ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ کعبہ کو خراب کرے گا

ایک حدیث میں ہے کہ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ   کعبہ کو خراب کرے گا اس کا کیا مطلب ہے ؟

جواب

یہ روایت عبد الله بن عمرو اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما کی سند سے المُعْجَمُ الكَبِير للطبراني ، مسند البزار، سنن أبي داود  آئی ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ، فَيَسْلُبُهَا حُلِيَّهَا وَيُجَرِّدُهَا مِنْ كِسْوَتِهَا، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ أُصَيْلِعَ أُفَيْدِعَ، يَضْرِبُ عَلَيْهَا بِمِسْحَاتِهِ وَمِعْوَلِهِ “

عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کو (دو پتلی پنڈلیوں یا) دو چادروں والا حبشہ میں سے خراب کرے گا اس کی نمائش کو لے گا اور اس کے غلاف کو گویا کہ میں اس کو دیکھ رہا ہوں

اس راویت کا ترجمہ کیا جاتا ہے دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی

النهاية في غريب الحديث والأثر از ابن الأثير (المتوفى: 606هـ) کے مطابق

السُّوَيْقَة تصْغيرُ السَّاقِ، وَهِيَ مُؤَنثة، فَلِذَلِكَ ظَهَرت التاءُ فِي تصْغيرها. وَإِنَّمَا صَغَّر السَّاقَ لِأَنَّ الغالبَ عَلَى سُوقِ الحبَشة الدِّقَّةُ والحُموشَة.

السُّوَيْقَة (کا لفظ) السَّاقِ کی تصغیر ہے اور یہ مونث ہے اس لئے اس کے ساتھ التاءُ ہے تاکہ تصغیر ہو اور یہ پنڈلی کا چھوٹا ہونا ہے کہ اکثر حبشیوں کی پنڈلیاں کم ہوتی ہیں

ابن حبان صحیح میں لکھتے ہیں السويقتين: الكسائين  یعنی دو چادروں والا

مُجَاهِدٍ کا  عبد الله بن عمرو  سماع سے ثابت نہیں ہے – کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از   العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

واختلف في روايته عن عبد الله بن عمرو فقيل لم يسمع منه قلت أخرج له البخاري عنه حديثين

اور مجاہد کا عبد الله بن عمرو سے روایت کرنے میں اختلاف ہے کہا جاتا ہے انہوں نے ان سے نہیں سنا میں کہتا ہوں اس سے بخاری نے دو حدیثیں لی ہیں

سنن أبي داود میں یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی ہے

حدَّثنا القاسِمُ بن أحمد البغداديُّ، حدَّثنا أبو عامرِ، عن   زُهير ابن محمدٍ، عن موسى بنِ جُبير، عن أبي أمامة بن سهل بن حُنيفٍ عن عبد الله بن عمرو، عن النبي – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “اتركوا الحبشةَ ما تركوكم، فإنه لا يستخرِجُ كَنزَ الكعبةِ إلاَّ ذو السُّوَيْقَتَينِ من الحبشة”

عبد الله بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا حبشیوں کو چھوڑ دو جو انہوں نے چھوڑ

دیا ہے  کیونکہ   کعبه کا خزانہ کوئی نہیں نکالے گا سوائے دو پتلی پنڈلیوں ( یا دو چادروں)  والے کے

 مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے جس میں کعبہ کے خزانے کا ذکر ہے لیکن اسکی سند میں صَالِحٍ، مَوْلَى التَّوْأَمَةِ ابو ہریرہ کا قول نقل کرتا ہے کہ اس کو گمان ہے یہ حدیث ہے

عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ صَالِحٍ، مَوْلَى التَّوْأَمَةِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ رَفَعَهُ أَظُنُّهُ قَالَ: «اتْرُكُوا الْحَبَشَةَ مَا تَرَكُوا، فَإِنَّهُ لَا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ إِلَّا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ»

روایت متنا صحیح نہیں ہے- کعبه کا خزانہ نکل چکا ہے لٹ چکا ہے اور یہ واقعہ فتنہ الافطس کہلاتا ہے

کعبہ کے اندر ایک گڑھا تھا  جس میں  تحفے میں ملنے والا سونا ڈالا جاتا تھا اور یہ روایت زمانہ جاہلیت سے چلی آ رہی تھی

تاریخ ابن خلدون ج١ ص  ١٩٨ کے مطابق

وقد وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افتتح مكة في الجب الذي كان فيها، سبعين ألف أوقية من الذهب، مما كان الملوك يهدون للبيت قيمتها ألف ألف دينار مكررة مرتين بمائتي قنطار وزناً

جس روز فتح مکہ ہوئی تو رسول الله کو کعبہ میں اس کے  الجب   (گڑھے) سے جو اس میں ہے   ستر ہزار  أوقية  سونا ملا جو بادشاہوں نے   بیت الله کے لئے تحفتا دیا تھا جس کی قیمت  ہزار ہزار دینار مکرر دو دفعہ،      سو قنطار وزن کے حساب سے  تھی

صحیح مسلم کی حدیث ہے

حَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مَخْرَمَةَ ح وَحَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِى بَكْرِ بْنِ أَبِى قُحَافَةَ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ – أَوْ قَالَ بِكُفْرٍ – لأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالأَرْضِ وَلأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ

عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا   کہ  اگر تمہاری قوم عہد جاہلیت کے قریب نہ ہوتی  یا کہا کفر کے   تو میں  کعبہ کا خزانہ  الله کی راہ میں   صدقه کر دیتا    اور اس کا دروازہ زمین کے پاس کرتا کہ اس میں جانے کے لئے کوئی پتھر    (بطور سیڑھی کے) استعمال نہیں کرتا

نبی صلی الله علیہ وسلم نے کعبہ کے  خزانہ کو صدقه نہیں کیا اور یہ اسی میں سن ١٩٩ ھ تک  رہا- ابن خلدون  تاریخ میں لکھتے ہیں

وأقام ذلك المال إلى أن كانت فتنة الأفطس، وهو الحسن بن الحسين بن علي بن علي زين العابدين سنة تسع وتسعين ومائة، حين غلب على مكة عمد إلى الكعبة فأخذ ما في خزائنها وقال: ما تصنع الكعبة بهذا المال موضوعاً فيها لا ينتفع به، نحن أحق به نستعين به على، حربنا، وأخرجه وتصرف فيه وبطلت الذخيرة من الكعبة من يومئذ

اور یہ مال  ،  فتنة الأفطس  تک کعبہ ہی میں رہا   اور وہ فتنہ ہے  حسن بن حسین بن علی بن علی بن  زین العابدین کا سن ١٩٩ ھ میں ،جب وہ مکہ  پر وہ غالب ہوا اور  کعبہ کا خزانہ  نکالا اور کہا کعبہ اس مال کا کیا   کرے گا  جس کا کوئی فائدہ بھی نہیں، ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں  اس سے  اپنی لڑائی میں مدد چاہیں گے ، اس نے خزانہ نکالا اور اس زور کعبہ کا خزانہ  ضائع ہو گیا –

ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ  کی روایت الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے  اور ثور بن زيد الديلي عن سالم أبو الغيث مولى عبد الله بن مطيع العدوي   عَن أَبِي هُرَيرة  کی سند سے بہت کی کتب میں آئی ہے

لیکن اس کے متن میں صرف یہ ہے

يخرِّبُ الكعبةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ   منَ الحبَشةِ

کعبه کو حبشہ کا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ خراب کرے گا

یہ کب ہو گا ؟ کسی صحیح سند روایت میں وقت کا تعین نہیں ہے – مصنف عبد الرزاق ، مسند البزار  کی روایت  میں الفاظ ہیں فِي آخِرِ الزَّمَانِ یعنی آخری زمانہ میں یہ ہو گا لیکن  معمر مدلس ہیں اور ان  کا سماع الزہری سے ہر سند کے لئے  ثابت  نہیں  اگرچہ صحیح بخاری میں ان کی اس سند سے روایات ہیں لیکن یقینا معمر نے ان پر تحدث کا اشارہ دیا ہو گا – اس مخصوص روایت کو وہ ان کے الفاظ کے ساتھ عن سے ہی نقل کرتے ہیں لہذا یہ ثابت نہیں

مسند البزار کی ایک دوسری روایت میں ہے يظهر في آخر الزمان  جس میں اسکو أحمد بن أبان القُرَشيّ  نے بیان کیا ہے اور الفاظ زیادت ہیں – الفرائد على مجمع الزوائد ترجمة الرواة الذين لم يعرفهم الحافظ الهيثمي میں  الهيثمي  جیسے متساہل لوگ تک کہتے ہیں میں ان کو نہیں جانتا لہذا یہ مجھول راوی ہیں

کتاب أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار  از الأزرقي (المتوفى: 250هـ)  کے مطابق ابن زبیر نے کعبه کو منہدم  کرنے کا ارادہ کیا اس پر لوگوں میں اختلاف ہوا بعض کا کہنا تھا کہ یہ کرنے پر عذاب نازل ہو گا

وَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ هَدْمَهَا، وَكَانَ أَشَدَّهُمْ عَلَيْهِ إِبَاءً عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ

اور لوگوں کی اکثریت نے کعبہ کو منہدم کرنے سے انکار کیا جن میں سب سے زیادہ شدت عبد الله ابن عباس رضی الله عنہ نے ظاہر کی

لیکن ابن زبیر نے پھر بھی ارادہ  کیا اور  جب لوگ نہ ملے تو

وَأَرْقَى ابْنُ الزُّبَيْرِ فَوْقَهَا عَبِيدًا مِنَ الْحَبَشِ يَهْدِمُونَهَا؛ رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ صِفَةُ الْحَبَشِيِّ الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ»

اور اس کعبہ پر چڑھایا حبشہ کے غلاموں کو جو اس کو منہدم کر رہے تھے کہ ان میں وہی صفت تھی جس کا ذکر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کعبہ کو حبشہ کا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ خراب کرے گا

مجاہد جو اس روایت کو عبد اللہ بن عمرو سے منسوب کرتے تھے وہ کہتے ہیں جب کعبه منہدم کرنے کا اردہ  کیا جا رہا تھا تو

فَلَمَّا هَدَمَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْكَعْبَةَ جِئْتُ أَنْظُرُ، هَلْ أَرَى الصِّفَةَ الَّتِي قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو؟ فَلَمْ أَرَهَا، فَهَدَمُوهَا

ابن زبیر نے اس کو دیکھا لیکن ان  کو وہ صفت نظر نہ آئی جو عبد الله نے بیان کی تھی پس منہدم کیا گیا

یعنی مجاہد نے امیر المومنین  ابن زبیر رضی الله عنہ کی طرف داری کی اور اپنے استاد ابن عباس رضی الله عنہ  کی مخالفت کی

ابن عباس رضی الله عنہ کے ابن زبیر رضی الله عنہ سے اختلافات اسقدر بڑھے کہ انہوں نے طائف جا کر سکونت اختیار کی

2 thoughts on “ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ کعبہ کو خراب کرے گا

  1. وجاہت

    آپ نے یہ حدیث پیش کی اور اس کا ترجام یہ کیا

    صحیح مسلم کی حدیث ہے

    حَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مَخْرَمَةَ ح وَحَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِى بَكْرِ بْنِ أَبِى قُحَافَةَ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ – أَوْ قَالَ بِكُفْرٍ – لأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالأَرْضِ وَلأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ

    عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا کہ اگر تمہاری قوم عہد جاہلیت کے قریب نہ ہوتی یا کہا کفر کے تو میں کعبہ کا خزانہ الله کی راہ میں صدقه کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین کے پاس کرتا کہ اس میں جانے کے لئے کوئی پتھر (بطور سیڑھی کے) استعمال نہیں کرتا

    ———

    لیکن اس کا ترجمہ دوسری جگہوں پر یہ کیا گیا ہے جہاں آخرالفاظ کاترجمہ وہ نہیں جو آپ نے کیا ہے

    http://islamicurdubooks.com/Sahih-Muslim/hadith.php?vhadith_id=3280&zoom_highlight=%DA%A9%D8%B9%D8%A8%DB%81+%DA%A9%D8%A7+%D8%AE%D8%B2%D8%A7%D9%86%DB%81+%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87+%DA%A9%DB%8C+%D8%B1%D8%A7%DB%81+%D9%85%DB%8C%DA%BA+%D8%B5%D8%AF%D9%82%D9%87+%DA%A9%D8%B1+%D8%AF%DB%8C%D8%AA%D8%A7

    حدیث نمبر: 3243

    حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، عن مخرمة . ح وحدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني مخرمة بن بكير ، عن ابيه ، قال:‏‏‏‏ سمعت نافعا مولى ابن عمر، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ سمعت عبد الله بن ابي بكر بن ابي قحافة ، يحدث عبد الله بن عمر، ‏‏‏‏‏‏عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم انها قالت:‏‏‏‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ ” لولا ان قومك حديثو عهد بجاهلية، ‏‏‏‏‏‏او قال:‏‏‏‏ بكفر، ‏‏‏‏‏‏لانفقت كنز الكعبة في سبيل الله، ‏‏‏‏‏‏ولجعلت بابها بالارض، ‏‏‏‏‏‏ولادخلت فيها من الحجر “.
    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”کہ اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت کو نہ چھوڑی ہوتی یا کفر کو تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں صرف کر دیتا۔ (یعنی جہاد میں) اور اس میں دروازے زمین کے برابر بناتا اور حطیم کو کعبہ میں ملا دیتا۔“

    یہاں بھی

    http://www.hadithurdu.com/02/2-2-750/?s=+%DA%A9%D8%B9%D8%A8%DB%81+%DA%A9%D8%A7+%D8%AE%D8%B2%D8%A7%D9%86%DB%81++

    یہاں بھی

    http://mohaddis.com/View/Muslim/3243

    آپ نے ترجمہ کیا کہ

    اس کا دروازہ زمین کے پاس کرتا کہ اس میں جانے کے لئے کوئی پتھر (بطور سیڑھی کے) استعمال نہیں کرتا

    جبکہ دوسری جگہوں پر ترجمہ ہوا ہے کہ

    اس میں دروازے زمین کے برابر بناتا اور حطیم کو کعبہ میں ملا دیتا۔

    اصل ترجمہ کیا ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کتاب فتح المنعم شرح صحيح مسلم از ذ الدكتور موسى شاهين لاشين کے مطابق

      ولأدخلت فيها من الحجر) حجر إسماعيل هو المحاط بحائط قصير على هيئة نصف دائرة بجوار الكعبة،
      اور اس میں حجر میں سے شامل کرتا – حجر اسمعیل وہ دیوار ہے جو آدھے دائرے کی صورت کعبہ کے گرد ہے

      اس حساب سے روایت کا ترجمہ راقم کا درست نہیں ہے
      لیکن غور کریں

      مسند احمد میں ہے
      وَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ، بَابًا شَرْقِيًّا وَبَابًا غَرْبِيًّا، وَزِدْتُ فِيهَا مِنَ الْحَجَرِ سِتَّةَ أَذْرُعٍ
      اس کے دو دروازے کرتا ایک شرقی ایک غربی اور اس میں بڑھا دیتا حطیم میں سے چھ بازو

      یعنی حطیم میں چھ بازو کعبہ میں شامل کیا جاتا

      اخبار مکہ کی روایت ہے کہ ابن زبیر نے
      فِيهَا من الْحجر أَرْبَعَة أَذْرع

      اس میں چار بازو بڑھایا

      اغلبا مکمل حطیم کی بجآئے اس کا چھ بازو شامل کرنے کا ارادہ تھا لیکن ابن زبیر نے اس میں صرف ٤ تک کیا

      ============

      اب ایک بات جو سب پر بھاری ہے – بنو امیہ اس کو کرنے کے خلاف تھے کیونکہ وہ قرآن میں پاتے تھے
      جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ

      الله نے اپنے گھر کو کعبہ کہا ہے

      یعنی مکعب عمارت- کعبه مطلب
      کیوب
      Cube

      اگر اصل کعبہ مستطیل تھا تو اللہ تعالی نے اس کو کعبہ کیوں کہا؟

      کیونکہ کعبہ کو بیت الله ابراہیم علیہ السلام کے دور میں قرار دیا گیا جبکہ اس وقت یہ مستطیل تھا ؟

      یہ ابہام پیدا ہوتا ہے کہ اصل میں بات کیا تھی کیا ابن زبیر رضی الله عنہ صحیح یاد رکھ پائے جو کہا گیا ؟

      ——-

      دوسرا ابہام یہ ہے کہ کعبہ کا دروازہ ایام جاہلیت میں کیا حطیم میں تھا ؟

      دوسری میں اس سے الگ ہے کہ میں اس کا ایک شرقی اور ایک غربی دروازہ کرتا

      جو بات صحیح لگتی ہے وہ یہ ہے کہ کعبہ کا ایک شرقی دوازہ تھا جیسا آج ہے یہ ضروری تھا کتونکہ مندروں میں صبح پوجا پاٹ کے لئے روشنی چاہیے ہوتی تھی لہذا تمام مندروں میں جو مصر میں ہیں ان میں اور ہیکل سلیمانی میں بھی مشرقی دروازہ مین ڈور تھا

      حطیم میں دروازہ ہونے کی صورت میں دروازہ شمال میں بن جاتا ہے

      یہ اس روایت کا دوسرا بڑا ابہام ہے

      ========

      اس وجہ سے راقم نے اس میں الحجر سے مراد حطیم نہیں لیا بلکہ سیڑھی لی کہ اس کو اس میں شامل کر دیتا

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *