے مت کریں
    آپ کی زیادہ توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ اگر صحیح حدیث میں علت موجود ہے تو اس کو رد کریں نہ کہ معلول حدیث کو رسول اللہ سے منسوب کرتے رہیں
    امام بخاری نے کیا سمجھا یا ڈاکٹر عثمانی نے کیا کہا اس سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ دیکھا جائے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ایسا عقیدہ بیان کیا یا راوی بھول گیا غلطی کر گیا یا مختلط ہوا یا وہم کا شکار ہوا

    مجھ پر واضح ہو چکا ہے قرع النعال ہو یا قدمونی ہو یا حیات فی القبر کی کوئی اور روایت ہو سب میں علت موجود ہے
    اس کا ذکر کتاب میں کر دیا ہے
    https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2018/08/اثبات-عذاب-قبر-A5.pdf

    ——-
    آپ نے کہا
    زمین کے جانوروں کے سننے کا عقیدہ تو خلاف قرآن ہے
    آپ کو یہ روایت سمجھنے میں مشکل ہو رہی ہے کیونکہ آپ نے اس سادہ سوال کا جواب ابھی نہیں ڈھونڈھا:

    ایک روایت صحیح سند سے ہو متن بظاہر قرآن سے الگ ہو تو علم حدیث میں ایسی روایت کا کیا حکم ہے
    جواب با حوالہ دیں کسی علم حدیث کی کتاب سے

    Reply
  16. Islamic-Belief Post author

    آپ سے جو کہا گیا پہلے وہ ثابت کریں پھر بات ہو گی

    اول : جہنم میں چوپایوں کا وجود
    دوم : سوال جس کا جواب آپ سے مسلسل مانگا جا رہا ہے
    ایک روایت صحیح سند سے ہو متن بظاہر قرآن سے الگ ہو تو علم حدیث میں ایسی روایت کا کیا حکم ہے
    جواب با حوالہ دیں کسی علم حدیث کی کتاب سے
    سوم : ابو داود نے کہاں پر عود روح والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے ؟

    Reply
  17. ابوعبداللہ

    میں نے بخاری کی روایت کی جو تاویل کی ہے وہ حرف آخر نہیں میں نےصرف امکانات پیش کئے ہیں۔اصول حدیث کی بحث میں فریقین غلط یا صحیح ہوسکتے ہیں اس سےزیادہ نہیں لیکن جناب زمین پر چوپایوں کا سننا تو عقیدے کا مسئلہ ہے اور بقول آپ کے بخاری بلاتاویل اس کفریہ عقیدےقائل تھے۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی

      اصول حدیث کی بحث میں فریقین صحیح و غلط ہو سکتے ہیں

      جب یہ اصول حدیث میں ممکن ہے تو تاویل تو پھر اس سے بھی زیادہ غلط ہو سکتی ہے کیونکہ تاویل میں کوئی اصول نہیں ہوتا کوئی کوئی بھی تاویل کر سکتا ہے
      اور آپ مان رہے ہیں کہ تاویل ایک امکان بھی ہے تو یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ یہ ہمارا کہا گیا امکان و تاویل وہی ہے جو امام بخاری نے بھی کی ہے
      اس کی دلیل آپ کے یا ہمارے پاس کیا ہے ؟ کوئی دلیل نہیں ہے

      ———
      ہم تصور کریں کہ یہ احادیث صحیح ہیں تو متن کی کیا تاویل ہے یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہا
      تو اس کی تاویل کی جاتی ہے
      لیکن جب علت معلوم ہو جائے تو پھر اس کو صحیح نہیں کہا جائے گا
      اب یہ روایت صحیح نہیں رہی لہذا اس کو حدیث رسول سمجھ کر تاویل کرنا عبث کام ہے
      ————-
      امام بخاری نے جلد بازی میں اس کو لکھا انہوں نے کیا سمجھا ہم کو علم نہیں ہے
      کیونکہ انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا
      اور تحقیق سے معلوم ہو گیا ہے یہ تمام ابواب امام بخاری کے قائم کردہ نہیں ہیں
      یہ بعد والوں کے ہیں
      ——
      زمین پر چوپائے کا سننا کا مطلب ہے کہ عذاب قبر بھی زمین پر ہی ہے
      اور فرقے یہ بات کافی دن سے پیش کر رہے ہیں کہ امام بخاری کا عقیدہ زمین پر چوپائے کے سننے کا ہے
      لیکن ہم اس کو عالم برزخ کہتے رہے ہیں کہ وہاں چوپائے ہوں گے اگرچہ اس پر ہمارے پاس کوئی صحیح حدیث نہیں ہے
      —————

      اس حدیث کو اگر صحیح تصور کریں تو اس میں چوپائے کہاں کے ہیں ؟ یہ ہم کو معلوم نہیں ہے
      کیونکہ جہنم میں چوپائے کی خبر نہیں ہے
      اب وہی امکان ہی رہ جاتا ہے کہ ممکن ہے امام بخاری نے اس کو جہنم کے چوپائے سمجھا ہو اگر وہ ہمارا جیسا عقیدہ رکھتے تھے
      اور ممکن ہے انہوں نے اس عذاب کو زمین پر ہی سمجھا ہو اگر وہ فرقوں جیسا عقیدہ رکھتے تھے
      امام بخاری کا عقیدہ اس حوالے سے کیا ہے مجھ کو علم نہیں ہے
      یہی وجہ ہے کہ اس میں اشکال رہا ہے ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ امام بخاری نے واضح نہیں لکھا کہ عذاب روح کو ہے یا جسم کو ہے

      یعنی فرقوں کو اعتراف ہے کہ صرف الصحیح میں احادیث نقل کرنے سے عذاب قبر کے حوالے سے امام بخاری کا کیا عقیدہ تھا واضح نہیں ہوتا
      اس بنا پر میں یہی کہتا ہوں مجھ کو عذاب قبر کے باب میں بخاری کے عقیدہ کا علم نہیں ہےاور اس بنا پر ان پر فتوی نہیں لگا سکتا
      اس کے علاوہ بھی بعض دیگر مسائل میں مجھے بخاری کے عقیدے کا صحیح علم نہیں ہی

      آپ نے کہا
      ////
      بقول آپ کے بخاری بلا تاویل اس کفریہ عقیدے قائل تھے۔
      ////
      ایسا میں نے نہیں لکھا تھا میں نے لکھا تھا کہ
      ////
      مزید مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری اس کے قائل ہیں کہ مردہ کی چیخ جانور سنتے ہیں
      اس پر صحیح میں حدیث موجود ہے
      ////

      یعنی یہ روایت صحیح میں موجود ہے یہ قرع النعال کے علاوہ ہے جس کی تاویل ہم کرتے رہے ہیں
      یعنی یہ مزید ایک روایت ہے جس کی تحقیق کی ضرورت تھی جو عثمانی صاحب کی جانب سے نہیں کی گئی

      میں آپ سے بحث کر کے آپ پر واضح کرنا چاہتا تھا کہ آپ غور کریں کہ احادیث کی تاویل کرنا مسائل کا حل نہیں ہے
      یہ محض گمان ہے
      بہتر یہ ہے کہ علم حدیث کی روشنی میں ہم پر حدیث کی علت واضح ہو

      ڈاکٹر عثمانی یا ہم احادیث کو متکلمین کے نہج پر پرکھتے ہیں کہ کیا یہ احادیث ان عقائد سے متصادم ہیں جو قرآن سے ملے ہیں – جب ہم تاویل کرتے ہیں تو ہمارا منہج محدثین جیسا نہیں ہے متکلمین جیسا ہوتا ہے

      ——–
      ڈاکٹر عثمانی کا یہ کہنا کہ امام بخاری ہمارا جیسا عقیدہ رکھتے تھے ایک امکان و حسن ظن ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے حدیث ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل الاجساد الانبیاء والی روایت کو دیکھا کہ امام بخاری اس کو رد کر رہے ہیں لہذا انہوں نے یہ امکان پیش کیا کہ امام بخاری کا عقیدہ حیات النبی کے حوالے سے ہمارا جیسا ہے
      یہ امکان مضبوط نہیں کیونکہ یہ بات کہ راوی نے عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کو عبد الرحمان بن یزید بن جابر کہا یہ قول بہت سے محققین و محدثین کا ہے جن میں ابو داود، دارقطنی ، ابن رجب بھی ہیں- اور اور لوگ بھی ہیں جو ہمارے جیسے عقیدہ نہیں رکھتے

      ———-
      نوٹ
      یہ چوپائے والی روایت اصلا منکر ہے صحیح نہیں لہذا اب اس کی تاویل نہیں کی جائے گی
      جب علم آ گیا منکر ہے تو منکر ہے – صحیح البخاری کی احادیث کا دفاع ہم پر فرض نہیں ہے
      اور امام بخاری پر توقف کیا جائے گا

      Reply
  18. Islamic-Belief Post author

    بخاری چوپایوں کے سننے کے قائل تھے لیکن ان کے عقیدہ میں ابہام کی وجہ سے ان پر فتوی نہیں لگ سکتا

    —————————————

    احادیث کی دو بڑی قسموں میں احادیث متواتر ہیں یا حدیث خبر واحد

    متواتر فرقوں کے مطابق چند ہیں جو اکا دکا روایات ہیں جن سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے لیکن ہم پھر بھی ان کا انکار کرتے ہیں مثلا امام مہدی سے متعلق احادیث متواتر قرار دی گئی ہیں

    خروج دجال کی خبریں ، پل صراط، محشر میں شفاعت، رویت باری تعالی صحیح بخاری میں صحیح مسلم میں موجود ہیں – محدثین نے ان عقائد کو پھیلایا ہے
    پھر متاخرین نے ان پر تواتر کا دعوی کیا ہے
    —————-
    ڈاکٹر صاحب نے لکھا
    اصحاب حدیث کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں
    ایمان خالص ص ٢٤ پر

    میرے نزدیک یہ جملہ درست نہیں ہے یہ جملہ ہونا چاہیے تھا
    احناف کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں

    یہ دعوی احناف کا ہے – تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ امام احمد اور ان کے ہمنوا محدثین کا گروہ حدیث ضعیف خبر واحد تک کو عقائد میں قابل حجت سمجھتا تھا
    لہذا تمام اصحاب حدیث پر ڈاکٹر عثمانی کا جملہ ثابت نہیں ہوتا

    ———————–
    میرے نزدیک احادیث کو متواتر یا خبر واحد کے تحت دیکھنا بے کار کام ہے
    میں خود خبر واحد کو عقیدہ میں حتمی نہیں سمجھتا البتہ میں خروج دجال کا پل صراط، محشر میں شفاعت، رویت باری تعالی قائل ہوں لیکن صحیح بخاری و مسلم کی اس حوالے سے ہر روایت کو صحیح و متواتر نہیں سمجھتا – بعض اوقات تواتر بھی بے معنی ہو جاتا ہے جب تمام ضعیف و کذاب مل کر اس کو روایت کریں اور بعض اوقات ایک خبر واحد بھی اہم ہوتی ہے

    Reply
  19. Islamic-Belief Post author

    امام بخاری کا جملہ محدثین سے یہی اختلاف تھا کہ فقہ و عقیدہ میں ضعیف سے دلیل نہیں لے سکتے – اسی لئے انہوں نے اغلبا جامع الصحیح لکھی

    امام بخاری خبر واحد صحیح کی روایات کو عقیدہ میں بیان کرتے ہیں جن کو ہم بھی قبول کر رہے ہیں
    مثلا خروج دجال
    جسر جہنم
    شفاعت
    وغیرہ
    ————
    جب تک صریحا معلوم نہ وہ کہ کیا عقیدہ رکھا گیا صرف روایت نقل کرنے سے اس کی تفسیر معلوم نہیں ہوتی
    اس لئے ان پر توقف کیا جائے گا یعنی میں ان کو کافر نہیں کہتا
    توقف کا مطلب ہے کوئی رائے نہیں- سکتوا عنہ ان پر خاموشی ہے
    یہی کام امام بخاری نے امام ابو حنیفہ پر کیا ہے ان کی آراء پر سکوت کیا ہے

    Reply
  20. Islamic-Belief Post author

    ڈاکٹرعثمانی رحمة الله عليه تو خبر واحد صحیح پر بھی عقیدہ بنانے کے قائل نہیں
    ———–
    تبصرہ
    ڈاکٹر عثمانی نے یہ لکھا ہے لیکن اس پر ان کا عمل نہیں ملا – ڈاکٹر صاحب عقائد میں ان باتوں کے قائل ہیں جو متواتر نہیں ہیں
    ڈاکٹر عثمانی تو امام مہدی کے قائل نہیں جبکہ محدثین محققین کی ایک جماعت اس کو متواتر کہتی ہے

    ———-
    آپ نے کہا
    ////
    خبر واحد صحیح بھی بہرحال ظنی ہوتی یے اور ظنی الثبوت پر عقیدہ استوار نہیں کیا جا سکتا
    ///////

    جب آپ کہہ رہے ہیں خبر واحد ظنی ہیں تو پھر احادیث ظن ہوئیں – عذاب قبر کی روایات ظن ہو گئیں لیکن ہم پھر بھی ان پر بحث کر رہے ہیں – یا تو ہم ان کو مان لیں یا چھوڑ دیں لیکن ہم ایسا نہیں کر رہے
    لہذا اس قسم کا جملہ جو ڈاکٹر صاحب نے لکھا بے معنی ہے کیونکہ وہ عذاب قبر کا خود انکار نہیں کر رہے

    —————

    اصل میں یہ فقہاء کا قول تھا کہ خبر مشہور ہے اور خبر واحد ہے – احناف فقہ میں خبر مشہور کو لیتے ہیں خبر واحد کو نہیں
    خبر مشہور جو بہت سے لوگ روایت کریں- جو ممکن نہ ہو کہ ایسا عمل کسی سے چھپا رہ گیا ہو
    اس خبر مشہور کا مقابلہ خبر واحد سے تھا

    پھر متاخرین شوافع اور حنابلہ نے خبر مشہور کی بحث کو چھپا کر خبر متواتر کی اصطلاح ایجاد کر لی اور خبر واحد کا مقابلہ خبر متواتر سے کرنا شروع کر دیا – اس طرح خبر متواتر اور خبر واحد بن گئی
    عقائد میں کہا گیا کہ فلاں خبر کا تواتر ہے جب وہ قرآن میں موجود نہ ہوں اور ان روایات کو متواتر قرار دیا گیا
    یہ طریقہ چل نکلا کہ عقائد میں خبر واحد اور متواتر کی اصطلاح استعمال ہونے لگی

    تواتر میں تو کذاب راوی بھی لیا جاتا ہے اگر کذاب و ضعیف و ثقہ مل جائیں تو محدثین اس روایت کو تواتر تک لے جاتے ہیں

    میرے نزدیک تواتر بھی بعض اوقات ہم قبول نہیں کر رہے (مثلا مہدی ) بلکہ خبر واحد کو قبول کر رہے ہیں مثلا روز محشر شفاعت یا رویت باری تعالی
    —————–

    ہمارا منہج یا ڈاکٹر عثمانی کا منہج محدثین جیسا ہے ہی نہیں کہ وہ تواتر یا خبر واحد کی بحثوں میں الجھیں بلکہ پہلے بھی میں نے کہا ہمارا منہج متکلمین اشاعرہ جیسا ہے ہم احادیث کی تاویل کرتے ہیں ہم خبر مشہور کو دیکھتے ہیں ہم قرآن سے عقائد کو دیکھ رہے ہیں
    یہ انداز متکلمین کا ہے
    ہمارا مقابلہ ان محدثین سے ہے جو قرن ثلاثہ میں عقائد میں خبر واحد کو لیتے تھے مثلا امام احمد سے لے کر دارقطنی تک ایک مرسل تابعی مجاہد کے قول پر اس عقیدہ کے حامل تھے کہ عرش پر روز محشر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھا دیا جائے گا
    اس کی مخالفت کرنے والے کو وہ جھمی کہتے تھے اور آج تک یہ عقیدہ وہابیوں میں موجود ہے
    لہذا محدثین کے نزدیک خبر واحد مرسل بھی یقینی ہوتی یے اور اس پر عقیدہ استوار بالکل کیا جا سکتا ہے

    اس مثال سے واضح ہو جاتا ہے کہ عقائد میں ہمارا یا ڈاکٹر عثمانی کا منہج محدثین جیسا بالکل نہیں ہے

    Reply
  21. Islamic-Belief Post author

    ڈاکٹرصاحب رحمة الله عليه نے امام بخاری کو ہم عقیدہ کیوں کہا مجھ کو علم نہیں کیونکہ اسکی کوئی واضح دلیل انہوں نے نہیں دی کہ سمجھا جا سکے کہ ان کی آراء اور امام بخاری کی آراء ایک ہیں
    یہ محض ڈاکٹر صاحب کی ایک رائے ہے جس کی دلیل ان کے پاس نہیں ہے

    آپ کے پاس دلیل ہو تو عرض کریں
    ———-
    عقیدہ قرآن پر بنا ہے تو کیا ہوا – مخالف کے نزدیک بھی اس میں کوئی بحث نہیں ہے کہ عقیدہ قرآن سے لیا جائے گا بلکہ مخالف کے نزدیک خبر واحد غیر صحیح مرسل تک سے عقیدے ثابت ہو جاتے ہیں –
    بحث اس میں ہے ہی نہیں کہ قرآن پر عقیدہ لیا جائے گا یا نہیں – سب فرقے اس کے قائل ہیں کہ قرآن سے عقیدہ لیا جائے گا
    بحث اس میں تھی کہ خبر واحد سے جو بقول ڈاکٹر عثمانی ظنی ہیں ان سے عقیدہ لیا جائے گا یا نہیں ؟

    فرقوں میں سے بھی بعض عذاب برزخ کو عذاب قبر کی ایک شکل کہتے آئے ہیں مثلا ابن کثیر یا ابن تیمیہ وغیرہ –

    ہم جس برزخی جسم کے قائل ہیں اس کی دلیل قرآن میں نہیں ہے انہی ظنی اخبار احاد میں ہے
    برزخی جسم کی دلیل پر ڈاکٹر عثمانی نے بھی اخبار احاد ہی پیش کی ہیں
    یعنی ہم خود قرآن اور ظنی احادیث کو ملا کر ایک موقف رکھتے ہیں تو پھر دوسروں کو کیسے کہیں کہ خبر واحد پر عقیدہ نہ لو

    کیا عقائد میں صرف عذاب قبر کا مسئلہ ہی رہ گیا ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے دیگر عقائد کے مسائل میں خبر واحد سے متعدد مقام پر دلیل لی ہے
    تعویذ کے حوالے سے حسن روایات تک سے دلیل لی ہے

    Reply
  22. Islamic-Belief Post author

    آپ نے کہا
    ///

    عقیدہ مفید علم نظری پر کیوں استوار کیا جائے
    ///
    گویا آپ کا کہنے کا مقصد ہے کہ احادیث بالکل غیر ضروری ہیں ؟ عقیدے میں ان کی ضرورت نہیں
    امام بخاری تو مفید علم نظری کو ہی عقیدے کے طور پر پیش کرتے ہیں
    اور ڈاکٹر عثمانی نے بھی کتب میں اس کا انکار نہیں کیا ہے صرف ایک جملہ سے ان کی کتب کو رد نہیں کیا جا سکتا جس میں مقصد کیا ہے معلوم نہیں
    بعض اوقات مخالف کی غلطی کو بھی بیان کیا جاتا ہے اور خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا ان کے مخالف کا قول ہے اسی لئے انہوں نے اس کو پیش کیا تھا – اس مقصد کے تحت نہیں کہ انکار حدیث کیا جائے

    ———
    پھر بقول آپ کے
    ////
    برزخی جسم کو ڈاکٹر صاحب رح نے بطور عقیدہ نہیں مانا ہے
    ////
    ======================================
    میں آپ کی ان دونوں باتوں سے اتفاق نہیں کرتا ڈاکٹر صاحب نے اگر ان کو عقیدہ نہیں مانا تو عذاب و راحت کے لئے ہی برزخی جسم انہوں نے پیش کیا ہے
    اور عصر حاضر میں ان کے سوا کون ہے جس نے ان احادیث کو پیش کیا ہو سوائے ان کے
    دوم ڈاکٹر عثمانی سے آپ ملے بھی نہیں ہوں گے میں نے ان کو دیکھا سنا ہے لہذا مجھے اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہے کہ انہوں نے اخبار احاد پر بھی عقیدہ رکھا ہے

    کیا عقائد میں صرف عذاب قبر کا مسئلہ ہی رہ گیا ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے دیگر عقائد کے مسائل میں خبر واحد سے متعدد مقام پر دلیل لی ہے
    تعویذ کے حوالے سے حسن روایات تک سے دلیل لی ہے

    Reply
  23. Islamic-Belief Post author

    اپ نے جو پہلے کہا
    ////
    عقیدہ مفید علم نظری پر کیوں استوار کیا جائے
    ////
    اور جو اب کہا اس سے یہی نکلا ہے کہ عقیدے میں احادیث کی ضرورت نہیں جبکہ ڈاکٹر عثمانی نے برزخی جسم اسی سے لیا ہے اور کہیں بھی اس کو اپنی رائے کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ عذاب و راحت قبر کے لوازم میں سے بیان کیا ہے چاہے سبز پرندوں والی حدیث ہو یا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہو
    لہذا میں آپ سے اس حوالے سے اتفاق نہیں کرتا کہ احادیث کو عقائد میں نہ لیا جائے
    ———–
    قرآن کی آیات قطعی الثبوت ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں

    انکار روایت تو حسن کا یا صحیح کا بھی کیا جا سکتا ہے لیکن جب آپ اپنے عقائد کی دلیل کسی حدیث پر رکھ رہے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ان کو صحیح ہی سمجھ رہے ہیں
    اور اس طرح مطلق احادیث یا اخبار احاد کو بھی ایک ڈبے میں نہیں ڈالا جا سکتا کہ یہ سب غیر یقینی ہیں

    آپ کا کہنا ہے

    ////
    برزخی جسم کو ڈاکٹر صاحب رح نے بطور عقیدہ نہیں مانا ہے
    ////
    جبکہ یہ دعوی باطل ہے انہوں نے اس کو عقیدہ ہی سمجھا ہے
    شہداء کے سبز پرندوں سے جو انہوں نے نتائج اخذ کیے ہیں وہ اس پر دال ہیں

    Reply
  24. Islamic-Belief Post author

    جناب آپ جملے تبدیل نہ کریں
    اپ یا تو کہیں کہ آپ نے غلط لکھا یا اس قول سے رجوع کیا
    .///
    عقیدہ مفید علم نظری پر کیوں استوار کیا جائے

    احادیث کو ظنی حیثیت سے مانا اور منوایا جائےگا
    ///

    یہ جملہ کس کا ہے ؟ آپ کا ہے – میں اس کی بات کر رہا ہوں

    آپ نے کہا
    ///
    خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا”
    ///
    تو خبر واحد اب مقصد کیا رہ گیا ؟ صرف یہ کہ عمل لیا جائے

    تو پھر یہ کہنا غلط کیسے ہوا کہ
    ///
    عقیدے میں خبر واحد کی ضرورت نہیں
    ///////

    نتیجہ تو یہی نکلتا ہے فرق کہاں ہے

    حدیث میں غلطی سند و متن میں ممکن ہے لیکن اس کی دلیل تو دیں محض تمام پر ایک ہی حکم لگانا صحیح نہیں ہے نہ ممکن ہے کہ اس کو لیا جائے
    ———–
    کوئی شخص برزخی جسم کا قائل نہیں تو ہم اس کو کافر نہیں کہتے لیکن مکمل اس عقیدے پر بھی نہیں سمجھتے جس سے قرآن کی آیات کو سمجھا جا سکے
    آپ بتائیں برزخ میں مجرد روح نعمت کیسے حاصل کرتی ہے ؟ کیا روح رزق کھاتی ہے ؟ اس کی تفصیل ہی تو حدیث طیر خضر میں ہے
    مجرد روح قرآن کے مطابق تو صرف ایک پھونک و ہوا ہے
    فاذا نفخت فیہ من روحی
    اس کو جسم ملے گا تو کچھ ہو گا

    Reply
  25. Islamic-Belief Post author

    عقیدے میں کیا تفصیل ہے یہ خلا احادیث سے پر ہوتی ہے – ایک آدمی ایک حدیث کی تاویل کرتا ہے یا کچھ الگ سمجھتا ہے (جو خلاف قرآن نہ وہ) تو اس سے عقیدے میں فرق تو اتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کہ وہ ہم سے کچھ الگ موقف رکھتا ہے تو ہر صورت کافر ہی ہے

    برزخی جسم کا تو میں بطور مثال ذکر کیا تھا ڈاکٹر عثمانی نے خبر واحد سے خود دلیل لی ہے اس کو اپنے عقیدے کے طور پر پیش کیا ہے
    ہم اس کو اپنے عذاب قبر کی تفہیم کے طور پر پیش کرتے ہیں
    اگر ہم برزخی جسم کا انکار کر دیں تو ایک خلا پیدا ہو گا اسی لئے آپ سے پوچھا تھا
    آپ بتائیں برزخ میں مجرد روح نعمت کیسے حاصل کرتی ہے ؟ کیا روح رزق کھاتی ہے ؟

    ———-
    اس کے علاوہ بھی عقیدے کے بہت سے مسائل احادیث پر قائم ہیں مثلا
    شفاعت روز محشر
    رویت باری تعالی
    حوض کوثر

    کیا آپ ان سب کا بھی انکار کر رہے ہیں ؟

    ————-
    نوٹ
    قرن اول کے خوارج جو اہل سنت یا اصحاب رسول سے الگ ہوئے ان پر اصحاب رسول کی جانب سے کفر کا فتوی نہیں لگایا گیا لیکن خوارج نے عقائد میں

    شفاعت روز محشر
    رویت باری تعالی
    حوض کوثر
    کا انکار کیا ہے کہ یہ قرآن میں موجود نہیں ہیں
    اس طرح یہ موقف اہل سنت سے ہٹ جاتا ہے اور عقیدہ وہ نہیں رہتا ہو اہل سنت یا اصحاب رسول کا ہے

    Reply
  26. Islamic-Belief Post author

    خوارج نے سنت کا یا حدیث کا انکار نہیں کیا ہے
    ان کی بھی احادیث کی کتب ہیں

    انہوں ان عقیدے کی باتوں کا انکار کیا ہے کہ یہ قرآن میں موجود نہیں
    شفاعت
    رویت باری تعالی
    حوض کوثر

    آپ جو بات کر رہے ہیں وہ اسی طرف جا رہی ہے کہ خبر احاد عقیدے میں بالکل نہیں لی جا سکتیں
    .///
    عقیدہ مفید علم نظری پر کیوں استوار کیا جائے

    احادیث کو ظنی حیثیت سے مانا اور منوایا جائےگا
    ///
    سنت کی خبر کس نے دی؟ مفید علم نظری یا احادیث سے ہی ملی ہے اور اب یکایک آپ کا موقف بدل گیا کہ حجیت سنت کی بات کرنے لگے

    ————-
    عقیدے کے اندر معمولی سی معمولی خرابی بھی ناقابل معافی جرم یے”

    ایسا عقیدہ اگر ہو جو قرآن سے متصادم ہو جائے تو یقینا کافر ہے
    لیکن جزیات میں اختلاف ممکن ہے
    مثلا کوئی برزخی جسم کا انکار کرے تو کافر نہیں کہوں گا لیکن کوئی عود روح کا قائل ہے تو کہوں گا
    اس میں میرا عثمانی صاحب سے کوئی اختلاف نہیں ہے

    ———–
    آپ نے اس بحث میں سوالات کے جواب نہیں دیے ہیں اس کی وجہ ؟

    اگر ہم برزخی جسم کا انکار کر دیں تو ایک خلا پیدا ہو گا اسی لئے آپ سے پوچھا تھا
    آپ بتائیں برزخ میں مجرد روح نعمت کیسے حاصل کرتی ہے ؟ کیا روح رزق کھاتی ہے ؟

    ایک روایت صحیح سند سے ہو متن بظاہر قرآن سے الگ ہو تو علم حدیث میں ایسی روایت کا کیا حکم ہے

    آپ نے کہا برزخ میں چوپائے ہوں گے لیکن دلیل نہیں دی

    آپ نے کہا ابو داود نے عود روح والی روایت کو صحیح کہا ہے تو میں نے پوچھا تھا ابو داود نے کہاں پر عود روح والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے ؟

    آپ ان سوالات کا جواب کیوں نہیں دے رہے

    Reply
  27. Islamic-Belief Post author

    بھائی میں نہیں آپ عجیب بات کر رہے ہیں
    آپ فرقوں کی جب بات کرتے ہیں تو حدیث ماننے والوں کو حدیث کا مطلق انکار کرنے والوں سے ملا دیتے ہیں
    جو اپ کے تجزیوں کا نقص ہے

    اپ کو خوارج کے بارے میں کیا معلومات ہیں ؟ ان کی کسی کتاب کا حوالہ دیں کہ وہ حدیث کے بارے میں پرویز جیسی فکر رکھتے ہیں – یہ محض آپ کا بہتان ہے ان پر اور اس قسم کی حرکت فرقہ پرست ہمارے حوالے سے کرتے ہیں – کم از کم آپ تو ایسا مت کریں کہ بلا دلیل کسی پر جرح کرنی ہو تو اسکو خارجی یا پریزی یا منکر حدیث سے ملا دیا

    خوارج اپنی سند سے حدیث کی کتب رکھتے ہیں

    آنندہ آپ بات کریں تو خوارج کی کسی کتاب کا حوالہ دیں
    ———–

    آپ چاہ رہے ہیں کہ میں آپ پر فتوی لگا دو کہ آپ چونکہ برزخی جسم کے قائل ہیں آپ گمراہ ہیں
    تو بھائی میں ایسا نہیں کروں گا
    کیونکہ حدیث طیر کی تاویل بھی کی گئی ہے بعض نے ان احادیث سے روح کو ہی جسم قرار دیا ہے اور بعض نے اس روح کے لئے نیا جسم لیا ہے
    یہ حدیث کی تاویل کا فرق ہے جو قرآن سے متصادم نہیں ہے
    تاویل تو ڈاکٹر عثمانی نے بھی احادیث کی کی ہے اس بنا پر ان پر فتوی نہیں لگے گا

    اصل بات یہ ہے کہ کیا تاویل ایسی ہو گئی جو قرآن سے متصادم ہوئی تو فتوی لگے گا

    عقائد میں کیا عذاب قبر ہی بحث کے لئے رہ گیا ہے ؟
    ———–
    آپ نے دعوی کہ اس حدیث کے ہر متن میں جوف کا لفظ ہے تو ایسا نہیں ہے

    حدیث طیر کے الفاظ روایات میں الگ الگ ہیں
    ⇓ حدیث میں الفاظ أَرْوَاحُهُمْ كَطَيْرٍ خُضْرٍ بھی اتے ہیں مراد ہے کہ روحیں سبز پرندوں کی طرح اڑتی ہیں
    https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت-٢/

    بعض میں ہے کطیر پرندوں کی طرح
    اور بعض میں ہے

    جوف طیر
    اور یہ اختلاف ایک ہی راوی سے آ رہا ہے لہذا اس میں تاویل کا اختلاف ممکن ہے

    ———-
    آپ سے جو جوابات درکار تھے آپ نے پھر ان کا جواب نہیں دیا

    ========================\\

    Reply
  28. Islamic-Belief Post author

    بھائی آپ سے مزید میں اب بات نہیں کر سکتا کیونکہ آپ کو اپنے لا علم ہونے کا علم نہیں ہے

    اول
    جس حدیث میں آرہا ہے وہ مفصل حدیث ہے جن میں نہیں آرہا وہ مجمل ہے

    جواب
    یہ بات آپ کو کس طرح معلوم ہوئی کہ جس حدیث میں جوف کا لفظ ہے وہ مکمل ہے ؟
    یہ دعوی باطل ہے اس حدیث کے متن کے الفاظ میں اختلاف ہے جبکہ سند ایک ہی ہے
    جس کا میں سوال و جواب ذکر کر چکا ہوں

    آپ نے نہ پڑھا ہے نہ تحقیق کی ہے اور لکھ دیا
    مجمل پر طبع آزمائی کرکے مفصل کا انکار کرنے والا آخر بدعقیدہ کیوں نہیں؟

    بھائی ایسا مت کریں کہ بلا تحقیق جملے لکھ دیں وہ بھی اس قدر طمطراق کے ساتھ کہ گویا آپ نے اس حدیث کے تمام طرق اور متن دیکھ لئے ہوں – میں اس حدیث کو کافی غور سے دیکھ چکا ہوں – شروع میں میرا بھی یہی گمان ہوا کہ فرقہ پرست اس کا متن کیوں بدلتے یا ترجمہ میں کبھی کچھ کرتے کبھی کچھ تو غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اس حدیث کا متن ایک ہی سند سے آ رہا ہے جو کوفہ کا شیعہ اعمش ہے
    وہ کبھی اس میں کطیر یعنی پرندوں کی طرح بولتا ہے تو کبھی جوف طیر بولتا ہے
    اس میں مجمل اور مفصل کی کوئی بات ہی نہیں یہ تو اختلاف متن ہے- ایسا راوی کرتے رہے ہیں
    بعض لوگوں نے اسی سے یہ نکالا ہے کہ روح پرندوں کی طرح شکل اختیار کر لیتی ہے اس کو برزخی جسم کی ضرورت نہیں ہے

    لیکن میری یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ مجھ سے بحث کیوں کر رہے ہیں اس کا مقصد کیا ہے ؟ آپ نے خود اقرار کیا ہے کہ آپ برزخی جسم کے قائل نہیں ہیں تو پھر اس حدیث کے خوف طیر خضر سے تو آپ کا مدعاا رد ہوتا ہے
    کیا آپ اپنی علمیت بھگارنے یہاں آئے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میں کوئی عالم نہیں جس سے آپ کو جیت کر کوئی تمغہ ملے گا

    ————
    آپ نے کہا تھا
    ////
    صریح الفاظ (ارواحہم في جوف طیر خضر…) سے ثابت ہے
    ///
    اسی پر میں کہہ رہا ہوں کہ
    یہ حدیث کطیر خضر کے متن کے ساتھ بھی ثابت ہے وہی سند ہے جو صحیح مسلم کی ہے اس میں اختلاف متن آ رہا ہے

    آپ نے پہلے کہا تھا
    ////
    برزخی جسم کو ڈاکٹر صاحب رح نے بطور عقیدہ نہیں مانا ہے
    ////
    تو اب ڈاکٹر صاحب نے غلط کیا یا صحیح ؟ آپ کا یہ سب بحث کرنے کا کیا مقصد ہے ؟

    ——————-

    آپ نے کہا
    ////
    ڈاکٹر عثمانی رحمة الله عليه شفاعت، رویت، حوض کوثر کے قائل ضرور تھے مگر ان کا موقف اظہر من الشمس ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا _
    ///

    الله کے واسطے عثمانی کو طاغوت مت بنائیں جو وہ تھے وہی ان کو رہنے دیں وہ بشر تھے ان سے لکھنے میں غلطی ہوئی
    وہ خبر واحد سے بھی عقیدہ لیتے تھے جس کی مثال میں دے چکا ہوں
    یہ قائل کیا بلا ہے ؟ عقائد میں قائل کا کیا مطلب ہے

    ———-
    سوال
    اصحاب رسول کی طرف سے خوارج کی محض شفاعت، رویت، حوض کوثر کی روایتوں کا انکار کرنے پر تکفیر کی گئی

    جواب اصحاب رسول نے اس پر ان کی تکفیر نہیں کی
    لیکن خود ان کا عقیدہ انہی چیزوں پر تھا

    یزید الفقیر بیان کرتے ہیں کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات (یعنی مرتکب کبیرہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا) راسخ ہو گئی تھی۔چنانچہ (ایک مرتبہ) ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ حج کے ارادہ سے نکلے کہ (حج کے بعد)پھر لوگوں پر نکلیں گے ۔(یعنی ان میں اپنا مذہب پھیلائیں گے) جب ہمارا گزر مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سے ہوا تو ہم نے دیکھا کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ایک ستون سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنارہے ہیں ۔انہوں نے اچانک دوزخیوں کا تذکرہ کیا میں نے کہا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ تم کیا حدیث بیان کرتے ہو حالانکہ اللہ تبارک وتعالیٰ تو فرماتا ہے کہ’’ انک من تدخل النار فقد اخزیتہ وکلما ارادو ان یخرجو منھا اعیدو فیھا‘‘۔ (اے ہمارے پروردگار) ـجس کو تو نے جہنم میں داخل کیا تو تو نے اس کو رسوا کر دیا اور (فرماتا ہے) جہنم کے لوگ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں ڈال دیے جائیں گے ۔اب (قرآن کریم کی ان آیات کے ہوتے ہوئے) تم کیا کہتے ہو؟ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن پڑھا ہے ۔میں نے جواب دیا جی ہاں ۔انہوں نے کہا تو پھر تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے متعلق سنا ہے جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انہیں عطا فرمائے گا۔ میں نے کہا ہاں ۔جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تو پھر یہ وہی مقام محمود ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جہنم سے جسے چاہے گا نکالے گا ۔اس کے بعد انہوں نے پل صراط پر سے گزرنے کا تذکرہ کیا اور مجھے ڈر ہے کہ اچھی طرح یہ چیز مجھے یاد نہ رہی ہو۔مگر یہ کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ لوگ جہنم میں ڈالے جانے کے بعد پھر اس سے نکالے جائیں گے اور اس طرح نکلیں گے جیسا کہ آنبوس کی لکڑیاں (جل بھن کر) نکلتی ہیں پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو نکلیں گے ۔یہ سن کر ہم وہاں سے نکلے اور کہنے لگے ہلاکت ہو تمہارے (خارجیوں ) کے لئے کیا یہ شیخ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ سکتا ہے ۔(ہر گز ایسا نہیں ) چنانچہ ایک شخص کے علاوہ ہم سب خارجیوں کی بات سے پھر گئے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان

    صرف قرآن پر عقیدہ کا دعوی کرنے کی وجہ سے بعض عقائد کی باتوں کا وہ انکار کر رہے تھے جبکہ اصحاب رسول ان پر عقیدہ رکھتے تھے
    خوارج گمراہ تھے کافر نہیں

    آپ نے اپنی دانست سے قرآن کے لفظ ضال کو کفر کا مترادف سمجھ لیا ہے
    یہ آپ کی غلطی ہے ہر کافر مضل ہے لیکن ہر مضل ، کافر نہیں ہوتا

    Reply
  29. Islamic-Belief Post author

    خوارج اخبار احاد کا انکار کر کے گمراہ ہوئے تھے کافر نہیں تھے یعنی اس عقیدے پر نہیں رہے تھے جو اصحاب رسول کا تھا لیکن اصحاب رسول نے ان کی تکفیر نہیں کی اور مسلسل ان سے ڈائلاگ کرتے رہے
    خوارج کا اصحاب رسول کے عقائد کا کفر کر رہے تھے جن میں حوض کوثر ہے شفاعت رسول ہے اور رویت باری ہے

    آپ کا دعوی ہے
    ///
    بدعقیدہ شخص کو صرف گمراہ، بدعتی، فاسق و فاجر ہی نہیں کہا جاتا بلکہ اسکی واضح طور پر تکفیر کی جاتی ہے
    ///
    تو اس کی دلیل صحیح سند سے پیش کریں کہ اصحاب رسول نے خوارج کی تکفیر کی ہو

    ———-

    آپ کسی
    fantasy world
    میں زندہ ہیں

    امام بخاری اور عثمانی صاحب کا اپس کا کوئی مقابلہ ہے ہی نہیں
    امام بخاری محدث ہیں اور ڈاکٹر عثمانی محدث نہیں متکلم تھے ان دونوں کے منہج میں فرق ہے
    امام بخاری نے ٣٠٠٠ ہزار روایات کو صحیح کہا ہے ان کو عقائد کے باب میں بھی لکھا ہے اور صحیح میں ٩٠ فی صد اخبار احاد ہی ہیں
    یعنی امام بخاری اخبار احاد کو عقائد کے لئے پیش کر رہے ہیں جس پر مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہر ہوش مند پر یہ ظاہر ہے
    آپ نے کہا
    ////
    امام بخاری رحمهما الله کے متعلق یہ کہنا کہ یہ خبر واحد صحیح پر عقیدہ بنانے کے قائل تھے ان پر کھلا بہتان ہے
    ///
    بھائی تلبیس نہ کریں نہ آنکھوں میں دھول جھونکیں جا کر صحیح بخاری کھول کر دیکھیں
    امام بخاری کا جامع الصحیح کا مقصد کیا ہے ؟ کیا اس کا مقصد صحیح حدیث دینا نہیں تھا
    لیکن آپ کے بقول وہ ان احادیث پر خود ایمان نہیں رکھتے تھے جو ظاہر ہے کھلا جھوٹ ہے

    میں امام بخاری پر بھی جرح کروں گا اگر ان کی غلطی کو دیکھوں لیکن آپ میں یہ ہمت نہیں ہے
    بلکہ بخاری کا دفاع کرنے یہاں آئے ہیں

    افسوس اس میں آپ سخت پسپا ہوں گے کیونکہ ابھی میں اگر امام بخاری کی صحیح کا آپریشن کروں گا تو الله تعالی اپنے عرش پر مخلوق کی طرح مجسم ہو گا اور ایک انسان کی صورت لے گا
    اگر آپ نے عقل ہے تو اسماءو صفات کے حوالے سے بخاری کی لائی گئی احادیث بھی دیکھیں
    ————————–
    عثمانی صاحب نے اخبار احاد کا عقائد میں انکار نہیں کیا ہے
    تعویذ کے رد میں انہوں نے کوئی آیت نہیں لکھی اخبار احاد سے اس کو رد کیا ہے وہ بھی صرف عراق والوں کی احادیث کی بنیاد پر
    برزخی جسم کو اخبار احاد کی بنیاد پر پیش کیا ہے

    عثمانی صاحب نے یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ اخبار احاد پر عقیدہ نہیں رکھتے ؟ انہوں چلتے چلتے ایک جملہ لکھ دیا تھا کہ اصحاب حدیث کے ہان خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا یہ تو نہیں لکھا کہ وہ اس بات سے سراسر متفق ہیں؟ یہ جملہ فرقہ پرستوں کے لئے تھا کیونکہ ان میں سے بعض (نہ کہ تمام) اس کو اپنے اصول کے طور پر پیش کرتے ہیں اور آپ اس کو ان کا اصول سمجھ بیٹھے جو آپ کی نادانی ہے
    ————
    عثمانی صاحب کے لکھے کو الله کا کہا مت سمجھیں اس کو تنقیدی نگاہ سے پڑھنا سیکھیں

    سن لے جس نے نہیں سنا
    میں عثمانی صاحب پر بھی جرح کروں گا اگر ان کی غلطی دیکھوں
    ان کو طاغوت نہیں بناؤں گا

    Reply
  30. Islamic-Belief Post author

    خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا – اگر یہ قول انہوں نے سب کے لئے لکھا ہے تو یہ بات غلط ہے

    اول خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا یہ احناف میں سے ایک طبقے کا قول ہے
    دوم فرقہ اہل حدیث اور حنابلہ میں خبر واحد سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے نہ صرف صحیح سے بلکہ البانی کہتے ہیں حسن تک سے
    اور البانی ڈاکٹر عثمانی کے ہم عصر تھے
    یہ ڈاکٹر صاحب کی علم کی کمی ہوئی اگر انہوں نے یہ سب کے لئے لکھا

    میں اس کا قائل نہیں کہ ان میں علم کی کمی تھی – میرے نزدیک انہوں نے اس کو چلتے چلتے ہی فرقوں کے لئے لکھا ہے کہ دیکھو تمہارا اپنا اصول کہتا ہے کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا
    ———–

    ڈاکٹر عثمانی کا منہج متکلمین جیسا ہے نہ وہ موجودہ احناف جیسا ہے نہ حنابلہ جیسا
    تعویذ کو تو فرقے جب چاہتے ہیں قبول کرتے ہیں جب چاہتے ہیں رد کرتے ہیں

    قرآن کلام الله ہے غیر مخلوق ہے تو لکھ کر لٹکانے میں کوئی حرج نہیں یہ حنابلہ کا موقف رہا ہے اور اسی بنیاد پر قرآن کی قسم کھانا بھی ان کے نزدیک جائز ہے
    احناف متاخرین نے اس قول کو لیا ہے اور ان کے ہاں بھی تعویذ اسی بنیاد پر جائز ہے
    ڈاکٹر صاحب نے یہاں پر خبر واحد سے تعویز کو رد کیا ہے

    Reply
  31. Islamic-Belief Post author

    کیا احناف نے بھی چلتے چلتے یہ اصول بیان کیا ہے؟

    جواب
    اصول جو بیان کیا جاتا وہ یہ ہے کہ عقیدہ حدیث متواتر سے لیا جائے گا

    امام ابو حنیفہ یا امام ابو یوسف یا محمد کے دور تک تو یہ اصطلاحات تک وجود میں نہیں آئی تھیں کہ یہ حدیث متواتر یہ ہے خبر واحد یہ ہے

    امام محمد اور امام ابو یوسف نے فقہ میں اخبار احاد کو لیا ہے اور بعض اوقات کہتے ہیں یہ ہمارا موقف ہے یا یہ امام ابو حنیفہ کا موقف ہے
    جب وہ موقف کہتے ہیں اور حدیث میں عقیدہ کا بیان بھی ہو تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ اس حدیث کو صحیح سمجھ کر اس میں بیان کردہ عقیدہ کو بھی قبول کر رہے ہیں

    احناف میں بہت سے گروہ ہیں – کوئی ایک احناف نہیں ہیں – تصوف کے دلداہ احناف بھی ہیں – اس کو ناپسند کرنے والے بھی ہیں
    ان سب میں فقہ کے اصول بھی بدل رہے ہیں اور خبر احاد پر موقف بھی بدل جاتا ہے
    پاکستان کے حنفی تو اصلا صوفی ہیں یہ تو کشف تک سے عقائد ثابت کرتے ہیں
    وہ احناف جو شفاعت، رویت، حوض وغیرہ کی احادیث کو مانتے ہیں وہ پھر ایک دعوی کرتے ہیں کہ یہ متواتر ہیں
    لیکن اس دعوی کو تمام احناف قبول نہیں کرتے – احادیث الرویہ کا انکار احناف میں موجود ہے مثلا
    حسن بن علی السقاف کی اس پر تصنیف موجود ہے جو حنفی ہیں

    ======================
    یہ اصول کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا اصل میں مکمل بات نہیں ہے – فقہ حنفی میں جو اصل بات کہی گئی تھی وہ یہ تھی کہ امام ابوحنیفہ کا کہنا تھا کہ تین اصحاب رسول کی حدیث میں نہیں لوں گا – ایک ابو ہریرہ کی دوسری انس بن مالک کی اور تیسری جابر بن سمرہ کی
    اس کی انہوں نے الگ الگ وجوہات گنوائیں
    یہ قول ایک اصول کی صورت بنا دیا گیا کہ خبر واحد کو عقیدے میں نہ لیا جائے
    جب متعدد لوگ بیان کریں تو لیا جائے
    لیکن مسئلہ یہ آتا ہے کہ متواتر احادیث کی تعداد تو اٹے میں نمک کے برابر ہے
    لہذا یہ اصول صرف اس وقت بیان ہوتا ہے جب کسی عقیدے کو رد کرنا ہو
    سرسری انداز میں لکھ دیا جاتا ہے

    ڈاکٹر صاحب نے بھی اسی طرح لکھ دیا ہے جس طرح باقی حنفی لکھ دیتے ہیں

    لیکن اپنی کتب میں جا بجا اخبار احاد کو ڈاکٹر عثمانی نے عقیدہ پر پیش کیا ہے
    آپ ان کی کتب میں جو احادیث متواتر بیان ہوئیں ہیں وہ یہاں لکھ دیں

    Reply
  32. Islamic-Belief Post author

    کیا پوری دنیا کے ہر زمانے کے احناف ایک ہی اصول رکھتے ہیں ؟
    نہیں رکھتے
    ——–
    کیا حسن بن علی السقاف نے احادیث الرویہ کا انکار اس اصول پر کیا ہے کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا
    حسن نے ان روایات کے متواتر ہونے کا انکار کیا ہے یعنی ان کو اخبار احاد قرار دیا ہے اور اسرائیلایات کہا ہے
    حسن بن علی السقاف اس وقت احناف شام کے بہت مشہور عالم ہیں

    ————

    میں نے جو تفصیل لکھی ہے اس میں اس موقف کا ارتقاء ہے اور اس موقف کی خامی کا بھی ذکر ہے اور خود احناف کا اس موقف سے ہٹنا بھی بیان کر دیا ہے

    میں نے یہ کب لکھا ہے کہ پوری دنیا کے ہر زمانے کے احناف کا اتفاق ہے کہ خبر واحد صحیح تک سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا

    میں تو مسلسل اس کا رد کر رہا ہوں کہ یہ موقف اگر احناف میں سے کسی نے رکھا تو خود اس پر تمام احناف کا عمل نہیں ہے
    آپ عقیدہ طحاویہ دیکھ لیں احناف کے عقائد کی کتاب ہے اس میں عقائد میں عذاب قبر بھی شامل ہے

    ===============

    بہر حال اب مزید اس مسئلہ پر میں بات نہیں کرنا چاہتا اس لئے اس بحث کو یہاں پر بند کیا جا رہا ہے

    Reply
  33. Islamic-Belief Post author

    جب ان اجزاء کو عقائد میں بیان کیا جاتا ہے تو اہلسنت کی جانب سے ان کو تواتر قرار دیا جاتا ہے
    اہل سنت کا ان کا عقائد میں ہونے پر اجماع ہے

    اگر ہم مطلق انکار کریں گے تو ہم کافر نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی تفصیل قرآن میں نہیں ہے لیکن ہم پھر اس پر بھی نہیں ہوں گے جو اصحاب رسول کا مذھب بیان کیا جاتا ہے
    اغلبا یہی وجوہات ہیں کہ خوارج اور معتزلہ نے ان میں سے بعض کا انکار کیا، اہل سنت سے الگ ہوئے، لیکن اصحاب رسول یا اہل سنت نے ان کو کفار قرار نہیں دیا

    ————-

    پچھلے ڈیڑھ سو سال میں اہل سنت ہی میں اس حوالے سے اختلاف نظر آ رہا ہے
    اہل سنت میں سے بعض نزول مسیح کا انکار کر رہے ہیں
    رویت باری کا کر رہے ہیں
    شفاعت کا کر رہے ہیں

    اب اہل سنت کے علماء میں سے بھی بعض ان باتوں کا انکار کر رہے ہیں جبکہ ١٢٠٠ صدیوں میں اہل سنت میں سے کسی نے ان کا انکار نہیں کیا تھا
    ان لوگوں نے ان اجزاء کو اخبار احاد اور اسرائیلایات قرار دے دیا ہے
    اس وجہ سے اہل سنت کا موقف بدل رہا ہے ان کے علماء کا ایک قلیل گروہ ان عقائد سے برات کا اظہار کر رہا ہے
    ——-
    اس کی وجوہات میں سے یہ ہے کہ نزول مسیح یا رویت باری کی تمام روایتین صحیح نہیں لیکن یہ بھی نہیں کہ سب منکر و ضعیف ہیں
    لیکن جنہوں نے انکار کیا انہوں نے سب کا انکار کر دیا ایک کو بھی صحیح نہ چھوڑا –
    دوسری طرف روایت پسندوں نے سب کو صحیح قرار دے دیا – صحیح قرار دی جانے والی روایتوں میں جو اضطراب ہے اس کو انہوں نے عوام سے چھپا دیا اس پر بحث ہی نہیں کی
    ——–
    میرے نزدیک ان مسائل میں تمام روایات صحیح نہیں بعض صحیح ہیں بعض منکر ہیں

    Reply
  34. Islamic-Belief Post author

    خوارج اور معتزلہ ہماری ایجاد کردہ اصطلاحات یعنی خبر واحد یا تواتر سے اتفاق نہیں کرتے
    ———-
    میں نے لکھا ہے
    ////
    اہلسنت کی جانب سے ان عقائد پر تواتر قرار کیا جاتا ہے
    اہل سنت کا ان کا عقائد میں ہونے پر اجماع ہے
    ////

    ———–

    آپ کو شاید سمجھ نہیں آیا کہ مسئلہ عذاب قبر متواتر احادیث سے معلوم ہے – عذاب قبر کا انکار اہل سنت نہیں کرتے
    لیکن اس کے حوالے سے کسی ایک حدیث کو کہنا کہ یہ خبر واحد ہے
    اس مسئلہ کے تواتر کا انکار نہیں ہے
    پھر عود روح کا انکار کرنے سے جو خلا پیدا ہوا اس کو اخبار احاد کی برزخی جسم کی خبروں سے عثمانی صاحب نے پر کیا ہے

    آپ نے کہا
    ///
    خبر واحدصحیح تک سے عمل تو ثابت ہوتا ہے عقیدہ نہیں”
    ///
    پھر وہی مرغی کی ایک تانگ
    برزخی جسم کیا عقیدہ کا حصہ نہیں – کم از کم میرا عقیدہ اسی سمرہ بن جندب والی حدیث پر ہے جس کو عثمانی صاحب نے خود بھی پیش کیا ہے – آپ کی متناقص بات ہے کہ اس خبر واحد کا انکار کر دیا جائے
    ابراہیم کو دودھ پلانے والی روایت کا انکار کر دیا جائے
    عمرو بن الحی کی آنتوں والی حدیث کا انکار کر دیا جائے

    تو ہم ایسا نہیں کرتے – ہم خبر واحد کو بھی لے رہے ہیں اور متواتر کو بھی مان رہے ہیں
    عثمانی صاحب نے بھی مانا ہے کتاب لکھ کر اس کی تبلیغ کی ہے

    ہم نے مانا کہ خبر واحد صحیح کا انکار کرنے والے کی تکفیر نہیں کی جائےگی۔ یعنی برزخی جسم کے منکر کو کافر نہیں کہا جائے گا
    لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس جسم نے منکر ہیں ہم اس پر ہی عقیدہ رکھتے ہیں
    لیکن ہم اس کو اپنے عقیدے کی تفصیل میں لاتے ہیں
    جب تفصیل ہوتی ہے تو جزیات پر اختلاف ہوتا ہے اس میں ایک دوسرے پر کفر کا فیوی نہیں دیا جاتا

    —————
    لہذا آپ نے جو سمجھا
    ///
    _ اب لامحالہ ڈاکٹرعثمانی و امام بخاری رحمہمالله جو خبر واحد کو قبول کررہے ہیں تواتر کی حیثیت سے تو ھرگز نہیں کررہے
    ///
    یہ سب آپ نے غلط سمجھا – عذاب قبر کی کچھ روایات متواتر ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں
    لیکن اخبار احاد بھی ہیں

    ———
    اپ نے جو کہا
    ///
    آپ کا امام بخاری رح پر اعتراض ہے کہ وہ خبر واحد سے بھی عقیدہ لیتے ہیں یقینا” آپ کا امام بخاری کے متعلق یہ کمنٹ انکی منقبت میں تو نہیں بلکہ تنقیص پر محمول ہے۔
    ///

    امام بخاری کا دفاع کرنا میرا مذھب نہیں ہے
    انہوں نے ان روایات تک کو صحیح کہا ہے جن کو امام مالک نے رد کرنے کا حکم دیا
    ان کو انہوں نے صحیح میں لکھا ہے لہذا ان پر اور انکی لائی گئی روایات پر میں تنقید کرتا رہوں گا

    آپ بخاری کا دفاع کر رہے ہیں لیکن آپ کو معلوم ہی نہیں کہ امام صاحب اہل رائے میں سے نہیں ہیں
    امام بخاری اہل رائے یعنی حدیث کی تاویل کرنے والوں سے سخت متنفر تھے
    بلا وجہ دو مختلف خیال لوگوں کو ملا دینے کا کوئی فائدہ نہیں علمی طور پر اس کی کوئی دلیل بھی نہیں
    آپ ثابت کریں کہ امام بخاری خبر واحد پر عقیدہ نہیں لیتے تھے – یہ آپ قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے
    دوسری طرف صحیح کی ٣٠٠٠ ہزار روایات آپ کا منہ چڑھانے کے لئے کافی ہیں
    امام بخاری کی کتاب خلق افعالالعباد آپ پڑھیں اس میں جا بجا خبر واحد سے عقیدہ کا اثبات کیا گیا ہے

    آنکھوں میں دھول کسی اور کے جا کر جھونکیں کہ امام بخاری خبر واحد پر عقیدہ نہیں لیتے تھے -وہ لیتے تھے یہ سب کتابیں پکار رہی ہیں
    امام بخاری محدث ہیں کوئی حنفی نہیں جو خبر واحد سے عقیدہ نہ لو کی بات کرتے
    ——–

    میں اس میں آپ پر افسوس ہی کر سکتا ہوں کہ (عثمانی صاحب کے چند جملوں پر اپنی غلط سمجھ بوجھ کی وجہ سے ) آپ اپنی جان نا حق ان باتوں میں صرف کر رہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں

    Reply
  35. Islamic-Belief Post author

    امام بخاری صحیح قرار دی گئی احادیث پر کیا سوچتے تھے کیا نہیں مجھ کو معلوم نہیں ہے
    اس پر میں بات کر چکا ہوں
    جو معلوم ہے وہ یہ کہ انہوں نے واضح نہیں کیاکہ عذاب لاش کو ہے یا روح کو
    اس بات کو ابن حجر نے خود بیان کیا ہے جو مردے پر عذاب کا قائل ہے
    —————-
    آپ نے کہا
    ///
    میں برزخی جسم اور عالم برزخ کی برزخی قبر کو مانتا ہوں آپ بلادلیل متعدد بار مجھے برزخی جسم کا منکر قرار دے کر قارئین کو مغالطہ دے رہے ہیں
    ///
    یہ آپ کا کہنا ہے
    ////
    دوسری بات برزخی جسم کو ڈاکٹر صاحب رح نے بطور عقیدہ نہیں مانا ہے اور نہ منوایا کیونکہ ان کے خبر واحد صحیح سے عقیدہ نہیں بنتا۔
    https://www.islamic-belief.net/wp-admin/comment.php?action=editcomment&c=13993
    ///

    آپ نے کہا ڈاکٹر صاحب نے اس کو عقیدہ نہیں منوایا پھر آپ نے کہا یہ اخبار احاد ہیں ان سے عقیدہ ثابت نہیں ہو گا احادیث کو ظنی طور پر مانا جانے گا
    یہ سب آپ نے کہا ہے کہ نہیں ؟ اب آپ نے خود برزخی جسم پر اپنا عقیدہ واپس اب اخبار احاد کی بنیاد پر رکھا ہے

    چلیں برزخی جسم پر اپ کا ایمان آیا تو آپ واپس اخبار احاد کو عقیدہ میں تسلیم کرنے لگے
    میرا اس پر اختلاف ختم ہوا
    و للہ الحمد
    ———–

    ڈاکٹرعثمانی صاحب اور امام بخاری رحمه الله کی کوئی غلطی بیان کرنا ان کی تنقیص نہیں
    یہ دونوں معصوم عن الخطا نہیں ہیں
    علماء کی ہر وقت تعریف کرنا ان کی غلطی کو چھپانا -یہ باتیں ہم کو زیبا نہیں دیتیں جب ہم تقلید کے خلاف بات کرتے ہوں

    ان کی صحیح قرار دی گئی کسی حدیث کو منکر کہنا امام بخاری کے اجتہاد کا رد ہے – جس کو جو علم آیا اس نے اس حساب سے کہا

    Reply
  36. Islamic-Belief Post author

    آپ نے کہا
    ///
    میں نے برزخی جسم کو عقیدے کی حیثیت سے نہیں مانا خبر واحد کی حیثیت سے مانا ہے
    ///
    تو آپ کا ایمان ان احادیث پر نہیں ہیں جن میں برزخی جسم کا ذکر ہے یعنی آپ سمرہ بن جندب کی حدیث کو عقیدہ نہیں سمجھتے – خبر واحد سے ہمارے نزدیک عقیدہ ثابت ہوتا ہے آپ کے نزدیک عمل
    اور یہ معاملہ عمل کا نہیں ہے لہذا آپ اس کے اصلا منکر ہی ہیں
    جہاں موقعہ دیکھا آپ برزخی جسم کا انکار کریں گے
    آپ خبر واحد کو عقائد نہیں مانتے – تو اس پر مزید بحث بے کار ہے

    ———–
    امام بخاری تو خبر واحد کو عقائد میں بیان کرتے ہیں جو آپ کے اصول کے خلاف ہے
    لہذا اب آپ ان کی بات ہی نہ کریں
    امام بخاری و مسلم نے جن احادیث کو صحیح قرار دیا ہے اس کو انہوں نے عقیدہ میں بھی بیان کیا ہے لیکن بعض
    باتوں میں ابہام ہے

    امام بخاری حیات فی القبر کے قائل تھے یہ ثابت نہیں ہوا ہے – امام بخاری صحیح قرار دی گئی احادیث پر کیا سوچتے تھے کیا نہیں مجھ کو معلوم نہیں ہے – اس پر میں بات کر چکا ہوں – جو معلوم ہے وہ یہ کہ انہوں نے واضح نہیں کیاکہ عذاب لاش کو ہے یا روح کو
    اس بات کو ابن حجر نے خود بیان کیا ہے جو مردے پر عذاب کا قائل ہے

    کیا امام مسلم نے صحیح میں یہ روایت نہیں کیا کہ
    وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا»،
    لیکن عثمانی صاحب نے اس پر توقف کیا ہے امام مسلم پر فتوی نہیں دیا
    امام مسلم پر انہوں نے توقف کیا ہے کیونکہ امام مسلم نے خود میت کے دیکھنے کا انکار والی ابو سلمہ رضی اللہ عنہ والی روایت کو بھی بیان کیا ہے
    یعنی اس میں ابہام آ گیا کہ امام مسلم کا اصل عقیدہ کیا ہے جب تک بات واضح نہ ہو محدث پر کفر کا فتوی نہیں دیا جائے گا

    محدثین بشمول امام احمد پر بھی صرف روایت حدیث کرنے کی بنا پر فتوی نہیں لگتا جب تک وہ کسی چیز کو عقیدہ قرار نہ دیں
    احمد نے مسدد کو خط میں عود روح کو عقیدہ کہا ہے صرف اس بنا پر ان پر فتوی لگتا ہے
    یہ بات آپ سمجھ لیں

    میں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا ہے
    =================================================================================
    اب اس بحث کو یہاں بند کیا جا رہا ہے

    Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *